Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 یہ اعلان نجات ان مشرکین کے لئے تھا جن سے غیرموقت معاہدہ تھا یا چار مہینے سے کم تھا یا چار مہینوں سے زیادہ ایک خاص مدت تک تھا لیکن ان کی طرف سے عہد کی پاسداری کا اہتمام نہیں تھا۔ ان سب کو چار مہینے مکہ میں رہنے کی اجازت دی گئی۔ اس کا مطلب یہ تھا اس مدت کے اندر اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو انہیں یہاں رہنے کی اجازت ہوگی۔ بصورت دیگر ان کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ چار مہینے کے بعد جزیرہ، عرب سے نکل جائیں، اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی اختیار نہیں کریں گے تو حربی کافر شمار ہونگے، جن سے لڑنا مسلمانوں کے لئے ضروری ہوگا تاکہ جزیرہ عرب کفر و شرک کی تاریکیوں سے صاف ہوجائے۔ 2۔ 2 یعنی یہ مہلت اس لئے نہیں دی جا رہی ہے کہ فی الحال تمہارے خلاف کاروائی ممکن نہیں ہے بلکہ اس سے مقصد صرف تمہاری بھلائی اور خیر خواہی ہے تاکہ جو توبہ کر کے مسلمان ہونا چاہے، وہ مسلمان ہوجائے، ورنہ یاد رکھو کہ تمہاری بابت اللہ کی جو تقدیر و مشیت ہے، اسے ٹال نہیں سکتے اور اللہ کی طرف سے مسلط ذلت و رسوائی سے تم بچ نہیں سکتے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَسِيْحُوْا فِي الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ : یہ اللہ تعالیٰ کا مزید کرم تھا کہ مشرکین کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے چار ماہ کی مہلت دی گئی، جس کی ابتدا ١٠ ذوالحجہ یوم النحر سے ہوئی، کیونکہ اس دن یہ اعلان کیا گیا اور ١٠ ربیع الثانی کو یہ مدت ختم ہوگئی۔ اس مہلت کا مقصد یہ تھا کہ وہ اتنی مدت میں اپنے بارے میں خوب سوچ سمجھ لیں، پھر یا تو مسلمان ہوجائیں یا سر زمین عرب سے باہر کسی ملک میں اپنا ٹھکانا بنالیں۔ اگر وہ اس کے بعد بھی باقی رہیں تو انھیں پکڑ کر، گھیر کر، گھات لگا کر جیسے بھی ممکن ہو قتل کردیا جائے۔ یہ چار ماہ کی مدت ان لوگوں کے لیے تھی جن سے معاہدے کی مدت چار ماہ سے کم باقی تھی، یا معاہدہ تو زیادہ مدت کا تھا مگر انھوں نے اس کی خلاف ورزی کی تھی، یا مدت کے تعین کے بغیر معاہدہ تھا، البتہ وہ قبائل جن سے کسی خاص مدت تک معاہدہ تھا اور انھوں نے معاہدے کی کسی قسم کی مخالفت بھی نہ کی تھی ان کا عہد ان کی مدت تک پورے کرنے کا حکم دیا گیا، فرمایا : (فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ ) [ التوبۃ : ٤ ] ” تو ان کے ساتھ ان کا عہد ان کی مدت تک پورا کرو۔ “ - وَّاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ : مشرکوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ مہلت مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ سے نہیں دی گئی بلکہ اس میں کئی حکمتیں ہیں، ورنہ تم لوگ کبھی بھی اللہ تعالیٰ کو عاجز کرنے والے نہیں، اگر تم کفر پر قائم رہے تو خوب جان لو کہ اللہ تعالیٰ کافروں کو ذلیل و رسوا کرنے والا ہے۔ دیکھیے سورة انفال کی آیت (٥٩) کے حواشی۔ غرض صرف بیت اللہ ہی نہیں پورے جزیرۂ عرب کو مشرکین کے نجس وجود سے پاک کردیا گیا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف ومسائل - سورة براءت شروع ہو رہی ہے جس کو سورة توبہ بھی کہا جاتا ہے۔ براءت اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں کفار سے براءت کا ذکر ہے اور توبہ اس لئے کہ اس میں مسلمانوں کی توبہ قبول ہونے کا بیان ہے ( مظہری) اس سورت کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ مصاحف قرآن میں اس سورت کے شروع میں بسم اللہ نہیں لکھی جاتی اس کے سوا تمام قرآنی سورتوں کے شروع میں بسم اللہ لکھی جاتی ہے۔ اس کی وجہ معلوم کرنے سے پہلے یہ جان لینا چاہئے کہ قرآن مجید تئیس سال کے عرصہ میں تھوڑا تھوڑا نازل ہوا ہے ایک ہی سورت کی آیتیں مختلف اوقات میں نازل ہوئیں، جبریل امین جب وحی لے کر آتے تو ساتھ ہی بحکم الہی یہ بھی بتلاتے تھے کہ یہ آیت فلاں سورت میں فلاں آیت کے بعد رکھی جائے۔ اسی کے مطابق رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاتبین وحی کو ہدایت فرما کر لکھوا دیتے تھے۔- اور جب ایک سورت ختم ہو کر دوسری سورت شروع ہوتی تھی تو سورت شروع ہونے سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم نازل ہوتی تھی جس سے یہ سمجھ لیا جاتا تھا کہ پہلی سورت ختم ہوگئی اب دوسری سورت شروع ہو رہی ہے۔ قرآن مجید کی تمام سورتوں میں ایسا ہی ہوا۔ سورة توبہ نزول کے اعتبار سے بالکل آخری سورتوں میں سے ہے۔ اس کے شروع میں عام دستور کے مطابق نہ بسم اللہ نازل ہوئی اور نہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کاتب وحی کو اس کی ہدایت فرمائی۔ اسی حال میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی۔- جامع قرآن حضرت عثمان غنی (رض) نے اپنی خلافت کے عہد میں جب قرآن مجید کو کتابی صورت میں ترتیب دیا تو سب سورتوں کے خلاف سورة توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہ تھی اس لئے یہ شبہ ہوگیا کہ شاید یہ کوئی مستقل سورت نہ ہو بلکہ کسی دوسری سورت کا جز ہو۔ اب اس کی فکر ہوئی کہ اگر یہ کسی دوسری سورت کا جزء ہوتا وہ کونسی سورت ہوسکتی ہے۔ مضامین کے اعتبار سے سورة انفال اس کے مناسب معلوم ہوئی۔- اور حضرت عثمان سے ایک روایت میں یہ بھی منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ان دونوں سورتوں کو قرینتین یعنی ملی ہوئی کہا جاتا تھا۔ ( مظہری) اس لئے سورة انفال کے بعد اس کو رکھ دیا گیا یہ احتیاط تو اس لئے کی گئی کہ دوسری سورت کا جز ہو تو اس کے ساتھ رہنا چاہئے مگر احتمال یہ بھی تھا کہ علیحدہ مستقل سورت ہو اس لئے لکھنے میں یہ سورت اختیار کی گئی کہ سورة انفال کے ختم پر سورة توبہ کے شروع سے پہلے کچھ جگہ خالی چھوڑ دی گئی جیسے عام سورتوں میں بسم اللہ کی جگہ ہوتی ہے۔- سورة براءت یا توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہ لکھے جانے کی یہ تحقیق خود جامع قرآن حضرت عثمان سے ابوداؤد، نسائی، مسند امام احمد، ترمذی میں مفسر القرآن حضرت عبداللہ بن عباس کے ایک سوال کے جواب میں منقول ہے۔ اس سوال میں حضرت ابن عباس نے حضرت عثمان غنی سے یہ بھی استفسار کیا تھا کہ قرآن کی سورتوں کی جو ترتیب قائم کی گئی ہے کہ سب سے پہلے بڑی سورتیں رکھی گئیں جن میں سو آیتوں سے زیادہ ہوں جن کو اصطلاح میں مِئین کہا جاتا ہے اس کے بعد وہ بڑی سورتیں رکھی گئی ہیں جن میں سو سے کم آیات ہیں جن کو مثانی کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد چھوٹی سورتیں رکھی گئی ہیں جن کو مفصلات کہا جاتا ہے۔ اس ترتیب کا بھی تقاضا یہ ہے کہ سورة توبہ کو سورة انفال سے پہلے رکھا جائے کیونکہ سورة توبہ کی آیتیں سو سے زائد اور انفال کی سو سے کم ہیں۔ شروع کی سات طویل سورتیں جن کو سبع طوال کہا جاتا ہے اس میں بھی بجائے انفال کے سورة توبہ ہی زیادہ مناسب ہے۔ اس کے خلاف کرنے میں کیا مصلحت ہے۔ حضرت عثمان غنی نے فرمایا کہ یہ سب باتیں صحیح ہیں لیکن قرآن کے معاملہ میں احتیاط کا مقتضی وہی ہے جو اختیار کیا گیا۔ کیونکہ اگر سورة توبہ مستقل سورت نہ ہو بلکہ سورة انفال کا جز ہو تو یہ ظاہر ہے کہ سورة انفال کی آیات پہلے نازل ہوئی ہیں اور توبہ کی اس کے بعد۔ اس لئے ان کو انفال کی آیات پر مقدم کرنا بغیر وحی کے جائز نہیں اور وحی میں ہمیں کوئی ایسی ہدایت نہیں ملی اس لئے انفال کو مقدم اور توبہ کو موخر کیا گیا۔- اس تحیقیق سے یہ معلوم ہوگیا کہ سورة توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا احتمال ہے کہ سورة توبہ علیحدہ سورت نہ ہو بلکہ انفال کا جز ہو اس احتمال پر یہاں بسم اللہ لکھنا ایسا نادرست ہوگا جیسے کوئی شخص کس سورت کے درمیان بسم اللہ لکھ دے۔- اسی بنا پر حضرات فقہاء نے فرمایا ہے کہ جو شخص اوپر سے سورة انفال کی تلاوت کرتا آیا ہو اور سورة توبہ شروع کر رہا ہو وہ بسم اللہ نہ پڑھے۔ لیکن جو شخص اسی سورت کے شروع یا درمیان سے اپنی تلاوت شروع کر رہا ہے اس کو چاہئے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر شروع کرے بعض ناواقف یہ سمجھتے ہیں کہ سورة توبہ کی تلاوت میں کسی حال بسم اللہ پڑھنا جا ئز نہیں یہ غط ہے اور اس پر دوسری غلطی یہ ہے کہ بجائے بسم اللہ کے یہ لوگ اس کے شروع میں اعوذ باللہ من النار پڑھتے ہیں جس کا کوئی ثبوت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام سے نہیں ہے۔ اور حضرت علی کرم اللہ وجہ سے جو بروایت ابن عباس یہ منقول ہے کہ سورة براءت کے شروع میں بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم امان ہے اور سورة براءت میں کفار کے امان اور عہد و پیمان کو ختم کیا گیا ہے۔ سو یہ ایک نکتہ اور لطیفہ ہے جو اصلی سبب کے منافی نہیں۔ یعنی اصلی سبب تو یہی ہے کہ سورة انفال اور توبہ کے ایک ہونے کے احتمال کی بنا پر بسم اللہ نہیں لکھی گئی پھر اس نہ لکھے جانے کا ایک لطیفہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سورت میں کفار سے براءت اور رفع امان مذکور ہے جو بسم اللہ کے مناسب نہیں اس لئے تکوینی طور پر یہاں ایسے اسباب پیدا کردیئے گئے کہ بسم اللہ یہاں نہ لکھی جائے۔- سورة توبہ کی آیات مذکورہ کو پورے طور پر سمجھنے کے لئے چند واقعات کا جاننا ضروری ہے جن کے سبب سے یہ آیات نازل ہوئی ہیں اس لئے پہلے ان واقعات کی مختصر تفصیل لکھی جاتی ہے۔ - (١) پوری سورة توبہ میں چند غزوات اور ان سے متعلقہ واقعات کا اور ان کے ضمن میں بہت سے احکام و مسائل کا بیان ہوا ہے۔ مثلا تمام قبائل عرب سے معاہدات کا ختم کردینا فتح مکہ غزوہ حنین۔ غزوہ تبوک۔ ان واقعات میں فتح مکہ سب سے پہلے ٨ ہجری میں پھر غزوہ حنین اسی سال میں پھر غزوہ تبوک رجب ٩ ہجری میں پھر تمام قبائل عرب سے معاہدات ختم کرنے کا اعلان ذی الحجہ ٩ ہجری میں ہوا۔- ( ٢) نبذ عہد یعنی معاہدات ختم کردینے کے متعلق جو مضامین ان آیات میں مذکور ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ٦ ہجری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرہ کا قصد فرمایا اور قریش مکہ نے آپ کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیا اور مقام حدیبیہ میں ان سے صلح ہوئی۔ اس صلح کی میعاد روح المعانی کی نقل کے مطابق دس سال کی تھی۔ مکہ میں علاوہ قریش کے دوسرے قبائل بھی تھے معاہدہ صلح کی ایک دفعہ یہ بھی رکھی گئی کہ قریش کے علاوہ دوسرے قبائل میں جس کا جی چاہے وہ قریش کا حلیف اور ساتھی بن جائے اور جس کا جی چاہے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حلیف ہو کر آپ کے ساتھ ہوجائے۔ چناچہ قبیلہ خزاعہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حلیف بننا پسند کیا اور آپ کے ساتھ ہوگئے اور قبیلہ بنی بکر نے قریش کے ساتھ ہونا اختیار کرلیا۔ اس معاہدہ کی رو سے یہ لازمی تھا کہ دس سال کے اندر نہ باہمی جنگ ہوگی نہ کسی جنگ کرنے والے کو کسی جانب سے کوئی مدد دی جائے گی اور جو قبیلہ کسی فریق کا حلیف ہے وہ بھی اسی کے حکم میں سمجھا جائے گا کہ اس پر حملہ کرنا یا حملہ آور کو مدد دینا معاہدہ کی خلاف ورزی سمجھا جائے گا۔- یہ معاہدہ ٦ ہجری میں ہوا ٧ ہجری میں معاہدہ کے مطابق رسول اللہ کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مع صحابہ کرام کے فوت شدہ عمرہ کی قضاء کرنے کے لئے مکہ معظمہ تشریف لے گئے اور تین روز قیام کرکے حسب معاہدہ واپس تشریف لے آئے۔ اس وقت تک کسی فریق کی طرف سے معاہدہ صلح کی کوئی خلاف ورزی نہ تھی۔- اسے کے بعد پانچ چھ ماہ گزرے تھے کہ قبیلہ بنی بکر نے قبیلہ خزاعہ پر رات کے وقت چھاپہ مارا اور قریش نے بھی یہ سمجھ کر کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت دور ہیں اور رات کا وقت ہے آپ تک واقعہ کی تفصیلات پہنچنا مشکل ہے اس حملہ میں بنی بکر کو ہتھیاروں اور اپنے جوانوں سے امداد دی۔- ان واقعات اور حالات کے مطابق جن کو بالآخر قریش نے بھی تسلیم کرلیا وہ معاہدہ صلح ٹوٹ گیا جو حدیبیہ میں دس سال کے التواء جنگ کا ہوا تھا۔- قبیلہ خزاعہ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلیف تھے انہوں نے اس واقعہ کی اطلاع آپ کو دے دی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کی عہد شکنی کی خبر پاکر قریش کے خلاف جنگ کی خفیہ تیاری شروع کردی۔- قریش کو بدر و اُحُد اور احزاب کے معرکوں میں مسلمانوں کی غیبی اور ربانی طاقت کا اندازہ ہو کر اپنی قوت و طاقت کا نشہ اتر چکا تھا اس وقت عہد شکنی کرنے کے بعد مسلمانوں کی طرف سے جنگ کا خطرہ تو پیدا ہو ہی چکا تھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع پہنچنے کے بعد مکمل خاموشی سے یہ خطرہ اور زیادہ قوی ہوگیا۔ مجبور ہو کر ابو سفیان کو مدینہ بھیجا کہ وہ خودجا کر حالات کا اندازہ لگائیں اور اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے جنگ کی تحریک کا اندازہ ہو تو پچھلے واقعہ پر عذر و معذرت کرکے آئندہ کے لئے تجدید معاہدہ کرلیں۔ ابو سفیان کو مدینہ پہنچ کر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جنگی تیاریوں کا کچھ علم ہوا تو پریشان ہو کر اکابر صحابہ میں سے ایک ایک کے پاس گئے کہ وہ سفارش کرکے معاہدہ کی تجدید کرادیں مگر سب نے ان کے سابقہ اور لاحقہ تلخ معاملات کے سبب انکار کردیا۔ اور ابو سفیان ناکام واپس آئے۔ قریش مکہ پر خوف و ہراس طاری ہوگیا۔- ادھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حسب روایت بدایتہ و ابن کثیر ١٠ رمضان ٨ ہجری کو مدینہ طیبہ سے صحابہ کرام کی بڑی جمعیت کے ساتھ مکہ پر حملہ کرنے کے قصد سے کوچ فرمایا۔ اور بالآخر مکہ مکرمہ فتح ہوگیا۔- فتح مکہ کے وقت مغلوب دشمنوں کے ساتھ بےنظیر کریمانہ سلوک :- فتح کے وقت بہت سے رؤ ساء قریش جو پہلے سے اسلام کی حقانیت کا یقین رکھتے تھے مگر برادری کے خوف سے اظہار نہ کرسکتے تھے اب ان کو موقع مل گیا وہ مشرف باسلام ہوگئے۔ اور جو اس وقت بھی اپنے قدیم مذہب کفر پر جمے رہے ان کو بھی بجز معدودے چند افراد کے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب کو جان و مال کا امان دے کر پیغمبرانہ اور معجزانہ اخلاق کا وہ ثبوت دیا جس کا دوسرے لوگوں سے تصور بھی نہیں ہوسکتا ان کی تمام گذشتہ عداوتوں اور مظالم اور بےرحمی کے واقعات کو یکسر نظر انداز فرما کر ارشاد فرمایا کہ میں آج تم سے وہی بات کہتا ہوں جو یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں سے اس وقت کہی تھی جب کہ وہ والدین کے ساتھ یوسف (علیہ السلام) کے پاس مصر پہنچے تھے۔ (آیت) لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۔ یعنی تمہارے ظلم و جور کا انتقام لینا یا کوئی سزا دینا تو کیا ہم تم کو ملامت کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔- فتح مکہ کے وقت مشرکین کی چار قسمیں اور ان کے احکام :- بہرحال اس وقت مکہ پر مسلمانوں کا مکمل قبضہ ہوگیا مکہ اور اطراف مکہ میں رہنے والے غیر مسلموں کو جان و مال کا امان دے دیا گیا۔ لیکن اس وقت ان غیر مسلموں کے مختلف حالات تھے۔ ایک قسم تو وہ لوگ تھے جن سے حدیبیہ میں صلح کا معاہدہ ہوا اور انہوں نے خود اس کو توڑ دیا اور وہی فتح مکہ کا سبب ہوا۔ دوسرے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن سے صلح کا معاہدہ کسی خاص میعاد کے لئے کیا گیا اور وہ اس معاہدہ پر قائم رہے جیسے بنی کنانہ کے دو قبیلے بنی ضمرہ اور بنی مدلج جن سے ایک مدت کے لئے صلح ہوئی تھی اور سورة براءت نازل ہونے کے وقت بقول خازن ان کی میعاد صلح کے نو مہینے باقی تھے۔ تیسرے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن سے معاہدہ صلح بغیر تعیین مدت کے ہوا تھا۔ چوتھے وہ لوگ تھے جن سے کسی قسم کا معاہدہ نہ تھا۔- فتح مکہ سے پہلے جتنے مشرکین یا اہل کتاب سے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاہدات کئے ان سب کا یہ تلخ تجربہ مسلسل ہوتا رہا کہ انھوں نے خفیہ اور علانیہ عہد شکنی کی اور دشمنوں سے سازش کرکے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی مقدور بھر پوری کوششیں کیں۔ اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے مسلسل تجربہ اور اشارات الٰہیہ کے ماتحت یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ آئندہ ان میں سے کسی کے ساتھ کوئی معاہدہ صلح نہ کیا جائے گا۔ اور جزیرة العرب کو ایک اسلامی قلعہ کی حیثیت سے صرف مسلمانوں کے لئے مخصوص کردیا جائے گا جس کا مقتضی یہ تھا کہ مکہ اور جزیرة العرب پر اقتدار حاصل ہوتے ہی اعلان کردیا جاتا کہ غیر مسلم یہاں سے دوسری جگہ منتقل ہوجائیں۔ لیکن اسلام کے اصول عدل و انصاف اور رحیمانہ سلوک اور رحمۃ للعالمین کی رحمت عامہ کے ماتحت بلا مہلت کے ایسا کرنا مناسب نہ تھا۔ اس لئے سورة براءت کے شروع میں ان چاروں قسم کی غیر مسلم جماعتوں کے جدا جدا احکام نازل ہوئے۔- پہلی جماعت جو قریش مکہ کی تھی جنہوں نے میثاق حدیبیہ کو خود توڑ دیا تھا اب یہ کسی مزید مہلت کے مستحق نہ تھے مگر چونکہ یہ زمانہ اشہر حرم کا زمانہ تھا جن میں جنگ و قتال منجانب اللہ ممنوع تھا اس لئے ان کے متعلق تو وہ حکم آیا جو سورة توبہ کی پانچویں آیت میں مذکور ہے (آیت) فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ ، جس کا حاصل یہ تھا کہ ان لوگوں نے عہد شکنی کرکے اپنا کوئی حق باقی نہیں چھوڑا مگر اشھر حرم کا احترام بہرحال ضروری ہے اس لئے اشھر حرم ختم ہوتے ہی یا وہ جزیرة العرب سے نکل جائیں یا مسلمان ہوجائیں ورنہ ان سے جنگ کی جائے۔- اور دوسری جماعت جن سے کسی خاص میعاد کے لئے معاہدہ صلح کیا گیا اور وہ اس پر قائم رہے ان کا حکم سورة توبہ کی چوتھی آیت میں یہ آیا۔ (آیت) اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّلَمْ يُظَاهِرُوْا عَلَيْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ ۔ یعنی وہ مشرک لوگ جن سے تم نے معاہدہ صلح کرلیا پھر انہوں نے معاہدہ پر قائم رہنے میں کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے مقابلہ میں تھمارے کسی دشمن کی مدد کی تو تم ان کے معاہدہ کو اس کی مدت تک پورا کردو کیونکہ اللہ تعالیٰ احتیاط رکھنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔ یہ حکم بنو ضمرہ اور بنو مدلج کا تھا جس کی رو سے ان کو نو مہینے کی مہلت مل گئی۔- اور تیسری اور چوتھی دونوں جماعتوں کا ایک ہی حکم آیا جو سورة توبہ کی پہلی اور دوسری آیت میں مذکور ہے۔ (آیت) بَرَاۗءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ اِلَى الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ۝ۭفَسِيْحُوْا فِي الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ مُخْزِي الْكٰفِرِيْنَ ۔ یعنی اعلان دست برداری اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے ہے ان مشرکین کے لئے جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا سو تم لوگ اس سرزمین میں چار مہینے چل پھر لو۔ اور یہ جان رکھو کہ تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے اور یہ کہ بیشک اللہ تعالیٰ کافروں کو رسوا کریں گے۔- غرض پہلی دوسری آیتوں کی رو سے ان سب لوگوں کو جن سے بلا تعیین مدت کوئی معاہدہ تھا یا جن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ تھا چار مہینے کی مہلت مل گئی۔- اور چوتھی آیت کی رو سے ان لوگوں کو تا اختتام معاہدہ مہلت مل گئی جن کے ساتھ کسی خاص میعاد کا معاہدہ تھا اور پانچویں آیت سے مشرکین مکہ کو اشھر حرم ختم ہونے تک مہلت مل گئی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَسِيْحُوْا فِي الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللہِ۝ ٠ ۙ وَاَنَّ اللہَ مُخْزِي الْكٰفِرِيْنَ۝ ٢- ساح - السَّاحَةُ : المکان الواسع، ومنه : سَاحَةُ الدّار، قال : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ [ الصافات 177] ، والسَّائِحُ : الماء الدّائم الجرية في ساحة، وسَاحَ فلان في الأرض : مرّ مرّ السائح قال : فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ [ التوبة 2] ، ورجل سائح في الأرض وسَيَّاحٌ ، وقوله : السَّائِحُونَ- [ التوبة 112] ، أي : الصائمون، وقال : سائِحاتٍ [ التحریم 5] ، أي : صائمات، قال بعضهم : الصّوم ضربان : حكميّ ، وهو ترک المطعم والمنکح، وصوم حقیقيّ ، وهو حفظ الجوارح عن المعاصي کالسّمع والبصر واللّسان، فَالسَّائِحُ : هو الذي يصوم هذا الصّوم دون الصّوم الأوّل، وقیل : السَّائِحُونَ هم الذین يتحرّون ما اقتضاه قوله : أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِها أَوْ آذانٌ يَسْمَعُونَ بِها [ الحج 46] .- ( س ی ح ) الساحتہ کے معنی فراخ جگہ کے ہیں اسی اعتبار سے مکان کے صحن کو ساحتہ الدار کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ [ الصافات 177] مگر جب وہ ان کے میدان میں اترے گا ۔ اور وسیع مکان میں ہمیشہ جاری رہنے والے پانی کو سائح کہا جاتا ہے اور ساح فلان فی الارض کے معنی پانی کی طرح زمین میں چکر کاٹنا کے ہیں قرآن میں ہے فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ [ التوبة 2] تو ( مشرکو تم ) زمین میں چار مہینے چل پھر لو ۔ اور اسی سے ہمیشہ سفر کرنے والے آدمی کو سائح یا سیاح کہا جاتا ہے ۔ اور آیت السَّائِحُونَ [ التوبة 112] روزہ رکھنے والے ۔ میں سائحون بمعنی کے ہے ۔ اسی طرح السائحات روازی رکھنے واکئ عورتیں مراد ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ روزہ دوقسم پر ہے ایک حقیقی روزہ جو کھانے پینے اور جماع کو ترک کرنے سے عبارت ہوتا ہے اور دوسرا روزہ حکمی ہے ۔ جو کہ جوارح یعنی انکھ کان ور زبان وغیرہ کو معاصی سے روکنے کا نام ہے ۔ تو سائیحون سے دوسری قسم کے روزہ دار مراد ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ سائحون سے وہ لوگ مراد ہیں جو آیت : أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِها أَوْ آذانٌ يَسْمَعُونَ بِها [ الحج 46] . کیا ان لوگوں کے ملک میں سیر نہیں کہ تاکہ ان کے دل ( ایسے ) ہوتے کہ ان سے سمجھ سکتے اور کان ( ایسے ) ہوتے کہ ان سے سن سکتے ۔ کے مقتضیٰ کے تحت زمین میں سفر کرتے ہیں ( یعنی قدرت الہی کے آثار وعجائبات دیکھتے اور ان پر غور وفکر کرتے رہتے ہیں ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - شهر - الشَّهْرُ : مدّة مَشْهُورَةٌ بإهلال الهلال، أو باعتبار جزء من اثني عشر جزءا من دوران الشمس من نقطة إلى تلک النّقطة . قال تعالی: شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185] ، - ( ش ھ ر ) الشھر ( مہینہ ) وہ مدت معینہ جو چاند کے ظہور سے شروع ہوتی ہے ۔ یا دوران شمس کے بارہ - حصوں میں سے ایک حصہ کا نام ہے جو ایک نقطہ سے شروع ہو کر دوسرے نقطہ پر ختم ہوجاتا ہے قرآن میں ہے :۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185]( روزوں کا مہینہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل كيا گيا هے۔ - غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - عجز - عَجُزُ الإنسانِ : مُؤَخَّرُهُ ، وبه شُبِّهَ مُؤَخَّرُ غيرِهِ. قال تعالی: كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر 20] ، والعَجْزُ أصلُهُ التَّأَخُّرُ عن الشیء، وحصوله عند عَجُزِ الأمرِ ، أي : مؤخّره، كما ذکر في الدّبر، وصار في التّعارف اسما للقصور عن فعل الشیء، وهو ضدّ القدرة . قال تعالی: أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ [ المائدة 31] ، وأَعْجَزْتُ فلاناً وعَجَّزْتُهُ وعَاجَزْتُهُ : جعلته عَاجِزاً. قال : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة 2] ، وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ [ الشوری 31] ، وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ الحج 51] ، وقرئ : معجزین فَمُعَاجِزِينَ قيل : معناه ظانّين ومقدّرين أنهم يُعْجِزُونَنَا، لأنهم حسبوا أن لا بعث ولا نشور فيكون ثواب و عقاب، وهذا في المعنی کقوله : أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ أَنْ يَسْبِقُونا [ العنکبوت 4] ، و «مُعَجِّزِينَ» : يَنسُبُون إلى العَجْزِ مَن تَبِعَ النبيَّ صلّى اللہ عليه وسلم، وذلک نحو : جهّلته وفسّقته، أي : نسبته إلى ذلك . وقیل معناه :- مثبّطين، أي : يثبّطون الناس عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم کقوله : الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف 45] ، وَالعَجُوزُ سمّيت لِعَجْزِهَا في كثير من الأمور . قال تعالی: إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات 135] ، وقال : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود 72] .- ( ع ج ز ) عجز الانسان - عجز الانسان ۔ انسان کا پچھلا حصہ تشبیہ کے طور ہر چیز کے پچھلے حصہ کو عجز کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر 20] جیسے کھجوروں کے کھو کھلے تنے ۔ عجز کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانا یا اس کے ایسے وقت میں حاصل ہونا کے ہیں جب کہ اسکا وقت نکل جا چکا ہو جیسا کہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر بولا جاتا ہے اور یہ القدرۃ کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ [ المائدة 31] اے ہے مجھ سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ میں ۔۔۔۔ ۔ اعجزت فلانا وعجزتہ وعاجزتہ کے معنی کسی کو عاجز کردینے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة 2] اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہیں کرسکو گے ۔ وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ [ الشوری 31] اور تم زمین میں خدا کو عاجز نہیں کرسکتے ۔ وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ الحج 51] اور جہنوں نے ہماری آیتوں میں کوشش کی کہ ہمیں ہرادیں گے ۔ ایک قرات میں معجزین ہے معاجزین کی صورت میں اس کے معنی ہوں گے وہ یہ زعم کرتے ہیں کہ ہمیں بےبس کردیں گے کیونکہ وہ یہ گمان کرچکے ہیں کہ حشر ونشر نہیں ہے کہ اعمال پر جذا وسزا مر تب ہو لہذا یہ باعتبار معنی آیت کریمہ : أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ أَنْ يَسْبِقُونا [ العنکبوت 4] کیا وہ لوگ جو برے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ ہمارے قابو سے نکل جائیں گے ۔ کے مترادف ہوگا اور اگر معجزین پڑھا جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ وہ آنحضرت کے متبعین کیطرف عجز کی نسبت کرتے ہیں جیسے جھلتہ وفسقتہ کے معنی کسی کی طرف جہالت یا فسق کی نسبت کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک معجزین بمعنی مثبطین ہے یعنی لوگوں کو آنحضرت کی اتباع سے روکتے ہیں جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف 45] جو خدا کی راہ سے روکتے ( ہیں ) اور بڑھیا کو عجوز اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ بھی اکثر امور سے عاجز ہوجاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات 135] مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ گئی ۔ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود 72] اے ہے میرے بچہ ہوگا اور میں تو بڑھیا ہوں ۔- خزی - خَزِيَ الرّجل : لحقه انکسار، إمّا من نفسه، وإمّا من غيره . فالذي يلحقه من نفسه هو الحیاء المفرط، ومصدره الخَزَايَة ورجل خَزْيَان، وامرأة خَزْيَى وجمعه خَزَايَا . وفي الحدیث :«اللهمّ احشرنا غير خزایا ولا نادمین» والذي يلحقه من غيره يقال : هو ضرب من الاستخفاف، ومصدره الخِزْي، ورجل خز . قال تعالی: ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة 33] ، - ( خ ز ی ) خزی - ( س ) الرجل رسوا ہونا ۔ خواہ وہ رسوائی انسان کو خود اس کی ذات سے لاحق ہو یا غیر کی طرف سے پھر رسوائی اپنی جانب سے لاحق ہوتی ہے اسے حیائے مفرط کہاجاتا ہے اور اس کا مصدر خزابۃ ہے ۔ اس سے صیغہ صفت مذکر خزبان اور مونث خزلی خزابا ۔ حدیث میں ہے (110) اللھم احشرنا غیر خزایا و الاناد میں اے خدا ہمیں اس حالت میں زندہ نہ کرنا ہم شرم اور ندامت محسوس کرنیوالے ہوں ۔ اور جو رسوائی دوسروں کی طرف سے لاحق ہوتی ہے وہ ذلت کی ایک قسم ہے ۔ اور اس کا مصدر خزی ہے ۔ اور رجل خزی کے معنی ذلیل آدمی کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا :۔ ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة 33] دنیا میں انکی سوائی ہے ۔ کہ رسوائی اور برائی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

حجۃ الوداع سے پہلے حج ذی قعدہ میں ہوا - اس لئے کہ اس سال کا حج ذی قعدہ میں ہوا جس میں حضرت ابوبکر (رض) کو امیر حج بنا کر بھیجا گیا تھا۔ اور حضرت علی (رض) نے مکہ میں مشرکین کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے بموجب سورة برأت پڑھ کر سنائی تھی۔ پھر اگلے سال حج ذی الحجۃ میں ہوا تھا جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فریضہ حج ادا کیا تھا اور جو حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی مہینے کو حج کا مہینہ قرار دے دیا۔ اس لئے کہ مشرکین حج کے مہینے کو آگے پیچھے کردیا کرتے تھے۔ اس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس سال فریضہ حج ادا کیا اتفاق سے اس سال حج اس مہینے میں ادا کی گیا جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر ابتدا ہی سے حج فرض کردیا تھا اور انہیں لوگوں کو حج کے لئے بلانے کا حکم دیا تھا چناچہ ارشاد ہے (و ادنفی الناس بالحج یا توک رجالا اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو وہ تمہارے پاس پیدل آئیں گے) تا آخر آیت۔- اسی بنا پر حضور صلی اللہ الیہ وسلم نے عرفات میں کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا تھا (الا ان الزمان قد استدارکھیئتہ یوم خلق السماوات والارض۔ لوگو آگاہ ہو جائو کہ زمانہ اپنی اس اصل حالت کی طرف پلٹ آیا ہے جو آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے وقت اس کی تھی) اسی طرح ذی الحجہ کی نویں تاریخ یعنی یوم عرفہ حج کا دن مقرر ہوا اور دسویں تاریخ یوم النحر قرار پائی۔ یہ ان لوگوں کا قول ہے جو یہ کہتے ہیں کہ آیت میں مذکور چار مہینے یہی تھے جن میں مشرکین کو ملک میں چلنے پھرنے کی اجازت تھی اور ان کے گزر جانے کے ساتھ ہی مشرکین سے کئے گئے معاہدوں کا خاتمہ ہوگیا اور ان کی جان و مال کی حفاظت کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ معاہدے کی مدت کے اختتام سے پہلے معاہدے کو توڑ دینے اور اسے علانیہ ان کے آگے پھینک دینے نیز حالت جنگ بحال کرنے اور امان یعنی جنگ نہ کرنے کی حالت کو ختم کرنے کے جواز کی کئی صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ دشمن کی بدعہدی اور اس کی خیانت اور بدنیتی کا خطرہ ہو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس بات کا ثبوت مل جائے کہ وہ خفیہ طور پر اس معاہدے سے پھرگئے ہیں اس صورت میں علانیہ اس معاہدے کو ان ک آگے پھینک دیا جائے۔ تیسری صورت یہ کہ معاہدے کی ایک شق یہ ہو کہ امام المسلمین جب تک چاہے گا انہیں امان یعنی جنگ بندی کی حالت پر برقرار رکھے گا اور جب چاہے گا جنگ بندی کی حالت ختم کر دے گا۔ جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل خیبر سے فرمایا تھا (اقرکم ما اقرکم اللہ۔ جب تک اللہ تعالیٰ تمہیں اس حالت پر برقرار رکھنا چاہے گا میں بھی تمہیں اس پر برقرار رکھوں گا) ایک اور صورت یہ ہے کہ معاہدے میں ایک مدت کی تعیین کے ساتھ یہ شرطیں بھی رکھی گئی ہوں کہ انہیں جنگ سے امان حاصل ہوجائے گی اور انہیں آگاہ کئے بغیر ان پر حملہ نہیں کیا جائے گا۔ نہ ہی انہیں غافل پا کر ان پر دھاوا بولا جائے گا نیز انہیں جب بتادیا جائے گا تو جنگ سے امان کی حالت ختم ہوجائے گی۔ اس قسم کے معاہدے کو مدت کے اختتام سے پہلے توڑ دینا جائز ہوگا اس لئے کہ معاہدے کے مضمون میں یہ بات واضح کردی گئی تھی اس میں خواہ دشمن کی طرف سے غداری کا خطرہ ہو یا نہ ہو یہ کہ معاہدے میں یہ شرط رکھ دی گئی ہو کہ ہم جب چاہیں گے ہمیں اس معاہدے کو ختم کردینے کا اختیار ہوگا یا یہ شرط نہ بھی ہو۔- ان تمام صورتوں میں ہمیں جب وقت بھی اسلام کی سربلندی اور غلبے کا کوئی موقع نظر آئے گا ہمارے لئے دشمن کے سامنے اس معاہدے کو پھینک کر اسے توڑ دینا جائز ہوگا۔ ایسا اقدام بدعہدی نہیں کہلائے گا جس میں قصداً خیانت کا ارادہ کیا گیا ہو نہ ہی یہ عہد سے بےوفائی کہلائے گا۔ اس لئے کہ معاہدے میں مذکور امان کی خلاف ورزی اور نقص عہد اس صورت میں لازم آتا جب امام المسلمین امان کے بعد ایسے وقت ان پر حملہ آور ہوتا جب وہ ہماری اس امان کی بنا پر اس حملے سے غافل ہوتے لیکن جب ہماری طرف سے معاہدے کر ان ک آگے پھینک دیا جائے تو پھر امان کی حالت ختم ہوجائے گی اور ان کے ساتھ حالت جنگ بحال ہوجائے گی، معاہدے کو ان کے سامنے پھینک دینے کے لئے ان کی رضامندی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ امام المسلمین کو جب مسلمانوں میں کمزوری نظر آئے اور وہ انہیں دشمنوں کے خلاف جنگ کرنے کے قابل نہ سمجھتا ہو تو ایسی صورت میں اس کیلئے دشمن کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کرلینا جائز ہوگا۔ پھر جب مسلمانوں کے اندر قوت پیدا ہوجائے گی اور ان میں دشمن سے ٹکر لینے کی سکت آ جائے گی تو امام کے لئے جنگ بندی کے اس معاہدے کو دشمن کے سامنے پھینک کر ان سے قتال کرنا جائز ہوگا۔ اسی طرح امام کے لئے ہر ایسا قدم اٹھانا درست ہوگا جس میں مسلمانوں کی بھلائی کا پہلو موجود ہو۔ دشمن کی طرف سے بدعہدی اور خیانت کے خطرے پر رفع امان اور جنگ بندی کے خاتمہ کا جواز موقوف نہیں ہوتا۔- حرمت کے مہینے - حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ آیت زیر بحث میں مذکور چار مہینوں سے اشہر حرم یعنی حرمت کے مہینے مراد ہیں جو یہ ہیں۔ رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم، سورة برأت کا نزول اس وقت ہوا تھا جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کو امیر حج بنا کر مکہ بھیجا تھا۔ اس سال حج ذیقعدہ کے مہینے میں ادا کیا گیا تھا۔ اس قول کے مطابق مشرکین کو گویا شہر حرم کے اختتام تک مہلت مل گئی تھی جریر نے مغیرہ سے، انہوں نے شعبی سے، انہوں نے المحرر بن ابی ہریرہ سے اور انہوں نے اپنے والد حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں : حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب حضرت علی (رض) کو مشرکین سے برأت کا اعلان کرنے کے لئے مکہ بھیجا تو میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ میں اعلان کرتا رہا حتیٰ کہ میری آواز بیٹھ گئی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ان باتوں کے اعلان کا حکم دیا تھا، اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرسکے گا۔ کوئی شخص برہنہ حالت میں کعبہ کا طواف نہیں کرے گا جنت میں صرف وہی شخص داخل ہوگا جو صاحب ایمان ہوگا نیز جس شخص کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی معاہدہ امن ہے اس کی مدت با چار مہینے ہے، چار ماہ گزر جانے کے بعد اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے بری الذمہ ہوں گے۔ “ یہ کہنا بھی درست ہے کہ چار مہینوں کی ابتدا اس اعلان برأت کے ساتھ ہوگئی تھی اور اس سے اشہر حرم کے اختتام تک کے چار مہینے مراد لینا بھی درست ہے۔ سفیان نے ابو اسحاق سے، انہوں نے زید بن تییع سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ…- ہر سال ذی الحجۃ میں حج اکبر ہے - حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں حج اکبر کے دن یہ اعلان کرنے کے لئے مکہ بھیجا تھا کہ کوئی شخص برہنہ حالت میں بیت اللہ کا طواف نہ کرے۔ جنت میں صرف مسلمان داخل ہوگا اس سال کے بعد آئندہ کوئی مشرک حج نہیں کرسکے گا اور جس شخص کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی معاہدہ ہے وہ اس کی مدت کے اختتام تک باقی رہے گا۔ حضرت علی (رض) کی اس روایت میں معاہدہ کی مدت کو اس کی مدت کے اختتام تک باقی رہنے کا اعلان ہے اس میں چار ماہ کی تخصیص نہیں ہے۔ جبکہ ابوہریرہ کی روایت میں چار ماہ تک کی مدت کا ذکر ہے۔ دونوں باتوں کا درست ہونا ممکن ہے۔ وہ اس طرح کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض معاہدوں کے لئے چار ماہ کی مدت یا اشہر حرم کے اختتام تک کی مدت مقرر کی اور بعض مشرکین کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی مدت وہ مقرر کی جو معاہدوں میں طے پائی تھی خواہ یہ مدت طویل تھی یا مختصر۔- مشرکین کو چار ماہ کی مہلت - حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں چار مہینوں کا جو ذکر ہے وہ قول باری (فسیحوا فی الارض اربعۃ اشھر) سے مطابقت رکھتا ہے جبکہ حضرت علی (رض) کی روایت میں معاہدے کی اصل مدت کو برقرار رکھنے کا ذکر قول باری (الا الذین عاھدتم من المشرکین ثم لم ینقصوکم شیئا ولم یظاہرو اعینکم احدا فاتموا الیھم عھدھم الی مدتھم بجز ان مشرکین ک جن سے تم نے معاہدے کئے پھر انہوں نے اپنے عہد کو پورا کرنے میں تمہارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور تمہارے خلاف کسی کی مدد کی تو ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مدت معاہدہ تر وفا کرو) کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ اس طرح ان لوگوں کے ساتھ معاہدے کئے گئے معاہدوں کی مدت چار ماہ مقرر کی گئی جن کی طرف سے بدعہدی اور خیانت کا خطرہ تھا اور جن لوگوں کی طرف سے اس قسم کا کوئی خطر نہیں تھا ان کے ساتھ کئے گئے معاہدوں میں طے شدہ مدت کو پورا کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ یونس نے ابو اسحاق سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ٩ ھ میں حضرت ابوبکر (رض) کو امیر حج بنا کر روانہ کردیا۔ حضرت ابوبکر (رض) کی روانگی کے بعد سورة برأت نازل ہوئی جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مشرکین کے درمیان معاہدے کو توڑ دینے کا اعلان تھا۔ اس معاہدے کی یہ شقیں تھیں کہ بیت اللہ میں آنے سے کسی شخص کو روکا نہیں جائے گا اور حرمت والے مہینے میں کسی کو خوفزدہ نہیں کیا جائے گا۔ یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام اہل شرک کے درمیان ایک عام معاہدہ تھا۔ اس کے علاوہ آپ کے اور قبائل عرب کے درمیان کچھ خصوصی معاہدے بھی تھے جن میں مدتوں کا تعین تھا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی (براء ۃ من اللہ و رسولہ الی الذین عاھدتم من المشرکین) یعنی مشرکین عرب سے جو عام معادہ ہوا تھا اس میں شریک تمام اہل شرک سے برأت کا اعلان کردیا گیا۔- پھر فرمایا (فسیحوا فی الارض اربعۃ اشھر) یعنی اس حج کے بعد اللہ تعالیٰ یک طرف سے اعلان برأت ہے۔ قول باری (الا الاذین عاھدتم من المشرکین) سے مراد وہ خاص معاہدے ہیں جن میں مدتوں کا تعین کردیا گیا تھا۔ پھر فرمایا (فاذا تسخ الاشھر الحرم۔ جب حرمت کے مہینے گزر جائیں) یعنی وہ چار مہین جن کی انہیں مہلت دی گئی تھی۔ قول باری (الا الذین عاھدتم عند المسجد الحرام۔ مگر وہ لوگ جن کے ساتھ تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھاض سے مراد بنو بکر کے قبائل ہیں جو حدیبیہ میں طے پانے والے معاہدے میں قریش کے ساتھ اس بات تک کے لئے شامل ہوئے تھے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قریش کے درمیانطے پائی تھی۔ اس معاہدے کی خلاف ورزی صرف قریش کے قبیلے اور بنو دئل نے کی تھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا گیا کہ بنو بکر میں سے جن لوگوں نے اس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی تھی ان ک ساتھ مدت کے اختتام تک یہ معاہدہ برقرار رکھا جائے۔ چناچہ ارشاد ہوا (فما استقاموا لکم فاستقیموا تھم جب تک یہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو)- معاویہ بن صالح نے علی بن ابی طلحہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے قول باری (فسیحوا فی الارض اربعۃ اشھر) کی تفسیر میں ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے جن کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاہدہ تھا، چار ماہ کی مدت مقرر کی کہ اس مدت میں وہ جہاں چاہیں چلیں پھریں۔ جن لوگوں کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں تھا۔ ان کی مدت اشہر جحرم کا اختتام یعنی پچاس دن مقرر کئے پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ اشہر حرم کے گزر جانے پر ان لوگوں کا فیصلہ تلوار سے کریں جنہوں نے معاہدے کئے تھے لیکن وہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے، آپ کو یہ حکم ملا کہ ان لوگوں کے ساتھ کئے گئے تمام معاہدے اور میثاق ختم کردیئے جائیں۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) کی اس روایت میں ان لوگوں کے لئے چار مہینوں کو عہد یعنی مہلت کے مہینے قرار دیا جن کے ساتھ کوئی معاہدہ تھا لیکن جن مشرکین کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں تھا ان کی مدت ماہ محرم کا اختتام مقرر کی۔ یہ مدت حج کے وقت یعنی دسویں ذی الحجہ سے محرم کے آخر تک پچاس دنوں کی تھی، محرم کا اختتام اشہر حرم کا آخر ہوتا ہے۔ ابن جریج نے مجاہد سے قول باری (براء ۃ من اللہ و رسولہ الی المین عاھدتم من المشرکین) کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ اس س مراد وہ مشرکین ہیں جنہوں نے معاہدے کر رکھے تھے۔ یہ بنو خزاء اور بنو مدلج اور دیگر قبائل تھے پھر آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) اور علی (رض) کو مکہ اس مقصد کے لئے بھیجا تھا کہ وہ جا کر معاہدوں والے مشرکین کو یہ اعلان سنا دیں کہ انہیں چار ماہ تک بےخوف و خطر چلنے پھرنے کی اجازت ہے۔ یہ چار ماہ اشہر حرم تھے جو دس ذی الحجہ سے شروع ہو کر دس ربیع الآخر تک تسلسل کے ساتھ آتے تھے ان چار مہینوں کے بعد ان کے ساتھ کسی قسم کا کوئی معاہدہ باقی نہیں رہے گ۔ مجاہد کہتے ہیں ان مہینوں کو اشر حرم اس لئے کہا گیا ہے کہ مشرکین کو ان میں بےخوف و خطر امن کے ساتھ چلنے پھرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ مجاہد اشہر حرم سے مہلت والے چار مہینے مراد لئے ہیں اور یہ رائے دی ہے کہ ان میں قتال کی تحریم کی بنا پر انہیں اشہر حرم کہا گیا ہے، یہ وہ اشہر حرم نہیں ہیں جن کا ذکر اس قول باری میں ہوا ہے۔ (منھا اربعۃ حرم۔ ان میں سے چار حرمت کے مہینے ہیں) اسی طرح ان کا ذکر ایک اور آیت میں ہوا۔- حرمت کے مہینوں کی جنگ - (یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ۔ آپ سے حرمت کے مہینے میں جنگ کے متعلق فتویٰ پوچھتے ہیں ) اس لئے کہ یہ حرمت کے چار مہینے ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب کے مہینے ہیں ان کے بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی یہی قول منقول ہے۔ اس بارے میں مجاہد نے جو کہا ہے وہ احتمال کے درجے میں ہے۔ قول باری (فسیحوا فی الارض اربعۃ اشھر) کی تفسیہ میں سدی نے کہا ہے کہ اس سے وہ مدت مراد ہے جو دس ذی الحجہ سے شروع ہو کر دس ربیع الآخر پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ اس کے بعد نہ کسی کے لئے امان ہے اور نہ کوئی معاہدہ، اس کے بعد صرف اسلام ہوگا یا تلوار، ہمیں عبداللہ بن اسحاق المروزی نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن ابی الربیع الجرجانی نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمر نے زہری سے قول باری (فسیحوا فی الارض اربعۃ اشھر) کی تفسیر میں بیان کیا کہ اس کا نزول شوال میں ہوا، اس طرح چار ماہ یہ ہوئے۔ شوال، ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم۔ قتادہ کا قول ہے کہ اس چر ماہ میں ذی الحجہ کے بیس دن، محرم، صفر، ربیع الاول اور ربیع الآخر کے دس دن شامل ہیں۔ یہی مدت وہ مہلت کی مدت تھی جو انہیں دی گئی تھی۔- سورہ برأت کا زمانہ نزول - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قتادہ کا قول مجاہد کے قول سے مطابقت رکھتا ہے جسے ہم نے ابھی اوپر بیان کیا ہے لیکن زہری کے قول کو میں ان کا وہم خیال کرتا ہوں اس لئے کہ راویوں کا اس پر اتفاق ہے کہ سورة برأت کا نزول ذی الحجہ کے مہینے میں ہوا تھا یہ وہ وقت تھا جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابوبکر (رح) کو امیر حج بنا کر مکہ کی طرف روانہ کرچکے تھے۔ ان کے جانے کے بعد یہ سورة نازل ہوئی۔ آپ نے حضرت علی (رض) کو اس مقصد کے لئے مکہ کی طرف روانہ کردیا تاکہ وہ منیٰ میں موجود لوگوں کو یہ سورت پڑھ کر سنا دیں۔ درج بالا سطور میں ہم نے جن روایات کا ذکر کیا ہے ان کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مشرکین کے درمیان ایک عام معاہدہ تھا جس کی شقیں یہ تھیں کہ کسی شخص کو بیت اللہ سے روکا نہیں جائے گا اور کسی کو حرمت کے مہینے میں خوفزدہ نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس معاہدے کی مدت چارماہ مقرر کردی اور فرما دیا (فسیحوا فی الارض اربعۃ اشھر) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کچھ مخصوص قبیلوں کے درمیان بھی معاہدے موجود تھے جن میں مدتوں کا تعین تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان معاہدوں کو ان کی مدتوں کے اختتام تک پورا کرنے کا حکم دیا بشرطیکہ دوسری جانب سے بد عہدی اور خیانت کا خطرہ نہ ہو، چناچہ ارشاد باری ہے (الا الاذین عاھدتم من المشرکین ثم لم ینقصو کم شیئا ولم یضاھروا علیکم احد فاتموا الیھم عھدھم الی مدتھم۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ان کی مدت یا تو اشہر حرم کے اختتام تک تھی جن میں اللہ تعالیٰ نے قتال کی تحریم کردی تھی یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی مدت معاہدہ توڑنے کے اعلان کے وقت یعنی دس ذی الحجہ سے شروع ہو کر دس ربیع الآخر تک تھی۔- ان مہینوں کو اشہر حرم اس لئے کہا گیا کہ بقول مجاہد ان میں قتال کی تحریم کردی گئی تھی۔ اس مدت کے اختتام کے بعد کسی کے ساتھ کسی قسم کا کوئی معاہدہ باقی نہیں رکھا گیا بلکہ اس مدت کے گزر جانے کے بعد تمام معاہدات کو ختم کرنا واجب کردیا گیا۔ اس حکم میں وہ مشرکین بھی شامل تھے جن کے ساتھ کوئی خصوصی معاہدہ تھا اور وہ تمام مشرکین بھی جن کے ساتھ ایک عام معاہدہ تھا جس کی مشقیں یہ تھیں کہ بیت اللہ میں کسی کو داخل ہونے سے روکا نہیں جائے گا اور اشہر حرم میں کسی کا خون نہیں بہایا جائے گا۔ اس سے ماہ محرم کا نکل جانا بھی مراد ہوسکتا ہے اس لئے کہ اس کے ذریعے اشہر حرم کا اختتام ہوجاتا ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے قتال کی تحریم کا حکم دے رکھا تھا ہم نے اس قول کی روایت حضرت ابن عباس (رض) سے بھی کی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢) جن کفار کا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ عہد صلح تھا ان میں سے بعض نے بدعہدی کی چناچہ ان میں سے بعض قبیلوں کے ساتھ تو چار مہینوں کا معاہدہ تھا اور بعض کے ساتھ چار ماہ سے زیادہ کا اور بعض سے چار مہینوں سے کم کا اور بعض سے نو مہینوں کا معاہدہ تھا اور بعض قبیلے ایسے تھے کہ ان کے اور رسول اکرم کے درمیان کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ لہذا بنی کنانہ کے علاوہ جن سے نوماہ کا معاہدہ تھا باقی سب قبیلوں نے بد عہدی کردی۔- لہذا اس بدعہدی اور نقص عہد کے بعد جن قبیلوں کا معاہدہ چار مہینوں سے زیادہ یا اس سے بھی کم کا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوم النحر سے چار مہینوں تک ان کا معاہدہ کردیا، اسی طرح ان قبیلوں کا جن کا معاہدہ صرف چار مہینوں کا تھا ان کو بھی بدعہدی کے بعد یوم النحر سے چار مہینوں کی مہلت دے دی۔- اور جن کا نومہینوں کا معاہدہ تھا ان کو اسی حالت پر قائم رہنے دیا اور جن کے ساتھ کوئی معاہدہ کی وجہ سے امن کے ساتھ چار مہینے تک زمین میں چل پھر لو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢ (فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ ) “- یعنی اس جزیرہ نمائے عرب میں تمہیں رہنے اور گھومنے پھرنے کے لیے صرف چار مہینے کی مہلت دی جارہی ہے۔- (وَّاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰہِلا وَاَنَّ اللّٰہَ مُخْزِی الْکٰفِرِیْنَ )- اب ان مشرکین کے لیے اللہ کے عذاب کی آخری قسط آکر رہے گی۔ یہ قطعی اعلان تو ایسے معاہدوں کے ضمن میں تھا جن میں کوئی میعاد معین نہیں تھی ‘ جیسے عام دوستی کے معاہدے ‘ جنگ نہ کرنے کے معاہدے وغیرہ۔ ایسے تمام معاہدوں کو چارہ ماہ کی پیشگی وارننگ کے ساتھ ختم کردیا گیا۔ یہ ایک معقول طریقہ تھا جو سورة الانفال کی آیت ٥٨ میں بیان کردہ اصول (فَانْبِذْ اِلَیْہِمْ عَلٰی سَوَآءٍ ط) کے مطابق اختیار کیا گیا۔ یعنی معاہدے کو علی الاعلان دوسرے فریق کی طرف پھینک دیا گیا ‘ اور پھر فوراً اقدام بھی نہیں کیا گیا ‘ بلکہ چار ماہ کی مہلت بھی دے دی گئی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :3 یہ اعلان ۱۰ ذی الحجہ سن ۹ ھجری کو ہوا تھا ۔ اس وقت ۱۰ ربیع الثانی سن ۱۰ ھجری تک چار مہینہ کی مہلت ان لوگوں کو دی گئی کہ اس دوران میں اپنی پوزیشن پر اچھی طرح غور کرلیں ۔ لڑنا ہو تو لڑائی کے لیے تیار ہو جائیں ، ملک چھوڑنا ہو تو اپنی جائے پناہ تلاش کر لیں ، اسلام قبول کرنا ہو تو سوچ سمجھ کر قبول کرلیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani