Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

57۔ 1 شَرِّدْبِھِمْ کا مطلب ہے کہ ان کو ایسی مار مار کہ جس سے ان کے پیچھے، ان کے حمایتوں اور ساتھیوں میں بھگدڑ مچ جائے، حتٰی کہ وہ آپ کی طرف اس اندیشے سے رخ ہی نہ کریں کہ کہیں ان کا بھی وہی حشر نہ ہو جو ان کے پیش رؤوں کا ہوا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٠] یہود مدینہ کی لاف زنی اور بزدلی اور انجام :۔ یہود مسلمانوں سے معاہدہ امن و آشتی کے باوجود اپنی شرارتوں، فتنہ انگیزیوں اور عہد شکنیوں سے باز نہیں آتے تھے۔ بڑ مارنے اور شیخیاں بگھارنے میں بڑے ماہر تھے۔ مگر بزدل انتہا درجہ کے تھے غزوہ بدر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ ان کے بازار واقع محلہ بنو قینقاع میں تشریف لے گئے اور یہود کو جمع کر کے انہیں ان کی ایسی شر انگیز حرکتوں پر عار دلائی اور فرمایا کہ ایسے کاموں سے باز آجاؤ اور اسلام قبول کرلو تو تمہارے حق میں بہتر رہے گا۔ ورنہ تمہیں بھی ایسی ہی مار پڑے گی جیسی قریش مکہ کو پڑچکی ہے۔ اس دعوت کا انہوں نے انتہائی توہین آمیز جواب دیا اور کہنے لگے۔ تمہارا سابقہ قریش کے اناڑی لوگوں سے پڑا تھا اور تم نے میدان مار لیا۔ ہم سے پالا پڑا تو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوجائے گا۔ ان کا یہ جواب دراصل معاہدہ امن کو توڑنے اور اعلان جنگ کرنے کے مترادف تھا تاہم آپ نے صبر سے کام لیا۔ پھر انہی دنوں یہودیوں نے انصار کی ایک عورت کو ننگا کردیا جس پر مسلمانوں اور بنو قینقاع میں بلوہ ہوگیا۔ اب ان سے جنگ کرنے کے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ آپ لشکر لے کر ان کے ہاں جا پہنچے تو یہ جوانمردی کی ڈھینگیں مارنے والے اور قریش کو بزدلی کا طعنہ دینے والے یہود سامنے آنے کی جرأت ہی نہ کرسکے اور فوراً قلعہ بند ہوگئے۔ پندرہ دن تک قلعہ میں محصور رہنے کے بعد ہتھیار ڈال دیئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں قید کرنے کا حکم دیا۔ پھر عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین جس سے ان یہودیوں کی مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ ساز باز رہی، کی پرزور سفارش پر آپ نے انہیں قید معاف کردی اور جلاوطن کردیا اور یہ لوگ شام کو چلے گئے۔ اس کے بعد اسی طرح بنو نضیر جلاوطن ہوئے۔ پھر جنگ خندق کے بعد بنو قریظہ بھی قلعہ بند ہوئے جو بالآخر قتل کئے گئے اور بچے اور عورتیں غلام بنائے گئے۔ خیبر کے موقعہ پر بھی یہود قلعہ بند ہوگئے۔ غرض جب بھی لڑائی کا موقعہ پیش آیا تو ان یہود کو کھلے میدان میں مسلمانوں سے لڑنے کی کبھی جرأت ہی نہ ہوئی۔ حتیٰ کہ غزوہ احد اور غزوہ خندق کے موقعہ پر کفار کے ساتھ مل کر بھی انہیں کھلے میدان میں سامنے آنے کی جرأت ہی نہ ہوئی۔ یہ لوگ ہمیشہ سازشوں، شرارتوں، فتنہ انگیزیوں اور عہد شکنیوں سے ہی مسلمانوں کو پریشان کرتے رہے تاہم انہیں وہ سزا ملتی ہی رہی جو اس آیت میں مذکور ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ : ” تَشْرِیْدٌ“ کا معنی خوف پیدا کرنے کے ساتھ بھگدڑ مچا کر انھیں منتشر کرنا ہے، یعنی اگر کبھی لڑائی میں آپ انھیں کہیں پالیں تو انھیں بد عہدی کی ایسی سخت سزا دیں کہ ان کے پیچھے جو دوسرے ایسے کفار ہیں اور جن سے تمہارا معاہدہ ہے، وہ بھی مرعوب اور خوف زدہ ہوجائیں اور انھیں ایسی عبرت حاصل ہو کہ معاہدے کی خلاف ورزی کا نام تک نہ لیں۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اگرچہ اس سے پہلے یہود بنو نضیر اور بنو قینقاع کی جلاوطنی ہی پر اکتفا فرمایا تھا، مگر بنو قریظہ کی مسلسل بد عہدیوں اور عین خندق کے موقع پر معاہدہ توڑنے کے نتیجے میں انھیں ٢٥ دن کے محاصرے کے بعد انتہائی عبرت ناک سزا دی کہ ان کے تمام ٦٠٠ بالغ مردوں کو قتل کروا دیا، جن میں ایک جنگی مجرم عورت بھی تھی اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا۔ افسوس کہ اس وقت کفار، بھارت ہو یا امریکہ ویورپ، کوئی بھی مسلمانوں سے کیے ہوئے عہد کو پورا نہیں کر رہے، مگر مسلمان اپنی نا اہلی اور عیش و عشرت کی وجہ سے غیرت و حمیت کے اظہار کے بجائے ذلت اور بےبسی پر قناعت کر رہے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

چوتھی آیت میں حق تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان بد عہدوں کے بارے میں ایک ہدایت نامہ دیا جس کے الفاظ یہ ہیں :- (آیت) فَاِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَّنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ ، اس میں لفظ تَثْقَفَنَّهُمْ کے معنی ہیں ان پر قابو پانے کے اور شَرِّدْ مصدر تشرید سے بنا ہے جس کے اصلی معنی بھگا دینے اور منتشر کردینے کے ہیں معنی آیت کے یہ ہیں کہ اگر آپ کسی جنگ میں ان لوگوں پر قابو پالیں تو ان کو ایسی سخت دردناک سزا دیں جو دوسروں کے لئے عبرت ہوجائے ان کے پیچھے جو لوگ ان کے سہارے پر اسلام دشمنی میں لگے ہوئے ہیں وہ یہ سمجھ لیں کہ اب خیر اسی میں ہے کہ یہاں سے بھاگ کر اپنی جان بچائیں۔ مراد اس سے یہ ہے کہ ان کو ایسی سزا دی جائے جس کو دیکھ کر مشرکین مکہ اور دوسرے دشمن قبائل بھی متاثر ہوں اور آئندہ ان کو مسلمانوں کے مقابلہ میں آنے کی جرأت نہ رہے۔- آخر آیت میں لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ فرما کر رب العالمین کی رحمت عامہ کی طرف اشارہ کردیا کہ اس دردناک سزا کا اصلی مقصد بھی کوئی انتقام لینا یا اپنے غصہ کو فرو کرنا نہیں بلکہ انھیں کی یہ مصلحت ہے کہ شاید یہ صورت حال دیکھ کر یہ لوگ کچھ ہوش میں آجائیں اور اپنے کئے پر نادم ہو کر اپنی اصلاح کرلیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاِمَّا تَثْقَفَنَّہُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِہِمْ مَّنْ خَلْفَہُمْ لَعَلَّہُمْ يَذَّكَّرُوْنَ۝ ٥٧- ثقف - الثَّقْفُ : الحذق في إدراک الشیء وفعله، ومنه قيل : رجل ثَقِفٌ ، أي : حاذق في إدراک الشیء وفعله، ومنه استعیر : المُثَاقَفَة ورمح مُثَقَّف، أي : مقوّم، وما يُثَقَّفُ به : الثِّقَاف، ويقال : ثَقِفْتُ كذا : إذا أدركته ببصرک لحذق في النظر، ثم يتجوّز به فيستعمل في الإدراک وإن لم تکن معه ثِقَافَة . قال اللہ تعالی: وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ [ البقرة 191] ، وقال عزّ وجل : فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ [ الأنفال 57] ، وقال عزّ وجل : مَلْعُونِينَ أَيْنَما ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا [ الأحزاب 61] .- ( ث ق ف ) الثقف ( س ک ) کے معنی ہیں کسی چیز کے پالینے یا کسی کام کے کرنے میں حذا وقت اور مہارت سی کام لینا ۔ اسی سے المثاقفۃ کا لفظ مستعار ہے ( جس کے معنی ہتھیاروں کے ساتھ باہم کھیلنے کے ہیں اور سیدھے نیزے کو رمح مثقف کہا جاتا ہو ۔ اور الثقاف اس آلہ کو کہتے ہیں جس سے نیزوں کو سیدھا کیا جاتا ہے ثقفت کذا کے اصل معنی مہارت نظر سے کسی چیز کا نگاہ سے اور اک کرلینا کے ہیں ۔ پھر مجاذا محض کسی چیز کے پالینے پر بولا جاتا ہے خواہ اسکے ساتھ نگاہ کی مہارت شامل ہو یا نہ ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ [ البقرة 191] اور ان کو جہان پاؤ قتل کردو ۔ فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ [ الأنفال 57] اگر تم ان کو لڑائی میں پاؤ ۔ مَلْعُونِينَ أَيْنَما ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا [ الأحزاب 61] . پھٹکارے ہوئے جہاں پائے گئے پکڑے گئے ۔ اور جان سے مار ڈالے گئے ۔- حرب - الحَرْبُ معروف، والحَرَب : السّلب في الحرب ثم قد سمّي كل سلب حربا، قال : والحرب فيه الحرائب، وقال : والحرب مشتقة المعنی من الحرب وقد حُرِبَ فهو حَرِيب، أي : سلیب، والتّحریب : إثارة الحرب، ورجل مِحْرَب، كأنه آلة في الحرب، والحَرْبَة : آلة للحرب معروفة، وأصله الفعلة من الحرب أو من الحراب،- ( ح ر ب ) الحرب جنگ کا راز ۔ اور فتحۃ را کے ساتھ لڑائی میں کسی کا مال چھیننے کے ہیں پھر ہر قسم کے سب کے حرب کہاجاتا ہے اور حرب معنوی لحاظ سے حرب سے مشتق ہے کہا جاتا ہے ۔ حرب الرجل ان کا سامان چھین لیا گیا فھو حریب یعنی لٹا ہوا ۔ التحریب لڑائی کا بھڑکا نا ۔ رجل محرب جنگجو گویا وہ لڑائی بھڑکانے کا آلہ ہے ۔ الحربۃ بر چھا ۔ اصل میں یہ حرب یا حراب سے فعلۃ کے وزن پر ہے اور - شرد - شَرَدَ البعیر : ندّ ، وشَرَّدْتُ فلانا في البلاد، وشَرَّدْتُ به أي : فعلت به فعلة تُشَرِّدُ غيره أن يفعل فعله، کقولک : نكّلت به : أي : جعلت ما فعلت به نکالا لغیره . قال تعالی: فَشَرِّدْ بِهِمْ مَنْ خَلْفَهُمْ [ الأنفال 57] ، أي : اجعلهم نکالا لمن يعرض لک بعدهم، وقیل : فلان طرید شَرِيدٌ.- ( ش ر د ) شرد البعیر کے معنی ہیں اونٹ بدک کر بھاگ نکلا شردت فلانا فی البلاد میں نے شہروں میں بھگا دیا وشردت بہ یعنی میں نے اس سے ایسا برتاؤ کیا کہ اسے دیکھ کر دوسرے لوگ اس جیسا کام نہ کریں جیسے نکلت بہ کہ میں نے اسے دوسروں کے لئے عبرت بنا دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَنْ خَلْفَهُمْ [ الأنفال 57] تو انہیں ایسی سزا دو کہ جو لوگ ان کے پس پشت ہوں وہ ان کو دیکھ کر بھاگ جائیں ۔ مشہور محاورہ ہے ۔ فلان طرید شرید فلاں راندہ درگاہ ہے ۔- خلف ( پیچھے )- خَلْفُ : ضدّ القُدَّام، قال تعالی: يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] ، وقال تعالی: لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11]- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- یہ قدام کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] جو کچھ ان کے روبرو ہو راہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11] اس کے آگے پیچھے خدا کے جو کیدار ہیں ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

دشمن پر ضرب کاری کی ضرورت ہے - قول باری ہے (فاما ثقفنھم فی الحرب فشرد بھم من خلفھم۔ پس گر یہ لوگ تمہیں لڑائی میں مل جائیں تو ان کی ایسی خبر لو کہ ان کے بعد جو دوسرے لوگ ایسی روش اختیار کرنے والے ہوں ان کے حواس باختہ ہوجائیں) تثقفھم کے معنی تصادفھم کے ہیں یعنی تمہیں مل جائیں۔ حسن، قتادہ اور سعید بن جبیر نے (فشردبھم من خلفھمض کی تفسیر میں کہا ہے کہ جب تم انہیں گرفتار کرلو تو انہیں ایسی سزا دو کہ اس کے خوف سے دوسرے ناقضین عہد (معاہدہ کی خلاف ورزی کرنے والوں) کے ہوش ٹھکانے آ جائیں۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ انہیں اس طرح تہہ تیغ کرو جو لوگ ان کے پیچھے رہ کر تمہارے خلاف جنگ کرنے میں ان کی مدد کرتے رہتے ہیں وہ سب ان کا ساٹھ چھوڑ کر بھاگ جائیں اور ان کی مدد سے دست بردار ہوجائیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے مرتدین کے خلاف جو سخت رویہ اختیار یکا تھا کہ انہیں تہ تیغ کردیا جائے، انہیں آگ میں ڈال کر جلا دیا جائے، پہاڑوں سے نیچے پھینک دیا جائے اور کنووں میں گرا دیا جائے۔ اس اقدام کے لئے آپ نے اسی آیت کی طرف رجوع کیا تھا کہ مرتدین کی قوت کو اس طرح پارہ پارہ کردیا جائے اور انہیں اس طرح بکھیر دیا جائے کہ پھر وہ کبھی بھی مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لئے ایک دوسرے کی مدد کرنے اور یک جا ہونے کے قابل نہ ہو سکیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٧) آپ ان کو قید کرکے جلاوطن کردیجیے تاکہ دوسرے لوگوں کو عبرت ہو اور اس سے نصیحت حاصل کرکے بدعہدی چھوڑ دیں ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ (فَاِمَّا تَثْقَفَنَّہُمْ فِی الْْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِہِمْ مَّنْ خَلْفَہُمْ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّرُوْنَ ) ۔- یہ یہودی آپ لوگوں کے خلاف کفار مکہ کے ساتھ مل کر خفیہ طور پر سازشیں تو ہر وقت کرتے ہی رہتے ہیں ‘ لیکن اگر ان میں سے کچھ لوگ میدان جنگ میں بھی پکڑے جائیں کہ وہ قریش کی طرف سے جنگ میں شریک ہوئے ہوں تو ایسی صورت میں ان کو ایسی عبرت ناک سزا دو کہ قریش مکہ جو پیچھے بیٹھ کر ان کی ڈوریں ہلا رہے ہیں اور ان سازشوں کی منصوبہ بندیاں کر رہے ہیں ان کے ہوش بھی ٹھکانے آجائیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :42 اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی قوم سے ہمارا معاہدہ ہو اور پھر وہ اپنی معاہدانہ ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر ہمارے خلاف کسی جنگ میں حصہ لے ، تو ہم بھی معاہدے کی اخلاقی ذمہ داریوں سے سُبک دوش ہو جائیں گے اور ہمیں حق ہوگا کہ اس سے جنگ کریں ۔ نیز اگر کسی قوم سے ہماری لڑائی ہو رہی ہو اور ہم دیکھیں کہ دشمن کے ساتھ ایک ایسی قوم کے افراد بھی شریک جنگ ہیں جس سے ہمارا معاہدہ ہے ، تو ہم ان کو قتل کرنے اور ان سے دشمن کا سا معاملہ کرنے میں ہرگز کوئی تامل نہ کریں گے ، کیونکہ انہوں نے اپنی انفرادی حیثیت میں اپنی قوم کے معاہدے کی خلاف ورزی کرکے اپنے آپ کو اس کا مستحق نہیں رہنے دیا ہے کہ ان کی جان و مال کے معاملہ میں اس معاہدے کا احترام ملحوظ رکھا جائے جو ہمارے اور ان کی قوم کے درمیان ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

39: مطلب یہ ہے کہ اگر وہ کسی جنگ میں کھل کر مسلمانوں کے مقابلے پر آجائیں تو انہیں ایسا سبق سکھایا جائے کہ نہ صرف ان کو بد عہدی کے انجام کا پتہ لگ جائے بلکہ جو کفار مکہ ان کو پیچھے سے اکساتے رہتے ہیں ان کو بھی ایسی عبرت ہو کہ ان کے منصوبے تتر بتر ہو کر رہ جائیں۔