Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تساہل اور سستی سے بچو منافقوں کا حال اوپر کی آیتوں میں بیان فرمایا جو اللہ کی راہ میں جہاد سے بے ایمانی ، شک اور جھٹلانے کے طور پر جی چراتے ہیں اور شامل نہیں ہوتے ۔ اس آیت میں ان کا بیان ہو رہا ہے جو ہیں تو ایمان دار اور سچے پکے مسلمان ۔ لیکن سستی اور طلب راحت کی وجہ سے جہاد میں شامل نہ ہوئے ۔ انہیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے ، اللہ کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ ان کی نیکیاں بھی ہیں ۔ پس یہ نیکی بدی والے لوگ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہیں اس کی معافی اور درگذر کے ماتحت ہیں ۔ یہ آیت گو معین لوگوں کے بارے میں ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے ، ہر مسلمان جو نیکی کے ساتھ بدی میں بھی ملوث ہو وہ اللہ کے سپرد ہے ۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ آیت اتری ہے جب کہ انہوں نے بنو قریظہ سے کہا تھا کہ ذبح ہے اور اپنے ہاتھ سے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں یہ آیت اتری ہے یہ لوگ غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے ۔ حضرت ابو لبابہ کے ساتھ اور بھی پانچ یا سات یا نو آدمی تھے ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو ان بزرگوں نے اپنے تئیں مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ دیا تھا کہ جب تک خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دست مبارک سے نہ کھولیں گے ہم اس قید سے آزاد نہ ہوں گے جب یہ آیت اتری حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خودان کے بندھن کھولے اور ان سے درگذر فرما لیا ۔ بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میرے پاس آج رات کو دو آنے والے آئے جو مجھے اٹھا کر لے چلے ۔ ہم ایک شہر میں پہنچے جو سونے چاندی کی اینٹوں سے بنا ہوا تھا ۔ وہاں ہمیں چند ایسے لوگ ملے جنکا آدھا دھڑ تو بہت ہی سڈول ، نہایت خوشنما اور خوبصورت تھا اور آدھا نہایت ہی برا اور بدصورت ۔ ان دونوں نے ان سے کہا جاؤ اس اس نہر میں غوطہ لگاؤ ۔ وہ گئے اور غوطہ لگا کر واپس آئے وہ برائی ان سے دور ہو گئی تھی اور وہ نہایت خوبصورت اور اچھے ہوگئے تھے ۔ پھر ان دونوں نے مجھ سے فرمایا کہ یہ جنت عدن ہے ۔ یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منزل ہے ۔ اور جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی دیکھا یہ وہ لوگ ہیں جو نیکیوں کے ساتھ بدیاں بھی ملائے ہوئے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے درگذر فرما لیا اور انہیں معاف فرمایا ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں اس حدیث کو اسی طرح مختصراً ہی روایت کیا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

102۔ 1 یہ وہ مخلص مسلمان ہیں جو بغیر عذر کے محض سستی کی وجہ سے تبوک میں نبی کے ساتھ نہیں گئے بلکہ بعد میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا، اور اعتراف گناہ کرلیا۔ 102۔ 2 بھلے سے مراد وہ اعمال صالحہ ہیں جو جہاد میں پیچھے رہ جانے سے پہلے کرتے رہے ہیں جن میں مختلف جنگوں میں شرکت بھی کی اور کچھ برے سے مراد یہی تبوک کے موقع پر ان کا پیچھے رہنا۔ 102۔ 3 اللہ تعالیٰ کی طرف سے امید، یقین کا فائدہ دیتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ان کی طرف رجوع فرما کر ان کے اعتراف گناہ کو توبہ کے قائم مقام قرار دے کر انہیں معاف فرما دیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٦] غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے سات مسلمان جنہوں نے اپنے آپ کو مسجد کے ستون سے باندھ دیا تھا :۔ جب آپ غزوہ تبوک سے واپس تشریف لائے تو (80) اسی سے زیادہ منافق آپ کی خدمت میں حاضر ہو ہو کر طرح طرح کے بہانے بنانے لگے اور قسمیں کھا کھا کر اس بات کی یقین دہانی کرانے لگے کہ ہم فی الواقع معذور تھے۔ آپ نے ان سے کچھ تعرض نہ فرمایا بس اتنا کہہ دیا کہ اللہ تمہیں معاف کرے۔ ان کے علاوہ سات مسلمان ایسے تھے جو پیچھے رہ گئے تھے ان کے پاس کوئی معقول عذر نہ تھا الا یہ کہ وہ سستی کی وجہ سے شامل جہاد نہ ہو سکے تھے۔ انہوں نے آپ کی باز پرس سے پہلے ہی اپنے جرم کا اعتراف یوں کیا کہ اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھ دیا اور اپنے آپ پر نیند اور خوردو نوش کو حرام کرلیا اور قسم کھائی کہ جب تک رسول اللہ اپنے ان مجرموں اور قیدیوں کو اپنے ہاتھ سے نہ کھولیں گے اسی طرح بندھے رہیں گے۔ خواہ انہیں اسی حال میں موت ہی کیوں نہ آجائے۔ ان میں سرفہرست ابو لبابہ بن عبدالمنذر تھے جو ہجرت نبوی سے پہلے بیعت عقبہ کے موقعہ پر اسلام لائے تھے پھر غزوہ بدر اور دوسرے معرکوں میں شریک رہے بس اسی غزوہ تبوک میں نفس کی کمزوری نے غلبہ کیا تو پیچھے رہ گئے۔ ان کے باقی چھ ساتھیوں کا بھی سابقہ طرز زندگی بےداغ تھا۔ ان لوگوں کا یہ حال دیکھ کر آپ نے فرمایا واللہ جب تک اللہ حکم نہ دے میں انہیں کھول نہیں سکتا۔ چناچہ کئی روز تک یہ لوگ بےآب و دانہ اور بےخواب ستون سے بندھے رہے حتیٰ کہ بےہوش ہو کر گرپڑے۔ تب یہ آیات نازل ہوئیں تو آپ نے انہیں اپنے ہاتھ سے کھولا اور توبہ کی بشارت سنائی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ : (وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ ) والی آیت میں مسلمانوں کے بہترین لوگوں کا ذکر ہے اور (وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ) میں مسلمان کہلانے والے بدترین لوگوں کا ذکر ہے، جو آگ کے درک اسفل (سب سے نچلے حصے) کا ایندھن بننے والے ہیں اور اب عام مسلمانوں کا ذکر ہے جن کے صالح اعمال بھی ہیں اور کچھ اعمال سیۂ (برے کام) بھی ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ مفسرین نے یہاں ابولبابہ (رض) وغیرہ کا تذکرہ فرمایا کہ وہ مخلص مسلمان ہونے کے باوجود تبوک پر نہ جاسکے تو انھوں نے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ لیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں خود کھولیں گے تو ہم سمجھیں گے کہ ہماری توبہ قبول ہوگئی۔ آخر کار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے حکم سے انھیں اپنے ہاتھ سے کھولا اور پہلے ان کا پیش کردہ صدقہ قبول نہیں کیا تھا پھر اگلی آیت (خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً ) اتری تو ان کا صدقہ بھی قبول فرمایا۔ اس مفہوم کی اکثر روایات مرسل یا کمزور ہیں، البتہ ” الاستیعاب فی بیان الأسباب “ میں ابن عباس اور جابر (رض) کی ایک روایت کو حسن قرار دیا گیا ہے، جس میں ابولبابہ (رض) اور ان کے ساتھیوں کے پیچھے رہ جانے پر اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے باندھنے اور آخر کار اللہ کے حکم سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انھیں اپنے ہاتھ سے کھولنے کا اور (ۚوَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ ) سے (اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّھُمْ ) تک آیات اترنے کا ذکر ہے۔ (واللہ اعلم) البتہ اس بات میں تو کوئی شبہ ہی نہیں کہ جس طرح (وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ ) والی آیت میں مذکور افراد (وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ) میں قیامت تک صحابہ کرام (رض) کے تمام محسن پیروکار شامل ہیں، اسی طرح یہ آیت قیامت تک آنے والے تمام گناہ گار مخلص مسلمانوں کو شامل ہے، جنھوں نے اپنے اچھے اعمال کے ساتھ کچھ دوسرے برے اعمال بھی ملا جلا رکھے ہیں۔ سند کے لحاظ سے اس کی صحیح ترین تفسیر وہ ہے جو امام بخاری (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں اپنی صحیح میں درج فرمائی ہے کہ سمرہ بن جندب (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” آج رات دو آنے والے میرے پاس آئے، انھوں نے مجھے اٹھایا، پھر وہ مجھے ایک ایسے شہر میں لے گئے جو سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنایا گیا تھا، وہاں میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کا نصف بدن سب سے زیادہ خوبصورت شخص کی طرح تھا جو تم دیکھنے والے ہو اور نصف اس بدصورت ترین شخص کی طرح تھا جو تم دیکھنے والے ہو۔ دونوں فرشتوں نے ان لوگوں سے کہا، اس نہر کے اندر داخل ہوجاؤ، وہ اس میں داخل ہوگئے، پھر ہماری طرف واپس آئے تو ان سے وہ بدصورتی جا چکی تھی اور وہ بہترین صورت میں بدل چکے تھے۔ دونوں (فرشتوں) نے مجھ سے کہا، یہ جنت عدن ہے اور وہ تمہارا گھر ہے۔ دونوں نے کہا کہ وہ لوگ جن کا نصف حصہ خوبصورت اور نصف بدصورت تھا ( فَاِنَّھُمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَیِّءًا تَجَاوَزَ اللّٰہُ عَنْھُمْ ) تو یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے نیک عمل کیے اور ان کے ساتھ برے عمل بھی ملا جلا دیے، تو اللہ تعالیٰ نے ان سے درگزر فرما دیا۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : ( وآخرون اعترفوا بذنوبہم ) : ٤٦٧٤ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور کچھ اور لوگ ہیں جو اپنی خطا کے مقر ہوگئے جنہوں نے ملے جلے عمل کئے تھے کچھ بھلے ( جیسے اعتراف جس کا منشاء ندامت ہے اور یہی توبہ ہے، اور جیسے اور غزوات جو پہلے ہوچکے ہیں، غرض یہ کام تو اچھے کئے) اور کچھ برے ( کئے جیسے تخلف بلا عذر سو) اللہ سے امید ( یعنی انکا وعدہ) ہے کہ ان ( کے حال) پر ( رحمت کے ساتھ) توجہ فرماویں ( یعنی توبہ قبول کرلیں) بلا شبہ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والے بڑی رحمت والے ہیں ( جب اس آیت سے توبہ قبول ہوچکی اور وہ حضرات ستونوں سے کھل چکے تو اپنا مال آپ کی خدمت میں لے کر آئے اور درخواست کی کہ اس کو اللہ کی راہ میں صرف کیا جائے تو ارشاد ہوا کہ) آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ ( جس کو یہ لائے ہیں) لے لیجئے جس کے ( لینے کے) ذریعہ سے آپ ان کو ( گناہ کے آثار سے) پاک صاف کردیں گے اور ( جب آپ لیں تو) ان کے لئے دعا کیجئے، بلا شبہ آپ کی دعا ان کے لئے موجب اطمینان ( قلب) ہے اور اللہ تعالیٰ ( ان کے اعتراف کو) خوب سنتے ہیں ( اور ان کی ندامت کو) خوب جانتے ہیں ( اس لئے ان کے اخلاص کو دیکھ کر آپ کو یہ احکام دیئے گئے، ان اعمال صالحہ کو مذکورہ یعنی توبہ و ندامت و انفاق فی الخیر کی تر غیب اور اعمال سیہ مثل تخلف وغیرہ سے آئندہ کے لئے ترہیب ہے، پس اول ترغیب ہے یعنی) کیا ان کو یہ خبر نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور وہی صدقات کو قبول فرماتا ہے اور ( کیا ان کو) یہ ( خبر نہیں) کہ اللہ ہی ( اس) توبہ قبول کرنے ( کی صفت) میں اور رحمت کرنے ( کی صفت) میں کامل ہے ( اسی لئے ان کی توبہ قبول کی، اور اپنی رحمت سے مال قبول کرنے کا حکم اور ان کے لئے دعا کرنے کا حکم فرمایا، پس آئندہ بھی خطایا وذنوب کے صدور پر توبہ کرلیا کریں، اور اگر توفیق ہو تو خیر خیرات کیا کریں) اور ( ترغیب کے بعد آگے ترہیب ہے ( یعنی) آپ ( ان سے یہ بھی) کہہ دیجئے کہ ( جو چاہو) عمل کئے جاؤ سو ( اول تو دنیا ہی میں) ابھی دیکھے لیتا ہے تمہارے عمل کو اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول اور اہل ایمان ( پس برے عمل پر دنیا ہی میں ذلت اور خواری ہوجاتی ہے) اور ( پھر آخرت میں) ضرور تم کو ایسے (اللہ) کے پاس جانا ہے جو تمام چھپی اور کھلی چیزوں کا جاننے والا ہے، سو وہ تم کو تمہارا سب کیا ہوا بتلادے گا ( پس برے عمل سے مثل تخلف وغیرہ کے آئندہ سے احتیاط رکھو، یہ قسم اول کا بیان تھا، آگے قسم دوم کا ذکر ہے) اور کچھ اور لوگ ہیں جن کا معاملہ خدا کے حکم آنے تک ملتوی ہے کہ ( عدم اخلاص توبہ کی وجہ سے) ان کو سزا دے گا یا ( اخلاص کی وجہ سے) ان کی توبہ قبول کرے گا اور اللہ تعالیٰ ( خلوص و عدم خلوص کا حال) خوب جا ننے والا ہے ( اور) بڑا حکمت والا ہے ( پس بمقتضائے حکمت خلوص کی توبہ کو قبول کرتا ہے، اور بغیر خلوص کے قبول نہیں کرتا اور اگر کبھی بلا توبہ معاف کرنے میں حکمت ہو تو ایسا بھی کردیتا ہے ) ۔- معارف و مسائل - غزوہ تبوک کے لئے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اعلان عام اور سب مسلمانوں کو چلنے کا حکم ہوا تو زمانہ سخت گرمی کا تھا، مسافت دور دراز کی تھی، اور ایک باقاعدہ بڑی حکومت کی تربیت یافتہ فوج سے مقابلہ تھا، جو اسلام کی تاریخ میں پہلا ہی واقعہ تھا، یہ اسباب تھے جن کی وجہ سے اس حکم کے متعلق لوگوں کے حالات مختلف ہوگئے، اور ان کی جماعتوں کی کئی قسمیں ہوگئیں۔- ایک قسم ان حضرات مخلصین کی تھی جو اول حکم سنتے ہی بلا تردد جہاد کے لئے تیار ہوگئے، دوسری قسم وہ لوگ تھے جو ابتداء کچھ تردد میں رہے پھر ساتھ ہولئے، (آیت) الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ فِيْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيْغُ قُلُوْبُ فَرِيْقٍ مِّنْھُمْ ، میں انہی حضرات کا ذکر ہے۔- تیسری قسم ان حضرات کی ہے جو واقعی طور پر معذور تھے، اس لئے نہ جاسکے، ان کا ذکر (آیت) لَيْسَ عَلَي الضُّعَفَاۗءِ میں آیا ہے، چوتھی قسم ان مؤمنین مخلصین کی ہے جو عذر نہ ہونے کے باوجود سستی کاہلی کے سبب جہاد میں شریک نہیں ہوئے، ان کا ذکر مذکور الصدر آیت وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا اور وَاٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ میں آیا ہے، پانچویں قسم منافقین کی تھی جو نفاق کے سبب شریک جہاد نہیں ہوئے، ان کا ذکر گذشتہ بہت سی آیات میں آچکا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ آیات سابقہ میں بیشتر ذکر پانچویں قسم منافقین کا ہوا ہے، آیات مذکور الصدر میں چوتھی قسم کے حضرات کا ذکر ہے جو مومن ہونے کے باوجود سستی و کاہلی سے شریک جہاد نہیں ہوئے۔- پہلی آیت میں فرمایا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کرلیا، ان لوگوں کے اعمال ملے جلے ہیں، کچھ اچھے کچھ برے، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمالیں، حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ دس حضرات تھے جو بلا کسی صحیح عذر کے غزوہ تبوک میں نہ گئے تھے پھر ان کو اپنے فعل پر ندامت ہوئی، ان میں سے سات آدمیوں نے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستونوں کے ساتھ باندھ لیا، اور یہ عہد کیا کہ جب تک ہماری توبہ قبول کرکے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں نہ کھولیں گے ہم اسی طرح بندھے ہوئے قیدی رہیں گے، ان حضرات میں ابو لبابہ (رض) کے نام پر سب روایتیں متفق ہیں، دوسرے اسماء میں مختلف روایتیں ہیں۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ان کو بندھا ہوا دیکھا اور معلوم ہوا کہ انہوں نے عہد یہ کیا ہے کہ جب تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ان کو نہ کھولیں گے اس وقت تک بندھے رہیں گے، تو آپ نے فرمایا کہ میں بھی اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ اس وقت تک نہ کھولوں گا جب تک اللہ تعالیٰ مجھے ان کے کھولنے کا حکم نہ دے گا، کیونکہ جرم بڑا ہے، اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے کھولنے کا حکم دیدیا، اور وہ کھول دیئے گئے ( قرطبی ) ۔- سعید بن مسیب کی روایت میں ہے کہ جب ابولبابہ کو کھولنے کا ارادہ کیا گیا تو انہوں نے انکار کیا، اور کہا کہ جب تک خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) راضی ہو کر مجھے اپنے ہاتھ سے نہ کھولیں گے میں بندھا رہوں گا، چناچہ صبح کی نماز میں جب آپ تشریف لائے تو دست مبارک سے انکو کھولا۔- نیک و بد ملے جلے عمل کیا تھے ؟ - آیت میں فرمایا ہے کہ ان لوگوں کے کچھ عمل نیک تھے، کچھ برے، ان کے نیک اعمال تو ان کا ایمان، نماز، روزی کی پابندی اور اس جہاد سے پہلے غزوات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شرکت اور خود اس واقعہ تبوک میں اپنے جرم کا اعتراف کرلینا اور نادم ہو کر توبہ کرنا وغیرہ ہیں، اور برے عمل غزوہ تبوک میں شریک نہ ہونا اور اپنے عمل سے منافقین کی مواقفت کرنا ہے۔- جن مسلمانوں کے اعمال اچھے برے ملے جلے ہوں قیامت تک وہ بھی اسی حکم میں داخل ہیں : - تفسیر قرطبی میں ہے کہ اگرچہ یہ آیت ایک خاص جماعت کے بارے میں نازل ہوئی ہے، مگر حکم اس کا قیامت تک عام ہے، ان مسلمانوں کے لئے جن کے اعمال نیک و بد ملے جلے ہوں اگر وہ اپنے گناہوں سے تائب ہوجائیں تو ان کے لئے معافی اور مغفرت کی امید ہے۔- ابو عثمان نے فرمایا کہ قرآن کریم کی یہ آیت اس امت کے لئے بڑی امید لانے والی ہے اور صحیح بخاری میں بروایت سمرہ بن جندب معراج نبوی کی ایک تفصیلی حدیث میں ہے کہ ساتویں آسمان پر جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملاقات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ہوئی تو ان کے پاس کچھ لوگ دیکھے جن کے چہرے سفید تھے، اور کچھ ایسے کہ ان کے چہروں میں کچھ داغ دھبے تھے یہ دوسری قسم کے لوگ ایک نہر میں داخل ہوئے اور غسل کر کے واپس آئے تو ان کے چہرے بھی بالکل صاف سفید ہوگئے تھے، جبرئیل (علیہ السلام) نے آپ کو بتلایا کہ یہ سفید چہرے والے وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور پھر گناہوں سے پاک صاف رہے، (آیت) اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ ، اور دوسرے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملے جلے اچھے برے سب طرح کے کام کئے پھر توبہ کرلی، اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمالی اور گناہ معاف ہوگئے ( قرطبی ) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِہِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَـيِّــئًا۝ ٠ ۭ عَسَى اللہُ اَنْ يَّتُوْبَ عَلَيْہِمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ١٠٢- اعْتِرَافُ- والاعْتِرَافُ : الإقرارُ ، وأصله :إظهار مَعْرِفَةِ الذّنبِ ، وذلک ضدّ الجحود . قال تعالی: فَاعْتَرَفُوا بِذَنْبِهِمْ [ الملک 11] ، فَاعْتَرَفْنا بِذُنُوبِنا[ غافر 11] .- الاعتراف ( افتعال ) کے معنی اقرار کے میں اصل میں اس کے معنی گناہ کا اعتراف کرنے کے ہیں ۔ اس کی ضد جحود یعنی انکار کرنا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ؛ فَاعْتَرَفُوا بِذَنْبِهِمْ [ الملک 11] پس وہ اپنے گناہ کا اقرار کریں گے ۔ فَاعْتَرَفْنا بِذُنُوبِنا[ غافر 11] ہم کو اپنے گناہوں کا اقرار ہے - ذنب - والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] ،- الذنب ( ض )- کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔- خلط - الخَلْطُ : هو الجمع بين أجزاء الشيئين فصاعدا، سواء کانا مائعين، أو جامدین، أو أحدهما مائعا والآخر جامدا، وهو أعمّ من المزج، ويقال اختلط الشیء، قال تعالی:- فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ [يونس 24] ، ويقال للصّديق والمجاور والشّريك : خَلِيطٌ ، والخلیطان في الفقه من ذلك، قال تعالی: وَإِنَّ كَثِيراً مِنَ الْخُلَطاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلى بَعْضٍ- [ ص 24] ، - ( خ ل ط ) الخلط - ( ن ) کے معنی دو یا دو سے زیادہ چیزوں کے اجزا کو جمع کرنے اور ملا دینے کے ہیں عام اس سے کہ وہ چیزیں سیال ہون یا جامد یا ایک مائع ہو اور دوسری جامد اور یہ مزج سے اعم ہے کہا جاتا ہے اختلط الشئی ( کسی چیز کا دوسری کے ساتھ مل جانا ) قرآن میں ہے :۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ [يونس 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ ۔۔ مل کر نکلا ۔ خلیط کے معنی دوست پڑوسی یا کاروبار میں شریک کے ہیں ۔ اسی سے کتب فقہ میں خلیطان کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے وہ لوگ مراد ہیں جن کا مال اکٹھا ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ نَّ كَثِيراً مِنَ الْخُلَطاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلى بَعْضٍ [ ص 24] اور اکثر شرکاء ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں ۔ اور خلیط کا لفظ واحد اور جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - عسی - عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] ، أي : کونوا راجین - ( ع س ی ) عسیٰ- کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے - توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے واخرون اعترفوابذنوبھم خلطوا عملا ًصالحا ً واخر سیئا ً عسی اللہ ان یتوب علیھم کچھ اور لگ ہیں جنہوں نے اپنے قصوروں کا اعتراف کرلیا ہے ان کا عمل مخلوط ہے۔ کچھ نیک ہے اور کچھ بد ۔ بعید نہیں کہ اللہ ان پر مہربان ہوجائے۔ اعتراف کسی بات کے اس اقرار کو کہتے ہیں جو آگاہ ہوجانے کی بنیاد پر کیا جائے ۔ اس لیے کہ اقرار کا لفظ قرالشی ۔ - ایک چیز نے قرار پکڑ لیا سے نکلا ہے اور اعتراف کا لفظ معرفت سے نکلا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے توبہ کے ذکر کے ساتھ گنا ہ کے اعترا ف کا ذکر کیا ہے اس لیے کہ گناہ کی قباحت کے تصور میں صدق دل سے توبہ کا زیادہ داعیہ ہوتا ہے ۔ اور ایسے شخص کی حالت اس شخص سے بہتر ہوتی ہے جسے توبہ کرنے کی رغبت دلائی جائے لیکن اسے گناہ کی سنگینی اور اس کے برے انجام کی کوئی خبر اور کوئی تصور نہ ہو اس لیے درست ترین توبہ وہ ہوتی ہے جو اعتراف گناہ کے ساتھ کی جائے۔- اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا (علیہ السلام) کی توبہ کی حکایت ان الفاظ میں کی ہے ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین ۔ اے ہمارے رب ہم نے اپنے اوپر ستم کیا ۔ اب اگر تو نے ہم سے در گزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقینا ہم تباہ ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے زیر بحث آیت میں عسی اللہ یتوب علیھم فرمایا تا کہ متعلقہ لوگ ہم ورجا کے مابین رہیں اور اس طرح تکیہ نہ کرلینے کی بنا پر غفلت اور بےعملی سے دور رہیں حسن کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لفظ عسی کے ساتھ کہی ہوئی بات واجب ہوتی ہے یعنی وہ ضرور وقوع پذیر ہوتی ہے ۔ اس آیت میں یہ دلالت موجود ہے کہ گناہ گار کے لیے توبہ سے مایوسی کا کوئی جواز نہیں ہے، عمل کے دوران برے اعمال کے ساتھ اچھے اعمال کی صورت بھی پیدا ہوجائے گی اس لیے کہ قول باری ہے خلطوا عملاً صالحا ً واخرسیئا ًایک گناہ گار خواہ گناہوں پر ڈٹا رہے لیکن جب بھی نیکی کرنے کی صورت میں وہ رجوع الی اللہ کرے گا اس کی درست روی کی امید پیدا ہوجائے گی اور اچھے انجام کی بنا پر اس کی عاقبت بخیر ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ولا تیا سوا من روح اللہ انہ لا یباس من روح اللہ الا القوم الکافرون اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو، اللہ کی رحمت سے صرف وہی لوگ ناامید ہوتے ہیں جو کافر ہیں ایک بندے کے گناہوں کا بوجھ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو اس کے لیے توبہ کی قبولیت سے مایوس ہو کر نیکی سے منہ موڑ لینا جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ جب تک وہ مکلف ہے اس وقت تک اس کی توبہ قبول ہوسکتی ہے ، البتہ ایسے لوگ جو بڑے سنگین جرائم کے مرتکب ہوئے اور جن کے مظالم کی فہرست طویل ہوگئی اور توبہ کی قبولیت سے مایوس ہوکر انہوں نے کار خیر کے ذریعے اللہ کی طرف رجوع کرنے سے اپنا منہ پھیرلیا ۔- ہمارے خیال میں شاید انہیں لوگوں کے متعلق یہ قول باری ہے کلا بل ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون ہرگز ایسا نہیں کہ جزاء وسزا نہ ہو ۔ اصل یہ ہے کہ ان کے دلوں پر ان کے کرتوتوں کا رنگ بیٹھ گیا ہے۔ مروی ہے کہ حسن بن علی (رض) نے حبیب بن مسلمہ الفہری سے ۔ جو حضرت معاویہ (رض) کے رفقاء میں سے تھا ، ایک دفعہ گفتگو کے دوران کہا : تم نے کتنے ہی سفرا ی سے کیے ہیں جو اللہ کی طاعت میں نہیں ہوئے۔ حبیب نے جواب دیتے ہوئے کہا ۔ میں نے تمہارے والد کے پاس پہنچنے کے لیے جتنے سفر کیے وہ ایسے نہیں تھے۔ یہ سن کر حضرت حسن (رض) نے فرمایا : ہاں وہ بھی اسی قسم کے سفر تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ تم نے دنیا کے معمولی سامان کے بدلے معاویہ (رض) کی پیروی کرلی، بخدا اگر معاوضہ نے تمہاری دنیا درست کردی ہے تو انہوں نے تمہارا دین خراب کر ڈالا ہے۔ اگر تم برائی کرنے کے ساتھ اپنی زبان سے نیکی کی بات کہتے تو تمہارا شمار ان لوگوں میں ہوتا جن کے متعلق ارشاد ربانی ہے۔ خلقوا عملاً صالحا ً واخر سیئا ً عسی اللہ ان یتوب علیھم لیکن اب تمہارا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کے متعلق ارشاد ہے کلا بل ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون زیر بحث آیت ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی تھی جو غزوہ تبوک میں شریک نہیں ہوئے تھے اور اسلامی لشکر سے پیچھے رہ گئے تھے۔ حضرت ابن عباس (رض) کے قول کے مطابق ان کی تعداد دس تھی ان میں حضرت ابو لبایہ ین عبد المنذر بھی شامل تھے ، ان میں سے سات نے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھے رکھا یہاں تک کہ ان کی توبہ کی قبولیت کی آیت ناز ل ہوئی ۔ ایک قول کے مطابق ان کی تعداد سات تھی اور حضرت ابو البابہ ان میں سے ایک تھے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٢) اور اہل مدینہ میں سے کچھ اور لوگ ہیں یعنی ودیعتہ بن جزام انصاری، ابولبابہ بن عبد المنذر انصارنی، ابوثعلبہ انہوں نے اپنی غلطی کا اقرار کرلیا، جو ان سے غزوہ تبوک میں شریک نہ ہونے کی بنا پر سرزد ہوئی ہے، اس سے پہلے جو غزوات ہوچکے ہیں، اس میں تو وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شریک ہوئے اور اس غزوہ میں آپ کے ساتھ شرکت نہیں کی، سو اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ ان کی غلطی معاف کردی جائے گی، بیشک جو ان میں سے توبہ کرے، اللہ رب العزت اس کی بخشش کرنے والے اور جو توبہ پر مرے اس پر رحم کرنے والے ہیں (جب ان لوگوں کی توبہ قبول ہوگئی) تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اپنا مال واسباب لیکر آئے اور عرض کیا کہ اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے کیوں کہ ہم اس مال واسباب ہی کی وجہ سے غزوہ تبوک میں نہیں گئے تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے مال واسباب نہیں لیا، جب تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس چیز کا حکم نہیں دے دیا اور یہاں نہیں فرما دیا کہ کیا مال لینا چاہیے۔- شان نزول : (آیت) ”۔ واخرون اعترفوا “۔ (الخ)- ابن مردویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عوفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے واسطہ سے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہاد کے لیے تشریف لے گئے، ابولبابہ اور ان کے پانچ ساتھیوں نے جہاد میں شرکت نہیں کی، اس کے بعد حضرت ابولبابہ اور ان کے ساتھ دو مزید حضرات کو اپنے اس فعل سے ندامت ہوئی اور ان حضرات کو اپنی ہلاکت کا پکا یقین ہوگیا اور کہنے لگے کہ ہم سکون و اطمینان کے ساتھ عورتوں سے لذت اٹھا رہے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) جہاد میں مصروف ہیں، اللہ کہ قسم اب ہم اپنے آپ کو ستونوں سے باندھ دیں گے اور ان کو نہیں کھولیں گے یہاں تک کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی خود کھولیں، چناچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور تین لوگ اپنی حالت پر باقی رہ گئے، انہوں نے اپنے آپ کو ستونوں سے نہیں باندھا۔- جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہاد سے واپس تشریف لائے اور پوچھا کہ یہ ستونوں کے ساتھ کون حضرات بندھے ہوئے ہیں تو ایک شخص نے کہا یہ ابو لبابہ (رض) اور اس کے ساتھی ہیں جو جہاد میں شریک نہیں ہوسکے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرلیا ہے کہ اپنے آپ کو ستونوں سے نہیں کھولیں گے جب تک کہ آپ خود ان کو ستونوں سے نہ کھولیں، آپ نے یہ سن کر فرمایا میں تو اس وقت تک نہیں کھولوں گا جب تک کہ ان کے کھولنے کا مجھے حکم نہیں دیا جائے گا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی کچھ اور لوگ ہیں جو اپنی خطا کا اقرار کرتے ہیں جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی آپ نے ان کو کھول دیا اور ان کے عذر کو قبول فرمایا۔- اور وہ تین حضرات باقی رہ گئے جنہوں نے اپنے آپ کو ستونوں کے ساتھ نہیں باندھا تھا، انہوں نے کوئی عذر نہیں بیان کیا یہ وہی حضرات ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور کچھ لوگ ہیں جن کا معاملہ اللہ کے حکم کے آنے تک ملتوی ہے الخ۔- چناچہ ان تینوں حضرات کے بارے میں ایک جماعت کہنے لگی کہ یہ لوگ جب ان کے عذر کے بارے میں کوئی حکم الہی نازل ہوا تو یہ لوگ ہلاک ہوگئے اور دوسری جماعت کہتی تھی کہ ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان حضرات کی توبہ قبول فرما لے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” و علی الثلاثۃ الذین “۔ الخ۔- اور ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے علی ابن ابی طلحہ (رض) کے ذریعے سے ابن عباس (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے کہ جب ابولبابہ (رض) اور ان کے ساتھی کھول دیے گئے تو وہ اپنے مال لے کر حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ ہمارے اموال ہیں، ہم سے ان صدقہ قبول فرمالیجیے اور ہمارے لیے بخشش طلب فرمائیے، آپ نے فرمایا مجھے تمہارے اموال میں سے کسی چیز کے لینے کا حکم نہیں دیا گیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” خذ من اموالہم صدقۃ “۔ (الخ) نیز یہ اتنی مقدار سعید بن جبیر، (رض) ضحاک (رض) زید بن اسلم (رض) وغیرہ سے بھی نقل کی ہے۔- اور عبد بن قتادہ (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ آیت سات آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن میں سے چار آدمیوں نے یعنی ابو لبابہ (رض) فرداس (رض) ، اوس بن جذام (رض) اور ثعلبۃ بن ودیعہ (رض) نے اپنے خود کو ستونوں سے باندھ لیا تھا۔- اور ابو الشیخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ابن مندہ نے صحابہ کے بیان میں، ثوری، اعمش، ابوسفیان کے ذریعہ سے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ غزوہ تبوک میں جن حضرات نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شرکت نہیں کی، وہ چھ آدمی تھے، ابولبابہ (رض) اوس بن جذام (رض) ثعلبہ بن ودیعہ (رض) کعب بن مالک (رض) مرارہ بن ربیع (رض) ، ہلال بن امیہ (رض) ، چناچہ ابولبابہ (رض) ، اوس اور ثعلبہ نے آکرخود کو ستونوں سے باندھ لیا اور اپنے مال واسباب لے کر آئے اور عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ جہاد میں شریک نہ ہونے کے عوض ہے، آپ نے فرمایا جب تک کہ قتال نہ ہو میں ان کو نہیں کھولوں گا، اس پر قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی اس روایت کی اسناد قوی ہیں۔- اور ابن مردویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایسی سند کے ساتھ جس میں واقدی ہے ام سلمہ (رض) سے روایت کی ہے، فرماتی ہیں کہ ابولبابہ (رض) کی توبہ میرے حجرے میں نازل ہوئی، میں نے سحر کے وقت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہنسنے کی آواز سنی تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا کافر لوگ آپ کو ہنسا رہے ہیں، آپ نے فرمایا ابولبابہ کی توبہ قبول ہوگئی ،- میں نے عرض کیا تو ان کو اطلاع کر دوں، آپ نے فرمایا جیسے تمہاری مرضی، تو میں حجرے کے دروازہ پر کھڑی ہوئی اور یہ (واقعہ پردہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے) میں نے کہا ابولباب (رض) آپ کے لیے خوشخبری ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کی توبہ قبول فرمائی، یہ سن کر صحابہ کرام (رض) ان کو کھولنے کے لیے دوڑے تو انہوں نے فرمایا جب تک رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ کو نہ کھولیں کوئی اور نہ کھولے، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کی نماز کے لیے تشریف لے گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو کھول دیا اور یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” واخرون اعترفوا “۔ (الخ) (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٢ (وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِہِمْ ) - وہ اپنی کوتاہیوں کو چھپانے کے لیے جھوٹ نہیں بولتے ‘ جھوٹی قسمیں نہیں کھاتے ‘ جھوٹے بہانے نہیں بناتے ‘ بلکہ کھلے عام اعتراف کرلیتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہوگئی ‘ معمولات زندگی کی مصروفیات اور اہل و عیال کی مشغولیات نے ہمیں اس قدر الجھایا کہ ہم دینی فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کا ارتکاب کر بیٹھے۔ جب غلطی کا ایسا کھلا اعتراف ہوگیا تو نفاق کا احتمال جاتا رہا۔ لہٰذا انہیں توبہ کی توفیق مل گئی۔ - (خَلَطُوْا عَمَلاً صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَیِّءًا ط) - نیک اعمال بھی کرتے ہیں مگر کبھی کوئی غلطی بھی کر بیٹھتے ہیں۔ ایثار وا نفاق بھی کرتے ہیں مگر دنیاداری کے جھمیلوں میں الجھ کر کہیں کوئی تقصیر بھی ہوجاتی ہے۔- (عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْہِمْط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ )- ایک روایت کے مطابق یہ آیت حضرت ابو لبابہ (رض) اور ان کے چند ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ ان لوگوں سے سستی اور دنیاداری کی مصروفیات کے باعث یہ کوتاہی ہوئی کہ وہ غزوۂ تبوک پر نہ جاسکے ‘ مگر جلد ہی انہیں احساس ہوگیا کہ ان سے بہت بڑی غلطی سرزد ہوگئی ہے۔ چناچہ انہوں نے شدید احساس ندامت کے باعث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واپس مدینہ تشریف لانے سے پہلے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ لیا کہ اب یا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لا کر ہماری توبہ کی قبولیت کا اعلان فرمائیں گے اور ہمیں اپنے دست مبارک سے کھولیں گے یا پھر ہم یہیں بندھے بندھے اپنی جانیں دے دیں گے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی واپسی پر یہ آیات نازل ہوئیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تشریف لے جا کر انہیں کھولا اور خوشخبری سنائی کہ ان کی توبہ قبول ہوگئی ہے۔ توبہ کرنے اور توبہ کی قبولیت کا یہ وہی اصول تھا جو ہم سورة النساء میں پڑھ آئے ہیں : (اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰٓءِکَ یَتُوْبُ اللّٰہُ عَلَیْہِمْط وَکَان اللّٰہُ عَلِیْماً حَکِیْماً ) یعنی کوئی غلطی یا کوتاہی سرزد ہونے کے فوراً بعد انسان کے اندر ایمانی جذبات لوٹ آئیں ‘ اسے احساس ندامت ہو اور وہ توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ نے ایسی توبہ کو قبول کرنے کا ذمہ لیا ہے۔ مگر ان اصحاب (رض) کو یہ اعزاز نصیب ہوا کہ ان کی توبہ کی قبولیت کے بارے میں خصوصی حکم نازل ہوا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

78: منافقین تو اپنی منافقت کی وجہ سے غزوۂ تبوک میں شامل نہیں ہوئے تھے، اور اب تک انہیں کا ذکر ہوتا رہا ہے۔ لیکن مخلص مسلمانوں میں بھی کچھ لوگ ایسے تھے جو سستی کی وجہ سے جہاد میں جانے سے رہ گئے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت کے مطابق یہ کل دس حضرات تھے۔ ان میں سے ساتھ کو اپنی اس سستی پر اتنی سخت شرمندگی ہوئی کہ ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس بھی نہیں پہنچے تھے کہ یہ خود اپنے آپ کو سزا دینے کے لئے مسجد نبوی پہنچے، اور اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے باندھ لیا، اور یہ کہا کہ جب تک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خود ہمیں معاف کرکے نہیں کھولیں گے، ہم انہی ستونوں سے بندھے رہیں گے۔ آپ کی واپسی کا وقت قریب تھا، اور جب آپ واپس تشریف لائے اور آپ نے انہیں بندھا ہوا دیکھا تو پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ اس پر آپ کو علم ہوا کہ انہوں نے اس لئے اپنے آپ کو باندھ رکھا ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب میں بھی ان کو اس وقت تک نہیں کھولوں گا جب تک اﷲ تعالیٰ خود انہیں کھولنے کا حکم نہ دیدے۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ان کی توبہ قبول کرلی گئی، اور انہیں کھول دیا گیا۔ ان سات حضرات میں حضرت ابو لبابہ رضی اﷲ عنہ بھی تھے جن کے نام سے ایک ستون اب بھی مسجد نبوی میں موجود ہے، اور اسے اسطوانۃ التوبہ بھی کہا جاتا ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس ستون سے اپنے آپ کو اس وقت باندھا تھا جب بنو قریظہ کے معاملے میں ان سے ایک غلطی ہوگئی تھی، لیکن حافظ ابن جریر رحمۃ اﷲ علیہنے اسی کو ترجیح دی ہے کہ یہ واقعہ تبوک سے متعلق ہے، اور اسی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے (دیکھئے تفسیر ابن جریر ج : ۱۱ ص :۱۲ تا ۱۶) باقی تین حضرات جو تبوک نہیں گئے تھے، ان کا ذکر آگے آیت نمبر۱۰۶میں آ رہا ہے۔ اس آیت نے یہ واضح کردیا ہے کہ اگر کسی سے کوئی گناہ ہوجائے تو اسے مایوس ہونے کے بجائے توبہ کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔ اور غلطی کی تأویلیں کرنے کے بجائے ہر ممکن طریقے سے اپنی غلطی پر اظہار ندامت کرنا چاہئے۔ ایسے لوگوں کے لئے اﷲ تعالیٰ نے یہ امید دلائی ہے کہ انہیں معاف کردیا جائے گا۔