زمیں کی بدترین مخلوق وعدہ خلاف کفار ہیں زمین پر جتنے بھی چلتے پھرتے ہیں ان سب سے بد تر اللہ کے نزدیک بے ایمان کافر ہیں جو عہد کر کے توڑ دیتے ہیں ۔ ادھر قول و قرار کیا ادھر پھر گئے ، ادھر قسمیں کھائیں ادھر توڑ دیں ۔ نہ اللہ کا خوف نہ گناہ کا کھٹکا ۔ پس جو ان پر لڑائی میں غالب آجائے تو ایسی سزا کے بعد آنے والوں کو بھی عبرت حاصل ہو ۔ وہ بھی خوف زدہ ہو جائیں پھر ممکن ہے کہ اپنے ایسے کرتوت سے باز رہیں ۔
55۔ 1 شَرُّ النَّا سِ (لوگوں میں سب سے بدتر) کے بجائے انہیں شَرَّ الدَّ وَابِّ کہا گیا ہے۔ جو لغوی معنی کے لحاظ سے تو انسانوں اور چوپایوں وغیرہ سب پر بولا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس کا استعمال چوپایوں کے لئے ہوتا ہے۔ گویا کافروں کا تعلق انسانوں سے ہے ہی نہیں۔ کفر کا ارتکاب کرکے وہ جانور بلکہ جانوروں میں بھی سب سے بدتر جانور بن گئے ہیں۔
[٥٨] بدترین مخلوق کون ہے ؟ :۔ بدترین اس لحاظ سے کہ انہیں عقل اور تمیز کی قوت بخشی گئی ہے جو عام جانوروں کو عطا نہیں ہوئی۔ پھر اگر یہ لوگ ان قوتوں کے باوجود حق کو سمجھنے یا دیکھنے یا سننے کی زحمت ہی گوارا نہ کریں اور نہ حق پر ایمان لانے پر آمادہ ہوں تو یہ عام جانوروں سے بدتر ٹھہرے۔
اِنَّ شَرَّ الدَّوَاۗبِّ عِنْدَ اللّٰهِ : اوپر کی آیت میں جب تمام کفار کا یہ وصف بیان فرمایا کہ وہ ظالم ہیں تو اب یہاں کفار کی بعض خاص شرارتوں کا ذکر فرمایا۔ ” وَّهُمْ لَا يَتَّقُوْنَ “ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ سے نہیں ڈرتے، یا وہ اپنی بد عہدی کے انجام سے نہیں ڈرتے۔ ان سے مراد خاص طور پر مدینہ منورہ کے یہودی ہیں، جن سے مدینہ منورہ پہنچ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اچھے ہمسایوں کی طرح رہنے اور باہمی تعاون کا معاہدہ کیا تھا، لیکن اسلام کی بڑھتی ہوئی قوت انھیں ایک نظر نہ بھاتی تھی، چناچہ کبھی وہ اوس و خزرج کے درمیان جاہلی عصبیت ابھار کر ان کو آپس میں لڑانے کی کوشش کرتے اور کبھی اسلام کے دشمنوں کی ہتھیاروں سے مدد کر کے معاہدے کی بار بار خلاف ورزی کرتے اور جب ان سے کہا جاتا تو کہہ دیتے کہ ہمیں معاہدہ یاد نہیں رہا تھا، لیکن جونہی موقع ملتا پھر کوئی ایسی حرکت کر گزرتے جو معاہدے کے خلاف ہوتی، حتیٰ کہ اس معاہدے کے ہوتے ہوئے ان کا سردار کعب بن اشرف ( جو بدر میں قریش کی شکست سے انتہائی سیخ پا ہوا تھا) مکہ پہنچا اور وہاں مقتولین کفار بدر کے ہیجان انگیز مرثیے پڑھ کر قریش کے نوجوانوں کو مسلمانوں سے انتقام لینے کا جوش دلاتا رہا۔ ایسے ہی لوگ ہیں جنھیں ” شَرَّ الدَّوَاۗبِّ “ (بدترین جانور) فرمایا ہے۔ (ابن کثیر) یہاں انھیں ” شَرَّ النَّاسِ “ (سب لوگوں سے برے) کے بجائے ” شَرَّ الدَّوَاۗبِّ “ کہا گیا ہے، اگرچہ ” الدَّوَاۗبِّ “ میں انسان بھی آجاتے ہیں، کیونکہ وہ بھی چلتے پھرتے ہیں، مگر عام طور پر یہ لفظ انسان کے بجائے جانوروں پر بولا جاتا ہے، گویا کفر کی وجہ سے یہ لوگ انسانیت کے شرف سے محروم ہوچکے ہیں۔ دیکھیے سورة بینہ (٦) ، سورة اعراف (١٧٩) اور سورة فرقان (٤٤) ۔
اس کے بعد کی آیت میں انھیں کافروں کے بارے میں ارشاد فرمایا (آیت) اِنَّ شَرَّ الدَّوَاۗبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا اس میں لفظ دواب دابہ کی جمع ہے جس کے لغوی معنی زمین پر چلنے والے کے ہیں اس لئے انسان اور جتنے جانور زمین پر چلتے ہیں سب کو یہ لفظ شامل ہے مگر عام محاورات میں یہ لفظ خاص چوپائے جانوروں کے لئے بولا جاتا ہے۔ ان لوگوں کا حال بےشعوری میں جانوروں سے بھی زیادہ گرا ہوا تھا اس لئے اس لفظ سے تعبیر کیا گیا۔ معنی آیت کے واضح ہیں کہ تمام جانوروں اور انسانوں میں سب سے بدترین جانور یہ لوگ ہیں۔ آخر آیت میں فرمایا (آیت) فَهُمْ لَا يُؤ ْمِنُوْنَ ۔ یعنی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی خداداد استعداد و قابلیت کو ضائع کردیا، چوپائے جانوروں کی طرح کھانے پینے سونے جاگنے کو مقصد زندگی بنالیا، اس لئے ان کی رسائی ایمان تک نہیں ہوسکتی۔- حضرت سعید بن جبیر نے فرمایا کہ یہ آیت یہود کے چھ آدمیوں کے بارے میں آئی ہے جن کے متعلق حق تعالیٰ نے پیشگی خبر دے دی کہ یہ لوگ آخر تک ایمان نہیں لائیں گے۔ - نیز اس لفظ میں ان لوگوں کو عذاب سے مستثنی کرنا منظور ہے جو اگرچہ اس وقت کفار کے ساتھ لگے ہوئے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف جد و جہد میں مشغول ہیں مگر آئندہ کسی وقت اسلام قبول کرکے اپنی سابق غلط کاریوں سے توبہ کرلیں گے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ ان میں سے بہت بڑی جماعت مسلمان ہو کر نہ صرف خود صالح و متقی بن گئی بلکہ دنیا کے لئے مصلح اور تقوی کی داعی بن کر کھڑی ہوئی۔
اِنَّ شَرَّ الدَّوَاۗبِّ عِنْدَ اللہِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَہُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ٥٥ ۖۚ- شر - الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] - ( ش ر ر ) الشر وہ چیز ہے جس سے ہر ایک کراہت کرتا ہو جیسا کہ خیر اسے کہتے ہیں ۔ جو ہر ایک کو مرغوب ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] کہ مکان کس کا برا ہے ۔ - دب - الدَّبُّ والدَّبِيبُ : مشي خفیف، ويستعمل ذلک في الحیوان، وفي الحشرات أكثر، ويستعمل في الشّراب ويستعمل في كلّ حيوان وإن اختصّت في التّعارف بالفرس : وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود 6] - ( د ب ب ) دب - الدب والدبیب ( ض ) کے معنی آہستہ آہستہ چلنے اور رینگنے کے ہیں ۔ یہ لفظ حیوانات اور زیادہ نر حشرات الارض کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور شراب اور مگر ( لغۃ ) ہر حیوان یعنی ذی حیات چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود 6] اور زمین پر چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق خدا کے ذمے ہے ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔
(٥٥) یعنی بنوقریظہ وغیرہ خلقت اور اخلاق کے اعتبار سے بدترین خلائق ہیں یہ قرآن کریم اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کبھی بھی ایمان نہیں لائیں گے۔- شان نزول : (آیت) ان شر الدواب “۔ (الخ)- ابوالشیخ نے سعید بن جبیر (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت یہودیوں کی چھ جماعتوں کے متعلق نازل ہوئی ہے جن میں سے ’ ابن التابوت “۔ بھی ہیں۔
آیت ٥٥ (اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَہُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ )- یہی بات اس سے پہلے ہم سورة الاعراف کی آیت ١٧٩ میں بھی پڑھ چکے ہیں کہ یہ لوگ انسان نظر آتے ہیں ‘ حقیقت میں انسان نہیں ہیں : (لَہُمْ قُلُوْبٌ لاَّ یَفْقَہُوْنَ بِہَاز وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُوْنَ بِہَاز وَلَہُمْ اٰذَانٌ لاَّ یَسْمَعُوْنَ بِہَاط اولٰٓءِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ ط) یعنی حقیقت میں وہ لوگ چوپایوں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔ ان ہی لوگوں کو یہاں شَرَّ الدَّوَآب کہا گیا ہے ‘ کہ یہی وہ حیوان نماانسان ہیں جو تمام جانوروں سے برے ہیں۔ جو عقل ‘ شعور اور ایمان کی نعمتوں کے مقابلے میں کفر کی روش اختیار کر کے دنیا کی لذتوں پر ریجھ گئے ہیں۔
37: دیکھئے پیچھے آیت نمبر 22 کا حاشیہ