Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مسلمان بھی آزمائے جائیں گے یہ ناممکن ہے کہ امتحان بغیر مسلمان بھی چھوڑ دیئے جائیں سچے اور جھوٹے مسلمان کو ظاہر دینا ضروری ہے ولیجہ کے معنی بھیدی اور دخل دینے والے کے ہیں ۔ پس سچے وہ ہیں جو جہاد میں آگے بڑھ کر حصہ لیں اور ظاہر باطن میں اللہ رسول کی خیر خواہی اور حمایت کریں ایک قسم کا بیان دوسری قسم کو ظاہر کر دیتا تھا اس لیے دوسری قسم کے لوگوں کا بیان چھوڑ دیا ۔ ایسی عبارتیں شاعروں کے شعروں میں بھی ہیں ایک جگہ قرآن کریم ہے کہ کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ وہ صرف یہ کہنے سے چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش ہوگی ہی نہیں حالانکہ اگلے مومنوں کی بھی ہم نے آزمائش کی یاد رکھو اللہ سچے جھوٹوں کو ضرور الگ الگ کر دے گا اور آیت میں اسی مضمون کو ( اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ ) 2- البقرة:214 ) کے لفظوں سے بیان فرمایا ہے ۔ اور آیت میں ہے ( مَا كَانَ اللّٰهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلٰي مَآ اَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتّٰى يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۭ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَي الْغَيْبِ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَجْتَبِىْ مِنْ رُّسُلِھٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۠ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرُسُلِھٖ ۚ وَاِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَلَكُمْ اَجْرٌ عَظِيْمٌ ١٧٩؁ ) 3-آل عمران:179 ) اللہ ایسا نہیں کہ تم مومنوں کو تمہاری حالت پر ہی چھوڑ دے اور امتحان کر کے یہ نہ معلوم کر لے کہ خبیث کون ہے اور طیب کون ہے؟ پس جہاد کے مشروع کرنے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ کھرے کھوٹے کی تمیز ہوجاتی ہے گواللہ تعالی ہر چیز سے واقف ہے ۔ جو ہوگا وہ بھی اسے معلوم ہے اور جو نہیں ہوا وہ جب ہوگا ، تب کس طرح ہوگا یہ بھی وہ جانتا ہے چیز کے ہو نے سے پہلے ہی اسے اس کا علم حاصل ہے اور ہر چیز کی ہر حالت سے وہ واقف ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ دنیا پر بھی کھرا کھوٹا سچا جھوٹا ظاہر کر دے اس کے سوا کوئی معبود نہیں نہ اس کے سوا کوئی پروردگار ہے نہ اس کی قضا و قدر اور ارادے کو کوئی بدل سکتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 یعنی بغیر امتحان اور آزمائش کے۔ 16۔ 2 گویا جہاد کے ذریعے امتحان لیا گیا۔ 16۔ 3 وَ لِیْجَۃ، ُ گہرے اور دلی دوست کو کہتے ہیں مسلمانوں کو چونکہ اللہ اور رسول کے دشمنوں سے محبت کرنے اور دوستانہ تعلقات رکھنے سے منع کیا گیا تھا لہذا یہ بھی آزمائش کا ایک ذریعہ تھا، جس سے مخلص مومنوں کو دوسروں سے ممتاز کیا گیا۔ 16۔ 4 مطلب یہ ہے کہ اللہ کو پہلے ہی ہر چیز کا علم ہے۔ لیکن جہاد کی حکمت یہ ہے کہ اس سے مخلص اور غیر مخلص، فرماں بردار اور نافرمان بندے نمایاں ہو کر سامنے آجاتے، جنہیں ہر شخص دیکھ اور پہچان لیتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤] کافروں کو دخیل یا ہمراز بنانے کے مہلک نتائج :۔ یہ خطاب ان مسلمانوں کے لیے ہے جو نئے نئے اسلام لائے تھے۔ ورنہ ابتدائی مہاجرین و انصار تو اس معیار پر، جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے، پہلے ہی کئی بار پورے اتر چکے تھے اور اپنے اس امتحان میں کامیاب ہوچکے تھے اس معیار میں بالخصوص دو باتیں بیان فرمائیں ایک اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد، دوسرے صرف اللہ اس کے رسول اور مومنوں سے ہی دلی اور راز داری کی دوستی۔ یعنی کسی مسلمان کے لیے یہ کسی صورت میں جائز نہیں کہ وہ غیر مسلم کو اپنے معاملات میں دخیل اور اپنا ہم راز بنائے۔ غیر مسلم کو اسلامی حکومت کے کسی ذمہ دار منصب پر فائز کرنا، یا کسی غیر مسلم کو کوئی جنگی راز وغیرہ بتلا دینا ایسے خطرناک کام ہیں جن کے نتائج ایک مسلم حکومت یا معاشرہ کے لیے نہایت مہلک ثابت ہوسکتے ہیں۔ لہذا کسی غیر مسلم سے ایسی دوستی گانٹھنے سے ہی سختی سے منع کردیا گیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا : ” وَلِيْجَةً “ ” وَلَجَ یَلِجُ “ (وَعَدَ ) سے ہے جس کا معنی داخل ہونا ہے، یعنی دل کے اندر داخل ہوجانے والا، قلبی دوست اور محبوب، جس کے سامنے آدمی اپنے دلی راز بھی رکھ دے۔ مسلمانوں کو حکم ہے کہ کفار کو کسی صورت دلی دوست نہ بناؤ، فرمایا : (لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا) [ آل عمران : ١١٨ ] ” اپنے سوا کسی کو دلی دوست نہ بناؤ، وہ تمہیں کسی طرح نقصان پہنچانے میں کمی نہیں کرتے۔ “ احکام جہاد کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جہاد کی ایک حکمت بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے کھرے اور کھوٹے اہل ایمان کو الگ الگ کرنا چاہتا ہے اور ان لوگوں کو خالص کرنا چاہتا ہے جن میں جہاد اور صرف مسلمانوں سے دلی دوستی اور راز داری کا وصف پایا جاتا ہے، کیونکہ یہ چیز لڑائی ہی سے نکھر کر سامنے آتی ہے۔ منافقین بھی بعض اوقات جہاد میں شریک ہوجاتے ہیں، مگر کفار سے دلی دوستی اور راز داری کا تعلق ختم نہیں کرتے، نہ ہی وہ صرف اللہ کی رضا کے لیے لڑتے ہیں، نیز دیکھیے سورة عنکبوت (١ تا ٣) اور سورة آل عمران (١٧٩) ۔- وَاللّٰهُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال سے پوری طرح باخبر ہے، وہ ظاہر اعمال کے ساتھ دل کا حال بھی جانتا ہے، اس لیے اپنے اعمال درست کرو اور ان کے لیے نیت خالص اللہ کی رضا رکھو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللہُ الَّذِيْنَ جٰہَدُوْا مِنْكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلَا رَسُوْلِہٖ وَلَا الْمُؤْمِنِيْنَ وَلِيْجَۃً۝ ٠ ۭ وَاللہُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۝ ١٦ ۧ- أَمْ»حرف - إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔- حسب ( گمان)- والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] - ( ح س ب ) الحساب - اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - ترك - تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] ، وقوله : وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] - ( ت ر ک) ترک - الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- جهد - الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال :- جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب :- مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان .- ومجاهدة النفس .- وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» - ( ج ھ د ) الجھد - والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور - جہا دتین قسم پر ہے - ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔- - أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- ( ولیجة)- ، اسم بمعنی البطانة، وكلّ شيء أدخلته في شيء ولیس منه، وزنه فعلية، ويستعمل بلفظ واحد للمفرد والمثنّى والجمع، وقد يجمع علی ولائج وولج کصحائف وصحف .- والوَلِيجَةُ : كلّ ما يتّخذه الإنسان معتمدا عليه، ولیس من أهله، من قولهم : فلان وَلِيجَةٌ في القوم : إذا لحق بهم ولیس منهم، إنسانا کان أو غيره . قال تعالی: وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلا رَسُولِهِ وَلَا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً [ التوبة 16] وذلک مثل قوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ورجل خرجة وَلِجَةٌ : كثير الخروج والولُوجِ.- الولیجتہ : وہ شخص ہے جو دوسری قوم سے ہو لیکن تم اسے ا پنا معتمد بنالو اور یہ فلان ولیجتہ فی القوم کے محاورہ سے لیا گیا ہے یعنی وہ جو قوم میں داخل ہوجائے اور ان میں سے نہ ہو عام اس سے کہ انسان ہو یا کوئی دوسری چیز قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلا رَسُولِهِ وَلَا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً [ التوبة 16] اور انہوں نے خدا اور اس کے رسول اور مومنوں کے سوا کسی کو دلی دوست نہیں بنایا ۔ جیسا کہ مومنین کے متعلق دوسری جگہ فرمایا : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] اے ایمان والو یہود اور نصاری کو دوست نہ بناؤ ۔ رجل خرجتہ ولجتہ بہت زیادہ اندر اور باہر آنے جانے والا آدمی ۔- خبیر - والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم،- ( خ ب ر ) الخبر - کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

راہ حق میں آزمائش شرط لازم ہے - قول باری ہے (ام حسبتم ان تترکوا ولما یعلم اللہ الذین جاھدوا منکم ولم یتخذوا من دون اللہ ولا رسولہ ولا المومنین ولیجۃ۔ کیا تم وگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی چھوڑ دیئے جائو گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے کون وہ لوگ ہیں جنہوں نے ص اس راہ میں) جانفشانی کی اور اللہ اور رسول اور مومنین کے سوا کسی کو دلی دوست نہ بنایا) اس کے معنی یہ ہیں ” کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی چھوڑ دیئے جائو گے حالانکہ ابھی تم نے جہاد نہیں کیا۔ “ اس لئے کہ جب وہ جہاد کریں گے تو اللہ کو ان کی یہ بات معلوم وہ گی۔ علم کے اسم کا اطلاق کر کے اس سے فریضہ جہاد کی ادائیگی مراد لی گئی ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰٓ کو ان کے اندر اس فریضہ کی ادائیگی کے وجود کچا علم ہوجائے۔ قول باری (ولم یتخذوا من دون اللہ ولا رسولہ ولا المومنین ولیجۃ) مومنین کی پیروی کے لزوم اور انہیں چھوڑ کر کسی اور کی طرف نہ جانے کے حکم کا مقتضی ہے جس طرح تمام مسلمانوں پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی لازم ہے۔ اس سے اجماع کی حجت کی دلیل ملتی ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے۔ (و من یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الھدین و شتبع غیر سبیل المومنین تولہ ما تولیٰ مگر جو شخص رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہل ایمان کی روشنی کے سوا کسی اور روش پر چلے درآں حالیکہ اس پر راہ راست واضح ہوچکی ہو تو اس کو ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ) ولیجہ، مدخل یعنی جائے دخول کو کہتے ہیں۔ جب کوئی شخص داخل ہو تو کہا جاتا ہے ” ولج فلان “ (فلاں شخص داخل ہو ) گویا اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ” یہ جائز نہیں کہ اس کیلئے مسلمانوں کے مدخل کے سوا اور کوئی جائے دخول ہو۔ “ ایک قول ہے کہ ولیجہ کے معنی دخلیہ اور بطانۃ کے ہیں یعنی ہر چیز کا اندرونی حصہ، بھید اور راز۔ یہ لفظ مداخلت، مخالطت اور موانست کے ہم معنی ہے۔ اگر اس لفظ کے یہ معنی لئے جائیں تو پھر اسے یہ دلالت حاصل ہوگی کہ مسلمانوں کو غیرمسلموں کے ساتھ گھل مل جانے، ان میں جا گھسنے اور دین کے معاملات میں ان سے مدد حاصل کرنے کی ممانعت کردی گئی ہے جس طرح یہ ارشاد باری ہے (لا تتخذوا بطانۃ من دونکم) اپنے لوگوں کے سوا کسی اور کو اپنا رازدان نہ بنائو)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٦) اے مسلمانوں کی جماعت کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ تمہیں یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا اور تمہیں جہاد کا حکم نہیں دیا جائے گا حالانکہ ابھی ظاہری طور پر تو اللہ تعالیٰ نے جہاد فی سبیل اللہ کرنے والوں کو دیکھا ہی نہیں اور جنہوں نے کافروں کو خصوصیت کا دوست نہ بنایا ہو اور اللہ تعالیٰ جہاد وغیرہ میں نیکی اور برائی ہر ایک چیز کو دیکھنے والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ (اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَکُوْا وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰہَدُوْا مِنْکُمْ ) - دوسری قوموں کے خلاف برسر پیکار ہونا اور بات ہے ‘ تمہیں اب اپنی قوم کے خلاف جہاد کرنے کے لیے جانا ہے۔ گویا اس حکم کے اندر نسبتاً سخت امتحان ہے۔ چناچہ اللہ تمہارا یہ امتحان بھی لینا چاہتا ہے۔ - (وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلاَ رَسُوْلِہٖ وَلاَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَۃً ط) - یہ دنیوی رشتوں کے خوشنما بندھن جب تک ایمان کی تلوار سے کٹیں گے نہیں ‘ اس وقت تک اللہ اور دین کے ساتھ تمہارا خلوص کیسے ثابت ہوگا

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :18 خطاب ہے ان نئے لوگوں سے جو قریب کے زمانہ میں اسلام لائے تھے ۔ ان سے ارشاد ہو رہا ہے کہ جب تک تم اس آزمائش سے گزر کر یہ ثابت نہ کر دو گے کہ واقعی تم خدا اور اس کے دین کو اپنی جان و مال اور اپنے بھائی بندوں سے بڑھ کر عزیز رکھتے ہو ، تم سچے مومن قرار نہیں دیے جا سکتے ۔ اب تک تو ظاہر کے لحاظ سے تمہاری پوزیشن یہ ہے کہ اسلام چونکہ مومنین صادقین اور سابقین اوّلین کی جانفشانیوں سے غالب آگیا اور ملک پر چھا گیا اس لیے تم مسلمان ہوگئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

14: بظاہر اس کا اشارہ ان حضرات کی طرف ہے جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے، اور ابھی تک ان کو کسی جہاد میں شرکت کا موقع نہیں ملا تھا، ورنہ دوسرے صحابہ توفتح مکہ سے پہلے بہت سی جنگوں میں حصہ لے چکے تھے، ان نو مسلموں سے کہا جارہا ہے کہ ان کو بھی جہاد کے لئے تیار رہنا چاہئے اگرچہ اعلان براءت کے بعد کسی بڑی جنگ کی نوبت نہیں آئی ؛ لیکن ان حضرات کو پوری قوت سے تیار رہنے کی تاکید اس لئے کی گئی ہے کہ وہ اپنی رشتہ داریوں کی وجہ سے کہیں اس اعلان براءت کے تمام تقاضوں پر عمل کرنے سے ہچکچانے نہ لگیں، اسی لئے جہاد کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایا گیا کہ وہ اللہ، اس کے رسول اور مومنوں کے سوا کسی سے دوستی یا رازداری کا خصوصی تعلق نہ رکھیں، واللہ سبحانہ اعلم۔