یہ سورت سب سے آخر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اتری ہے بخاری شریف میں ہے سب سے آخر ( آیت یسفتونک الخ ، ) اتری اور سب سے آخری سورت سورہ براۃ اتری ہے ۔ اس کے شروع میں بسم اللہ نہ ہو نے کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ نے امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی اقتدا کر کے اسے قرآن میں لکھا نہیں تھا ۔ ترمذی شریف میں ہے کہ حضرت ابن عباس نے حضرت عثمان سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے آپ نے سورہ انفال کو جو مثانی میں سے ہے اور سورہ براۃ کو جو مئین میں سے ہے ملا دیا اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی اور پہلے کی سات لمبی سورتوں میں انہیں رکھیں؟ آپ نے جواب دیا کہ بسا اوقات حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ساتھ کوئی سورتیں اترتی تھیں ۔ جب آیت اترتی آپ وحی کے لکھنے والوں میں سے کسی کو بلا کر فرما دیتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں لکھ دو جس میں یہ یہ ذکر ہے ۔ سورۃ انفال مدینہ شریف میں سب سے پہلے نازل ہوئی اور سورہ براۃ سب سے آخر میں اتری تھی بیانات دونوں کے ملتے جلتے تھے مجھے ڈر لگا کہ کہیں یہ بھی اسی میں سے نہ ہو حضور صلی اللہ علیہ کا انتقال ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے نہیں فرمایا کہ یہ اس میں سے ہے اس لیے میں نے دونوں سورتیں متصل لکھیں اور انکے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھیں اور سات پہلی لمبی سورتوں میں انہیں رکھا ۔ اس سورت کا ابتدائی حصہ اس وقت اترا جب آپ غزوہ تبوک سے واپس آرہے تھے ۔ حج کا زمانہ تھا مشرکین اپنی عادت کے مطابق حج میں آکر بیت اللہ شریف کا طواف ننگے ہو کر کیا کرتے تھے ۔ آپ نے ان میں خلا ملا ہونا ناپسند فرما کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حج کا امام بنا کر اس سال مکہ شریف روانہ فرمایا کہ مسلمانوں کو احکام حج سکھائیں اور مشرکوں میں اعلان کر دیں کہ وہ آئندہ سال سے حج کو نہ آئیں اور سورۃ براۃ کا بھی عام لوگوں میں اعلان کر دیں ۔ آپ کے پیچھے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ آپ کا پیغام بحیثیت آپ کے نزدیکی قرابت داری کے آپ بھی پہنچا دیں جیسے کہ اس کا تفصیلی بیان آرہا ہے ۔ انشاء اللہ ۔ پس فرمان ہے کہ یہ بےتعلق ہے ۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بعض تو کہتے ہیں یہ اعلان اس عہد و پیمان کے متعلق پہچان سے کوئی وقت معین نہ تھا یا جن سے عہد چار ماہ سے کم کا تھا لیکن جن کا لمبا عہد تھا وہ بدستور باقی رہا ۔ جیسے فرمان ہے کہ ( فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ Ć ) 9- التوبہ:4 ) ان کی مدت پوری ہو نے تک تم ان سے ان کا عہد نبھاؤ ۔ حدیث شریف میں بھی ہے کہ آپ نے فرمایا ہم سے جن کا عہد و پیمان ہے ہم اس پر مقررہ وقت تک پابندی سے قائم ہیں گو اس بارے میں اور اقوال بھی ہیں لیکن سب سے اچھا اور سب سے قوی قول یہی ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ جن لوگوں سے عہد ہو چکا تھا ان کے لیے چار ماہ کی حد بندی اللہ تعالیٰ نے مقرر کی اور جن سے عہد نہ تھا ان کے لیے حرمت والے مہینوں کے گذر جانے کی عہد بندی مقرر کر دی یعنی دس ذی الحجہ سے محرم الحرام تک کے پچاس دن ۔ اس مدت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے جنگ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے جب تک وہ اسلام قبول نہ کرلیں ۔ اور جن سے عہد ہے وہ دس ذی الحجہ کے اعلان کے دن سے لے کر بیس ربیع الآخر تک اپنی تیاری کرلیں پھر اگر چاہیں مقابلے پر آجائیں یہ واقعہ سنہ ٩ ھ کا ہے ۔ آپ نے حضرت ابو بکر کو امیر حج مقرر کر کے بھیجا تھا اور حضرت علی کو تیس یا چالیس آیتیں قرآن کی اس صورت کی دے کر بھیجا کہ آپ چار ماہ کی مدت کا اعلان کر دیں ۔ آپ نے ان کے ڈیروں میں گھروں میں منزلوں میں جا جا کر یہ آیتیں انہیں سنا دیں اور ساتھ ہی سرکار نبوت کا یہ حکم بھی سنا دیا کہ اس سال کے بعد حج کے لیے کوئی مشرک نہ آئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کوئی ننگا شخص نہ کرے ۔ قبیلہ خزاعہ قبیلہ مدلج اور دوسرے سب قبائل کے لیے بھی یہی اعلان تھا ۔ تبوک سے آکر آپ نے حج کا ارادہ کیا تھا لیکن مشرکوں کا وہاں آنا ان کا ننگے ہو کر وہاں کا طواف کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند تھا اس لیے حج نہ کیا اور اس سال حضرت ابو بکر کو اور حضرت علی کو بھیجا انہوں نے ذی المجاز کے بازاروں میں اور ہر گلی کوچے اور ہر ہر پڑاؤ اور میدان میں اعلان کیا کہ چار مہینے تک کی تو شرک اور مشرک کو مہلت ہے اس کے بعد ہماری اسلامی تلواریں اپناجو ہر دکھائیں گی بیس دن ذی الحجہ کے محرم پورا صفر پورا اور ربیع الاول پورا اور دس دن ربیع الآخر کے ۔ زہری کہتے ہیں شوال محرم تک کی ڈھیل تھی لیکن یہ قول غریب ہے ۔ اور سمجھ سے بھی بالا تر ہے کہ حکم پہنچنے سے پہلے ہی مدت شماری کیسے ہو سکتی ہے؟
وجہ تسمیہ : اس کے مفسرین نے متعدد نام ذکر کئے ہیں لیکن زیادہ مشہور دو ہیں۔ ایک توبہ اس لئے کہ اس میں بعض مومنین کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے۔ دوسرا براءۃ اس میں مشرکوں سے برات کا اعلان عام ہے۔ یہ قرآن مجید کی واحد سورت ہے جس کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم درج نہیں ہے۔ اس کی بھی متعدد وجوہات کتب تفسیر میں درج ہیں۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ سورة انفال اور سورة توبہ ان دونوں کے مضامین میں بڑی یکسانیت پائی جاتی ہے یہ سورت گویا سورة انفال کا تتمہ یا بقیہ ہے۔ یہ سات بڑی سورتوں میں ساتویں بڑی سورت ہے جنہیں سبع طوال کہا جاتا ہے۔ 1۔ 1 فتح مکہ کے بعد 9 ہجری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر صدیق، حضرت علی اور دیگر صحابہ کو قرآن کریم کی یہ آیت اور یہ احکام دے کر بھیجا تاکہ وہ مکہ میں ان کا عام اعلان کردیں۔ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق اعلان کردیا کہ کوئی شخص بیت اللہ کا عریاں طواف نہیں کرے گا، بلکہ آئندہ سال سے کسی مشرک کو بیت اللہ کے حج کی اجازت نہیں ہوگی (صحیح بخاری)
[١] سورة توبہ کے آغاز میں بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ :۔ سورة ئتوبہ کا نام سورة ئبرات بھی ہے جو اس سورة کا ابتدائی لفظ ہے۔ یہ سورة برأت، سورة انفال کے بہت بعد یعنی ٩ ہجری میں نازل ہوئی لیکن چونکہ ان دونوں کے مضامین آپس میں بہت حد تک ملتے جلتے ہیں اور یہ سب مضامین کافروں، مشرکوں سے جنگ، معاہدات، صلح اور اسلام کی سربلندی سے متعلق ہدایات و احکام پر مشتمل ہیں لہذا ان کو یکجا کردیا گیا ہے اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی جاتی۔ جو کہ دو سورتوں کی الگ الگ ہونے کی علامت ہے۔ نہ ہی اس سورة کی ابتدا میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نازل ہوئی۔ نہ ہی کبھی رسول اللہ نے پڑھی تھی اور وہی دستور آج تک مصاحف کی کتابت میں ملحوظ رکھا جاتا ہے۔- [٢] مشرکین سے اعلان براءت :۔ رمضان ٨ ہجری میں مکہ فتح ہوگیا تو مسلمانوں پر سے وہ پابندیاں از خود اٹھ گئیں جو مشرکین مکہ نے مسلمانوں کے بیت اللہ شریف میں داخلہ، عبادات، طواف اور حج وعمرہ پر لگا رکھی تھیں۔ ٨ ہجری میں تو مسلمان حج کر ہی نہ سکے۔ کیونکہ فتح مکہ کے بعد غزوہ حنین اور طائف سے واپس مدینہ پہنچنے تک اتنا وقت نہ رہا تھا کہ مسلمان حج کے لیے مدینہ سے آتے۔ ٩ ہجری میں آپ نے مسلمانوں کو حج کے لیے بھیجا اور سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کو اس قافلہ حج کا امیر مقرر کردیا۔ ابھی تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے مشرکوں کے داخلہ پر کوئی پابندی عائد نہ کی گئی تھی۔ لہذا اس حج میں مشرکین بھی شریک تھے۔ مسلمانوں نے اپنے طریقہ پر حج ادا کیا اور مشرکین نے اپنے طریقہ پر۔ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کی روانگی کے بعد اس سورة کی یہ ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔ جن کی بنا پر مشرکین سے صرف بیت اللہ شریف میں داخلہ پر ہی پابندی نہ لگائی گئی بلکہ ان سے مکمل برأت کا اعلان کیا گیا۔ اس اعلان کی اہمیت کے پیش نظر آپ نے یہ بہتر سمجھا یا مدینہ میں موجود صحابہ کرام (رض) نے آپ کو یہ مشورہ دیا کہ یہ اعلان آپ کے کسی قریبی رشتہ دار کی طرف سے ہونا چاہیے جو مشرکوں کی نگاہ میں آپ ہی کے قائم مقام سمجھا جاسکے چناچہ ان آیات کے نزول کے بعد آپ نے سیدنا علی کو بھی بھیج دیا کہ وہ حج کے اجتماع عظیم میں ان آیات کا اعلان کردیں جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے :۔- ١۔ کعبہ کا ننگے طواف کرنا :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ اس حج میں سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے دسویں تاریخ کو دوسرے منادی کرنے والوں کے ساتھ مجھے بھی بھیجا تاکہ یہ منادی کریں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ ہی کوئی ننگا ہو کر طواف کرے۔ حمید بن عبدالرحمن (ایک راوی) کہتے ہیں کہ (ابو بکر صدیق کو روانہ کرنے کے بعد) آپ نے ان کے پیچھے سیدنا علی کو بھی روانہ کیا اور انہیں بھی حکم دیا کہ سورة برأت (کافروں کو) سنا دیں۔ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : سیدنا علی نے بھی ہمارے ساتھ منیٰ میں برأت کی منادی کی اور کہا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور نہ کوئی ننگا ہو کر بیت اللہ کا طواف کرے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- ٢۔ اعلان برا ءت کی چار دفعات :۔ زید بن یثیَعْ کہتے ہیں کہ ہم نے سیدنا علی سے پوچھا کہ حج میں تمہیں کیا پیغام دے کر بھیجا گیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ چار باتیں۔ ایک یہ کہ کوئی شخص ننگا ہو کر بیت اللہ کا طواف نہ کرے۔ دوسرے جس کافر کے ساتھ نبی اکرم کا معاہدہ صلح ہے وہ مدت مقررہ تک بحال رہے گا۔ اور تیسرے جن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ان کے لیے چار ماہ کی مدت ہے یا تو وہ اسلام لے آئیں اور وہ جنت میں داخل ہوں گے یا پھر یہاں سے چلے جائیں اور چوتھے یہ کہ اس سال کے بعد مشرک اور مسلمان (حج میں) جمع نہ ہوں گے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)- ٣۔ سیدنا علی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے حج اکبر کے دن کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا قربانی کا دن (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)- صاف دل سے معاہدہ کرنے والے مشرک قبائل کو رعایت :۔ چناچہ دس ذی الحجہ کو حج اکبر یعنی یوم نحر کے دن یہ اعلان پہلے سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے منیٰ کے مقام پر کیا۔ پھر اس کے بعد سیدنا علی نے کیا اور اس کی اہم دفعات چار تھیں۔ (١) آئندہ کبھی کوئی شخص ننگا ہو کر طواف نہ کرسکے گا۔ ایسی فحاشی کعبہ کے اندر کسی صورت پر برداشت نہیں کی جاسکتی۔ جبکہ مشرک ننگا ہو کر طواف کرنے کو اپنے خیال کے مطابق بہتر سمجھتے اور کہتے کہ اس میں زیادہ انکساری پائی جاتی ہے۔ (٢) مشرکین کا کعبہ کا متولی ہونا تو درکنار، وہ اس سال کے بعد کعبہ کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتے۔ جیسا کہ اسی سورة کی آیت نمبر ٢٨ میں اس کی وضاحت موجود ہے (٣) جن مشرکوں سے مسلمانوں کا کوئی معاہدہ صلح نہیں انہیں چار ماہ کی مدت دی جاتی ہے۔ اس مدت میں وہ خوب سمجھ لیں کہ وہ مسلمانوں سے جنگ کو تیار ہیں یا یہ ملک چھوڑ کر نکل جانا چاہتے ہیں یا اسلام لانا چاہتے ہیں اور اگر وہ اسلام لے آئیں تو وہ بھی انشاء اللہ جنت میں داخل ہوں گے اس دفعہ میں وہ مشرک قبائل بھی شامل ہیں جو صلح کا معاہدہ تو کرلیتے تھے مگر صلح کی شرائط ہی ایسی طے کرتے تھے کہ ان کے لیے فتنہ اور نقض عہد کی گنجائش باقی رہے یعنی ایسے قبائل جن کی طرف سے مسلمانوں کو عہد شکنی یا فتنہ انگیزی کا خطرہ تھا ان کا ایسا عہد بھی اس اعلان کے ذریعہ ختم کردیا گیا۔ جیسا کہ سورة انفال کی آیت نمبر ٥٨ میں حکم دیا گیا ہے۔ (٤) اور جن مشرک قبائل نے صدق دل سے مسلمانوں سے معاہدہ امن کر رکھا ہے انہوں نے نہ کبھی بدعہدی کی ہے اور نہ ہی مسلمانوں کو ان کی طرف سے کچھ خطرہ ہے۔ ایسے مشرک قبائل کو معاہدہ کے اختتام تک مہلت دی گئی۔ اس کے بعد ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوگا جو دوسرے مشرک قبائل کے ساتھ ہوگا اور ایسے صاف نیت قبائل صرف تین تھے : بنو خزاعہ، بنو کنانہ اور بنو ضمرہ۔ جنہوں نے نہ خود عہد شکنی کی تھی اور نہ ہی علی الاعلان یا درپردہ مسلمانوں کے خلاف کسی دوسرے کی حمایت کی تھی۔
یہ پوری کی پوری سورت مدنی ہے جو فتح مکہ کے بعد ٩ ھ میں نازل ہوئی۔ چونکہ سورة توبہ اور انفال میں ذکر ہونے والے واقعات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں، اس لیے ان دونوں سورتوں کو ایک سورت کے حکم میں رکھا گیا ہے اور ان دونوں کے درمیان ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ نہیں لکھی گئی اور یہ سبع طوال ( سات لمبی سورتوں) میں سے ساتویں سورت ہے، جن کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ أَخَذَ السَّبْعَ الْأَوَلَ مِنَ الْقُرْآنِ فَھُوَ حَبْرٌ ) ” جس نے قرآن مجید کی یہ پہلی سات سورتیں حاصل کرلیں وہ بہت بڑا عالم بن گیا۔ “ [ أحمد : ٦؍٨٢، ح : ٢٤٥٨٥، عن عائشۃ (رض) ]- اس کے کئی نام ہیں جن میں سے ایک ” توبہ “ اور دوسرا ” براء ۃ “ ہے۔ ” توبہ “ اس اعتبار سے کہ اس میں ایک مقام پر بعض اہل ایمان کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے اور ” براء ۃ “ اس لحاظ سے کہ اس کے شروع میں مشرکین سے براءت کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کو ” سورة الفاضحہ “ یعنی ( منافقوں کو) رسوا کرنے والی سورت بھی کہتے ہیں۔ اس سورت کے شروع میں ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ نہیں لکھی جاتی، مفسرین نے اس کی متعدد وجوہ بیان کی ہیں، مثلاً یہ کہ اس میں مشرکین سے قطع تعلق اور مسلمان نہ ہونے کی صورت میں ان کے قتل کا حکم ہے اور اہل کتاب کے مسلمان نہ ہونے یا جزیہ نہ دینے کی صورت میں ان سے مسلسل لڑتے رہنے کا حکم ہے وغیرہ، مگر سب سے معقول اور سیدھی سادھی بات یہ ہے کہ چونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے شروع میں ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ نہیں لکھوائی، اس لیے صحابہ کرام (رض) نے نہیں لکھی۔ - بَرَاۗءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ : اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان تمام معاہدوں کی تنسیخ کا اعلان فرمایا ہے جو مسلمانوں نے مشرکوں سے کیے تھے۔ منسوخ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ مشرکین ان عہد ناموں کو بار بار توڑ دیتے تھے اور ان کی شرائط کو پورا نہیں کرتے تھے، خصوصاً جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ کے بعد تبوک گئے تو کفار نے سمجھا کہ مسلمان رومیوں کی طاقت کے مقابلے میں فنا ہوجائیں گے، اس لیے انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں سے کیے ہوئے کسی عہد کا لحاظ رکھا نہ باہمی رشتہ داری کا، فرمایا : (لَا يَرْقُبُوْنَ فِيْ مُؤْمِنٍ اِلًّا وَّلَا ذِمَّةً ) [ التوبۃ : ١٠ ] ” یہ لوگ کسی مومن کے بارے میں نہ کسی قرابت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ کسی عہد کا۔ “ اور فرمایا : (اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَهُمْ ) [ التوبۃ : ١٣ ] ” کیا تم ان لوگوں سے نہ لڑو گے جنھوں نے اپنی قسمیں توڑ دیں۔ “ مگر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم دیکھو کہ ان مشرکین کو اچانک حملہ کر کے برباد کرنے کے بجائے پہلے تمام عہد منسوخ کرنے کا اعلان دنیا کے سب سے بڑے مجمع میں کیا گیا۔ ٩ ھ میں ابوبکر صدیق (رض) کی زیر امارت حج کے دن دس ذوالحجہ یوم نحر کو میدان منیٰ میں دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگوں کی موجودگی میں اعلان ہوا اور کئی آدمی مقرر کیے گئے، جنھوں نے اس مجمع کے ہر مقام پر پہنچ کر بلند آواز کے ساتھ یہ اعلان کیا۔ اس سال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خود حج پر نہ جانے کی وجہ یہ تھی کہ اس اعلان کے بعد ہی مکہ میں مشرکوں کا داخلہ بند ہوا اور ان کی بےحیائی کی رسمیں ختم ہوئیں۔
خلاصہ تفسیر - اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکین ( کے عہد) سے دست برداری ہے جن سے تم نے ( بلا تعیین مدت) عہد کر رکھا تھا ( یہ جماعت سوم کا حکم ہے ان جماعتون کی تفصیل معارف و مسائل میں آرہی ہی) اور جماعت چہارم یعنی جن سے کچھ بھی عہد نہ تھا ان کا بھی حکم اس سے بدرجہ اولی مفہوم ہوگیا کہ جب معاہدین سے رفع امان کردیا تو غیر معاہدین میں تو کوئی احتمال امن کا پہلے سے بھی نہیں ہے) سو ( ان دونوں جماعتوں کو اطلاع کردو کہ) تم لوگ اس سرزمین میں چار مہینے چل پھر لو ( اجازت ہے تاکہ اپنا موقع اور پناہ ڈھونڈھ لو) اور ( اس کے ساتھ) یہ ( بھی) جان رکھو کہ ( اس مہلت کی بدولت صرف مسلمانوں کی دست برد سے بچ سکتے ہو لیکن) تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے ( کہ اس کے قبضہ سے نکل سکو) اور یہ ( بھی جان رکھو) کہ بیشک اللہ تعالیٰ ( آخرت میں) کافروں کو رسوا کریں گے ( یعنی عذاب دیں گے تمہاری سیاحت اس سے نہیں بچا سکتی اور احتمال قتل دنیا میں الگ رہا۔ اس میں ترغیب ہے توبہ کی) اور ( پہلی دوسری جماعت کا حکم یہ ہے کہ) اللہ اور رسول کی طرف سے بڑے حج کی تاریخوں میں عام لوگوں کے سامنے اعلان کیا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول دونوں ( بدون مقرر کرنے کسی میعاد کے ابھی) دست بردار ہوتے ہیں ان مشرکین ( کو امن دینے) سے ( جنہوں نے خود نقض عہد کیا۔ مراد جماعت اول ہے مگر) پھر ( بھی ان سے کہا جاتا ہے کہ) اگر تم ( کفر سے) توبہ کرلو تو تمہارے لئے ( دونوں جہان میں) بہتر ہے ( دنیا میں تو اس لئے کہ تمھا ری عہد شکنی معاف ہوجائے گی اور قتل سے بچ جاؤ گے اور آخرت میں ظاہر ہے کہ نجات ہوگی) اور اگر تم نے ( اسلام سے) اعراض کیا تو یہ سمجھ رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہیں کرسکو گے ( کہ کہیں نکل کر بھاگ جاؤ اور ( آگے خدا کو عاجز نہ کرسکنے کی تفسیر ہے کہ) ان کافروں کو ایک دردناک سزا کی خبر سنا دیجئے ( جو آخرت میں واقع ہوگی یہ تو یقینی اور احتمال سزائے دینا کا الگ، مطلب یہ ہوا کہ اگر اعراض کرو گے تو سزا بھگتو گے) ہاں مگر وہ مشرکین ( اس رفع امان و دست برداری سے) مستثنی ہیں جن سے تم نے عہد لیا پھر انہوں نے ( عہد پورا کرنے میں) تمہارے ساتھ ذرا کمی نہیں کی اور نہ تمہارے مقابلہ ( تمھارے) کسی ( دشمن) کی مدد کی ( مراد اس سے جماعت دوم ہے) سو ان کے معاہدہ کو ان کی مدت ( مقررہ) تک پورا کردو ( اور بد عہدی نہ کرو کیونکہ) واقعی اللہ تعالیٰ (بد عہدی سے) احتیاط رکھنے والوں کو پسند کرتے ہیں (پس تم احتیاط رکھو گے تو تم بھی پسندیدہ حق ہوجاؤ گے۔ آگے جماعت اول کے حکم کا تتمہ ہے کہ جب ان کو کوئی مہلت نہیں تو گو ان سے ابھی قتال کی گنجائش ہو سکتی تھی لیکن ابھی محرم کے ختم تک اشہر حرم مانع قتال ہیں) سو ( ان کے گزرنے کا انتظار کرلو اور) جب اشہر حرم گزر جائیں تو ( اس وقت) ان مشرکین ( جماعت اول) کو جہاں پاؤ مارو پکڑو باندھو اور داؤ گھات کے موقعوں میں ان کی تاک میں بیٹھو ( یعنی لڑائی میں جو جو ہوتا ہے سب کی اجازت ہے) پھر اگر ( کفر سے) توبہ کرلیں اور ( اسلام کے کام کرنے لگیں یعنی مثلا نماز پڑھنے لگیں، زکوة دینے لگیں تو ان کا رستہ چھوڑ دو ( یعنی قتل و قید مت کرو کیونکہ) واقعی اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت کرنے والے بڑی رحمت کرنے والے ہیں ( اس واسطے ایسے شخص کا کفر بخش دیا اور اس کی جان بچا لی اور یہی حکم بقیہ جماعت کا ہوگا ان کی میعادیں گزرنے کے بعد ) ۔
بَرَاۗءَۃٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَى الَّذِيْنَ عٰہَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ١ ۭ- برأ - أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون . قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة 1] - ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری - کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - عهد - العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً.- قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] - ( ع ھ د ) العھد - ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔
معاہدہ مشرکین سے اعلان برأت - قول باری ہے (براء ۃ من اللہ و رسولہ الی الذین عاھدتم من المشرکین اعلان برأت ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکین کو جن سے تم نے معاہدے کئے تھے) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ برأت قطع موالات اور امان کے خاتمہ نیز بچائو کے مرتفع ہوجانے کا نام ہے۔ ایک قول کے مطابق اس کے معنی ہیں۔ نذہ براء ۃ من اللہ و رسولہ “ اسی بناء لفظ براۃ مرفوع ہے۔ ایک قول ہے کہ ’ براۃ ‘ مبتدا ہے اور اس کی خبر حرف الی میں موجود ظرفیت کا معنی ہے اس بناء پر یہ آیت اس معاہدہ کے خاتمہ کی مقتضی ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مشرکین کے درمیان طے پایا تھا نیز امان کے ارتفاع۔ حالت جنگ کی بحالی اور قتال کے اعلان کی بھی مقتضی ہے۔ یہ آیت اس قول باری کی طرح ہے (و اما تخافن من قوم خیانۃ فانبذالیھم علی سواء اور اگر کبھی تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانہ اس کے آگے پھینک دوض اس طرح زیر بحث آیت میں برات کچا جو ذکر ہے وہ گویا اس معاہدے کو علانیہ ان کے آگے پھینک دینے اور معاہدہ ختم کردینے کے مترادف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ درج بالا آیت میں معاہدے کو علانیہ پھینک دینے کا حکم ان مشرکین کے ساتھ خاص تھا جو اپنے دلوں میں خیانت چھپائے ہوئے تھے اور معاہدے سے غداری اور بدعہدی کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس بنا پر زیر بحث آیت میں مذکورہ لفظ برأت کا تقاضا تو یہ تھا کہ مشرکین کو اعلان برأت کے ساتھ ہی معاہدہ کا خاتمہ وہ جاتا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے فواً بعد یہ فرمایا (فسیحوا فی الارض اربعۃ اشھر۔ پس تم لوگ ملک میں چار مہینے اور چل پھر لو) تو اس کے ذریعے یہ بیان کردیا کہ معاہدے کے خاتمہ کی ابتدا چار ماہ بعد ہوگی اور جن مشرکین سے اس قسم کے معاہدے کئے گئے تھے وہ چار ماہ کی مدت کے اختتام تک باقی رہیں گے۔ حسن کا قول ہے کہ اس وقت جن مشرکین کے ساتھ چار ماہ سے زائد مدت تک کے معاہدے تھے ان کی مدت گھٹا کر چار ماہ کردی گئی اور جن کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی مدت چار ماہ سے کم تھی وہ بڑھا کر چار ماہ کردی گئی۔ ایک قول یہ ہے کہ ان چار مہینوں سے عہد یعنی اعلان کے مہینے مراد ہیں جن کی مشرکین کو مہلت دی گئی تھی۔ اس کی ابتدا بیس (٢٠) ذی قعدہ سے ہوئی تھی، اور ذی الحجہ، محرم اور صفر کے مہینے اس میں شامل کر کے دس ربیع الاول کو اس کا اختتام ہوا تھا۔
یہ مکمل سورت مدنی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آخر کی دو آیتیں مکی ہیں، اس سورت میں دو ہزار چار سو سرسٹھ کلمات اور دس ہزار حروف ہیں۔- (١) یہ ان لوگوں سے اعلان برأت ہے جنہوں نے بدعہدی کی، برأت کے معنی نقص عہد کردینا ہے ،
تمہیدی کلمات - سورۃ التوبہ کئی خطبات پر مشتمل ہے اور ان میں سے ہر خطبہ الگ پس منظر میں نازل ہوا ہے۔ جب تک ان مختلف خطبات کے پس منظر اور زمانۂ نزول کا الگ الگ تعین درست انداز میں نہ ہوجائے ‘ متعلقہ آیات کی درست توضیح و تشریح کرنا ممکن نہیں۔ چناچہ جن لوگوں نے اس سورت کی تفسیر کرتے ہوئے پوری احتیاط سے تحقیق نہیں کی ‘ وہ خود بھی مغالطوں کا شکار ہوئے ہیں اور دوسروں کو بھی شکوک و شبہات میں مبتلا کرنے کا باعث بنے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ سورت قرآن حکیم کی مشکل ترین سورت ہے اور اس کی تفہیم کے لیے انتہائی محتاط تحقیق اور گہرے تدبر کی ضرورت ہے۔- سورۃ التوبہ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے دو پہلو : محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قبل ہر پیغمبر کو ایک خاص علاقے اور خاص قوم کی طرف مبعوث کیا گیا ‘ مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی قوم (بنواسماعیل) کی طرف بھی رسول بن کر آئے اور قیامت تک کے لیے پوری دنیا کے تمام انسانوں کی طرف بھی۔ یہ فضیلت تمام انبیاء و رسل میں صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے مخصوص ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو بعثتوں کے ساتھ مبعوث فرمایا گیا ‘ ایک بعثت خصوصی اور دوسری بعثت عمومی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے ان دونوں پہلوؤں کے حوالے سے سورة التوبہ کی آیات میں بھی ایک بڑی خوبصورت تقسیم ملتی ہے۔ وہ اس طرح کہ اس سورت کے بھی بنیادی طور پر دو حصے ہیں۔ ان میں سے ایک حصہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ بعثت کے خصوصی پہلو سے متعلق ہے ‘ جبکہ دوسرے حصے کا تعلق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے عمومی پہلو سے ہے۔ چناچہ سورت کے ان دونوں حصوں کے موضوعات و مضامین کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے ان دونوں پہلوؤں کے فلسفے کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیا جائے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت خصوصی : محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصی بعثت مشرکین عرب یا بنو اسماعیل کی طرف تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعلق بھی اسی قوم سے تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کے اندر رہ کر ‘ خود ان کی زبان میں ‘ اللہ کا پیغام ان تک پہنچا دیا اور ان پر آخری حد تک اتمام حجت بھی کردیا۔ اسی ضمن میں پھر مشرکین عرب پر اللہ کے اس قدیم قانون کا نفاذ بھی عمل میں آیا کہ جب کسی قوم کی طرف کوئی رسول بھیجا جائے اور وہ رسول اپنی دعوت کے سلسلے میں اس قوم پر اتمام حجت کر دے ‘ پھر اگر وہ قوم اپنے رسول کی دعوت کو رد کر دے تو اس پر عذاب استیصال مسلط کردیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں مشرکین عرب پر عذاب استیصال کی نوعیت معروضی حالات کے پیش نظر پہلی قوموں کے مقابلے میں مختلف نظر آتی ہے۔ اس عذاب کی پہلی قسط غزوۂ بدر میں مشرکین مکہ کی ہزیمت و شکست کی صورت میں سامنے آئی جبکہ دوسری اور آخری قسط کا ذکر اس سورت کے آغاز میں کیا گیا ہے۔ بہر حال اپنی بعثت خصوصی کے حوالے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جزیرہ نمائے عرب میں دین کو غالب کردیا ‘ اور وہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات مبارکہ ہی میں اقامت دین کا عملی نقشہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوگیا۔ - حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت عمومی : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت عمومی پوری انسانیت کی طرف قیامت تک کے لیے ہے۔ اس سلسلے میں دعوت کا آغاز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلح حدیبیہ (٦ ہجری) کے بعد فرمایا۔ اس سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی مبلغ یا داعی عرب سے باہر نہیں بھیجا ‘ بلکہ تب تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی پوری توجہ جزیرہ نمائے عرب تک مرکوز رکھی اور اپنے تمام وسائل اسی خطہ میں دین کو غالب کرنے کے لیے صرف کیے۔ لیکن جونہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سلسلے میں ٹھوس کامیابی ملی ‘ یعنی قریش نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بطور فریق ثانی کے تسلیم کر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صلح کرلی ‘ (قرآن نے سورة الفتح کی پہلی آیت میں اس صلح کو فتح مبین “ قرار دیا ہے) تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بعثت عمومی کے تحت دعوت کا آغاز کرتے ہوئے عرب سے باہر مختلف سلاطین و امراء کی طرف خطوط بھیجنے شروع کردیے۔ اس سلسلے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جن فرمانرواؤں کو خطوط لکھے ‘ ان میں قیصر روم ‘ ایران کے بادشاہ کسریٰ ‘ مصر کے بادشاہ مقوقس اور حبشہ کے فرمانروا نجاشی (یہ عیسائی حکمران اس نجاشی کا جانشین تھا جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا ‘ اور جن کی غائبانہ نماز جنازہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود پڑھائی تھی) کے نام شامل ہیں۔ [ نوٹ : ماضی قریب میں یہ چاروں خطوط اصل متن کے ساتھ اصل شکل میں دریافت ہوچکے ہیں۔ ] آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انہی خطوط کے ردِّ عمل کے طور پر سلطنت روما کے ساتھ مسلمانوں کے ٹکراؤ کا آغاز ہوا ‘ جس کا نتیجہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ ہی میں جنگ موتہ اور غزوۂ تبوک کی صورت میں نکلا۔ بہر حال ان تمام حالات و واقعات کا تعلق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت عمومی سے ہے ‘ جس کی دعوت کا آغاز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی مبارک ہی میں ہوگیا تھا ‘ اور پھر خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واضح طور پر یہ فریضہ امت کے ہر فرد کی طرف منتقل فرما دیا۔ چناچہ اب تا قیام قیامت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان رکھنے والا ہر مسلمان دعوت و تبلیغ اور اقامت دین کے لیے محنت و کوشش کا مکلف ہے۔- موضوعات : - مضامین و موضوعات کے حوالے سے یہ سورت دو حصوں پر مشتمل ہے ‘ جن کی تفصیل درج ذیل ہے :- حصہ اول : یہ حصہ سورت کے پہلے پانچ رکوعوں پر مشتمل ہے اور اس کا تعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت خصوصی کے تکمیلی مرحلے سے ہے۔ آیات کی ترتیب کے مطابق اگرچہ یہ پانچ رکوع بھی مزید تین حصوں میں بٹے ہوئے ہیں ‘ مگر موضوع کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ حصہ ہمیں دو خطبات پر مشتمل نظر آتا ہے ‘ جن کا الگ الگ تعارف ذیل کی سطور میں دیا جا رہا ہے۔- پہلا خطبہ : پہلا خطبہ دوسرے اور تیسرے رکوع پر مشتمل ہے اور یہ فتح مکہ (٨ ہجری) سے پہلے نازل ہوا۔ ان آیات میں مسلمانوں کو فتح مکہ کے لیے نکلنے پر آمادہ کیا گیا ہے۔ یہ مسئلہ بہت نازک اور حساس تھا۔ مسلمان مہاجرین کی مشرکین مکہ کے ساتھ براہ راست قریبی رشتہ داریاں تھیں ‘ ان کے خاندان اور قبیلے مشترک تھے ‘ حتیٰ کہ بہت سے مسلمانوں کے اہل و عیال مکہ میں موجود تھے۔ کچھ غریب ‘ بےسہارا مسلمان ‘ جو مختلف وجوہات کی بنا پر ہجرت نہیں کرسکے تھے ‘ ابھی تک مکہ میں پھنسے ہوئے تھے۔ اب سوال یہ تھا کہ اگر جنگ ہوگی ‘ مکہ پر حملہ ہوگا تو ان سب کا کیا بنے گا ؟ کیا گندم کے ساتھ گھن بھی پس جائے گا ؟ دوسری طرف قریش مکہ کا بظاہر یہ اعزاز بھی نظر آتا تھا کہ وہ بیت اللہ کے متولی تھے اور حجاج کی خدمت کرتے تھے۔ اس حوالے سے کہیں سادہ دل مسلمان اپنے خدشات کا اظہار کر رہے تھے تو کہیں منافقین ان سوالات کی آڑ لے کر لگائی بجھائی میں مصروف تھے۔ چناچہ ان آیات کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ پس منظر مدنظر رہنا چاہیے۔- دوسرا خطبہ : دوسرا خطبہ پہلے ‘ چوتھے اور پانچویں رکوع پر مشتمل ہے اور یہ ذوالقعدہ ٩ ہجری کے بعد نازل ہوا۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اس میں سے پہلی چھ آیات کو مقدم کر کے سورت کے آغاز میں لایا گیا ہے۔ یہ وہی آیات ہیں جن کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو قافلۂ حج کے پیچھے بھیجا تھا۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ ٩ ہجری میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود حج پر تشریف نہیں لے گئے تھے ‘ اس سال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو بکرصدیق (رض) کو امیرحج بنا کر بھیجا تھا۔ حج کا یہ قافلہ ذوالقعدہ ٩ ہجری میں روانہ ہوا اور اس کے روانہ ہونے کے بعد یہ آیات نازل ہوئیں۔ چناچہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو بھیجا کہ حج کے موقع پر علی الاعلان یہ احکامات سب کو سنا دیے جائیں۔ سن ٩ ہجری کے اس حج میں مشرکین مکہ بھی شامل تھے۔ چناچہ وہاں حج کے اجتماع میں حضرت علی (رض) نے یہ آیات پڑھ کر سنائیں ‘ جن کے تحت مشرکین کے ساتھ ہر قسم کے معاہدے سے اعلان براءت کردیا گیا اور یہ واضح کردیا گیا کہ آئندہ کوئی مشرک حج کے لیے نہ آئے۔ مشرکین عرب کے لیے چار ماہ کی مہلت کا اعلان کیا گیا کہ اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ ایمان لانا چاہیں تو لے آئیں ‘ ورنہ ان کا قتل عام ہوگا۔ - یہ آیات چونکہ قرآن کریم کی سخت ترین آیات ہیں ‘ اس لیے ضروری ہے کہ ان کے پس منظر کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ یہ احکامات دراصل اس عذاب استیصال کے قائم مقام ہیں جو قوم نوح ( علیہ السلام) ‘ قوم ہود ( علیہ السلام) ‘ قوم صالح ( علیہ السلام) ‘ قوم شعیب ‘ ( علیہ السلام) قوم لوط ( علیہ السلام) اور آل فرعون پر آیا تھا۔ ان تمام قوموں پر عذاب استیصال اللہ کے اس اٹل قانون کے تحت آیا تھا جس کا ذکر قبل ازیں بھی ہوچکا ہے۔ اس قانون کے تحت مشرکین مکہ اب عذاب استیصال کے مستحق ہوچکے تھے ‘ اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہی کی زبان میں اللہ کے احکامات ان تک پہنچا کر ان پر حجت تمام کردی تھی۔ اس سلسلے میں اللہ کی مشیت کے مطابق ان کو جو مہلت دی گئی تھی وہ بھی ختم ہوچکی تھی۔ چناچہ ان پر عذاب استیصال کی پہلی قسط میدان بدر میں نازل کی گئی اور دوسری اور آخری قسط کے طور پر اب انہیں الٹی میٹم دے دیا گیا کہ تمہارے پاس سوچنے اور فیصلہ کرنے کے لیے صرف چار ماہ ہیں۔ اس مدت میں ایمان لانا چاہو تو لے آؤ ورنہ قتل کردیے جاؤ گے۔ اس حکم کے اندر ان کے لیے یہ آپشن خود بخود موجود تھا کہ وہ چاہیں تو جزیرہ نمائے عرب سے باہر بھی جاسکتے ہیں ‘ مگر اب اس خطہ کے اندر وہ بحیثیت مشرک کے نہیں رہ سکتے ‘ کیونکہ اب جزیرہ نمائے عرب کو شرک سے بالکل پاک کردینے اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت خصوصی کی تکمیلی شان کے ظہور کا وقت آن پہنچا تھا۔- ایک اشکال کی وضاحت : یہاں ایک اشکال اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ آیات کی موجودہ ترتیب خطبات کی زمانی ترتیب کے بالکل برعکس ہے۔ جو خطبہ پہلے (٨ ہجری میں) نازل ہوا ہے وہ سورت میں دوسرے رکوع سے شروع ہو رہا ہے ‘ جبکہ بعد (٩ ہجری) میں نازل ہونے والی آیات کو مقدم کر کے ان سے سورت کا آغاز کیا گیا ہے۔ پھر یہ دوسرا خطبہ بھی آیات کی ترتیب کے باعث دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔ اس کی ابتدائی چھ آیات پہلے رکوع میں آگئی ہیں ‘ جبکہ بقیہ آیات چوتھے اور پانچویں رکوع میں ہیں۔ دراصل ترتیب آیات میں اس پیچیدگی کی وجہ قرآن کا وہ خاص اسلوب ہے جس کے تحت کسی انتہائی اہم بات کو موضوع کی منطقی اور روایتی ترتیب میں سے نکال کر شہ سرخی ( ) کے طور پر پہلے بیان کردیا جاتا ہے۔ اس اسلوب کو سمجھنے کے لیے سورة الانفال کے آغاز کا انداز ذہن میں رکھیے۔ وہاں مال غنیمت کا مسئلہ انتہائی اہم اور حساس نوعیت کا تھا ‘ جس پر تفصیلی بحث تو بعد میں ہونا مقصود تھی ‘ لیکن اس ضمن میں بنیادی اصول سورت کی پہلی آیت میں بیان کردیا گیا اور مسئلے کی خصوصی اہمیت کے پیش نظر اس موضوع سے سورت کا آغاز فرمایا گیا۔ بالکل اسی انداز میں اس سورت کا آغاز بھی ایک انتہائی اہم مسئلے کے بیان سے کیا گیا ‘ البتہ اس مسئلے کی بقیہ تفصیل بعد میں چوتھے اور پانچویں رکوع میں بیان ہوئی۔ - حصہ دوم : اس سورت کا دوسرا حصہ چھٹے رکوع سے لے کر آخر تک گیارہ رکوعوں پر مشتمل ہے اور اس کا تعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت عمومی سے ہے۔ اس لیے کہ اس حصے کا مرکزی موضوع غزوۂ تبوک ہے اور غزوۂ تبوک تمہید تھی ‘ اس جدوجہد کی جس کا آغاز اقامت دین کے سلسلے میں جزیرہ نمائے عرب سے باہر بین الاقوامی سطح پر ہونے والا تھا۔ اِن گیارہ رکوعوں میں سے ابتدائی چار رکوع تو وہ ہیں جو غزوۂ تبوک کے لیے مسلمانوں کو ذہنی طور پر تیار کرنے سے متعلق ہیں ‘ چند آیات وہ ہیں جو تبوک جاتے ہوئے دوران سفر نازل ہوئیں ‘ چند آیات تبوک میں قیام کے دوران اور چندتبوک سے واپسی پر راستے میں نازل ہوئیں ‘ جبکہ ان میں چند آیات ایسی بھی ہیں جو تبوک سے واپسی کے بعد نازل ہوئیں۔ آیت ١ (بَرَآءَ ۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی الَّذِیْنَ عٰہَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) - یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے تمام معاہدے ختم کرنے کا دو ٹوک الفاظ میں اعلان ہے جو مسلمانوں نے مشرکین کے ساتھ کر رکھے تھے۔ یہ اعلان چونکہ انتہائی اہم اور حساس نوعیت کا تھا اور قطعی ( ) انداز میں کیا گیا تھا ‘ اس لیے اس کے ساتھ کچھ شرائط یا استثنائی شقوں کا ذکر بھی کیا گیا جن کی تفصیل آئندہ آیات میں آئے گی۔ سورة التوبہ کے ضمن میں ایک اور بات لائق توجہ ہے کہ یہ قرآن کی واحد سورت ہے جس کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم “ نہیں لکھی جاتی۔ اس کا سبب حضرت علی (رض) نے یہ بیان فرمایا ہے کہ یہ سورت تو ننگی تلوار لے کر یعنی مشرکین کے لیے قتل عام کا اعلان لے کر نازل ہوئی ہے ‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی رحمانیت اور رحیمیت کی صفات کے ساتھ اس کے مضامین کی مناسبت نہیں ہے۔
سورة التَّوْبَة نام : یہ سورہ دو ناموں سے مشہور ہے ۔ ایک التوبہ دوسرے البراءَۃ ۔ توبہ اس لحاظ سے کہ اس میں ایک جگہ بعض اہل ایمان کے قصوروں کی معافی کا ذکر ہے ۔ اور براءۃ اس لحاظ سے کہ اس کے آغاز میں مشرکین سے بریٔ الذمہ ہونے کا اعلان ہے ۔ بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ : اس سورہ کی ابتداء میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نہیں لکھی جاتی ۔ اس کے متعدد وجوہ مفسرین نے بیان کیے ہیں جن میں بہت کچھ اختلاف ہے ۔ مگر صحیح بات وہی ہے جو امام رازی نے لکھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کے آغاز میں بسم اللہ نہیں لکھوائی تھی اس لیے صحابہ کرام نے بھی نہیں لکھی اور بعد کے لوگ بھی اسی کی پیروی کرتے رہے ۔ یہ اس بات کا مزید ایک ثبوت ہے کہ قرآن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جوں کا توں لینے اور جیسا دیا گیا تھا ویسا ہی اس کو محفوظ رکھنے میں کس درجہ احتیاط و اہتمام سے کام لیا گیا ہے ۔ زمانہ نزول اور اجزاءِ سوُرہ : ”یہ سورہ تین تقریروں پر مشتمل ہے: پہلی تقریر آغازِ سورہ سے پانچویں رکوع کے آخر تک چلتی ہے ۔ اس کا زمانہ نزول ذی القعدہ سن ۹ ھجری یا اس کے لگ بھگ ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر الحاج مقرر کر کے مکہ روانہ کر چکے تھے کہ یہ تقریر نازل ہوئی اور حضور نے فوراً سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ان کے پیچھے بھیجا تا کہ حج کے موقع پر تمام عرب کے نمائندہ اجتماع میں اسے سنائیں اور اس کے مطابق جو طرزِ عمل تجویز کیا گیا تھا اس کا اعلان کر دیں ۔ دوسری تقریر رکوع ٦ کی ابتدا سے رکوع ۹ کے اختتام تک چلتی ہے اور یہ رجب ۹ ھجری یا اس سے کچھ پہلے نازل ہوئی جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کی تیاری کر رہے تھے ۔ اس میں اہل ایمان کو جہاد پر اکسایا گیا ہے اور ان لوگوں کو سختی کے ساتھ ملامت کی گئی ہے جو نفاق یا ضعف ایمان یا سُستی و کاہلی کی وجہ سے راہِ خدا میں جان و مال کا زیاں برداشت کرنے سے جی چرا رہے تھے ۔ تیسری تقریر رکوع ۱۰ سے شروع ہو کر سورۃ کے ساتھ ختم ہوتی ہے اور یہ غزوہ تبوک سے واپسی پر نازل ہوئی ۔ اس میں متعدد ٹکڑے ایسے بھی ہیں جو انہی ایام میں مختلف مواقع پر اُترے اور بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ الہٰی سے ان سب کو یکجا کر کے ایک سلسہ تقریر میں منسلک کر دیا ۔ مگر چونکہ وہ ایک ہی مضمون اور ایک ہی سلسلہ واقعات سے متعلق ہیں اس لیے ربط تقریر میں کہیں خلل نہیں پایا جاتا ۔ اس میں منافقین کی حرکات پر تنبیہ ، غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں پر زجر و توبیخ ، اور ان صادق الایمان لوگوں پر ملامت کے ساتھ معانی کا اعلان ہے جو اپنے ایمان میں سچے تو تھے مگر جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ لینے سے باز رہے تھے ۔ نزول ترتیب کے لحاظ سے پہلی تقریر سب سے آخر میں آنی چاہیے تھی ، لیکن مضمون کی اہمیت کے لحاظ سے وہی سب سے مقدم تھی ، اس لیے مُصحَف کی ترتیب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پہلے رکھا اور بقیہ دونوں تقریروں کو مؤخر کر دیا ۔ تاریخی پس منظر : زمانہ نزول کی تعیین کے بعد ہمیں اس سورہ کے تاریخی پس منظر پر ایک نگاہ ڈال لینی چاہیے ۔ جس سلسلہ واقعات سے اس کے مضامین کا تعلق ہے اس کی ابتدا صلح حدیبیہ سے ہوتی ہے ۔ حدیبیہ تک چھ سال کی مسلسل جدوجہد کا نتیجہ اس شکل میں رونما ہو چکا تھا کہ عرب کے تقریبًا ایک تہائی حصہ میں اسلام ایک منظم سوسائٹی کا دین ، ایک مکمل تہذیب و تمدّن ، اور ایک کامل با اختیار ریاست بن گیا تھا ۔ حدیبیہ کی صلح جب واقع ہوئی تو اس دین کو یہ موقع بھی حاصل ہوگیا کہ اپنے اثرات نسبۃ زیادہ امن و اطمینان کے ماحول میں ہر چہار طرف پھیلا سکے ۔ اس کے بعد واقعات کی رفتار نے دو بڑے راستے اختیار کیے جو آگے چل کر نہایت اہم نتائج پر منتہی ہوئے ۔ ان میں سے ایک کا تعلق عرب سے تھا اور دوسرے کا سلطنتِ روم سے ۔ عرب کی تسخیر : عرب میں حدیبیہ کے بعد دعوت و تبلیغ اور استحکام قوت کی جو تدبیریں اختیار کی گئیں ان کی بدولت دوسال کے اندر ہی اسلام کا دائرہ اثر اتنا پھیل گیا اور اس کی طاقت اتنی زبردست ہو گئی کہ پرانی جاہلیت اس کے مقابلہ میں بے بس ہو کر رہ گئی ۔ آخر کار جب قریش کے زیادہ پر جوش عناصر نے بازی ہرتی دیکھی تو انہیں یاراے ضبط نہ رہا اور انہوں نے حدیبیہ کے معاہدے کو توڑ ڈالا ۔ وہ اس بندش سے آزاد ہو کر اسلام سے ایک آخری فیصلہ کن مقابلہ کرنا چاہتے تھے ۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس عہد شکنی کے بعد ان کو سنبھلنے کا کوئی موقع نہ دیا اور اچانک مکہ پر حملہ کر کے رمضان سن ۸ ھجری میں اسے فتح کر لیا ۔ اس کے بعد قدیم جاہلی نظام نے آخری حرکت مذبوحی حُنَین کے میدان میں کہ جہاں ہوازن ، ثقیف ، نضر ، جشم اور بعض دوسرے جاہلیت پرست قبائل نے اپنی ساری طاقت لا کر جھونک دی تا کہ اس اصلاحی انقلاب کو روکیں جو فتح مکہ کے بعد تکمیل کے مرحلے پر پہنچ چکا تھا ۔ لیکن یہ حرکت بھی ناکام ہوئی اور حنین کی شکست کے ساتھ عرب کی قسمت کا قطعی فیصلہ ہو گیا کہ اسے اب دارالاسلام بن کر رہنا ہے ۔ اس واقعہ پر پورا ایک سال بھی نہ گزرنے پایا کہ عرب کا بیشتر حصہ اسلام کے دائرے میں داخل ہو گیا اور نظام جاہلیت کے صرف چند پراگندہ عناصر ملک کے مختلف گوشوں میں باقی رہ گئے ۔ اس نتیجہ کے حد کمال تک پہنچنے میں ان واقعات سے اور زیادہ مدد ملی جو شمال میں سلطنت روم کی سرحد پر اسی زمانہ میں پیش آرہے تھے ۔ وہاں جس جرأت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ۳۰ ہزار کا زبردست لشکر لے کر گئے اور رومیوں نے آپ کے مقابلہ پر آنے سے پہلو تہی کر کے جو کمزوری دکھائی اس نے تمام عرب پر آپ کی اور آپ کے دین کی دھاک بٹھا دی اور اس کا ثمرہ اس صورت میں ظاہر ہو اکہ تبوک سے واپس آتے ہی حضور کے پاس عرب کے گوشے گوشے سے وفد پر وفد آنے شروع ہو گئے اور وہ اسلام و اطاعت کا اقرار کرنے لگے ۔ چنانچہ اسی کیفیت کو قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ وَرَ اَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللہِ اَفْوَاجًا ۔ ”جب اللہ کی مدد آگئی ، اور فتح نصیب ہوئی اور تو نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہو رہے ہیں“ ۔ غزوہ تبوک : رومی سلطنت کے ساتھ کشمکش کی ابتدا فتح مکہ سے پہلے ہو چکی تھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے بعد اسلام کی دعوت پھیلانے کے لیے جو وفود عرب کے مختلف حصوں میں بھیجے تھے ان میں سے ایک شمال کی طرف سرحد شام سے متصل قبائل میں بھی گیا تھا ۔ یہ لوگ زیادہ تر عیسائی تھے اور رومی سلطنت کے زیر اثر تھے ۔ ان لوگوں نے ذات الطَّلح ( یا ذات اطلاح ) کے مقام پر اس وفد کے ۱۵ آدمیوں کو قتل کر دیا اور صرف رئیس وفد کعب بن عمیر غفاری بچ کر واپس آئے ۔ اسی زمانہ میں حضور نے بُصریٰ کے رئیس شُرحبیل بن عمرو کے نام بھی دعوت اسلام کا بیغام بھیجا تھا ، مگر اس نے آپ کے ایلچی حارث بن عمیر کو قتل کر دیا ۔ یہ رئیس بھی عیسائی تھا اور براہ راست قیصر روم کے احکام کا تابع تھا ۔ ان وجوہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمادی الاولیٰ سن ۸ ھجری میں تین ہزار مجاہدین کی ایک فوج سرحد شام کی طرف بھیجی تا کہ آئندہ کے لیے یہ علاقہ مسلمانوں کے لیے پر امن ہو جائے اور یہاں کے لوگ مسلمانوں کو بے زور سمجھ کر ان پر زیادتی کرنے کی جرأت نہ کریں ۔ یہ فوج جب مَعَان کے قریب پہنچی تو معلوم ہوا کہ شُرحبیل بن عمرو ایک لاکھ کا لشکر لے کر مقابلہ پر آرہا ہے ، خود قیصر روم حمص کے مقام پر موجود ہے اور اس نے اپنے بھائی تھیوڈور کی قیادت میں ایک لاکھ کی مزید فوج روانہ کی ہے ۔ لیکن ان خوفناک اطلاعات کے باوجود ۳ ہزار سرفروشوں کا یہ مختصر دستہ آگے بڑھتا چلا گیا اور مُؤتَہ کے مقام پر شرحبیل کی ایک لاکھ فوج سے جا ٹکرایا ۔ اس تہوّر کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ مجاہدینِ اسلام بالکل پس جاتے ، لیکن سارا عرب اور تمام شرق اوسط یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ ایک اور ۳۳ کے اس مقابلہ میں بھی کفار مسلمانوں پر غالب نہ آسکے ۔ یہی چیز تھی جس نے شام اور اس سے متصل رہنے والے نیم آزاد عربی قبائل کو ، بلکہ عراق کے قریب رہنے والے نجدی قبائل کو بھی ، جو کسری کے زیر اثر تھے ، اسلام کی طرف متوجہ کر دیا اور وہ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان ہوگئے ۔ بنی سُلَیم ( جن کے سردار عباس بن مرداس سُلمَی تھے ) اور اَشجع اور غَطَفان اور ذُبیان اور فزارَہ کےلوگ اسی زمانہ میں داخل اسلام ہوئے ۔ اور اسی زمانہ میں سلطنت روم کی عربی فوجوں کا ایک کمانڈر فروہ بن عمرو الجذامی مسلمان ہوا جس نے اپنے ایمان کا ایسا زبردست ثبوت دیاکہ گرد و پیش کے سارے علاقے اسے دیکھ کر دنگ رہ گئے ۔ قیصر کو جب فروہ کے قبول اسلام کی اطلاع ملی تو اس نے انہیں گرفتار کرا کے اپنے دربار میں بلوایا اور ان سے کہا کہ دو چیزوں میں سے ایک کو منتخب کر لو ۔ یا ترک اسلام جس کا نتیجہ میں تم کو نہ صرف رہا کیا جائے گا بلکہ تمہیں اپنے عہدے پر بھی بحال کر دیا جائے گا ، یا اسلام جس کے نتیجہ میں تمہیں سزائے موت دی جائے گی ۔ انہوں نے ٹھنڈے دل سے اسلام کو چن لیا اور راہ حق میں جان دے دی ۔ یہی واقعات تھے جنہوں نے قیصر کو اس ”خطرے “ کی حقیقی اہمیت محسوس کرائی جو عرب سے اٹھ کر اس کی سلطنت کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ دوسرے ہی سال قیصر نے مسلمانوں کو غزوہ مُؤتہ کی سزا دینے کے لیے سرحد شام پر فوجی تیاریاں شروع کر دیں اور اس کے ماتحت غسّائی اور دوسرے عرب سردار فوجیں اکٹھی کرنے لگے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بے خبر نہ تھے ۔ آپ ہر وقت ہر اس چھوٹی سے چھوٹی بات سے بھی خبردار رہتے تھے جس کا اسلامی تحریک پر کچھ بھی موافق یا مخالف اثر پڑتا ہو ۔ آپ نے ان تیاریوں کے معنی فورا سمجھ لیے اور بغیر کسی تامل کے قیصر کی عظیم الشان طاقت سے ٹکرانے کا فیصلہ کر لیا ۔ اس موقع پر ذرہ برابر بھی کمزوری دکھائی جاتی تو سارا بنا بنایا کام بگڑ جاتا ۔ ایک طرف عرب کی دم توڑتی ہوئی جاہلیت ، جس پر حُنَین میں آخری ضرب لگائی جا چکی تھی ، پھر جی اُٹھتی ۔ دوسری طرف مدینہ کے منافقین ، جو ابوعامر راہب کے واسطے سے غَسان کے عیسائی بادشاہ اور خود قیصر کے ساتھ اندرونی ساز باز رکھتے تھے ، اور جنہوں نے اپنی ریشہ دوانیوں پر دین داری کا پردہ ڈالنے کے لیے مدینہ سے متصل ہی مسجد ضرار تعمیر کر رکھی تھی ، بغل میں چھُرا گھونپ دیتے ۔ سامنے سے قیصر ، جس کا دبدبہ ایرانیوں کو شکست دینے کے بعد تمام دور و نزدیک کے علاقوں پر چھا گیا تھا ، حملہ آور ہوتا ۔ اور ان تین زبردست خطروں کی متحدہ یورش میں اسلام کی جیتی ہوئی بازی یکایک مات کھا جاتی ۔ اس لیے باوجود اس کے کہ ملک میں قحط سالی تھی ، گرمی کا موسم پورے شباب پر تھا ، فصلیں پکنے کے قریب تھیں ، سواریوں اور سروسامان کا انتظام سخت مشکل تھا ، سرمایہ کی بہت کمی تھی اور دنیا کی دو سب سے بڑی طاقتوں میں سے ایک کا مقابلہ در پیش تھا ، خدا کے نبی نے یہ دیکھ کر کہ یہ دعوت حق کے لیے زندگی و موت کے فیصلہ کی گھڑی ہے ، اسی حال میں تیاری جنگ کا اعلان عام کر دیا ۔ پہلے تمام غزوات میں تو حضور کا قاعدہ تھا کہ آخر وقت تک کسی کو نہ بتاتے تھے کہ کدھر جانا ہے اور کس سے مقابلہ دریپیش ہے ، بلکہ مدینے سے نکلنے کے بعد بھی منزل مقصود کی طرف سیدھا راستہ اختیار کرنے کے بجائے پھیر کی راہ سے تشریف لے جاتے تھے ۔ لیکن اس موقع پر آپ نے یہ پردہ بھی نہ رکھا اور صاف صاف بتا دیا کہ روم سے مقابلہ ہے اور شام کی طرف جانا ہے ۔ اس موقع کی نزاکت کو عرب میں سب ہی محسوس کر رہے تھے ۔ جاہلیت قدیمہ کے بچے کھچے عاشقوں کے لیے یہ ایک آخری شعاع امید تھی اور رُوم و اسلام کی اس ٹکر کے نتیجہ پر وہ بے چینی کے ساتھ نگاہیں لگائے ہوئے تھے ۔ کیونکہ وہ خود بھی جانتے تھے کہ اس کے بعد پھر کہیں سے امید کی جھلک نہیں دکھائی دینی ہے ۔ منافقین نے بھی اپنی آخری بازی اسی پر لگا دی تھی اور وہ اپنی مسجد ضرار بنا کر اس انتظار میں تھے کہ شام کی جنگ میں اسلام کی قسمت کا پانسہ پلٹے تو ادھر اندرون ملک میں وہ اپنے فتنہ کا علم بلند کریں ۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے اس مہم کو ناکام کرنے کے لیے تمام ممکن تدبیریں بھی استعمال کر ڈالیں ۔ ادھر مومنین صادقین کو بھی پورا احساس تھا کہ جس تحریک کے لیے ۲۲ سال سے وہ سربکف رہے ہیں ، اس وقت اس کی قسمت ترازو میں ہے ، اس موقع پر جرأت دکھانے کے معنی یہ ہیں کہ اس تحریک کے لیے ساری دنیا پر چھا جانے کا دروازہ کھل جائے ، اور کمزوری دکھانے کے معنی یہ ہیں کہ عرب میں بھی اس کی بساط اُلٹ جائے ۔ چنانچہ اسی احساس کے ساتھ ان فدائیانِ حق نے انتہائی جوش و خروش سے جنگ کی تیاری کی ۔ سروسامان کی فراہمی میں ہر ایک نے اپنی بساط سے بڑھ کر حصہ لیا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بڑی بڑی رقمیں پیش کیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی عمر بھر کی کمائی کا آدھا حصہ لا کر رکھ دیا ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی ساری پونجی نذر کر دی ۔ غریب صحابیوں نے محنت مزدوری کر کر کے جو کچھ کمایا لا کر حاضر کر دیا ۔ عورتوں نے اپنے زیور اُتار اُتار کر دے دیے ۔ سرفروش والنٹیروں کے لشکر کے لشکر ہر طرف سے امنڈ امنڈ کر آنے شروع ہوئے اور انہوں نے تقاضا کیا کہ اسلحہ اور سواریوں کا انتظام ہو تو ہماری جانیں قربان ہونے کو حاضر ہیں ۔ جن کو سواریاں نہ مل سکیں وہ روتے تھے اور اپنے اخلاص کی بے تابیوں کا اظہار اس طرح کرتے تھے کہ رسول پاک کا دل بھر آتا تھا ۔ یہ موقع عملًا ایمان اور نفاق کے امتیاز کی کسوٹی بن گیا تھا ، حتیٰ کہ اس وقت پیچھے رہ جانے کے معنی یہ تھے کہ اسلام کے ساتھ آدمی کے تعلق کی صداقت ہی مشتبہ ہو جائے ۔ چنانچہ تبوک کی طرف جاتے ہوئے دوران سفر میں جو جو شخص پیچھے رہ جاتا تھا صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دیتے تھے اور جواب میں حضور برجستہ فرماتے تھے کہ دعوہ فان یک فیہ خیر فسیلحقہ اللہ بکم وان یک غیر ذٰلک فقد اراحکم اللہ منہ ۔ ” جانے دو ، اگر اس میں کچھ بھلائی ہے تو اللہ اسے پھر تمہارے ساتھ لا ملائے گا اور اگر کچھ دوسری حالت ہے تو شکر کرو کہ اللہ نے اس کی جھوٹی رفاقت سے تمہیں خلاصی بخشی“ ۔ رجب سن ۹ ھجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ۳۰ ہزار مجاہدین کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے جن میں دس ہزار سوار تھے ۔ اونٹوں کی اتنی کمی تھی کہ ایک ایک اونٹ پر کئی کئی آدمی باری باری سوار ہوتے تھے ۔ اس پر گرمی کی شدت اور پانی کی قلت مستزاد ۔ مگر جس عزم صادق کا ثبوت اس نازک موقع پر مسلمانوں نے دیا اس کا ثمرہ تبوک پہنچ کر انہیں نقد مل گیا ۔ وہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ قیصر اور اس کے تابعین نے مقابلہ پر آنے کے بجائے اپنی فوجیں سرحد سے ہٹا لی ہیں اور اب کوئی دشمن موجود نہیں ہے کہ اس سے جنگ کی جائے ۔ سیرت نگار بالعموم اس واقعہ کو اس انداز سے لکھ جاتے ہیں کہ گویا وہ خبر ہی سرے سے غلط نکلی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رومی افواج کے اجتماع کے متعلق ملی تھی ۔ حالانکہ دراصل واقعہ یہ تھا کہ قیصر نے اجتماعِ افواج شروع کیا تھا ، لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تیاریاں مکمل ہونے سے پہلے ہی مقابلہ پر پہنچ گئے تو اس نے سرحد سے فوجیں ہٹا لینے کے سوا کوئی چارہ نہ پایا ۔ غزوہ مُوتہ میں ۳ ہزار اور ایک لاکھ کے مقابلہ کی جو شان وہ دیکھ چکا تھا اس کے بعد اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں جہاں ۳۰ ہزار فوج آ رہی ہو وہاں وہ لاکھ دو لاکھ آدمی لے کر میدان میں آجاتا ۔ قیصر کے یوں طرح دے جانے سے جو اخلاقی فتح حاصل ہوئی اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرحلے پر کافی سمجھا اور بجائے اس کے تبوک سے آگے بڑھ کر سرحد شام میں داخل ہوتے ، آپ نے اس بات کوترجیح دی کہ اس فتح سے انتہائی ممکن سیاسی و حربی فوائد حاصل کرلیں ۔ چنانچہ آپ نے تبوک میں ۲۰ دن ٹھیر کر ان بہت سی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو جو سلطنت روم اور دارالاسلام کے درمیان واقع تھیں اور اب تک رومیوں کے زیر اثر رہی تھیں ، فوجی دباؤ سے سلطنت اسلامی کا باجگذار اور تابع امر بنالیا ۔ اس سلسلہ میں دُومَۃ الجَندَل کے عیسائی رئِس اُکَیدربن عبدالمالک کِندی ، اَیلہ کے عیسائی رئیس یوحنّا بن رُؤبہ ، اور اسی طرح مَقنا ، جَرباء اور اَذرُح کے نصرانی رؤسا نے بھی جزیہ ادا کر کے مدینہ کی تابعیت قبول کی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی حدود اقتدار براہِ راست رومی سلطنت کی سرحد تک پہنچ گئے اور جن عرب قبائل کو قیاصرہ روم اب تک عرب کے خلا ف استعمال کرتے رہے تھے ، اب ان کا بیشتر حصہ رومیوں کے مقابلہ پر مسلمانوں کا معاون بن گیا ۔ پھر اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ سلطنت روم کے ساتھ ایک طویل کشمکش میں اُلجھ جانے سے پہلے اسلام کو عرب پر اپنی گرفت مضبوط کر لینے کا پورا موقع مل گیا ۔ تبوک کی اس فتح بلا جنگ نے عرب میں ان لوگوں کی کمر توڑ دی جو اب تک جاہلیت قدیمہ کے بحال ہونے کی آس لگائے بیٹھے تھے ، خواہ وہ علانیہ مشرک ہوں یا اسلام کے پردہ میں منافق بنے ہوئے ہوں ۔ اس آخری مایوسی نے ان میں سے اکثر و بیشتر کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہنے دیا کہ اسلام کے دامن میں پناہ لیں اور اگر خود نعمت ایمانی سے بہرہ ور نہ بھی ہوں تو کم از کم ان کی آئندہ نسلیں بالکل اسلام میں جذب ہو جائیں ۔ اس کے بعد جو ایک برائے نام اقلیت شرک و جاہلیت میں ثابت قدم رہ گئی ، وہ اتنی بے بس ہوگئی تھی کہ اس اصلاحی انقلاب کی تکمیل میں کچھ بھی مانع نہ ہو سکتی تھی جس کے لیے اللہ نے اپنے رسول کو بھیجا تھا ۔ مسائل و مباحث : اس پس منظر کو نگاہ میں رکھنے کے بعد ہم بآسانی ان بڑے بڑے مسائل کا احصاء کر سکتے ہیں جو اس وقت درپیش تھے اور جن سے سورہ توبہ میں تعرض کیا گیا ہے: ( ۱ ) اب چونکہ عرب کا نظم و نسق بالکلیہ اہل ایمان کے ہاتھ میں آگیا تھا اور تمام مزاحم طاقتیں بے بس ہو چکی تھیں ، اس لیے وہ پالیسی واضح طور پر سامنے آجانی چاہیے تھی جو عرب کو مکمل دارالاسلام بنانے کے لیے اختیار کرنی ضروری تھی ، چنانچہ وہ حسب ذیل صورت میں پیش کی گئی: الف ۔ عرب سےشرک کو قطعًا مٹا دیا جائے اور قدیم مشرکانہ نظام کا کلی استیصال کر ڈالا جائے تا کہ مرکز اسلام ہمیشہ کے لیے خالص اسلامی مرکز ہو جائے اور کوئی دوسرا عنصر اس کے اسلامی مزاج میں نہ تو خلل انداز ہو سکے اور نہ کسی خطرے کے موقع پر اندرونی فتنہ کا موجب بن سکے ۔ اسی غرض کے لیے مشرکین سے براءت اور ان کے ساتھ معاہدوں کے اختتام کا اعلان کیا گیا ۔ ب ۔ کعبہ کا انتظام اہل ایمان کے ہاتھ میں آجانے کے بعد یہ بالکل نامناسب تھا کہ جو گھر خالص خدا کی پرستش کے لیے وقف کیا گیا تھا اس میں بدستور شرک ہوتا رہے اور اس کی تَولِیَت بھی مشرکین کے قبضہ میں رہے ۔ اس لیے حکم دیا گیا کہ آئندہ کعبہ کی تولیت بھی اہل توحید کے قبضہ میں رہنی چاہیے اور بیت اللہ کے حدود میں شرک و جاہلیت کی تمام رسمیں بھی بزور بند کر دینی چاہییں ، بلکہ اب مشرکین اس گھر کے قریب پھٹکنے بھی نہ پائیں تا کہ اس بنائے ابراہیمی کے آلودہ شرک ہونے کا کوئی امکان باقی نہ رہے ۔ ج ۔ عرب کی تمدنی زندگی میں رسوم جاہلیت کے جو آثار ابھی تک باقی تھے ان کا جدید اسلامی دور میں جاری رہنا کسی طرح درست نہ تھا اس لیے ان کے استیصال کی طرف توجہ دلائی گئی ۔ نسی کا قاعدہ ان رسوم میں سب سے زیادہ بدنما تھا اس لیے اس پر براہِ راست ضرب لگائی گئی اور اسی ضرب سے مسلمانوں کو بتا دیا گیا کہ بقیہ آثار جاہلیت کے ساتھ انہیں کیا کرنا چاہیے ۔ ( ۲ ) عرب میں اسلام کا مشن پایہ تکمیل کو پہنچ جانے کے بعد دوسرا اہم مرحلہ جو سامنے تھا وہ یہ تھا کہ عرب کے باہر دین حق کا دائرہ اثر پھیلا جائے ۔ اس معاملہ میں روم و ایران کی سیاسی قوت سب سے بڑی سد راہ تھی اور ناگزیر تھا کہ عرب کے کام سے فارغ ہوتے ہی اس سے تصادم ہو ۔ نیز آگے چل کر دوسرے غیر مسلم سیاسی و تمدّنی نظاموں سے بھی اسی طرح سابقہ پیش آنا تھا ۔ اس لیے مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ عرب کے باہر جو لوگ دین حق کے پیرو نہیں ہیں ان کو خود مختارانہ فرماں روائی کو بزور شمشیر ختم کردو تا آنکہ وہ اسلامی اقتدار کے تابع ہو کر رہنا قبول کرلیں ۔ جہاں تک دین حق پر ایمان لانے کا تعلق ہے ان کو اختیار ہے کہ ایمان لائیں یا نہ لائیں ، لیکن ان کو یہ حق نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر اپنا حکم جاری کریں اور انسانی سوسائیٹیوں کی زمام کار اپنے ہاتھ میں رکھ کر اپنی گمراہیوں کو خلق خدا پر اور ان کی آنے والی نسلوں پر زبردستی مسلّط کرتے رہیں ۔ زیادہ سے زیادہ جس آزادی کے استعمال کا انہیں اختیار دیا جا سکتا ہے وہ بس اسی حد تک ہے کہ خود اگر گمراہ رہنا چاہتے ہیں تو رہیں ، بشرطیکہ جزیہ دے کر اسلامی اقتدار کے مطیع بنے رہیں ۔ ( ۳ ) تیسرا اہم مسئلہ منافقین کا تھا جن کا ساتھ اب تک وقتی مصالح کے لحاظ سے چشم پوشی و درگذر کا معاملہ کیا جا رہا تھا ۔ اب چونکہ بیرونی خطرات کا دباؤ کم ہو گیا تھا بلکہ گویا نہیں رہا تھا اس لیے حکم دیا گیا کہ آئندہ ان کے ساتھ کوئی نرمی نہ کی جائے اور وہی سخت برتاؤ ان چھپے ہوئے منکرین حق کے ساتھ بھی ہو جو کھلے منکرین حق کے ساتھ ہوتا ہے ۔ چنانچہ یہی پالیسی تھی جس کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کی تیاری کے زمانہ میں سُویلم کے گھر میں آگ لگوا دی جہاں منافقین کا ایک گروہ اس غرض سے جمع ہوتا تھا کہ مسلمانوں کو شرکت جنگ سے باز رکھنے کی کوشش کرے ، اور اسی پالیسی کے تحت تبوک سے واپس تشریف لاتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا کام یہ کیا کہ مسجد ضرار کو ڈھانے اور جلا دینے کا حکم دے دیا ۔ ( ٤ ) مومنین صادقین میں اب تک جو تھوڑا بہت ضعف عزم باقی تھا اس کا علاج بھی ضروری تھا ، کیونکہ اسلام عالمگیر جدوجہد کے مرحلے میں داخل ہونے والا تھا اور اس مرحلہ میں ، جبکہ اکیلے مسلم عرب کو پوری غیر مسلم دنیا سے ٹکرانا تھا ، ضعف ایمان سے بڑھ کر کوئی اندرونی خطرہ اسلامی جماعت کے لیے نہ ہو سکتا تھا ۔ اس لیے جن لوگوں نے تبوک کے موقع پر سستی اور کمزوری دکھائی تھی ان کو نہایت شدت کے ساتھ ملامت کی گئی ، پیچھے رہ جانے والوں کے اس فعل کو کہ وہ بلاعذرِ معقول پیچھے رہ گئے بجائے خود ایک منافقانہ طرزِ عمل ، اور ایمان میں ان کے ناراست ہونے کا ایک بین ثبوت قرار دیا گیا ، اور آئندہ کے لیے پوری صفائی کے ساتھ یہ بات واضح کر دی گئی کہ اعلائے کلمۃ اللہ کی جدوجہد اور کفر و اسلام کی کشمکش ہی وہ اصلی کسوٹی ہے جس پر مومن کا دعوائے ایمان پرکھا جائے گا ۔ جو اس آویزش میں اسلام کے لیے جان و مال اور وقت و محنت صرف کرنے سے جی چرائے گا اس کا ایمان معتبر ہی نہ گا اور اس پہلے کی کسر کسی دوسرے مذہبی عمل سے پوری نہ ہو سکے گی ۔ ان امور کر نظر میں رکھ کر سورہ توبہ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے تمام مضامین بآسانی سمجھ میں آسکتے ہیں ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :1 جیسا کہ ہم سورہ کے دیباچہ میں بیان کر چکے ہیں ، یہ خطبہ رکوع ۵ کے آخر تک سن ۹ ھجری میں اس وقت نازل ہوا تھا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حج کے لیے روانہ کر چکے تھے ۔ ان کے پیچھے جب یہ نازل ہوا تو صحابہ کرام نے حضور سے عرض کیا کہ اسے ابوبکر کو بھیج دیا جائے تا کہ وہ حج میں اس کو سنا دیں ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس اہم معاملہ کا اعلان میری طرف سے میرے ہی گھر کے کسی آدمی کو کرنا چاہیے ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس خدمت پر مامور کیا ، اور ساتھ ہی ہدایت فرمادی کہ حاجیوں کے مجمع عام میں اسے سنانے کے بعد حسب ذیل چار باتوں کا اعلان بھی کر دیں: ( ۱ ) جنت میں کوئی ایسا شخص داخل نہ ہوگا جو دین اسلام کو قبول کرنے سے انکار کر دے ۔ ( ۲ ) اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کے لیے نہ آئے ۔ ( ۳ ) بیت اللہ کے گرد برہنہ طواف کرنا ممنوع ہے ۔ ( ٤ ) جن لوگوں کے ساتھ رسول اللہ کا معاہدہ باقی ہے ، یعنی جو نقض عہد کے مرتکب نہیں ہوئے ہیں ، ان کے ساتھ مدتِ معاہدہ تک وفا کی جائے گی ۔ اس مقام پر یہ جان لینا ضروری بھی فائدے سے خالی نہ ہوگا کہ فتح مکہ کے بعد دور اسلامی کا پہلا حج سن ۸ ھجری میں قدیم طریقے پر ہوا ۔ پھر سن ۹ ھجری میں یہ دوسرا حج مسلمانوں نے اپنے طریقے پر کیا اور مشرکین نے اپنے طریقے پر ۔ اس کے بعد تیسرا حج سن ۱۰ ھجری میں خالص اسلامی طریقہ پر ہوا اور یہی وہ مشہور حج ہے جسے حجۃ الوداع کہتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلے دو سال حج کے لیے تشریف نہ لے گئے ۔ تیسرے سال جب بالکل شرک کا استیصال ہو گیا تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج ادا فرمایا ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :2 سورہ انفال آیت ۵۸ میں گزر چکا ہے کہ جب تمہیں کسی قوم سے خیانت ( نقضِ عہد اور غدّاری ) کا اندیشہ ہو تو علی الاعلان ان کا معاہدہ اس کی طرف پھینک دو اور اسے خبردار کردو کہ اب ہمارا تم سے کوئی معاہدہ باقی نہیں ہے ۔ اس اعلان کے بغیر کسی معاہد قوم کے خلاف جنگی کارروائی شروع کر دینا خود خیانت کا مرتکب ہونا ہے ۔ اسی ضابطہ اخلاقی کے مطابق معاہدات کی منسوخی کا یہ اعلان عام ان تمام قبائل کے خلا ف کیا گیا جو عہد و پیمان کے باوجود ہمیشہ اسلام کے خلاف سازشیں کرتے رہے تھے ، اور موقع پاتے ہی پاس عہد کو بالائے طاق رکھ کر دشمنی پر اتر آتے تھے ۔ یہ کیفیت بنی کنانہ اور بنی ضَمرہ اور شاید ایک آدھ اور قبیلہ کے سوا باقی تمام ان قبائل کی تھی جو اس وقت تک شرک پر قائم تھے ۔ اس اعلان براءت سے عرب میں شرک اور مشرکین کا وجود گویا عملًا خلاف قانون ( ) ہوگیا اور ان کے لیے سارے ملک میں کوئی جائے پناہ نہ رہی ، کیونکہ ملک کا غالب حصہ اسلام کے زیر حکم آچکا تھا ۔ یہ لوگ تو اپنی جگہ اس بات کے منتظر تھے کہ روم و فارس کی طرف سے اسلامی سلطنت کو جب کوئی خطرہ لاحق ہو ، یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاجائیں تو یکایک نقض عہد کر کے ملک میں خانہ جنگی برپا کر دیں ۔ لیکن اللہ اور اس کے رسول نے ان کی ساعت منتظرہ آنے سے پہلے ہی بساط ان پر اُلٹ دی اور اعلان براءت کر کے ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہ رہنے دیا کہ یا تو لڑنے پر تیار ہو جائیں اور اسلامی طاقت سے ٹکرا کر صفحہ ہستی سے مٹ جائیں ، یا ملک چھوڑ کر نکل جائیں ، یا پھر اسلام قبول کر کے اپنے آپ کو اور اپنے علاقہ کو اس نظم و ضبط کی گرفت میں دے دیں جو ملک کے بیشتر حصہ کو پہلے ہی منضبط کر چکا تھا ۔ اس عظیم الشان تدبیر کی پوری حکمت اسی وقت سمجھ میں آسکتی ہے جبکہ ہم اس فتنہ ارتداد کو نظر میں رکھیں جو اس واقعہ کے ڈیڑھ سال بعد ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ملک کے مختلف گوشوں میں برپا ہوا اور جس نے اسلام کے نو تعمیر قصر کو یکلخت متزلزل کر دیا ۔ اگر کہیں سن ۹ ھجری کے اس اعلان براءت سے شرک کی منظم طاقت ختم نہ کر دی گئی ہوتی اور پورے ملک پر اسلام کی قوت ضابطہ کا استیلاء پہلے ہی مکمل نہ ہو چکا ہوتا ، تو ارتداد کی شکل میں جو فتنہ حضرت ابو بکر کی خلافت کے آغاز میں اُٹھا تھا اس سے کم از کم دس گنی زیادہ طاقت کے ساتھ بغاوت اور خانہ جنگی کا فتنہ اٹھتا اور شاید تاریخ اسلام کی شکل اپنی موجودہ صورت سے بالکل ہی مختلف ہوتی ۔
سورۃ توبہ تعارف یہ بھی مدنی سورت ہے، اور حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہے۔ اپنے مضامین کے اعتبار سے یہ پچھلی سورت یعنی سورۃ انفال کا تکملہ ہے۔ غالبا اسی لیے عام سورتوں کے برخلاف اس سورت کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ نازل ہوئی، نہ لکھی گئی۔ اور اس کی تلاوت کا بھی قاعدہ یہ ہے کہ جو شخص پیچھے سورۃ انفال سے تلاوت کرتا چلا آرہا ہو، اسے یہاں بسم اللہ نہیں پڑھنی چاہیے، البتہ اگر کوئی شخص اسی سورت سے تلاوت شروع کر رہا ہو تو اس کو بسم اللہ پڑھنی چاہیے۔ اور بعض لوگوں نے اس سورت کے شروع میں بسم اللہ کے بجائے کچھ اور جملے پڑھنے کے لیے بنا رکھے ہیں، وہ بے بنیاد ہیں۔ اوپر جو طریقہ لکھا گیا ہے، وہی سلف صالحین کا طریقہ رہا ہے۔ یہ سورت فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی تھی۔ عرب کے بہت سے قبائل اس انتظار میں تھے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفار قریش کی جنگ کا انجام کیا ہوتا ہے ،۔ جب قریش نے حدیبیہ والا معاہدہ توڑ دیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا، اور کسی خاص خونریزی کے بغیر اسے فتح کرلیا۔ اس موقع پر کفار کی کمر ٹوٹ چکی تھی، ا لبتہ آخری تدبیر کے طور پر قبیلہ ہوازن نے ایک بڑا لشکر مسلمانوں سے مقابلے کے لیے جمع کیا جس سے حنین کی وادی میں آخری بڑی جنگ ہوئی، اور شروع میں معمولی ہزیمت کے بعد مسلمانوں کو اس میں بھی فتح ہوئی۔ اس جنگ کے بعض واقعات بھی اس سورت میں بیان ہوئے ہیں۔ اب عرب کے جو قبائل قریش کی وجہ سے اسلام قبول کرنے سے ڈرتے تھے، یا ان کی جنگوں کے آخری انجام کے منتظر تھے، ان کے دل سے اسلام کے خلا ہر رکاوٹ دور ہوگئی اور وہ جوق در جوق مدینہ منورہ آکر مسلمان ہوئے، اور اسی طرح جزیرہ عرب کے بیشتر علاقے پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جزیرہ عرب کو اسلام اور مسلمانوں کا بنیادی مرکز قرار دے دیا گیا۔ اصل منشا تو یہت ھا کہ پورے جزیرہ عرب میں کوئی بھی غیر مسلم مستقل باشندے کی حیثیت میں باقی نہ رہے، جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ جزیرہ عرب میں دو دین باقی نہ رہنے پائیں۔ (موطا امام مالک، کتاب الجامع و مسند احمد ج : ٦ ص : ٥٧٢) لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تدریج کا طریقہ اختیار فرمایا گیا۔ سب سے پہلا ہدف یہ مقرر فرمایا گیا کہ جزیرہ عرب کو بت پرستوں سے خالی کرایا جائے۔ چنانچہ جو بچے کھچے بت پرست عرب میں رہ گئے تھے، اور جنہوں نے بیس سال سے زیادہ مدت تک مسلمانوں کو وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایا تھا، ان کو اس سورت کے شروع میں مختلف مدتوں کی مہلت دی گئی جس میں اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو انہیں جزیرہ عرب چھوڑنے، ورنہ جنگ کا سامنا کرنے کے احکام دییے گئے ہیں، اور مسجد حرام کو بت پرستی کی ہر نشانی سے پاک کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس ہدف کے پورا ہونے کے بعد جزیرہ عرب کی مکمل صفائی کا دوسرا مرحلہ یہود و نصاری کو وہاں سے نکالنے کا تھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ میں یہ مرحلہ مکمل نہیں ہوسکا تھا، لیکن آپ نے اس کی وصیت فرما دی تھی، جیسا کہ آیت نمبر ٢٩ کے تحت اس کی وضاحت آنے والی ہے۔ اس سے پہلے روم کے بادشاہ نے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر ان پر حملہ کرنے کے لیے ایک بڑی فوج جمع کی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش قدمی کر کے اس کے مقابلے کے لیے تبوک تک تشریف لے گئے۔ اس سورت کا بہت بڑا حصہ اس مہم کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے۔ منافقین کی معاندانہ کارروائیاں مسلسل جاری تھی، اس سورت میں ان کی بدعنوانیوں کو بھی طشت ازبام کیا گیا ہے۔ اس سورت کو سورۃ توبہ بھی کہا جاتا ہے، اور سورۃ برائت بھی۔ برائت اس لیے کہ اس کے شروع میں مشرکین سے برائت اور دستبرداری کا اعلان کیا گیا ہے، اور توبہ اس لیے کہ اس میں بعض ان صحابہ کرام کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے جنہوں نے تبوک کی مہم میں حصہ نہیں لیا تھا، اور بعد میں اپنی اس غلطی پر توبہ کی تھی۔ ان آیتوں کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے وہ پس منظر جاننا ضروری ہے جو اس سورت کے تعارف میں اوپر بیان کیا گیا ہے، جزیرۂ عرب کو اسلام کا مرکز بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ کچھ عرصے کی مہلت کے بعد کوئی بت پرست مستقل طور پر جزیرۂ عرب میں نہیں رہ سکتا، چنانچہ ان آیات میں ان بچے کھچے مشرکین سے دستبرداری کا اعلان کیا گیا ہے جو ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے، اگرچہ یہ مشرکین وہ تھے جنہوں نے مسلمانوں کو ستانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، اور ان پر وحشیانہ ظلم ڈھائے تھے، لیکن جزیرۂ عرب سے نکلنے کے لئے مختلف مہلتیں دی گئی ہیں جن کی تفصیل ان آیتوں میں آئی ہے، ان مشرکین کی چار قسمیں تھیں : (الف) پہلی قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ مسلمانوں نے جنگ بندی کا معاہدہ نہیں کیا ہوا تھا، ایسے مشرکین کو چار مہینے کی مہلت دی گئی کہ ان چار مہینوں میں وہ اگر اسلام لانا چاہتے ہیں تو اسلام لے آئیں، اور اگر جزیرۂ عرب سے باہر کہیں جانا چاہیں تو اس کا انتظام کرلیں، اگر یہ دونوں کام نہ کرسکیں توان کے خلاف ابھی سے اعلان کردیا گیا ہے کہ ان کو جنگ کا سامنا کرنا ہوگا۔ (ترمذی، کتاب الحج، حدیث نمبر : ٨٧١)۔ (ب) دوسری قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ توتھا لیکن اس کی کوئی مدت متعین نہیں تھی، ان کے بارے میں بھی اعلان کردیا گیا کہ اب وہ معاہدہ چار مہینے تک جاری رہے گا، اس دوران ان کو بھی وہی کام کرنے ہوں گے جن کا ذکر پہلی قسم کے بارے میں کیا گیا، سورۂ توبہ کی پہلی اور دوسری آیت ان دو قسموں سے متعلق ہے۔ (ج) تیسری قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاہدہ تو کیا تھا ؛ لیکن انہوں نے بد عہدی کی، اور وہ معاہدہ توڑدیا، جیسے کفار قریش کے ساتھ حدیبیہ میں معاہدہ ہوا تھا ؛ لیکن انہوں نے اس کی خلاف ورزی کی، اور اسی کی بنا پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ پر حملہ کرکے اسے فتح کرلیا تھا، ان لوگوں کو کوئی مزید مہلت تو نہیں دی گئی ؛ لیکن چونکہ دست برداری کا یہ اعلان حج کے موقع پر کیا گیا تھا جو خود حرمت والے مہینے میں ہوتا ہے، اور اس کے بعد محرم کا مہینہ بھی حرمت والا ہے، اور اس میں جنگ کرنا جائز نہیں ہے، اس لئے ان کو محرم کے آخر تک مہلت مل گئی، انہی کے بارے میں آیت نمبر : ٥ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ حرمت والے مہینوں کے گزر جانے کے بعد اگر یہ، نہ ایمان لائیں اور نہ جزیرۂ عرب سے باہر جائیں توان کو قتل کردیا جائے گا۔ (د) چوتھی قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ کسی خاص مدت تک کے لئے مسلمانوں نے جنگ بندی کا معاہدہ کر رکھا تھا، اور انہوں نے کوئی بد عہدی بھی نہیں کی تھی اسیے لوگوں کے بارے میں آیت نمبر : ٤ میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ان کے معاہدے کی جتنی بھی مدت باقی ہے اس کو پورا کیا جائے، اور اس پوری مدت میں ان کے ساتھ کسی قسم کا تعرض نہ کیا جائے، مثلاً قبیلہ کنانہ کے دوچھوٹے قبیلے بنو ضمر اور بنو مدلج کے ساتھ آپ کا ایسا ہی معاہدہ تھا، اور ان کی طرف سے کوئی بد عہدی سامنے نہیں آئی تھی، ان کے معاہدہ کی مدت ختم ہونے میں اس وقت نو مہینے باقی تھے ؛ چنانچہ ان کو نو مہینے کی مہلت دی گئی۔ ان چاروں قسم کے اعلانات کو براءت یا دستبرداری کے اعلانات کہا جاتا ہے۔