Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

منافقت کے خوگر شہری اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلوات اللہ و سلامہ علیہ کو بتلاتا ہے کہ مدینے کے اردگرد رہنے والے گنواروں میں اور خود اہل مدینہ میں بہت سے منافق ہیں ۔ جو برابر اپنے نفاق کے خوگر ہو چکے ہیں ۔ تمرد فلان علی اللہ اس وقت کہتے ہیں جب کوئی اللہ تعالیٰ کے سامنے سرکشی اور نافرمانی کرے ۔ پھر فرماتا ہے کہ تم تو انہیں جانتے نہیں ہم جانتے ہیں ۔ اور آیت میں ہے ـ اگر ہم چاہیں تو تجھے اور ان کو دکھا دیں اور تو ان کی علامات اور چہروں سے انہیں پہچان لے ۔ یقینا تو انہیں انکی باتوں کے لب و لہجے سے جان لے گا ۔ غرض ان دونوں آیتوں میں کوئی فرق نہ سمجھنا چاہیے ۔ نشانیوں سے پہچان لینا اور بات ہے اور اللہ کی طرف کا قطعی علم کہ فلاں فلاں منافق ہے اور چیز ہے پس بعض منافق لوگوں کی منافقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کھل گئی تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام منافقوں کو جاننا ممکن نہیں تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف انتا جانتے تھے کہ مدینے میں بعض منافق ہیں ۔ صبح وشام وہ دربار رسالت میں حاضر رہا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں کے سامنے تھے ۔ اس قول کی صحت مسند احمد کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے ۔ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ مکے کا ہمارا کوئی اجر نہیں ۔ آپ نے فرمایا تمہارے پاس تمہارے اجر آہی جائیں گے گو تم لومڑی کے بھٹ میں ہو ۔ پھر آپ نے ان کے کان سے اپنا منہ لگا کر فرمایا کہ میرے ان ساتھیوں میں بھی منافق ہیں ۔ پس مطلب یہ ہوا کہ بعض منافق غلط سلط باتیں بک دیا کرتے ہیں ، یہ بھی ایسی ہی بات ہے ۔ ( وَهَمُّوْا بِمَا لَمْ يَنَالُوْا ۚ وَمَا نَقَمُوْٓا اِلَّآ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ ۚ فَاِنْ يَّتُوْبُوْا يَكُ خَيْرًا لَّهُمْ ۚ وَاِنْ يَّتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ عَذَابًا اَلِـــيْمًا ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ وَمَا لَهُمْ فِي الْاَرْضِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ 74؀ ) 9- التوبہ:74 ) کی تفسیر میں ہم کہہ آئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو بارہ یا پندرہ منافقوں کے نام بتائے تھے ۔ پس اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ایک ایک کر کے تمام منافقوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم تھا ۔ نہیں بلکہ چند مخصوص لوگوں کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم کرا دیا تھا واللہ اعلم ۔ ابن عساکر میں ہے کہ حرملہ نامی ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا ایمان تو یہاں ہے اور اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا ۔ اور نفاق یہاں ہے اور ہاتھ سے اپنے دل کی طرف اشارہ کیا اور نہیں ذکر کیا اللہ کامگر تھوڑا ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اے اللہ اسے ذکر کرنے والی زبان ، شکر کرنے والا دل دے اور اسے میری اور مجھ سے محبت رکھنے والوں کی محبت عنایت فرما اور اس کے کام کا انجام بخیر کر ۔ اب تو وہ کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھی اور بھی ہیں جن کا میں سردار تھا ، وہ سب بھی منافق ہیں اگر اجازت ہو تو انہیں بھی لے آؤں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو جو ہمارے پاس آئے گا ہم اسکے لئے استغفار کریں گے اور جو اپنے دین ( نفاق ) پر اڑا رہے گا اللہ ہی اس کے ساتھ اولیٰ ہے ۔ تم کسی کی پردہ دری نہ کروـ ۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ تکلف سے اوروں کا حال بیان کرنے بیٹھ جاتے ہیں کہ فلاں جنتی ہے اور فلاں دوزخی ہے ۔ اس سے خود اس کی حالت پوچھو تو یہی کہے گا کہ میں نہیں جانتا ۔ حالانکہ انسان اپنی حالت سے بہ نسبت اوروں کی حالت کے زیادہ عالم ہوتا ہے ۔ یہ لوگ وہ تکلف کرتے ہیں جو نکلف انبیاء علیہم السلام نے بھی نہیں کیا ۔ نبی اللہ حضرت نوح علیہ السلام کا قول ہے وما علمی بماکانا یعملون ان کے اعمال کامجھے علم نہیں ۔ نبی اللہ حضرت شعیب علیہ السلام فرماتے ہیں ( وَمَآ اَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيْظٍ ١٠٤؁ ) 6- الانعام:104 ) میں تم پر کوئی نگہبان نہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے ( لَا تَعْلَمُھُمْ ۭ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ ۭ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ ١٠١؀ۚ ) 9- التوبہ:101 ) تو انہیں نہیں جانتا ہم ہی جانتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ جمعہ کے خطبے میں رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم نے فرمایا اے فلاں تو نکل جا تو منافق ہے اور اے فلاں تو بھی یہاں سے چلا جا تو منافق ہے ۔ پس بہت سے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد سے چلے جانے کا حکم فرمایا ۔ ان کا نفاق مسلمانوں پر کھل گیا یہ پورے رسوا ہوئے ۔ یہ تو مسجد سے نکل کر جا رہے تھے اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آ رہے تھے ۔ آپ ان سے ذرا کترا گئے یہ سمجھ کر کہ شاید نماز ہو چکی اور یہ لوگ فارغ ہو کر جا رہے ہیں اور میں غیر حاضر رہ گیا ۔ اور وہ لوگ بھی آپ سے شرمائے یہ سمجھ کر کہ ان پر بھی ہمارا حال کھل گیا ہو گا ۔ اب مسجد میں آکر دیکھا کہ ابھی نماز تو ہوئی نہیں ۔ تو ایک شخص نے آپ کو کہا لیجئے خوش ہو جائیے ۔ آج اللہ نے منافقوں کو خوب شرمندہ و رسوا کیا ۔ یہ تو تھا پہلا عذاب جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد سے نکلوا دیا ۔ اور دوسرا عذاب عذاب قبر ہے ۔ دو مرتبہ کے عذاب سے مجاہد کی نزدیک مراد قتل و قید ہے ۔ اور روایت میں بھوک اور قبر کا عذاب ہے ۔ ابن جریج فرماتے ہیں عذاب دنیا اور عذاب قبر مراد ہے ۔ عبدالرحمن بن زید فرماتے ہیں دنیا کا عذاب تو مال واولاد ہے ۔ جیسے قرآن میں ہے ( فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَلَآ اَوْلَادُهُمْ ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كٰفِرُوْنَ 55؀ ) 9- التوبہ:55 ) یعنی تجھے انکامال اور انکی اولادیں اچھی نہ لگنی چاہیں اللہ کا ارادہ تو ان کی وجہ سے انہیں دنیا میں عذاب دینا ہے ۔ پس یہ مصیبتیں ان کے لئے عذاب ہیں ہاں مومنوں کے لئے اجر و ثواب ہیں ۔ اور دوسرا عذاب جہنم کا آخرت کے دن ہے ۔ محمد بن اسحاق فرماتے ہیں پہلا عذاب تو یہ کہ اسلام کے احکام بظاہر ماننے پڑے ، اسکے مطابق عمل کرنا پڑا جو دلی منشا کے خلاف ہے ۔ دوسرا عذاب قبر کا ۔ پھر ان دونوں کے سوا دائمی جہنم کا عذاب ۔ قتادہ کہتے ہیں کہ عذاب دنیا اور عذاب قبر پر عذاب عظیم کی طرف لوٹایا جانا ہے ۔ مذکور ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوشیدہ طور پر بارہ منافقوں کے نام بتائے تھے ۔ اور فرمایا تھا کہ ان میں سے چھ کو دبیلہ کافی ہوگا جو جہنم کی آگ کا انگارا ہوگا ۔ جوان کے شانے پر ظاہر ہو گا اور سینے تک پہنچ جائے گا ۔ اور چھ بری موت مریں گے ۔ یہی وجہ تھی کہ جناب عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب دیکھتے کہ کوئی ایسا ویسا داغدار شخص مرا ہے تو انتظار کرتے کہ اس کے جنازے کی نماز حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ پڑھتے ہیں یا نہیں؟ اگر وہ پڑھتے تو آپ بھی پڑھتے ورنہ نہ پڑھتے ۔ مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا میں بھی ان میں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا نہیں آپ ان منافقوں میں نہیں ۔ اور آپ کے بعد مجھے اس سے کسی پر بےخوفی نہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

101۔ 1 مرد اور تمرد کے معنی ہیں نرمی ملائمت (چکناہٹ) اور تجرد۔ چناچہ اس شاخ کو جو بغیر پتے کے ہو، وہ گھوڑا جو بغیر بال کے ہو، وہ لڑکا جس کے چہرے پر بال نہ ہوں، ان سب کو اَ مْرَدُ کہا جاتا ہے اور شیشے کو صَرْح مُمَرَّد اَیْ مُجَرَّدً کہا جاتا ہے (مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ ) گویا انہوں نے نفاق کے لئے اپنے آپ کو خالص اور تنہا کرلیا، یعنی اس پر ان کا اصرار ہمیشہ رہنے والا ہے 101۔ 2 کتنے واضح الفاظ میں نبی سے علم غیب کی نفی ہے۔ کاش اہل بدعت کو قرآن سمجھنے کی توفیق نصیب ہو۔ 101۔ 3 اس سے مراد بعض کے نزدیک دنیا کی ذلت و رسوائی اور پھر آخرت کا عذاب ہے اور بعض کے نزدیک دنیا میں ہی دوہری سزا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٤] مدینہ کے چالاک منافقین :۔ یعنی وہ اس قدر ہوشیار اور چالاک ہیں اور ان کا نفاق اتنا گہرا اور پراسرار ہے کہ وہ اپنی منافقت کو ظاہر نہیں ہونے دیتے تاہم اپنی منافقت پر پوری مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں۔ عام مسلمان انہیں پکے مسلمان ہی سمجھتے ہیں۔ حتیٰ کہ آپ اپنی پیغمبرانہ فراست کے باوجود انہیں نہیں جانتے۔ ان کے نفاق کو بس اللہ ہی جانتا ہے جو دلوں کے ارادوں اور رازوں تک سے واقف ہے۔- [١١٥] منافقوں کو دو سزائیں :۔ دو مرتبہ عذاب سے مراد اگر جنس عذاب لیا جائے تو ایک دنیا کا عذاب ہوگا۔ دوسرا عالم برزخ کا اور یہ دونوں قیامت کے بڑے عذاب سے پہلے انہیں بھگتنا ہوں گے اور اگر دنیا کے عذاب ہی مراد لیے جائیں تو ایک عذاب تو ان کی اپنی اولادوں اور تمام مومنوں کے سامنے ذلت و رسوائی ہے جو ان کے نفاق کی چالوں سے پردہ فاش ہوجانے کی صورت میں انہیں برداشت کرنا پڑتی ہے۔ دوسرے وہ ذہنی اور روحانی کوفت ہے کہ اسلام کی ترقی کے ساتھ ساتھ دم بدم بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ : پہلے اعراب (بدوی) منافقین کا ذکر فرمایا، پھر اعراب میں سے مخلصین کا تذکرہ کیا۔ ان کے بعد سابقین مہاجرین و انصار اور ان کے پیچھے آنے والے صاحب احسان لوگوں کو خوش خبری دی اور ان کے لیے بلند مراتب کا بیان فرمایا (ان کا تذکرہ سورة جمعہ کی ابتدائی آیات میں بھی فرمایا ہے) اب ان ضمنی مباحث کے بعد پھر منافقین کے ایک گروہ کا ذکر فرمایا جو مدینہ اور اس کے ماحول میں رہتے ہوئے اپنے نفاق میں ” مَرَدُوْا “ اتنے مشاق اور ماہر ہوگئے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی تیز ترین فراست اور قوی ترین اندازے کے باوجود ان سب کو معین طور پر نہیں پہچان سکے، گو بعض کو ان کے لہجے اور دوسری علامات سے، یا اللہ تعالیٰ کی نشان دہی سے پہچانتے ہوں۔ دیکھیے سورة محمد (٣٠) لہٰذا جن روایات میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض منافقین کے نام بھی حذیفہ (رض) کو بتا دیے تھے، وہ اس آیت کے منافی نہیں، کیونکہ یہاں یہ کہا گیا ہے کہ آپ ان تمام کو نہیں جانتے، گویا آپ بعض منافقین کو جانتے تھے اور بعض کو نہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ سب کو جانتا ہے، اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عالم الغیب ہونے کے غلط دعویٰ کی حقیقت بھی واضح ہو رہی ہے۔ - سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَيْنِ : ایک تو دنیا میں غم و اندوہ اور فکر مندی کا عذاب، جس میں منافقین ہمیشہ مبتلا رہتے ہیں، فرمایا : (يَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ) [ المنافقون : ٤ ] کہ وہ ہر لمحہ اپنے آپ کو خطرہ میں محسوس کرتے ہیں، ہر بلند آواز کو اپنے خلاف گمان کرتے ہیں اور پھر یہ رسوائی بھی کہ کفار اور مسلمانوں میں سے انھیں اپنا سمجھنے کے لیے کوئی تیار نہ تھا اور مرنے کے بعد قبر کے عذاب کو دوسرا عذاب فرمایا۔ یا ” مَّرَّتَيْنِ “ سے مراد موت کے وقت فرشتوں کی مار ہے، جیسا کہ فرمایا : (يَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَاَدْبَارَهُمْ ) [ محمد : ٢٧ ] ” وہ ان کے چہروں اور ان کی پیٹھوں پر مارتے ہوں گے۔ “ پھر قبر کا عذاب، اس کے بعد ” عَذَابٍ عَظِيْمٍ “ سے مراد جہنم کا عذاب ہے۔ ” مَّرَّتَيْنِ “ کا معنی ” بار بار “ بھی آتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ( ۭ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ۙ هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ ۔ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ اِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّهُوَ حَسِيْرٌ) [ الملک : ٤ ] ” پھر بار بار نگاہ لوٹا، نظر ناکام ہو کر تیری طرف پلٹ آئے گی اور وہ تھکی ہوئی ہوگی۔ “ یعنی دنیا میں مال و اولاد، پریشانیوں اور ذلتوں کے ذریعے سے، پھر موت کے وقت، پھر قبر کے اندر بار بار عذاب دے کر آخر کار جہنم میں پہنچا دیں گے۔ یہ معنی بہت جامع ہے ۔- ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ : شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” مَّرَّتَيْنِ “ یعنی دنیا میں تکلیف پر تکلیف پائیں گے، پھر آخرت میں پکڑے جائیں گے۔ “ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور کچھ تمہارے گرد و پیش والوں میں اور کچھ مدینہ والوں میں ایسے منافق ہیں کہ نفاق کی حد کمال پر ( ایسے) پہنچنے ہوئے ہیں ( کہ) آپ ( بھی) ان کو نہیں جانتے ( کہ یہ منافق ہیں بس) ان کو ہم ہی جانتے ہیں ہم ان کو ( دوسرے منافقین کی نسبت آخرت سے پہلے بھی) دوہری سزا دیں گے ( ایک نفاق کی دوسرے کمال نفاق کی اور) پھر ( آخرت میں بھی) وہ بڑے بھاری عذاب ( یعنی جہنم مع خلو و دائمی) کی طرف بھیجے جاویں گے۔- معارف و مسائل - سابقہ بہت سی آیات میں ان منافقین کا ذکر آیا ہے جن کا نفاق ان کے اقوال و افعال سے ظاہر ہوچکا تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہچانتے تھے کہ یہ منافق ہیں، اس آیت میں ایسے منافقین کا ذکر ہے جن کا نفاق انتہائی کمال پر ہونے کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اب تک مخفی رہا، اس آیت میں ایسے شدید منافقین پر آخرت سے پہلے ہی دو عذاب ہونے کا ذکر آیا ہے، ایک دنیا ہی میں کہ ہر وقت اپنے نفاق کو چھپانے کی فکر اور ظاہر ہونے کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں، اور اسلام اور مسلمانوں سے انتہائی بغض و عداوت رکھنے کے باوجود ظاہر میں ان کی تعظیم و تکریم اور ان کے اتباع پر مجبور ہونا بھی کچھ کم عذاب نہیں، اور دوسرا عذاب قبر و برزخ کا عذاب ہے، جو قیامت و آخرت سے پہلے ہی ان کو پہنچنے گا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ۝ ٠ ۭ ۛ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِيْنَۃِ۝ ٠ ۣ ۛؔ مَرَدُوْا عَلَي النِّفَاقِ۝ ٠ ۣ لَاتَعْلَمُھُمْ۝ ٠ ۭ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ۝ ٠ ۭ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ۝ ١٠١ ۚ- حول - أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] - ( ح ول ) الحوال - ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔- نِّفَاقُ- ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] - نفاق جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ - أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- مدن - المَدينة فَعِيلَةٌ عند قوم، وجمعها مُدُن، وقد مَدَنْتُ مَدِينةً ، ون اس يجعلون المیم زائدة، قال تعالی: وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة 101] قال : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص 15] .- ( م دن ) المدینۃ ۔ بعض کے نزدیک یہ فعیلۃ کے وزن پر ہے اس کی جمع مدن آتی ہے ۔ اور مدنت مدینۃ کے معنی شہر آیا ہونے کے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک اس میں میم زیادہ ہے ( یعنی دین سے مشتق ہے ) قرآن پاک میں ہے : وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة 101] اور بعض مدینے والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں ۔ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی آیا ۔ وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص 15] اور وہ شہر میں داخل ہوئے ۔- مرد - قال اللہ تعالی: وَحِفْظاً مِنْ كُلِّ شَيْطانٍ مارِدٍ [ الصافات 7] والمارد والمرِيد من شياطین الجنّ والإنس : المتعرّي من الخیرات . من قولهم : شجرٌ أَمْرَدُ : إذا تعرّى من الورق، ومنه قيل : رملةٌ مَرْدَاءُ : لم تنبت شيئا، ومنه : الأمرد لتجرّده عن الشّعر . وروي : «أهل الجنّة مُرْدٌ» «4» فقیل : حمل علی ظاهره، وقیل : معناه : معرون من الشّوائب والقبائح، ومنه قيل : مَرَدَ فلانٌ عن القبائح، ومَرَدَ عن المحاسن وعن الطاعة . قال تعالی: وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة 101] أي : ارتکسوا عن الخیر وهم علی النّفاق، وقوله : مُمَرَّدٌ مِنْ قَوارِيرَ [ النمل 44] أي : مملّس . من قولهم : شجرةٌ مَرْدَاءُ : إذا لم يكن عليها ورق، وكأنّ المُمَرَّدَ إشارة إلى قول الشاعرفي مجدل شيّد بنیانه ... يزلّ عنه ظفر الظّافر ومَارِدٌ: حصن معروف وفي الأمثال : تَمرَّدَ ماردٌ وعزّ الأبلق قاله ملک امتنع عليه هذان الحصنان .- ( م ر د ) المارد والمرید ۔ جنوں اور انسانوں سے اس شیطان کو کہاجاتا ہے جو ہر قسم کی خیر سے عاری ہوچکا ہو ۔ قرآن پاک میں ہے : وَحِفْظاً مِنْ كُلِّ شَيْطانٍ مارِدٍ [ الصافات 7] اور ہر شیطان سرکش سے اس کی حفاظت کے لئے ۔ یہ شجر امرد سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی ہیں وہ درخت جس کے پتے نہ ہوں ۔ اور اسی سے رملۃ مرداء ہے یعنی ریت کا ٹیلہ جس پر کوئی چیز نہ اگتی ہو اور اس سے امرد اس نوجوان کو کہتے ہیں جس کے ہنوز سبزہ نہ اگاہو ۔ حدیث میں ہے اھل الجنۃ کلم مرد ) کہ اہل جنت سب کے سب امرد ہوں گے ۔ چناچہ بعض نے اس حدیث کو ظاہری معنی پر ہی حمل کیا ہے ۔ اور بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ دو ہر قسم کے عیوب سے پاک ہوں گے ۔ جیسے محاورہ ہے : مرد فلان عن القیائح فلاں ہر قسم کی قباحت سے پاک ہے ۔ مرر فلان عن المجاسن وہ محاسن سے عاری ہے ۔ مرر عن للطاعۃ ۔ سرکشی کرنا ۔ پس آیت کریمہ : وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة 101] ومن اھل المدینہ مردو ا عن النفاق کے معنی یہ ہیں ۔ کہ اہل مدینہ سے بعض لوگ ۔۔۔ نفاق پر اڑ کر ہر قسم کی خیر سے محروم ہوگئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : مُمَرَّدٌ مِنْ قَوارِيرَ [ النمل 44] شیشے جڑے ہونے کی وجہ سے ہموار ۔ میں ممرد کے معنی ہموار ی چکنا کیا ہوا کے ہیں ۔ اور یہ شجرۃ مردآء سے ماخوذ ہے ۔ گویا ممرد کے لفظ سے اس کی اس صفت کی طرف اشارہ ہے جسے شاعر نے یوں بیان کیا ہے ( سریع ) (406) فی مجلدل شید بنیانہ یزل عنہ ظفرا لطائر ایک مضبوط محل میں جس پر ایسا پلا سڑ لگا گیا ہے کہ اس سے پرند کے ناخن بھی پھسل جاتے ہیں ۔ مارد ایک مشہور قلعے کا نام ہے ۔ مثل مشہور ہے مرد مارد وعزالابلق۔ مارہ ( قلعہ ) نے سرکشی کی اور ابلق ( قلعہ ) غالب رہا ۔ یعنی وہ دونوں قلعے سر نہ ہوسکے ۔ یہ مقولہ ایک باشاہ کا ہے جو ان دونوں قلعوں کو زیر نہیں کرسکا تھا ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - مَرَّةً- مَرَّةً ومرّتين، كفَعْلَة وفَعْلَتين، وذلک لجزء من الزمان . قال :- يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ [ الأنفال 56] ، وَهُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة 13] ، إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة 80] ، إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة 83] ، سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ [ التوبة 101] ، وقوله : ثَلاثَ مَرَّاتٍ [ النور 58] .- مرۃ ( فعلۃ ) ایک بار مرتان ض ( تثنیہ ) دو بار قرآن میں ہے : يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ [ الأنفال 56] پھر وہ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں ۔ وَهُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة 13] اور انہوں نے تم سے پہلی بار ( عہد شکنی کی ) ابتداء کی ۔إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة 80] اگر آپ ان کے لئے ستربار بخشیں طلب فرمائیں ۔ إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة 83] تم پہلی مرتبہ بیٹھ رہنے پر رضامند ہوگئے ۔ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ [ التوبة 101] ہم ان کو دو بار عذاب دیں گے ۔ ثَلاثَ مَرَّاتٍ [ النور 58] تین دفعہ ( یعنی تین اوقات ہیں ۔- رد - الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] - ( رد د ) الرد ( ن )- اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔- وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے وممن حولکم من الاعراب منافقون ومن اھل المدینۃ مردوا علی النفاق لا تعلمھم نحن نعلمھم سنعدبھم مرتین اور تمہارے گردو بیش جو بدوی رہتے ہیں ان میں بہت سے منافق ہیں اور اسی طرح خود مدینہ کے باشندوں میں بھی منافق موجود ہیں جو نفاق میں طاق ہوگئے ہیں ۔ تم انہیں نہیں جانتے ہم ان کو جانتے ہیں قریب ہے وہ وقت جب ہم ان کو دوہری سزا دیں گے۔ حسن اور قتادہ کا قول کے دوہری سزا سے مراد دنیا اور قبر کا عذاب ہے ثم یردون الی عذاب عظیم اور پھر وہ زیادہ بڑی سزا کے لیے واپس لائے جائیں گے۔ اور اس سے جہنم کا عذاب مراد ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ ایک سزا وہ ہے جو دنیا میں ذلت اور رسوائی کی صورت میں ملنے والی تھی اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منافقین کے کچھ افراد کی متعین طور پر نشان دہی فرما دی تھی اور دوسری سزا وہ ہے جو قبر میں انہیں ملے گی ۔ مجاہدکا قول ہے کہ دوہری سزا سے مراد وہ سزا ہیں جو قتل ، قید اور بھوک کی صورت میں انہیں ملیں گی۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠١) اور قبیلہ اسد وغطفان کے کچھ لوگ اور مدینہ والوں میں سے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی ایسے منافق ہیں کہ جو نفاق کی آخری حدوں کو پہنچے ہوئے ہیں اور اس پر ثابت قدم ہیں، آپ بھی ان کے نفاق کو نہیں جانتے، ان کے نفاق کو بس ہم ہی جانتے ہیں ہم ان کو ایک بار ان کی جانیں قبض کرنے کے وقت اور دوسری بار ان کو عذاب قبردیں گے پھر یہ عذاب جہنم کی طرف بھیجے جائیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠١ (وَمِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ط) وَمِنْ اَہْلِ الْمَدِیْنَۃِقف مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ قف) - یہ وہ لوگ ہیں جن کے نفاق کا مرض اب آخری مرحلے میں پہنچ کر لا علاج ہوچکا ہے اور اب اس مرض سے ان کے شفایاب ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ منافقت کے مرض کی بھی ٹی بی کی طرح تین ہوتی ہیں۔ جھوٹے بہانے بنانا اس مرض کی ابتدا ہے ‘ جبکہ بات بات پر جھوٹی قسمیں کھانا دوسری سٹیج کی علامت ہے ‘ اور جب یہ مرض تیسری اور آخری سٹیج میں پہنچتا ہے تو اس کی واضح علامت منافقین کی اہل ایمان کے ساتھ ضد اور دشمنی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اہل ایمان تو دین کے تمام مطالبات خوشی خوشی پورے کرتے ہیں ‘ جس مہم سے بچنے کے لیے منافقین بہانے تراشنے میں مصروف ہوتے ہیں اہل ایمان بلا حیل و حجت اس کے لیے دل و جان سے حاضر ہوجاتے ہیں۔ مؤمنین صادقین کا یہ رویہ منافقین کے لیے ایک عذاب سے کم نہیں ہوتا ‘ جس کے باعث آئے دن ان کی سبکی ہوتی ہے اور آئے دن ان کی منافقت کا پول کھلتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منافقین کو مسلمانوں سے نفرت اور عداوت ہوجاتی ہے اور یہی اس مرض کی آخری سٹیج ہے۔- (لاَ تَعْلَمُہُمْ ط نَحْنُ نَعْلَمُہُمْط سَنُعَذِّبُہُمْ مَّرَّتَیْنِ ) - منافقین مدینہ تو ہر روز نئے عذاب سے گزرتے تھے۔ ہر روز کہیں نہ کہیں اللہ کی راہ میں نکلنے کا مطالبہ ہوتا تھا اور ہر روز انہیں جھوٹی قسمیں کھا کھا کر ‘ جھوٹے بہانے بنا بنا کر جان چھڑانا پڑتی تھی۔ اس لحاظ سے ان کی زندگی مسلسل عذاب میں تھی۔ - (ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیْمٍ ) - دنیا کا عذاب جتنا بھی ہو آخرت کے عذاب کے مقابلے میں تو کچھ بھی نہیں۔ لہٰذا دنیا کے عذاب جھیلتے جھیلتے ایک دن انہیں بہت بڑے عذاب کا سامنا کرنے کے لیے پیش ہونا پڑے گا۔ - السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ ‘ ان کے متبعین اور پھر منافقین کے ذکر کے بعد اب کچھ ایسے لوگوں کا ذکر ہونے جا رہا ہے جو ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ہیں۔ ان لوگوں کا ذکر بھی دو الگ الگ درجوں میں ہوا ہے۔ ان میں پہلے جس گروہ کا ذکر آ رہا ہے وہ اگرچہ مخلص مسلمان تھے مگر ان میں ہمت کی کمی تھی۔ چلنا بھی چاہتے تھے مگر چل نہیں پاتے تھے۔ کسی قدر چلتے بھی تھے مگر کبھی کوتاہی بھی ہوجاتی تھی۔ ہمت کر کے آگے بڑھتے تھے لیکن کبھی کسل مندی اور سستی کا غلبہ بھی ہوجاتا تھا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :97 یعنی اپنے نفاق کو چھپانے میں وہ اتنے مشاق ہوگئے ہیں کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی کمال درجے کی فراست کے باوجود ان کو نہیں پہنچان سکتے تھے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :98 دوہری سزا سے مراد یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ دنیا جس کی محبت میں مبتلا ہو کر انہوں نے ایمان و اخلاص کے بجائے منافقت اور غداری کا رویہ اختیار کیا ہے ، ان کے ہاتھ سے جائے گی اور یہ مال و جاہ اور عزت حاصل کرنے کے بجائے الٹی ذلت و نامرادی پائیں گے ۔ دوسری طرف جس مشن کو یہ ناکام دیکھنا اور اپنی چال بازیوں سے ناکام کرنا چاہتے ہیں وہ ان کی خواہشوں کو کوششوں کے علی الرغم ان کی آنکھوں کے سامنے فروغ پائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

76: پہلے جن دیہاتیوں کا ذکر آیا تھا وہ مدینہ سے دور رہتے تھے اب ان دیہاتیوں کا ذکر ہے جو مدینہ منورہ کے آس پاس رہتے تھے اور خود مدینہ منورہ کے باشندوں میں ان منافقین کا جن کا نفاق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی معلوم نہیں تھا۔ 77: دو مرتبہ سزا دینے کی تشریح مختلف طریقوں سے کی گئی ہے صحیح مراد تو اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے ؛ لیکن بظاہر ایک سزا تو یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی شکست کی جو آس لگائی ہوئی تھی وہ پوری نہ ہوئی اور مسلمان غزوۂ تبوک سے صحیح وسلامت واپس آگئے، یہ بذات خود ان منافقوں کے لئے ایک سزا تھی اور دوسرے بہت سے منافقوں کا نفاق کھل گیا اور ان کو دنیا ہی میں ذلت اٹھانی پڑی۔