اسلامی مرکز کا استحکام اولین اصول ہے اسلامی مرکز کے متصل جو کفار ہیں ، پہلے تو مسلمانوں کو ان سے نمٹنا چاہیے اسی حکم کے بموجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے جزیرۃ العرب کو صاف کیا ، یہاں غلبہ پاکر مکہ ، مدینہ ، طائف ، یمن ، یمامہ ، ہجر ، خیبر ، حضرموت وغیرہ کل علاقہ فتح کر کے یہاں کے لوگوں کو اسلامی جھنڈے تلے کھڑا کر کے غزوہ روم کی تیاری کی ۔ جو اول تو جزیرہ العرب سے ملحق تھا دوسرے وہاں کے رہنے والے اہل کتاب تھے ۔ تبوک تک پہنچ کر حالات کی ناساز گاری کی وجہ سے آگے کا عزم ترک کیا ۔ یہ واقعہ ٩ ھ کا ہے ۔ دسویں سال حجۃ الوداع میں مشغول رہے ۔ اور حج کے صرف اکاسی دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کو پیارے ہوئے ۔ آپ کے بعد آپ کے نائب ، دوست اور خلیفہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آئے اس وقت دین اسلام کی بنیادیں متزلزل ہو رہی تھیں کہ آپ نے انہیں مضبوط کر دیا اور مسلمانوں کی ابتری کو برتری سے بدل دیا ۔ دین سے بھاگنے والوں کو واپس اسلام میں لے آئے ۔ مرتدوں سے دنیا خالی کی ۔ ان سرکشوں نے جو زکوٰۃ روک لی تھی ان سے وصول کی جاہلوں پر حق واضح کیا ۔ امانت رسول ادا کی ۔ اور ان ابتدائی ضروری کاموں سے فارغ ہوتے ہی اسلامی لشرکوں کو سر زمین روم کی طرف دوڑا دیا کہ صلیب پرستوں کو ہدایت کریں ۔ اور ایسے ہی جرار لشکر فارس کی طرف بھیجے کہ وہاں کے آتش کدے ٹھنڈے کریں ۔ پس آپ کی سفارت کی برکت سے رب العالمین نے ہر طرف فتح عطا فرمائی ۔ کسری اور قیصر خاک میں مل گئے ۔ ان کے پرستار بھی غارت و برباد ہوئے ، ان کے خزانے راہ اللہ میں کام آئے ۔ اور جو خبر اللہ کے رسول سلام اللہ علیہ دے گئے تھے وہ پوری ہوئی ۔ جو کسر رہ گئی تھی آپ کے وصی اور ولی شہید محراب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پوری ہوئی ۔ کافروں اور منافقوں کی رگ ہمیشہ کے لیے کچل دی گئی ۔ ان کے زور ڈھا دیئے گئے ۔ اور مشرق و مغرب تک فاروقی سلطنت پھیل گئی ۔ قریب و بعید سے بھر پور خزانے دربار فاروق میں آنے لگے اور شرعی طور پر حکم الٰہی کے ماتحت مسلمانوں میں مجاہدین میں تقسیم ہو نے لگے ۔ اس پاک نفس ، پاک روح شہید کی شہادت کے بعد مہاجرین و انصار کے اجماع سے امر خلافت امیر المومنین شہید الدار حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوا ۔ اس وقت اسلام اپنی اصلی شان سے ظہور پذیر تھا ۔ اسلام کے لمبے اور زور آور ہاتھوں نے روئے زمین پر قبضہ جما لیا تھا ۔ بندوں کی گردنیں اللہ کے سامنے خم ہو چکیں تھیں ۔ حجت ربانی ظاہر تھی ، کلمہ الٰہی غالب تھا ۔ شان عثمان اپنا کام کرتی جاتی تھی ۔ آج اس کو حلقہ بگوش کیا تو کل اس کو یکے بعد دیگرے کئی ممالک مسلمانوں کے ہاتھوں زیر نگیں خلافت ہوئے ۔ یہی تھا اس آیت کے پہلے جملے پر عمل کہ نزدیک کے کافروں سے جہاد کرو ۔ پھر فرماتا ہے کہ لڑائی میں انہیں تمہارا زور بازو معلوم ہو جائے ۔ کامل مومن وہ ہے جو اپنے مومن بھائی سے تو نرمی برتے لیکن اپنے دشمن کافر پر سخت ہو ۔ جیسے فرمان ہے ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَسَوْفَ يَاْتِي اللّٰهُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّهُمْ وَيُحِبُّوْنَهٗٓ ۙ اَذِلَّةٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ ۡ يُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَاۗىِٕمٍ ۭ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭوَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ 54 ) 5- المآئدہ:54 ) یعنی اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو لائے گا جو اس کے محبوب ہوں اور وہ بھی اس سے محبت رکھتے ہوں ۔ مومنوں کے سامنے تو نرم ہوں اور کافروں پر ذی عزت ہوں ۔ اس طرح اور آیت میں ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھ والے آپس میں نرم دل ہیں ۔ کافروں پر سخت ہیں ۔ ارشاد ہے ( يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۭ وَمَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ۭوَبِئْسَ الْمَصِيْرُ 73 ) 9- التوبہ:73 ) یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو ۔ حدیث میں ہے کہ میں ضحوک ہوں یعنی اپنوں میں نرمی کرنے والا اور قتال ہوں یعنی دشمنان رب سے جہاد کرنے والا ۔ پھر فرماتا ہے کہ جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ پرہیز گاوروں کے ساتھ ہے ۔ یعنی کافروں سے لڑو ، بھروسہ اللہ پر رکھ ، اور یقین مانو کہ جب تم اس سے ڈرتے رہو گے ، اس کی فرماں برداری کرتے رہوگے ، تو اس کی مدد و نصرت بھی تمہارے ساتھ رہے گی ۔ دیکھ لو خیر کے تینوں زمانوں تک ملسمانوں کی یہی حالت رہی ۔ دشمن تباہ حال اور مغلوب رہے ۔ لیکن جب ان میں تقویٰ اور اطاعت کم ہوگئی ۔ فتنے فساد پڑ گئے ، اختلاف اور خواہش پسندی شروع ہو گئی ۔ تو وہ بات نہ رہی ، دشمنوں کی للچائی ہوئی نظریں ان کی طرف اُٹھیں ۔ وہ اپنی کمیں گاہوں سے نکل کھڑے ہوئے ، ادھر کا رخ کیا لیکن پھر بھی مسلمان سلاطین آپس میں اُلجھے رہے وہ ادھرادھر سے نوالے لینے لگے ۔ آخر دشمن اور بڑھے ، سلطنتیں کچلنی شروع کیں ، ملک فتح کرنے شروع کئے ۔ آہ اکثر حصہ اسلامی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہی حکم اس سے پہلے تھا اور اس کے بعد بھی ہے کہ وہ پھر سے مسلمانوں کو غلبہ دے اور کافروں کی چوٹیاں ان کے ہاتھ میں دے دے ۔ دنیا جہاں میں ان کا بول بالا ہو ۔ اور پھر سے مشرق سے لے کر مغرب تک پرچم اسلام لہرانے لگے ۔ وہ اللہ کریم وجواد ہے ۔
123۔ 1 اس میں کافروں سے لڑنے کا ایک اہم اصول بیان کیا گیا ہے۔ کافروں سے جہاد کرنا ہے جیسا کہ رسول اللہ نے پہلے جزیرہ، عرب میں آباد مشرکین سے قتال کیا، جب ان سے فارغ ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے مکہ، طائف، یمن، یمامہ، ہجر، خیبر، حضرموت وغیرہ ممالک پر مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما دیا اور عرب کے سارے قبائل فوج در فوج اسلام میں داخل ہوگئے، تو پھر اہل کتاب سے قتال کا آغاز فرمایا اور 9 ہجری میں رومیوں سے قتال کے لئے تبوک تشریف لے گئے جو جزیرہ، عرب سے قریب ہے اسی کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد خلفائے راشدین نے روم کے عیسائیوں سے قتال فرمایا، اور ایران کے مجوسیوں سے جنگ کی۔ 123۔ 2 یعنی کافروں کے لئے، مسلمانوں کے دلوں میں نرمی نہیں سختی ہونی چاہیے جیسا کہ ( اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ ) 48 ۔ الفتح :29) صحابہ کی صفت بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح (اَذِلَّةٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ ) 5 ۔ المائدہ :54) اہل ایمان کی صفت ہے۔
[١٤٠] پہلے متصل علاقہ کے کافروں سے جہاد پھر آگے بالترتیب :۔ یعنی اگر یہ جنگ اسلام کے راستہ کی رکاوٹوں کو دور کرنے یا بالفاظ دیگر فتنہ کو دور کرنے کی خاطر ہو تو سب سے پہلے اپنی ریاست سے متصل علاقے کے کافروں سے جنگ کی جائے پھر اس کے بعد ان سے جو اس کے ساتھ ملتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ اگر متصل علاقے کو چھوڑ کر اگلے علاقہ سے جنگ شروع کی جائے تو درمیانی علاقہ والے کافر مسلمانوں کو آگے اور پیچھے دونوں اطراف سے حملہ کر کے خطرات سے دو چار کرسکتے ہیں۔ اور اگر جنگ دفاعی قسم کی ہو جیسے مثلا روس نے افغانستان پر حملہ کردیا تھا۔ تو سب سے پہلے جہاد میں حصہ لینا افغانستان پر فرض ہوگا پھر ان علاقوں یا ملکوں پر جو افغانستان کی سرحد کے ساتھ ملتے ہیں یعنی پاکستان اور ایران وغیرہ پر۔- [١٤١] یعنی ان سے جان توڑ کر مقابلہ کرنا چاہیے اور ان سے نرمی کا برتاؤ ہرگز نہ ہونا چاہیے بلکہ ایسی سختی سے پیش آنا چاہیے کہ انہیں دوبارہ سر اٹھانے کی جرأت نہ ہو سکے۔ یہ مضمون قرآن میں متعدد مقامات پر آیا ہے کہ مومنوں کی شان ہی یہ ہے کہ وہ آپس میں تو بڑے رحم دل اور مہربان ہوتے ہیں لیکن کفار کے لیے بڑے سخت دل ہوتے ہیں۔- [١٤٢] جنگ کے ضابطوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے :۔ سختی کا یہ مطلب نہیں کہ تم ان تمام ضابطوں اور احکام کو بھول جاؤ جو اللہ اور رسول نے تمہیں دوران جنگ کے لیے دے رکھے ہیں مثلاً کافروں کی عورتوں، بچوں، راہب قسم کے لوگوں یا میدان جنگ میں عملاً شریک نہ ہونے والے لوگوں کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ کسی کی لاش کا مثلہ نہ کیا جائے گا۔ معاہدہ کی خلاف ورزی کسی قیمت پر نہ کی جائے گی۔ دشمن کے درختوں اور کھیتوں اور چوپایوں کو بر باد نہیں کیا جائے گا الا یہ کہ درخت وغیرہ جنگ کی راہ میں حائل ہو رہے ہوں۔ وغیرہ وغیرہ۔ ایسے تمام امور میں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے اور اللہ ایسے ڈرنے والوں ہی کا ساتھ دیتا اور ان کی مدد فرماتا ہے۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ : یعنی کفار میں سے جو لوگ تم سے جتنے زیادہ قریب ہیں اتنا ہی ان سے پہلے جہاد کرو، پہلے انھیں اسلامی قلمرو میں شامل کرنے کے بعد ان سے جہاد کرو جو ان کی بہ نسبت دور ہیں، کیونکہ ہر کام میں آسان سے آسان اور بہتر سے بہتر ہونے کا خیال سب سے پہلے رکھا جاتا ہے۔ اپنی سرحد سے ملنے والوں کے ساتھ لڑائی میں نہ زیادہ سواریوں کی ضرورت ہے نہ زیادہ اخراجات کی، نہ دور کے سفر کی مشقت ہے، نہ ان کے احوال سے باخبر رہنے کے لیے زیادہ محنت اور وسائل کی، کیونکہ آپ ان کے محل وقوع، ان کے مراکز قوت اور ان کی کمزوریوں سے خوب واقف ہیں۔ پھر دور والے دشمن سے لڑائی میں پیچھے سے اپنے ملک پر کسی دشمن کے حملے یا اندرونی خلفشار کا جو خطرہ رہتا ہے قریب والوں کے ساتھ جنگ میں وہ بھی نہیں ہوگا، بلکہ اپنی پشت محفوظ رہے گی۔ بیشک تمام مشرکین سے لڑنے کا حکم ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّةً ) [ التوبۃ : ٣٦ ] مگر ترتیب کو ملحوظ رکھنا لازم ہے۔ دعوت میں بھی یہی ترتیب ہے، پہلے گھر والے، پھر خاندان، پھر قبیلہ، پھر شہر، پھر اپنا ملک، پھر تمام دنیا اور جہاد میں بھی یہی ترتیب ہے، کیونکہ جہاد بھی دعوت ہی کا ایک حصہ ہے۔ چناچہ اسی ترتیب کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے اپنے خاص قبیلہ قریش سے جنگ کی، پھر جزیرۂ عرب کے دوسرے قبائل سے، پھر بنی قریظہ اور بنی نضیر سے، پھر خیبر اور فدک کے اہل کتاب سے جو مدینہ کے اردگرد تھے، پھر مکہ فتح ہوا اور پھر یمن اور بحرین حتیٰ کہ پورا جزیرۂ عرب مسلمان ہوگیا۔ جب ان سے فارغ ہوئے تو غزوۂ تبوک کی مہم پر ملک شام کے نصاریٰ سے جہاد کے لیے روانہ ہوئے۔ یہی ترتیب آپ کے بعد ابوبکر صدیق (رض) ، عمر فاروق شہید محراب (رض) اور دوسرے خلفاء نے ملحوظ رکھی۔ چناچہ ان کے زمانے میں پہلے ملک شام اور عراق و فارس فتح کیے گئے، پھر مصر، پھر مشرق کی طرف ہند، خراسان، کاشغر (چین) اور مغرب کی طرف افریقہ، اندلس اور فرانس، غرض مشرق سے مغرب تک اسلام کا پھریرا لہرانے لگا۔ والحمد للہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو دوبارہ جہاد کے ساتھ کفار کے تسلط کو ختم کرکے اپنے موجودہ ممالک میں اور دنیا بھر کے ممالک میں اللہ کے دین کو غالب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)- وَلْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَةً : لازم ہے کہ تم حملہ کرو تو اس کی شدت کفار کو واضح طور پر محسوس ہو اور اگر کبھی وہ حملہ کرنے کی غلطی کریں تو جواب میں انھیں کسی جگہ نرمی اور کمزوری نہ مل سکے۔ کیونکہ ایمان کا کمال ہی مسلمان بھائی کے لیے نرم ہونا اور کفار کے لیے سخت ہونا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رض) کی خوبی بتائی : (اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ ) [ الفتح : ٢٩ ] ” کافروں پر بہت سخت، آپس میں نہایت رحم دل۔ “ اور مجاہدین کی شان بیان فرمائی : (اَذِلَّةٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ ) [ المائدۃ : ٥٤ ] ” مومنوں پر بہت نرم ہوں گے، کافروں پر بہت سخت۔ “ - وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ : اس کا مشاہدہ پوری تاریخ اسلام میں ہوتا رہا ہے۔ مسلمانوں کے خلفاء و ملوک اور امراء و عوام جب متقی ہوتے اللہ تعالیٰ کی خاص معیت و نصرت ان کے ساتھ ہوتی اور ہر جگہ فتح ان کے قدم چومتی اور جب وہ ظالم یا فاسق ہوتے اور عیش و عشرت یا باہمی لڑائیوں میں مصروف ہوتے، تو اللہ کی مدد اٹھ جاتی اور دشمن ان کے علاقوں پر قابض ہوجاتے۔ اب بھی اللہ تعالیٰ کی معیت، ساتھ اور نصرت و تائید حاصل کرنی ہے تو وہ تقویٰ کے ساتھ ہی حاصل ہوگی، محض سائنسی ترقی یا کثرت تعداد سے کبھی نہیں۔
خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو ان کفار سے لڑو جو تمہارے آس پاس ( رہتے) ہیں اور ان کو تمہارے اندر سختی پانا چاہئے ( یعنی جہاد کے وقت بھی مضبوط رہنا چاہئے اور ویسے بھی غیر زمانہ صلح میں ان سے ڈھیلا پن نہ برتنا چاہیے اور یہ یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ ( کی امداد) متقی لوگوں کے ساتھ ہے ( پس ان سے ڈرو دبو مت) اور جب کوئی سورت ( جدید) نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین ( غربا مسلمین سے بطور تمسخر) کہتے ہیں کہ ( کہو) اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان میں ترقی دی ( آگے حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ تم جواب چاہتے ہو) سو ( سنو) جو لوگ ایماندار ہیں اس سورت نے ان کے ( تو) ایمان میں ترقی دی ہے اور وہ ( اس ترقی کے ادراک سے) خوش ہو رہے ہیں ( مگر چونکہ وہ امر قلبی ہے اور تم کو نصیب نہیں اس لئے اس کا ادراک بھی نصیب نہیں اور تمسخر کرتے ہو) اور جن لوگوں کے دلوں میں ( نفاق کا) آزاد ہے اس سورت نے ان میں ان کی ( پہلی) گندگی کے ساتھ اور ( نئی) گندگی بڑھا دی ( کیونکہ پہلے ایک حصہ قرآن کا انکار تھا اب اس جدید حصہ کا انکار مزید ہوا) اور وہ حالت کفر ہی میں مرگئے ( یعنی جو ان میں مرچکے ہیں وہ کافر مرے اور جو اسی اصرار پر رہیں گے وہ کافر مریں گے، حاصل جواب یہ ہوا کہ قرآن میں ایمان کو ترقی دینے کی بیشک خاصیت ہے لیکن محل میں قابلیت بھی تو ہو اور اگر پہلے سے خباثت مستحکمہ ہے تو اور بھی اس کو استحکام ہوجائے گا " در باغ لالہ روید و در شورہ بوم خس " ) اور کیا ان کو نہیں دکھائی دیتا کہ یہ لوگ ہر سال میں ایک بار یا دو بار کسی نہ کسی آفت میں پھنستے رہتے ہیں ( مگر) پھر بھی ( اپنی حرکات شنیعہ سے) باز نہیں آتے اور نہ وہ کچھ سمجھتے ہیں ( جس سے باز آنے کی آئندہ امید ہو، یعنی ان حوادث سے ان کو عبرت پکڑنا اور عبرت پکڑ کر اپنی اصلاح کرلینا چاہئے تھا، یہ تو ان کے تمسخر کا بیان ہوا جو اپنی مجالس میں کرتے تھے، آگے تنفر کا بیان ہے جو مجلس نبوی صلی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ان سے صادر ہوتا تھا، چناچہ ارشاد ہے اور جب کوئی سورت ( جدید) نازل کی جاتی ہے تو ایک دوسرے کو دیکھنے لگتے ہیں ( اور اشارہ سے باتیں کرتے ہیں) کہ تم کو کوئی ( مسلمان) دیکھتا تو نہیں ( کہ اٹھتا ہوا دیکھ لے اور حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جا لگائے) پھر ( اشاروں ہی اشاروں میں باتیں کر کے وہاں سے اٹھ کر) چل دیتے ہیں ( یہ لوگ مسجد نبوی سے کیا پھرے) خدا تعالیٰ نے ان کا دل ( ہی ایمان سے) پھیر دیا ہے اس وجہ سے کہ وہ محض بےسمجھ لوگ ہیں ( کہ اپنے نفع سے بھاگتے ہیں ) ۔- معارف و مسائل - سابقہ آیات میں جہاد کی ترغیب تھی، آیت مذکورہ بالا (آیت) يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا، الایہ میں یہ تفصیل بتلائی گئی ہے کہ کفار تو ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ان سے جہاد و قتال میں ترتیب کیا ہونا چاہئے، اس آیت میں ارشاد یہ ہے کہ کفار میں سے جو لوگ تم سے قریب ہوں پہلے جہاد ان سے کیا جائے قریب ہونا مقام کے اعتبار سے بھی ہوسکتا ہے کہ جائے سکونت سے جو قریب رہنے والے کفار ہیں وہ جہاد میں مقدم کئے جاویں اور رشتہ، نسب اور تعلقات کے اعتبار سے بھی جو قریب ہوں وہ دوسروں سے مقدم کئے جاویں کیونکہ اسلامی جہاد درحقیقت انہیں کی خیر خواہی کے تقاضہ سے ہے، اور خیر خواہی و ہمدردی میں رشتہ دار و تعلقات والے مقدم ہیں، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا ہے (آیت) وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ، یعنی اپنے قریبی عزیزوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تعمیل فرمائی اور سب سے پہلے اپنے خاندان کے لوگوں کو جمع کرکے کلمہ حق پہونچایا، اسی طرح مقامی قرب و بعد کا اعتبار کرکے مدینہ کے قرب و جوار کے کفار بنو قریظہ، بنو نضیر، اہل خیبر کو دوسروں پر مقدم کیا گیا، اس کے بعد باقی عرب سے قتال ہوا، اس سے فارغ ہونے کے بعد سب سے آخر میں کفار بنو قریظ، نضیر، اہل خیبر کو دوسروں پر مقدم کیا گیا اس کے بعد واقعہ پیش آیا۔- (آیت) وَلْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَةً ، غلظت کے معنی شدت و قوت کے ہیں، مراد یہ ہے کہ کفار کے ساتھ برتاؤ میں ایسی صورت اختیار کرو کہ وہ کسی حیثیت سے تمہاری کمزوری محسوس نہ کریں، فَزَادَتْھُمْ اِيْمَانًا اس آیت سے معلوم ہوا کہ آیات قرآنیہ کی تلاوت ان میں غور و فکر اور مقتضی پر عمل کرنے سے ایمان میں ترقی اور زیادتی پیدا ہوتی ہے، یہ زیادتی نور ایمان اور حلاوت ایمان کی ہوتی ہے، جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کو اللہ اور رسول کی اطاعت آسان نظر آنے لگتی ہے، عبادت میں لذت محسوس کرنے لگتا ہے، گناہوں سے طبعی نفرت پیدا ہوجاتی ہے اور ان سے کلفت محسوس ہونے لگتی ہے۔- حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا کہ ایمان جب قلب میں آتا ہے تو ایک سفید نورانی نقطہ جیسا ہوتا ہے، پھر جوں جوں ایمان میں ترقی ہوتی ہے تو یہ سفیدی بڑہتی جاتی ہے، یہاں تک کہ سارا قلب نورانی ہوجاتا ہے، اسی طرح کفر و نفاق شروع میں ایک سیاہ داغ کی طرح قلب پر لگتا ہے، پھر جوں جوں معاصی کا ارتکاب اور کفر کی شدت بڑہتی جاتی ہے یہ نقطہ بڑہتا رہتا ہے یہاں تک کہ پورا قلب سیاہ ہوجاتا ہے ( مظہر ی) - اسی لئے صحابہ کرام ایک دوسرے کو کہا کرتے تھے کہ کچھ دیر مل کر بیٹھو، دین اور آخرت کی باتوں کا مذاکرہ کرو تاکہ ہمارا ایمان بڑھے۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَۃً ٠ ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ ١٢٣- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- ولي - والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] ، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] ، وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] ، ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] ، وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] ، قال عزّ وجلّ : قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] ، ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62]- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - الولی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] میرا مددگار تو خدا ہی ہے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] اور خدا مومنوں کا کار ساز ہے ۔ ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کار ساز ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] خوب حمائتی اور خوب مددگار ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] اور خدا کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست ہے اور خوب دوست ہے ۔ اور ودسرے معنی یعنی اسم مفعول کے متعلق فرمایا : ۔ قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو خدا ان کے حامی اور ودست دار ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62] پھر قیامت کے تمام لوگ اپنے مالک پر حق خدائے تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- غلظ - الغِلْظَةُ ضدّ الرّقّة، ويقال : غِلْظَةٌ وغُلْظَةٌ ، وأصله أن يستعمل في الأجسام لکن قد يستعار للمعاني كالكبير والکثير . قال تعالی:- وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً [ التوبة 123] ، أي : خشونة . وقال : ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلى عَذابٍ غَلِيظٍ [ لقمان 24] ، مِنْ عَذابٍ غَلِيظٍ [هود 58] ، وجاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ [ التوبة 73] ، واسْتَغْلَظَ : تهيّأ لذلک، وقد يقال إذا غَلُظَ. قال : فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح 29] .- ( ع ل ظ ) الغلظۃ - ( غین کے کسرہ اور ضمہ کے ساتھ ) کے معنی موٹاپا یا گاڑھازپن کے ہیں یہ رقتہ کی ضد ہے اصل میں یہ اجسام کی صفت ہے ۔ لیکن کبیر کثیر کی طرح بطور استعارہ معانی کے لئے بھی استعمال ہوتاز ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً [ التوبة 123] چاہئے کہ وہ تم میں سختی محسوس کریں میں غلظتہ کے معنی سخت مزاجی کے ہیں ۔ نیز فرمایا۔ ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلى عَذابٍ غَلِيظٍ [ لقمان 24] پھر عذاب شدید کی طرف مجبور کر کے لیجائیں گے ۔ مِنْ عَذابٍ غَلِيظٍ [هود 58] عذاب شدید سے ۔ وجاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ [ التوبة 73] کافروں اور منافقوں سے لڑو اور ان پر سختی کرو ۔ استغلظ کے معنی موٹا اور سخت ہونے کو تیار ہوجانا ہیں اور کبھی موٹا اور سخت ہوجانے پر بھی بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح 29] پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی ۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔
(١٢٣) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان رکھنے والو بنی قریظہ، نضیر، فدک اور خیبر سے لڑو اور ان کو تماہرے اندر سختی پانا چاہیے اور اے مومنین کی جامعت یہ یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام کا انکے دشمنوں کے مقابلہ کے وقت مددگار ہے۔
آیت ١٢٣ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُمْ مِّنَ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوْا فِیْکُمْ غِلْظَۃً ط) - اس حکم میں اشارہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے بین الاقوامی اور آفاقی دور کا آغاز ہوچکا ہے ‘ اب اس دعوت کو چہار سو پھیلنا ہے اور دارالاسلام کی سرحدوں کو وسیع ہونا ہے۔ چناچہ حکم دیا جا رہا ہے کہ اسلامی حکومت کی سرحدوں پر جو کفار بستے ہیں ان سے قتال کرو ‘ اور جیسے جیسے یہ سرحدیں آگے بڑھتی جائیں تمہارے قتال کا سلسلہ بھی ان کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتا چلا جائے ‘ حتیٰ کہ اللہ کا دین پوری دنیا پر غالب آجائے۔ جیسے سورة الانفال میں جزیرہ نمائے عرب کی حد تک قتال جاری رکھنے کا حکم ہوا تھا : (وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ج) (آیت ٣٩) یعنی جب تک جزیرہ نمائے عرب سے کفر و شرک کا خاتمہ نہیں ہوجاتا اور اللہ کا دین اس پورے علاقے میں غالب نہیں ہوجاتا یہ جنگ جاری رہے گی۔ بہر حال آیت زیر نظر میں غلبۂ دین کے لیے بین الاقوامی سطح پر جدوجہد کے لیے اللہ کا واضح حکم موجود ہے اور اس سلسلے میں اسلام کا چارٹر بھی۔ اسی پر عمل کرتے ہوئے جزیرہ نمائے عرب سے اسلامی افواج جہاد کے لیے نکلی تھیں اور پھر اسلامی سرحدوں کا دائرہ وسیع ہوتا گیا تھا۔
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :121 آیت کے ظاہر الفاظ سے جو مطلب نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ دارالاسلام کے جس حصے سے دشمنان اسلام کا جو علاقہ متصل ہو ، اس کے خلاف جنگ کرنے کی اولین ذمہ داری اسی حصے کے مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے ۔ لیکن اگر آگے کے سلسلہ کلام کے ساتھ ملا کر اس آیت کو پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کفار سے مراد وہ منافق لوگ ہیں جن کا انکار حق پوری طرح نمایاں ہو چکا تھا ، اور جن کے اسلامی سوسائٹی میں خلط ملط رہنے سے سخت نقصانات پہنچ رہے تھے ۔ رکوع ۱۰ کی ابتداء میں بھی جہاں سے اس سلسلہ تقریر کا آغاز ہوا تھا ، پہلی بات یہی کہی گئی تھی کہ اب ان آستین کے سانپوں کا استیصال کرنے کے لیے باقاعدہ جہاد شروع کر دیا جائے ۔ وہی بات اب تقریر کے اختتام پر تاکید کے لیے پھر دہرائی گئی ہے تاکہ مسلمان اس کی اہمیت کو محسوس کریں اور ان منافقوں کے معاملہ میں ان نسلی و نسبی اور معاشرتی تعلقات کا لحاظ نہ کریں جو ان کے اور ان کے درمیان وابستگی کے موجب بنے ہوئے تھے ۔ وہاں ان کے خلاف”جہاد “ کرنے کا حکم دیا گیا تھا ۔ یہاں اس سے شدید تر لفظ ” قتال“ استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ ان کا پوری طرح قلع قمع کر دیا جائے ، کوئی کسر ان کی سرکوبی میں اٹھا نہ رکھی جائے ۔ وہاں” کفار“ اور ” منافق “ دو الگ لفظ بولے گئے تھے ، یہاں ایک ہی لفظ ” کفار“ پر اکتفا کیا گیا ہے ، تاکہ ان لوگوں کا انکار حق ، جو صریح طور پر ثابت ہو چکا تھا ، ان کے ظاہری اقرار ایمان کے پردے میں چھپ کر کسی رعایت کا مستحق نہ سمجھ لیا جائے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :122 یعنی اب وہ نرم سلوک ختم ہو جانا چاہیے جو اب تک ان کے ساتھ ہوتا رہا ہے ۔ یہی بات رکوع ۱۰ کی ابتدا میں کہی گئی تھی وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :123 اس تنبیہہ کے دو مطلب ہیں اور دونوں یکساں طور پر مراد بھی ہیں ۔ ایک یہ کہ ان منکرین حق کے معاملے میں اگر تم نے اپنے شخصی اور خاندانی اور معاشی تعلقات کا لحاظ کیا تو یہ حرکت تقوی کے خلاف ہوگی ، کیونکہ متقی ہونا اور خدا کے دشمنوں سے لاگ لگائے رکھنا دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں ، لہٰذا خدا کی مدد اپنے شامل حال رکھنا چاہتے ہو تو اس لاگ لپٹ سے پاک رہو ۔ دوسرے یہ کہ یہ سختی اور جنگ کا جو حکم دیا جا رہا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے ساتھ سختی کرنے میں اخلاق و انسانیت کی بھی ساری حدیں توڑ ڈالی جائیں ۔ حدود اللہ کی نگہداشت تو بہرحال تمہاری ہر کارروائی میں ملحوظ رہنی ہی چاہیے ۔ اس کو اگر تم نے چھوڑ دیا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تمہارا ساتھ چھوڑ دے ۔
100: اس آیت میں پھر اس مضمون کا خلاصہ بیان فرمایا گیا ہے جس سے اس سورت کی ابتدا ہوئی تھی۔ مشرکین سے براء ت کا جو اعلان کیا گیا تھا اس میں ہر مسلمان کا یہ فرض تھا کہ وہ ان مشرکین سے جنگ کے لئے تیار رہے، جو اس اعلان براء ت پر عمل نہ کریں۔ جیسا کے شروع میں عرض کیا گیا، وہ نومسلم جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے ان کے دل میں اپنے مشرک رشتہ داروں کے لئے نرم گوشہ ہوسکتا تھا، لہٰذا آخر سورت میں انہیں دوبارہ متوجہ کیا جارہا ہے کہ جس طرح اسلام کی تبلیغ میں ترتیب یہ ہونی چاہئے کہ اِنسان اپنے قریبی لوگوں سے ان کا آغاز کرے، اسی طرح جب جنگ کی نوبت آجائے تو اس میں بھی یہی ترتیب ہونی چاہئے کہ پہلے ان لوگوں سے جنگ ہونی چاہئے جو تمہارے قریب ہیں۔ ان کے بعد دوسروں کا نمبر آئے گا۔ 101: یعنی اُن کی قربت کی وجہ سے تمہارے دل میں کوئی نرم گوشہ پیدا نہ ہو جو تمہیں جہاد کے فریضے سے روک دے۔ نیز وہ لوگ تم میں کوئی کمزوری نہ پائیں، بلکہ ُانہیں تمہاری مضبوطی کا مکمل احساس ہونا چاہئے۔