[١٣] اعلان براءت کے بعد مشرکوں کے وفود کی مدینہ میں آمد اور قبول اسلام :۔ مسلمان یہ سمجھ رہے تھے کہ اس اعلان برأت کے بعد نامعلوم انہیں کیسے تلخ حالات سے دوچار ہونا پڑے گا اور ان کے یہ اندیشے بےجا بھی نہ تھے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے انہیں دو باتوں کی تلقین فرمائی ایک یہ کہ جہاد کے لیے پوری طرح مستعد رہیں، دوسرے لوگوں سے ڈرنے کے بجائے صرف اللہ سے ڈریں اور اسی پر بھروسہ کریں۔ چناچہ اللہ نے مشرکوں کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور بجائے اس کے کہ انہیں مقابلہ کی سوجھتی وہ وفود کی شکل میں مدینہ آئے اور اسلام قبول کرنے لگے اور ایسے وفود کی تعداد (70) ستر کے قریب شمار کی گئی ہے جیسا کہ سورة نصر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اِذَاجَاءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا) 110 ۔ النصر :1) چناچہ جو قبائل اسلام لائے آپ اس علاقے کا انتظام انہی کے سپرد فرما دیتے تھے۔- خ جہاد کے نتیجہ میں مسلمانوں سے پانچ وعدے :۔ آیت نمبر ١٤ اور ١٥ میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کے متعلق پانچ وعدے فرمائے۔ بالفاظ دے گر جہاد کے فوائد سے تعلق رکھنے والی پانچ خوشخبریاں سنائیں جو سب کی سب پوری ہوئیں۔ پہلی یہ کہ تمہارے دشمنوں پر کوئی ارضی یا سماوی عذاب نہیں آئے گا بلکہ انہیں یہ عذاب تمہارے ہاتھوں سے دلوایا جائے گا اور اس عذاب کی ابتداء غزوہ بدر سے ہی شروع ہوگئی تھی۔ دوسری یہ کہ مشرکوں کو رسوا کرے گا۔ اب اعلان برأت میں مشرکوں کی رسوائی کے جس قدر پہلو موجود ہیں اور جن کی تفصیل حاشیہ نمبر ٣ میں دی گئی ہے اس سے بڑھ کر ان کی رسوائی کیا ہوسکتی ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس رسوائی کو برداشت کرنے کے بغیر ان کے پاس کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ تیسری یہ کہ تمہیں ان پر مدد دے گا اور اس مدد کا آغاز بھی غزوہ بدر سے شروع ہوگیا تھا جس کی تفصیل پہلے دی جا چکی ہے۔ پھر اللہ کی یہ مدد ہر دم مسلمانوں کے شامل حال رہی، چوتھی یہ کہ مسلمانوں کے دل مشرکوں کے طلم و ستم سہہ سہہ کر بہت زخمی ہوچکے تھے اور ابتداً انہیں ہاتھ تک اٹھانے کی بھی اجازت نہ تھی۔ صرف ان کے ظلم و ستم برداشت کرنے کی اور درگزر کرنے کی تاکید کی جاتی رہی۔ پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ انہیں ستم رسیدہ کمزور مسلمانوں کے ہاتھوں ان مغرور و سرکش مشرکوں کو پٹواتا رہا تو ان مسلمانوں کے دل ان کی طرف سے ٹھنڈے ہوگئے کہ دلوں میں جاگزیں رنجشیں اور غصے سب کافور ہوگئے اور پانچویں یہ کہ انہیں مغرور کافروں میں سے اللہ جسے چاہے گا توبہ کی توفیق دے کر تمہارا بھائی اور تمہارا غمگسار بھی بنا دے گا اور اس کی مثالیں بیشمار ہیں جو ابتدائے اسلام سے لے کر تاہنوز جاری ہیں۔
قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ : ان دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے عہد توڑنے والے کفار سے لڑنے کی صورت میں مسلمانوں کے ساتھ پانچ وعدے کیے ہیں جو سب کے سب پورے فرمائے، پہلا یہ کہ ” يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ “ یعنی پہلی قوموں پر اللہ کی طرف سے قدرتی آفات کے ذریعے سے عذاب آتا تھا، اب تم ان سے لڑو، اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں انھیں عذاب دے گا، جو کفار کے قتل، زخمی، قید ہونے اور ان سے مال غنیمت کے حصول کی صورت میں ہوگا۔ دوسرا یہ کہ ” يُخْزِهِمْ “ انھیں رسوا کرے گا، ان کی فوجی قوتوں کا گھمنڈ توڑ کر ان کی حکومت کی عزت خاک میں ملا کر انھیں ذلیل و رسوا کرے گا۔ تیسرا یہ کہ ” وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ “ ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں غلبہ عطا کرے گا۔ اسے الگ اس لیے ذکر فرمایا کہ ہوسکتا تھا کہ کفار تو ذلیل ہوجائیں مگر مسلمانوں کے ہاتھ بھی کچھ نہ آئے۔ چوتھا یہ کہ ” وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ “ تمہارے ان سے لڑنے اور غلبہ پانے سے ان مومنوں کے سینوں کو شفا ملے گی جو ان کفار موذیوں کے ہاتھوں ظلم و ستم سہتے رہے۔ ان سے مراد وہ مسلمان ہیں جو مکہ اور دوسری جگہوں میں کفار کی ایذا کا نشانہ بنے۔ بعض نے فرمایا کہ ان سے مراد بنو خزاعہ ہیں جنھیں بنو بکر اور قریش نے بد عہدی کرکے سخت نقصان پہنچایا اور واقعی یہ لوگ بھی کفار کے زخم خوردہ لوگوں میں شامل تھے اور پانچواں یہ کہ ” وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوْبِهِمْ “ ان کے دلوں کے غصے کو دور کرے گا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ شفائے صدور ہی کی تاکید ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک الگ نعمت ہے۔ شفائے صدور سے مراد ان ظالموں کا قتل اور ان کی رسوائی ہے اور دلوں کا غصہ دور کرنے سے مراد مسلمانوں کو محکومی کی بےبسی میں جو غصہ کفار پر آتا تھا مگر کچھ کر نہ سکتے تھے، اب فتح و غلبہ کی صورت میں اس غصے کو دور کرنا ہے اور ویسے بھی شفائے قلوب کے بعد بھی ظلم و ستم کے جو آثار غصے کی صورت میں باقی رہتے ہیں الگ حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے واقعات سن کر دل میں غصہ تو آتا ہی ہے، جیسے اب بھارت وکشمیر، فلسطین و فلپائن، برما، عیسائی اور کمیونسٹ ممالک میں مسلمانوں پر ظلم کی داستانیں سن کر دل کو غصہ آتا ہے، کفار پر فتح یاب ہونے سے اس غصے کا بھی مداوا ہوتا ہے۔
چودھویں اور پندرہویں آیت میں بھی مسلمانوں کو جنگ و جہاد کی ترغیب ایک دوسرے عنوان سے دی گئی ہے، جس میں چند چیزیں بتلائی گئیں۔- اول یہ کہ اگر تم ان سے جنگ کے لئے تیار ہوگئے تو اللہ تعالیٰ کی مدد تھمارے شامل حال ہوگی، اور یہ قوم اپنے اعمال بد کی وجہ سے اللہ کے عذاب کی مستحق تو ہو ہی چکی ہے، مگر ان پر اللہ کا عذاب پچھلی قوموں کی طرح آسمان یا زمین سے نہیں آئے گا، بلکہ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ یعنی ان کو اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں سے عذاب دیں گے۔- دوسری یہ کہ اس جنگ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دلوں کو اس رنج و غم سے شفا عطا فرمائیں گے جو کفار کی طرف سے ان کو مسلسل پہونچتا رہا ہے۔- تیسرے یہ کہ ان کی غداری اور عہد شکنی کے سبب جو غیظ و غضب مسلمانوں کے دلوں میں پیدا ہوا تھا، انہی کے ہاتھوں ان کو عذاب دے کر ان کے غیظ کو دور فرمادیں گے۔- پچھلی آیت میں لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُوْنَ فرما کر مسلمانوں کو اس کی ہدایت کی گئی تھی کہ وہ کسی قوم سے اپنا غصہ اتارنے کے لئے نہ لڑیں، بلکہ ان کی اصلاح و ہدایت کو مقصد بنائیں، اس آیت میں یہ بتلا دیا کہ جب وہ اپنی نیت کو اللہ کے لئے صاف کرلیں اور محض اللہ کے لئے لڑیں تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسی صورتیں بھی پیدا فرما دیں گے کہ ان کے غم و غصہ کا انتقام بھی خود بخود ہوجائے۔
قَاتِلُوْہُمْ يُعَذِّبْہُمُ اللہُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِہِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْہِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ ١٤ ۙ- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - خزی - خَزِيَ الرّجل : لحقه انکسار، إمّا من نفسه، وإمّا من غيره . فالذي يلحقه من نفسه هو الحیاء المفرط، ومصدره الخَزَايَة ورجل خَزْيَان، وامرأة خَزْيَى وجمعه خَزَايَا . وفي الحدیث :«اللهمّ احشرنا غير خزایا ولا نادمین» والذي يلحقه من غيره يقال : هو ضرب من الاستخفاف، ومصدره الخِزْي، ورجل خز . قال تعالی: ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة 33] ، - ( خ ز ی ) خزی - ( س ) الرجل رسوا ہونا ۔ خواہ وہ رسوائی انسان کو خود اس کی ذات سے لاحق ہو یا غیر کی طرف سے پھر رسوائی اپنی جانب سے لاحق ہوتی ہے اسے حیائے مفرط کہاجاتا ہے اور اس کا مصدر خزابۃ ہے ۔ اس سے صیغہ صفت مذکر خزبان اور مونث خزلی خزابا ۔ حدیث میں ہے (110) اللھم احشرنا غیر خزایا و الاناد میں اے خدا ہمیں اس حالت میں زندہ نہ کرنا ہم شرم اور ندامت محسوس کرنیوالے ہوں ۔ اور جو رسوائی دوسروں کی طرف سے لاحق ہوتی ہے وہ ذلت کی ایک قسم ہے ۔ اور اس کا مصدر خزی ہے ۔ اور رجل خزی کے معنی ذلیل آدمی کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا :۔ ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة 33] دنیا میں انکی سوائی ہے ۔ کہ رسوائی اور برائی ہے ۔ - نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ- [ التوبة 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً- [ النساء 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة 116]- ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - شفا - والشِّفَاءُ من المرض : موافاة شفا السّلامة، وصار اسما للبرء . قال في صفة العسل : فِيهِ شِفاءٌ لِلنَّاسِ [ النحل 69] ، وقال في صفة القرآن : هُدىً وَشِفاءٌ [ فصلت 44] ، وَشِفاءٌ لِما فِي الصُّدُورِ [يونس 57] ، وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ [ التوبة 14] .- ( ش ف و ) شفا - الشفاء ( ض ) من المرض سلامتی سے ہمکنار ہونا یعنی بیماری سے شفا پانا یہ مرض سے صحت یاب ہونے کے لئے بطور اسم استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں شہد کے متعلق فرمایا : فِيهِ شِفاءٌ لِلنَّاسِ [ النحل 69] اس میں لوگوں کے ( امراض کی ) شفا ہے ۔ هُدىً وَشِفاءٌ [ فصلت 44] وہ ہدایت اور شفا ہے ۔ - وَشِفاءٌ لِما فِي الصُّدُورِ [يونس 57] وہ دلوں کی بیماریوں کی شفا ہے ۔ ، وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ [ التوبة 14] اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا بخشے گا ۔- صدر - الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] - ( ص در ) الصدر - سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11]
(١٤) اے مسلمانوں کی جماعت کیا ان سے لڑنے میں ڈرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ ان کے حکم کی خلاف ورزی میں ان سے ڈرا جائے ان سے تلواروں کے ساتھ لڑو، اللہ تعالیٰ ان کو شکست دے کر ذلیل کرے گا اور تمہیں غلبہ عطا فرمائے گا اور ان کے خلاف بنی خزاعہ کے دلوں کو خوشی عطا فرمائے گا کہ فتح مکہ کے دن تھوڑی سی دیر کے لیے حرم میں ان کے لیے قتال حلال ہوجائے گا۔- شان نزول : (آیت) ” قاتلوھم یعذبہم اللہ “۔ (الخ)- ابوالشیخ (رح) نے حضرت قتادہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ ہم سے بیان کیا گیا ہے کہ یہ آیت بنو خزاعہ کے قبیلے کے بارے میں اتری ہے جس وقت وہ بنو بکر کو مکہ مکرمہ میں قتل کررہے تھے اور حضرت عکرمہ (رض) سے روایت ہے کہ یہ آیت بنو خزاعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔