Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تنہا نہ چھوڑو اس آیت میں اس بیان کی تفصیل ہے جو غزوہ تبوک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلنے کے متعلق تھا ۔ سلف کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ جب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد میں نکلیں تو آپ کا ساتھ دینا ہر ملسمان پر واجب ہے جیسے فرمایا ( اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِــقَالًا وَّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ 41؀ ) 9- التوبہ:41 ) اور فرمایا ہے ( آیت ماکان لا ھل المدینہ ) یعنی ہلکے بھاری نکل کھڑے ہو جاؤ ۔ مدینے اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو لائق نہیں کہ وہ رسول اللہ کے پیچھے رہ جائیں ۔ پس یہ حکم اس آیت سے منسوخ ہو گیا ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ قبیلوں کے نکلنے کا بیان ہے اور ہر قبیلے کی ایک جماعت کے نکلنے کا اگر وہ سب نہ جائیں تاکہ آپ کے ساتھ جانے والے آپ پر اتری ہوئی وحی کو سمجھیں اور واپس آکر اپنی قوم کو دشمن کے حالات سے باخبر کریں ۔ پس انہیں دونوں باتیں اس کوچ میں حاصل ہو جائیں گی ۔ اور آپ کے بعد قبیلوں میں سے جانے والی جماعت یا تو دینی سمجھ کے لیے ہوگی یا جہاد کے لیے ۔ کیونکہ یہ فرض کفایہ ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے یہ معنی بھی مروی ہیں کہ مسلمانوں کو یہ چاہیے کہ سب کے سب چلے جائیں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا چھوڑ دیں ۔ ہر جماعت میں سے چند لوگ جائیں اور آپ کی جازت سے جائیں جو باقی ہیں وہ ان کے بعد جو قرآن اترے ، جو احکام بیان ہوں ، انہیں سیکھیں ، سمجھیں ۔ جب یہ آجائیں تو انہیں سکھائیں پڑھائیں ۔ اس وقت اور لوگ جائیں ۔ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے ۔ مجاہد فرماتے ہیں ۔ یہ ان صحابیوں کے بارے میں اتری ہے جو بادیہ نشینوں میں گئے وہاں انہیں فوائد بھی پہنچے اور نفع کی چیزیں بھی ملیں ۔ اور لوگوں کو انہوں نے ہدایات بھی کیں ۔ لیکن بعض لوگوں نے انہیں طعنہ دیا کہ تم لوگ اپنے ساتھیوں کے پیچھے رہ جانے والے ہو ۔ وہ میدان جہاد میں گئے اور تم آرام سے یہاں ہم میں ہو ۔ ان کے بھی دل میں یہ بات بیٹھ گئی وہاں سے واپس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے آئے ۔ پس یہ آیت اتر اور انہیں معذور سمجھا گیا ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لشکروں کو بھیجیں تو کچھ لوگوں کو آپ کی خدمت میں ہی رہنا چاہیے کہ وہ دین سیکھیں اور کچھ لوگ جائیں اپنی قوم کو دعوت حق دیں اور انہیں اگلے واقعات سے عبرت دلائیں ضحاک فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نفس نفیس جہاد کے لیے نکلیں اس وقت سوائے معذوروں ، اندھوں وغیرہ کے کسی کو حلال نہیں کہ آپ کے ساتھ نہ جائے اور جب آپ لشکروں کو روانہ فرمائیں تو کسی کو حلال نہیں کہ آپ کی اجازت بغیر جائے ۔ یہ لوگ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہتے تھے ، اپنے ساتھیوں کو جب کہ وہ واپس لوٹتے ان کے بعد کا اترا ہوا قرآن اور بیان شدہ احکام سنا دیتے پس آپ کی موجودگی میں سب کو نہ جانا چاہیے ۔ مروی ہے کہ یہ آیت جہاد کے بارے میں نہیں بلکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلے مضر پر قحط سالی کی بد دعا کی اور ان کے ہاں قحط پڑا تو ان کے پورے قبیلے کے قبیلے مدینے شریف میں چلے آئے ۔ یہاں جھوٹ موٹ اسلام ظاہر کر کے صحابہ پر اپنا بار ڈال دیا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو متنبہ کیا کہ دراصل یہ مومن نہیں ۔ آپ نے انہیں ان کی جماعتوں کی طرف واپس کیا اور ان کی قوم کو ایسا کرنے سے ڈرایا ۔ کہتے ہیں کہ ہر قبیلے میں سے کچھ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتے ، دین اسلام سیکھتے واپس جا کر اپنی قوم کو اللہ رسول کی اطاعت کا حکم کرتے ، نماز زکوٰۃ کے مسائل سمجھاتے ، ان سے صاف فرما دیتے کہ جو اسلام قبول کر لے گا وہ ہمارا ہے ورنہ نہیں ۔ یہاں تک کہ ماں باپ کو بھی چھوڑ دیتے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مسئلے مسائل سے آگاہ کر دیتے ، حکم احکام سکھا پڑھا دیتے وہ اسلام کے مبلغ بن کر جاتے ماننے والوں کو خوش خبریاں دیتے ، نہ ماننے والوں کو ڈراتے ، عکرمہ فرماتے ہیں جب ( اِلَّا تَنْفِرُوْا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا ڏ وَّيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوْهُ شَـيْــــًٔـا ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 39؀ ) 9- التوبہ:39 ) اور آیت ( مَا كَانَ لِاَھْلِ الْمَدِيْنَةِ وَمَنْ حَوْلَھُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ يَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ وَلَا يَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِهِمْ عَنْ نَّفْسِهٖ ۭذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ لَا يُصِيْبُھُمْ ظَمَاٌ وَّلَا نَصَبٌ وَّلَا مَخْمَصَةٌ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا يَـطَــــــُٔوْنَ مَوْطِئًا يَّغِيْظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا اِلَّا كُتِبَ لَھُمْ بِهٖ عَمَلٌ صَالِحٌ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ ١٢٠؀ۙ ) 9- التوبہ:120 ) اتریں تو منافقوں نے کہا پھر تو بادیہ نشین لوگ ہلاک ہوگئے کہ وہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں جاتے ۔ بعض صحابہ بھی ان میں تعلیم و تبلیغ کے لیے گئے ہوئے تھے پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ( وَالَّذِيْنَ يُحَاۗجُّوْنَ فِي اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا اسْتُجِيْبَ لَهٗ حُجَّــتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ وَّلَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ 16؀ ) 42- الشورى:16 ) بھی اتری ۔ حسن بصری فرماتے ہیں کہ جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے ہیں وہ مشرکوں پر غلبہ و نصرت دیکھ کر واپس آن کر اپنی قوم کو ڈرا دیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

122۔ 1 بعض مفسرین کے نزدیک اس کا تعلق بھی حکم جہاد سے ہے۔ اور مطلب یہ کہ پچھلی آیت میں جب پیچھے رہنے والوں کے لئے سخت وعید اور لعنت ملامت بیان کی گئی تو صحابہ کرام بڑے محتاط ہوگئے اور جب بھی جہاد کا مرحلہ آتا تو سب کے سب اس میں شریک ہونے کی کوشش کرتے۔ آیت میں انہیں حکم دیا گیا ہر جہاد اس نوعیت کا نہیں ہوتا کہ جس میں ہر شخص کی شرکت ضروری ہو (جیسا کہ تبوک میں ضروری تھا) بلکہ گروہ کی ہی شرکت کافی ہے۔ یعنی ایک گروہ جہاد پر چلا جائے اور ایک گروہ پیچھے رہے، جو دین کا علم حاصل کرے۔ اور جب مجاہدین واپس آئیں تو انہیں بھی احکام دین سے آگاہ کر کے انہیں ڈرائیں۔ دوسری تفسیر اس کی یہ ہے کہ اس آیت کا تعلق جہاد سے نہیں ہے بلکہ اس میں علم دین کا علم حاصل کرنے کے لیے اپنا گھربار چھوڑیں اور مدارس و مراکز علم میں جا کر اسے حاصل کریں اور پھر آکر اپنی قوم میں وعظ ونصیح کریں۔ دین میں تفقہ حاصل کرنے کا مطلب اوامرونواہی کا علم حاصل کرنا ہے تاکہ اوامر الہی کو بجا لاسکے اور نواہی سے دامن کشاں رہے اور اپنی قوم کے اندر بھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣٩] دین کا علم سیکھنا فرض کفایہ ہے :۔ اس آیت کے دو مفہوم بیان کیے جاتے ہیں۔ اور وہ دونوں ہی درست ہیں۔ ایک یہ کہ یہ آیت جہاد سے متعلق ہے۔ اور اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہاد فرض عین نہیں البتہ جب اسلامی حکومت کی طرف سے جہاد کا اعلان عام ہوجائے تو اس وقت صاحب استطاعت لوگوں پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے جیسا کہ غزوہ تبوک میں ہوا تھا اور اس صورت میں جہاد سے پیچھے رہ جانے والے گنہگار ہوتے ہیں اور سب لوگوں کے لیے یہ ممکن اس لیے نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات مسلمانوں کا ایک حصہ پیچھے رہنا ضروری ہوتا ہے تاکہ دارالخلافہ یا دوسرے اہم مقامات کی دشمن سے حفاظت کرسکیں۔ عند الضرورت فوج کو رسد اور کمک بھیج سکیں۔ علاوہ ازیں معاشرہ میں کئی طرح کے معذور افراد بھی ہوتے ہیں۔ اس صورت میں اس آیت کا یہ معنی ہوگا کہ ہر بستی اور ہر قبیلہ کے کچھ لوگوں کو رسول اللہ کے ہمراہ جانا ضروری ہے تاکہ وہ ان کی صحبت میں رہ کر دین کی سمجھ بوجھ پیدا کریں اور جب واپس اپنے گھروں کو آئیں تو ان سینکڑوں حوادث و واقعات سے متعلق ان لوگوں کو مطلع کریں جو جہاد پر نہیں گئے تھے اور اگر نبی اکرم خود جنگ پر تشریف نہیں لے گئے تھے تو جو کچھ پیچھے رہنے والوں نے نبی اکرم کی صحبت سے دین کی باتیں اور سمجھ بوجھ سیکھی ہے اس سے ان لوگوں کو مطلع کریں جو جہاد پر گئے ہوئے تھے۔- حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی جہالت دور کرے :۔ اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس آیت کا تعلق جہاد سے نہیں بلکہ علم دین حاصل کرنے سے ہے یعنی تمام مسلمانوں اور بالخصوص بدوی قبائل (جن کے متعلق پہلے اسی سورة کی آیت نمبر ٩٧ میں بتلایا گیا ہے کہ وہ دین کی حدود اور اس کی حکمتوں کو سمجھ نہیں سکتے) کے لیے یہ ممکن نہیں کہ دین کا علم اور اس میں فہم حاصل کرنے کے لیے سب کے سب مدینہ آپ کے پاس چلے آئیں۔ لہذا لوگوں میں دینی شعور اور سمجھ بوجھ پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر قبیلہ، قوم اور بستی میں سے کچھ لوگ مدینہ آجائیں اور آپ کی صحبت سے فیض حاصل کریں پھر وہ واپس آ کر اپنی اپنی بستی، قوم یا قبیلہ کے لوگوں کو علم دین کی تعلیم دیں تاکہ ان کی جہالت دور ہو اور ان میں اسلامی نظام حیات کا صحیح صحیح شعور پیدا ہو۔ اور وہ اپنے طرز زندگی کو اسی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔- حقیقی علم دین کا علم ہے :۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جبکہ اسلام عرب کے اکثر حصہ پر غالب آچکا تھا۔ بدوی قبائل دھڑا دھڑ اسلام میں داخل ہو رہے تھے مگر ابھی تک ان کے نہ جاہلی نظریات ختم ہوئے تھے اور نہ دین کا ابھی حقیقی شعور پیدا ہوا تھا اس آیت میں علم کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے اور بتلایا گیا ہے کہ اسلامی حکومت کا کام محض علاقے فتح کرنا نہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ لوگوں کی جہالت دور کرنا اور اسلامی نظریات کے مطابق ان کی تربیت کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا جہاد ضروری ہے ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی علم وہی کہلا سکتا ہے جس سے دین کی سمجھ بوجھ پیدا ہو اور ان سے دین کی تبلیغ و اشاعت میں کام لیا جاسکتا ہو۔ رہے دوسرے علوم تو وہ دنیا کی زندگی کے لیے خواہ کتنے ہی مفید کیوں نہ ہوں حقیقی علم نہیں کہلا سکتے۔- اس آیت کو خواہ جہاد پر نکلنے سے متعلق کیا جائے یا دین کا علم حاصل کرنے کے لیے نکلنے سے متعلق کیا جائے دونوں طرح درست ہے کیونکہ دین کا علم حاصل کرنے کے لیے نکلنا بھی جہاد فی سبیل اللہ ہی کی ایک قسم ہے اور اسلامی نظام حیات کے قیام کے لیے یہ دونوں شعبے ہی نہایت اہم اور فرض کفایہ ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَاۗفَّةً : ” نَفَرَ یَنْفِرُ “ عام طور پر لڑائی کے لیے نکلنے کے معنی میں آتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (مَا لَكُمْ اِذَا قِيْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ ) [ التوبۃ : ٣٨ ] اور فرمایا : (اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِــقَالًا ) [ التوبۃ : ٤١ ] اور فرمایا : (اِلَّا تَنْفِرُوْا يُعَذِّبْكُمْ ) [ التوبۃ : ٣٩ ] اور فرمایا : (وَقَالُوْا لَا تَنْفِرُوْا فِي الْحَرِّ ) [ التوبۃ : ٨١ ] اور یہ سورت شروع سے آخر تک جہاد ہی کے تذکرے سے بھری پڑی ہے، اس لیے ” لِيَنْفِرُوْا “ کا معنی ” لڑائی کے لیے نکلیں “ ہی سیاق سے مناسبت رکھتا ہے۔ جنگ تبوک میں نفیر عام، یعنی تمام مسلمانوں کو نکلنے کا حکم تھا اور فرمایا کہ اہل مدینہ اور اس کے اردگرد کے اعراب کا حق ہی نہیں بنتا تھا کہ وہ جنگ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پیچھے رہیں، اب اس آیت میں ایسے مواقع کا ذکر ہے جن میں سب کے نکلنے کا حکم نہیں، بلکہ کچھ لوگوں کا نکلنا کافی ہے۔ چناچہ فرمایا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ تمام مسلمان جنگ کے لیے نکل جائیں، کیونکہ کچھ لوگوں کا شہروں کی حفاظت اور گھروں کے انتظام کے لیے پیچھے رہنا بھی ضروری ہے، کچھ لوگ کسی اور ضروری عذر کی وجہ سے نہیں نکل سکتے، اس لیے ہر بڑے گروہ میں سے جنگ کی ضرورت کے حساب سے کچھ لوگوں کے لیے لازم ہے کہ جہاد کے لیے نکلیں، تاکہ وہ جہاد کے سفر، اس کے درمیان پڑاؤ، رباط کے دوران اور میدان قتال میں پوری کوشش کے ساتھ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈرائیں کہ دشمن کیا کیا منصوبے بنا رہا ہے اور اس کی تیاری کس قدر ہے اور اس سے نمٹنے کی کیا صورت ہے، تاکہ وہ آئندہ کے لیے مکمل تیاری کرکے دشمن پر فتح یاب ہو سکیں۔ ” تفقہ فی الدین “ سے یہاں مراد یہ ہے جو بیان ہوا، جب کہ اس وقت ہمارے ہاں ” تفقہ فی الدین “ صرف نماز، روزے وغیرہ کے مسائل ہی کو سمجھ لیا گیا ہے، دشمن کے منصوبوں، سازشوں، چالوں اور کار روائیوں کو سمجھنے، ان سے بچنے اور دفاع کے بجائے ان پر حملہ آور ہونے کو ” تفقہ فی الدین “ سے باہر قرار دے دیا گیا ہے۔ - اس آیت سے چند باتیں واضح طور پر سمجھ میں آرہی ہیں :1 ہر جنگ میں تمام مسلمانوں کا نکلنا نہ ضروری ہے نہ ممکن، بلکہ تقسیم کار کے اصول پر عمل ہوگا، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنولحیان کی طرف ایک لشکر بھیجتے ہوئے فرمایا : ” ہر دو آدمیوں میں سے ایک آدمی نکلے اور اجر دونوں کے لیے برابر ہے (تاکہ ایک میدان میں جائے اور دوسرا اپنے اور اپنے بھائی کے پیچھے کے معاملات کی خیر کے ساتھ نگرانی کرے) ۔ “ [ مسلم، الإمارۃ، باب فضل إعانۃ الغازی۔۔ : ١٣٨؍١٨٩٦ ] ہاں، اگر ضرورت کی بنا پر امیر نفیر عام کا حکم دے تو سب کا نکلنا ضروری ہوگا۔ 2 فرقہ بڑا ہوتا ہے اور طائفہ چھوٹا، حتیٰ کہ ایک آدمی پر بھی طائفہ کا لفظ بولا جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا) [ الحجرات : ٩ ] یہ آیت دو لڑنے والے آدمیوں کے لیے بھی ہے، کسی گروہ میں سے جنگ کے لیے زیادہ لوگ نکلیں یا ایک آدمی، سب پر طائفہ کا لفظ صادق آتا ہے۔- ” لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ “ تفقہ باب تفعل سے ہے، مراد کوشش اور محنت کے ساتھ اچھی طرح سمجھ حاصل کرنا ہے۔ یہاں دین کے دو معنی مراد ہوسکتے ہیں، ایک تو قتال فی سبیل اللہ یعنی اللہ کے راستے میں لڑنا، جیسا کہ ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب تم عینہ (حیلے کے ساتھ سود کی ایک صورت) کے ساتھ بیع کرنے لگو گے اور کھیتی باڑی پر خوش ہوجاؤ گے اور جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط کرے گا جسے دور نہیں کرے گا ( حَتّٰی تَرْجِعُوْا اِلٰی دِیْنِکُمْ ) ” یہاں تک کہ تم اپنے دین کی طرف واپس پلٹ آؤ۔ “ [ أبوداوٗد، البیوع، باب فی النھی عن العینۃ : ٣٤٦٢، و صححہ الألبانی ] یہاں دین سے مراد قتال فی سبیل اللہ ہے، اس میں تفقہ جنگ کے میدانوں ہی میں حاصل ہوسکتا ہے۔ سو سال تک شیخ الحدیث کی مسند پر بیٹھے رہیں، کبھی یہ تفقہ حاصل نہیں ہوگا، آپ اپنے گھر یا سکول یا کالج یا یونیورسٹی یا اکیڈمی یا دار العلوم میں جتنی بھی جنگی کتابیں اور دشمن کی چالیں پڑھ لیں، یا غازیان اسلام کے معرکے پڑھ لیں، میدان جنگ میں جائے بغیر دین (جنگ) کی حقیقی اور واقعی سمجھ کسی صورت حاصل نہیں ہوسکتی، نہ ہی آدمی اپنی قوم کو دشمن کے خطرے سے صحیح طور پر ڈرا کر اس سے بچنے کے لیے خبردار کرسکتا ہے۔ - دین کا دوسرا معنی عام ہے، یعنی پورا دین اسلام، اس میں تفقہ حاصل کرنے کے لیے بھی جہاد کے میدانوں کا رخ کرنا ضروری تھا، کیونکہ دین کے علم کا سرچشمہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی تھی اور آپ مدینہ میں ہجرت کے بعد اکثر جہاد فی سبیل اللہ کے لیے سفر ہی میں رہتے، یا پھر اپنے کسی صاحب علم و فقہ صحابی کو امیر بنا کر بھیجتے تھے۔ بہت سے معجزات اور مسائل و احکام دوران سفر ہی واقع یا نازل ہوئے، اس لیے جب صحابہ کے حالات بیان ہوتے ہیں تو ان کی قابلیت و فضیلت کا ذکر اس طرح ہوتا ہے : ” شَھِدَ الْمُشَاھِدَ کُلَّھَا “ کہ وہ تمام جنگوں میں حاضر رہے اور کہا جاتا ہے : ” شَھِدَ الْبَدْرَ اَوِ الْحُدَیْبِیَۃَ اَوْ فَتْحَ مَکَّۃَ اَوْ حُنَیْنًا اَوْ تَبُوْکَ “ کہ فلاں صاحب بدر یا حدیبیہ یا فتح مکہ یا حنین یا تبوک میں شریک ہوئے اور یہ بات تو عیاں ہے کہ گھر کے بکھیڑوں میں علم و فقہ کا حصول اس طرح ممکن ہی نہیں جس طرح ہر چیز سے فارغ ہو کر لشکر اسلام میں جا کر ممکن ہے۔ دیکھو مسیلمہ کذاب کی لڑائی میں قرآن کے کتنے قاری اور علماء و فقہاء شہید ہوئے۔ لڑائی تو تھوڑی دیر کے لیے ہوئی تھی، باقی دوران سفر اقامت اور رباط میں تعلیم و تعلّم یعنی تفقہ فی الدین ہی کا شغل ہوتا تھا، جس میں لڑنے کے سلیقے کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام مسائل سیکھے سکھائے جاتے تھے اور سب لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابوبکر، عمر، عشرہ مبشرہ اور دوسرے افاضل صحابہ کرام (رض) سے دوران جہاد میں دین سیکھتے اور واپس اپنی قوم میں جا کر انھیں دوسرے دینی مسائل سکھانے کے ساتھ ساتھ دنیا اور آخرت کی ذلت، ترک جہاد سے ڈرا کر انھیں دشمن سے بچنے کی ترغیب دیتے۔ ” لِيُنْذِرُوْا “ اور ” يَحْذَرُوْنَ “ پر غور فرمائیں تو بات کافی حد تک سمجھ میں آجائے گی کہ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی حالت زار کون سی چیز میں تفقہ حاصل نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ - سید المفسرین امام طبری (رض) اور کئی اور مفسرین نے اسی مفہوم کو ترجیح دی ہے، البتہ ” لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ “ میں دین سے جہاد مراد لینے کی دلیل : ( حَتّٰی تَرْجِعُوْا اِلٰی دِیْنِکُمْ ) انھوں نے ذکر نہیں فرمائی۔ - آیت کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب سورة توبہ میں جنگ تبوک سے رہ جانے والوں پر اللہ تعالیٰ نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا تو ہر مسلمان کی کوشش اور خواہش یہ تھی کہ آئندہ ہم ہر جنگ میں ضرور جائیں گے، اس پر یہ آیت اتری کہ تمام مسلمانوں کو ہر مہم کے لیے نہیں نکل جانا چاہیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں اکیلے رہ جائیں، بلکہ ہر قبیلے میں سے کچھ لوگوں کو مدینہ میں آپ کے پاس بھی آ کر حاضر رہنا چاہیے، تاکہ وہ مدینہ کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پہرے داری کا فریضہ بھی سرانجام دیں اور علم بھی حاصل کریں اور واپس جا کر اپنی قوم کو تعلیم دین سے آراستہ کریں۔ اسی طرح کچھ لوگوں کو دینی مدارس میں پڑھنے کے لیے بھی نکلنا چاہیے، تاکہ وہ یکسوئی سے دین کی اچھی طرح سمجھ حاصل کریں اور پھر واپس جاکر اپنی قوم کو دین سمجھا سکیں۔ ہاں حالات کے تحت امیر المومنین نفیر عام کا حکم دیں تو پھر سب کو نکلنا چاہیے، کیونکہ جب قیام کا وقت ہو سجدہ نہیں کیا جاتا۔ یہ مطلب بھی بہت سے مفسرین نے بیان فرمایا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور (ہمیشہ کیلئے) مسلمانوں کو یہ ( بھی) نہ چاہئے کہ ( جہاد کے واسطے) سب کے سب ( ہی) نکل کھڑے ہوں ( کہ اس میں دوسری اسلامی ضروریات معطل ہوتی ہیں) سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر ہر بڑی جماعت میں سے ایک ایک چھوٹی جماعت ( جہاد میں) جایا کرے ( اور کچھ اپنے وطن میں رہ جایا کریں) تاکہ باقی ماندہ لوگ ( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت میں آپ سے اور آپ کے بعد علماء شہر سے) دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرتے رہیں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو ( جو کہ جہاد میں گئے ہوئے ہیں) جبکہ وہ ان کے پاس آویں ( دین کی باتیں سنا کر خدا کی نافرمانی سے) ڈراویں تاکہ وہ ( ان سے دین کی باتیں سن کر برے کاموں سے) احتیاط رکھیں۔- معارف و مسائل - سورة توبہ میں بڑی اہمیت کے ساتھ غزوہ تبوک کا ذکر مسلسل چلا آیا ہے، جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے نفیر عام کا اعلان کیا گیا تھا کہ سب مسلمان اس میں شریک ہوں، اس حکم کی خلاف ورزی بلا عذر صحیح جائز نہ تھی، جو لوگ خلاف ورزی میں مبتلا ہوئے ان میں زیادہ تو منافقین تھے جن کا ذکر بہت سی آیات میں اوپر آیا ہے، کچھ مخلص مومن بھی تھے جو وقتی کاہلی اور سستی کے سبب رہ گئے تھے، ان کی توبہ حق تعالیٰ نے قبول فرمالی، ان سب واقعات سے بظاہر یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ ہر جہاد اور غزوہ میں سب ہی مسلمانون کو نکلتا فرض اور تخلف حرام ہے، حالانکہ حکم شرعی یہ نہیں، بلکہ جہاد عام حالات میں فرض کفایہ ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ مسلمانوں کی کچھ جماعت جو جہاد کے لئے کافی ہو جہاد میں مشغول رہے تو باقی مسلمان بھی فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں، ہاں اگر جہاد میں شریک ہونے والی جماعت کافی نہ ہو وہ مغلوب ہونے لگے تو آس پاس کے مسلمانوں پر ان کی تقویت کیلئے نکلنا اور جہاد میں شریک ہونا فرض ہوجاتا ہے وہ بھی کافی نہ ہو تو ان کے قریب کے لوگوں پر اور وہ بھی کافی نہ ہوں تو ان کے متصل جو مسلمان ہیں ان پر یہاں تک کہ سارے عالم کے مسلمانوں کا امیر ضرورت سمجھ کر نفیر عام کرے اور سب مسلمانوں کو جہاد کی دعوت دے، تو اس وقت بھی جہاد کی شرکت فرض اور تخلف حرام ہوجاتا ہے جیسا واقعہ غزوہ تبوک میں نفیر عام کی وجہ سے پیش آیا، مذکور الصدر آیت میں اسی حکم کو واضح کیا گیا ہے کہ یہ غزوہ تبوک میں نفیر عام کی وجہ سے خصوصی حکم تھا، عام حالات میں جہاد فرض عین نہیں کہ سب مسلمانوں پر جہاد میں جانا فرض ہو کیونکہ جہاد کی طرح اسلام اور مسلمانوں کے اجتماعی مسائل اور مہمات بھی ہیں جو جہاد ہی کی طرح فرض کفایہ ہیں ان کے لئے بھی مسلمانوں کی مختلف جماعتوں کو تقسیم کار کے اصول پر کام کرنا ہے اس لئے سب مسلمانوں کو ہر جہاد میں نکلنا نہیں چاہئے، اسی مضمون سے فرض کفایہ کی حقیقت بھی آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جو کام شخصی نہیں اجتماعی ہیں اور سب مسلمانوں پر ان کے پورا کرنے کی ذمہ داری ہے ان کو شریعت میں فرض کفایہ قرار دیا گیا ہے، تاکہ تقسیم کار کے اصول پر سب کام اپنی اپنی جگہ چلتے رہیں اور یہ اجتماعی فرائض سب ادا ہوتے رہیں، مسلمان مردوں پر نماز جنازہ اور اس کی تکفین مساجد کی تعمیر و نگرانی، جہاد، اسلامی سرحدوں کی حفاظت یہ سب اسی فرض کفایہ کے افراد ہیں کہ ان کی ذمہ داری تو پورے عالم کے مسلمانوں پر ہے مگر بقدر کفایت کچھ لوگ کرلیں تو دوسرے مسلمان بھی فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں، اسی فرض کفایہ کے سلسلہ کا ایک اہم کام دینی تعلیم ہے اس آیت میں خصوصیت سے اس کے فرض ہونے کا اس طرح ذکر فرمایا ہے کہ جہاد جیسے اہم فرض میں بھی اس فرض کو چھوڑنا نہیں جس کی صورت یہ ہے کہ ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جہاد کیلئے نکلے اور باقی لوگ علم دین حاصل کرنے میں لگیں، پھر یہ علم دین حاصل کرکے جہاد میں جانے والے مسلمانوں کو اور دوسرے لوگوں کو علم دین سکھائیں۔- طلب علم دین کا فرض ہونا اور اس کے آداب و فرائض :- امام قرطبی نے فرمایا ہے کہ یہ آیت طلب علم دین کی اصل اور بنیاد ہے، اور غور کیا جائے تو اسی آیت میں علم دین کا اجمالی نصاب بھی بتلا دیا گیا ہے علم حاصل کرنے کے بعد عالم کے فرائض بھی، اس لئے اس مضمون کو کسی قدر تفصیل سے لکھا جاتا ہے : - علم دین کے فضائل :- علم دین کے فضائل اور ثواب عظیم اور اس کے متعلقات پر علماء نے مستقل کتابیں لکھی ہیں، اس جگہ چند مختصر روایات نقل کی جاتی ہیں، ترمذی نے حضرت ابوالدرداء سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : جو شخص کسی راستے پر چلے جس کا مقصد علم حاصل کرنا ہو اللہ تعالیٰ اس چلنے کے ثواب میں اس کا راستہ جنت کی طرف کردیں گے، اور یہ کہ اللہ کے فرشتے طالب علم کیلئے اپنے پر بچھاتے ہیں اور یہ کہ عالم کے لئے تمام آسمانوں اور زمین کی مخلوقات اور پانی کی مچھلیاں دعا و استغفار کرتی ہیں، اور یہ کہ عالم کی فضیلت کثرت سے نفلی عبادت کرنے والے پر ایسی ہے جیسے چودہویں رات کے چاند کی فضیلت باقی سب ستاروں پر، اور یہ کہ علماء انبیاء (علیہم السلام) کے وارث ہیں، اور یہ کہ انبیاء (علیہم السلام) سونے چاندی کی کوئی میراث نہیں چھوڑتے لیکن علم کی وراثت چھوڑتے ہیں، تو جس شخص نے یہ روایت علم حاصل کرلی اس نے بڑی دولت حاصل کرلی “ ( از قرطبی ) ۔- اور دارمی نے اپنے مسند میں یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی شخص نے دریافت کیا کہ بنی اسرائیل میں دو آدمی تھے، ایک عالم تھا جو صرف نماز پڑھ لیتا اور پھر لوگوں کو دین کی تعلیم دینے میں مشغول ہوجاتا تھا، دوسرا دن بھر روزہ رکھتا، اور رات کو عبادت میں کھڑا رہتا تھا، ان دونوں میں کون افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اس عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی میری فضیلت تم میں سے ادنی آدمی پر “ ( یہ روایت امام عبدالبر نے کتاب جامع بیان العلم میں سند کیساتھ حضرت ابو سعید خدری سے نقل کی ہے ( قرطبی) - اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایک فقیہ شیطان کے مقابلہ میں ایک ہزار عبادت گذاروں سے زیادہ قوی ہے اور بھاری ہے ( ترمذی عن ابن عبا س، از مظہری) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے مگر تین عمل ایسے ہیں جن کا ثواب انسان کو مرنے کے بعد بھی پہنچتا رہتا ہے، ایک صدقہ جاریہ، جیسے مسجد یا دینی تعلیم کی عمارت یا رفاہ عام کے ادارے، دوسرے وہ علم جس سے اس کے بعد بھی لوگ نفع اٹھاتے رہیں ( مثلا شاگرد عالم ہوگئے، ان سے آگے لوگوں کو علم دین سکھانے کا سلسلہ چلتا رہا، یا کوئی کتاب تصنیف کی جس سے اس کے بعد بھی لوگ فائدہ اٹھاتے رہے ) ۔- تیسرے اولاد صالح جو اس کیلئے دعا اور ایصال ثواب کرتی رہے ( از قرطبی) - علم دین کے فرض عین اور فرض کفایہ کی تفصیل : - ابن عدی اور بیہقی نے بسند صحیح حضرت انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ طلب العلم فریضہ علی کل مسلم ( از مظہری) یعنی علم حاصل کرنا فرض ہے ہر ایک مسلمان پر۔ یہ ظاہر ہے کہ اس حدیث اور مذکورہ سابقہ احادیث میں علم سے مراد علم دین ہی ہے، دنیوی علم و فنون عام دنیا کے کاروبار کی طرح انسان کے لئے ضروری سہی، مگر ان کے وہ فضائل نہیں جو احادیث مذکورہ میں آئے ہیں، پھر علم دین ایک علم نہیں، بہت سے علوم کو پورا مشتمل ایک جامع نظام ہے، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ہر مسلمان مرد و عورت اس پر قادر نہیں، کہ ان سب علوم کو پورا حاصل کرسکے، اس لئے حدیث مذکورہ میں جو ہر مسلمان پر فرض فرمایا ہے اس سے مراد علم دین کا صرف وہ حصہ ہے جس کے بغیر آدمی نہ فرائض ادا کرسکتا ہے نہ حرام چیزوں سے بچ سکتا ہے جو ایمان اسلام کیلئے ضروری ہے، باقی علوم کی تفصیلات قرآن و حدیث کے تمام معارف و مسائل پھر ان سے نکالے ہوئے احکام و شرائع کی پوری تفصیل یہ نہ ہر مسلمان کی قدرت میں ہے نہ ہر ایک پر فرض عین ہے، البتہ پورے عالم اسلام کے ذمہ فرض کفایہ ہے، ہر شہر میں ایک عالم ان تمام علوم و شرائع کا ماہر موجود ہو تو باقی مسلمان اس فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں، اور جس شہر یا قصبہ میں ایک بھی عالم نہ ہو تو شہر والوں پر فرض ہے کہ اپنے میں سے کسی کو عالم بنائیں، یا باہر سے کسی عالم کو بلا کر اپنے شہر میں رکھیں تاکہ ضرورت پیش آنے پر باریک مسائل کو اس عالم سے فتوٰی لے کر سمجھ سکیں، اور عمل کرسکیں، اس لئے علم دین میں فرض عین اور فرض کفایہ کی تفصیل یہ ہے کہ :۔- فرض عین : ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے کہ اسلام کے عقائد صحیحہ کا علم حاصل کرے اور طہارت نجاست کے احکام سیکھے، نماز روزہ اور تمام عبادات جو شریعت نے فرض و واجب قرار دی ہیں ان کا علم حاصل کرے، جن چیزوں کو حرام یا مکروہ قرار دیا ہے ان کا علم حاصل کرے، جس شخص کے پاس بقدر نصاب مال ہو اس پر فرض ہے کہ زکوٰة کے مسائل و احکام معلوم کرے، جن کو حج پر قدرت ہے اس کیلئے فرض عین ہے کہ حج کے احکام و مسائل معلوم کرے، جس کو بیع و شراء کرنا پڑے یا تجارت و صنعت یا مزدوری و اجرت کے کام کرنے پڑیں اس پر فرض عین ہے کہ بیع و اجارہ وغیرہ کے مسائل و احکام سیکھے، جب نکاح کرے تو نکاح کے احکام و مسائل اور طلاق کے احکام و مسائل معلوم کرے، غرض جو کام شریعت نے ہر انسان کے ذمہ فرض و واجب کئے ہیں ان کے احکام و مسائل کا علم حاصل کرنا بھی ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔- علم تصوف بھی فرض عین میں داخل ہے :- احکام ظاہرہ نماز، روزے کو تو سب ہی جانتے ہیں کہ فرض عین ہیں، اور ان کا علم حاصل کرنا بھی فرض عین ہے، حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) نے تفسیر مظہری میں اسی آیت کے تحت لکھا ہے کہ اعمال باطنہ اور محرمات باطنہ کا علم جس کو عرف میں علم تصوف کہا جاتا ہے چونکہ یہ باطنی اعمال بھی ہر شخص پر فرض عین ہیں تو ان کا علم بھی سب پر فرض عین ہے۔- آجکل جس کو علم تصوف کہا جاتا ہے وہ بھی بہت سے علوم و معارف اور مکاشفات و واردات کا مجموعہ بن گیا ہے اس جگہ فرض عین سے مراد اس کا صرف وہ حصہ ہے جس میں اعمال باطنہ فرض و واجب کی تفصیل ہے، مثلا عقائد صحیحہ جس کا تعلق باطن سے ہے یا صبر، شکر، توکل، قناعت وغیرہ ایک خاص درجے میں فرض ہیں، یا غرور وتکبر، حسد و بغض، بخل و حرص دنیا وغیرہ جو ازروئے قرآن و سنت حرام ہیں، ان کی حقیقت اور اس کے حاصل کرنے یا حرام چیزوں سے بچنے کے طریقے معلوم کرنا بھی ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے علم تصوف کی اصل بنیاد اتنی ہی ہے جو فرض عین ہے۔- فرض کفایہ : پورے قرآن مجید کے معانی و مسائل کو سمجھنا، تمام احادیث کو سمجھنا اور ان میں معتبر اور غیر کی پہچان پیدا کرنا، قرآن و سنت سے جو احکام و مسائل نکلتے ہیں ان سب کا علم حاصل کرنا، اس میں صحابہ وتابعین اور ائمہ مجتہدین کے اقوال و آثار سے واقف ہونا یہ اتنا بڑا کام ہے کہ پوری عمر اور سارا وقت اس میں خرچ کرکے بھی پورا حاصل ہونا آسان نہیں، اس لئے شریعت نے اس علم کو فرض کفایہ قرار دیا ہے، کہ بقدر ضرورت کچھ لوگ یہ سب علوم حاصل کرلیں تو باقی مسلمان سبکدوش ہوجائیں گے۔- علم دین کا نصاب : قرآن حکیم نے اس جگہ علم دین کی حقیقت اور اس کا نصاب بھی ایک ہی لفظ میں بتلا دیا ہے، وہ ہے لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ ، یہ موقع بظاہر اس کا تھا کہ یہاں یتعلمون الدین کہا جاتا، یعنی علم دین حاصل کریں، مگر قرآن نے اس جگہ تعلم کا لفظ چھوڑ کر تفقہ کا لفظ اختیار فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ علم دین کا محض پڑھ لینا کافی نہیں، وہ تو بہت سے کافر یہودی نصرانی بھی پڑہتے ہیں، اور شیطان کو سب سے زیادہ حاصل ہے، بلکہ علم دین سے مراد دین کی سمجھ پیدا کرنا ہے، یہی لفظ تفقہ کا ترجمہ ہے، اور یہ فقہ سے مشتق ہے، فقہ کے معنی سمجھ بوجھ ہی کے ہیں، یہاں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ قرآن کریم نے اس جگہ مجرد کے صیغے سے لیفقھوا الدین، یعنی تاکہ دین کو سمجھ لیں، نہیں فرمایا بلکہ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ فرمایا، جو باب تفعل سے ہے اس کے معنی میں محنت و مشقت کا مفہوم شامل ہے مراد یہ ہے کہ دین کی سمجھ بوجھ پیدا کرنے میں پوری محنت و مشقت اٹھا کر مہارت حاصل کریں، یہ بھی ظاہر ہے کہ دین کی سمجھ بوجھ صرف اتنی بات سے پیدا نہیں ہوتی کہ طہارت، نجاست یا نماز، روزے، زکوٰة، حج کے مسائل معلوم کرے، بلکہ دین کی سجھ بوجھ یہ ہے کہ وہ یہ سمجھے کہ اس کے ہر قول و فعل اور حرکت و سکون کا آخرت میں اس سے حساب لیا جائے گا، اس کو اس دنیا میں کس طرح رہنا چاہئے، دراصل اسی فکر کا نام دین کی سجھ بوجھ ہے، اسی لئے امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے فقہ کی تعریف یہ کی ہے کہ انسان ان تمام کاموں کو سمجھ لے جن کا کرنا اس کے لئے ضروری ہے، اور ان تمام کاموں کو بھی سمجھ لے جن سے بچنا اس کے لئے ضروری ہے، آجکل جو علم فقہ مسائل جزئیہ کے علم کو کہا جاتا ہے یہ بعد کی اصطلاح ہے، قرآن و سنت میں فقہ کی حقیقت وہی ہے جو امام اعظم نے بیان فرمائی ہے کہ جس شخص نے دین کی کتابیں سب پڑھ ڈالیں مگر یہ سمجھ بوجھ پیدا نہ کی وہ قرآن و سنت کی اصطلاح میں عالم نہیں، اس تحقیق سے معلوم ہوگیا کہ علم دین حاصل کرنے کا مفہوم قرآن کی اصطلاح میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا کرنا ہے وہ جن ذرائع سے حاصل ہو وہ ذرائع خواہ کتابیں ہوں یا اساتذہ کی صحبت، سب اس نصاب کے اجزاء ہیں۔- علم دین حاصل کرنے کے بعد عالم کے فرائض :- اس جگہ قرآن کریم نے اس کو بھی ایک ہی جملہ میں پورا بیان فرما دیا ہے، وہ ہی (آیت) لِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ یعنی تاکہ وہ اپنی قوم کو اللہ کی نافرمانی سے ڈرائیں۔ یہاں بھی یہ بات قابل نظر ہے کہ اس جملہ میں عالم کا فرض انذار قوم بتلایا ہے، انذار کا لفظی ترجمہ ہم اردو میں ڈرانے سے کرتے ہیں مگر یہ اس کا پورا ترجمہ نہیں اردو زبان کی تنگی کی وجہ سے کوئی ایک لفظ اس کے پورے ترجمہ کو ادا نہیں کرتا، حقیقت یہ ہے کہ ڈرانا کئی طرح کا ہوتا ہے، ایک ڈرانا دشمن، چور ڈاکو یا کسی درندے زہریلے جانور سے ہے، ایک ڈرانا وہ ہے جو باپ اپنی شفقت سے اولاد کو تکلیف دہ چیزوں جیسے آگ، زہریلے جانور مضر غذاء سے ڈراتا ہے جس کا منشاء شفقت و محبت ہوتی ہے، اس کا لب و لہجہ بھی کچھ اور ہی ہوتا ہے، انذار اسی قسم کے ڈرانے کا نام ہے اسی لئے پیغمبروں اور رسولوں کو نذیر کا لقب دیا گیا ہے اور عالم کا یہ فریضہ انذار درحقیقت وراثت نبوت ہی کا جز ہے جو بنص حدیث عالم کو حاصل ہوتی ہے۔- مگر یہاں قابل غور یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کے دو لقب ہیں، بشیر اور نذیر، نذیر کے معنی تو ابھی آپ معلوم کرچکے ہیں، بشیر کے معنی ہیں بشارت اور خوشخبری سنانے والا، انبیاء (علیہم السلام) کا ایک کام یہ بھی ہے کہ نیک عمل کرنے والوں کو بشارت سنائیں، اس جگہ بھی اگرچہ صراحةً ذکر انذار کا کیا گیا ہے، مگر دوسری نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ عالم کا فرض یہ بھی ہے کہ نیک کام کرنے والوں کو بشارت بھی سنائے، لیکن اس جگہ صرف انذار کے ذکر پر اکتفاء کرنا اس طرف اشارہ ہے کہ انسان کے ذمے دو کام ہیں ایک یہ کہ جو عمل اس کے لئے دنیا و آخرت میں مفید ہیں ان کو اختیار کرے، دوسرے یہ کہ جو عمل اس کیلئے مضر ہیں ان سے بچے، باتفاق علماء و عقلاء ان دونوں کاموں میں سے دوسرا کام سب سے مقدم اور اہم ہے، اسی کو فقہاء کی اصطلاح میں جلب منفعت اور دفع مضرت کے دو لفظوں سے تعبیر کرکے دفع مضرت کو جلب منفعت سے مقدم قرار دیا ہے، اس کے علاوہ دفع مضرت میں ایک حیثیت سے جلب منفعت کا مقصد بھی پورا ہوجاتا ہے، کیونکہ جو کام انسان کیلئے مفید اور ضروری ہیں ان کا ترک بڑی مضرت ہے تو جو شخص مضرت اعمال سے بچنے کا اہتمام کرے گا وہ اعمال ضروریہ کے ترک سے بچنے کا بھی اہتمام کرے گا۔- یہاں سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آجکل جو عموماً وعظ و تبلیغ بہت کم مؤ ثر ہوتی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں انذار کے آداب نہیں ہوتے، جس کے طرز بیان اور لب و لہجے سے شفقت و رحمت اور خیر خواہی مترشح ہو، مخاطب کو یقین ہو کہ اس کے کلام کا مقصد نہ مجھے رسوا کرنا ہے نہ بدنام کرنا نہ اپنے دل کا غبار نکالنا، بلکہ یہ جس چیز کو میرے لئے مفید اور ضروری سمجھتا ہے وہ محبت کی وجہ سے مجھے بتلا رہا ہے، اگر آج ہماری تبلیغ اور خلاف شرع امور کے مرتکب لوگوں کو اصلاح کی دعوت کا یہ طرز ہوجائے تو اس کا ایک نتیجہ تو قطعا لازم ہی ہے کہ مخاطب کو ہماری گفتگو سے ضد پیدا نہیں ہوگی، وہ جواب دہی کی فکر میں پڑنے کے بجائے اپنے اعمال کا جائزہ لینے اور انجام سوچنے کی طرف متوجہ ہوجائے گا اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کبھی نہ اس کو قبول کرے گا اور دوسرا نتیجہ یہ لازمی ہے کہ کم از کم اس سے باہمی منافرت اور لڑائی جھگڑا پیدا نہیں ہوگا، جس میں آجکل ہماری پوری قوم مبتلا ہے۔- آخر میں (آیت) لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ فرما کر اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ عالم کا کام اتنا ہی نہیں کہ عذاب سے ڈرا دیا بلکہ اس پر نظر رکھنا بھی ہے کہ اس کی تبلیغ و دعوت کا اثر کتنا اور کیا ہوا، ایک دفعہ مؤ ثر نہیں ہوئی تو بار بار کرتا رہے، تاکہ اس کا نتیجہ يَحْذَرُوْنَ برآمد ہوسکے یعنی قوم کا گناہوں سے بچنا واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَاۗفَّۃً۝ ٠ ۭ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــۃٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَۃٌ لِّيَتَفَقَّہُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْہِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ۝ ١٢٢ ۧ- نفر - النَّفْرُ : الانْزِعَاجُ عن الشیءِ وإلى الشیء، کالفَزَعِ إلى الشیء وعن الشیء . يقال : نَفَرَ عن الشیء نُفُوراً. قال تعالی: ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر 42] ، وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء 41] ونَفَرَ إلى الحربِ يَنْفُرُ ويَنْفِرُ نَفْراً ، ومنه : يَوْمُ النَّفْرِ. قال تعالی: انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا - [ التوبة 41] ، إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة 39] ، ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 38] ، وَما کانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ- [ التوبة 122] . - ( ن ف ر ) النفر - ( عن کے معی کسی چیز سے رو گردانی کرنے اور ( الی کے ساتھ ) کسی کی طرف دوڑنے کے ہیں جیسا کہ نزع کا لفظ الیٰ اور عن دونوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے محاورہ ہے نفر عن الشئی نفورا کسی چیز سے دور بھاگنا ۔ قرآن میں ہے ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر 42] تو اس سے ان کی نفرت ہی بڑھی ۔ وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء 41] مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں ۔ نفر الی الحرب ( ض ن ) نفر لڑائی کیلئے نکلنا اور اسی سی ذی الحجہ کی بار ھویں تاریخ کو یوم النفر کہا جاتا ہے کیوں کہ اس روز حجاج منیٰ سے مکہ معظمہ کو واپس ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا[ التوبة 41] تم سبکسار ہو یا گراں بار ( یعنی مال واسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت گھروں سے نکل آؤ ۔ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة 39] اگر نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا ۔ ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 38] تمہیں کیا ہوا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو وما کان الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة 122] اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے - كف - الْكَفُّ : كَفُّ الإنسان، وهي ما بها يقبض ويبسط، وكَفَفْتُهُ : أصبت كَفَّهُ ، وكَفَفْتُهُ : أصبته بالکفّ ودفعته بها . وتعورف الکفّ بالدّفع علی أيّ وجه کان، بالکفّ کان أو غيرها حتی قيل : رجل مَكْفُوفٌ لمن قبض بصره، وقوله تعالی: وَما أَرْسَلْناكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ [ سبأ 28] أي : كافّا لهم عن المعاصي، والهاء فيه للمبالغة کقولهم : راوية، وعلّامة، ونسّابة، وقوله :- وَقاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَما يُقاتِلُونَكُمْ كَافَّةً [ التوبة 36] قيل : معناه : كَافِّينَ لهم كما يقاتلونکم کافّين «2» ، وقیل : معناه جماعة كما يقاتلونکم جماعة، وذلک أن الجماعة يقال لهم الکافّة، كما يقال لهم الوازعة لقوّتهم باجتماعهم، وعلی هذا قوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة 208] ، وقوله : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف 42] فإشارة إلى حال النادم وما يتعاطاه في حال ندمه . وتَكَفَّفَ الرّجل : إذا مدّ يده سائلا، واسْتَكَفَّ : إذا مدّ كفّه سائلا أو دافعا، واسْتَكَفَّ الشمس : دفعها بكفّه، وهو أن يضع کفّه علی حاجبه مستظلّا من الشمس ليرى ما يطلبه، وكِفَّةُ المیزان تشبيه بالکفّ في كفّها ما يوزن بها، وکذا كِفَّةُ الحبالة، وكَفَّفْتُ الثوب : إذا خطت نواحيه بعد الخیاطة الأولی.- ( ک ف ف ) الکف - کے معنی ہاتھ کی ہتھیلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔ الکف کے معنی ہاتھ کی ہتھلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ کففتہ کے اصل معنی کسی کی ہتھیلیپر مارنے یا کسی کو ہتھلی کے ساتھ مار کر دو ر ہٹا نے اور روکنے کے ہیں پھر عرف میں دور ہٹانے اور روکنے کے معنی میں استعمال ہونے لگانے خواہ ہتھلی سے ہو یا کسی اور چیز سے رجل مکفو ف البصر جس کی مینائی جاتی رہی ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَما أَرْسَلْناكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ [ سبأ 28] اور ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے تم کو گناہوں سے روکنے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ میں کافۃ کے معنی لوگوں کو گناہوں سے روکنے والا کے ہیں ۔ اس میں ہا مبالغہ کے لئے ہے ۔ جیسا کہ روایۃ وعلامۃ اور نشابۃ میں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَقاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَما يُقاتِلُونَكُمْ كَافَّةً [ التوبة 36] اور تم سب کے سب مشرکون سے لڑو جیسے وہسب کے سب تم سے لڑتے ہیں میں بعض نے دونوں جگہوں میں کا فۃ کے معنیکا فین یعنی روکنے والے کیے ہیں ۔ اور بعض نے یہ معنی کیا ہے ۔ کہ جماعۃ یعنی اجتماعی قوت کی وجہ سے اسے کافۃ بھی کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة 208] مومنوں اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ میں بھی کافۃ بمعنی جماعت ہی ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔ پشمان ہونے والے کی حالت کی طرف اشارہ ہے ۔ کیونکہ انسان پشمانی کی حالت میں ہاتھ ملتا ہے ۔ تکفف الرجل سوال کے لئے ہاتھ پھیلانا استکف سوال یا مدافعت کیلئے ہاتھ پھیلانا استکف الشمس ہتھلی کے ذریعہ دھوپ کو دفع کرتا اور وہ اس طرح کہ دھوپ کی شعا عوں کو روکنے کے لئے ابرؤں پر بطور سایہ ہاتھ رکھ لے تاکہ جس چیز کو دیکھنا مطلوب ہو آسانی سے دیکھی جا سکے ۔ کفۃ المیزان ترازو کا پلڑا ۔ کیونکہ وہ بھی موزوں چیز کو روک لینے میں ہتھیلی کے مشابہ ہوتا ہے ۔ ایسے ہی کفۃ الحبالۃ ہے جس کے معنی شکاری کے پھندا کے ہیں ۔ کففت التوب ۔ کچی سلائی کے بعد کپڑے کے اطراف کو سینا ۔- «لَوْلَا»- يجيء علی وجهين :- أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] .- والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن .- ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ - طَّائِفَةُ- وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی:- فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك .- الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو )- فقه - الفِقْهُ : هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد، فهو أخصّ من العلم . قال تعالی: فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء 78] - ( ف ق ہ ) الفقہ - کے معنی علم حاضر سے علم غائب تک پہچنچنے کے ہیں اور یہ علم سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء 78] ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والانَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- حذر - الحَذَر : احتراز من مخیف، يقال : حَذِرَ حَذَراً ، وحذرته، قال عزّ وجل : يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر 9] ، وقرئ : وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَ 3» ، وقال تعالی: وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ- [ آل عمران 28] ، وقال عزّ وجل : خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء 71] ، أي : ما فيه الحذر من السلاح وغیره، وقوله تعالی: هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون 4] ، وقال تعالی:- إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن 14] ، وحَذَارِ ، أي : احذر، نحو :- مناع، أي : امنع .- ( ح ذ ر) الحذر ( س) خوف زدہ کرنے والی چیز سے دور رہنا کہا جاتا ہے حذر حذرا وحذرتہ میں اس سے دور رہا ۔ قرآن میں ہے :۔ يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر 9] آخرت سے ڈرتا ہو ۔ وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَاور ہم سب باسازو سامان ہیں ۔ ایک قرآت میں حذرون ہے هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون 4] یہ تمہاری دشمن میں ان سے محتاط رہنا ۔ إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن 14] تمہاری عورتوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ( بھی ) ہیں سو ان سے بچتے رہو۔ حذر ۔ کسی امر سے محتاط رہنے کے لئے کہنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 28] اور خدا تم کو اپنے ( غضب ) سے محتاط رہنے کی تلقین کرنا ہے الحذر بچاؤ ۔ اور آیت کریمہ :۔ خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء 71] جہاد کے لئے ) ہتھیار لے لیا کرو ۔ میں حذر سے مراد اسلحۃ جنگ وغیرہ ہیں جن کے ذریعہ دشمن سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے حذار ( اسم فعل بمعنی امر ) بچو جیسے مناع بمعنی امنع - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

دینی علم حاصل کرنا ضروری ہے - قول باری ہے وما کان المومنون لینفروا گا فۃ فلولا نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین اور کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے ، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل کر آئے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے ۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اس آیت نے قول باری انفروا اثبات او انفروا جمعیا ً پھر الگ الگ دستوں کی شکل میں نکلویا اکٹھے ہو کر کو منسوخ کردیا ہے نیز قول باری انفروا اخفا فاً و ثقا لا ً نکل پڑو ہلکے اور بوجھل بھی اس آیت کی بنا پر منسوخ ہوگیا ۔ اللہ تعالیٰ نے زیر بحث آیت میں فرمادیا کہ اہل ایمان کے لیے ضروری نہیں کہ وہ سب کے سب فوجی مہمات میں نکل پڑیں اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ میں تنہا چھوڑ جائیں بلکہ ہونایہ چاہیے کہ مدینہ میں کچھ لوگ دین کی سمجھ پیدا کرنے کے لیے رہ جائیں اور جب مجاذ پر جانے والے لوگ واپس آئیں تو یہ لوگ انہیں دین کی باتیں سنا کر اللہ کی ذت سے ڈرائیں ۔ حسن کا قول ہے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ آبادی کے ہر حصے سے لوگ نکل کر آئیں اور دین کی سمجھ پیدا کریں پھر اپنی اپنی قوم کی طرف واپس جا کر پیچھے رہ جانیوالے لوگوں کو دین کی باتیں بتا کر ان کے دلوں میں اللہ کا خوف پیدا کریں ۔ یہ تاویل ظاہر آیت سے زیادہ مشابہ ہے اس لیے کہ ارشاد باری ہے فلو لا نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھم فی الدین ظاہر کلام اس امر کا مقتضی ہے کہ نکل کر آنے والے لوگوں کا گروہ ہی دین کی سمجھ پیدا کر کے واپس جا کر اپنے اپنے لوگوں کو دین کی باتیں سنا کر اللہ کے عذاب سے ڈرائے ۔ پہلی تاویل کی بنا پر وہ لوگ دین کی سمجھ پیدا کریں جن میں سے ایک گروہ محاذ پر آگیا ہو اور بعد میں یہی لوگ محاذ پر جانے والے لووں کو ان کی واپسی پر دین کی باتیں بتائیں۔- یہ تاویل دو وجوہ سے بعید ہے۔ اول یہ کہ عطف کا قاعدہ یہ ہے کہ اس کا تعلق اپنے متصل لفظ کے ساتھ ہوتا ہے اس سے پہلے آنے والے لفظ کے ساتھ نہیں ہوتا اس بنا پر قول باری منھم طائفۃ لیتفقھوا میں یہ ضروری ہے کہ طائفہ سے مراد وہ گروہ ہو جو دین کی سمجھ پیدا کرے اور دین کی باتیں بتا کر اللہ کی ذات سے ڈرانے کا کام کرے۔ اس فقرے کے یہ معنی نہیں ہوسکتے کہ ہر ایسے گروہ میں سے جو دین کی سمجھ پیدا کرے ایک طائفہ محاذ کی طرف نکل جائے۔ اس لیے کہ یہ مفہوم کلام کی ترتیب کو اس کے ظاہر سے ہٹادینے کا مقتضی ہے نیز اس سے کلام میں ت قدیم و تاخیر کا اثبات بھی لازم آتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قول باری لیتفقھوا فی الدین کو سامنے رکھتے ہوئے آیت میں دار و لفظ طائفہ دین کی سمجھ پیدا کرنے کے کام کے لیے آیت کے لفظ فرقہ سے زیادہ موزوں ہے جس سے پھر ایک طائفہ محاذ پر جانے کے لیے نکلنے والا ہو ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دین کی سمجھ پیدا کرنے کے لیے ایک طائفہ کا نکلنا تو سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ اس مقصد کے لیے باہرنکلا جاسکتا ہے۔ لیکن وہ فرقہ جس میں سے ایک طائفہ محاذ کی طرف نکل گیا ہو، دین میں اس لیے سمجھ نہیں پیدا کرتا تا کہ اس کا ایک گروہ نکل کر میدان جنگ میں چلا گیا ہے، اس لیے کہ اس فرقہ کو تفقہ فی الدین تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشاہدہ اور آپ کی صحبت میں مسلسل رہنے کی بنا پر حاصل ہوجاتا ہے۔ انہیں تفقہ فی الدین اس لیے حاصل نہیں ہوتا کہ انکا ایک طائفہ محاذ پر چلا گیا ہے۔ اس لیے کلام کو اس معنی پر محمول کرنے سے قول باری لیتفقھوا فی الدین کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہے گا ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جو لوگ دین کی سمجھ حاصل کرنیوالے ہیں ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو آبادیوں میں مقیم لوگوں میں سے نکل کر آتے ہیں اور پھر اپنی اپنی آبادی اور قوم میں واپس جا کر لوگوں کو دین کی باتیں بتا کر اللہ کی ذات سے ڈراتے ہیں۔- اس آیت میں علم دین کی طلب کے وجوب پر دلالت موجود ہے نیز یہ کہ اس کی طلب فرض کفایہ ہے اس لیے کہ آیت اس مفہوم کو متمضن ہے کہ دین میں سمجھ پیدا کرنے کے لیے آبادی میں ایک گروہ کو باہر نکلنے کا حکم دیا گیا جبکہ باقی ماندہ آبادی کو اپنی جگہ ٹھہرنے رہنے کا امر کیا گیا ہے اس لیے کہ ارشاد باری ہے وما کان المومنون لینفروا گا فۃ زیاد بن میمون نے حضرت انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ۔ علم یعنی علم دین حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ یہ روایت ہمارے نزدیک دو معنوں پر محمول ہے اول یہ کہ ایک مسلمان کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں جن مسائل اور دینی امور سے سابقہ رہتا ہے۔ انکے متعلق علم حاصل کرنا اس پر فرض ہے ، مثلاً ایک مسلمان کو اگر نماز کے ارکان و شرائط نیز اوقات کا علم نہ ہو تو اس پر ان باتوں کا سیکھنا فرض ہوگا ۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان دو سو درہم کا مالک ہوجائے تو اس پر عائد ہونے والی زکوٰۃ کا علم حاصل کرنا فرض ہوگا ۔ یہی حکم روزہ ، حج اور دیگر تمام فرائض کا ہے۔ روایت کا دوسرا مفہم یہ ہے کہ ہر مسلمان پر علم دین حاصل کرنا فر ض ہے لیکن یہ فرض کفایہ ہے کہ اگر آبادی میں سے چند لو اس کام کے لیے مختص ہوجائیں تو باقی ماندہ لوگوں سے یہ فریضہ ساقط ہوجائے گا ۔ آیت زیر بحث کی اس بات پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ ایسے دینی معاملات میں جن کا تعلق تمام لوگوں سے نہیں ہوتا ورنہ ہی تمام لوگوں کو ان کی ضرورت پیش آتی ہے خبر واحد کے ذریعہ حکم کا لزوم ہوجاتا ہے وہ اس طرح کہ جب ایک گروہ کو انداز پر مامور کرکے اسے لوگوں کو خدا کی ذات سے ڈراتے رہنے کا پابند کردیا گیا ہے تو اس کا مفہوم ہماری درج بالا بات پر دو وجوہ سے دلالت کرے ایک تو یہ کہ انداز یعنی ڈراتے رہنام اس فعل پر عمل کا مقتضی ہے جسے کرنے کا حکم ملا ہو، بصورت دیگر انداز کے کوئی معنی نہیں ہوں گے۔ دوم یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم دیا کہ انداز پر مامور گروہ سے زبان سے دین کی باتیں سن کر ہمارے دلوں میں خوف خدا پیدا ہوجائے اور ہم غیر مسلمانہ روش سے پرہیز کرنے لگ جائیں اس لیے کہ قول باری لعلھم یحذرون تا کہ وہ غیر مسلمانہ روش سے پرہیز کرتے کے معنی لیحذزوراتا کہ وہ پرہیز کرتے اور یہ مفہوم خبر واحد کی بنا پر لزوم عمل کے معنی کو متمضن ہے اس لیے طائفہ کا اسم ایک فرد پر بھی واقع ہوتا ہے۔- خبر واحد پر عمل لازم ہے - چنانچہ قول باری ولیشھد عذابھا طائفۃ من المومنین اور ان دونوں کی سزا کو اہل ایمان کا ایک طائفہ اپنی آنکھوں سے دیکھے کی تفسیر میں ایک روایت کے مطابق ایک فرد مراد ہے۔ نیز قول باری ہے وان طائفتان من المومنین اقتلوا اور اگر اہل ایمان کے دو گروہ باہم قتل و قتال پر اتر آئیں ۔ اگر دو مسلمان بھی ایک دوسرے کے خلاف لڑائی پر اتر آئیں تو وہ بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہوں گے اس بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہے لغت میں طائفہ کا لفظ بعض اور قطعہ کے الفاظ کی طرح ہے اور یہ مفہوم ایک فرد کے اندر بھی موجود ہوتا ہے۔ اس بنا پر قول باری من کل فرقۃ منھم طائفۃ کی مفہوم کے لحاظ سے وہی حیثیت ہے جو حیثیت اس صورت میں ہوتی جب آیت بعضھما یا شی منھا کے الفاظ پر مشتمل ہوتی ۔ اس لیے خبر واحد جس میں علم کو واجب کرنے کی اہلیت نہیں ہوتی ، اسے قبول کرلینے کے وجوب پر آیت کی دلالت بالکل واضح ہے۔ اگر آیت کی وہ تاویل اختیار کی جائے جو حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ باہر جانے والا گروہ وہ دراصل وہ گروہ ہے جو مدینہ منورہ سے نکل کھڑا ہو اور دین میں سمجھ پیدا کرنے والا گروہ وہ ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس رہ جائے تو اس صورت میں بھی خبر واحد کو قبول کرلینے کے لزوم پر آیت کی دلالت بحالہ قائم رہتی ہے۔ اس لیے کہ محاذ جنگ پر جانے کے لیے نکل کھڑا ہونے والا گروہ جب واپس آئے گا تو پیچھے رہ جانے والا گروہ اسے دین کی باتیں بتا کر اور نازل ہونے والے احکام کی خبردے کر اللہ کی ذات سے ڈرائے گا ۔ یہ چیز بھی مدینہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس کی موجودگی کے باوجود وہاں خبر واحد کو قبول کرلینے کے لزوم پر دلالت آتی ہے اس لیے کہ آیت کے سامعین پر یہ بات لازم کردی گئی ہے کہ مدینہ میں رہ کر دین کی سمجھ پیدا کرنے والوں کی زبان سے باتیں سن کر ان پر غیر مسلمانہ روش سے پرہیز واجب ہے۔- قول باری ہے یایھا الذین امنواقاتلوا الذین یلونکم منالکفار ولیحد وافیکم غلظۃ ۔ اے لوگوجو ایمان لائے ہو جنگ کرو ان منکرین حق سے جو تمہارے پاس ہیں اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر سختی پائیں اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کافروں سے جنگ کو خاص کردیا جو مسلمانوں کے آس پاس ہوں جب کہ سورت کی ابتداء میں فرمایا فاقتلوا المشرکین حیث و جدتموھم مشرکین کو جہاں کہیں پائو قتل کر دو ۔ نیز ایک اور مقام پر ارشاد ہوا وقاتلوا المشرکین گا فۃ اور تمام مشرکین کے خلاف جنگ کرو ۔ اللہ تعالیٰ نے تمام کافروں سے جنگ کو واجب کردیا لیکن خصوصیت کے ساتھ صرف ان کافروں کا ذکر کیا جو ہمارے آس پاس ہوں ، کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ تمام کافروں سے بیک وقت لڑنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ صرف کسی ایک گروہ کے خلاف جنگ کرنا ممکن ہے۔ اس بنا پر جو کافر ہم سے قریب ہوں ان کیخلاف جنگی کارروائی کرنا ان کافروں کی بہ نسبت زیادہ موزوں ہوگا جو ہم سے دور ہوں اس لیے کہ اگر ہم قریب کے کافروں سے پنجہ آزمائی ترک کر کے دور کے کافروں کے ساتھ نبر د آزماء میں مشغول ہوجائیں تو اس سے قریب کے کافروں کو مسلمانوں کے بال بچوں پر حملہ کرنے نیز دارالاسلام میں گھس آنے کا موقع مل جائے گا کیونکہ اس صورت میں گھرکا محاذ مجاہدین سے خالی ہوگا جس سے کافر پورا پورا فائدہ اٹھائیں گے۔ اسی بنا پر آس پاس اور قریب وجوار کے کافروں کے خلاف جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ۔ اس میں ایک پہلو بھی ہے کہ ابعد یعنی دور کے کافروں کے خلاف جنگ کرنے کا مکلف بنانا درست نہیں ہے اس لیے کہ ابعد کی کوئی حد نہیں ہے جہاں سے قتال کی ابتداء کی جاسکے۔ اس کے برعکس اقرب یعنی قرب جواز اور آس پاس کی حد ہوتی ہے ، نیز دور کے کافروں کے خلاف جنگی کارروائی اسی وقت ممکن ہوسکتی ہے جب قریب کے کافروں کے خلا ف جنگ کر کے ان پر غلبہ حاصل کرلیا جائے اور انہیں پوری طرح دیا جائے ۔- درج بالا وجوہ قرب و جوا ر اور آس پاس کے کافروں کے خلاف جنگ کرنے کی تخصیص کے حکم کے مقتضی ہیں ۔ قول باری ولیجد وافیکم غلظۃ میں ان کافروں کے ساتھ ہمیں سختی سے پیش آنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جنکے خلاف ہمیں جنگ کرنے کے لیے کہا گیا ہے ۔ اس سختی کا اظہار ہمارے قول ، انکے ساتھ ہمارے مذاکرات اور پیغامات کے اندر ہونا چاہیے کیونکہ اس کی وجہ سے ان کے دلوں میں ہماری ہیبت بیٹھ جائے گی ۔ انکے اذہان پر ہمارا رغب قائم ہوجائے گا اور انہیں ہماری طاقت و قوت کا احساس ہوجائے گا۔ دوسری طرف اس سختی کی وجہ سے دین کے بارے میں ہماری بصیرت اور مشرکین کے ساتھ پنجہ آزمائی میں ہمارے جوش و خروش کا اظہار ہوجائے گا اور یہ واضح ہوجائے گا کہ ہم دین کے معاملہ میں کس قدر سختیاں ہیں ۔ اسکے برعکس اگر مسلمانوں کی طرف سے گفتگو اور مذاکرات میں نرم رویہ کا اظہار ہوگا تو اس سے کافروں کے دلوں میں ان کے خلاف جرأت پیدا ہوگی اور وہ انہیں زک پہنچانے کی آس لگا بیٹھیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے دشمنوں کے خلاف جس طرز عمل کو اپنانے کا حکم دیا ہے اس کے یہ حدود ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٢) اور ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کو یہ بھی نہ چاہیے کہ جہاد کے لیے سب کے سب ہی نکل کھڑے ہوں اور (آپ کے زمانہ میں) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تنہا مدینہ منورہ میں چھوڑ دیں۔- ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر ہر بڑی جماعت میں سے ایک ایک چھوٹی جماعت (یعنی کچھ لوگ) جہاد میں جایا کریں اور کچھ جماعت مدینہ منورہ میں رہ جایا کرے تاکہ یہ باقی ماندہ لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کے وقت میں (اور آپ کے بعد علماء شہر سے) دینی معلومات حاصل کرتے رہیں اور تاکہ یہ لوگ اس قوم کو جو جہاد میں گئی ہے، جب کہ وہ جہاد سے ان کے پاس آئیں ان کو دین کی باتیں سنا کر اللہ کی نافرمانی سے ڈرادیں تاکہ ان کو معلوم ہوجائے کہ کن کن باتوں کا حکم دیا گیا ہے اور کن کن باتوں سے منع کیا گیا ہے۔- اور کہا گیا ہے کہ یہ آیت کریمہ بنی اسد کے بارے میں نازل ہوئی وہ قحط سالی میں گرفتار ہوئے، تو مدینہ منورہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آکر مدینہ منورہ میں چیزیں مہنگی کردیں اور فسادات سے مدینہ منورہ کے رستوں کو خراب کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کی ممانعت فرمادی۔- نیز حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر (رض) سے روایت کیا گیا ہے کہ مومنین جہاد کے جذبہ وشوق میں جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی لشکر کو روانہ فرماتے تو سب کے سب نکل کھڑے ہوتے۔- اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ منورہ میں چند کمزور آدمیوں کے ساتھ چھوڑ جاتے، اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔- شان نزول : (آیت) وما کان المومنون لینفروا “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت عکرمہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت ” الا تنفروا یعذبکم عذابا الیما “۔ نازل ہوئی اور دیہات میں سے کچھ لوگ جہاد میں نہیں گئی تھے اور اپنی قوم کو دین کی باتیں سکھا رہے تھے، اس پر منافقین کہنے لگے کہ دیہاتیوں میں سے کچھ لوگ جہاد میں نہیں گئے، یہ دیہاتی ہلاک ہوگئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٢ (وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً ط) - مدینہ کے مضافات میں بسنے والے بدو قبائل کا تذکرہ پچھلی آیات میں ہوچکا ہے : (اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ کُفْرًا وَّنِفَاقًا ۔۔ ) یہ بدو لوگ کفر اور نفاق میں بہت زیادہ سخت تھے اور اس کا سبب علم دین سے ان کی نا واقفیت تھی۔ اس لیے کہ انہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت سے فیض یاب ہونے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ اب اس کے لیے یہ تو ممکن نہیں تھا کہ سارے بادیہ نشین لوگ اپنی اپنی آبادیاں چھوڑتے اور مدینہ میں آکر آباد ہوجاتے۔ چناچہ یہاں اس مسئلہ کا حل بتایا جا رہا ہے۔ - (فَلَوْلاَ نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآءِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ ) - یہاں اس مشکل کا حل یہ بتایا گیا کہ ہر علاقے اور ہر قبیلے سے چند لوگ آئیں اور صحبت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فیض یاب ہوں۔- (وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَ ) - یہاں اس سلسلے میں باقاعدہ ایک نظام و ضع کرنے کی ہدایت کردی گئی کہ مختلف علاقوں سے قبائل کے نمائندے آئیں ‘ مدینہ میں قیام کریں ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت میں رہیں ‘ اکابر صحابہ (رض) کی تربیت سے استفادہ کریں ‘ احکام دین کو سمجھیں اور پھر اپنے اپنے علاقوں میں واپس جا کر اس تعلیم کو عام کریں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :120 اس آیت کا منشا سمجھنے کے لیے اسی سورۃ کی آیت ۹۷ پیش نظر رکھنی چاہیے جس میں فرمایا گیا کہ: ” بدوی عرب کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور ان کے معاملہ میں اس امر کے امکانات زیادہ ہیں کہ اس دین کی حدود سے ناواقف رہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے“ ۔ وہاں صرف اتنی بات بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا تھا کہ دارالاسلام کی دیہاتی آبادی کا بیشتر حصہ مرض نفاق میں اس وجہ سے مبتلا ہے کہ یہ سارے کے سارے لوگ جہالت میں پڑے ہوئے ہیں ، علم کے مرکز سے وابستہ نہ ہونے اور اہل علم کی صحبت میسر نہ آنے کی وجہ سے اللہ کے دین کی حدود ان کو معلوم نہیں ہیں ۔ اب یہ فرمایا جا رہا ہے کہ دیہاتی آبادیوں کو اس حالت میں پڑا نہ رہنے دیا جائے بلکہ ان کی جہالت کو دور کرنے اور ان کے اندر شعور اسلامی پیدا کرنے کا اب باقاعدہ انتظام ہونا چاہیے ۔ اس غرض کے لیے یہ کچھ ضروری نہیں کہ تمام دیہاتی عرب اپنے اپنے گھروں سے نکل نکل کر مدینے آجائیں اور یہاں علم حاصل کریں ۔ اس کے بجائے ہونا یہ چاہیے کہ ہر دیہاتی علاقے اور ہر بستی اور قبیلے سے چند آدمی نکل کر علم کے مرکزوں ، مثلا مدینے اور مکے اور ایسے ہی دوسرے مقامات میں آئیں اور یہاں دین کی سمجھ پیدا کریں ، پھر اپنی اپنی بستیوں میں واپس جائیں اور عامۃ الناس کے اندر بیداری پھیلانے کی کوشش کریں ۔ یہ ایک نہایت اہم ہدایت تھی جو تحریک اسلامی کو مستحکم کرنے کے لیے ٹھیک موقع پر دی گئی ۔ ابتدا میں جبکہ اسلام عرب میں بالکل نیا نیا تھا اور انتہائی شدید مخالفت کے ماحول میں آہستہ آہستہ پھیل رہا تھا ، اس ہدایت کی کوئی ضرورت نہ تھی ، کیونکہ اس وقت تو اسلام قبول کرتا ہی وہ شخص تھا جو پوری طرح اسے سمجھ لیتا تھا اور ہر پہلو سے اس کو جانچ پرکھ کر مطمئن ہو جاتا تھا ۔ مگر جب یہ تحریک کامیابی کے مرحلوں میں داخل ہوئی اور زمین میں اس کا اقتدار قائم ہو گیا تو آبادیاں کی آبادیاں فوج در فوج اس میں شامل ہونے لگیں جن کے اندر کم لوگ ایسے تھے جو اسلام کو اس کے تمام مقتضیات کے ساتھ سمجھ بوجھ کر اس پر ایمان لاتے تھے ، ورنہ بیشتر لوگ محض وقت کے سیلاب میں غیر شعوری طور پر بہے چلے آرہے تھے ۔ نو مسلم آبادی کا یہ تیز رفتار پھیلاؤ بظاہر تو اسلام کے لیے سبب قوت تھا ، کیونکہ پیروان اسلام کی تعداد بڑھ رہی تھی ، لیکن فی الحقیقت اسلامی نظام کے لیے ایسی آبادی کسی کام کی نہ تھی بلکہ الٹی نقصان دہ تھی جو شعور اسلامی سے خالی ہو اور اس نظام کے اخلاقی مطالبات پورے کرنے کے لیے تیار نہ ہو ۔ چنانچہ یہ نقصان غزوہ تبوک کی تیاری کے موقع پر کھل کر سامنے آگیا تھا ۔ اس لیے عین وقت پر اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی کہ تحریک اسلامی کی توسیع جس رفتار کے ساتھ ہو رہی ہے اسی کی مطابق اس کے استحکام کی تدبیر بھی ہونی چاہیے ، اور وہ یہ ہے کہ ہر حصہ آبادی میں سے چند لوگوں کو لے کر تعلیم و تربیت دی جائے ، پھر وہ اپنے اپنے علاقوں میں واپس جا کر عوام کی تعلیم و تربیت کا فرض انجام دیں یہاں تک کہ مسلمانوں کی پوری آبادی میں اسلام کا شعور اور حدود اللہ کا علم پھیل جائے ۔ یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ تعلیم عمومی کے جس انتظام کا حکم اس آیت میں دیا گیا ہے اس کا اصل مقصد عامۃ الناس کو محض خواندہ بنانا اور ان میں کتاب خوانی کی نوعیت کا علم پھیلانا نہ تھا بلکہ واضح طور پر اس کا مقصد حقیقی یہ متعین کیا گیا تھا کہ لوگوں میں دین کی سمجھ پیدا ہو اور ان کو اس حد تک ہوشیار و خبردار کر دیا جائے کہ وہ غیر مسلمانہ رویہ زندگی سے بچنے لگیں ۔ یہ مسلمانوں کی تعلیم کا وہ مقصد ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود مقرر فرما دیا ہے اور ہر تعلیمی نظام کو اسی لحاظ سے جانچا جائے گا کہ وہ اس مقصد کو کہاں تک پورا کرتا ہے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام لوگوں میں نوشت و خواند اور کتاب خوانی اور دنیوی علوم کی واقفیت پھیلانا نہیں چاہتا ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام لوگوں میں ایسی تعلیم پھیلانا چاہتا ہے جو اوپر کے خط کشیدہ مقصد تک پہنچاتی ہو ۔ ورنہ ایک ایک شخص اگر اپنے وقت کا آئن شتائن اور فرائڈ ہو جائے لیکن دین کے فہم سے عاری اور غیر مسلمانہ رویہ زندگی میں بھٹکا ہوا ہو تو اسلام ایسی تعلیم پر لعنت بھیجتا ہے ۔ اس آیت میں لفظ لِیَتَفَقَّھُؤا فِی الدِّیْنِ جو استعمال ہوا ہے اس سے بعد کے لوگوں میں ایک عجیب غلط فہمی پیدا ہو گئی جس کے زہریلے اثرات ایک مدت تک مسلمانوں کی مذہبی تعلیم بلکہ ان کی مذہبی زندگی پر بھی بری طرح چھائے ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تو تَفَقُّہ فِی الدِّیْنِ کو تعلیم کا مقصود بتایا تھا جس کے معنی ہیں دین کو سمجھنا ، اس کے نظام میں بصیرت حاصل کرنا ، اس کے مزاج اور اس کی روح سے آشنا ہونا ، اور اس قابل ہو جانا کہ فکر و عمل کے ہر گوشے اور زندگی کے ہر شعبے میں انسان یہ جان سکے کہ کونسا طریق فکر اور کونسا طرز عمل روح دین کے مطابق ہے ۔ لیکن آگے چل کر جو قانونی علم اسطلاحا فقہ کے نام سے موسوم ہوا اور جو رفتہ رفتہ اسلامی زندگی کی محض صورت ( بمقابلہ روح ) کا تفصیلی علم بن کر رہ گیا ، لوگوں نے اشتراک لفظی کی بنا پر سمجھ لیا کہ بس یہی وہ چیز ہے جس کا حاصل کرنا حکم الہٰی کے مطابق تعلیم کا منتہائے مقصود ہے ۔ حالانکہ وہ کل مقصود نہیں بلکہ محض ایک جزوِ مقصود تھا ۔ اس عظیم الشان غلط فہمی سے جو نقصانات دین اور پیروان دین کو پہنچے ان کا جائزہ لینے کے لیے تو ایک کتاب کی وسعت درکار ہے ۔ مگر یہاں ہم اس پر متنبہ کرنے کے لیے مختصرا اتنا اشارہ کیے دیتے ہیں کہ مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کو جس چیز نے روح دین سے خالی کر کے محض جسم دین اور شکل دین کی تشریح پر مرتکز کر دیا ، اور بالآخر جس چیز کی بدولت مسلمانوں کی زندگی میں ایک نری بے جان ظاہر داری ، دین داری کی آخری منزل بن کر رہ گئی ، وہ بڑی حد تک یہی غلط فہمی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

98: سورۂ توبہ کے ایک بڑے حصے میں ان لوگوں کو ملامت کی گئی ہے جو تبوک کے جہاد میں شریک نہیں ہوئے تھے، روایات میں آتا ہے کہ ان آیات کریمہ کو سن کر صحابہ نے یہ ارادہ کرلیاکہ آئندہ جو بھی جہاد ہوگا اس میں وہ سب جایا کریں گے، اس آیت نے واضح فرمادیا کہ ہمیشہ کے لئے یہ سوچنا صحیح نہیں ہے، غزوۂ تبوک میں توایک خاص ضرورت پیش آئی تھی، جس کے وجہ سے تمام مسلمانوں کو نکل کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا تھا، لیکن عام حالات میں مسلمانوں کو تقسیم کار پر عمل کرنا چاہئے، جب تک امیر کی طرف سے نفیر عام (یعنی ہر شخص کو جہاد میں شریک ہونے) کا حکم نہ ہو، جہاد فرض کفایہ ہے، اگر ہر بڑی جماعت میں سے کچھ لوگ جہاد کے لئے چلے جایا کریں تو سب کی طرف سے یہ فرض کفایہ ادا ہوجائے گا، یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ جس طرح جہاد امت مسلمہ کی ایک ضرورت ہے اسی طرح دین کا علم حاصل کرنا بھی امت کی ایک اہم ضرورت ہے، اگر سب لوگ جہاد میں نکل کھڑے ہوں تو علم دین کی درس وتدریس کا فریضہ کون انجام دے گا، لہذا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ جہاد میں نہ جائیں وہ اپنے شہر میں رہ کر دین کا علم حاصل کریں۔ 99: متنبہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو احکام انہوں نے سیکھے ہیں، وہ ان کو بتا دیں کہ فلاں کام واجب ہے، اور فلاں کام گناہ ہے۔