Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ظالموں کو ان کے کیفر کردار کو پہنچاؤ مسلمانوں کو پوری طرح جہاد پر آمادہ کرنے کے لیے فرما رہا ہے کہ یہ وعدہ شکن قسمیں توڑنے والے کفار وہی ہیں جنہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جلا وطن کرنے کی پوری ٹھان لی تھی چاہتے تھے کہ قید کرلیں یا قتل کر ڈالیں یا دیس نکالا دے دیں ان کے مکر سے اللہ کا مکر کہیں بہتر تھا ۔ صرف ایمان کی بناء پر دشمنی کر کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مومنوں کو وطن سے خارج کر تے رھے بھڑ بھڑا کر اٹھ کھڑے ہوتے تھے تاکہ تجھے مکہ شریف سے نکال دیں ۔ برائی کی ابتداء بھی انہیں کی طرف سے ہے بدر کے دن لشکر لے کر نکلے حالانکہ معلوم ہو چکا تھا کہ قافلہ بچ کر نکل گیا ہے لیکن تاہم غرور و فخر سے اللہ کے لشکر کو شکست دینے کے ارادے سے مسلمانوں سے صف آراء ہوگئے جیسے کہ پورا واقع اس سے پہلے بیان ہو چکا ہے ۔ انہوں نے عہد شکنی کی اور اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر رسول اللہ کے حلیفوں سے جنگ کی ۔ بنو بکر کی خزاعہ کے خلاف مدد کی اس خلاف وعدہ کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر لشکر کشی کی ان کی خوب سرکوبی کی اور مکہ فتح کر لیا فالحمدللہ ۔ فرماتا ہے کہ تم ان نجس لوگوں سے خوف کھاتے ہو؟ اگر تم مومن ہو تو تمہارے دل میں بجز اللہ کے کسی کا خوف نہ ہونا چاہیئے وہی اس لائق ہے کہ اس سے ایماندار ڈرتے رہیں دوسری آیت میں ہے ان سے نہ ڈرو صرف مجھ سے ہی ڈرتے رہو میرا غلبہ ، میری سلطنت میری سزاء ، میری قدرت ، میری ملکیت ، بیشک اس قابل ہے کہ ہر وقت ہر دل میری ہیبت سے لزرتا رہے تمام کام میرے ہاتھ میں ہیں جو چاہوں کر سکتا ہوں اور کر گذرتا ہوں ۔ میری منشا کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔ مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت کا راز بیان ہو رہا ہے کہ اللہ قادر تھا جو عذاب چاہتا ان پر بھیج دیتا لیکن اس کی منشاء یہ ہے کہ تمہارے ہاتھوں انہیں سزا دے ان کی بربادی تم خود کرو تمہارے دل کی خود بھڑاس نکل جائے اور تمہیں راحت و آرام شادمانی و کامرانی حاصل ہو ۔ یہ بات کچھ انہیں کے ساتھ مخصوص نہ تھی بلکہ تمام مومنوں کے لیے بھی ہے ۔ خصوصاً خزاعہ کا قبیلہ جن پر خلاف عہد قریش اپنے حلیفوں میں مل کر چڑھ دوڑے ان کے دل اسی وقت ٹھنڈے ہوں گے ان کے غبار اسی وقت بیٹھیں گے جب مسلمانوں کے ہاتھوں کفار نیچے ہوں ابن عساکر میں ہے کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا غضبناک ہوتیں تو آپ ان کی ناک پکڑ لیتے اور فرماتے اے عویش یہ دعا کرو اللھم رب النبی محمد اغفر ذنبی اذھب غیظ قلبی واجرنی من مضلات الفتن اے اللہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پروردگار میرے گناہ بخش اور میرے دل کا غصہ دور کر اور مجھے گمراہ کن فتنوں سے بچالے ۔ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کی چاہے توبہ قبول فرما لے ۔ وہ اپنے بندوں کی تمام تر مصلحتوں سے خوب آگاہ ہے ۔ اپنے تمام کاموں میں اپنے شرعی احکام میں اپنے تمام حکموں میں حکمت والا ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے جو ارادہ کرتا ہے حکم دیتا ہے وہ عادل و حاکم ہے ظلم سے پاک ہے ایک ذرے برابر بھلائی برائی ضائع نہیں کرتا بلکہ اس کا بدلہ دنیا اور آخرت میں دیتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 اَ لَا حرف تحضیض ہے، جس سے رغبت دلائی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دے رہا ہے۔ 13۔ 2 اس سے مراد دارالندوہ کی مشاورت ہے جس میں رؤسائے مکہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جلا وطن کرنے، قید کرنے یا قتل کرنے کی تجویزوں پر غور کیا۔ 13۔ 3 اس سے مراد یا تو بدر کی جنگ میں مشرکین مکہ کا رویہ ہے کہ وہ اپنے تجارتی قافلے کی حفاظت کے لئے گئے، لیکن اس کے باوجود کہ انہوں دیکھ لیا کہ وہ قافلہ بچ کر نکل گیا ہے وہ بدر کے مقام پر مسلمانوں سے لڑنے کی تیاری کرتے اور چھیڑ خانی کرتے رہے، جس کے نتیجے میں بالآخر جنگ ہو کر رہی۔ یا اس سے مراد قبیلہ بنی بکر کی وہ امداد ہے جو قریش نے ان کی کی، جب کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلیف قبیلے خزاعہ پر چڑھائی کی تھی دراں حالیکہ قریش کی یہ امداد معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢] اعلان براءت کے بعد جہاد پر زور و ترغیب کی وجوہ :۔ اس سے پیشتر مسلمانوں کو جہاد کی متعدد بار ترغیب دی جا چکی تھی اور مسلمان کئی معرکے اور جنگیں بھی کرچکے تھے۔ اب اعلان برأت کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کے پچھلے مظالم یاد دلا دلا کر کافروں سے جنگ کرنے کی جو پرزور ترغیب دی ہے تو اس کی چند وجوہ تھیں مثلاً اعلان برأت کے وقت بھی مشرکین کی تعداد جزیرۃ العرب میں مسلمانوں سے زیادہ تھی اس لیے انہیں یہ خیال آسکتا تھا کہ ایسی ذلت گوارا کرنے کے بجائے سب مل کر اسلام کا ہی نام و نشان مٹا دیں اور عرب جیسی جنگ جوا اور دلیرقوم سے ایسا خطرہ کچھ بعیداز عقل بھی نہ تھا۔ کیونکہ ایک تو ان کے تمام معاہدات کالعدم قرار دیئے جا رہے تھے اور دوسرے جلاوطنی کی دھمکی یا جنگ پر تیار ہوجانے کا چیلنج دے دیا گیا تھا، تیسرے کعبہ سے ان کی تولیت کو ختم کردیا گیا تھا۔ چوتھے کعبہ میں ان کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا تھا اور مکہ ہی وہ تجارتی مرکز تھا جس پر بالخصوص مقامی مشرکوں اور آس پاس کے رہنے والے مشرک قبائل کی معیشت کا زیادہ تر انحصار تھا۔ پانچویں یہ کہ جو لوگ نئے نئے مسلمان ہو رہے تھے ان کے اکثر اقربا ابھی تک مشرک تھے۔ اور ان سے تعلقات برقرر رکھنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ لہذا ان وجوہ کی بنا پر یہ عین ممکن تھا کہ سب مشرک متحد ہو کر مسلمانوں سے ایک عظیم جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے یا کم از کم عرب بھر میں وسیع پیمانہ پر مسلمانوں سے خانہ جنگی شروع ہوجاتی لہذا ضروری تھا کہ ایسے موقع پر مسلمانوں کو جہاد کی پرزور تلقین کی جاتی اور ان کے ذہن سے ان خطرات کو دور کیا جاتا جو اس پالیسی پر عملدرآمد کرنے کی صورت میں انہیں نظر آ رہے تھے اور انہیں ہدایت کی جاتی کہ انہیں اللہ کی مرضی پوری کرنے میں کسی بات سے خائف نہیں ہونا چاہیے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَهُمْ : اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نہایت بلیغ طریقے سے کفار کے خلاف جنگ پر ابھارا ہے اور انھیں جوش اور غیرت دلائی ہے کہ جن لوگوں کے یہ جرائم ہیں کیا تم ان کے خلاف بھی نہیں لڑو گے ؟ پھر ان کے تین جرم بیان فرمائے، پہلا یہ کہ انھوں نے اپنے عہد توڑ ڈالے اور وہ قسمیں بھی جو عہد پختہ کرنے کے لیے کھائی تھیں، صلح حدیبیہ ہوجانے کے بعد بھی وہ بنو خزاعہ کے خلاف ( جو مسلمانوں کے حلیف تھے) بنو بکر کی پیٹھ ٹھونکتے اور اسلحہ وغیرہ سے ان کی مدد کرتے رہے، حالانکہ ان کا ایسا کرنا صلح کے معاہدے کی صریح خلاف ورزی تھی۔ دوسرا یہ کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تھے تو وہ آپ کے خلاف منصوبے سوچتے رہتے، جیسا کہ سورة انفال ( ٣٠) میں گزر چکا ہے کہ قتل، قید اور کم از کم یہ کہ آپ کو مکہ سے نکال دیں، یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنے کسی ارادے میں کامیاب نہ ہو سکے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اللہ کے حکم سے ہجرت کی اور تیسرا یہ کہ پہلی بار لڑنے کی ابتدا انھوں نے کی کہ بدر کے موقع پر جب ان کا تجارتی قافلہ بچ گیا تھا تو انھوں نے واپس جانے کے بجائے خواہ مخواہ جنگ چھیڑی۔ اس کے بعد احد، خندق اور بنو خزاعہ کے خلاف جنگ کی ابتدا بھی انھوں نے کی۔ ان تینوں میں سے ہر جرم ہی ان سے لڑنے کا کافی سبب ہے، اب یہ تین سبب جمع ہونے پر بھی کیا تم ان سے نہیں لڑو گے ؟ - اَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللّٰهُ اَحَقُّ : یہ بھی جنگ پر ابھارنے کا ایک زبردست طریقہ ہے کہ کسی کو کہا جائے کہ کیا تم دشمنوں سے ڈرتے ہو ؟ غیرت مند یہی کہے گا اور کر کے دکھائے گا کہ نہیں، میں دشمنوں سے نہیں ڈرتا، پھر مسلمانوں کی ہمت بندھائی کہ تم تو اللہ پر ایمان و یقین رکھنے والے ہو کہ فتح و شکست اور نفع و نقصان اسی کے ہاتھ میں ہے، ایسی صورت میں تو لازماً حق بنتا ہے کہ تم کفار کے بجائے اللہ سے ڈرو اور ان سے قتال کرو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اس کے بعد تیرہویں آیت میں مسلمانوں کو جہاد و قتال کی ترغیب کے لئے فرمایا کہ تم ایسی قوم کے ساتھ جنگ کے لئے کیوں تیار نہ ہوگے جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ سے نکالنے کا منصوبہ بنایا تھا، اور کہا تھا (آیت) لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ ، یعنی ایسا ضرور ہوگا کہ عزت و قوت والا کمزور ذلیل کو مدینہ سے نکال دے گا۔ ان کے نزدیک عزت والے وہ لوگ تھے اور مسلمانوں کو کمزور و ذلیل سمجھتے تھے، جس کے جواب میں حق تعالیٰ نے ان کے ہی قول کو اس طرح پورا کر دکھایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام نے ان کو مدینہ سے نکال کر یہ ثابت کردیا کہ عزت والے مسلمان ہی ہیں اور کمزور ذلیل یہود تھے۔- دوسری وجہ ان سے جنگ کرنے کی یہ ارشاد فرمائی : (آیت) وَهُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ ، یعنی جنگ و قتال کی پہل انہی لوگوں کی طرف سے ہوئی، اب تو صرف مدافعانہ کارروائی ہے جو ہر فطرت سلیمہ کا تقاضا ہے۔- پھر مسلمانوں کے دلوں سے ان لوگوں کا رعب دور کرنے کے لئے فرمایا (آیت) اَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ ، یعنی کیا تم لوگ ان سے خوف کھاتے ہو، حالانکہ خوف اور ڈرنا صرف اللہ تعالیٰ سے چاہئے۔ جس کے عذاب کو کوئی طاقت ٹلا نہیں سکتی، آخر میں (آیت) اِنْ كُنْتُمْ مُّؤ ْمِنِيْنَ فرما کر بتلا دیا کہ غیر اللہ سے ایسا خوف کھانا جو احکام شرعیہ کی ادائیگی میں حائل ہوسکے کسی مومن مسلمان کا کام نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَہُمْ وَہَمُّوْا بِـاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَہُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ۝ ٠ ۭ اَتَخْشَوْنَہُمْ۝ ٠ ۚ فَاللہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْہُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝ ١٣- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- نكث - النَّكْثُ : نَكْثُ الأَكْسِيَةِ والغَزْلِ قَرِيبٌ مِنَ النَّقْضِ ، واستُعِيرَ لِنَقْضِ العَهْدِ قال تعالی:- وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ [ التوبة 12] ، إِذا هُمْ يَنْكُثُونَ [ الأعراف 135] والنِّكْثُ- کالنِّقْضِ والنَّكِيثَةُ کالنَّقِيضَةُ ، وكلُّ خَصْلة يَنْكُثُ فيها القومُ يقال لها : نَكِيثَةٌ. قال الشاعر - مَتَى يَكُ أَمْرٌ لِلنَّكِيثَةِ أَشْهَد - ( ن ک ث ) النکث - کے معنی کمبل یا سوت ادھیڑ نے کے ہیں اور یہ قریب قریب نقض کے ہم معنی ہے اور بطور استعارہ عہد شکنی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ [ التوبة 12] اور اگر اپنی قسمیں توڑ ڈالیں ۔ إِذا هُمْ يَنْكُثُونَ [ الأعراف 135] تو وہ عہد توڑ ڈالتے ہیں ۔ النکث والنکثۃ ( مثل النقض والتقضۃ اور نکیثۃ ہر اس مشکل معاملہ کو کہتے ہیں جس میں لوگ عہد و پیمان توڑ ڈالیں شاعر نے کہا ( 437 ) متیٰ یک امر للنکیثۃ اشھد جب کوئی معاملہ عہد شکنی کی حد تک پہنچ جائے تو میں حاضر ہوتا ہون ۔- همم - الهَمُّ الحَزَنُ الذي يذيب الإنسان . يقال : هَمَمْتُ الشّحم فَانْهَمَّ ، والهَمُّ : ما هممت به في نفسک، وهو الأصل، وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِها[يوسف 24]- ( ھ م م ) الھم - کے معنی پگھلا دینے والے غم کے ہیں اور یہ ھممت الشحم فا نھم کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے چربی کو پگھلا یا چناچہ وہ پگھل گئی اصل میں ھم کے معنی اس ارادہ کے ہیں جو ابھی دل میں ہو قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِها[يوسف 24] اور اس عورت نے ان کا قصد کیا وہ وہ اس کا قصد کرلیتے۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - بدأ - يقال : بَدَأْتُ بکذا وأَبْدَأْتُ وابْتَدَأْتُ ، أي : قدّمت، والبَدْءُ والابتداء : تقدیم الشیء علی غيره ضربا من التقدیم . قال تعالی: وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسانِ مِنْ طِينٍ [ السجدة 7] - ( ب د ء ) بدء ات - بکذا وابتدءات میں نے اسے مقدم کیا ۔ اس کے ساتھ ابتدا کی ۔ البداء والابتداء ۔ ایک چیز کو دوسری پر کسی طور مقدم کرنا قرآن میں ہے وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ ( سورة السجدة 7) اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا ۔ - مَرَّةً- مَرَّةً ومرّتين، كفَعْلَة وفَعْلَتين، وذلک لجزء من الزمان . قال :- يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ [ الأنفال 56] ، وَهُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة 13] ، إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة 80] ، إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة 83] ، سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ [ التوبة 101] ، وقوله : ثَلاثَ مَرَّاتٍ [ النور 58] .- مرۃ ( فعلۃ ) ایک بار مرتان ض ( تثنیہ ) دو بار قرآن میں ہے : يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ [ الأنفال 56] پھر وہ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں ۔ وَهُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة 13] اور انہوں نے تم سے پہلی بار ( عہد شکنی کی ) ابتداء کی ۔إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة 80] اگر آپ ان کے لئے ستربار بخشیں طلب فرمائیں ۔ إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة 83] تم پہلی مرتبہ بیٹھ رہنے پر رضامند ہوگئے ۔ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ [ التوبة 101] ہم ان کو دو بار عذاب دیں گے ۔ ثَلاثَ مَرَّاتٍ [ النور 58] تین دفعہ ( یعنی تین اوقات ہیں ۔- خشی - الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28]- ( خ ش ی ) الخشیۃ - ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ - إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٣) تم لوگ مکہ والوں سے کیوں نہیں لڑتے، جنہوں نے اپنے ان معاہدوں کو جو کہ تمارے اور ان کے درمیان تھے توڑ ڈالا ہے اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کرنے کی تجویز کی، چناچہ وہ دارالندوہ میں مشورہ کے لیے جمع ہوئے انہوں نے پہلے عہد شکنی کی ہے کہ اپنے خلفاء بنی بکر کی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلفاء بنی خزاعہ کے خلاف مدد کی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ (اَلاَ تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّکَثُوْٓا اَیْمَانَہُمْ وَہَمُّوْا بِاِخْرَاج الرَّسُوْلِ ) - اے مسلمانو مشرکین مکہ نے صلح حدیبیہ کو خود توڑا ہے ‘ جبکہ تمہاری طرف سے اس معاہدے کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی تھی ‘ اور یہ وہی لوگ تو ہیں جنہوں نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے جلاوطنی پر مجبور کیا تھا۔ تو آخر کیا وجہ ہے کہ اب جب ان سے جنگ کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے تو تم میں سے کچھ لوگ تذ بذب کا شکار ہو رہے ہیں۔- (وَہُمْ بَدَءُ وْکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ط) - یعنی مکہ کے اندر مسلمانوں کو ستانے اور تکلیفیں پہنچانے کی کار ستانیاں ہوں یا غزوۂ بدر میں جنگ چھیڑنے کا معاملہ ہو یا صلح حدیبیہ کے توڑنے کا واقعہ ‘ تمہارے ساتھ ہر زیادتی اور بےاصولی کی پہل ہمیشہ ان لوگوں ہی کی طرف سے ہوتی رہی ہے ۔- (اَتَخْشَوْنَہُمْ ج ) - یہ متجسسانہ سوال ( ) کا انداز ہے کہ ذرا اپنے گریبانوں میں جھانکو ‘ اپنے دلوں کو ٹٹولو ‘ کیا واقعی تم ان سے ڈر رہے ہو ؟ کیا تم پر کوئی بزدلی طاری ہوگئی ہے ؟ آخر تم قریش کے خلاف اقدام سے کیوں گھبرا رہے ہو ؟- (فَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْہُ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ) - اب اس کے بعد اقدام کرنے کا آخری حکم قطعی انداز میں دیا جا رہا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :16 اب تقریر کا رخ مسلمانوں کی طرف پھرتا ہے اور ان کو جنگ پر ابھارنے اور دین کے معاملہ میں کسی رشتہ و قرابت اور کسی دنیوی مصلحت کا لحاظ نہ کرنے کی پُر زور تلقین کی جاتی ہے ۔ اس حصہ تقریر کی پوری روح سمجھنے کے لیے پھر ایک مرتبہ اس صورت حال کو سامنے رکھ لینا چاہیے جو اس وقت درپیش تھی ۔ اس میں شک نہیں کہ اسلام اب ملک کے ایک بڑے حصہ پر چھا گیا تھا اور عرب میں کوئی ایسی بڑی طاقت نہ رہی تھی جو اس کو دعوت مبارزت دے سکتی ہو ، لیکن پھر بھی جو فیصلہ کن قدم اور انتہائی انقلابی قدم اس موقع پر اُٹھایا جا رہا تھا اس کے اندر بہت سے خطرناک پہلو ظاہر بین نگاہوں کو نظر آرہے تھے: اوّلاً تمام مشرک قبائل کو بیک وقت معاہدات کی منسوخی کا چیلنج دے دینا ، پھر مشرکین کے حج کی بندش ، کعبے کی تولیت میں تغیر ، اور رسوم جاہلیت کا کلّی انسداد یہ معنی رکھتا تھا کہ ایک مرتبہ سارے ملک میں آگ سی لگ جائے اور اور مشرکین و منافقین اپنا آخری قطرہ خون تک اپنے مفادات اور تعصبات کی حفاظت کے لیے بہا دینے پر آمادہ ہو جائیں ۔ ثانیًا حج کو صرف اہل توحید کے لیے مخصوص کر دینے اور مشرکین پر کعبے کا راستہ بند کر دینے کے معنی یہ تھے کہ ملک کی آبادی کا ایک معتدبہ حصہ ، جو ابھی مشرک تھا ، کعبہ کی طرف اس نقل و حرکت سے باز رہ جائے جو صرف مذہبی حیثیت ہی سے نہیں بلکہ معاشی حیثیت سے بھی عرب میں غیر معمولی حیثیت رکھتی تھی اور جس پر اس زمانہ میں عرب کی معاشی زندگی کا بہت بڑا انحصار تھا ۔ ثالثًا جو لوگ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے ان کے لیے یہ معاملہ بڑی کڑی آزمائش کا تھا کیونکہ ان کے بہت سے بھائی بند ، عزیز اقارب ابھی تک مشرک تھے اور ان میں ایسے لوگ بھی تھے جن کے مفاد قدیم نظام جاہلی کے مناصب سے وابستہ تھے ۔ اب جو بظاہر تمام مشرکین عرب کا تہس نہس کر ڈالنے کی تیاری کی جا رہی تھی تو اس کے معنی یہ تھے کہ یہ نئے مسلمان خود اپنے ہاتھوں اپنے خاندانوں اور اپنے جگر گوشوں کو پیوند خاک کریں اور ان کے جاہ و منصب اور صدیوں کے قائم شدہ امتیازات کا خاتمہ کردیں ۔ اگرچہ فی الواقع ان میں سے کوئی خطرہ بھی عملًا بروئے کار نہ آیا ۔ اعلان براءت سے ملک میں حرب کلّی کی آگ بھڑکنے کے بجائے یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ تمام اطراف و اکناف عرب سے بچے کھچے مشرک قبائل اور امراء و ملوک کے وفد آنے شروع ہوگئے جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسلام و اطاعت کا عہد کیا اور ان کے اسلام قبول کر لینے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کو اس کی پوزیشن پر بحال رکھا ۔ لیکن جس وقت اس نئی پالیسی کا اعلان کیا جا رہا تھا اس وقت تو بہر حال کوئی بھی اس نتیجہ کو پیشگی نہ دیکھ سکتا تھا ۔ نیز یہ کہ اس اعلان کے ساتھ ہی اگر مسلمان اسے بزور نافذ کر نے کے لیے پوری طرح تیار نہ ہو جاتے تو شاید یہ نتیجہ برآمد بھی نہ ہو تا ۔ اس لیے ضروری تھا کہ مسلمانوں کو اس موقع پر جہاد فی سبیل اللہ کی پر جوش تلقین کی جاتی اور ان کے ذہن سے ان تمام اندیشوں کو دور کر دیا جاتا جو اس پالیسی پر عمل کرنے میں ان کو نظر آرہے تھے اور ان کو ہدایت کی جاتی کہ اللہ کی مرضی پوری کرنے میں انہیں کسی چیز کی پروا نہ کرنی چاہیے ۔ یہی مضمون اس تقریر کا موضوع ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

12: اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے مکہ مکرمہ میں ظلم شروع کیا اور یہ بھی کہ انہوں نے صلح حدیبیہ کو توڑنے میں پہل کی۔