صدقہ مال کا تزکیہ ہے اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ آپ ان کے مالوں کا صدقہ لیا کریں ۔ تاکہ اس وجہ سے انہیں پاکی اور ستھرائی حاصل ہو ۔ اس کی ضمیر کا مرجع بعض کے نزدیک وہ مسلمان ہیں جنہوں نے اپنی نیکیوں کے ساتھ کچھ برائیاں بھی کرلیں تھیں ۔ لیکن حکم اس کا عام ہے ۔ عرب کے بعض قبیلوں کو اسی سے دھوکا ہوا تھا کہ یہ حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے ۔ اسی وجہ سے انہوں نے خلیفہ برحق حضرت ابو بکر صدیق کو ( زکوۃ کو فرض مان کر ) زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تھا ۔ جس پر آپ نے مع باقی صحابہ کے ان سے لڑائی کی کہ وہ زکوٰۃ خلیفۃ الرسول کو اسی طرح ادا کریں جسطرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ اگر وہ ایک بچہ اونٹنی کا یا ایک رسی بھی نہ دینگے تو بھی میں ان سے لڑائی جاری رکھوں گا ۔ حکم ہوتا ہے کہ ان سے زکوتیں لے اور انکے لئے دعائیں کر ۔ چنانچہ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کے والد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا صدقہ لے کر آئے تو حسب عادت آپ نے دعا کی کہ اے اللہ آل ابی اوفی پر اپنی رحمتیں نازل فرما ۔ اسی طرح جب آپ کے پاس کسی قسم کا صدقہ آتا تو آپ ان کے لئے دعا فرماتے ۔ ایک عورت نے آپ سے آ کر درخواست کی کہ یا رسول اللہ میرے لئے اور میرے خاوند کے لئے دعا کیجئے ۔ آپ نے فرمایا صلی اللہ علیک وعلی زوجک صلواتک کی اور قرأات صلواتک ہے ۔ پہلی قرأت مفرد کی ہے دوسری جمع کی ہے ۔ فرماتا ہے کہ تیری دعا ان کے لئے اللہ کی رحمت کا باعث ہے ۔ اور ان کے وقار وعزت کا سبب ہے ۔ اللہ تعالیٰ تیری دعاؤں کا سننے والا ہے ۔ اور اسے بھی وہ بخوبی جانتا ہے کہ کون ان دعاؤں کا مستحق ہے اور کون اس کا اہل ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے لئے دعا کرتے تو اسے اور اسکی اولاد کو اور اس کی اولاد کی اولاد کو پہنچتی تھی ۔ پھر فرمایا ۔ کیا انہیں اتنا بھی علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرمانے والا ہے؟ اور وہی ان کے صدقات لیتا ہے؟ اس نے بندوں کو توبہ اور صدقے کی طرف بہت زیادہ رغبت دلائی ہے ۔ یہ دونوں چیزیں گناہوں کو دور کردینے والی ، انہیں معاف کرانے والی اور انکو مٹا دینے والی ہیں ۔ توبہ کرنے والوں کی توبہ اللہ عزوجل قبول فرماتا ہے اور حلال کمائی سے صدقہ دینے والوں کا صدقہ اللہ تعالیٰ اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر صدقہ کرنے والے کے لئے اسے پالتا ہے ۔ یہاں تک کہ ایک کھجور کو احد کے پہاڑ کے برابر کر دیتا ہے ۔ چنانچہ ترمذی وغیرہ میں ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ صدقہ قبول فرماتا ہے اپنے دائیں ہاتھ سے اسے لیتا ہے اور جس طرح تم اپنے کو پالتے ہو اسی طرح اللہ تعالیٰ اسے بڑھاتا رہتا ہے یہاں تک کہ ایک ایک کھجور احد پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے ۔ اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ عزوجل کی کتاب میں بھی موجود ہے پھر اسی آیت کا یہی جملہ آپ نے تلاوت فرمایا ۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ۔ ( یمحق اللہ الربوا ویربی الصدقات ) یعنی سود کو اللہ تعالیٰ گھٹاتا ہے اور صدقے کو بڑھاتا ہے ۔ صدقہ اللہ عزوجل کے ہاتھ میں جاتا ہے ، اس سے پہلے کہ وہ سائل کے ہاتھ میں جاۓ ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ ابن عساکر میں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مسلمانوں نے جہاد کیا جس میں ان پر حضرت عبدالرحمن بن خالد امام تھے ۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے مال غنیمت میں سے ایک سو رومی دینار چرا لئے جب لشکر وہاں سے لوٹ کر واپس آ گیا تو اسے سخت ندامت ہوئی وہ ان دیناروں کو لے کر امام کے پاس آیا لیکن انہوں نے ان سے لینے سے انکار کر دیا کہ میں اب لے کر کیا کروں؟ لشکر تو متفرق ہوگیا کیسے بانٹ سکتا ہوں؟ اب تو تو اسے اپنے پاس ہی رہنے دے ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے پاس ہی لانا ۔ اس نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے پوچھنا شروع کیا لیکن ہر ایک یہی جواب دیتا رہا ۔ یہ مسکین ان دیناروں کو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لایا اور ہر چند کہا کہ آپ انہیں لے لیجئے لیکن آپ نے بھی نہ لئے ۔ اب تو یہ روتا پیٹتا وہاں سے نکلا ۔ راستے میں اسے حضرت عبداللہ بن شاعر سکسکی رحمۃ اللہ علیہ ملے ۔ یہ مشہور دمشقی ہیں اور اصل میں حمص کے ہیں ۔ یہ بہت بڑے فقیہ تھے ۔ انہوں نے پوچھا کہ کیوں رو رہے ہو؟ اس شخص نے اپنا تمام واقعہ بیان کیا ۔ آپ نے فرمایا جو میں کہوں گا وہ کرو گے بھی؟ اس نے کہا یقینا ۔ آپ نے فرمایا جاؤ اور خمس تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو دے آؤ ۔ یعنی بیس دینار ۔ اور باقی کے اسی دینار اللہ کی راہ میں اس پورے لشکر کی طرف سے خیرات کردو ۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے نام اور مکان جانتا ہے اور وہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے ۔ اس شخص نے یہی کیا ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا و اللہ مجھے اگر یہ مسئلہ سوجھ جاتا اور میں اسے یہ فتویٰ دے دیتا تو مجھے اس ساری سلطنت اور ملکیت سے زیادہ محبوب تھا ۔ اس نے نہایت اچھا فتویٰ دیا ۔
103۔ 1 یہ حکم عام ہے۔ صدقے سے مراد فرضی صدقہ یعنی زکٰوۃ بھی ہوسکتی ہے اور نفلی صدقہ بھی نبی کو کہا جا رہا ہے کہ اس کے ذریعے سے آپ مسلمانوں کو تطہیر اور ان کا تزکیہ فرما دیں۔ جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ زکٰوۃ و صدقات انسان کے اخلاق و کردار کی طہارت و پاکیزگی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ علاوہ ازیں صدقے کو صدقہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ خرچ کرنے والا اپنے دعوائے ایمان میں صادق ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ صدقہ وصول کرنے والے کو صدقہ لینے والے کے حق میں دعائے خیر کرنی چاہیے۔ جس طرح یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو دعا کرنے کا حکم دیا، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے مطابق دعا فرمایا کرتے تھے۔ اس حکم کے عموم سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ زکوٰۃ کی وصولی امام وقت کی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی اس سے انکار کرے تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور صحابہ کرام (رض) کے طرز عمل کی روش میں اس کے خلاف جہاد ضروری ہے۔ (ابن کثیر)
[١١٧] ایسے توبہ کرنے والوں سے صدقہ قبول کیجئے :۔ ان مسلمانوں نے یہ سمجھا کہ چونکہ مال و دولت کی محبت ہی جہاد کے فریضہ میں کوتاہی کا سبب بنی ہے۔ لہذا یہ سب کچھ اللہ کی راہ میں دے دینا چاہئے۔ چناچہ انہوں نے آپ سے پوچھا کہ کیا ہماری توبہ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم اپنا سارا مال صدقہ کردیں۔ آپ نے فرمایا سارا مال دینے کی ضرورت نہیں بلکہ ایک تہائی مال کا صدقہ کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا کہ ان کے صدقات قبول کیجئے۔ کیونکہ یہ سب سچے مومن اور اللہ کے رسول کے خیر خواہ تھے پھر آپ ان کے حق میں دعا بھی کریں۔- ربط مضمون کے لحاظ سے اگرچہ اس کا مطلب وہی ہے جو اوپر بیان ہوا مگر اس کا حکم عام ہے۔ اسی لیے علماء مسئلہ زکوٰۃ میں اس آیت کو بھی پیش کرتے آئے ہیں۔ اور اس آیت سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں۔- زکوٰۃ کے فائدے :۔ زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم وغیرہ اسلامی حکومت کا فریضہ ہے۔ (٢) خذ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں صدقہ سے مراد فرضی صدقہ یعنی زکوٰۃ ہے (٣) زکوٰۃ کی ادائیگی کے دو فائدے ہیں ایک یہ کہ باقی مال گناہ کی آلودگیوں سے پاک ہوجائے اور دوسرے یہ کہ حب دنیا، حرص، بخل وغیرہ جیسے باطنی امراض سے دلوں کا تزکیہ ہوجائے۔- اب ہم زکوٰۃ اور اس کی وصولی سے متعلق چند احادیث بیان کریں گے :۔- ١۔ آپ نے فرمایا غلہ سے غلہ، بکریوں سے بکریاں، اونٹوں سے اونٹ اور گایوں سے گائیں۔ (بطور زکوٰۃ لی جائیں) (ابوداؤد۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب صدقۃ الزرع )- ٢۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ زکوٰۃ میں عمدہ عمدہ مال لینے سے پرہیز کی جائے۔ (ملا جلا مال لیا جائے۔ ) (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب محاسبۃ المصدقین )- ٣۔ سیدنا عمر کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جس زمین کو آسمان یا چشمے کا پانی دیا جائے یا وہ زمین خود بخود سیراب ہو اس سے دسواں حصہ زکوٰۃ لی جائے اور جس کھیتی کو کنوئیں سے پانی دیا جائے اس سے بیسواں حصہ لیا جائے۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب العشر فیمایسقی من ماء السماء والماء الجاری)- ٤۔ آپ نے فرمایا پیداوار کا ذریعہ بننے والے اونٹوں پر زکوٰۃ نہیں۔ (ابوداؤد۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب فی زکوٰۃ السائمہ )- ٥۔ سہیل بن ابی خیثمہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب تم (زکوٰۃ کے لیے) پھلوں وغیرہ کا اندازہ کرنے لگو تو ایک تہائی چھوڑ دو ۔ اور اگر سمجھو کہ ایک تہائی زیادہ ہے تو چوتھا حصہ چھوڑ دو ۔ (ابو داؤد۔ کتاب الزکوٰۃ باب الخرص)- ٦۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جانور سے جو نقصان پہنچے اس کا کچھ بدلہ نہیں اور کنوئیں اور کان کا بھی یہی حکم ہے اور رکاز (دفینہ) میں پانچواں حصہ زکوٰۃ ہے۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب فی الرکاز الخمس)- ٧۔ احکام زکوٰۃ کے متعلق احادیث :۔ آپ نے فرمایا تمہارے پاس (عاملین زکوٰۃ) کے چھوٹے چھوٹے ٹولے آئیں گے جو تمہیں ناگوار گزریں گے جب وہ آئیں تو انہیں خوش آمدید کہو اور تشخیص مال (زکوٰۃ کے معاملہ میں) انہیں اپنی مرضی کرنے دو ۔ پھر اگر وہ انصاف سے کام لیں تو اس کا انہیں اجر ملے گا اور اگر زیادتی کریں تو اس کا بار انہی پر ہوگا۔ تم انہیں خوش رکھو کیونکہ تمہاری زکوٰۃ کی تکمیل کا انحصار ان کی رضا پر ہے اور انہیں چاہیے کہ وہ (زکوٰۃ وصول کرنے کے بعد) تمہارے حق میں دعا بھی کریں۔ (ابوداؤد۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب رضا المتصدق) آپ سے پوچھا گیا کہ عاملین ہم پر زیادتی کرتے ہیں تو کیا ہم اتنا مال چھپالیا کریں (کہ حساب برابر رہے) آپ نے فرمایا ایسا مت کرو۔ (ابوداؤد حوالہ ایضاً )- ٨۔ آپ نے فرمایا کہ عامل ایک جگہ بیٹھ کر علاقے کے مویشی اپنے پاس نہ منگوائے اور نہ صاحب مال اپنا مال دور لے جائیں بلکہ جہاں کوئی رہتا ہے وہیں جا کر زکوٰۃ وصول کی جائے۔ (ابوداؤد۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب این تصدق الاموال)- ٩۔ آپ نے فرمایا کہ مسلمانوں سے (زرعی زکوٰۃ) ان کے آبپاشی کے مقامات پر وصول کی جائے۔ (احمد بحوالہ مشکوۃ کتاب الزکوٰۃ)- ١٠۔ آپ نے فرمایا زکوٰۃ میں زیادتی کرنے والا (عامل) ایسا ہی ہے جیسے زکوٰۃ نہ دینے والا۔ (ترمذی ابو اب الزکوٰۃ۔ باب فی المعتدی فی الصدقۃ)- ١١۔ زکوٰۃ دینے والے کو دعا دینے کا حکم :۔ عبداللہ بن ابی اوفٰی فرماتے ہیں کہ جب آپ کے پاس کسی قسم کی زکوٰۃ آتی تو آپ فرماتے اے اللہ ان پر رحمت فرما۔ میرے باپ جب زکوٰۃ لے کر آپ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا اے اللہ آل ابی اوفیٰ پر رحمت فرما۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوہ حدیبیہ۔ مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب الدعاء لمن اتیٰ بصدقتہٖ )- ١٢۔ سیدنا علی فرماتے ہیں کہ سیدنا عباس (رض) نے آپ سے پوچھا کہ آیا زکوٰۃ سال گزرنے سے پہلے بھی دی جاسکتی ہے ؟ تو آپ نے اس کی اجازت دے دی۔ (ترمذی۔ ابو اب الزکوٰۃ۔ باب فی تعجیل الزکوٰۃ)- ١٣۔ سیدنا انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں آپ کے پاس آیا تو دیکھا کہ آپ کے ہاتھ میں داغ دینے کا آلہ تھا جس سے آپ صدقہ کے اونٹوں کو داغ دے رہے تھے۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب وسم الامام ابل الصدقۃ )- ١٤۔ سرکاری ملازمین کے تحفے رشوت کی قسم ہے :۔ ابو حمید ساعدی کہتے ہیں کہ آپ نے (بنی سلیم کی زکوٰۃ کی وصولی کے لیے) ایک شخص (عبداللہ بن لُتْبِیّہ) کو عامل بنا کر بھیجا۔ جب وہ اپنے کام سے فارغ ہو کر آیا تو آ کر کہا یا رسول اللہ یہ آپ کے لیے (زکوٰۃ کا مال) ہے اور یہ مجھے تحفہ کے طور پر ملا ہے۔ آپ نے فرمایا تو اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہ بیٹھا رہا۔ پھر دیکھتا کہ تمہیں کوئی تحفہ دیتا ہے یا نہیں ؟ پھر آپ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور حمد و ثنا کے بعد عاملین کا حال بیان کیا پھر فرمایا اس پروردگار کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے تم میں سے جو شخص زکوٰۃ کے مال میں سے کچھ چرائے گا تو قیامت کے دن اسے اپنی گردن پر لادے ہوئے آئے گا۔ (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور باب کیف کان یمین النبی )- بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ بھی پیدا ہوچکا ہے جو یہ کہتا ہے کہ زکوٰۃ کا جو نصاب اور جو شرح رسول اللہ نے مقرر فرمائی تھی وہ صرف ان کے دور اور اس دور کے تقاضوں کے مطابق تھی اور آج ایک اسلامی حکومت اس دور کے تقاضوں کے مطابق جو بھی ٹیکس وصول کرتی ہے۔ وہی زکوٰۃ ہے۔ اسلامی حکومت اگر چاہے تو شرح زکوٰۃ میں کمی بیشی کرنے کی بھی مجاز ہے اور نئے ٹیکس عائد کرنے کی بھی۔ ایک اسلامی حکومت اس سلسلہ میں جو کچھ بھی وصول کرے وہ زکوٰۃ ہی ہوگی۔ نیز رسول اللہ کی سنت یہی ہے کہ انہوں نے اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق محل نصاب اشیاء اور شرح زکوٰۃ مقرر کی تھی اور ہم اپنے دور کے مطابق یہ امور طے کریں۔- یہ نظریہ چونکہ اسلام کے ایک بنیادی مسئلہ پر براہ راست حملہ ہے اس لیے ہم اس کا جواب ذرا تفصیل سے دیں گے اور اس بحث کو دو حصوں میں تقسیم کریں گے۔ ایک یہ کہ ٹیکس اور زکوٰۃ میں کون کون سا فرق ہے دوسرا یہ کہ آیا زکوٰۃ کی موجودگی میں ایک اسلامی حکومت کوئی اور ٹیکس لگانے کی مجاز ہے یا نہیں ؟- زکوۃ اور ٹیکس میں فرق :۔ عہد نبوی اور خلفائے راشدین کے دور میں مسلمانوں سے تو زکوٰۃ وصول کی جاتی تھی اور غیر مسلموں سے خراج اور جزیہ۔ عرب کا ہمسایہ ملک ایران ایک متمدن حکومت تھی۔ اس میں زمینداروں سے جو مالیہ وصول کیا جاتا اسے خراگ کہتے تھے۔ خراج کا لفظ اسی سے معرب ہے اور خراگ کے علاوہ دوسرے ٹیکسوں کو گزیت کہتے تھے۔ جزیہ کا لفظ اسی سے معرب ہے۔ گویا غیر مسلموں پر تو وہی ٹیکس بحال رکھے گئے جو زمانہ کے دستور کے مطابق تھے مگر مسلمانوں سے یہ عام ٹیکس ساقط کردیئے گئے اور ان کے بجائے زکوٰۃ عائد کی گئی۔- دوسرا فرق یہ ہے کہ زکوٰۃ کا نصاب اور شرح ہمیشہ غیر متبدل رہی جبکہ جزیہ اور خراج کی شرح میں تبدیلی ہوتی رہی۔ عہد نبوی میں جزیہ کی شرح ایک دینار فی کس سالانہ تھی اور یہ رقم اجتماعی طور پر بوڑھے بچے، عورت اور معذوروں کی تعداد کے مطابق لی جاتی تھی مگر سیدنا عمر نے اس میں اصلاح کی۔ بوڑھے، بچوں، عورتوں اور معذوروں سے جزیہ ساقط کردیا اور کمانے والے افراد کے بھی تین درجے مقرر کیے جن سے علی الترتیب چار دینار، دو دینار اور ایک دینار سالانہ کے حساب سے جزیہ وصول کیا جاتا تھا۔ اسی طرح قبیلہ بنی تغلب کے عیسائیوں نے مسلمانوں سے درخواست کی کہ ان سے خراج کی بجائے دوگنا عشر لے لیا جائے تو سیدنا عمر نے ان کی درخواست قبول کرلی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس دور میں زکوٰۃ کو تو دین کا رکن سمجھا جاتا تھا اور اس کے احکامات غیر متبدل تھے جبکہ جزیہ اور خراج کی شرح میں تغیر و تبدل کرلیا جاتا تھا۔- قابل ذکر بات یہ ہے کہ مسلمانوں سے زکوٰۃ کے علاوہ جو کچھ بھی زائد وصول کیا جائے اسے عربی میں مکس کہتے ہیں مشکوۃ میں صاحب مکس کا معنی ای من یاخذ العشر و یزید علیہ شیأ بتلاتے ہیں یعنی وہ شخص جو عشر وصول کرتا ہے اور اس سے کچھ زیادہ بھی لیتا ہے۔ ان الفاظ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ زکوٰۃ وصول کرنے والا جو کچھ بطور رشوت لے وہ مکس ہے اور یہ بھی زکوٰۃ کے علاوہ کوئی دوسرا ٹیکس عائد کر دے۔ یعنی ١٠ کے بجائے بارہ چودہ فیصد وصول کرے اور یہ بھی کہ حکومت زکوٰۃ کے علاوہ کوئی دوسرا ٹیکس عائد کردے۔ تاہم لغت اسی تیسرے مفہوم کی تائید کرتی ہے۔ مکس کے معنی المنجد (عربی۔ اردو) نے محصول ٹیکس اور چونگی لکھے ہیں اور ماکس کے معنی ٹیکس وصول کرنے والا۔ منتہی الارب (عربی۔ فارسی) نے اس کے معنی باج، خراج گرفتن اور مقائیس اللغتہ (عربی میں اس کا معنی کلمۃ تدل علی جبی المال ہے اور جبایۃ کا لفظ محصول اکٹھا کرنے کے لیے محاورۃً استعمال ہوتا ہے۔ لہذا یہ عین ممکن ہے کہ مکس کا لفظ ہی دوسری زبان میں جا کر ٹیکس بن گیا ہو۔ - اب مکس کی شرعی حیثیت یہ ہے کہ دور نبوی میں جب قبیلہ غامدیہ کی عورت کو زنا کے جرم میں سنگسار کیا گیا تو سیدنا خالد بن ولید نے اسے ایک پتھر مارا جس کی وجہ سے خون کے چند چھینٹے سیدنا خالد کے منہ پر بھی پڑے سیدنا خالد نے اس عورت کو برابھلاکہا تو آپ نے سیدنا خالد سے فرمایا خالد یہ کیا بات ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر کوئی ٹیکس وصول کرنے والا بھی ایسی توبہ کرے تو معاف کردیا جائے۔ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب حدالزنا) گویا مکس کا جرم زنا سے کسی صورت کم نہیں ہے اور ایک دفعہ آپ نے یوں فرمایا ٹیکس وصول کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔ - تیسرا فرق مقصد کے لحاظ سے ہے۔ ٹیکس کا مقصد عوام کی آمدنی کا ایک حصہ لے کر اس سے نظام حکومت چلانا، رفاہ عامہ کے کام کرنا اور اس سے ملکی ضروریات کو پورا کرنا ہوتا ہے جبکہ زکوٰۃ کے اصل مقصد دو ہیں ایک تطہیر مال، دوسرا تزکیہ نفس۔ جیسا کہ اس حاشیہ کی ابتداء میں واضح کیا جا چکا ہے اور یہ دونوں فائدے زکوٰۃ دینے والے کو پہنچتے ہیں اور اس کا معاشرتی فائدہ یہ ہے کہ اس سے غریب مقروض اور محتاج عنصر کی مالی امداد ہوجاتی ہے۔- چوتھا فرق محاصل کا ہے یعنی ٹیکس کن لوگوں سے لیا جاتا ہے اور زکوٰۃ کن سے۔ اسلامی نقطہ نظر سے معاشرہ کو معاشی لحاظ سے صرف تین طبقوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔- ١۔ وہ لوگ جن سے زکوٰۃ وصول کی جاتی ہے یہ لوگ اہل نصاب یا غنی ہیں۔- ٢۔ دوسرے وہ لوگ جن میں زکوٰۃ تقسیم ہوگی۔ یہ لوگ فقراء و مساکین ہیں۔- ٣۔ متوسط طبقہ جو نہ زکوٰۃ دینے کا اہل ہوتا ہے، نہ زکوٰۃ لینے کا۔ مثلاً ابو داؤد کی ایک حدیث کے مطابق جس کے پاس ایک اوقیہ چاندی کی مالیت کے برابر کوئی بھی چیز موجود ہو وہ زکوٰۃ لینے کا مستحق نہیں جبکہ زکوٰۃ کا حد نصاب ٥ اوقیہ چاندی ہے۔ اصول یہ ہے کہ زکوٰۃ طبقہ نمبر ١ سے لے کر طبقہ نمبر ٢ میں تقسیم کردی جائے جیسا کہ رسول اللہ نے سیدنا معاذ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجتے وقت ہدایت فرمائی تھی۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ باب محاسبۃ المصدقین) تیسرے طبقہ کا زکوٰۃ سے کچھ تعلق نہیں ہوتا۔ وہ نہ دینے والوں میں ہیں نہ لینے والوں میں اس کے برعکس ٹیکس کی رقوم کا بیشتر حصہ غریبوں کی جیب سے نکلتا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مثلاً ٧٧۔ ١٩٧٦ ء کے گوشوارہ کے مطابق ہماری حکومت کی مجموعی آمدنی کا ٧٥ فیصد حصہ صرف ٹیکسوں سے وصول ہوا تھا پھر یہ ٹیکس دو طرح کے ہوتے ہیں ایک بلاواسطہ یا براہ راست ٹیکس جیسے انکم ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، دولت ٹیکس وغیرہ۔ یہ ٹیکس امراء پر لگائے جاتے ہیں۔ ٧٧۔ ١٩٧٦ ء کے مطابق ان ٹیکسوں سے ٹیکسوں کی مجموعی آمدنی کا صرف ٣ ١٢ فیصد وصول ہوا۔ باقی ٧ ٨٧ فیصد بالواسطہ ٹیکسوں سے وصول ہوا۔ بالواسطہ ٹیکس وہ ہیں جو ادا تو تاجر یا صنعت کار کرتے ہیں مگر یہ ٹیکس قیمت فروخت میں شامل کر کے اس کا بوجھ صارفین پر ڈال دیتے ہیں۔ جیسے سیلز ٹیکس، ایکسائز ڈیوٹی وغیرہ جو چینی، سریا، سیمنٹ، سوتی کپڑا، درآمدات اور دیگر بیشمار اشیاء پر لگائے جاتے ہیں اور چونکہ ہمارے ہاں صارفین کا بیشتر حصہ غریب طبقہ ہے۔ لہذا ٹیکسوں کا زیادہ تر بوجھ یہی طبقہ برداشت کرتا ہے۔- پانچواں فرق مصارف کے لحاظ سے ہے۔ زکوٰۃ کا سب سے بڑا اور اہم مصرف غریب طبقہ کی بنیادی ضروریات کی کفالت ہے جبکہ ٹیکس ملکی ضروریات کو پورا کرنے اور رفاہ عامہ کے کاموں پر خرچ ہوتے ہیں۔ گو یہ سب چیزیں سب کے لیے مشترک ہوتی ہیں تاہم عملاً ان سے امیر طبقہ ہی مفاد حاصل کر پاتا ہے مثلاً اعلیٰ تعلیم کے حصول یا حصول انصاف جو کسی غریب کے بس کا روگ نہیں۔ اسی طرح اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ امیر طبقہ اپنے اثر اور وسائل کی بنا پر ہر چیز سے زیادہ فائدہ اٹھا جاتا ہے گویا ٹیکس کی رقم جس کا زیادہ حصہ غریب کی جیب سے نکلا تھا اس سے امیر زیادہ فائدہ اٹھا گیا۔ مختصراً یہ کہ زکوٰۃ دین اسلام کا ایسا رکن ہے جس کے ذریعہ دولت کا بہاؤ امیر سے غریب کی طرف مڑتا ہے جبکہ ٹیکس سرمایہ دارانہ نظام کے دو اہم ارکان سود اور ٹیکس میں سے دوسرا رکن ہے۔ تو جس طرح سود سے بالآخر سرمایہ دار اور امیر طبقہ کو فائدہ پہنچتا ہے اور غریب طبقہ پستا ہے اسی طرح ٹیکس کا بار تو غرباء پر زیادہ ہوتا ہے اور فائدہ امیر حاصل کرتا ہے۔- چھٹا فرق مزاج اور نتائج کے لحاظ سے ہے۔ ٹیکس عموماً آمدنی پر لگتا ہے جس سے دولت جمع کرنے کی ہوس بڑھتی ہے جبکہ زکوٰۃ عموماً بچت پر لگتی ہے جس سے اندوختہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ سرمایہ حرکت میں رہتا ہے جس سے معیشت پر خوشگوار اثر پڑتا ہے۔- زکوٰۃ بچت پر لگنے کا فائدہ یہ ہے کہ اس میں فرد کی ضرورتوں اور اخراجات کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ جبکہ عام ٹیکس آمدنی پر لگتے ہیں۔ مثلاً فرض کیجئے کہ زید اور بکر دونوں تین تین ہزار روپے تنخواہ لیتے ہیں۔ زید کی ابھی شادی بھی نہیں ہوئی اور وہ بآسانی دو ہزار روپے بچا لیتا ہے مگر بکر کے پانچ چھ بچے بھی ہیں اور وہ اس رقم میں بمشکل گزر بسر کرتا ہے تو ٹیکس ان کے اس امتیاز میں کوئی فرق نہیں کرے گا۔- علاوہ ازیں ٹیکس کو ہر شخض ایک بوجھ تصور کرتا ہے ٹیکس دہندہ کبھی پوری مالیت ظاہر نہیں ہونے دیتے اور ٹیکس وصول کرنے والے بھی رشوت لے کر خود ٹیکس چوری کی راہیں بتلا دیتے ہیں۔ اس ملی بھگت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت کو متوقع رقم کا نصف بھی حاصل نہیں ہوتا اور وہ ٹیکس مزید بڑھانے اور مزید ٹیکس لگانے کی راہ اختیار کرلیتی ہے۔ جبکہ زکوٰۃ ایک دینی فریضہ اور مالی عبادت ہے جسے اکثر مسلمان فریضہ سمجھ کر ہی ادا کرتے ہیں اس میں ہیرا پھیری نہیں کرتے اور اس میں رشوت کا امکان بھی بہت کم ہوتا ہے۔- زکوۃ کی شرح میں بتدیلی اور دوسرے ٹیکس :۔ ان حضرات کا یہ دعویٰ کہ رسول اللہ نے خود اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق محل زکوٰۃ اشیاء اس حد نصاب اور اس کی شرح مقرر فرمائی تھی بالکل غلط ہے وجہ یہ ہے کہ اگر یہ باتیں تدبیری امور میں شامل ہوتیں تو آپ صحابہ کرام (رض) سے ضرور مشورہ کرتے۔ کیونکہ قرآن میں آپ کو یہی حکم دیا گیا ہے اور بہت سے تدبیری امور میں آپ کا صحابہ سے مشورہ کرنا احادیث سے ثابت بھی ہے لیکن یہ حضرات کسی ضعیف سے ضعیف حدیث حتیٰ کہ تاریخ کی کسی کتاب سے بھی یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ آپ نے اس سلسلہ میں صحابہ کرام (رض) سے مشورہ لیا ہو۔ اس کے برعکس ہم قرآن سے یہ ثابت کریں گے کہ شرح زکوٰۃ اور محل نصاب اشیاء کی تعیین سب کچھ منزل من اللہ تھا جس میں آپ کی رائے یا مرضی کو کچھ عمل دخل نہ تھا ارشاد باری ہے :۔- ( وَالَّذِيْنَ فِيْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ 24۽) 70 ۔ المعارج :24)- اور ان (مومنوں) کے اموال میں مانگنے اور نہ مانگنے والوں کا حصہ مقرر ہے۔- یہاں لفظ معلوم استعمال ہوا ہے جس کا مادہ علم ہے گویا آپ کو اس حق کا علم دیا گیا تھا۔ اور قرآن میں اکثر مقامات پر لفظ علم کا اطلاق وحی کے علم پر ہوا ہے لہذا آپ نے حق معلوم یا شرح زکوٰۃ کی جو تعیین فرمائی وہ اپنی مرضی سے نہیں فرمائی نہ صحابہ کے مشورہ سے فرمائی اور اس کی مثال ایسی ہے جیسے قرآن میں نماز ادا کرنے کا حکم تو سینکڑوں بار آیا ہے۔ لیکن اس کی ترتیب، تعدادار کعات وغیرہ کا کہیں ذکر نہیں۔ یہی حال مناسک حج وغیرہ کا ہے اور یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو منزل من اللہ وحی کی محتاج ہیں اور زکوٰۃ کے بارے میں تو آپ کی خصوصی احتیاط یہ بھی تھی کہ آپ یہ سب تفاصیل تحریراً صوبوں کے گورنروں کو بھجواتے تھے۔- اور محل نصاب اشیاء درج ذیل آیات سے ثابت ہیں۔- ١۔ نقدی اور سونا چاندی وغیرہ (وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ 34ۙ ) 9 ۔ التوبہ :34) اور جو لوگ سونے اور چاندی وغیرہ کا ذخیرہ کرتے ہیں۔- ٢۔ زرعی پیداوار یعنی غلہ اور پھلوں کی زکوٰۃ (وَاٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ ڮ وَلَا تُسْرِفُوْا ۭ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ ١٤١ۙ ) 6 ۔ الانعام :141) اور جس دن فصل کاٹو تو اس میں سے اللہ کا حق ادا کرو۔ - ٣۔ باقی ذرائع آمدنی کے لیے جس میں مویشیوں کی زکوٰۃ اور اموال صنعت و تجارت کی زکوٰۃ وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔ (يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ ٢٦٧۔ ) 2 ۔ البقرة :267) اے ایمان والو جو بھی پاکیزہ مال تم کماتے ہو اس میں سے خرچ کرو۔ - ٤۔ زمینوں اور معدنیات کے لیے مندرجہ بالا آیات کا اگلا حصہ یوں ہے۔ (وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ٢٦٧۔ ) 2 ۔ البقرة :267) اور ان چیزوں سے بھی خرچ کرو جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی ہیں۔- یہ آیت جیسے دفینوں، معدنیات اور زمین کے خزانوں کے لیے عام ہے۔ ویسے ہی نباتاتی اور زرعی پیداوار کے لے بھی عام ہے۔- ان تصریحات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ زکوٰۃ سے متعلق جملہ امور منزل من اللہ تھے اور ان میں رد و بدل کا خود آپ کو بھی اختیار نہ تھا اگر آپ کو بھی کچھ اختیار ہوتا تو فرضیت زکوٰۃ کے بعد کئی مواقع ایسے آئے جن میں آپ اس شرح کو بڑھا سکتے تھے جیسے غزوہ تبوک کا موقع جبکہ آپ کو فنڈ کی شدید ضرورت تھی۔ علاوہ ازیں ابتدائے اسلام سے آج تک ان امور کا غیر متبدل رہنا ہی اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ ان میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔- زکوٰۃ کی موجودگی میں دوسرے ٹیکس :۔ اسلام نے جس شدت اور تاکید کے ساتھ بغیر حق کے ایک مسلمان کے خون کو حرام کیا ہے اسی شدت اور تاکید کے ساتھ مسلمانوں کے اموال اور عزت و آبرو کو بھی حرام کیا ہے جس پر آپ کا خطبہ حجۃ الوداع شاہد ہے (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب حجۃ النبی) علاوہ ازیں مسلمانوں کے جان و مال اور آبرو کی حرمت کے متعلق یہ خطبہ احادیث کی تقریباً تمام کتب میں مذکور ہے۔ پھر ایسے صریح احکام کی موجودگی میں حکومت کے پاس وہ کونسا حق ہے جس کی بنا پر وہ مسلمانوں سے زکوٰۃ کے علاوہ کسی اور طریقے سے جبراً کچھ وصول کرے ؟ اگر ایک شخص اپنی ضرورت کے لیے مکان بنا لیتا ہے تو اس پر پراپرٹی ٹیکس کیونکر عائد کیا جاسکتا ہے ؟- اس سلسلہ میں فقہائے امت نے اگر کچھ لچک پیدا کی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ اگر قحط کا زمانہ ہو۔ غریب لوگ بھوکوں مر رہے ہوں۔ بیت المال میں اتنی رقم موجود نہ ہو جس سے ضروریات پوری کی جاسکیں اور اغنیاء حکومت کی اپیل کے باوجود خود غریبوں کا احساس نہ کر رہے ہوں تو ان چار شرطوں کے ساتھ حکومت اسلامیہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ امراء پر ٹیکس لگا کر غرباء کی ضروریات کو پورا کرے اور امراء پر ٹیکس لگانے میں عدل سے کام لیا جائے گا یعنی صرف اس قدر مال لیا جائے گا جس سے ضرورت پوری ہو سکے اس سے زائد نہیں۔ نیز اس ٹیکس کی حیثیت ہنگامی اور عارضی ہوگی، دوامی نہیں ہوگی۔ رہے ایسے ٹیکس جن کا مقصد ہی اہل اقتدار کی عیاشیوں اور ہوس پرستیوں کو پورا کرنا ہو ان کی ایک اسلامی حکومت میں کوئی گنجائش نہیں۔- نئے ٹیکس اور حکومت کی ضروریات :۔ نئے ٹیکس عائد کرنے کے جواز میں یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ آج کل حکومتیں بہت سی ذمہ داریاں اپنی سر لے لیتی ہے اور اخراجات بہت بڑھ چکے ہیں لہذا نئے ٹیکس لگانا ضروری ہوگیا ہے۔ اس کے جواب میں ہماری معروضات یہ ہیں :۔- ١۔ اگر حکومت کے اخراجات بڑھ چکے ہیں تو آمدنی کی بھی مدات بڑھ چکی ہیں کئی محکمے کاروباری طریق پر چل رہے ہیں جن سے معقول آمدنی متوقع ہوتی ہے جیسے محکمہ ڈاک و تار، ٹیلی فون، واپڈا، ریلوے اور انہار وغیرہ۔ ان محکموں میں خسارہ صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے جب عملہ بددیانت ہو۔ ورنہ نقصان کی کوئی صورت نہیں۔- ٢۔ کئی محکمے ایسے ہیں جن کی ایک اسلامی نظام میں سرے سے گنجائش نہیں مثلاً خاندانی منصوبہ بندی یا محکمہ بہبود آبادی، فحاشی پھیلانے والے ثقافتی مراکز اور ثقافت کی بین المملکتی نقل و حرکت پر اٹھنے والے اخراجات۔- ٣۔ حکومت کے انتظامی اخراجات توجہ طلب ہیں۔ لاتعداد محکمے اور ان میں آئے دن اضافہ تاکہ صاحب اقتدار پارٹی کے جیالوں اور وفاداروں کو کھپایا جاسکے۔ ان کی تعداد، الاؤنسز اور سفری اخراجات کم کرنے سے کافی بچت کی جاسکتی ہے۔- ٤۔ اہل اقتدار کی عیاشیوں اور ہوس پرستیوں پر جو بےپناہ اخراجات اٹھتے ہیں اور ان کا بار قومی خزانہ پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اسلامی نظام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ سرکاری افسر سرکاری املاک کو استعمال تو خود اپنی ذات کے لئے کرتے ہیں۔ لیکن اخراجات قومی خزانہ پر ڈال دیتے ہیں۔ اور ان باتوں کا سدباب صرف اس لیے نہیں ہوتا کہ سب سرکاری افسر جب یہی کچھ کر رہے ہوں تو کون دوسرے کا محاسبہ کرے ؟- ٥۔ اخراجات میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ملازموں کو بھرتی کرتے وقت صرف ان کی سند، ڈگری یا نمبروں کو سامنے رکھا جاتا ہے اور جو انسانیت کے اصل جوہر ہیں یعنی دیانتداری، تقویٰ یا دینی تعلیم وغیرہ ان چیزوں کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے جس کا نتیجہ کام چوری، رشوت اور بددیانتی کی شکل میں سامنے آتا ہے جس دفتر میں دس ملازموں سے دیانتداری سے کام چل سکتا ہو وہاں بیس بھرتی کرلیے جاتے ہیں۔ جن میں بیشتر اپنی سیٹوں سے غیر حاضر اور باہر نکل کر اپنے گاہکوں سے سودا بازی اور رشوت کا معاملہ طے کر رہے ہوتے ہیں اور چونکہ سارا عملہ ہی انہی کاموں میں لگا ہوتا ہے۔ لہذا یہ لوگ کسی گرفت میں بھی نہیں آتے۔ مزید ستم یہ کہ ان کو قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ جب تک کوئی ملازم کسی سنگین بدعنوانی کا مرتکب نہ ہو جس کو کسی صورت چھپایا نہ جاسکتا ہو۔ اسے نہ معطل کیا جاسکتا ہے اور نہ برطرف کیا جاسکتا ہے۔ ان چند در چند وجوہ کی بنا پر دفتری کاموں کی رفتار تو بہت سست رہ جاتی ہے مگر اخراجات آٹھ گنا بڑھ جاتے ہیں۔- ٦۔ اخراجات کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ہمارا موجودہ نظام ہے مثلاً عدلیہ کو لیجئے جہاں فوجداری مقدمات بھی سالہا سال تک چلتے ہیں۔ دیوانی مقدمات کا اور بھی برا حال ہے۔ اسلامی نظام میں قتل جیسے مقدمہ میں ایک ماہ کا عرصہ درکار ہے۔ ظاہر ہے کہ جہاں آج کل سو جج کام کر رہے ہیں۔ اسلامی نظام میں دس جج بھی کفایت کرسکتے ہیں۔ اس طرح عدلیہ کے اخراجات بھی اسی نسبت سے کم ہوں گے اور ساتھ ہی ساتھ پولیس کے بھی پھر جہاں مدعی اور مدعا علیہ کا وقت اور خرچ بچے گا تو وہاں ٹریفک کا دباؤ بھی از خود کم ہوجائے گا۔ اور سڑکوں کی تعمیر پر اخراجات بھی کم ہوجائیں گے گویا صرف عدلیہ کے نظام میں تبدیلی سے ہی اتنے اخراجات کم ہوسکتے ہیں۔ پھر اگر پورے طور پر اسلامی نظام رائج ہو تو اخراجات میں حیرت انگیز حد تک کمی از خود واقع ہوجائے گی۔- ٧۔ اور ہمارے خیال میں بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ یہی حکومت کا ٹیکس بڑھانے اور نئے ٹیکس لگائے جانے کا حق ہے۔ گویا یہ حق بڑھتے ہوئے اخراجات کے مرض کا علاج نہیں بلکہ یہی اصل مرض ہے۔ اسی حق کی بنا پر حکومت بہت سے غیر دانشمندانہ اور غیر ترقیاتی منصوبے شروع کردیتی ہے اور اگر اس کا بار ٹیکسوں سے پورا ہوتا نظر نہ آتا ہو تو حکومت نئے نوٹ چھاپ کر اپنے اخراجات پورے کرلیتی ہے یہ گویا ایک جبری اور بدترین قسم کا ٹیکس ہے جسے خفیہ ٹیکس (رض) ) ( کہا جاتا ہے جس کا عوام کو پتہ تک نہیں چلتا لیکن اس کا بار عوام پر پڑجاتا ہے اور اشیاء کی قیمتیں چڑھ جاتی ہیں اور مہنگائی زیادہ سے زیادہ ہوتی جاتی ہے حکومت کے پاس یہی وہ حربہ ہے جس کی بنا پر وہ اپنے اخراجات کم کرنے کی طرف توجہ ہی نہیں دیتی اور اخراجات بڑھاتی ہی چلی جاتی ہے۔- ان وجوہ اور ان تصریحات کے بعد ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ بیت المال کی جائز آمدنی سے حکومت کے جائز اخراجات آج بھی بطریق احسن پورے ہوسکتے ہیں جس کے لیے ہم تاریخ سے شواہد پیش کرسکتے ہیں۔ دور فاروقی میں اسلامی مملکت عہد نبوی سے کئی گنا زیادہ پھیل چکی تھی۔ کئی نئے محکمے بھی وجود میں آ چکے تھے۔ مثلاً محکمہ مال گزاری، فوج، پولیس، جیل اور ڈاک وغیرہ جو آپ ہی کے عہد میں قائم ہوئے۔ زمانہ کے تقاضے بھی بدل چکے تھے مثلاً دور نبوی میں مسجد نبوی ہی عدلیہ کا صدر دفتر تھا جبکہ دور فاروقی میں عدلیہ کے لیے الگ عمارت اور عملہ کا بندوبست ہوا۔ علی ہذا القیاس ضروریات اور اخراجات بڑھ چکے تھے مگر اسی بیت المال سے حکومت کا نظم و نسق چلتا رہا اور تمام اخراجات پورے ہوتے رہے۔ اسی طرح مسلمانوں کے چھ سات سو سال طویل دور حکومت میں کبھی مسلمانوں پر زکوٰۃ کے علاوہ کوئی ٹیکس بھی عائد نہ کیا گیا اور اخراجات تمام تر بیت المال سے پورے ہوتے رہے۔- کہا جاتا ہے کہ دور فاروقی میں بیشمار فتوحات ہوئیں جہاں سے کافی مال و دولت ہاتھ لگ گیا تھا۔ لہذا کوئی نیا ٹیکس لگانے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ یہ اعتراض اس لحاظ سے غلط ہے کہ جن علاقوں سے مال و دولت آتی تھی اسی نسبت سے انہی علاقوں کے انتظام و انصرام پر خرچ بھی ہوجاتی تھی اور یہ ایک ایسی ذمہ داری تھی جسے حکومت اپنا فرض سمجھتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ سیدنا عمر اپنے سپہ سالاروں کو مزید علاقے فتح کرنے سے روکتے رہتے تھے۔ لہذا آج بھی کرنے کا کام یہ ہے کہ بڑھتے ہوئے اخراجات کے مرض کے اسباب تلاش کر کے انہیں دور کیا جائے۔ نہ یہ کہ ٹیکس کے جواز کے لیے دلائل تلاش کیے جائیں۔ جس کی حقیقت پہلے واضح کی جا چکی ہے۔
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً : ابن عباس (رض) کی روایت جو پچھلی آیت کی تفسیر میں ذکر ہوئی، اس میں ہے کہ جب ان لوگوں کی توبہ قبول ہوگئی تو یہ اپنے اموال لے کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ ہمارا صدقہ قبول فرمایے اور ہمارے لیے استغفار کیجیے، مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ قبول کرنے سے انکار فرما دیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور آپ نے ان کا صدقہ قبول فرما لیا۔ - اس حکم میں ان اعتراف گناہ کرنے والوں کا صدقہ قبول کرنے کے ساتھ تمام مسلمانوں سے بھی صدقہ وصول کرنے کا حکم ہے، کیونکہ زکوٰۃ اسلام کے بنیادی ارکان خمسہ میں شامل ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدم موجودگی میں ان کے نائب کو صدقہ ادا کرنا ہوگا۔ بعض لوگوں نے اس آیت سے استدلال کیا کہ زکوٰۃ وصول کرنے کا حق صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تھا، آپ کے بعد کسی کا یہ حق نہیں۔ چناچہ آپ کی وفات کے بعد بعض لوگوں نے ابوبکر (رض) کو زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا، مگر ابوبکر (رض) اور تمام صحابہ نے ان کی تاویل کو رد کیا اور ان سے اس وقت تک جنگ کی جب تک انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ کو زکوٰۃ ادا نہیں کی۔ اس موقع پر ابوبکر (رض) نے اپنا وہ مشہور قول ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ کی قسم اگر یہ لوگ مجھ سے ایک عناق (بکری کی پٹھوری) اور ایک روایت میں ہے کہ ایک عقال (ایک رسی یا ایک سال کی زکوٰۃ) روکیں گے جو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ادا کرتے تھے تو میں ہر صورت ان کے نہ دینے کی وجہ سے ان سے جنگ کروں گا۔ - تُطَهِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا : اس سے زکوٰۃ اور صدقات کی فضیلت ظاہر ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کے مال کو اور اس کی نیت اور عمل کو طہارت اور پاکیزگی حاصل ہوتی ہے اور دونوں میں اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ ” زَکَا یَزْکُوْ “ جس سے ” وَتُزَكِّيْهِمْ “ مشتق ہے، پاک ہونے اور بڑھنے دونوں معنی میں آتا ہے۔ ویسے بھی صدقہ کو صدقہ کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ایمان کا دعویٰ کرنے والے کے صدق کو ظاہر کرتا ہے۔- وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۭ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّھُمْ : ” صَلَاۃٌ“ کا معنی نماز، رحمت اور دعا بھی آتا ہے، یہاں اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صدقہ پیش کرنے والوں کے لیے مغفرت و رحمت کی دعا کا حکم دیا کہ اس سے ان کے دل کو سکون حاصل ہوتا ہے، اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معمول تھا کہ جب کوئی صدقہ (فرض زکوٰۃ یا نفل صدقہ) لے کر آتا تو آپ اس کے لیے دعا فرماتے، جیسا کہ پیچھے آیت (٩٩) کی تفسیر میں باحوالہ گزرا ہے کہ آپ نے ابو اوفی (رض) کے زکوٰۃ لانے پر ( اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی آلِ اَبِیْ اَوْفٰی ) کہہ کر ان کے ساتھ ان کے پورے اہل کو بھی دعا میں شامل فرما لیا۔ (وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ ) یعنی اللہ تعالیٰ جو وہ کہہ رہے ہیں یا جو ان کے دل میں ہے سب سے واقف ہے، کیونکہ وہ سمیع بھی ہے علیم بھی۔
(آیت) خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً ، واقعہ اس آیت کا یہ ہے کہ جن حضرات کا اوپر ذکر ہوا کہ بلا عذر غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے، پھر نادم ہو کر اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے باندھ لیا پھر آیت مذکورہ سابقہ میں ان کی توبہ کی قبولیت نازل ہوئی اور قید سے کھولے گئے تو ان حضرات نے بطور شکرانہ اپنا سارا مال صدقہ کرنے کے لئے پیش کردیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبول کرنے سے انکار فرمایا کہ مجھے مال لینے کا حکم نہیں ہے، اس پر یہ آیت مذکورہ خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ نازل ہوئی، اور آپ نے پورے مال کے بجائے ایک تہائی مال کا صدقہ کرنا قبول فرمالیا کیونکہ آیت میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ پورا مال نہ لیا جائے بلکہ اس کا کوئی حصہ لیا جائے، حرف من اس پر شاہد ہے۔- مسلمانوں کے صدقات زکوٰة وغیرہ وصول کرنا اور ان کے مصرف پر خرچ کرنا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے :- اس آیت میں اگرچہ شان نزول کے اعتبار سے ایک خاص جماعت سے صدقہ وصول کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لیکن وہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے عام ہے۔- تفسیر قرطبی، احکام القرآن، جصاص، مظہری وغیرہ میں اسی کو ترجیح دی گئی ہے، اور قرطبی اور جصاص نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اگر اس آیت میں شان نزول وہی خاص واقعہ قرار دیا جائے جس کا ذکر اوپر آیا ہے تو پھر بھی اصول قرآنی کی رو سے یہ حکم عام ہی رہے گا، اور قیامت تک کے مسلمانوں پر حاوی ہوگا، کیونکہ قرآن کریم کے بیشتر احکام خاص خاص واقعات میں نازل ہوئے، مگر ان کا دائرہ عمل کسی کے نزدیک اس خاص واقعہ تک محدود نہیں ہوتا بلکہ جب تک کوئی دلیل تخصیص کی نہ ہو یہ حکم تمام مسلمانوں کے لئے عام اور شامل ہی قرار دیا جاتا ہے۔- یہاں تک کہ پوری امت محمدیہ کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ اس آیت میں اگرچہ خطاب خاص نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے مگر یہ حکم نہ آپ کے ساتھ مخصوص ہے اور نہ آپ کے زمانہ تک محدود بلکہ ہر وہ شخص جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قائم مقام مسلمانوں کا امیر ہوگا وہ اس حکم کا مخاطب اور مامور ہوگا، اس کے فرائض میں داخل ہوگا کہ مسلمانوں کی زکوٰة صدقات کے وصول کرنے اور مصرف پر خرچ کرنے کا انتظام کرے۔- صدیق اکبر کی خلافت کے ابتدائی زمانہ میں جو مانعین زکوٰة پر جہاد کرنے کا واقعہ پیش آیا اس میں بھی زکوٰة نہ دینے والے کچھ تو وہ لوگ تھے جو کھلم کھلا اسلام سے باغی اور مرتد ہوگئے تھے، اور کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتے تھے مگر زکوٰة نہ دینے کا یہ بہانہ کرتے تھے کہ اس آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہم سے زکوٰة و صدقات وصول کرنے کا حکم آپ کی حیات تک تھا، ہم نے اس کی تعمیل کی آپ کی وفات کے بعد ابوبکر کو کیا حق ہے کہ ہم سے زکوٰة و صدقات طلب کریں، اور شروع شروع میں حضرت عمر کو ان پر جہاد کرنے سے اسی لئے تردد پیش آیا کہ یہ مسلمان ہیں ایک آیت کی آڑ لے کر زکوٰة سے بچنا چاہتے ہیں، اس لئے ان کے ساتھ وہ معاملہ کیا جائے جو عام مرتدین کے ساتھ کیا جاتا ہے، مگر صدیق اکبر نے پورے عزم اور جزم کے ساتھ فرمایا کہ جو شخص نماز اور زکوٰة میں فرق کرے گا اس پر جہاد کریں گے۔- اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ جو لوگ حکم زکوٰة کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص کرنے اور آپ کے بعد اس کے ساقط ہوجانے کے قائل ہوئے وہ کل کو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ نماز بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص تھی، کیونکہ قرآن کریم میں یہ آیت بھی آئی ہے : (آیت) اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ ، جس میں اقامت صلوٰة کے مخاطب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص ہونے کی غلط تاویل کرنے والوں کو کفر سے نہیں بچا سکتی، اسی طرح آیت خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ میں یہ تاویل انکو کفر و ارتداد سے نہیں بچائے گی، اس پر فاروق اعظم کو بھی اطمینان ہوگیا اور باجماع صحابہ ان لوگوں کے خلاف جہاد کیا گیا۔- زکوٰة حکومت کا ٹیکس نہیں بلکہ عبادت ہے :- قرآن کریم نے آیت مذکورہ میں خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ کے بعد جو ارشاد فرمایا صَدَقَـةً تُطَهِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا اس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ زکوٰة و صدقات کوئی حکومت کا ٹیکس نہیں، جو عام حکومتیں نظام حکومت چلانے کے لئے وصول کرتی ہیں، بلکہ اس کا مقصد خود اصحاب اموال کو گناہوں سے پاک صاف کرنا ہے۔- یہاں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ زکوٰۃ و صدقات کو وصول کرنے سے درحقیقت دو فائدے حاصل ہوتے ہیں، ایک فائدہ خود صاحب مال کا ہے کہ اس کے ذریعہ سے وہ گناہوں سے اور مال کی حرص و محبت سے پیدا ہونے والی اخلاقی بیماریوں کے جراثیم سے پاک و صاف ہوجاتا ہے، دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ قوم کے اس ضعیف عنصر کی پرورش ہوتی ہے جو خود اپنی ضروریات مہیا کرنے سے مجبور یا قاصر ہے جیسے یتیم بچے، بیوہ عورتیں، اپاہج و معذور مرد و عورتیں اور عام فقراء و مساکین وغیرہ۔- لیکن قرآن حکیم نے اس جگہ صرف پہلا فائدہ بیان کرنے پر اقتصار کرکے اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ زکوٰة و صدقات کا اصل مقصد پہلا ہی فائدہ ہے، دوسرا فائدہ اس سے ضمنی طور پر حاصل ہوجاتا ہے، اس لئے اگر بالفرض کسی جگہ یا کسی وقت کوئی یتیم، بیوہ، فقیر مسکین موجود نہ ہو جب بھی اصحاب اموال سے زکوٰة کا حکم ساقط ہوگا۔- اس مضمون کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ پچھلی امتوں میں جو مال اللہ کے لئے نکالا جاتا تھا اس کا استعمال کسی کے لئے جائز نہ تھا، بلکہ دستور یہ تھا کہ اس کو کسی علیحدہ جگہ پر رکھ دیا جاتا تھا اور آسمانی بجلی آکر اس کو جلا دیتی تھی، یہی علامت تھی اس بات کی کہ یہ صدقہ اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لیا، اور جہاں یہ آسمانی آگ نہ آتی تو صدقہ کے غیر مقبول ہونے کی علامت سمجھی جاتی تھی، پھر اس منحوس مال کو کوئی ہاتھ نہ لگاتا تھا۔- اس سے واضح ہوگیا کہ زکوٰة و صدقات کی اصل مشروعیت کسی کی حاجت روائی کے لئے نہیں بلکہ وہ ایک مالی حق اور عبادت ہے، جیسے نماز روزہ جسمانی عبادات ہیں، یہ امت مرحومہ کی خصوصیات میں سے ہے کہ یہ مال جو فی سبیل اللہ نکالا گیا ہے اس امت کے فقراء و مساکین کے لئے اس کا استعمال جائز کردیا گیا، جیسا کہ مسلم کی حدیث صحیح میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی تصریح منقول ہے۔- ایک سوال اور جو اب : - یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ واقعہ میں جب ان حضرات کی توبہ قبول کرلی گئی تو گناہ کی معافی اور تطہیر توبہ ہی کے ذریعہ ہوچکی، پھر مال لینے کو ذریعہ تطہیر قرار دینے کے معنی کیا ہوں گے ؟- جواب یہ ہے کہ اگرچہ توبہ سے گناہ معاف ہوگیا مگر گناہ معاف ہونے کے بعد اس کی کچھ ظلمت و کدورت باقی رہ سکتی ہے جو آئندہ ارتکاب گناہ کا سبب بن سکتی ہے، صدقہ کرنے سے وہ کدورت دور ہو کر تطہیر کامل ہوجائے گی۔- وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ، اس میں لفظ صلوٰة سے مراد ان کے لئے دعائے رحمت کرنا ہے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول یہی ہے کہ بعض لوگوں کے لئے آپ نے لفظ صلوٰة ہی سے دعا فرمائی جیسے اللھم صل علی ال ابی اوفی حدیث میں آیا ہے، لیکن بعد میں لفظ صلوٰة انبیاء (علیہم السلام) کی مخصوص علامت بن گئی اس لئے اکثر فقہاء رحمہم اللہ کا یہ قول ہے کہ اب کسی شخص کے لئے دعا بہ لفظ صلوٰة نہ کی جائے، بلکہ اس لفظ کو صرف انبیاء (علیہم السلام) کے لئے مخصوص رکھا جائے تاکہ تلبیس اور اشتباہ نہ ہو ( بیان القرآن وغیرہ) ۔- یہاں آپ کو صدقہ دینے والوں کے لئے دعا کرنے کا حکم ہے، اس وجہ سے بعض حضرات فقہاء نے فرمایا کہ امام و امیر کو صدقہ ادا کرنے والوں کے لئے دعا کرنا واجب ہے، اور بعض حضرات نے اس کو امر استحباب قرار دیا ہے ( قرطبی ) ۔
خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَـۃً تُطَہِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْہِمْ بِہَا وَصَلِّ عَلَيْہِمْ ٠ ۭ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّھُمْ ٠ ۭ وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ ١٠٣- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - صدقه - والصَّدَقَةُ : ما يخرجه الإنسان من ماله علی وجه القربة کالزّكاة، لکن الصدّقة في الأصل تقال للمتطوّع به، والزّكاة للواجب، وقد يسمّى الواجب صدقة إذا تحرّى صاحبها الصّدق في فعله . قال : خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة 103] ، وقال :إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة 60- ( ص دق) الصدقۃ ( خیرات )- ہر وہ چیز جو انسان اپنے مال سے قرب الہی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے اور یہی معنی زکوۃ کے ہیں مگر صدقۃ اسے کہتے ہیں جو واجب نہ ہو ۔ اور کبھی واجب کو بھی صدقۃ سے موسوم کردیا جاتا ہے ۔ جب کہ خیرات دینے والا اس سے صدق یعنی صلاح وتقوی کا قصد کرے قرآن میں ہے : ۔ خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة 103] ان کے مال میں سے زکوۃ قبول کرلو ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں کا حق ہے ۔- طهر - والطَّهَارَةُ ضربان :- طَهَارَةُ جسمٍ ، وطَهَارَةُ نفسٍ ، وحمل عليهما عامّة الآیات . يقال : طَهَّرْتُهُ فَطَهُرَ ، وتَطَهَّرَ ، وَاطَّهَّرَ فهو طَاهِرٌ ومُتَطَهِّرٌ. قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] ، أي : استعملوا الماء، أو ما يقوم مقامه، قال : وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] ،- ( ط ھ ر ) طھرت - طہارت دو قسم پر ہے - ۔ طہارت جسمانی اور طہارت قلبی اور قرآن پاک میں جہاں کہیں طہارت کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بالعموم دونوں قسم کی طہارت مراد ہے کہا جاتا ہے : ۔ طھرتہ فطھروتطھر واطھر فھو طاھر ومتطھر - میں نے اسے پاک کیا چناچہ وہ پاک ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو نہاکر پاک ہوجایا کرو ۔ یعنی یا جو چیز اس کے قائم مقام ہو اس کے ذریعہ طہارت کرلیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو ۔ - زكا ( تزكية)- وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] ، أي :- مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله :- «للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد .- وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان :- أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی 14] .- والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه .- اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ - وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- سكن - السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] ، وقال تعالی: وَلَهُ ما سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهارِ [ الأنعام 13] ، ولِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس 67] ، فمن الأوّل يقال : سکنته، ومن الثاني يقال : أَسْكَنْتُهُ نحو قوله تعالی: رَبَّنا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي [إبراهيم 37] ، وقال تعالی: أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ [ الطلاق 6]- ( س ک ن ) السکون ( ن )- السکون ( ن ) حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔ اور فرمایا : ۔ وَلَهُ ما سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهارِ [ الأنعام 13] اور جو مخلوق رات اور دن میں بستی ہے سب اسی کی ہے ۔ ولِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس 67] تاکہ اس میں آرام کرو ۔ تو پہلے معنی یعنی سکون سے ( فعل متعدی ) سکنتہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی کو تسکین دینے یا ساکن کرنے کے ہیں اور اگر معنی سکونت مراد ہو تو اسکنتہ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَبَّنا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي [إبراهيم 37] اے پروردگار میں نے اپنی اولاد لا بسائی ہے أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ [ الطلاق 6] 25 ) ( مطلقہ ) عورتوں کو ( ایام عدت میں ) اپنے مقدرو کے مطابق وہیں رکھو جہاں خود رہتے ہو ۔
صدقہ باعث تطہی رہے - قول باری ہے خذمن اموالھم صدقۃ تطھر ھم و ترکیھم بھا اے نبی تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو اور نیکی کی راہ میں انہیں بڑھائو ظاہری طور پر کنایہ ان لوگوں کی طرف راجع ہے جن کا پہلے ذکر ہوچکا ہے۔ یعنی وہ لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کرلیا تھا۔ اس لیے کہ کنایہ کے لیے کسی اسم ظاہر کا ہونا ضروری ہوتا ہے جس کا سلسلہ خطاب میں پہلے ذکر ہو چکاہو ۔ آیت میں ظاہر کلام اور مقتضائے لفظ یہی ہے۔ اس سے تمام اہل ایمان مراد لینا بھی درست ہے اس لیے کہ اس پر دلالت حال موجود ہے جس طرح یہ قول باری ہے انا انزلناہ فی لیلۃ القدر بیشک ہم نے اسے قدر کی رات میں نازل کیا یعنی قرآن ۔ اسی طرح یہ قول باری ہے ما ترک علی ظھرھا من دابۃ اللہ تعالیٰ اس کی پشت پر ایک بھی چلنے والا جاندار نہ چھوڑتا یہاں اس سے زمین مراد ہے۔ نیز فرمایا حتی توارت بالحجاب یہاں تک کہ وہ پردے میں چھپ گیا ۔ یعنی سورج - ان آیات میں دلالت حال کی بنا پر مذکور امور سے کنایہ کیا گیا جبکہ خطاب میں اسمائے ظاہرہ کی صورت میں ان کا ذکر موجود نہیں ہے۔ یہی صورت حال باری خد من اموالھم صدقۃ کے اندر بھی ہے کہ اس میں تمام اہل ایمان کے اموال مراد ہونے کا احتمال موجود ہے اور قول باری تطھر ھم وترکیھا بھا اس پر دلالت کرتا ہے ۔ اگر آیت میں کنایہ ان لوگوں کے متعلق ہے جن کا خطاب میں ذکر ہوچکا ہے یعنی وہ لوگ جو اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں تو اس صورت میں تمام اہل اسلام کیا موال سے صدقات وصول کرنے کے وجوب پر آیت ظاہرا ً دلالت کرے گی ، اس لیے کہ احکام دین میں تمام مسلمانوں کی حیثیت یکساں ہے الایہ کہ کسی دلیل کی بنیاد پر کوئی تخصیص ہر جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایساحکم جو اللہ اور اسکے رسول کی طرف سے بندوں میں سے کسی ایک کے بارے میں یا اس کے خلاف جاری کیا گیا ہو، وہ تمام لوگوں کے لیے لازم ہوگا ، الایہ کو تخصیص کی کوئی دلیل قائم ہوجائے۔ قول باری تطھرھم سے مراد گناہوں کی نجاست کا ازالہ ہے جو صدقہ نکالنے کی بنا پر وقوع پذیر ہوتا ہے۔ وہ اس طرح کہ جب نجس کے اسم کا کفر پر اطلاق کیا گیا جس میں ظاہری نجاست کے ساتھ کفر کی تشبیہ کا پہلو مد نظر تھا تو اس کے بالمقابل ، نیز اس کے ازالہ کے لیے تطہیر کے اسم کا اطلاق کیا گیا ۔ جس طرح ظاہری نجاست کی تطہیر اس کے ازالہ کے ذریعے ہوتی ہے ۔ گناہوں پر نجس کے اسم کے اطلاق اور ایسے افعال کے ذریعے جو اللہ سے انہیں معاف کرانے کا ذریعہ بنتے ہیں ، ان کے ازالہ پر تطہیر کے اسم کے اطلاق کی یہی کیفیت ہے۔- اہل ایمان کے اموال سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو صدقات وصول کرتے تھے اس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان پر تطہیر کے اسم کا اطلاق کیا جس کے معنی یہ ہیں کہ اہل ایمان حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صدقات ادا کر کے تطہیر کے حق دار قرار پاتے ہیں ۔ اس لیے کہ اگر مسلمانوں کی طرف سے صدقات کی ادائیگی نہ ہوتی بلکہ صرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے وصول ہوتی تو اس صورت میں وہ تطہیر کے اہل قرار نہ پاتے ، اس لیے کہ تطہیر کا استحقاق انہیں ان کی اطاعت اور صدقہ کی ادائیگی کے ثواب کے طور پر حاصل ہوتا ہے، اگر صدقات کے سلسلے میں انکا اپنا کوئی عمل نہ ہو تو وہ کسی اور کے عمل کی بنیاد پر نہ تو تطہیر کے حق دار ٹھہرائے جاسکتے ہیں ۔ اور نہ ہی از کیاء یعنی پاک و صاف بن سکتے ہیں ۔ اس لیے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ زیر بحث آیت کے مضمون میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صدقات کی ادائیگی کا مفہوم موجود ہے۔ اسی ادائیگی کی بنیاد پر وہ از کیا اور پاک و صاف قرار پائے۔- آیت میں صدقہ سے زکوٰ ۃمراد ہے یا ان گناہوں کا کفارہ جن کا انہوں نے ارتکاب کیا تھا، اس مراد کے تعین میں اختلاف رائے ہے۔ حسن سے مروی ہے کہ اس سے زکوٰۃ مراد نہیں ہے بلکہ ان گناہوں کا کفارہ مراد ہے جو ان سے سرزد ہوئے تھے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ اس سے زکوٰۃ مراد ہے ۔ درست بات یہی ہے کہ اس سے فریضہ زکوٰۃ کی تمام صورتیں مراد ہیں اس لیے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں پر اموال کی زکوٰۃ کے سوا کوئی صدقہ واجب کردیا تھا جس میں دوسرے لوگ شامل نہیں ہیں ۔ جب کسی دلیل سے اس کا ثبوت نہیں ہے تو پھر ظاہربات یہی ہے کہ گناہ گاروں اور دوسرے تمام لوگوں کا احکام و عبادات میں یکساں حکم ہے، صدقہ کے حکم کے ساتھ گناہ گار مخصوص نہیں ہیں بلکہ اس حکم میں تمام لوگ برابر ہیں۔- ایک اور پہلو سے دیکھے آیت کا مقتضی تو یہ ہے کہ صدقہ تمام لوگوں پر واجب ہوجائے تا کہ احکام کے لحاظ سے تمام کی حیثیت یکساں ہوجائے۔ اور صرف دلیل کی بنا پر کسی کی تخصیص کی کوئی صورت نکلے اس لیے یہ ضروری ہوگیا کہ آیت میں مذکور صدقہ کا حکم تمام لوگوں پر واجب ہوجائے اور کوئی گروہ اس حکم کے ساتھ مخصوص نہ ہو ، جب یہ بات ثابت ہوگئی تو پھر آیت میں مذکورہ صدقہ سے زکوٰۃ ہی مراد ہوسکتی ہے۔ اس لیے کہ تمام لوگوں کے اموال میں فریضہ زکوٰۃ کے سوا اور کوئی حق لازم نہیں ہے۔ قول باری تطھرھم و تزکیھم بھا میں اس پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے کہ وہ صدقہ ہے ان کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے اور یہ فریضہ زکوٰۃ کے علاوہ ہے۔ اس لیے کہ زکوٰۃ بھی تو اس کے ادا کرنے والے کی تطہیر و تزکیہ کرتی ہے۔ دوسری طرف یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ تمام کے تمام مکلفین کو تطہیر وت زکیہ والے عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔- قول باری ہے خذ من اموالھم میں اموا ل کی تمام اصناف کے لیے عموم ہے اس لیے آیت اموال کی تمام اصناف سے وصولی زکوٰۃ کی مقتضی ہے، صرف بعض اصناف سے زکوٰۃ کی وصولی کافی نہیں ہوگی ، جب کہ بعض لوگوں کا یہ قول ہے کہ صرف ایک ہی صفت سے زکوٰۃ کی وصولی آیت کے حکم پر عمل پیرا ہونے کے لیے کافی ہوگی ۔ لیکن ہمارے نزدیک پہلی بات درست ہے۔ ہمارے شیخ ابو الحسن کرخی بھی یہی کہا کرتے تھے۔ - مسائل زکوٰۃ - ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کئی مواقع پر زکوٰۃ کی فرضیت کا ذکر فرمایا ہے لیکن یہ ذکر مجمل الفاظ میں ہوا ہے ، جس میں اس وضاحت کی ضروت باقی رہ گئی تھی کہ لوگوں سے زکوٰۃ لی جائے اور کتنی مقدار میں لی جائے۔ زکوٰۃ کے واجب کے لیے مال کی مقدار کیا ہو ؟ اس کے لیے وقت کونسا ہو ؟ اس کے مستحقین کون سے لوگ ہیں ؟ اور اس کے مصارف کیا کیا ہیں ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ ان تمام امور کے لحاظ سے زکوٰۃ کا لفظ ایک مجمل لفظ تھا، پھر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوا خذ من امولھم صدقۃ اس میں لفظ صدقہ کے اندر اجمال ہے۔ اموال کے اندر اجمال نہیں ہے اس لیے کہ اموال کے اسم میں اپنے مدلولات کے لیے عموم ہے ، تا ہم یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس سے تمام اموال مراد نہیں ہیں ، بلکہ یہ حکم بعض اموال کے ساتھ خاص ہے ۔ اس طرح اس کا وجوب بھی ایک وقت کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس سے سارا زمانہ مراد نہیں ہے۔ اس کی نظریہ قول باری ہے ۔ وفی اموالھم حق للسائل والمحروم ان کے اموال میں سائل اور محروم کا بھی حق ہوتا ہے ۔ زکوٰۃ کے سلسلے میں اوپر جن امورکا ذکر کیا گیا ہے انکے بارے میں اللہ کو یہ بات منظور تھی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی تفصیلات بیان فرمائیں اور یہ سارا معاملہ آپ کے سپرد کردیا جائے۔- ارشاد باری ہے ما اتاکم الرسول فخذوہ وما نھا کم عنہ فانتھوا رسول جو کچھ تمہیں دیں اسے لے لو اور جس سے تمہیں روکیں اس سے رک جائو ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں محمد بشار نے ، انہیں محمد بن عبد اللہ انصاری نے ، انہیں صرد بن ابی المنازل نے ، انہوں نے حبیب المالکی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایک شخص نے حضرت عمران بن حصین (رض) سے یہ کہا کہ : ابو نجید آپ ہمیں ایسی باتیں سناتے ہیں جن کی قرآن میں ہمیں کوئی اصل نہیں ملتی ۔ یہ سن کر حضرت عمران (رض) کو غصہ آگیا اور فرمانے لگے : کیا تمہیں قرآن میں یہ بات ملی ہے کہ چالیس درہم پر ایک درہم زکوٰۃ ہے یا اتنی بکریوں پر ایک بکری ہے یا اتنے اونٹوں پر ایک اونٹ ہے۔ وغیرہ وغیرہ کیا تمہیں یہ تمام باتیں قرآن میں ملتی ہیں ؟ اس شخص نے نفی میں اس کا جواب دیا ، اس پر حضرت عمران (رض) نے فرمایا : پھر تم نے یہ باتیں کس سے لی ہیں ؟ یہ تمام باتیں تم نے ہم سے لی ہیں اور ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لی ہیں ۔ حضرت عمران (رض) نے سلسلہ گفتگو میں اسی طرح کے بہت سے امور کا ذکر کیا ۔- اموال کی جن اصناف پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے ان میں سے چاندی اور سونے کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے۔ والذین یکنزون الذھب والفصۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ فبشر ھم بعذاب الیم جو لوگ سونا اور چاندی جمع رکھتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں ایک درد ناک عذاب کی خبر سنا دو ۔ اللہ تعالیٰ نے تاکید و تبیین کی خاطر سونا اور چاندی کے مخصوص ترین نام لے کر ان دونوں میں حق یعنی زکوٰۃ کے وجوب کا منصوص طریقے سے ذکر فرمایا ۔ فصلوں اور پھلوں پر زکوٰۃ کو منصوص طریقے سے اس آیت میں بیان فرمایا وھو الذین انشاء جنت معروشت وغیر معروشات وہ اللہ ہی ہے جس نے طرح طرح کے باغ اور تا کستان پیدا کیے تا قول باری کلوا من تمرہ اذا اثمروا توا حقہ یوم حصادہ کھائو ان کی پیداوار جب کہ یہ پھلیں اور ان کا حق ادا کرو جب ان کی فصل کاٹو جن اموال میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے وہ یہ ہیں۔ سونا، چاندی ، سامان تجارت ، اونٹ ، گائے اور بھیڑ بکریاں بشرطیکہ یہ سب چرنے والے ہوں ۔ نیز زرعی اجناس اور پھل ، ان میں سے بعض میں زکوٰ ۃ کے وجوب کے متعلق فقہاء کے مابین اختلاف رائے بھی ہے۔ - بعض زرعی پیداوار اور اجناس نیز پھلوں کی زکوٰۃ کی تفصیل سورة انعام میں گزر چکی ہے۔ چاندی کے نصاب کی مقدار دو سو درہم اور سونے کے نصاب کی مقدا ر بیس دینار ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی رویات منقول ہے۔ اونٹوں کے نصاب کی مقدار پانچ اونٹ اور بھیڑ بکریوں کا نصاب چالیس بکریاں اور گایوں کے نصاب کی مقدار تیس گائیں ہیں ۔ سونے ، چاندی اور سامان تجارت کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ میں واجب ہوتا ہے۔ بشرطیکہ مذکورہ چیزیں نصاب کو پہنچ چکی ہوں ۔ پانچ اونٹوں میں ایک بکری چالیس بکریوں میں ایک بکری اور تیس گایوں میں ایک تبیع یعنی نر بچہ جو ایک سال پورا کر کے دوسرے سال میں ہو، واجب ہوتا ہے۔- گھوڑوں پر زکوٰۃ کے متعلق اختلاف رائے ہے جس کا ہم عنقریب ذکر کریں گے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کا وقت وہ ہے جب مال پر ایک سال گزر جائے اور سال کی ابتداء اور انتہاء میں نصاب مکمل ہو، زکوٰۃ ایسے شخص پر واجب ہوتی ہے جو آزاد ، عاقل، بالغ اور مسلمان ہو، نیز مال پر اس کی ملکیت ازروئے شریعت صحیح ہو۔ اس پر کوئی قرض نہ ہو جو اس کے مال کی پوری مقدار کے مساوی ہو یا اس کے پاس اتنی مقدار کی مالت ہو جس کے بعد اس کے پاس دو سو درہم فاضل نہ بچتے ہوں ۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ہے، انہیں ابو دائود نے ، انہیں القعنبی نے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے، مالک بن انس کو یہ روایت پڑھ کر سنائی ، انہوں نے عمر بن یحییٰ المازنی سے اس کی روایت کی ، انہوں نے اپنے والد سے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے لیس فیما دون خمس ذود صدقۃ ولیس فیما دون خمس اواق صدقۃ و لیس فیما دون خمسۃ اوسق صدقۃ پانچ اونٹوں سے کم میں کوئی زکوٰۃ نہیں ، پانچ اوقیہ سے کم میں کوئی زکوٰۃ نہیں اور پانچ وسق سے کم میں کوئی زکوٰۃ نہیں۔- ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں سلیمان بن دائود المھری نے ، انہیں ابن وہب نے ، انہیں جریر بن حازم نے ، ابو اسحاق سے ، انہوں نے عاصم بن ضمرہ اور حارث الاعور سے ، ان دونوں نے حضرت علی (رض) سے ، انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے فرمایا : ” جب تمہارے پاس دو سو درہم ہوں اور اس پر سال گزر جائے تو اس میں پانچ درہم زکوٰۃ کے ہوں گے۔ سونا جب تک بیس دینار کو نہ پہنچ جائے اس وقت تک تم پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی ۔ جب اس کی مقدار بیس دینارہو جائے اور اس پر سا ل گزر جائے تو نصف دینار زکوٰۃ ہوگی ۔ کسی مال میں اس وقت تک زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی جب تک اس پر سال نہ گزر جائے ۔ سال گزرنے کے متعلق یہ روایت اگرچہ خبر واحد ہے لیکن فقہاء نے اسے قبول کیا ہے اور اس پر عمل پیرا ہوئے میں اس بنا پر اس کا مرتبہ خبر متواتر جیسا ہے جو علم کی موجب ہوتی ہے۔- حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اگر ایک شخص نصاب کا مالک ہوجائے تو جس وقت اسے اس کی ملکیت حاصل ہوجائے گی اس وقت ہی وہ اس کی زکوٰۃ نکال دے گا ۔ حضرت ابوبکر (رض) ، حضرت عمر (رض) ، حضرت علی (رض) ، حضرت عائشہ (رض) اور حضرت ابن عمر (رض) ا قول ہے کہ جب تک سال نہ گزر جائے اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی ۔ جب تمام حضرات کا اس پر اتفاق ہے کہ زکوٰۃ نکالنے کے بعد جب تک سال گزر نہ جائے اس وت تک اس مال میں دوبارہ زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ زکوٰۃ کا وجوب سال گزرنے کا چھوڑ کر صرف مال کے ساتھ نہیں ہے بلکہ دونوں کے ساتھ ہے ۔ مال اور سال دونوں کی بنا پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے پہلی مرتبہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے بعد اگلی زکوٰۃ کے لیے سال گزرنے کی شرط والی روایت پر عمل کیا ہے جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشاد میں سال گزرنے کے سلسلے میں ادائیگی سے قبل اورادائیگی سے بعد کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے بلکہ آپ نے تمام اموال میں زکوٰۃ کے ایجاب کی عام نفی کردی ہے، الایہ کہ سال گزر جائے ۔ اس لیے اس روایت پر ہر نصاب کے سلسلے میں عمل پیرا ہو یا واجب ہوگیا خواہ ادائیگی سے قبل کی صورت ہو یا بعد کی ، تا ہم یہاں یہ احتمال ہے کہ شاید حضرات ابن عباس (رض) نے اپنے قول سے نصاب کی ملکیت ہوتے ہی ادائیگی کا ایجاب مراد نہ لیا ہو، بلکہ انہوں نے یہ مراد لی ہو کہ زکوٰۃ کی ادائیگی میں تعجیل جائز ہے۔ یعنی سال گزرنے سے قبل ہی زکوٰۃ نکال دی جائے تو اس کا جواز ہے اس لیے کہ روایت میں اس سلسلے میں وجوب کا کوئی ذکر نہیں ہے۔- چاندی کی زکوٰۃ - اگر چاندی کی مقدار دو سو درہم سے زائد ہوجائے تو آیا اس زائد مقدار کی بھی زکوٰۃ نکالی جائے گی یا نہیں ؟ حضرت علی (رض) اور حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ دو سو سے زائد مقدار کی زکوٰۃ اسی کے حساب سے نکالی جائے گی ۔ امام ابو یوسف ، امام محمد ، امام مالک اور امام شافعی کا یہی قول ہے ۔ حضرت عمر (رض) سے مرو ی ہے کہ دو سو سے زائد مقدار پر کوئی زکوٰۃ نہیں جب تک کہ چالیس درہم نہ ہوجائیں ۔ امام ابوحنیفہ کا یہی قول ہے ۔ اس قول کی دلیل وہ حدیث ہے جسے عبد الرحمن بن غنم نے حضرت معاذ بن جبل (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ولیس فیما زاد علی المائتی الدرھم شی حتی یبلغ اربعین درھما ًدو سو درہموں سے زائد پر کوئی زکوٰۃ نہیں جب تک کہ چالیس درہم نہ ہوجائیں نیزحضرت علی (رض) کی روایت جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ھاتوا زکاۃ الورقۃ من کل اربعین درھما درھما و لیس فیما دونخمس اواق صدقۃ چاندی کی زکوٰۃ ہر چالیس درہم پر ایک درہم ادا کرو اور پانچ اوقیہ سے کم مقدار میں کوئی زکوٰۃ نہیں آپ کے ارشاد فی کل اربعین درھما دزھما پر بایں معنی عمل پیرا ہونا واجب ہے کہ آپ نے چالیس درہم کو چاندی کے اندر زکوٰۃ کے وجوب کی مقدار قرار دیا جس طرح آپ کا یہ ارشاد ہے۔- بکریوں کی زکوٰۃ - واذا کثرت الغنم فی کل مائۃ شاۃ شاۃ ۔ جب بکریوں کی تعداد زیادہ ہوجائے تو ہر چالیس بکریوں پر ایک بکری ہوگی نظر اور قیاس کی جہلت سے بھی اس پر دلالت ہو رہی ہے۔ وہ یہ کہ ایسا مال ہے جس میں زکوٰۃ کے وجوب کے لیے اصل کے لحاظ سے ایک نصاب مقرر ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایک نصاب مکمل ہونے کے بعد اس کے ساتھ زکوٰۃ سے وقفہ بھی آئے جس طرح چرنے والے مویشوں کی زکوٰۃ میں ہوتا ہے ۔ لیکن یہ بات پھلوں کی زکوٰۃ کے سلسلے میں امام ابوحنیفہ پر لازم نہیں آتی اس لیے کہ ان کے نزدیک پھلوں کی زکوٰۃ کے لیے اصل کے لحاظ سے نصاب مقرر ہے اور پھر اس نصاب کے حصول کے بعد کسی مقدار کا اعتبار ضروری نہیں ہوتا بلکہ قلیل اور کثیر دونوں مقداروں میں زکوٰۃ واجب ہوجاتی ہے۔ ان دونوں حضرات کے نزدیک درہم و دینار کی زکوٰۃ میں بھی یہی طریق کار ہے کہ ایک نصاب مکمل ہوجانے کے بعد پھر کسی مقدار کا اعتبار نہیں کیا جائے گا بلکہ نصاب سے زائد مقدار پر اسی کے حساب سے زکوٰۃ واجب ہوجائے گی ۔ اگر امام ابو یوسف اور امام محمد کی اس دلیل کو تسلیم کرلیا جائے تو بھی درہم ودینار کی نصاب سے زائد مقدار کی زکوٰۃ کے سلسلے میں اسے پھلوں کی زکوٰۃ پر قیاس کرنے کی بہ نسبت مویشیوں کی زکوٰۃ پر قیاس کرنا اولیٰ ہوتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مویشیوں میں سال کی تکرار کے ساتھ حق یعنی زکوٰۃ کی تکرار ہوتی ہے۔ لیکن زمین کی پیداوار میں صرف ایک دفعہ زکوٰۃ کا وجوب ہوتا ہے اور سال کی تکرار کے ساتھ زکوٰۃ کے وجوب کی تکرار نہیں ہوتی۔- اگر یہ کہا جائے کہ اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ ایسا مال جس میں زکوٰ ۃ کا وجوب سال کی تکرار کی بنا پر بار بار ہوتا ہے اس میں اس مال کی بہ نسبت جس میں یہ تکرار نہیں ہے، نصاب سے زائد مقدار پر خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر زکوٰۃ کا وجوب اولیٰ ہوجائے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ کلیہ مویشیوں کی زکوٰۃ میں ٹوٹ جاتا ہے اس لیے کہ مویشیوں میں سال کی تکرار کے ساتھ زکوٰۃ کا وجوب بھی منکر ہوتا ہے لیکن یہ چیز انکی زکوٰ ۃ میں نصاب کے بعد وقفہ کے بعد مانع نہیں ہے۔ نصاب سے زائد درہم کی زکوٰۃ کو زمین کی پیداوار کی زکوٰۃ پر قیاس کرنے کی بہ نسبت مویشیوں کی زکوٰۃ پر قیاس کرنا اولی ہے اس پر یہ حقیقت بھی دلالت کرتی ہے کہ قرض کی بنا پر عشر ساقط نہیں ہوتا اسی طرح زمین کے مالک کی موت سے بھی عشر کا سقوط نہیں ہوتا لیکن درہم و سوائم یعنی مویشیوں کی زکوٰۃ ان دونوں صورتوں میں ساقط ہوجاتی ہے ۔ اس بنا پر درہم کی زکوٰۃ کو زمین کی پیدوار کی زکوٰۃ پر قیاس کرنے کی بہ نسبت مویشیوں کی زکوٰۃ پر قیاس کرنا اولیٰ ٹھہرا۔- گایوں کی زکوٰۃ - اگر گایوں کی تعداد چالیس سے اوپر ہوجائے تو اس کی زکوٰۃ میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ کے قول کے مطابق زائد پر زکوٰۃ اسی کے حساب سے نکالی جائے گی اور امام ابو یوسف نیز امام محمد کے نزدیک جب تک تعداد ساٹھ کو نہ پہنچ جائے زائد پر کوئی زکوٰۃ عائد نہیں ہوگی ۔ اسد بن عمر نے امام ابوحنیفہ سے ان دونوں حضرات کے قول کے مماثل قول کی بھی روایت کی ہے۔ ابن ابی لیلیٰ ، امام مالک، سفیان ثوری اوزاعی ، لیث بن سعد اور امام شافعی کا قول بھی صاحبین کے قول کی طرح ہے۔ امام ابوحنیفہ کے قول کے لیے قول باری خذ من امرالھم صدقۃ سے استدلال کیا جاتا ہے۔ آیت میں تمام اموال کے لیے عمو م ہے۔ خاص طور پر جب کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ مال یعنی گائیں آئیت کے حکم میں داخل ہیں اور آیت میں مراد بھی ہے۔ اس بنا پر عموم کی رو سے قلیل اور کثیر سب پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ حسن بن زیاد سے امام ابوحنیفہ سے یہ روایت کی ہے کہ زائد پر کوئی زکوٰۃ نہیں جب تک گایوں کی تعداد پچاس کو نہ پہنچ جائے ۔ اس میں ایک مکمل مسنہ یعنی مادہ بچہ جو دو سال پورا کر کے تیسرے سال میں ہو نیز مسنہ کا چوتھائی حصہ یعنی سوا مسنہ زکوٰۃ میں نکالی جائے گی ۔ امام ابوحنیفہ کے پہلے قول کے لیے یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ چالیس سے زائد ہونے کی صورت میں وقص یعنی دو نصابوں کے درمیان والا حصہ نو رہ جاتا ہے جس سے زکوٰۃ میں کسر لازم آ تی ہے اور امام صاحب فروع صدقات میں کسر کے قائل نہیں کیونکہ اس میں عوام کو دقت پیش آتی ہے۔ اگر ساٹھ کا قول ہوا تو انیس کی تعداد پر وقص ہوگا اس صورت میں یہ گایوں کے اوقاص کے خلاف بات ہوگی کیونکہ گایوں میں دو نصابوں کا درمیانی فاصلہ اتنا نہیں ہوتا ۔ جب پچاس والی بات بھی غلط ہوگئی اور ساٹھ والی بھی ثواب تیسرا قول ثابت ہوگیا وہ یہ کہ چالیس سے زائد پر زکوٰۃ چالیس کے حساب سے واجب ہوگی خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر ۔ سعید بن المسیب ، ابو قلابہ ، زہری اور قتادہ سے مروی ہے کہ پانچ گایوں پر ایک بکری واجب ہوتی ہے۔ لیکن یہ قول شاذ ہے اس لیے کہ اہل علم کا اس کے خلاف اتفاق رائے ، نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول صحیح روایت سے بھی اس قول کا بطلان ہوجاتا ہے۔- اونٹوں کی زکوٰۃ - عاصم بن ضمرہ نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ پچیس اونٹوں میں پانچ بکریوں زکوٰۃ میں نکالی جائیں گی سفیان ثوری نے اس قول کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حضرت علی (رض) اپنے علم و فضل کی بنا پر ایسی غلط بات کہنے سے بہت بلند ہیں ۔ دراصل راوی کو غلطی ہوگئی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بکثرت روایات سے یہ ثابت ہے کہ پچیس اونٹوں میں ایک بنت فحاض ہے یعنی اونٹ کا مادہ بچہ جو ایک سال مکمل کر کے دوسرے سال میں پہنچ گیا ہو ۔ یہ ہوسکتا ہے کہ حضرت علی (رض) نے ایک بنت مخاض کی قیمت کے عوض پانچ بکریاں لیے لی ہوں اور راوی کو گمان ہوگیا ہو کہ حضرت علی (رض) کے نزدیک پچیس اونٹوں پر پانچ بکریوں کی زکوٰۃ ہے۔- ایک سو بیس سے زائد اونٹوں کی زکوٰۃ میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے تمام اصحاب کا قول ہے کہ ایک سوبیس کے بعد فریضہ نئے سرے سے شروع کیا جائے گا ۔ سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے۔ ابن القاسم نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ اگر اونٹوں کی تعداد ایک سو اکیس ہوجائے تو زکوٰۃ وصول کرنے والے کو اختیار ہوگا کہ چاہے تو میں بنت لبوں لے لے ، یعنی اونٹ کے مادہ بچے جو دو سال مکمل کر کے تیسرے سال میں ہوں اور اگر چاہے تو دو حصے وصول کرلے یعنی تین سال مکمل کر کے چوتھے سال والے بچے ۔ ابن شہاب کا قول ہے کہ اگر اونٹوں کی تعداد ایک سو اکیس ہوجائے تو ایک سو تیس تک تین بنت لبون لی جائیں گی اور ایک سو تیس پر ایک حصہ اور بنت لبون لی جائیں گی ۔ یہاں آ کر ابن شہاب زہری اور امام مالک کا قول یکساں ہے لیکن ایک سو اکیس سے ایک سو انتیس تک کی زکوٰۃ میں ان دونوں حضرات کے اقوال میں اختلاف ہے۔ اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ ایک سو بیس سے زائد کا حساب یہ ہے کہ ہر چالیس پر ایک بنت لبون اور ہر پچاس پر ایک حصہ واجب ہوگا ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کے مسلک سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ایک سو بیس کے بعد زکوٰۃ کا حساب نئے سرے سے شروع کیا جائے گا اور اس میں وہی طریقہ اختیار کیا جائے گا جو ایک سو بیس تک اختیار کیا گیا تھا۔- زکوٰۃ کے اونٹوں کی عمریں - حضرت علی (رض) سے یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ انہوں نے زکوٰۃ میں دیے جانے والے اونٹوں کی عمریں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حاصل کی تھیں ، جب ان سے یہ پوچھا گیا تھا کہ آیا آپکے پاس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمودات میں سے کوئی چیز ہے ؟ تو انہوں نے جواب میں فرمایا تھا کہ ہمارے پاس بھی وہی کچھ ہے جو لوگوں کے پاس ہے البتہ ہمارے پاس یہ صحیفہ ( کتابچہ) بھی ہے۔ سوال کیا گیا کہ اس میں کیا ہے تو آپ نے جواب دیا کہ اس میں اونٹوں کی عمریں درج ہیں اور یہ عمریں میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حاصل کی تھیں ۔ جب حضرت علی (رض) کے قول سے زکوٰۃ کا حساب نئے سرے سے شروع کرنا ثابت ہوگیا اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ انہوں نے اونٹوں کی عمریں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حاصل کی تھیں تو اب اس کی حیثیت توقیف یعنی شرعی دلیل جیسی ہوگئی اس لیے کہ حضرت علی (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت نہیں کرسکتے تھے ۔ علاوہ ازیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرو بن حزم (رض) کے لیے جو تحریر لکھوائی تھی اس میں بھی ایک سو بیس کے بعد نئے سرے سے حساب شروع کرنے کا حکم درج تھا۔ اس میں ایک اور پہلو بھی ہے کہ وہ یہ کہ اس قسم کے مفاد پر کا اثبات صرف توقیف یا امت کے اتفاق کے ذریعے ہوسکتا ہے۔ جب ایک سو بیس اونٹوں میں دو حقوں کے وجوب پر سب کا اتفاق ہے اور ایک سو بیس سے زائد ہیں اختلاف رائے ہے۔ تو ہمارے لیے ان دونوں حقوق کا اسقاط جائز نہیں ہے اس لیے کہ ان کا وجوب نقل متواتر اور اتفاق امت سے ثابت ہے اور کسی چیز کا وجوب ہمیشہ یا تو توقیف کے ذریعے ثابت ہوتا ہے یا اتفاق امت کے ذریعے۔- اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت سی روایات میں یہ منقول ہے کہ جب اونٹوں کی تعداد ایک سو بیس سے زائد ہوجائے تو ہر پچاس پر ایک حصہ اور ہر چالیس پر ایک بنت لبون زکوٰۃ میں نکالی جائے گی ، اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان روایات کے الفاظ میں اختلاف ہے بعض میں واذا کثرت الابل کے الفاظ ہیں یعنی جب اونٹ بہت زیادہ ہوجائیں اور ظاہر ہے کہ ایک سو بیس پر ایک کے اضافے سے اونٹ بہت زیاد ہ نہیں ہوجاتے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی کہ اس اضافے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد وہ کثرت ہے جس کی بنا پر اس فقرے کا اطلاق ہوسکتا ہو کہ اس اضافے سے اونٹوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی ہے ۔ ہم بھی اس کثرت کی صورت میں حدیث میں وارد و زکوٰۃ کو واجب کردیتے ہیں ۔ وہ یہ کہ جب اونٹوں کی تعداد ایک سو نوے ہوجائے تو اس میں تین حصے اور ایک بنت لبون زکوٰۃ میں دیئے جائیں گے۔- اسے ایک اور پہلو سے دیکھے ایک سو بیس پر ایک کے اضافے سے زکوٰۃ کے حساب میں تبدیلی کے وجوب کا قائل یا تو اس ایک زائد اونٹ کی بنا پر تبدیلی کرتے ہوئے اصلی یعنی ایک سو بیس اور اس دونوں میں زکوٰۃ واجب کر دے گا یا ایک سو بیس میں تو واجب کردے گا لیکن اس ایک زائد میں کوئی زکوٰۃ واجب نہیں کرے گا ۔ اگر وہ پہلی صورت کرتے ہوئے تین بنت لبون وجب کر دے گا تو وہ چالیس پر ایک بنت لبون واجب نہیں کرے گا ، بلکہ چالیس اور ایک یعنی اکتالیس پر ایک بنت لبون واجب کرے گا حالانکہ یہ صورت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول کے خلاف ہے۔ اگر وہ دوسری صورت اختیار کرے گا یعنی ایک زائد اونٹ کی بنا پر حساب میں تبدیلی کر دے گا لیکن اس ایک کی کوئی زکوٰۃ نہیں نکالے گا تو گویا وہ ایک سو بیس پر تین بنت لبون دے گا اور اس ایک زائد کو عقو یعنی زکوٰۃ سے معاف قرار دے گا ۔ لیکن یہ صورت اختیارکر کے وہ اصول کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا اس لیے کہ زکوٰۃ سے معاف تعداد کے وجود کی بنا پر زکوٰۃ کے حساب میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔- بھیڑ بکریوں کی زکوٰۃ کے حساب میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب ، امام مالک ، سفیان ثوری ، اوزاعی لیث بن سعد اور امام شافعی ا قول ہے کہ دو سو ایک پر، چار سو تک تین بکریاں اور چار سو پر چار بکریاں زکوٰۃ میں دی جائیں گی ۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ جب ان کی تعداد تین سو ایک ہوجائے تو چار بکریاں دی جائیں گی اور جب چار سو ایک ہوجائے تو پانچ بکریاں دی جائیں گی ۔ ابراہیم نخعی نے بھی اسی قسم کی روایت کی ہے تا ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حد استفاضہ تک پہنچنے والی روایات سے پہلا قول ثابت ہوتا ہے۔ حسن بن صالح کا قول ثابت نہیں ہوتا ۔- کام کرنے والے اونٹ اور گایوں کی زکوٰۃ کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب ثوری ، اوزاعی ، حسن بن صالح اور امام شافعی کا قول ہے کہ اس میں کوئی زکوٰۃ نہیں ۔ امام مالک اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ اس میں زکوٰ ۃ ہے۔ پہلے قول کی دلیل وہ روایت ہے جو میں عبد الباقی بن قانع نے بیان کی ، انہیں حسن بن اسحاق التستری نے ، انہیں حمویہ نے ، انہیں سوار بن مصعب نے لیث سے ، انہوں نے طائو س سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لیس فی البقر العوامل صدقۃ ۔ کام کرنے والی گایوں میں کوئی زکوٰۃ نہیں ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ، انہیں ابو دائود نے، انہیں عبد اللہ محمد النفیلی نے ، انہیں زہیر نے ، انہیں ابو الحاق نے عاصم بن ضمرہ سے نیز حارث الاعور سے ان دونوں نے حضرت علی (رض) سے زہیر کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ حضرت علی (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کرتے ہوئے کہا کہ ہر تیس گایوں پر ایک تبیع اور چالیس پر ایک مسنہ اور کام کرنے والی گایوں پر کچھ نہیں ۔ تبیع دوسرے سال کا بچھڑا اور مسنہ تیسرے سال کی بچھڑی کو کہتے ہیں ۔ - نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا لیس فی النخۃ ولا فی الکسعۃ ولا فی الجبھۃ صدقۃ ، نسخہ، کسعہ اور جھیھہ میں کوئی زکوٰۃ نہیں الہ لغت کا قول ہے کہ نخہ کام کرنے والی گایوں کو ، کسعہ گدھوں کو اور جبھہ گھوڑوں کو کہا جاتا ہے۔ ایک اور پہلو سے دیکھے چاندی اور سونے کے سوا دوسری تمام چیزوں میں زکوۃ کے نہ جوب کا تعلق اس امر سے ہوتا ہے کہ اس چیز کو رکھا اس مقصد کے لیے گیا ہو کہ خود اس چیز سے یا اس کی نسل سے مال کی افزائش حاصل کی جاسکے۔ چونے والے مویشوں میں یا تو خود ان سے یا ان کی نسل سے افزائش حاصل کی جاتی ہے اس کے برعکس کام کرنے والے جانوروں کو افزائش کے مقصد کے تحت نہیں رکھا جاتا ۔ ان کی حیثیت تو غلہ کے گوداموں اور استعمال کے کپڑوں وغیرہ جیسی ہوتی ہے۔ اس پر ایک اور پہلو سے نظر ڈالیے ۔ کام کرنے والے جانوروں میں زکوٰۃ کے جوب کے علم کی لوگوں کو اسی طرح ضرورت تھی ۔ جس طرح چرنے والے جانوروں میں زکوٰۃ کے وجوب کے علم کی ۔ اگر ان کی زکوٰۃ کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے کوئی ہدایت ہوتی تو یہ بھی اسی پیمانے پر منقول ہوتی جس پیمانے پر چرنے والے جانوروں کی زکوٰۃ کے متعلق ہدایت منقول ہے۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بکثرت روایت کے ذریعے یہ ہدایت منقول ہے اور نہ ہی صحابہ کرام سے۔ تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ دراصل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اس کے ایجاب کے بارے میں سے سے کوئی ہدایت نہیں دی گئی ہے بلکہ آپ سے ایسے جانوروں میں زکوٰۃ کی نفی پر دلالت کرنے والی روایات منقول ہیں جن میں سے بعض کو ہم اوپرنقل کر آئے ہیں ۔ ان میں سے ایک روایت وہ ہے جسے یحییٰ بن ایوب نے المثنیٰ بن مصباح سے اور انہوں نے عمرو بن دینار سے نقل کی ہے کہ انہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت پہنچی ہے کہ آپ نے فرمایا لیس فی ثورالمثیرۃ صدقۃ ہل میں کام کرنے والے بیل میں کوئی زکوٰۃ نہیں۔- حضرت علی (رض) ، حضرت جابر بن عبد اللہ ، ابراہیم نخعی ، مجاہد ، حضرت عمر بن عبد العزیز اور زہری سے کام کرنے والی گایوں کی نفی کی روایت منقول ہے۔ اس پر حضرت انس کی یہ روایت دلالت کرتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقات کے بارے میں ابوبکر (رض) کو ایک تحریر لکھ کردی تھی جس کے الفاظ یہ تھے ھذہ فریضہ الصدقۃ التی فرضھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) علی المسلمین فمن سلمھا من المومنین علی وجھھا فلیعطھا ومن سئل فوقھا فلا یعطہ صدقۃ الغم فی مائمتھا اذا انت اربعین فیھا شاۃ یہ فریضہ زکوٰۃ ہے جسے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں پر فرض کردیا ہے، جو شخص مسلمانوں سے زکوٰۃ کی درست مقدار طلب کرے اسے زکوٰۃ ادا کردی جائے اور جو شخص اس سے زائد کا مطالبہ کرے اسے زکوٰۃ نہ دی جائے ، بھیڑ بکریوں کی زکوٰۃ جب ان کی تعداد چالیس کو پہنچ جائے اور وہ چرنے والی ہوں ، ایک بکری ہے۔ اس روایت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ چرنے والی بھیڑ بکریوں میں زکوٰۃ کی نفی کردی اس لیے کہ آپ نے چرنے والیوں کا ذکرکر کے دوسری تمام سے زکوٰۃ کی نفی فرما دی ۔- اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ فی خمس من الابل شاۃ پانچ اونٹوں پر ایک بکری ہے۔ اس کا عموم ہے چرنے والے اور نہ چرنے والے تمام اونٹوں میں زکوٰۃ کا موجب ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس عموم کی تخصیص ان روایات سے ہوجای ہے جو ہم پہلے ذکر آ ئے ہیں ، لیکن کام کرنے والی گایوں میں زکوٰۃ کے وجوب کا امام مالک سے پہلے کسی نے بھی قول نقل نہیں کیا ہے۔- فصل - ہمارے اصحاب اور عام اہل علم کا قول ہے کہ چالیس بڑی چھوٹی بکریوں میں یعنی سال بھر کی اور سال سے کم میں ایک مسنہ یعنی پورے سال کی بکری واجب ہوگی ۔ امام شافعی کا قول ہے کہ جب تک سال بھر کی بکریاں چالیس نہ ہوجائیں ۔ اس وقت تک ان میں کوئی زکوٰۃ نہیں ہوگی، چالیس کی تعداد پوری ہوجانے کے بعد چھوٹی بکریوں کا ان کے ساتھ شمار کیا جائے گا ۔ امام شافعی سے پہلے کسی کا یہ قول نہیں ہے۔ عاصم بن ضمرہ نے حضرت علی (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مویشیوں کی زکوٰۃ کے متعلق روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ نے فرمایا ویعد صغیرھا و کبیر ھا اور صدقہ وصول کرنے والا چھوٹی بڑی تمام بکریوں کی گنتی کرے گا آپ نے اس قول میں نصاب اور نصاب سے زائد بکریوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آثار مواترہ منقول ہیں کہ چالیس بکریوں میں ایک بکری ہے ۔ جب چھوٹی بڑی بکریاں اکٹھی ہوجائیں تو تمام پر اس اسم کا اطلاق ہوتا ہے اور اس وقت کہا جاتا ہے کہ چالیس بکریاں ہوگئیں ۔ یہ چیز چھوٹی بڑی تمام بکریوں میں جب یہ اکٹھی ہوجائیں ، زکوٰۃ کے وجوب کی مقتضی ہے ۔ نیز نصاب کی تکمیل کے بعد بڑی بکریوں کے ساتھ چھوٹی بکریوں کو شمار کرنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اسی طرح نصاب کے حکم میں بھی چھوٹی بڑی بکریوں کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔- کیا گھوڑوں پر زکوٰۃ ہے ؟- چرنے والے گھوڑوں کی زکوٰۃ کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ اگر صرف گھوڑیاں ہوں یا گھوڑے گھوڑیاں ہوں تو اس صورت میں امام ابوحنیفہ نے ہر ایک گھوڑے گھوڑی پر ایک دینار زکوٰۃ واجب کردی ہے، اگر مالک چاہے تو ان کی قیمت لگا کر ہر دو سو درہم پر پانچ درہم زکوٰۃ نکال دے۔ امام ابو یوسف امام مالک ، امام شافعی اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ گھوڑوں میں کوئی زکوٰۃ نہیں ، عروہ السعدی نے جعفر بن محمد سے ، انہوں نے اپنے والد سے ، انہوں نے حضر ت جابر (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چرنے والے گھوڑوں کے متعلق روایت کی ہے کہ ہر گھوڑے پر ایک دینار زکوٰۃ ہے ۔ امام مالک نے زید بن اسلم سے ، انہوں نے ابو صالح الستمان سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھوڑوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاھی ثلاثۃ لرجل اجر والاخر سترو علی رجل وزرفا ماالذیھی لہ ستر فالرجل یتخذھا تکرما ً وتجملا ً ولا ینسی حق اللہ فی رقابھا ولا فی ظھورھا ۔ گھوڑے تین طرح کے ہوتے ہیں ، یہ ایک شخص کے لیے اجر کا باعث بنتے ہیں اور دوسرے شخص کے لیے پردہ پوشی کا اور تیسرے کے لیے گناہ کا بوجھ ہوتے ہیں جس شخص کے یہ پردہ پوش بنتے ہیں یہ وہ شخص ہے جو انہیں عزت و زینت کی خاطر پالتا ہے اور ان کی گردنوں ، نیز پیٹھوں میں اللہ کے حق کو نہیں بھولتا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھوڑوں میں ایک حق کا اثبات فرما دیا پھر سب کا اس پر اتفاق ہے کہ زکوٰۃکے سوا تمام حقوق کا اسقاط ہوگیا ہے، اس سے ضروری ہوگیا کہ حدیث میں مذکورہ حق سے صدقہ السوائم یعنی چرنے والے گھوڑوں کی زکوٰۃ مراد لی جائے۔- اگر یہ کہا جائے کہ ہوسکتا ہے کہ آپ نے اس سے تجارت کی زکوٰۃ مراد لی ہو تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب گھوڑوں کا ذکر کیا تو آپ سے گدھوں کی زکوٰۃ کے متعلق پوچھا گیا ، آپ نے ارشاد فرمایا : گدھوں کے بارے میں اللہ نے مجھ پر اس جامع آیت کے سوا اور کوئی آیت نازل نہیں کی ۔ فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا ً یرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرا ً یرہ، جو شخص ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا اور جو شخص ذرہ برابر بدی کرے گا وہ بھی اسے دیکھ لے گا آپ نے گدھوں پر کوئی زکوٰۃ واجب نہیں کی اگر اس پوری حدیث میں تجارت کی زکوٰۃ مراد ہوتی تو آپ تجارت کی غرض سے رکھے گئے گدھوں پر بھی زکوٰۃ واجب کردیتے۔- اگر یہ کہا جائے کہ مال میں زکوٰہ کے سوا اور بھی حقوق ہوتے ہیں ، اس لیے ہوسکتا ہے کہ درج بالاحدیث میں آپ نے زکوٰۃ کے سوا کوئی اور حق مراد لیا ہو ، اس کی دلیل شعبی کی روایت ہے جو انہوں نے فاطمہ بنت قیس سے نقل کی ہے، انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے فرمایا فی المال حق سوی الزکوۃ مال میں زکوٰۃ کے سوا بھی حق ہے اس موقعہ پر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی لیس البر ان تولوا وجوھکم تا آخر آیت۔- سفیان نے ابو لزبیر سے روایت کی ہے انہوں نے حضرت جابر (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے اونٹوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اونٹوں میں حق ہوتا ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس حق کی تفسیر پوچھی گئی آپ نے فرمایا اطواق فعلھا واعارۃ دلوھا و منیحۃ سمیھا ۔ سانڈ کے ساتھ جفتی کرانے کی اجازت دینا ، پانی لانے کے لیے اونٹ مع ڈول عاریۃ ً دے دینا اور سواری کے لیے پلا ہوا اونٹ دے دینا ۔ ہوسکتا ہے کہ گھوڑوں کے سلسلے میں زکوٰۃ حق سے اس قس کا حق مراد ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر بات اس طرح ہوتی تو گھوڑوں اور گدھوں کے حکم میں کوئی فرق نہ ہوتا اس لیے کہ اس حق کے لحاظ سے گھوڑے اور گدھے ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہیں ، لیکن جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں میں فرق کردیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ آپ نے معترض کے بیان کردہ مفہوم کا ارادہ نہیں کیا بلکہ اس سے آپ نے زکوٰۃ مراد لی ہے ۔ علاوہ ازیں آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ زکوٰۃ نے ہر واجب حق کو منسوخ کردیا ہے۔- ہمیں عبد الباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں حسن بن اسحاق التستری نے ، انہیں علی بن سعید نے انہیں المسیب نے شریک نے عبید المکتب سے ، انہوں نے عامر سے ، انہوں نے مسرق سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) سے زکوٰۃ نے ہر صدقہ منسوخ کردیا ہے ، نیز یہ بھی مروی ہے کہ اہل شام نے حضرت عمر (رض) سے ان کے گھوڑوں کا صدقہ وصول کرنے کی درخواست کی ، آپ نے صحابہ کرام (رض) سے مشورہ کیا ، حضرت علی (رض) نے مشورہ دیا کہ ان سے صدقہ کی وصولی میں کوئی خرج نہیں ہے بشرطیکہ وہ جزیہ نہ بن جائے ، چناچہ حضرت عمر (رض) نے اہل شام سے گھوڑوں کا صدقہ وصول کیا ۔ یہ بات ا س پر دلالت کرتی ہے کہ گھوڑوں کے صدقہ پر صحابہ کرام کا اتفاق ہوگیا تھا ، اس لیے کہ حضرت عمر (رض) نے ان سے اس بارے میں مشورہ لینے کے بعد فیصلہ کیا تھا اور یہ بات واضح ہے کہ آپ نے ان سے نفلی صدقہ کے متعلق مشورہ نہیں لیا ہوگا جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے ان سے واجب صدقہ یعنی زکوٰۃ کی وصولی کی تھی اور صحابہ کرام سے مشورہ کرنے کے بعد یہ قدم اٹھایا تھا ۔ حضرت علی (رض) نے اس موقع پر یہ کہا تھا کہ اس میں کوئی حرج نہیں جب تک یہ ان پر جزیہ نہ بن جائے ۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل شام سے اس کی وصولی صغار یعنی تذلیل و تحقیر کی بنا پر نہیں ہوتی بلکہ صدقہ کے طور پر ہوتی۔- جو حضرات گھوڑوں کی زکوٰۃ کے قائل نہیں ہیں وہ حضرت علی (رض) کی روایت سے استدلال کرتے ہیں جو انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا عفوت لکم عن صدقۃ الخیل والرقیق ۔ میں نے تم سے گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ معاف ک دی نیز ان کا استدلال حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت سے بھی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے لیس علی المسلم فی عبدہ ولا فی فرسہ صدقۃ مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑے میں کوئی زکوٰۃ نہیں ہے ۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس سے سواری کے گھوڑے مراد ہیں ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ گھوڑے اگر تجارت کی غرض سے پالے گئے ہوں تو اس روایت کی بنا پر ان کی زکوٰۃ کی نفی نہیں ہوئی۔- شہد کی زکوٰۃ - شہد کی زکوٰۃ میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنفیہ ، امام ابو یوسف ، امام محمد اور اوزاعی کا قول ہے کہ اگر شعد عشری زمین میں ہو تو عشر وصول کیا جائے گا ۔ امام مالک ، سفیان ثوری ، حسن بن صالح اور امام شافعی کا قول ہے کہ شہد میں کوئی زکوٰۃ نہیں ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز سے بھی اسی طرح کی روایت ہے ، لیکن یہ روایت بھی ہے کہ انہوں نے اپنے اس قول سے رجوع کرلیا تھا اور جب صحیح صورت حال ان کے سامنے آئی اور اس کے متعلق روایات کا پتہ چل گیا تو انہوں نے دسواں حصہ وصول کرنے کا حکم دے دیا ۔ ابن وہب نے یونس سے اور انہوں نے ابن شہاب سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ شہد میں عشر ہے۔ ابن وہب نے کہا کہ مجھے عمرو بن الحارث نے یحییٰ بن سعید اور ربیعہ سے یہ روایت سنائی ہے یحییٰ کہتے ہیں کہ کہنے والے سے انہوں نے یہ سنا ہے کہ شہد میں ہر سال دسواں حصہ ہے اور اس سلسلے میں یہی سنت چلی آرہی ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر قول باری خذ من اموالھم صدقۃ ۔ ان کے اموال سے صدقہ وصول کرو۔ شہد میں صدقہ واجب کرتا ہے ، کیونکہ شہد بھی ایک شخص کی مال میں شامل ہے۔ صدقہ کا لفظ اگرچہ مجمل ہے ، لیکن آیت بہر حال کسی نے کسی قسم کے صدقہ کے ایجاب کی مقتضی ہے ، جب صدقہ کا وجوب ہوگیا تو یہ صرف عشر کی صورت میں ہوگا ۔ اس لیے کہ شہد میں عشر کے سوا کوئی اور چیز واجب نہیں ہوتی۔- سنت کی جہت سے اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ۔ انہیں ابو ائود نے ، انہیں احمد بن ابی شعیب حرانی نے ، انہیں موسیٰ بن اعین نے ، عمرو بن الحارث المصری سے ، انہوں نے عمرو بن شعیب سے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے عمرو کے دادا سے کہ بنی متعان کا ایک شخص ہلال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں شہد کی پیداوا کا دسواں حصہ لے کر آیا اور آپ سے درخواست کی کہ شہد کے چھتوں والی اس کی وادی سلبہ کو اس کے لیے مختص کردیا جائے چناچہ آپ نے یہ وادی اس کے نام مختص کردی ۔ جب حضرت عمر (رض) نے خلافت کی باگ اپنے ہاتھ میں لی تو سفیان بن وہب نے آپ سے تحریر طور پر اس وادی کے متعلق استفسار کیا ۔ آپ نے جوابا ً تحریر فرمایا کہ ہلال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں اپنی پیداوار کا جو عشر اد ا کرتے تھے۔ وہی عشر اب تمہیں ادا کریں گے ۔ تم وادی سلبہ ان کے نام مختص رکھو ، ورنہ شہد کی یہ مکھیاں بارش کی پیداوار ہیں یعنی انہوں نے بارش کی بنا پر پیدا ہونے والے پھولوں اور پھلوں کا رس چوسا ہے۔ اس لیے ان کا بنایا شہد جو چاہے کھا سکتا ہے۔- ہمیں عبد الباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں عبداللہ بن احمد نے ، انہیں ان کے والد نے انہیں وکیع نے سعید بن عبد العزیز سے ، انہوں نے سلیمان بنی موسیٰ سے ، اور انہوں نے ابو سیارہ المتعی سے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : ” اللہ کے رسول میرے کچھ شہد کے چھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : پھر عشر ادا کرو “ ۔ میں نے عرض کیا : پھر میرے لیے اسے مختصر کر دیجئے ۔ چناچہ آپ نے میرے لیے اسے مختص کردیا۔ ہمیں عبد الباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں محمد بن شادان نے انہیں معلی نے ، انہیں عبد اللہ بن عمرو نے عبد الکریم سے ، انہوں نے عمرو بن شعیب سے ، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں عمر بن عبد العزیز نے لکھا کہ ہم شہد کی زکوٰۃ ادا کریں یعنی دسواں حصہ ، انہوں نے زکوٰۃ کے اس حکم کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب کیا تھا۔- ہمیں عبد الباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں مسجد اہواز کے امام محمد بن یعقوب نے ، انہیں عمر بن الخطاب سجستانی نے ، انہیں ابوحفص العبدی نے ، انہیں صدقہ نے ، موسیٰ بن یسار سے ، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے عبد اللہ بن عمر سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فی کل عشرۃ اذقاق من العسل زق ۔ شہد کے ہر دس مشکیزوں میں ایک مشکیزہ ہے ۔ یعنی ایک مشکیزہ بطور زکوٰۃ ادا کیا جائے گا ۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہد میں دسواں حصہ واجب کردیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ آپ نے شہد کو پھلوں اور زمین سے پیدا ہونے والی ان اشیاء کی حیثیت دی جن میں عشر واجب ہوتا ہے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جب شہد عشری زمین میں پیدا ہوا ہو گا تو اس میں دسواں حصہ واجب ہوگا لیکن اگر یہ خرابی زمین میں پیدا ہوا ہو گا تو اس میں کوئی زکوٰۃ نہیں ہوگی ۔ اس لیے کہ خراجی زمین پیدا ہونے والے پھلوں میں کوئی زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی۔ لیکن اگر ہی پھل عشری زمین میں پیدا ہوئے ہوں تو ان میں دسواں حصہ واجب ہوجائے گا ۔ شہد کا بھی یہی حکم ہے۔ ہم نے ابو جعفر الطحاوی کی کتاب المختصر کی شرح میں زکوٰۃ کے سلسلے میں ان مسائل پر نیز ان کے نظائر پر میہ حاصل بحث کی ہے۔ یہاں ہم نے صر ف ان چند مسائل کا ذکر کیا ہے جن کے ساتھ ظاہر آیت کے حکم کا تعلق ہے۔- صدقات کی وصولی امام المسلمین کا حق ہے - قول باری خذ من الموالھم صدقۃ اس پر دلالت کرتا ہے کہ صدقات کی وصولی امام المسلمین کا حق ہے ، اب بنا پر زکوٰہ ادا کرنے والا شخص اگر امام المسلمین کو اس کی ادائیگی کی بجائے از خود فقراء و مساکین کو دے دے گا تو زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں ہوگی اس لیے کہ اس صورت میں زکوٰۃ کے اندر امام المسلمین کا حق باقی رہے گا اور اس شخص کے لیے اس حق کو ساقط کردینے کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مویشیوں کی زکوٰۃ کی وصولی کے لیے عمال یعنی اہل کا دردانہ کرتے اور انہیں یہ حکم دیتے کہ چشموں پر جا کر جہاں مویشی موجود ہوتے ہیں ان کی زکوٰۃ وصولی کریں ۔ یہی وہ امر ہے جس کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وفد ثقیف پر شرط عائد کی تھی ۔ شرط کے الفاظ یہ تھے ۔ لا یحشر وا ولا یعشروا یعنی انہیں اپنے مویشی صدقات وصول کرنے والے کے سامنے پیش کرنے کی تکلیف نہیں دی جائے گی بلکہ محصل یعنی زکوٰۃکے جانو ر اکٹھے کرنے والا خود ان مقامات پر چشموں کا چکر لگائے گا جہاں ان مویشیوں کی موجودگی کا اسے گمان ہو اور وہاں پہنچ کر زکوٰۃ وصول کرے گا ۔ پھلوں کی زکوٰۃ کی وصولی کے لیے بھی یہی طریق کار ہے۔- جہاں تک اموال کا زکوٰۃ کا تعلق تھا تو اسے خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچایا جاتا تھا۔ تو اسے خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچایا جاتا تھا۔ حضرت ابوبکر (رض) اور حضر ت عمر (رض) کے عہد خلافت میں بھی یہی طریق کار جاری رہا ۔ پھر حضرت عثمان (رض) نے اپنے عہد خلافت میں ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے فرمایا ۔ یہ زکوٰۃ کا مہینہ ہے ، جس شخص کے ذمے قرض ہو وہ اپنا قرض ادا کر دے اور پھر باقی ماندہ رقم کی زکوٰۃ نکال دے۔ آپ نے لوگوں پر مساکین کو اپنی اپنی زکوٰۃ کی ادائیگی کی ذمہ داری ڈال دی اور اس بناء پر اموال کی زکوٰۃ میں امام المسلمین کی وصولی کا حق ساقط ہوگیا ۔ اس لیے کہ ایک عادل امام یعنی حضرت عثمان (رض) نے وصولی کے اس حق کے اسقاط کا عقد کیا تھا اور اس سلسلے میں حکم جاری کیا تھا اس لیے پوری امت پر اس حکم کا نفاذ ہوگا، کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے یعقد علیھم اولھم وہ مسلمانوں کے حق میں یا ان پر عائد ہونے والی ذمہ داری کا عقد کرسکتا ہے نیز ہمیں اس سلسلے میں کوئی روایت نہیں پہنچی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اموال کی زکوٰۃ کی وصولی کے لیے کارندے بھیجا کرتے تھے جس طرح پھلوں اور مویشوں کی زکوٰۃ کی وصولی کے لیے بھیجتے تھے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ لوگوں کے تمام اموال امام المسلمین کے لیے ظاہر نہیں ہوسکتے تھے کیونکہ انہیں مکانوں ، دکانوں اور محفوظ مقامات میں چھپا کے رکھا جاتا تھا۔- دوسری طرف زکوٰۃ وصول کرنے والے کارندوں کو ان مقامات میں داخل ہونے کی اجاز ت نہیں ہوتی نیز ان کے لیے یہ بھی جائز نہیں ہوتا کہ لوگوں کو اپنے تمام اموال پیش کرنے پر مجبور کریں جس طرح تمام مویشیوں کو پیش کرنے پر مجبور کرنا جائز نہیں ، بلکہ کارندے کے لیے صرف اس بات کی گنجائش ہوتی کہ وہ اس مقام پر پہنچ جائے جہاں مال موجود ہو اور جا کر اس کی زکوٰۃ وصول کرلے۔ انہی رکاوٹوں کی بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اموال کی زکوٰۃ کی وصولی کے لیے کارندے اور عمال نہیں بھیجے۔ لوگ اپنی اپنی زکوٰۃ آپ کی خدمت میں خود پہنچا دیتے تھے۔ بعد میں بھی امام المسلمین کو یہ زکوٰۃ اسی طرح پہنچا دی جاتی تھی اور اپنی زکوٰۃ کے بارے میں ہر شخص کا قول قبول کرلیا جاتا تھا۔ پھر جب یہ اموال تجارت اور لین دین نیز دیگر تصرفات کے سلسلے میں گھروں سے نکل کر کھلے بازاروں اور شہروں میں آ گئے اور اس طرح ظاہرہو گئے تو ان کی مشابہت مویشوں کے ساتھ ہوگئی اور پھر ان پر عمال مقرر کردیئے گئے جو ان میں واجب ہونے والی زکوٰۃ وصول کرلیا کرتے تھے۔ اسی بنا پر حضرت عمرو بن عبد العزیز نے اپنے عمال کو لکھا تھا کہ جو مسلمان تجارتی مال لے کر گزرے تو ہر بیس دینار کی قیمت والے سامان کی نصف دینار زکوٰۃ وصول کرلیں ۔ اور اگر اتنی ہی مالیت کا سامان ذمی لے کر گزرے تو اس سے ایک دینار وصول کریں ۔ اس وصولی کے بعد سال بھر تک اس سے دوبارہ وصولی نہ کی جائے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے اپنے اس حکم کی دلیل کے طور پر عمال کو یہ لکھا تھا کہ مجھے اس حکم کے متعلق ان حضرات نے بتایا ہے جنہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسے سنا تھا۔ حضرت عمر (رض) نے اپنے عمال کو لکھا تھا کہ مسلمانوں سے ربع عشر یعنی چالیسواں حصہ اور ذمی سے نصف عشر یعنی بیسواں حصہ اور حربی سے دسواں حصہ وصول کریں ۔ اس سلسلے میں مسلمانوں سے جو مال وصول کیا جائے گا اس کی حیثیت فریضہ زکوٰۃ کی ہوگی اس لیے اس میں زکوٰۃ کے وجوب کی تمام شرطوں مثلاً تکمیل نصاب ، حولان حول ، ملکیت کی صحت وغیرہ کا اعتبار کیا جائے گا ۔ اگر ان شرطوں کی روشنی میں اس زکوٰۃ واجب نہ ہوتی ہو تو ایسے شخص سے کسی قسم کی وصولی نہ کی جائے گی ۔ حضرت عمر (رض) نے اس سلسلے میں وہ طریق کار اختیا ر کیا تھا جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مویشوں کی زکوٰۃ اور پھلوں نیز فصلوں کے عشر کی وصولی کے سلسلے میں اختیار فرمایا تھا، کیونکہ مویشوں ، پھلوں اور فصلوں کی طرح ان اموال کی حیثیت بھی اموال طاہر ہ جیسی ہوگئی تھی اور انہیں دارالسلام میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا اور تجارت وغیرہ کی غرض سے لے جایا جاتا تھا۔ حضرت عمر (رض) کے اس طریق کار کی کسی صحابی نے مخالفت نہیں کی اور نہ ہی کسی نے آپ کو ٹوکا اس طرح اس پر گویا اجماع ہوگیا اس کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ روایت بھی موجود تھی جس کا ذکر حضرت عمر بن عبد العزیز نے حکام کے نام اپنے گشتی مراسلے میں کیا تھا۔ درج بالا سطور میں ہم اس کا حوالہ دے آئے ہیں ۔ - اگر یہ کہاجائے کہ عطاء بن السائب جریر بن عبد اللہ سے، انہوں نے اپنے دادا ابو امہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے لیس علی المسلمین عشور ازما العشور علی اھل الذمۃ مسلمانوں پر عشر نہیں ہوتا ، عشر تو اہل ذمہ پر عائد ہوتا ہے۔ حمید نے حسن سے ، انہوں نے عثمان بن ابو العاص سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ثقیف کے وفد سے فرمایا تھا لا تحشروا ولا تعشروا نہ تو تم اپنے مویشی اکٹھے کرو گے اور نہ ہی عشر ادا کرو گے۔- محصو ل چنگی کی ممانعت - اسرائیل نے ابراہیم بن المہاجر سے روایت کی ہے انہوں نے عمرو بن حریث سے ، انہوں نے حضرت سعید بن زید سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یامعشرالعرب احمد واللہ اذدفع عنکم العشور ، اے اہل عرب اللہ کی اس بنا پر حمد و ثنا کرو اور شکر بجالائو کہ اس نے تم سے عشر اٹھا لیا ہے۔ ایک روایت کے مطابق مسلم بن یسار نے حضرت ابن عمر سے سوال کیا کہ آیا حضرت عمر (رض) مسلمانوں سے عشر وصول کیا کرتے تھے ؟ حضرت ابن عمر (رض) نے اس کا جواب نفی میں دیا ۔ اس پورے اعتراض کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشادات بالا میں جن عشور کا ذکر کیا ہے ان سے زکوٰۃ مراد نہیں ہے بلکہ ان سے مراد وہ محصول اور چنگی ہے جو اہل جاہلیت وصول کیا کرتے تھے۔- محمد بن اسحاق نے یزید بن ابی حبیب سے ، انہوں نے عبد الرحمن بن شمامہ سے اور انہوں نے حضرت عقبہ بن عام (رض) سے جو روایت کی ہے اس میں بھی یہ مکس یعنی محصول اور چنگی مراد ہے ، اس روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- (چنگی اور محصول یعنی دسواں حصہ وصول کرنے والا جنت میں نہیں داخل ہوگا) درج ذیل شعر میں بھی شاعر نے یہی معنی مراد لینے ہیں۔- وفی کل امموال العراق اتاوۃ وفی کل ما باع امرء مکس درہم - عراق کے تمام اموال میں ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے اور انسان جو چیز بھی فروخت کرتا ہے اس میں اسے ایک درہم چنگی اور محصول کے طور پر ادا کرنا پڑتا ہے۔ - اس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس عشر کی ممانعت کردی ہے یہ وہ دسواں حصہ ہے جو چنگی اور محصول کے طور پر اہل جاہلیت وصول کرتے تھے ، لیکن جہاں تک زکوٰۃ کا تعلق ہے اس کی حیثیت ٹیکس یا محصول جیسی نہیں ہے۔ وہ تو ایک حق ہے جو زکوٰۃ ادا کرنے والے کے مال میں واجب ہوجاتا ہے جسے امام المسلمین اس سے وصول کر کے مستحقین میں تقسیم کردیتا ہے جس طرح امام المسلمین مویشیوں کی زکوٰۃ نیز زمین کی پیداوار کا عشر اور خراج وصول کرتا ہے۔ یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں سے جس عشر کی وصولی کی ممانعت کی ہے اس سے مراد وہ مال ہو جو ان سے جزیہ کے طور پر نیز ان کی ذلیل و تحقیر کی بنا پر وصول کیا جائے اسی لیے آپ نے فرمای انما العثور علی اھل الذمۃ عشور صرف اہل ذمہ پر عائد ہوتے ہیں اس سے آپ کی مراد وہ مال ہے جو جزیہ کے طور پر وصول کیا جاتا ہے۔- مویشیوں اور مال کی زکوٰۃ کا فرق - بعض حضرات نے مویشیوں اور فصلوں کی زکوٰۃ اور اموال کی زکوٰۃ کے درمیان فرق بیان کرنے کے لیے یہ نکتہ پیش کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے سلسلے میں فرمایا واتوا الزکوۃ اور زکوۃ ادا کرو اور اس میں امام المسلمین کی طرف سے وصولی کی شرط عائد نہیں کی لیکن صدقات کے بارے میں فرمایا ۔ خذمن اموالھم صدقۃ تطھرھم ان کے اموال سے صدقہ وصول کرو جس کے ذریعے انہیں پاک کرو نیز فرمایا انما الصدقات للفقراء والمساکین صدقات تو فقراء اور مساکین کے لیے ہیں تا قول باری والعاملین علیھا اور صدقات کی وصولی کا کام کرنے والوں کے لیے انت صدقات کی وصولی پر عامل اور کارندے کا تقرر اس پر دلالت کرتا ہے ان کی وصولی پر امام المسلمین کے حق کا اسقاط کسی طرح جائز نہیں ہے نیزحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے امرت ان اخذ الصدقۃ من اغنیاء کم اردھا فی فقراء کم مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے دولت مندوں سے صدقات وصول کر کے تمہارے فقراء کے درمیان تقسیم کر دوں اللہ تعالیٰ نے صدقات میں وصولی کی شرط عائد کردی لیکن اموال کی زکوٰۃ میں اس شرط کا ذکر نہیں کیا ۔- ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ جن حضرات نے یہ نکتہ پیدا کیا ہے ان کے نزدیک اگرچہ زکوٰۃ بھی صدقہ ہے لیکن زکوٰۃ کا اسم صدقہ سے زیادہ خاص ہے اور صدقہ کا اسم مویشیوں وغیرہ کی زکوٰۃ کے ساتھ خاص ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کو ادائیگی کے لفظ کے ساتھ خاص کردیا اور فرمایا واتوا الزکوۃ اور زکوۃ ادا کرو ۔ امام کی طرف سے وصولی کا کوئی ذکر نہیں کیا دوسری طرف صدقہ کی وصولی کا حکم امام المسلمین کو دیاتو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کی ذمہ داری زکوٰ ۃ ادا کرنے والوں پر عائد کردی جائے ، البتہ اتفاق سلف کی بنا پر جو مسلمان سامان تجارت وغیرہ لے کر کہیں سے گزرے گا اس سے مقامی حکام دسواں حصہ وصول کرلیں گے، جبکہ صدقات کی وصولی کا حق امام المسلمین کو حاصل رہے ۔- زکوٰۃ وصول کرنے والا دعائے خیر کہے - قول باری ہے وصل علیھم ان صلاتک سکن لھم اور ان کے حق میں دعائے رحمت کرو کیونکہ تمہاری دعا ان کے لیے وجہ تسکین ہوگی ۔ شعبہ نے عمرو بن مرہ سے اور انہوں نے حضرت ابن ابی اوفی (رض) سے روایت کی ہے کہ جب کوئی شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اپنے مال کا صدقہ لے کر آتا تو آپ اس کے لیے رحمت کی دعا کرتے ۔ ابن ابی اوفی (رض) فرماتے ہیں کہ میں بھی اپنے والد کے مال کی زکوٰۃ لے کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا تو آپ نے دعا کرتے ہوئے یہ الفاظ فرمائے اللھم صلی علی ال ابی اوفی ۔ اے اللہ ابی اوفی کی آل پر اپنی رحمت بھیج ثابت بن قیس نے خارجہ بن اسحاق سے انہوں نے عبد الرحمن بن جائز سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : تم لوگوں کے پاس کچھ ایسے سوار زکوٰۃ وصول کرنے والے آئیں گے جو تمہارے لیے زیادہ پسندیدہ نہیں ہونگے اگر وہ تمہارے پاس آئیں تو تم انہیں خوش آمدید کہو اور جس زکوٰۃ کا وہ مطالبہ کریں اسے ادا کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالو ، اگر وہ زکوٰۃ کی وصولی میں تم سے انصاف کریں گے تو یہ بات ان کے حق میں بہتر ہوگی اور اگر ظلم کریں گے تو یہ بات ان کے خلاف جائے گی ، تا ہم تم انہیں ضرور راضی کر دو اس لیے کہ ان کا خوش ہوجانا تمہاری زکوٰۃ کی تکمیل ہے۔ انہیں بھی چاہیے کہ زکوٰۃ کی وصولی کے بعد وہ تمہارے لیے دعا کریں ۔ سلمہ بن بشیر نے روایت بیان کی ہے، انہیں النجتری نے ، انہیں ان کے والد نے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے۔ جب تم زکوٰۃ ادا کرو تو اس کے ثواب کو فراموش نہ کرنا ۔ صحابہ نے عرض کیا : اس کا ثواب کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ زکوٰۃ دیتے وقت یہ دعا کرے اللھم اجعلھا مغنما ولا تجعلھا مغرما ًاے اللہ اس زکوٰۃ کی غنیمت بنا دے اسے جرمانہ نہ بنا یہ تمام روایات اسی پر دلالت کرتی ہیں کہ قول باری وصل علیھم سے دعامراد ہے۔- قول باری تسکن لھم سے مراد ۔۔۔۔ واللہ اعلم ۔۔۔ وہ امر ہے جو ان کے لیے وجہ تسکین ہے اور جسکی بنا پر ان کے دلوں میں فرحت اور خوشی پیدا ہوجائے اور اس کے نتیجے میں وہ اللہ سے ثواب حاصل کرنے کی رغبت اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کی برکت کے حصول کی خاطر صدقات واجبہ کی ادائیگی میں سرعت سے کام لیں ۔ صدقات وصول کرنے والے کو بھی یہی طریق کار اختیار کرنا چاہیے کہ جب صدقہ وصول کرلے تو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اقتداء میں صدقہ دینے والے کے دعائے خیر کرے۔
(١٠٣) چناچہ ارشاد فرمایا کہ آپ ان کے مالوں میں سے جو یہ لائے ہیں تیسرا حصہ صدقہ لے لیجے جس کے لینے سے آپ ان کو گناہ کے آثار سے پاک وصاف کردیں گے اور ان کے لیے استغفار بھی کیجیے اور دیا بھی فرمائیے کیوں کہ آپ کا استغفار اور آپ کی دعا ان کے لیے دلی سکون کا باعث ہے کہ ان کی توبہ قبول ہوگی، اللہ تعالیٰ ان کے قرار اور ان کی درخواست کو کہ ہمارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیجیے، خوب سنتے اور ان کی توبہ اور نیت کو خوب جانتے ہیں۔
آیت ١٠٣ (خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا) - روایت میں آتا ہے کہ یہ اصحاب (رض) اپنے اموال کے ساتھ خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے کہ توبہ کی قبولیت کے شکرانے کے طور پر ہم اللہ کی راہ میں یہ اموال پیش کرتے ہیں۔ چونکہ یہ لوگ مخلص مؤمن تھے ‘ صرف سستی اور کمزوری کے باعث کوتاہی ہوئی تھی ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے کمال مہربانی سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ صدقات قبول کرنے کی اجازت فرمائی۔ جبکہ منافقین کے صدقات قبول کرنے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منع فرما دیا گیا تھا۔- (وَصَلِّ عَلَیْہِمْط اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمْ ط) - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا ان کے لیے باعث اطمینان ہوگی اور انہیں تسلی ہوجائے گی کہ ان کی خطا معاف ہوگئی ہے اور ان کی توبہ قبول کی جا چکی ہے۔
79: یہی حضرات جنہوں نے توبہ کے طو رپر اپنے آپ کو ستونوں سے باندھ لیا تھا، جب ان کی توبہ قبول ہوئی اور انہیں آزاد کیا گیا تو انہوں نے شکرانے کے طور پر اپنا مال صدقے میں دینے کے لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا، آپ نے شروع میں فرمایا کہ مجھے تم سے کوئی مال لینے کا حکم نہیں دیا گیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ آپ ان سے صدقہ قبول فرمالیں۔ آیت میں صدقے کی دو خاصیتیں بیان فرمائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اِنسان کو گناہوں اور بُرے اخلاق سے پاک ہونے میں مدددیتا ہے، اور دوسرے یہ کہ اس سے اِنسان کی نیکیوں میں برکت اور ترقی ہوتی ہے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اگرچہ یہ آیت اس خاص واقعے میں نازل ہوئی تھی، لیکن چونکہ الفاظ عام ہیں، اس لئے امت کے فقہا ئکا اجماع ہے کہ اسی آیت کی روسے اسلامی ریاست کے ہر سربراہ کو اپنے عوام سے زکوٰۃ وصول کرنے اور اسے صحیح مصارف پر خرچ کرنے کا حق حاصل ہے، اسی وجہ سے حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں جن لوگوں نے آپ کو زکوٰۃ دینے سے انکار کیا ان سے آپ نے جہاد کیا۔