مجاہدین کے اعمال کا بہترین بدلہ قربت الٰہی ہے یہ مجاہد جو کچھ تھوڑا بہت خرچ کریں اور راہ اللہ میں جس زمین پر چلیں پھریں ، وہ سب ان کے لیے لکھ لیا جاتا ہے ۔ یہ نکتہ یاد رہے کہ اوپر کا کام ذکر کرکے اجر کے بیان میں لفظ بہ لائے تھے اور یہاں نہیں لائے اس لیے کہ وہ غیر اختیاری افعال تھے اور یہ خود ان سے صادر ہوتے ہیں ۔ پس یہاں فرماتا ہے کہ انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ اللہ تعالیٰ دے گا ۔ اس آیت کا بہت بڑا حصہ اور اس کا کامل اجر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سمیٹا ہے ۔ غزوہ تبوک میں آپ نے دل کھول کر مال خرچ کیا ۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبے میں اس سختی کے لشکر کے امداد کا ذکر فرما کر اس کی رغبت دلائی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک سو اونٹ مع اپنے کجاوے پالان رسیوں وغیرہ کے میں دونگا ۔ آپ نے پھر اسی کو بیان فرمایا تو پھر سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایک سو اور بھی دونگا ۔ آپ ایک زینہ منبر کا اترے پھر رغبت دلائی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا ایک سو اور بھی آپ نے خوشی خوشی اپنا ہاتھ ہلاتے ہوئے فرمایا بس عثمان آج کے بعد کوئی عمل نہ بھی کرے تو بھی یہی کافی ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ ایک ہزار دینار کی تھیلی لا کر حضرت عثمان نے آپ کے پلے میں ڈال دی ۔ آپ انہیں اپنے ہاتھ سے الٹ پلٹ کر تے جاتے تھے اور فرما رہے تھے آج کے بعد یہ جو بھی عمل کریں انہیں نقصان نہ دے گا ۔ بار بار یہی فرماتے رہے اس آیت کی تفسیر میں حضرت قتادہ فرماتے ہیں جس قدر انسان اپنے وطن سے اللہ کی راہ میں دور نکلتا ہے ، اتنا ہی اللہ کے قرب میں بڑھتا ہے ۔
121۔ 1 پہاڑوں کے میدان اور پانی کی گزرگاہ کو وادی کہتے ہیں۔ مراد یہاں مطلق وادیاں اور علاقے ہیں۔ یعنی اللہ کی راہ میں تھوڑا یا زیادہ جتنا بھی خرچ کرو گے اسی طرح جتنے بھی میدان طے کرو گے، (یعنی جہاد میں تھوڑا یا زیادہ سفر کرو گے) یہ سب نیکیاں تمہارے نامہ اعمال میں درج ہونگی جن پر اللہ تعالیٰ اچھا سے اچھا بدلہ عطا فرمائے گا۔
[١٣٨] پہلی آیت میں ہر اختیاری و غیر اختیاری فعل کے بدلے اعمال صالحہ لکھنے کا ذکر کیا۔ اس آیت میں بالخصوص ان اعمال کا ذکر کیا جو اختیاری ہی ہوسکتے ہیں اور جہاد فی سبیل اللہ کی بنیاد ہیں۔ یعنی زاد سفر، سواری اور اسلحہ پر جو بھی میسر آسکے خرچ کرتے ہیں۔ پھر سفر جہاد پر نکل بھی کھڑے ہوتے ہیں۔ اللہ انہیں ان کاموں کا بہتر صلہ ضرور عطا فرمائے گا یعنی یہ اعمال بلند تر درجہ کے صالح اعمال ہوئے اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کاموں کا جو بہتر سے بہتر بدلہ ہوسکتا ہے وہی اللہ انہیں عطا فرمائے گا۔
وَلَا يُنْفِقُوْنَ نَفَقَةً صَغِيْرَةً : پچھلی آیت میں جہاد میں کیے جانے والے وہ اعمال بھی ہیں جو انسان کے اختیار میں ہیں اور وہ بھی جو بےاختیار پیش آتے ہیں، مثلاً مشکلات و مصائب، اس آیت میں صرف ان اعمال کا ذکر ہے جو آدمی کے اختیار میں ہیں، مگر جہاد فی سبیل اللہ کی بنیاد ہیں، یعنی زاد سفر، سواری اور اسلحہ پر جو میسر ہو خرچ کرنا، پھر سفر جہاد پر نکل کھڑے ہونا اور جنگل اور وادیاں طے کرتے چلے جانا، سب کچھ لکھا جاتا ہے۔ - اس جنگ میں عثمان (رض) نے لشکر کی تیاری میں سب سے بڑھ کر حصہ لیا، یعنی ” نفقہ کبیرہ “ (بڑا خرچ) اور انھوں نے اس وقت صحابہ کو مخاطب کرکے اس کا ذکر بھی فرمایا تھا جب باغیوں نے ان کا محاصرہ کیا کہ کیا تم جانتے ہو کہ میں نے ” جَیْشُ الُْعُسْرَۃِ “ (تنگ دستی کے وقت کے لشکر) کا سامان تیار کیا تھا ؟ تمام صحابہ نے اس کا اعتراف کیا۔ [ ترمذی، المناقب، باب فی عد عثمان تسمیتہ شہیدا۔۔ : ٣٦٩٩، وحسنہ الألبانی ] تفصیل اس کی یہ ہے کہ عبد الرحمن بن سمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ عثمان بن عفان (رض) ایک ہزار دینار اپنی آستین میں لے کر آئے، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” جَیْشُ الْعُسْرَۃِ “ کو تیار کیا تو اسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گود میں ڈال دیا۔ عبد الرحمن بن سمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ پھر میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ انھیں اپنی گود میں الٹ پلٹ کرتے تھے اور فرماتے تھے : ” آج کے بعد عثمان جو کام بھی کرے اسے کچھ نقصان نہیں دے گا۔ “ دو مرتبہ فرمایا۔ [ ترمذی، المناقب، باب فی عد عثمان تسمیتہ شہیدا۔۔ : ٣٧٠٠، ٣٧٠١، و حسنہ الألبانی ] اور کم خرچ کرنے والے (نفقہ صغیرہ) وہ بھی تھے جو رات بھر محنت کرکے نصف صاع (١ کلو) کھجوریں لے کر آئے۔ دیکھیے سورة توبہ آیت (٧٩) کی تفسیر۔ - وَّلَا يَـقْطَعُوْنَ وَادِيًا اِلَّا كُتِبَ لَھُمْ : پہاڑوں کے درمیان کے میدان اور پانی کی گزرگاہ کو وادی کہتے ہیں، یعنی ہر وادی طے کرنے پر وہ ان کے نامۂ اعمال میں لکھ دی جاتی ہے۔ - لِيَجْزِيَھُمُ اللّٰهُ اَحْسَنَ : یہ سب کچھ اس لیے لکھا جاتا ہے کہ کسی بھی عمل کی زیادہ سے زیادہ اچھی جزا جو ہوسکتی ہے اللہ تعالیٰ انھیں وہ عطا فرمائے۔
وَلَا يُنْفِقُوْنَ نَفَقَۃً صَغِيْرَۃً وَّلَا كَبِيْرَۃً وَّلَا يَـقْطَعُوْنَ وَادِيًا اِلَّا كُتِبَ لَھُمْ لِيَجْزِيَھُمُ اللہُ اَحْسَنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ١٢١- نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے معیب کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- كبير - الْكَبِيرُ والصّغير من الأسماء المتضایفة التي تقال عند اعتبار بعضها ببعض، فالشیء قد يكون صغیرا في جنب شيء، وكبيرا في جنب غيره، ويستعملان في الكمّيّة المتّصلة كالأجسام، وذلک کالکثير والقلیل، وفي الكمّيّة المنفصلة کالعدد، وربما يتعاقب الکثير والکبير علی شيء واحد بنظرین مختلفین نحو : قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ [ البقرة 219] و : كثير «1» قرئ بهما . وأصل ذلک أن يستعمل في الأعيان، ثم استعیر للمعاني نحو قوله : لا يُغادِرُ صَغِيرَةً وَلا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصاها[ الكهف 49] ، وقوله : وَلا أَصْغَرَ مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْبَرَ [ سبأ 3] ، وقوله : يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ [ التوبة 3] إنما وصفه بالأكبر تنبيها أنّ العمرة هي الحجّة الصّغری كما قال صلّى اللہ عليه وسلم : «العمرة هي الحجّ الأصغر» فمن ذلک ما اعتبر فيه الزمان،- ( ک ب ر ) کبیر اور صغیر اسمائے اضافیہ سے ہیں ۔ جن کے معانی ایک دوسرے کے لحاظ سے متعین ہوتے ہیں ۔ چناچہ ایک ہی چیز دوسری کے مقابلہ میں صغیر ہوتی ہے لیکن وہ شئے ایک اور کے مقابلہ میں کبیر کہلاتی ہے ۔ اور قلیل وکثٰیر کی طرح کبھی تو ان کا استعمال کمیت متصلہ یعنی اجسام میں ہوتا ہے ۔ اور کبھی کمیۃ منفصلہ یعنی عدد ہیں ۔ اور بعض اوقات کثیر اور کبیر دو مختلف جہتوں کے لحاظ سے ایک ہی چیز پر بولے جاتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ [ البقرة 219] کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں ۔ کہ اس میں ایک قرآت کثیر بھی ہے ۔ یہ اصل وضع کے لحاظ سے تو اعیان میں ہی استعمال ہوتے ہیں ۔ لیکن استعارہ کے طور پر معانی پر بھی بولے جاتے ہیں چناچہ فرمایا : لا يُغادِرُ صَغِيرَةً وَلا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصاها[ الكهف 49] کہ نہ چھوٹی بات کو چھوڑتی ہے ۔ اور نہ بڑی کو ( کوئی بات بھی نہیں ) مگر اسے گن رکھا ہے ۔ وَلا أَصْغَرَ مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْبَرَ [ سبأ 3] اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی ہے یا بڑی ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ [ التوبة 3] اور حج اکبر کے دن ۔۔۔ میں حج کو اکبر کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ عمرۃ حج اصغر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے ؛العمرۃ ھہ الحج الاصغر ۔ کہ عمرہ حج اصغر ہے ۔ اور کبھی بڑائی بلحاظ زمانہ مراد ہوتی ہے چناچہ محاورہ ہے ۔- وادي - قال تعالی: إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ [ طه 12] أصل الوَادِي : الموضع الذي يسيل فيه الماء، ومنه سُمِّيَ المَفْرَجُ بين الجبلین وَادِياً ، وجمعه : أَوْدِيَةٌ ، نحو : ناد وأندية، وناج وأنجية، ويستعار الوادِي للطّريقة کالمذهب والأسلوب، فيقال : فلان في وَادٍ غير وَادِيكَ. قال تعالی:- أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وادٍ يَهِيمُونَ [ الشعراء 225] فإنه يعني أسالیب الکلام من المدح والهجاء، والجدل والغزل «2» ، وغیر ذلک من الأنواع . قال الشاعر : 460-- إذا ما قطعنا وَادِياً من حدیثنا ... إلى غيره زدنا الأحادیث وادیاً- «3» وقال عليه الصلاة والسلام : «لو کان لابن آدم وَادِيَانِ من ذهب لابتغی إليهما ثالثا» «4» ، وقال تعالی: فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها[ الرعد 17] أي : بقَدْرِ مياهها . - ( و د ی ) الوادی - ۔ اصل میں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں پانی بہتا ہو اسی سے دو پہاڑوں کے درمیان کشادہ زمین کو وادی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ [ طه 12] تم ( یہاں ) پاک میدان ( یعنی ) طوی میں ہو ۔ اس کی جمع اودیتہ اتی ہے جیسے ناد کی جمع اندیتہ اور ناج کی جمع انجیتہ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها[ الرعد 17] پھر اس سے اپنے اپنے انداز کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ اور حدیث میں ہے ۔ لوکان لابن ادم وادیان من ذھب لابتغی ثالثا کہ اگر ابن ادم کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کا خواہش مند ہوگا ۔ - احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔
(١٢١) نیز جو کچھ آنے جانے میں کم یا زیادہ جو کچھ انہوں نے خرچ کیا اور دشمن کی تلاش میں جتنے میدان ان کو طے کرنے پڑے یہ سب بھی ان کے نام نیکیوں کے ثواب میں لکھا گیا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے جہاد میں سب کاموں کا نیک بدلہ دے۔
97: یعنی اگرچہ ان اعمال میں سے بعض چھوٹے نظر آتے ہوں، لیکن ان کا ثواب ان مجاہدین کے بہترین اعمال کے برابر دیا جائے گا۔ (یہاں یہ واضح رہے کہ قرآن کریم میں احسن (بہترین) کو اعمال کی صفت قرار دیا گیا ہے، اور اسے جزاء کی صفت قرار دینے پر علامہ ابو حیان نے البحر المحیط میں نحوی اعتبار سے جو اشکال پیش کیا ہے، اس کا کوئی اطمینان بخش جواب نہیں دیا سکا، چنانچہ علامہ آلوسی نے بھی اس اعتراض کو نقل کر کے اس کی تائید ہی کی ہے۔ لہذا یہاں ترجمہ اس تفسیر کے مطابق کیا گیا ہے جو مدارک التنزیل میں مذکور ہے۔