15۔ 1 یعنی جب مسلمان کمزور تھے تو یہ مشرکین ان پر ظلم و ستم کرتے تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے دل ان کی طرف سے بڑے دکھی اور مجروح تھے، جب تمہارے ہاتھوں وہ قتل ہونگے اور ذلت و رسوائی ان کے حصے میں آئے گی تو فطری بات ہے کہ اس سے مظلوم اور ستم رسیدہ مسلمانوں کے کلیجے ٹھنڈے اور دلوں کا غصہ فرو ہوگا۔
وَيَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ : اس سے پہلے پانچ الفاظ ” يُعَذِّبْهُمُ “ ” يُخْزِهِمْ “ ” يَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ “ ” يَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ “ اور ” يُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوْبِهِمْ “ فعل مضارع مجزوم تھے، کیونکہ وہ ” قَاتِلُوْهُمْ “ امر کا جواب تھے کہ لڑنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ تمہیں یہ پانچ انعام عطا فرمائے گا۔ اب ” وَيَتُوْبُ اللّٰهُ “ مجزوم نہیں بلکہ مرفوع ہے۔ معلوم ہوا یہاں سے نئی بات شروع ہو رہی ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے : ” اور اللہ توبہ کی توفیق دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔ “ یہاں اس جملے کے لانے کا مقصد یہ ہے کہ تمہارے جہاد کی صورت میں جب بڑے بڑے سرکشوں کی گردنیں خم ہوں گی، تو وہ اسلام کی حقانیت پر غور کریں گے اور یہ عام مشاہدہ ہے کہ لوگ غالب قوم کے دین اور ان کی تہذیب کو قبول کرتے ہیں، لہٰذا اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کو توبہ کی توفیق بھی دے گا، جیسا کہ فتح مکہ کے بعد عکرمہ بن ابی جہل، ابو سفیان، سہیل بن عمرو اور ان کے علاوہ فوج در فوج لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔ مگر اس کو ” قَاتِلُوْهُمْ “ کا جواب بنانے کے بجائے الگ اس لیے ذکر کیا ہے کہ توبہ کی توفیق صرف کفار سے لڑائی ہی پر موقوف نہیں بلکہ اسلام اتنا واضح، روشن، مدلل اور فطرت کے مطابق دین ہے کہ بعض لوگ لڑائی کے بغیر بھی اللہ کی توفیق سے اسے سینے سے لگا لیتے ہیں اور اس میں اتنی کشش اور اتنا حسن ہے کہ اسے مٹانے کی کوشش کرنے والے لوگ اور مسلمانوں پر فتح یاب ہوجانے والے کفار بھی اللہ کی توفیق سے اسے قبول کرلیتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں ہر جگہ مسلمان اگرچہ مغلوب ہیں، مگر اسلام تمام ادیان سے زیادہ یورپ، امریکہ اور دنیا بھر کے ممالک میں پھیل رہا ہے۔ تاتاریوں نے بھی بغداد فنا کرنے کے بعد آخر اسی اسلام کی آغوش میں پناہ لی اور اسلام کو مٹانے والے ہی صدیوں تک اس کے محافظ بنے رہے - ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے - پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے - وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ : وہ گزشتہ، موجودہ اور آئندہ کی ہر بات جانتا ہے اور اپنی کمال حکمت کے مطابق جسے چاہتا ہے توبہ کی توفیق سے نوازتا ہے۔ - ان آیات سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام (رض) اللہ تعالیٰ کے علم میں پکے مومن تھے، تبھی یہ پیش گوئیاں انھی مومنین کے ہاتھوں پوری ہوئیں، انھوں نے ہی مکہ اور جزیرۂ عرب فتح کیا، روم، شام، یمن، ایران، عراق، افریقہ و ایشیا، مشرق سے مغرب تک اللہ تعالیٰ نے انھی کے ہاتھوں اسلام پھیلایا۔ ان کے ذکر سے مومنوں کے دل ٹھنڈے ہوتے ہیں اور کفار کے دل غصے سے بھر جاتے ہیں، دیکھیے سورة فتح کی آخری آیت۔
چوتھی چیز یہ ارشاد فرمائی (آیت) وَيَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ ، یعنی ان میں سے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا اس کی توبہ قبول فرمالیں گے “۔- جس سے معلوم ہوا کہ اس جہاد کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ دشمن کی جماعت میں سے بہت سے لوگوں کو اسلام کی توفیق ہوجائے گی، وہ مسلمان ہوجائیں گے، چناچہ فتح مکہ میں بہت سے سرکش ذلیل و خوار ہوئے اور بہت سے لوگ مشرف باسلام ہوگئے۔- ان آیات میں جن حالات و واقعات کی خبر بطور پشیگوئی دی گئی ہے تاریخ شاہد ہے کہ وہ سب ایک ایک کرکے اسی طرح مشاہدہ میں آئے جس طرح قرآن حکیم نے خبر دی تھی، اس لئے یہ آیات بہت سے معجزات پر مشتمل ہیں۔
وَيُذْہِبْ غَيْظَ قُلُوْبِہِمْ ٠ ۭ وَيَتُوْبُ اللہُ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ ٠ ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ ١٥- ذهب - الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ،- ( ذ ھ ب ) الذھب - ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ - غيظ - الغَيْظُ : أشدّ غضب، وهو الحرارة التي يجدها الإنسان من فوران دم قلبه، قال : قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ [ آل عمران 119] ، لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ [ الفتح 29] ، وقد دعا اللہ الناس إلى إمساک النّفس عند اعتراء الغیظ . قال : وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران 134] .- قال : وإذا وصف اللہ سبحانه به فإنه يراد به الانتقام . قال : وَإِنَّهُمْ لَنا لَغائِظُونَ- [ الشعراء 55] ، أي : داعون بفعلهم إلى الانتقام منهم، والتَّغَيُّظُ : هو إظهار الغیظ، وقد يكون ذلک مع صوت مسموع کما قال : سَمِعُوا لَها تَغَيُّظاً وَزَفِيراً [ الفرقان 12] .- ( غ ی ظ ) الغیظ کے معنی سخت غصہ کے ہیں ۔ یعنی وہ حرارت جو انسان اپنے دل کے دوران خون کے تیز ہونے پر محسوس کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے : قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ [ آل عمران 119] کہدو کہ ( بدبختو) غصے میں مرجاؤ ۔ غاظہ ( کسی کو غصہ دلانا ) لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ [ الفتح 29] تاکہ کافروں کی جی جلائے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے سخت غصہ کے وقت نفس کو روکنے کا حکم دیا ہے اور جو لوگ اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں انکی تحسین فرمائی ہے چناچہ فرمایا : وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران 134] اور غصے کو روکتے ۔ اور اگر غیظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو تو اس سے انتقام لینا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَإِنَّهُمْ لَنا لَغائِظُونَ [ الشعراء 55] اور یہ ہمیں غصہ دلا رہے ہیں ۔ یعنی وہ اپنی مخالفانہ حرکتوں سے ہمیں انتقام پر آمادہ کر رہے ہیں اور تغیظ کے معنی اظہار غیظ کے ہیں جو کبھی ایسی آواز کے ساتھ ہوتا ہے جو سنائی دے جیسے فرمایا : سَمِعُوا لَها تَغَيُّظاً وَزَفِيراً [ الفرقان 12] تو اس کے - جو ش غضب اور چیخنے چلانے کو سنیں گے ۔- توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- حكيم - فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر - لحكمة» أي : قضية صادقة- لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے
(١٥) اور ان کے دلوں کی جلن کو دور کرے گا اور ان میں سے جو توبہ کرے گا، اس پر توجہ فرمائیں گے اور جس نے توبہ کی اور جس نے توبہ نہیں کی سب سے اللہ تعالیٰ باخبر ہیں اور جو ان کے خلاف فیصلہ فرمایا ہے اس میں حکم والے ہیں، یا یہ کہ ان کے قتل اور ان کی شکست کا فیصلہ فرمایا ہے۔
آیت ١٥ (وَیُذْہِبْ غَیْظَ قُلُوْبِہِمْ ط ) - اللہ تعالیٰ اس اقدام کے نتائج کے طور پر مسلمانوں کے سینوں کی جلن کو دور کرے گا اور انہیں ٹھنڈک عطا فرمائے گا۔ مکہ میں ابھی بھی ایسے لوگ موجود تھے جن کو قریش کی طرف سے تکالیف پہنچائی جا رہی تھیں۔ ابھی بھی مسلمان بچوں ‘ عورتوں اور ضعیفوں پر مظالم ڈھائے جا رہے تھے۔ چناچہ جب تمہارے حملے کے نتیجے میں ان ظالموں کی درگت بنے گی تو مظلوم مسلمانوں کے سینوں کی جلن بھی کچھ کم ہوگی۔- (وَیَتُوْبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔ ) - اب جو آیت اَمْ حَسِبْتُمْ کے الفاظ سے شروع ہو رہی ہے وہ اپنے خاص انداز اور لہجے کے ساتھ قرآن میں تین مرتبہ آئی ہے۔ دو مرتبہ اس سے پہلے اور تیسری مرتبہ یہاں۔ سورة البقرۃ کی آیت ٢١٤ میں فرمایا : (اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ ط) سورة آل عمران کی آیت ١٤٢ میں فرمایا : (اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰہَدُوْا مِنْکُمْ ) اور یہاں (اس سورت کی آیت ١٦ میں ) فرمایا : (اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَکُوْا وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰہَدُوْا مِنْکُمْ )- ایک ہی موضوع کی حامل ان تینوں آیات کے نہ صرف الفاظ آپس میں ملتے ہیں ‘ بلکہ ان میں ایک عجیب و غریب مشابہت یہ بھی ہے کہ ہر آیت کے نمبر کے ہندسوں کا حاصل جمع ٧ آتا ہے۔
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :17 یہ ایک ہلکا سا اشارہ ہے اس امکان کی طرف جو آگے چل کر واقعہ کی صورت میں نمودار ہوا ۔ مسلمان جو یہ سمجھ رہے تھے کہ بس اس اعلان کے ساتھ ہی ملک میں خون کی ندیاں بہ جائیں گی ، ان کی اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے اشارۃ انہیں بتایا گیا ہے کہ یہ پالیسی اختیار کرنے میں جہاں اس کا امکان ہے کہ ہنگامہ جنگ برپا ہوگا وہاں اس کا بھی امکان ہے کہ لوگوں کو توبہ کی توفیق نصیب ہو جائے گی ۔ لیکن اس اشارہ کو زیادہ نمایاں اس لیے نہیں کیا گیا کہ ایسا کرنے سے ایک طرف تو مسلمانوں کی تیاری جنگ ہلکی پڑجاتی اور دوسری طرف مشرکین کے لیے اس دھمکی کا پہلو بھی خفیف ہو جاتا جس نے انہیں پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنی پوزیشن کی نزاکت پر غور کرنے اور بالآخر نظام اسلامی میں جذب ہوجانے پر آمادہ کیا ۔
13: یعنی اس کا بھی امکان ہے کہ کفار توبہ کرکے مسلمان ہوجائیں، چنانچہ بہت سے لوگ اس کے بعد واقعی مسلمان ہوئے۔