حج اکبر کے دن اعلان اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عام اعلان ہے اور ہے بھی بڑے حج کے دن ۔ یعنی عید قرباں کو جو حج کے تمام دنوں سے بڑا اور افضل دن ہے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں سے بری الذمہ بیزار اور الگ ہے اگر اب بھی تم گمراہی اور شرک و برائی چھوڑ دو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے توبہ کر لو نیک بن جاؤ اسلام قبول کر لو ، شرک و کفر چھوڑ دو اور اگر تم نے نہ مانا اپنی ضلالت پر قائم رہے تو تم نہ اب اللہ کے قبضے سے باہر ہو نہ آئندہ کسی وقت اللہ کو دبا سکتے ہو وہ تم پر قادر ہے تمہاری چوٹیاں اس کے ہاتھ میں ہیں وہ کافروں کو دنیا میں بھی سزا کرے گا اور آخرت میں بھی عذاب کرے گا ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قربانی والے دن ان لوگوں میں جو اعلان کے لیے بھیجے گئے تھے بھیجا ۔ ہم نے منادی کر دی کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کوئی شخص ننگا ہو کر نہ کرے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو بھیجا کہ سورہ براۃ کا اعلان کر دیں پس آپ نے بھی منٰی میں ہمارے ساتھ عید کے دن انہیں احکام کی منادی کی ۔ حج اکبر کا دن بقرہ عید کا دن ہے ۔ کیونکہ لوگ حج اصغر بولا کرتے تھے ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اعلان کے بعد حجتہ الوداع میں ایک بھی مشرک حج کو نہیں آیا تھا ۔ حنین کے زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جعرانہ سے عمرے کا احرام باندھا تھا پھر اس سال حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا اور آپ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو منادی کے لیے روانہ فرمایا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ برات کا اعلان کر دیں امیر حج حضرت علی رضی اللہ عنہ کے آنے کے بعد بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی رہے رضی اللہ عنہما ۔ لیکن اس روایت میں غربت ہے عمرہ جعرانہ والے سال امیر حج حضرت عتاب بن اسید تھے حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ تو سنہ ٩ ھ میں امیر حج تھے ۔ مسند کی روایت میں ہے حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں اس سال حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ میں تھا ہم نے پکار پکار کر منادی کر دی کہ جنت میں صرف ایماندار ہی جائیں گے بیت اللہ کا طواف آئندہ سے کوئی شخص عریانی کی حالت میں نہیں کر سکے گا ۔ جن کے ساتھ ہمارے عہد و پیمان ہیں ان کی مدت آج سے چار ماہ کی ہے ، اس مدت کے گذر جانے کے بعد اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں سے بری الذمہ ہیں اس سال کے بعد کسی کافر کو بیت اللہ کے حج کی اجات نہیں ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ یہ منادی کرتے کرتے مرا گلا پڑ گیا ۔ حضرت علی کی آواز بیٹھ جانے کے بعد میں نے منادی شروع کر دی تھی ۔ ایک روایت میں ہے جس سے عہد ہے اس کی مدت وہی ہے ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں مجھے تو ڈر ہے کہ یہ جملہ کسی راوی کے وہم کی وجہ سے نہ ہو ۔ کیونکہ مدت کے بارے میں اس کے خلاف بہت سی روایتیں ہیں ۔ مسند میں ہے کہ براۃ کا اعلان کرنے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کو بھیجا وہ ذوالحلیفہ پہنچے ہوں گے جو آپ نے فرمایا کہ یہ اعلان تو یا میں خود کروں گا یا میرے اہل بیت میں سے کوئی شخص کرے گا پھر آپ نے حضرت علی کو بھیجا حضرت علی فرماتے ہیں سورہ برات کی دس آیتیں جب اتریں آپ نے حضرت ابو بکر کو بلا کر فرمایا انہیں لے جاؤ اور اہل مکہ کو سناؤ پھر مجھے یاد فرمایا اور ارشاد ہوا کہ تم جاؤ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے تم ملو جہاں وہ ملیں ان سے کتاب لے لینا اور مکہ والوں کے پاس جاکر انہیں پڑھ سنانا میں چلا جحفہ میں جا کر ملاقات ہوئی ۔ میں نے ان سے کتاب لے لی آپ واپس لوٹے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا میرے بارے میں کوئی آیتیں نازل ہوئی ہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور فرمایا کہ یا تو یہ پیغام خود آپ پہنچائیں یا اور کوئی شخص جو آپ میں سے ہو ۔ اس سند میں ضعف ہے اور اس سے یہ مراد بھی نہیں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس وقت لوٹ آئے نہیں بلکہ آپ نے اپنی سرداری میں وہ حج کرایا حج سے فارغ ہو کر پھر واپس آئے جیسے کہ اور روایتوں میں صراحتاً مروی ہے ۔ اور حدیث میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیغام رسانی کا ذکر کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عذر پیش کیا کہ میں عمر کے لحاظ سے اور تقریر کے لحاظ سے اپنے میں کمی پاتا ہوں آپ نے فرمایا لیکن ضرورت اس کی ہے کہ اسے یا تو میں آپ پہنچاؤں یا تو پہنچائے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا اگر یہی ہے تو لیجئے میں جاتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اللہ تیری زبان کو ثابت رکھے اور تیرے دل کو ہدایت دے ۔ پھر اپناہاتھ ان کے منہ پر رکھا ۔ لوگوں نے حضرت علی سے پوچھا کہ حج کے موقع پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا بات پہنچانے بھیجا تھا ؟ آپ نے وہی اوپر والی چاروں باتیں بیان فرمائیں ۔ مسند وغیرہ میں یہ روایت کسی طریق سے آئی ہے اس میں لفظ یہ ہیں کہ جن سے معاہدہ ہے وہ جس مدت تک ہے اسی تک رہے گا اور حدیث میں ہے کہ آپ سے لوگوں نے کہا کہ آپ حج میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو بھیج چکے ہیں کاش کہ یہ پیغام بھی انہیں پہنچا دیتے آپ نے تو حج کا انتظام کیا اور عید والے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ احکام پہنچائے ۔ پھر یہ دونوں آپ کے پاس آئے پس مشرکین میں سے جن سے عام عہد تھا ان کے لیے تو چار ماہ کی مدت ہو گئی ۔ باقی جس سے جتنا عہد تھا وہ بدستور رہا ۔ اور روایت میں ہے کہ ابو بکر صدیق کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر حج بنا کر بھیجا تھا اور مجھے ان کے پاس چالیس آیتیں سورۃ برات کی دے کر بھیجا تھا آپ نے عرفات کے میدان میں عرفہ کے دن لوگوں کو خطبہ دیا ۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا اُٹھئے اور سرکار رسالت مآب کا پیغام لوگوں کو سنا دیجئے ۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر ان چالیس آیتوں کی تلاوت فرمائی ۔ پھر لوٹ کر منٰی میں آکر جمرہ پر کنکریاں پھینکیں اونٹ نحر کیا سر منڈوایا پھر مجھے معلوم ہوا کہ سب حاجی اس خطبے کے وقت موجود تھے اس لیے میں نے ڈیروں میں اور خیموں میں اور پڑاؤ میں جا جا کر منادی شروع کر دی میرا خیال ہے کہ شاید اس وجہ سے لوگوں کو یہ گمان ہو گیا یہ دسویں تاریخ کا ذکر ہے حالانکہ اصل پیغام نویں کو عرفہ کے دن پہنچا دیا گیا تھا ۔ ابو اسحق کہتے ہیں میں نے ابو جحیفہ سے پوچھا کہ حج اکبر کا کونسا دن ہے؟ آپ نے فرمایا عرفے کا دن ۔ میں نے کہا یہ آپ اپنی طرف سے فرما رہے ہیں یاصحابہ رضی اللہ عنہم سے سنا ہوا ۔ فرمایا سب کچھ یہی ہے ۔ عطاء بھی یہی فرماتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی یہی فرما کر فرماتے ہیں پس اس دن کو کوئی روزہ نہ رکھے ۔ راوی کہتا ہے میں نے اپنے باپ کے بعد حج کیا مدینے پہنچا اور پوچھا کہ یہاں آج کل سب سے افضل کون ہیں؟ لوگوں نے کہا حضرت سعید بن مسیب ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں نے مدینے والوں سے پوچھا کہ یہاں آج کل سب سے افضل کون ہیں؟ تو انہوں نے آپ کا نام لیا تو میں آپ کے پاس آیا ہوں یہ فرمائیے کہ عرفہ کے دن کے روزے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا میں تمہیں اپنے سے ایک سو درجے بہترین شخص کو بتاؤں وہ عمرو بن عمر ہیں وہ اس روزے سے منع فرماتے تھے اور اسی دن کو حج اکبر فرماتے تھے ۔ ( ابن ابی حاتم وغیرہ ) اور بھی بہت سے بزرگوں نے یہی فرمایا ہے ۔ کہ حج اکبر سے مراد عرفے کا دن ہے ایک مرسل حدیث میں بھی ہے آپ نے اپنے عرفے کے خطبے میں فرمایا یہی حج اکبر کا دن ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد بقرہ عید کا دن ۔ حضرت علی یہی فرماتے ہیں ۔ ایک مرتبہ حضرت علی بقر عید والے دن اپنے سفید خچر پر سوار جا رہے تھے کہ ایک شخص نے ان کی لگام تھام لی اور یہی پوچھا آپ نے فرمایا حج اکبر کا دن آج ہی کا دن ہے لگام چھوڑ دے ۔ عبداللہ بن ابی اوفی کا قول بھی یہی ہے ۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے اپنے عید کے خطبے میں فرمایا آج ہی کا دن یوم الاضحی ہے آج ہی کا دن یوم النحر ہے ۔ آج ہی کا دن حج اکبر کا دن ہے ۔ ابن عباس سے بھی یہی مروی ہے اور بھی بہت سے لوگ اسی طرف گئے ہیں کہ حج اکبر بقرہ عید کا دن ہے ۔ امام ابن جریر کا پسندیدہ قول بھی یہی ہے ۔ صحیح بخاری کے حوالے سے پہلے حدیث گذر چکی ہے ۔ کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے منادی کرنے والوں کو منٰی میں عید کے دن بھیجا تھا ۔ ابن جریر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع میں جمروں کے پاس دسویں تاریخ ذی الحجہ کو ٹھہرے اور فرمایا یہی دن حج اکبر کا دن ہے اور روایت میں ہے کہ آپ کی اونٹنی سرخرنگ کی تھی آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ جانتے بھی ہو؟ آج کیا دن ہے؟ لوگوں نے کہا قربانی کا دن ہے ۔ آپ نے فرمایا سچ ہے یہی دن حج اکبر کا ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ اونٹنی پر سوار تھے لوگ اس کی نکیل تھامے ہوئے تھے ۔ آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ یہ کونسا دن ہے جانتے ہو؟ ہم اس خیال سے خاموش ہوگئے کہ شاید آپ اس کا کوئی اور ہی نام بتائیں ۔ آپ نے فرمایا یہ حج اکبر کا دن نہیں؟ اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے آپ کے سوال پر جواب دیا کہ یہ حج اکبر کا دن ہے ۔ سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ عید کے بعد کا دن ہے ۔ مجاہد کہتے ہیں حج کے سب دنوں کا یہی نام ہے ۔ سفیان بھی یہی کہتے ہیں کہ جیسے یوم جمل یوم صفین ان لڑائیوں کے تمام دنوں کا نام ہے ایسے ہی یہ بھی ہے ۔ حسن بصری سے جب یہ سوال ہوا تو آپ نے فرمایا تمہیں اس سے کیا حاصل یہ تو اس سال تھا جس سال حج کے امیر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ۔ ابن سیرین اسی سوال کے جواب میں فرماتے ہیں یہی وہ دن تھا جس میں رسول اللہ کا اور عام لوگوں کا حج ہوا ۔
3۔ 1 صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ یوم حج اکبر سے مراد (10 ذوالحجہ) کا دن ہے، اسی دن منیٰ میں اعلان نجات منایا گیا 10 ذوالحجہ کو حج اکبر کا دن اسی لئے کہا گیا کہ اس دن حج کے سب سے زیادہ اور اہم مناسک ادا کئے جاتے ہیں، اور عوام عمرے کو حج اصغر کہا کرتے تھے۔ اس لئے عمرے سے ممتاز کرنے کے لئے حج کو حج اکبر کہا گیا، عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ جو حج جمعہ والے دن آئے وہ حج اکبر ہے یہ بےاصل بات ہے۔
[٣] جزیرۃ العرب کی شرک اور مشرکوں سے تطہیر :۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو اس جزیرۃ العرب کی مشرکین سے تطہیر مطلوب ہے اور تمہاری کوئی بھی کوشش اللہ تعالیٰ کے اس ارادہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ گویا اس اعلان سے صرف بیت اللہ ہی کو شرک کی نجاست سے بچانا مقصود نہ تھا بلکہ پورے جزیرہ عرب کو ان ناپاک مشرکوں سے پاک کرنا مقصود تھا۔
وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ اِلَى النَّاسِ : یوم حج اکبر سے مراد ١٠ ذوالحجہ ہے، جس دن حاجی منیٰ میں آکر قربانی کرتے ہیں۔ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ابوبکر (رض) نے مجھے ان لوگوں کے ہمراہ بھیجا جو قربانی کے دن منیٰ میں اعلان کریں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا اور کوئی ننگا شخص بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا اور حج اکبر کا دن یوم النحر (قربانی کا دن) ہے، کیونکہ لوگ ( عمرے کو) حج اصغر کہتے تھے، چناچہ ابوبکر صدیق (رض) نے اس سال صاف اعلان کروا دیا، تو حجۃ الوداع جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کیا، کسی مشرک نے حج نہیں کیا۔ [ بخاری، الجزیۃ و الموادعۃ، باب کیف ینبذ إلی أہل العھد ؟ : ٣١٧٧ ]- اس سے معلوم ہوا کہ بعض لوگ جو اس حج کو حج اکبر کہتے ہیں جو جمعہ کے دن آئے ان کی بات درست نہیں۔ ابوہریرہ (رض) ہی سے ایک روایت میں مزید اضافہ ہے کہ پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) کو یہ اعلان دے کر بھیجا، پھر آپ نے ان کے بعد علی (رض) کو بھیجا کہ وہ ( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے) یہ اعلان کریں، چناچہ ابوبکر (رض) ، جو امیر حج تھے، ان کے حکم پر میں نے، میرے ساتھیوں نے اور علی (رض) نے منیٰ میں یہ اعلان کیا۔ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : ( و أذان من اللہ ۔۔ ) : ٤٦٥٦ ] مسند احمد میں ہے کہ چار ماہ کی مہلت دینے، ننگے کو طواف کی اجازت ختم کرنے اور آئندہ سال کسی مشرک کے حج نہ کرنے کے اعلان کے ساتھ ایک اعلان یہ بھی کرتے تھے کہ جنت میں ایمان والوں کے سوا کوئی داخل نہیں ہوگا۔ [ أحمد :- ٢؍٢٩٩، ح : ٧٩٩٦ ]- وَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا : یہ اعلان تاکید کے لیے دوبارہ کیا گیا، تاکہ کافر اپنے آپ کو اللہ کی پکڑ سے کسی طرح بھی بچ نکلنے والے نہ سمجھیں۔
کفار سے معاہدات ختم ہوجانے پر بھی ان کو مہلت دینے کا کریمانہ سلوک :- ان احکام کا نفاذ اور مہلت کا شروع اس وقت سے تجویز ہوا جبکہ ان احکام کا اعلان تمام عرب میں ہوجائے۔ اس اعلان عام کے لئے یہ انتظام کیا گیا کہ ٩ ہجری کے ایام حج میں منیٰ و عرفات کے عام اجتماعات میں اس کا اعلان کیا جائے جس کا ذکر سورة توبہ کی تیسری آیت میں اس طرح آیا (آیت) وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ اِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ اَنَّ اللّٰهَ بَرِيْۗءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ڏ وَرَسُوْلُهٗ ۭ فَاِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ ۭ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِــيْمٍ ۔ یعنی اعلان عام ہے عام لوگوں کے سامنے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بڑے حج کی تاریخوں میں اس بات کا کہ اللہ اور اس کا رسول دونوں دست بردار ہوتے ہیں ان مشرکین سے پھر اگر تم توبہ کرلو تو تمہارے لئے بہتر ہے۔ اور اگر تم نے اعراض کیا تو یہ سمجھ رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہیں کرسکو گے اور ان کافروں کو ایک دردناک عذاب کی خبر سنا دیجئے۔- کفار سے معاہدہ ختم کیا جائے تو اعلان عام اور سب کو ہشیار خبردار کئے بغیر ان کے خلاف کوئی عمل درست نہیں :- چنانچہ اس حکم ربانی کی تعمیل کے لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ٩ ہجری کے حج میں حضرت صدیق اکبر اور علی مرتضی (رض) کو مکہ مکرمہ بھیج کر میدان عرفات اور منٰی میں جہاں تمام قبائل عرب کا اجتماع تھا یہ اعلان کرادیا اور یہ بھی ظاہر تھا کہ اس عظیم الشان مجمع کی معرفت پورے عرب میں میں اس حکم کا مشتہر ہوجانا لازمی تھا۔ پھر احتیاطًا حضرت علی کی معرفت یمن میں بالتخصیص اس کا اعلان کرادیا۔- اس اعلان عام کے بعد صورت حال یہ ہوگئی کہ پہلی جماعت یعنی مشرکین مکہ کو اشھر حرم کے خاتمہ یعنی محرم ١٠ ہجری کے ختم تک اور دوسری جماعت کو رمضان ١٠ ہجری تک اور تیسری چوتھی جماعتوں کو ١٠ ربیع الثانی ١٠ ہجری تک حدود سے خارج ہوجانا چاہئے اور جو اس کی خلاف ورزی کرے وہ مستحق قتال ہے۔ اس طرح اگلے سال کے زمانہ حج تک کوئی کافر داخل حدود نہ رہنے پائے گا جس کا ذکر سورة توبہ کی اٹھائیسویں آیت میں آئے گا جس میں ارشاد ہے (آیت) فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا۔ یعنی یہ لوگ اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس نہ جاسکیں گے۔ اور حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ا رشاد لا یحجن بعد العام مشرک کا یہی مطلب ہے سورة توبہ کی ابتدائی پانچ آیتوں کی تفسیر واقعات کی روشنی میں سامنے آچکی۔- مذکورہ پانچ آیات سے متعلق چند مسائل اور فوائد :- اول یہ کہ فتح مکہ کے بعد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش مکہ اور دوسرے دشمن قبائل کے ساتھ جو معاملہ عفو و درگزر اور رحم و کرم کا فرمایا اس نے عملی طور پر مسلمانوں کو یہ اخلاقی درس دیا کہ جب تمہارا کوئی دشمن تمہارے قابو میں آجائے اور تمھاے سامنے عاجز ہوجائے تو اس سے گذشتہ عداوتوں اور ایذاؤں کا انتقام نہ لو بلکہ عفو و کرم سے کام لے کر اسلامی اخلاق کا ثبوت دو ۔ اگرچہ ایسا کرنا اپنے طبعی جذبات کو کچلنا ہے لیکن اس میں چند عظیم فائدے ہیں۔ اول خود اپنے لئے کہ انتقام لے کر اپنا غصہ اتار لینے سے وقتی طور پر اگرچہ نفس کو کچھ راحت محسوس ہو لیکن یہ راحت فنا ہونے والی ہے اور اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کے درجات عالیہ جو اس کو ملنے والے ہیں وہ اس سے ہر حیثیت میں زیادہ بھی ہیں اور دائمی بھی اور عقل کا تقاضا یہی ہے کہ دائمی کو فانی پر ترجیح دے، دوسرے یہ کہ دشمن پر قابو پانے کے بعد اپنے غصہ کے جذبات کو دبا دینا اس کا ثبوت ہے کہ ان کی لڑائی اپنے نفس کے لئے نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے لئے تھی اور یہی وہ اعلی مقصد ہے جو اسلامی جہاد اور عام بادشاہوں کی جنگ میں امتیاز اور جہاد و فساد میں فرق کرنے والا ہے کہ جو لڑائی اللہ کے لئے اور اس کے احکام جاری کرنے کے لئے ہو وہ جہاد ہے ورنہ فساد۔- تیسرا فائدہ یہ ہے کہ دشمن جب مقہور و مغلوب ہونے کے بعد ان اخلاق فاضلہ کا مشاہدہ کرے گا تو شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو اسلام اور مسلمانوں سے محبت پیدا ہوگی جو اس کے لئے کلید کامیابی ہے اور یہی جہاد کا اصل مقصد ہے۔- کفار سے عفو و درگزر کے یہ معنی نہیں کہ ان کے ضرر سے بچنے کا اہتمام بھی نہ کیا جائے :- (٢) دوسرا مسئلہ جو آیات مذکورہ سے سمجھا گیا یہ ہے کہ عفو و کرم کے یہ معنی نہیں کہ دشمنوں کے شر سے اپنی حفاظت نہ کرے اور ان کو ایسا آزاد چھوڑ دے کہ وہ پھر ان کو نقصان اور ایذاء پہنچاتے رہیں۔ بلکہ عفو و کرم کے ساتھ تقاضائے عقل یہ ہے کہ پچھلے تجربوں سے آئندہ زندگی کے لئے سبق حاصل کرے اور ان تمام رخنوں کو بند کرے جہاد سے یہ خود دشمنوں کی زد میں آسکے۔ اسی لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکیمانہ ارشاد ہے لا یلدغ المرء من حجر واحد مرتین۔ یعنی عقلمند آدمی ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔ جس سوراخ سے ایک مرتبہ کسی زہریلے جانور نے اس کو کاٹا ہے اس میں دوبارہ ہاتھ نہیں دیتا۔- ٩ ہجری کے قرآنی اعلان براءت اور مشرکین کو مہلت و اطمینان کے ساتھ حدود حرم خالی کردینے کی ہدایات اسی حکمت عملی کا ثبوت ہیں۔- ( ٣) تیسرا فائدہ سورة توبہ کی ابتدائی آیات سے یہ معلوم ہوا کہ کمزور قوموں کو بلا مہلت کسی جگہ سے نکل جانے کا حکم یا ان پر یکبارگی حملہ بزدلی اور غیر شریفانہ فعل ہے۔ جب ایسا کرنا ہو تو پہلے سے اعلان عام کردیا جائے اور ان کو اس کی پوری مہلت دی جائے کہ وہ اگر ہمارے قانون کو تسلیم نہیں کرتے تو آزادی کے ساتھ جہاں چاہیں بسہولت جاسکیں۔ جیسا کہ مذکورہ آیتوں میں ٩ ہجری کے اعلان عام اور اس کے بعد تمام جماعتوں کو مہلت دینے کے احکام سے واضح ہوا۔- (٤) چوتھا مسئلہ آیات مذکورہ سے یہ معلوم ہوا کہ کسی قوم کے ساتھ معاہدہ صلح کرلینے کے بعد اگر میعاد سے پہلے اس معاہدہ کو ختم کردینے کی ضروری پیش آجائے تو اگرچہ چند شرائط کے ساتھ اس کی اجازت ہے مگر بہتر یہی ہے کہ معاہدہ کو اس کی میعاد تک پورا کردیا جائے جیسا کہ سورة توبہ کی چوتھی آیت میں بنو ضمرہ اور بنو مدلج کا معاہدہ نو مہینہ تک پورا کرنے کا حکم آیا ہے۔- (٥) پانچواں مسئلہ ان آیات سے یہ معلوم ہوا کہ دشمنوں کے ساتھ ہر معاملہ میں اس کا خیال رہنا چاہئے کہ مسلمانوں کی دشمنی ان کی ذات کے ساتھ نہیں بلکہ ان کے کافرانہ عقائد و خیالات کے ساتھ ہے جو انھیں کے لئے دنیا و آخرت کی بربادی کے اسباب ہیں۔ اور مسلمانوں کی ان سے مخالفت بھی درحقیقت ان کی ہمدردی اور خیر خواہی پر مبنی ہے۔ اسی لئے جنگ و صلح کے ہر مقام پر ان نصیحت و خیر خواہانہ فہمائش کسی وقت نہ چھوڑنا چاہئے۔ جیسا کہ ان آیتوں میں جابجا اس کا ذکر ہے کہ اگر تم اپنے خیالات سے تائب ہوگئے تو یہ تمہارے لئے فلاح دنیا و آخرت ہے۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی بتلا دیا کہ اگر تائب نہ ہوئے تو صرف یہی نہیں کہ تم دنیا میں قتل و غارت کئے جاؤ گے جس کو بہت سے کافر اپنا قومی کارنامہ سمجھ کر اختیار کرلیتے ہیں بلکہ یہ بھی سمجھ رکھو کہ مرنے کے بعد بھی عذاب سے نجات نہ پاؤ گے۔ مذکورہ آیتوں میں اعلان براءت کے ساتھ ہمدردانہ فہمائش کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
وَاَذَانٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ اَنَّ اللہَ بَرِيْۗءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ٠ۥۙ وَرَسُوْلُہٗ ٠ ۭ فَاِنْ تُبْتُمْ فَہُوَخَيْرٌ لَّكُمْ ٠ ۚ وَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللہِ ٠ ۭ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِــيْمٍ ٣ ۙ- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - يوم - اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] ، - ( ی و م ) الیوم - ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ - برأ - أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون . قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة 1] - ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری - کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ - شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - عجز - عَجُزُ الإنسانِ : مُؤَخَّرُهُ ، وبه شُبِّهَ مُؤَخَّرُ غيرِهِ. قال تعالی: كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر 20] ، والعَجْزُ أصلُهُ التَّأَخُّرُ عن الشیء، وحصوله عند عَجُزِ الأمرِ ، أي : مؤخّره، كما ذکر في الدّبر، وصار في التّعارف اسما للقصور عن فعل الشیء، وهو ضدّ القدرة . قال تعالی: أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ [ المائدة 31] ، وأَعْجَزْتُ فلاناً وعَجَّزْتُهُ وعَاجَزْتُهُ : جعلته عَاجِزاً. قال : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة 2] ، وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ [ الشوری 31] ، وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ الحج 51] ، وقرئ : معجزین فَمُعَاجِزِينَ قيل : معناه ظانّين ومقدّرين أنهم يُعْجِزُونَنَا، لأنهم حسبوا أن لا بعث ولا نشور فيكون ثواب و عقاب، وهذا في المعنی کقوله : أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ أَنْ يَسْبِقُونا [ العنکبوت 4] ، و «مُعَجِّزِينَ» : يَنسُبُون إلى العَجْزِ مَن تَبِعَ النبيَّ صلّى اللہ عليه وسلم، وذلک نحو : جهّلته وفسّقته، أي : نسبته إلى ذلك . وقیل معناه :- مثبّطين، أي : يثبّطون الناس عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم کقوله : الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف 45] ، وَالعَجُوزُ سمّيت لِعَجْزِهَا في كثير من الأمور . قال تعالی: إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات 135] ، وقال : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود 72] .- ( ع ج ز ) عجز الانسان - عجز الانسان ۔ انسان کا پچھلا حصہ تشبیہ کے طور ہر چیز کے پچھلے حصہ کو عجز کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر 20] جیسے کھجوروں کے کھو کھلے تنے ۔ عجز کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانا یا اس کے ایسے وقت میں حاصل ہونا کے ہیں جب کہ اسکا وقت نکل جا چکا ہو جیسا کہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر بولا جاتا ہے اور یہ القدرۃ کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ [ المائدة 31] اے ہے مجھ سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ میں ۔۔۔۔ ۔ اعجزت فلانا وعجزتہ وعاجزتہ کے معنی کسی کو عاجز کردینے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة 2] اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہیں کرسکو گے ۔ وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ [ الشوری 31] اور تم زمین میں خدا کو عاجز نہیں کرسکتے ۔ وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ الحج 51] اور جہنوں نے ہماری آیتوں میں کوشش کی کہ ہمیں ہرادیں گے ۔ ایک قرات میں معجزین ہے معاجزین کی صورت میں اس کے معنی ہوں گے وہ یہ زعم کرتے ہیں کہ ہمیں بےبس کردیں گے کیونکہ وہ یہ گمان کرچکے ہیں کہ حشر ونشر نہیں ہے کہ اعمال پر جذا وسزا مر تب ہو لہذا یہ باعتبار معنی آیت کریمہ : أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ أَنْ يَسْبِقُونا [ العنکبوت 4] کیا وہ لوگ جو برے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ ہمارے قابو سے نکل جائیں گے ۔ کے مترادف ہوگا اور اگر معجزین پڑھا جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ وہ آنحضرت کے متبعین کیطرف عجز کی نسبت کرتے ہیں جیسے جھلتہ وفسقتہ کے معنی کسی کی طرف جہالت یا فسق کی نسبت کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک معجزین بمعنی مثبطین ہے یعنی لوگوں کو آنحضرت کی اتباع سے روکتے ہیں جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف 45] جو خدا کی راہ سے روکتے ( ہیں ) اور بڑھیا کو عجوز اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ بھی اکثر امور سے عاجز ہوجاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات 135] مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ گئی ۔ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود 72] اے ہے میرے بچہ ہوگا اور میں تو بڑھیا ہوں ۔- بشر - واستبشر :- إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] .- ( ب ش ر ) البشر - التبشیر - کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔- وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )
قول باری ہے (واذاک من اللہ و رسولہ الی الناس یوم الحج الاکبر ان اللہ بریء من المشرکین و رسولہ۔ اطلاع عام ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج کے بڑے دن، تمام لوگوں کے لئے کہ اللہ مشرکین سے بری الذمہ ہے اور اس کا رسول بھی) یعنی اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان ہے کہا جاتا ہے اذنیٰ بکذا مجھے اس نے یہ بات معلوم کرائی اور مجھے اس کا علم ہوگیا۔- حج اکبر کے بارے میں تعبیرات - ” یوم الحجۃ الاکبر “ کی تفسیر میں اختلاف ہے۔ بعض روایات میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے کہ اس سے مراد یوم عرفہ ہے۔ حضرت علی (رض) ، حضرت عمر (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) ، عطاء اور مجاہد سے مختلف روایات کی صورت میں یہی منقول ہے کہ اس سے یوم النحر یعنی دسویں ذی الحجہ مراد ہے۔ حضرت علی (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) ، حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) ، ابراہیم نخعی اور سعید بن جبیر (رض) سے مختلف روایات کی صورت میں یہ قول بھی منقول ہے کہ اس سے ایام حج مراد ہیں۔ یہ تعبیر عربی زبان میں عام ہے جس طرح نگ صفین میں کئی دنوں تک لڑائی ہوتی رہی لیکن اس کی تعبیر یوم صفین کے الفاظ سے کی جاتی ہے۔ حماد نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ حج اکبر حج قرآن کو کہتے ہیں اور حج اصغر حج افراد کچا نام ہے۔- لیکن یہتفسیر اس بنا پر ضعیف ہے کہ اس سے یہ بات ضروری ہوجاتی ہے کہ حج افراد کے لئے ایک معین دن ہوتا ہے اور حج قرآن کے کلیے بھی ایک معین دن۔ جبکہ یہ بات واضح ہے کہ حج افراد کے لئے بھی وہی دن ہے جو قرآن کے لئے ہے۔ اس صور میں حج اکبر کے دن کی فضیلت کا فائدہ باطل وہ جائے گا۔ اس صورت میں یہ واجب تھا کہ برأت کا یہ اعلان حج قران کے دن کیا جاتا۔ دوسری طرف قو باری (یوم الحج الاکبر) سے جب یوم عرفہ یا یوم النحر مراد ہوتا اور حج اصغر عمرہ کو کہا جاتا تو اس سے یہ ضروری ہوجاتا کہ حج کے ایام عمرہ کے ایام سے جدا ہوتے اور عمرہ ایام حج میں ادا نہ کیا جاتا۔ ابن سیرین سے ان کا یہ قول منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (یوم الحج الاکبر) صرف اس لئے فرمایا کہ تمام مذاہب کی عیدیں اس میں جچمع ہوگئی ہیں۔ نیز یہ وہ سال تھا جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فریضہ حج ادا کیا تھا۔ ابن سیرین کی اس تفسیر کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ غلط ہے اس لئے کہ برأت کا اعلان اس سال ہوا تھا جس سال حضرت ابوبکر (رض) نے امیر حج کی حیثیت سے فریضہ حج ادا کیا تھا نیز جس سال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فریضہ حج ادا کیا تھا اس سال مشرکین پر حج کے دروازے بند کردیئے گئے تھے۔ اس لئے کہ انہیں ایک سال قبل ہی آئندہ کے لئے بیت اللہ میں داخل ہونے کی ممانعت کردی گئی تھی۔ حضرت عبداللہ بن شداد کا قول ہے کہ حج اکبر یوم النحر ہے اور حج اصغر عمرہ ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ عمرہ حج اصغر ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے بھی اسی قسم کا قول منقول ہے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (الحج الاکبر) اس بات کا مقتضی ہے کہ کوئی حج اصغر بھی ہونا چاہیے اور یہ عمرہ ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن شداد (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی منقول ہے کہ آپ نے فرمایا (العمرۃ الحج الصغریٰ عمرہ چھوٹا حج ہے۔ جب یہ باتثابت ہوگئی کہ حج کا اسم عمرہ پر بھی واقع ہوتا ہے پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت اقرع بن جابس (رض) ک اس سوال پر کہ آیا حج کا فریضہ ہر سال ادا کیا جائے گا یا صرف ایک مرتبہ ؟ ارشاد فرمایا کہ (لا بل حجۃ واحدۃ نہیں بلکہ صرف ایک حج) یہ بات عمرہ کے وجوب کی نفی پر دلالت کرتی ہے اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حج کے سوا حج کے وجوب کی نفی فرما دی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ (الحج عرفہ حج عرفہ ہے) یعنی عرفات کے میدان میں کھڑے ہونے کا نام ہے۔ یہ اس پر دلالت کرتا ہے حج اکبر کا دن عرفہ کا دن ہے۔ اس میں یوم النحر کوھی حج اکبر کا دن ہونے کا احتمال ہے اس لئے کہ اس دن مناسک کی ادائیگی کی تکمیل ہوتی اور میل کچیل دور کیا جاتا ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے ایام منیٰ مراد ہوں جیسا کہ مجاہد سے منقول ہے۔ اسے اکبر کی صفت سے موصوف کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ایام منیٰ میں صرف حج کے ارکان ادا کئے جاتے ہیں عمرہ ادا نہیں کیا جاتا۔ ایک قول ہے کہ یوم عرفہ کی بہ نسبت یوم النحر کا یوم حج اکبر بننا اولیٰ ہے اس لئے کہ یوم النحر میں تمام حاجیوں کا اجتماع وہ جاتا ہے جبکہ عرفات میں بعض حاجی رات کے وقت آتے ہیں اور بعض دن کے وقت جہاں تک سورة برأت کے اعلان کا تعلق ہے اس میں یہ ممکن ہے کہ اس کا اعلان یوم عرفہ کو ہوا ہو اور اس کا بھی امکان ہے کہ یوم النحر کو ہوا ہو۔
(٣) یہ انکار کرنے والی جماعت چار ماہ کے بعد عذاب الہی سے جو ان کے قتل کی صورت میں ہوگا کہیں بچ کر نہیں جاسکتے اور چار ماہ کے بعد اللہ تعالیٰ کافروں کو قتل کی سزا دینے والا ہے اور یہ یوم النحر کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے عام لوگوں کے سامنے اعلان کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں مشرکین کے دین اور ان کے معاہدہ سے جس کی انہوں نے بدعہدی کی ہے دست بردار ہوتے ہیں۔- پھر اگر تم لوگ کفر سے توبہ کرلو اور اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن پر ایمان لے آؤ تو یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا اور اگر ایمان اور توبہ سے روگردانی کرتے رہو گے تو تم جان لو کہ عذاب الہی کو تم اپنے سے الگ نہیں کرسکتے اور ماہ کے بعد قتل کی سزا جھیلو گے۔
آیت ٣ (وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ ) - عمرے کو چونکہ حج اصغر کہا جاتا ہے اس لیے یہاں عمرے کے مقابلے میں حج کو حج اکبر کہا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے ہاں عوام میں جو یہ بات مشہور ہے کہ حج اگر جمعہ کے دن ہو تو وہ حج اکبرہوتا ہے ‘ ایک بےبنیاد بات ہے۔- (اَنَّ اللّٰہَ بَرِیْٓءٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَلا وَرَسُوْلُہٗ ط) - یہ اعلان چونکہ حج کے اجتماع میں کیا گیا تھا اور حج کے لیے جزیرہ نمائے عرب کے تمام اطراف و اکناف سے لوگ آئے ہوئے تھے ‘ لہٰذا اس موقع پر اعلان کرنے سے گویا عرب کے تمام لوگوں کے لیے اعلان عام ہوگیا کہ اب اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین سے برئ الذمہ ہیں اور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں رہا۔
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :4 یعنی ۱۰ ذی الحجہ جسے یوم النحر کہتے ہیں ۔ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ حجۃ الوداع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے حاضرین سے پوچھا یہ کونسا دین ہے؟ لوگوں نے عرض کیا یوم النحر ہے ۔ فرمایا ھٰذا یوم الحج الاکبر ۔ ” یہ حج اکبر کا دن ہے“ ۔ حج اکبر کا لفظ حج اصغر کے مقابلہ میں ہے ۔ اہل عرب عمرے کو چھوٹا حج کہتے ہیں ۔ اس کے مقابلہ میں وہ حج جو ذوالحجہ کی مقررہ تاریخوں میں کیا جاتا ہے ، وہ حج اکبر کہلاتا ہے ۔
2: دست برداری کا یہ حکم آچکا تھا، لیکن اﷲ تعالیٰ نے ان تمام لوگوں سے انصاف کی خاطر ان مختلف مدتوں کی ابتدا اس وقت سے فرمائی جب ان کو ان سارے احکام کی اطلاع ہوجائے۔ پورے عرب میں اعلان کا سب سے موثر ذریعہ یہ تھا کہ یہ اعلان حج کے موقع پر کیا جائے، کیونکہ اس وقت سارے عرب کے لوگ حجاز میں جمع ہوتے تھے، اور اس وقت تک مشرکین بھی حج کے لئے آتے تھے۔ چنانچہ فتح مکہ کے بعد جو حج ۹ ہجری میں ہوا۔ اس سال آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بہ نفس نفیس توحج کے لئے تشریف نہیں لے گئے تھے، لیکن حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو امیر حج بناکر بھیجا تھا۔ اُن کے بعد آپ نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بھی اسی مقصد سے روانہ فرمایا کہ وہ ان احکام کا سب کے سامنے اعلان کردیں، وجہ یہ تھی کہ اہل عرب میں یہ معمول تھا کہ اگر کسی شخص نے کوئی معاہدہ کیا ہوتا اور وہ اسے ختم کرنا چاہتا تو یہ ضروری سمجھاجاتا تھا کہ معاہدہ ختم کرنے کا اعلان یا تو وہ خود کرے یا اس کا کوئی قریبی عزیز۔ اس لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو روانہ فرمایا. (الدرالمنثورص ۱۱۴ ج، ۴ بیروت ۱۴۲۱ ھ)۔ واضح رہے کہ ’’حج اکبر‘‘ ہر حج کو اس لئے کہتے ہیں کہ عمرہ چھوٹا حج ہے، اور اس کے مقابلے میں حج بڑا حج ہے۔ اور یہ جو لوگوں میں مشہور ہے کہ اگر حج جمعہ کے دن آجائے تو وہ ’’حج اکبر‘‘ ہوتا ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ جمعہ کے دن حج ہو تو بیشک دو فضیلتیں جمع ہوجاتی ہیں، لیکن صرف اسی کو حج اکبر قرار دینا درست نہیں ہے، بلکہ یہ لقب ہر حج کا ہے، چاہے وہ کسی بھی دن ہو۔