Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

56۔ 1 یہ کافروں ہی کی ایک عادت بیان کی گئی ہے کہ ہر بار نقص عہد کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس کے نتائج سے ذرا نہیں ڈرتے۔ بعض لوگوں نے اس سے یہودیوں کے قبیلے بنو قریظہ کو مراد لیا ہے، جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ معاہدہ تھا کہ وہ کافروں کی مدد نہیں کریں گے لیکن انہوں نے اس کی پاسداری نہیں کی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٩] میثاق مدینہ اور اس کی دفعات اور یہود قبائل کا اسے باری باری تسلیم کرنا :۔ انہی بدترین جانوروں میں بالخصوص وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اپنے عہد کو ہر بار توڑتے رہتے ہیں۔ یہاں ان لوگوں سے مراد مدینہ کے یہود ہیں۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو آپ نے مدینہ کے یہودیوں اور دوسرے مشرک قبائل سے معاہدات کی داغ بیل ڈالی جو بعد میں میثاق مدینہ کے نام سے مشہور ہوا۔ یہود سے آپ نے جو معاہدہ کیا اس کی اہم دفعات یہ تھیں۔- ١۔ مسلمان اور یہود آپس میں امن و آشتی سے رہیں گے۔ کوئی ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی نہیں کرے گا۔ ان کے تعلقات خیر خواہی اور فائدہ رسانی کی بنیاد پر ہوں گے۔- ٢۔ اگر مدینہ پر کوئی بیرونی حملہ ہوا تو مسلمان اور یہود دونوں مل کر اس کا دفاع کریں گے اور اخراجات بھی حصہ رسدی ادا کریں گے۔- ٣۔ یہود اپنے جھگڑوں کا اپنی شریعت کے مطابق خود ہی فیصلہ کریں گے۔ ہاں اگر وہ چاہیں تو اپنے مقدمات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس فیصلہ کے لیے لاسکتے ہیں۔ اس صورت میں آپ کا کیا ہوا فیصلہ ان پر نافذ العمل ہوگا۔- ٤۔ قریش اور ان کے مددگاروں کو پناہ نہیں دی جائے گی۔- ٥۔ کوئی آدمی اپنے حلیف کی وجہ سے مجرم نہ ٹھہرے گا۔- ٦۔ اس معاہدہ کے سارے شرکاء پر مدینہ میں ہنگامہ آرائی اور کشت وخون حرام ہوگا۔- ٧۔ اس معاہدہ کے فریقوں میں اگر کوئی جھگڑا ہوجائے تو اس کا فیصلہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کریں گے۔ (ابن ہشام ج اول ١ : ٥٠٣، ٥٠٤)- یہود کے تین قبائل مدینہ میں آباد تھے۔ تینوں نے اس معاہدہ کو باری باری تسلیم کرلیا۔ لیکن اپنی موروثی عادت کے مطابق بارہا اس معاہدہ کی خلاف ورزیاں کیں۔ انہوں نے اوس و خزرج کے درمیان دوبارہ عداوت ڈالنے کی کوششیں کیں۔ منافقوں کے ساتھ مل کر خفیہ اور معاندانہ سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ ایک مسلمان عورت بنو قینقاع کے بازار میں ایک سنار کے ہاں گئی تو اسے ان لوگوں نے ازراہ شرارت ننگا کردیا۔ جس پر فریقین میں بلوہ ہوگیا۔ غزوہ بدر کے بعد کعب بن اشرف خود مکہ گیا اور مشرکین مکہ کو مسلمانوں کے خلاف جنگ پر بھڑکایا۔ ایک دفعہ یہود نے آپ کو چھت سے پتھر گرا کر ہلاک کرنا چاہا۔ جنگ خیبر کے موقع پر آپ کو دعوت میں بکری کا گوشت کھلانے کی کوشش کی جس میں زہر ملا ہوا تھا۔ غرض ان کی بد عہدیاں اور عہد شکنیاں اور معاندانہ سرگرمیاں اتنی زیادہ ہیں جن کا بیان یہاں ممکن نہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تیسری آیت (آیت) اَلَّذِيْنَ عٰهَدْتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَهُمْ فِيْ كُلِّ مَرَّةٍ وَّهُمْ لَا يَتَّقُوْنَ ۔ یہ آیت یہود مدینہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے متعلق ہے۔ پچلی آیتوں میں مشرکین مکہ پر میدان بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں عذاب الہی نازل ہونے کا ذکر اور پچھلی امتوں کے کفار سے ان کی تمثیل کا بیان ہوا تھا۔ اس آیت میں اس ظالم جماعت کا ذکر ہے جو ہجرت مدینہ کے بعد مسلمانوں کے لئے مار آستین بنی اور جو ایک طرف مسلمانوں کے ساتھ صلح و آشتی کی دعویدار تھی دوسری طرف مشرکین مکہ کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتی تھی۔ یہ لوگ مذہبًا یہود تھے اور جس طرح مشرکین مکہ میں اسلام کے خلاف سب سے بڑا علمبردار ابوجہل تھا اسی طرح یہود مدینہ میں اس کا علمبردار کعب بن اشرف تھا۔- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں رونق افروز ہوئے، مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے اقتدار کو دیکھ کر یہ لوگ مرعوب تو ہوئے مگر دل میں اسلام دشمنی کی آگ ہمیشہ سلگتی رہتی تھی۔- اسلامی سیاست کا تقاضا تھا کہ جہاں تک ممکن ہو یہود مدینہ کو کسی نہ کسی معاہدہ کے تحت ساتھ لگایا جائے۔ تاکہ وہ مکہ والوں کو مدد نہ پہنچائیں۔ یہود بھی اپنی مرعوبیت کی بنا پر اسی کے خواہشمند تھے۔ - اسلامی سیاست کا پہلا قدم اسلامی قومیت :- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ طیبہ پہنچ کر اسلامی سیاست کی سب سے پہلی بنیاد اس کو بنایا کہ مہاجرین و انصار کی وطنی اور قومی عصبیتوں کو ختم کرکے ایک نئی قومیت اسلام کے نام پر قائم فرمائی مہاجرین و انصار کے مختلف قبائل کو آپس میں بھائی بھائی بنادیا۔ اور آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انصار کے باہمی اختلافات جو صدیوں سے چلے آرہے تھے سب کو دور فرما کر آپس میں بھی اور مہاجرین کے ساتھ بھی بھائی بنادیا۔- دوسرا قدم معاہدہ یہود :- اس سیاست کا دوسرا قدم یہ تھا کہ حریف مقابل دو تھے ایک مشرکین مکہ جن کی ایذاؤں نے مکہ چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ دوسرے یہود مدینہ جو اب مسلمانوں کے پڑوسی بن گئے تھے ان میں سے یہود کے ساتھ ایک معاہدہ کیا گیا۔ جس کا عہدنامہ مفصل لکھا گیا اس معاہدہ کی پابندی اطراف مدینہ کے سب یہودیوں پر اور اس طرف تمام مہاجرین و انصار پر عائد تھی۔ معاہدہ کا پورا متن البدایہ والنہایہ ابن کثیر میں اور سیرت ابن ہشام وغیرہ میں مفصل موجود ہے اس کا سب سے اہم جزء یہ تھا کہ باہمی اختلاف کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ سب کے لئے واجب التعمیل ہوگا، دوسرا جزء یہ تھا کہ یہود مدینہ مسلمانوں کے خلاف کسی دشمن کو ظاہرا یا باطنا کوئی امداد نہیں دیں گے۔ لیکن ان لوگوں نے غزوہ بدر کے وقت عہد شکنی کرکے مشرکین مکہ کو اسلحہ اور سامان جنگ سے مدد پہنچائی۔ مگر جب غزوہ بدر کا انجام مسلمانوں کی فتح مبین اور کفار کی ہزیمت و شکست کی صورت میں سامنے آیا تو پھر ان لوگوں پر رعب غالب ہوا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے حاضر ہو کر عذر کیا کہ اس مرتبہ ہم سے غلطی ہوگئی اس کو معاف فرما دیں آئندہ عہد شکنی نہیں کریں گے۔- آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسلامی حلم و کرم جو آپ کا شعار تھا اس کی بنا پر دوبارہ معاہدہ کی تجدید فرمالی۔ مگر یہ لوگ اپنی سرشت سے مجبور تھے غزوہ احد میں مسلمانوں کی ابتدائی شکست اور نقصان کا علم ہو کر ان کے حوصلے بڑھ گئے۔ اور ان کا سردار کعب بن اشرف خود سفر کرکے مکہ پہنچا اور مشرکین مکہ کو اس پر آمادہ کیا گیا کہ اب وہ پوری تیاری کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کریں اور یہود مدینہ ان کے ساتھ ہوں گے۔- یہ دوسری عہد شکنی تھی جو ان لوگوں نے اسلام کے خلاف کی۔ آیت مذکورہ میں اس بار بار کی عہد شکنی کا ذکر فرما کر ان لوگوں کی شرارت بیان کی گئی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن سے آپ نے معاہدہ کرلیا مگر یہ ہر مرتبہ اپنے عہد کو توڑتے رہے۔ آخر آیت میں ارشاد فرمایا وَّهُمْ لَا يَتَّقُوْنَ ۔ یعنی یہ لوگ ڈرتے نہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ یہ بدنصیب لوگ چونکہ ہوس دنیا میں مست وبے ہوش ہیں آخرت کی فکر ہی نہیں اس لئے آخرت کے عذاب سے نہیں ڈرتے۔ اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ایسے بدکردار عہد شکن لوگوں کا جو انجام بد اس دنیا میں ہوا کرتا ہے یہ لوگ اپنی غفلت و نادانی کی وجہ سے اس سے نہیں ڈرتے۔- پھر ساری دنیا نے آنکھوں سے دیکھ لیا کہ ان لوگوں نے اپنی اس بدکرداری کی سزا چکھی۔ ابو جہل کی طرح کعب بن اشرف مارا گیا، اور یہود مدینہ جلا وطن کئے گئے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَّذِيْنَ عٰہَدْتَّ مِنْہُمْ ثُمَّ يَنْقُضُوْنَ عَہْدَہُمْ فِيْ كُلِّ مَرَّۃٍ وَّہُمْ لَا يَتَّقُوْنَ۝ ٥٦- عهد - العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً.- قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] - ( ع ھ د ) العھد - ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔- نقض - النَّقْضُ : انْتِثَارُ العَقْدِ مِنَ البِنَاءِ والحَبْلِ ، والعِقْدِ ، وهو ضِدُّ الإِبْرَامِ ، يقال : نَقَضْتُ البِنَاءَ والحَبْلَ والعِقْدَ ، وقد انْتَقَضَ انْتِقَاضاً ، والنِّقْضُ المَنْقُوضُ ، وذلک في الشِّعْر أكثرُ ، والنَّقْضُ كَذَلِكَ ، وذلک في البِنَاء أكثرُ «2» ، ومنه قيل للبعیر المهزول : نِقْضٌ ، ومُنْتَقِض الأَرْضِ من الكَمْأَةِ نِقْضٌ ، ومن نَقْضِ الحَبْل والعِقْد استُعِيرَ نَقْضُ العَهْدِ. قال تعالی: الَّذِينَ عاهَدْتَ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ [ الأنفال 56] ، الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ [ البقرة 27] ، - ( ن ق ض ) النقض - یہ ابرام کی ضد ہے اور اس کے معنی کسی چیز کا شیزازہ بکھیرنے کے ہیں جیسے نقضت البناء عمارت کو ڈھانا الحبل رسی کے بل اتارنا العقد گرہ کھولنا النقج والنقض یہ دونوں بمعنی منقوض آتے ہیں لیکن بکسر النون زیادہ تر عمارت کے لئے آتا ہے اور بفتح النون کا عام استعمال اشعار کے متعلق ہوتا ہے اسی سے دبلے اونٹ اور زمین کی پرت کو جو کھمبی وغیرہ کے نکلنے سے پھٹ جاتی ہے نقض کہا جاتا ہے پھر نقض الحبل والعقد سے استعارہ کے طور پر عہد شکنی کے لئے بھی نقض کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں ۔ الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ [ البقرة 27] جو خدا کے اقرار کو ۔۔۔۔ توڑ دیتے ہیں ۔ اور جب پکی قسمیں کھاؤ تو ان کو نہ توڑو ۔ وَلا تَنْقُضُوا الْأَيْمانَ بَعْدَ تَوْكِيدِها[ النحل 91]- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٦) اب انکی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے کہ آپ بنوقریظہ سے بہت دفعہ مرتبہ وعہد لے چکے لیکن وہ ہر دفعہ بدعہدی کرتے ہیں اور اس چیز سے بالکل نہیں ڈرتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦ (اَلَّذِیْنَ عٰہَدْتَّ مِنْہُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَہْدَہُمْ فِیْ کُلِّ مَرَّۃٍ وَّہُمْ لاَ یَتَّقُوْنَ ) ۔- یہ اشارہ یہود مدینہ کی طرف ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آتے ہی یہودیوں سے مذاکرات شروع کیے اور نتیجتاً مدینہ کے تینوں یہودی قبائل سے شہر کے مشترکہ دفاع کا معاہدہ کرلیا۔ پروفیسر منٹگمری واٹ (١٩٠٩ ء تا ٢٠٠٦ ء) نے اس معاہدے کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک بہت بڑا مدبرانہ کارنامہ قرار دیا ہے۔ اس نے اس سلسلے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معاملہ فہمی اور سیاسی بصیرت کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ظاہری طور پر اگرچہ یہودی اس معاہدے کے پابند تھے مگر خفیہ طور پر مسلمانوں کے خلاف سازشوں سے بھی باز نہیں آتے تھے۔ انہوں نے ہر مشکل مرحلے پر اس معاہدے کا پاس نہ کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمنوں کے ساتھ ساز باز کی ‘ حتیٰ کہ غزوۂ احزاب کے انتہائی نازک موقع پر قریش کو خفیہ طور پر پیغامات بھجوائے کہ آپ لوگ باہر سے شہر پر حملہ کردیں ‘ ہم اندر سے تمہاری مدد کریں گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :41 یہاں خاص طور پر اشارہ ہے یہود کی طرف ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں تشریف لانے کے بعد سب سے پہلے انہی کے ساتھ حسن جوار اور باہمی تعاون و مددگاری کا معاہدہ کیا تھا اور اپنی حد تک پوری کوشش کی تھی کہ ان سے خوشگوار تعلقات قائم رہیں ۔ نیز دینی حیثیت سے بھی آپ یہود کو مشرکین کی بہ نسبت اپنے قریب تر سمجھتے تھے اور ہر معاملہ میں مشرکین کے بالمقابل اہل کتاب ہی کے طریقہ کو ترجیح دیتے تھے ۔ لیکن ان کے علماء اور مشائخ کو توحیدخالص اور اخلاق صالحہ کی وہ تبلیغ اور اعتقادی و عملی گمراہیوں پر وہ تنقید اور اقامت دین حق کی وہ سعی ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کر رہے تھے ، ایک آن نہ بھاتی تھی اور ان کی پیہم کوشش یہ تھی کہ یہ نئی تحریک کسی طرح کامیاب نہ ہونے پائے ۔ اسی مقصد کے لیے وہ مدینہ کے منافق مسلمانوں سے ساز باز کرتے تھے ۔ اسی کے لیے وہ اوس اور خَزرَج کے لوگوں میں ان پرانی عدادتوں کو بھڑکاتے تھے جو اسلام سے پہلے ان کے درمیان کشت و خون کی موجب ہوا کرتی تھیں ۔ اسی کے لیے قریش اور دوسرے مخالف اسلام قبیلوں سے ان کی خفیہ سازشیں چل رہی تھیں اور یہ حرکات اس معاہدہ دوستی کے باوجود ہو رہی تھیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے درمیان لکھا جا چکا تھا ۔ جب جنگ بدر واقع ہوئی تو ابتدا میں ان کو توقع تھی کہ قریش کی پہلی ہی چوٹ اس تحریک کا خاتمہ کر دے گی ۔ لیکن جب نتیجہ ان کی توقعات کے خلاف نکلا تو ان کے سینوں کی آتش حسد اور زیادہ بھڑک اُٹھی ۔ انہوں نے اس اندیشہ سے کہ بدر کی فتح کہیں اسلام کی طاقت کو ایک مستقل ”خطرہ“ نہ بنا دےاپنی مخالفانہ کوششوں کو تیز تر کر دیا ۔ حتٰی کہ ان کا ایک لیڈر کعب بن اشرف ( جو قریش کی شکست سنتے ہی چیخ اُٹھا تھا کہ آج زمین کا پیٹ ہمارے لیے اس کی پیٹھ سے بہتر ہے ) خود مکہ گیا اور وہاں سے اس نے ہیجان انگیز مرثیے کہہ کہہ کر قریش کو انتقام کا جوش دلا یا ۔ اس پر بھی ان لوگوں نے بس نہ کی ۔ یہودیوں کے قبیلہ بنی قینُقاع نے معاہدہ حسن جوار کے خلاف ان مسلمان عورتوں کو چھیڑنا شروع کیا جو ان کی بستی میں کسی کام سے جاتی تھیں ۔ اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس حرکت پر ملامت کی تو انہوں نے جواب میں دھمکی دی کہ” یہ قریش نباشد ، ہم لڑنے مرنے والے لوگ ہیں اور لڑنا جانتے ہیں ۔ ہمارے مقابلہ میں آؤ گے تب تمہیں پتہ چلے گا کہ مرد کیسے ہوتے ہیں ۔ “

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

38: اس سے مراد وہ یہودی ہیں جو مدینہ منورہ کے آس پاس آباد تھے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے معاہدہ فرمایا تھا کہ وہ اور مسلمان آپس میں امن کے ساتھ رہیں گے اور ایک دوسرے کے دشمن کا ساتھ نہیں دیں گے، یہودیوں نے بار بار اس عہد کی خلاف ورزی کی تھی اور خفیہ طور پر کفار مکہ کے ساتھ ساز باز کرتے رہتے تھے۔