Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مشرکوں کو اللہ کے گھر سے کیا تعلق؟ یعنی اللہ کے ساتھ شریک کرنے والوں کو اللہ کی مسجدوں ( کی تعمیر ) کرنے والے بننا لائق ہی نہیں یہ مشرک ہیں بیت اللہ سے انہیں کیا تعلق؟ مساجد کو مسجد بھی پڑھا گیا ہے پس مراد مسجد حرام ہے جو روئے زمین کی مسجدوں سے اشرف ہے جو اول دن سے صرف اللہ کی عبادت کے لیے بنائی گئی ہے جس کی بنیادیں خلیل اللہ نے رکھیں تھیں اور یہ لوگ مشرک ہیں حال و قال دونوں اعتبار سے تم نصرانی سے پوچھو وہ صاف کہے گا میں نصرانی ہوں ، یہود سے پوچھو وہ اپنی یہودیت کا اقرار کریں گے ، صابی سے پوچھو وہ بھی اپنا صابی ہونا اپنی زبان سے کہے گا ، مشرک بھی اپنے مشرک ہو نے کے لیے اقراری ہیں ان کے اس شرک کی وجہ سے ان کے اعمال اکارت ہو چکے ہیں اور وہ ہمیشہ کے لیے ناری ہیں ۔ یہ تو مسجد حرام سے اور اللہ کی راہ روکتے ہی ہیں یہ گو کہیں لیکن دراصل یہ اللہ کے اولیاء نہیں اولیاء اللہ تو وہ ہیں جو متقی ہوں لیکن اکثر لوگ علم سے کورے اور خالی ہوتے ہیں ۔ ہاں بیت اللہ کی آبادی مومنوں کے ہاتھوں ہوتی ہے پس جس کے ہاتھ سے مسجدوں کی آبادی ہو اس کے ایمان کا قرآن گواہ ہے ۔ مسند میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تم کسی کو مسجد میں آنے جانے کی عادت والا دیکھو تو اس کے ایمان کی شہات دو پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی اور حدیث میں ہے مسجدوں کے آباد کرنے والے اللہ والے ہیں اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مسجد والوں پر نظریں ڈال کر اپنے عذاب پوری قوم پر سے ہٹا لیتا ہے ۔ اور حدیث میں ہے اللہ عزوجل فرماتا ہے مجھے اپنی عزت اور اپنے جلال کی قسم کہ میں زمین والوں کو عذاب کرنا چاہتا ہوں لیکن اپنے گھروں کے آباد کرنے والوں اور اپنی راہ میں آپس میں محبت رکھنے والوں اور صبح سحری کے وقت استغفار کرنے والوں پر نظریں ڈال کر اپنے عذاب ہٹا لیتا ہوں ۔ ابن عساکر میں ہے کہ شیطان انسان کا بھیڑیا ہے جیسے بکریوں کا بھیڑیا ہوتا ہے کہ وہ الگ تھلگ پڑی ہوئی ادھر ادھر کی بکھری بکری کو پکڑ کر لے جاتا ہے پس تم پھوٹ اور اختلاف سے بچو جماعت کو اور عوام کو اور مسجدوں کو لازم پکڑے رہو ۔ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان ہے کہ مسجدیں اس زمین پر اللہ کا گھر ہیں جو ان میں داخل ہو اللہ کا ان پر حق ہے کہ وہ مساجد کا احترام کریں ۔ ابن عباس فرماتے ہیں جو نماز کی اذان سن کر پھر بھی مسجد میں آکر باجماعت نماز نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی وہ اللہ کا نافرمان ہے کہ مسجدوں کی آبادی کرنے والے اللہ کے اور قیامت کے ماننے والے ہی ہوتے ہیں ۔ پھر فرمایا نمازی بدنی عبادت نماز کے پابند ہوتے ہیں اور مالی عبادت زکوٰۃ کے بھی ادا کرنے والے ہوتے ہیں ان کی بھلائی اپنے لیے بھی ہوتی ہے اور پھر عام مخلوق کے لیے بھی ہوتی ہے ان کے دل اللہ کے سوا اور کسی سے ڈرتے نہیں یہی راہ یافتہ لوگ ہیں ۔ موحد ایمان دار قرآن وحدیث کے ماتحت پانچوں نمازوں کے پابند صرف اللہ کا خوف کھانے والے اس کے سوا دوسرے کی بندگی نہ کرنے والے ہی راہ یافتہ اور کامیاب اور بامقصد ہیں ۔ یہ یاد رہے کہ بقول حضرت ابن عباس قرآن کریم میں جہاں بھی لفظ عسی وہاں یقین کے معنی میں ہے امید کے معنی میں نہیں مثلاً فرمان ہے ( آیت عسی ان یبعثک ربک مقام محمودا ) تو مقام محمود میں پہنچانا یقینی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شافع محشر بننا یقینی چیز ہے جس میں کوئی شک شبہ نہیں ۔ محمد بن اسحاق فرماتے ہیں عسی کلام اللہ میں حق و یقین کے لیے آتا ہے

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 مَسَا جِدَ اللّٰہِ سے مراد مسجد حرام ہے جمع کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا کہ یہ تمام مساجد کا قبلہ و مرکز ہے یا عربوں میں واحد کے لئے بھی جمع کا استعمال جائز ہے 17۔ 2 یعنی ان کے وہ عمل جو بظاہر نیک لگتے ہیں، جیسے طواف وعمرہ اور حاجیوں کی خدمت وغیرہ۔ کیونکہ ایمان کے بغیر یہ اعمال ایسے درخت کی طرح ہیں جو بےثمر ہیں یا ان پھولوں کی طرح ہیں جن میں خو شبو نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٥] مشرکین مکہ کن کن باتوں سے بیت اللہ کی توہین کرتے تھے ؟:۔ یعنی کعبہ یا کسی بھی مسجد کی تولیت، مجاوری اور آباد کاری مشرکوں کے لیے مناسب ہی نہیں۔ کعبہ خالصتاً اللہ کی عبادت کے لیے بنایا گیا تھا اور ایسے ہی دوسری مساجد بھی اسی غرض کے لیے بنائی جاتی ہیں لیکن یہ مشرک بیت اللہ میں بھی اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتے تھے۔ چناچہ مشرکوں نے اللہ کے اس گھر میں تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔ دیواروں پر اپنے بزرگوں اور دیوی دیوتاؤں کی تصویریں بنا رکھی تھیں۔ اور ان ظالموں نے سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیل کے مجسمے بنا کر ان کے ہاتھوں میں فال گیری کے تیر پکڑا رکھے تھے۔ رسول اللہ نے فتح مکہ کے بعد بیت اللہ کو ان سب چیزوں سے پاک کیا۔ پھر بیت اللہ میں ایسی فحاشی روا رکھی جاتی کہ کیا مرد کیا عورت ننگے طواف کرتے تھے۔ پھر یہ ظالم طواف کے دوران یہ الفاظ کہہ کر اپنے شرک کی شہادت دیتے تھے لاَشَرِِیْکَ لَکَ الاَّ شَرِیْکَ ھُوَلَکَ تَمْلِکُہُ (مسلم۔ کتاب الحج) ان کی نظروں میں سرے سے بیت اللہ کے احترام کا تصور ہی نہ تھا حتیٰ کہ انہوں نے اپنی عبادت کو سیٹیوں، تالیوں اور گانے بجانے کی محفلیں بنا رکھا تھا۔ پھر کیا ایسے لوگ مساجد کی آباد کاری اور سرپرستی کے مستحق ہوسکتے ہیں ؟- [١٦] کیونکہ اعمال کی جزا کا انحصار اللہ اور روز آخرت پر ایمان ہے اور مشرک تو روز آخرت پر ایمان ہی نہیں رکھتے تھے اور اللہ پر ایمان کے معاملہ میں ان کا تصور ہی غلط تھا۔ انہوں نے سب خدائی اختیارات و تصرفات تو اپنے دیوی دیوتاؤں اور بزرگوں کو دے رکھے تھے لہذا ایمان نہ لانے کی وجہ سے ان کے اچھے اعمال ضائع ہوں گے اور شرک اور بداعمالی کی وجہ سے ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ : یہاں تک کفار کے عہد و پیمان سے براءت کا اعلان، کفار سے جہاد، اس کے فوائد اور حکمتوں کا بیان تھا۔ اب یہ بیان شروع ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مساجد کی آباد کاری، ان کی نگرانی اور تولیت و خدمت مشرکین کا کسی صورت حق نہیں بنتا، کیونکہ مساجد تو خالص اللہ کے لیے ہیں : (وَّاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا) [ الجن : ١٨ ] ” اور یہ کہ بلاشبہ مسجدیں اللہ کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔ “ سو ان کی نگرانی اور آباد کاری ان لوگوں کا حق کیسے ہوسکتا ہے جو خود اپنے آپ پر اس اکیلے مالک کے ساتھ کفر کے گواہ اور شاہد ہیں، جو حج اور عمرہ کے وقت بھی ( جو صرف اللہ کے لیے ہیں) لبیک کہتے وقت غیروں کو علی الاعلان اس کا شریک بناتے ہیں۔ چناچہ عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ مشرکین کہتے تھے : ( لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ ) ” حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں۔ “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے : ” اسی پر بس کر دو ، آگے مت کہنا۔ “ مگر وہ کہتے : ( إِلاَّ شَرِیْکًا ھُوَ لَکَ تَمْلِکُہُ وَمَا مَلَکَ )” مگر ایک شریک جو تیرا ہی ہے جس کا تو مالک ہے، وہ خود مالک نہیں۔ “ وہ لوگ یہ الفاظ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے کہتے تھے۔ [ مسلم، الحج، باب التلبیۃ وصف تھا و وقتھا : ١١٨٥ ] ان کی اپنے کفر پر شہادت وہ تین سو ساٹھ بت بھی تھے جو انھوں نے کعبہ کے اندر اور اس کے ارد گرد رکھے ہوئے تھے، کعبہ کی دیواروں پر بزرگوں اور دیوی دیوتاؤں کی تصویریں بنا رکھی تھیں۔ ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) کی صورتیں بناکر ان کے ہاتھ میں فال کے تیر پکڑائے ہوئے تھے، ان کی عبادت غیر اللہ کو پکارنا تھا، ان کا بیت اللہ کا احترام انتہائی بےحیائی، یعنی ننگے ہو کر مردوں اور عورتوں کا طواف کرنا تھا اور ان کی نماز تالیاں پیٹ کر اور سیٹیاں بجا کر مشرکانہ قوالیاں کرنا تھا۔ ایسے لوگ اللہ کے سب سے پہلے اور افضل گھر کے تو کجا اس کی کسی مسجد کے متولی، مجاور یا خادم بننے کا بھی کوئی حق نہیں رکھتے، اس لیے ان سے کعبہ اور دوسری مساجد کو آزاد کروانا مسلمانوں پر فرض ہے۔ علامہ اقبال نے یہاں ایک نہایت نفیس نکتہ نکالا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے پوری زمین کو مسجد بنایا ہے، جیسا کہ فرمایا : ( جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا وَّ طَھُوْرًا ) [ بخاری، التیمم، باب قول اللہ تعالیٰ : ( فلم تجدوا مآء۔۔ ) : ٣٣٥۔ مسلم : ٥٢٣ ] اس لیے مسلمانوں کے لیے غیرت اور ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ان کی مسجد پر غیر مسلموں کا قبضہ ہو، نہیں بلکہ یہ ساری مسجد یعنی ساری زمین مسلمانوں کے قبضے میں ہونی چاہیے اور کفار کو ان کے ماتحت ہونا چاہیے۔ - اُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ : یعنی انھوں نے اگر کچھ نیک کام کیے بھی ہیں، جیسے مسجد حرام اور حاجیوں کی خدمت وغیرہ، تو ان کے شرک کی وجہ سے وہ سب اکارت گئے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - مشرکین کی یہ لیاقت ہی نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو ( جن میں مسجد حرام بھی آگئی) آباد کریں جس حالت میں وہ خود اپنے کفر ( کی باتوں) کا اقرار کر رہے ہیں) (چنانچہ وہ خود اپنا مشرب بتلانے کے وقت ایسے عقائد کا اقرار کرتے تھے جو واقع میں کفر ہیں، مطلب یہ کہ عمارت مساجد گو عمل محمود ہے لیکن باوجود شرک کے کہ اس کے منافی ہے اس عمل کی اہلیت ہی مفقود ہے اور اس لئے وہ محض غیر معتدبہ ہے، پھر فخر کی کیا گنجائش ہے) ان لوگوں کے ( جو مشرک ہیں) سب اعمال ( نیک مثل عمارت مسجد وغیرہ) اکارت ( اور ضائع) ہیں ( بوجہ اس کے کہ ان کی قبولیت کی شرط نہیں پائی جاتی اور ضائع عمل پر فخر ہی کیا) اور دوزخ میں وہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ( کیونکہ وہ عمل جو کہ اسباب نجات سے ہے وہ تو ضائع ہی ہوگیا تھا) ہاں اللہ کی مسجدوں کو آباد کرنا ان لوگوں کا کام ہے ( یعنی علی وجہ الکمال ان سے مقبول ہوتا ہے) جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ( دل سے) ایمان لائیں ( اور جوارح سے اس کا اظہار بھی کریں مثلاً اس طرح کہ) نماز کی پابندی کریں اور زکوٰة دیں اور ( اللہ پر ایسا توکل رکھتے ہوں کہ) بجز اللہ کے کسی سے نہ ڈریں سو ایسے لوگوں کی نسبت توقع ( یعنی وعدہ) ہے کہ اپنے مقصود ( یعنی جنت و نجات) تک پہنچ جائیں گے ( کیونکہ ان کے اعمال بوجہ ایمان کے مقبول ہوں گے، اس لئے آخرت میں نفع ہوگا اور مشرکین اس شرط سے محروم ہیں، اور عمل بےثمر پر فخر لاحاصل ) ۔- معارف و مسائل - پچھلی آیات میں مشرکین مکہ کی کج روی، عہد شکنی اور اپنے دین باطل کے لئے ہر طرح کی کوشش کا اور اس کے مقابلہ پر مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب کا بیان آیا تھا، آیات مذکورہ میں مسلمانوں کو جہاد کی تاکید کے ساتھ یہ بتلایا گیا ہے کہ جنگ و جہاد ہی وہ چیز ہے جس میں مسلمان کا امتحان ہوتا ہے مخلص مسلمان اور منافق یا ضعیف الایمان کا امتیاز ہوتا ہے، اور یہ امتحان ضروری ہے۔- سولہویں آیت میں ارشاد فرمایا کہ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم صرف کلمہ اسلام زبان سے کہہ لینے اور اسلام کا دعوٰی کرلینے پر آزاد چھوڑ دیئے جاؤ گے، جب تک اللہ تعالیٰ ظاہری طور پر بھی ان سچے اور پکے مسلمانوں کو نہ دیکھ لیں جو تم میں سے جہاد کرنے والے ہیں، اور جو اللہ و رسول اور مسلمانوں کے سوا کسی کو اپنا رازدار دوست نہیں بناتے۔- اسی آیت میں ان عام لوگوں کو خطاب ہے جو مسلمان سمجھے جاتے تھے، اگرچہ ان میں سے بعض منافق بھی تھے اور بعض ضعیف الایمان اور مذبذب تھے، ایسے ہی لوگوں کا یہ حال تھا کہ اپنے غیر مسلم دوستوں کو مسلمانوں کے راز اور اسرار پر مطلع کردیا کرتے تھے، اس لئے اس آیت میں مخلص مسلمان کی دو علامتیں بتلادی گئیں۔- مخلص مسلمان کی دو ٢ علامتیں : - اول یہ کہ اللہ کے واسطے کفار سے جہاد کریں، دوسرے یہ کہ کسی غیر مسلم کو اپنا رازدار، دوست نہ بنائیں آخر آیت میں فرمایا (آیت) وَاللّٰهُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ یعنی تم جو کچھ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہیں، ان کے آگے کسی کا حیلہ و تاویل نہیں چل سکتی۔- یہی مضمون قرآن مجید کی ایک دوسری آیت میں ان الفاظ کے ساتھ آیا ہے : (آیت) اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ ، یعنی کیا لوگوں نے یوں سمجھ رکھا ہے کہ وہ صرف زبانی اپنے آپ کو مومن کہنے پر آزاد چھوڑ دیئے جائیں گے، او ان کا کوئی امتحان نہ لیا جائے گا “۔- کسی غیر مسلم کو ہمراز دوست بنانا درست نہیں :- آیت مذکورہ میں جو لفظ وَلِيْجَةً آیا ہے اس کے معنی دخیل اور بھیدی کے ہیں، اور ایک دوسری آیت میں اسی معنی کے لئے لفظ بطانہ استعمال کیا گیا ہے بطانہ کے اصل معنی اس کپڑے کے ہیں جو دوسرے کپڑوں کے نیچے بطن اور بدن کے ساتھ متصل ہو، مراد اس سے ایسا آدمی ہے جو اندر کے رازوں سے واقف ہو، اس آیت کے الفاظ یہ ہیں : - (آیت) يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا، اے ایمان والو اپنے مسلمانوں کے سوا کسی کو ہمراز اور بھیدی دوست نہ بناؤ وہ تمہیں دھوکہ دے کر برباد کرنے میں کوئی کسر نہ رکھیں گے “- اس کے بعد سترہویں اور اٹھارہویں آیتوں میں مسجد حرام اور دوسری مساجد کو عبادات باطلہ سے پاک کرنے اور صحیح و مقبول طریقہ پر عبادت کرنے کی ہدایات ہیں اور تفصیل اس کی یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ اور مسجد حرام سے ان تمام بتوں کو نکال ڈالا جن کی مشرکین عبادت کیا کرتے تھے، اس طرح حسی طور پر تو مسجد حرام بتوں سے پاک ہوگئی، لیکن رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قدیم دشمنوں پر غالب آنے کے بعد سب کو معافی اور امان دے دیا تھا، اور وہ مشرکین اب بھی بیت اللہ اور حرم محترم میں عبادت و طواف وغیرہ اپنے باطل طریقوں پر کیا کرتے تھے۔- اب ضرورت اس بات کی تھی کہ جس طرح مسجد حرام کو بتوں سے پاک کردیا گیا اسی طرح بت پرستی اور اس کے تمام باطل طریقوں سے بھی اس مقدس زمین کو پاک کیا جائے، اور اس سے پاک کرنے کی ظاہری صورت یہی تھی کہ مشرکین کا داخل مسجد حرام میں ممنوع قرار دے دیا جائے لیکن یہ اس دیئے ہوئے امان کے خلاف ہوتا اور معاہدہ کی پابندی اسلام میں ان سب چیزوں سے مقدم اور اہم تھی، اس لئے فوری طور پر ایسے احکام نہیں دیئے گئے بلکہ فتح مکہ سے اگلے ہی سال میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت صدیق اکبر اور علی مرتضیٰ کے ذریعہ منٰی اور عرفات کے عام اجتماع میں یہ اعلان کردیا کہ آئندہ کوئی مشرکانہ طرز کی عبادت اور حج و طواف وغیرہ حرم میں نہ ہوسکے گی اور جاہلیت میں جو ننگے ہو کر طواف کرنے کی رسم بد چل پڑی تھی آئندہ اس حرکت کی اجازت نہ دی جائے گی، چناچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے منٰی کے اجتماع عام میں اس کا اعلان کردیا کہ :۔- لا یحجن بعد العام مشرک ولا یطوفن بالبیت عریان ” یعنی اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرسکے گا اور کوئی ننگا آدمی بیت اللہ کا طواف نہ کرسکے گا “- اور یہ سال بھر کی مہلت اس لئے دے دیگئی کہ ان میں بہت سے وہ لوگ بھی تھے جن کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ تھا اور وہ ابھی تک معاہدہ پر قائم تھے، میعاد معاہدہ پورا ہونے سے پہلے ان کو کسی نئے قانون کا پابند کرنا اسلامی رواداری کے خلاف تھا، اس لئے ایک سال پہلے سے یہ اعلان جاری کردیا گیا کہ حرم محترم کو مشرکانہ عبادات اور رسوم سے پاک کرنا طے کردیا گیا ہے کیونکہ اس قسم کی عبادت درحقیقت عبادت اور مسجد کی آبادی نہیں بلکہ ویرانی ہے۔- یہ مشرکین مکہ اپنی مشرکانہ رسوم کو عبادت اور مسجد حرام کی عمارت و آبا دی کا نام دیتے اور اس پر فخر کیا کرتے تھے کہ ہم بیت اللہ اور مسجد حرام کے متولی اور اس کی عمارت کے ذمہ دار ہیں، حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ حضرت عباس جب اسلام لانے سے پہلے غزوہ بدر میں گرفتار ہوئے اور مسلمانوں نے ان کو کفر و شرک پر قائم رہنے سے عار دلائی تو انہوں نے جواب دیا کہ تم لوگ صرف ہماری برائیاں یاد رکھتے ہو اور بھلائیوں کا کوئی ذکر نہیں کرتے، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم بیت اللہ اور مسجد حرام کو آباد رکھنے اور اس کا انتظام کرنے اور حجاج کو پانی پلانے وغیرہ کی خدمات کے متولی بھی ہیں، اس پر قرآن کریم کی یہ آیتیں نازل ہوئیں، (آیت) مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ : یعنی مشرکین کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مساجد کی تعمیر کریں، کیونکہ مسجد صرف وہی جگہ ہے جو ایک اللہ وحدہ کی عبادت کے لئے بنائی گئی ہے شرک و کفر اس کی ضد ہے، وہ عمارت مسجد کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی۔- عمارت مسجد کا لفظ جو اس آیت میں آیا ہے کہ معنی میں استعمال کیا جاتا ہے، ایک ظاہری در و دیوار کی تعمیر، دوسرے مسجد کی حفاظت اور صفائی اور ضروریات کا انتظام، تیسری عبادت کے لئے مسجد میں حاضر ہونا، عمرہ کو عمرہ اسی مناسبت سے کہا جاتا ہے کہ اس میں بیت اللہ کی زیارت اور عبادت کے لئے حاضری ہوتی ہے۔- مشرکین مکہ تینوں معنی کے اعتبار سے اپنے آپ کو معمار بیت اللہ اور عمارت مسجد حرام کا ذمہ دار سمجھتے اور اس پر فخر کیا کرتے تھے، ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ مشرکین کو اللہ کی مساجد کی عمارت کا کوئی حق نہیں جبکہ وہ خود اپنے کفر و شرک کے گواہ ہیں، ان لوگوں کے اعمال حبط اور ضائع ہوگئے اور وہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں رہیں گے۔- خود اپنے کفر و شرک کی گواہی کا مطلب یا تو یہ ہے کہ اپنے مشرکانہ افعال و اعمال کے سبب گویا خود اپنے کفر و شرک کی گواہی دے رہے ہیں، اور یا یہ کہ عادة جب کسی نصرانی یا یہودی سے پوچھا جائے کہ تم کون ہو ؟ تو وہ اپنے آپ کو نصرانی یا یہودی کہتا ہے، اسی طرح مجوس اور بت پرست اپنے کافرانہ ناموں ہی سے اپنا تعارف کراتے ہیں، یہی ان کے کفر و شرک کا اعتراف اور شہادت ہے ( ابن کثیر )

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللہِ شٰہِدِيْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ بِالْكُفْرِ۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ۝ ٠ ۚۖ وَفِي النَّارِ ہُمْ خٰلِدُوْنَ۝ ١٧- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- عمر - العِمَارَةُ : نقیض الخراب : يقال : عَمَرَ أرضَهُ :- يَعْمُرُهَا عِمَارَةً. قال تعالی: وَعِمارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ [ التوبة 19] . يقال : عَمَّرْتُهُ فَعَمَرَ فهو مَعْمُورٌ. قال : وَعَمَرُوها أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوها [ الروم 9] ، وَالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ [ الطور 4] ، وأَعْمَرْتُهُ الأرضَ واسْتَعْمَرْتُهُ : إذا فوّضت إليه العِمَارَةُ ، قال : وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيها[هود 61] .- ( ع م ر ) العمارۃ - یہ خراب کی ضد ہے عمر ارضہ یعمرھا عمارۃ اس نے اپنی زمین آباد کی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَعِمارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ [ التوبة 19] اور مسجد محترم ( یعنی خانہ کعبہ ) کو آباد کرنا ۔ کہا جاتا ہے ۔ عمرتہ میں نے اسے آباد کیا ۔ معمر چناچہ وہ آباد ہوگئی اور آباد کی ہوئی جگہ کو معمور کہا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔- وَعَمَرُوها أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوها [ الروم 9] اور اس کو اس سے زیادہ آباد کیا تھا جو انہوں نے کیا ۔ وَالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ [ الطور 4] اور آباد کئے ہوئے گھر کی ۔ اعمر تہ الارض واستعمرتہ میں نے اسے آباد کرنے کے لئے زمین دی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيها[هود 61] اور اس نے آباد کیا ۔- مَسْجِدُ- : موضع الصلاة اعتبارا بالسجود، وقوله : وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] ، قيل : عني به الأرض، إذ قد جعلت الأرض کلّها مسجدا وطهورا کما روي في الخبر وقیل : الْمَسَاجِدَ : مواضع السّجود : الجبهة والأنف والیدان والرّکبتان والرّجلان، وقوله : أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25] أي : يا قوم اسجدوا، وقوله : وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] ، أي : متذلّلين، وقیل : کان السّجود علی سبیل الخدمة في ذلک الوقت سائغا، وقول الشاعر : وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِعنی بها دراهم عليها صورة ملک سجدوا له . المسجد ( ظرف ) کے معنی جائے نماز کے ہیں اور آیت وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] اور مسجدیں تو خدا ہی ( کی عبادت کے لئے ہیں ) میں بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے روئے زمین مراد ہے کیونکہ آنحضرت کے لئے تمام زمین کو مسجد اور طھور بنایا گیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں مروی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے اعضاء سجود یعنی پیشانی ناک دونوں ہاتھ دونوں زانوں اور دونوں پاؤں مراد ہیں اور آیت : ۔ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25]( اور نہیں سمجھتے ) کہ اللہ کو ۔۔۔۔۔۔۔ سجدہ کیوں نہ کریں ۔ میں لا زائدہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ میری قوم اللہ ہی کو سجدہ کرو ۔ اور آیت : ۔ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے ۔ میں اظہار عاجزی مراد ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ مراد سجدہ خدمت ہے جو اس وقت جائز تھا اور شعر ( الکامل ) وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِمیں شاعر نے وہ دراھم مراد لئے ہیں جن پر بادشاہ کی تصویر ہوتی تھی اور لوگ ان کے سامنے سجدہ کرتے تھے ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- حبط - وحَبْط العمل علی أضرب :- أحدها :- أن تکون الأعمال دنیوية فلا تغني في القیامة غناء، كما أشار إليه بقوله : وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان 23] - والثاني :- أن تکون أعمالا أخروية، لکن لم يقصد بها صاحبها وجه اللہ تعالی، كما روي :- «أنه يؤتی يوم القیامة برجل فيقال له : بم کان اشتغالک ؟ قال : بقراءة القرآن، فيقال له : قد کنت تقرأ ليقال : هو قارئ، وقد قيل ذلك، فيؤمر به إلى النار» «1» .- والثالث :- أن تکون أعمالا صالحة، ولکن بإزائها سيئات توفي عليها، وذلک هو المشار إليه بخفّة المیزان .- وأصل الحبط من الحَبَطِ ، وهو أن تکثر الدابة أكلا حتی ينتفخ بطنها، وقال عليه السلام : «إنّ ممّا ينبت الربیع ما يقتل حبطا أو يلمّ» «2» . وسمّي الحارث الحَبَطَ «3» ، لأنه أصاب ذلك، ثم سمي أولاده حَبَطَات .- ( ح ب ط ) الحبط - حبط عمل کی تین صورتیں ہیں - ۔ ( 1) اول یہ کہ وہ اعمال دینوی ہوں - اس لئے قیامت کے دن کچھ کام نہین آئیں گے اسی کیطرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ۔ وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان 23] اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ - اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ - ( 2 ) اعمال تو اخروی ہو - لیکن انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے نہ کیا گیا ہو جیسا کہ مروی ہے کہ قیامت کے دن آدمی لایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ تو کس قسم کے عمل کرتا رہا وہ جواب دے گا کہ میں قرآن پاک پڑھتا رہا تو اس سے کہا جائے گا کہ تونے قرآن اس لئے پڑھا تھا کہ تجھے قاری کہا جائے سو لوگ تجھے قاری کہتے رہے حکم ہوگا کہ اس دوزخ میں لے جاؤ ۔- ( 3 ) تیسری صورت یہ ہے کہ اعمال صالحہ کئے ہوں گے - لیکن ان کے بالمقابل گناہ کا بارا ستقدر ہوگا کہ اعمال صالحہ بےاثر ہوکر رہ جائیں گے اور گناہوں کا پلہ بھاری رہے گا اسی کی طرف خفۃ المیزان سے اشارہ فرمایا گیا ہے ۔ اصل میں حبط کا لفظ حبط سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کہ جانور اتنا زیادہ کھا جائے کہ اس کا پیٹ اپھر جائے ۔ حدیث میں ہے (70) ان مما ینبت الربیع مایقتل حبطا او یلم بعض اوقات موسم ربیع کی گھاس یا پیٹ میں ابھار کی وجہ سے قتل کردتی ہے اور یا بیمار کردیتی ہے ۔ ایک شخص حارث کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ نفخ بطن سے مرگیا تھا تو اس کا نام الحدث الحبط پڑگیا اور اس کی اولاد کو حبطات کہا جاتا ہے ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - خلد - الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ،- ( خ ل د ) الخلودُ ( ن )- کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم - رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

مساجد اللہ پر تولیت صرف مسلمانوں کی ہو - قول باری ہے (ما کان للمشرکین ان یعمروا مساجد اللہ۔ مشرکین کا یہ کام نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مجاور اور خادم بنیں) عمارۃ المسجد کے دو معنی ہیں۔ اول مسجد کی زیارت اور اس میں موجودگی یعنی اسے آباد کرنا، دوم مسجد کی تعمیر اور اس کے شکستہ حصوں کی مرمت و تجدید۔ اس لئے کہ جب کوئی زیارت کرے تو کہا جاتا ہے۔ اعتمر فلان (فلاں نے زیارت کی) اسی سے عمرہ کا لفظ ماخوذ ہے اس میں بیت اللہ کی زیارت ہوتی ہے۔ جب کوئی شخص بکثرت مساجد میں آتا جاتا ہو اور وہاں وقت گزارتا ہو تو کہا جاتا ہے ’ دفلان من عمار المساجد “ (فلاں شخص مساجد کو آباد رکھنے والوں میں سے ہے) اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کی مجلس میں اکثر آئے جائے تو کہا جاتا ہے ” فلان یعمر مجلس فلان “ (فلاں شخص فلاں کی مجلس آباد رکھتا ہے ) اس بنا پر آیت درج ذیل دو باتوں کی مقتضی ہے، کافروں کو مساجد میں داخل ہونے سے روک دیا جائے اور مساجد یک تعمیر، ان کی دیکھ بھال نیز ان کی تولیت کی انہیں اجازت نہ دی جائے اس لئے کہ آیت کے الفاظ ان دونوں باتوں پر مشتمل ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٧) شرک کرنے والوں کی یہ لیاقت نہیں، کیونکہ وہ خود اپنے اوپر کفر کا اقرار کرتے ہیں ان کے زمانہ کفر کی تمام نیکیاں برباد ہوگئیں ان لوگوں کو دوزخ میں نہ موت آئے گی اور نہ یہ وہاں سے باہر نکالے جائیں گے ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ (مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰہِ شٰہِدِیْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ بالْکُفْرِ ط) - یہ مساجد تو اللہ کے گھر ہیں ‘ یہ کعبہ اللہ کا گھر اور توحید کا مرکز ہے ‘ جبکہ قریش علی اعلان کفر پر ڈٹے ہوئے ہیں اور اللہ کے گھر کے متولی بھی بنے بیٹھے ہیں۔ ایسا کیونکر ممکن ہے ؟ اللہ کے ان دشمنوں کا اس کی مساجد کے اوپر کوئی حق کیسے ہوسکتا ہے ؟ - (اُولٰٓءِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْج وَفِی النَّارِ ہُمْ خٰلِدُوْنَ )- بیت اللہ کی دیکھ بھال اور حاجیوں کی خدمت جیسے وہ اعمال جن پر مشرکین مکہ پھولے نہیں سماتے ‘ ایمان کے بغیر اللہ کے نزدیک ان کے ان اعمال کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ان کے کفر کے سبب اللہ نے ان کے تمام اعمال ضائع کردیے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :19 یعنی جو مساجد خدائے واحد کی عبادت کے لیے بنی ہوں ان کے متولی ، مجاور ، خادم اور آباد کار بننے کے لیے وہ لوگ کسی طرح موزوں نہیں ہو سکتے جو خدا کے ساتھ خداوندی کی صفات ، حقوق اور اختیارات میں دوسروں کو شریک کرتے ہوں ۔ پھر جبکہ وہ خود بھی توحید کی دعوت قبول کرنے سے انکار کرچکے ہوں اور انہوں نے صاف صاف کہہ دیا ہو کہ ہم اپنی بندگی و عبادت کو ایک خدا کے لیے مخصوص کر دینا قبول نہیں کریں گے تو آخر انہیں کیا حق ہے کہ کسی ایسی عبادت گاہ کے متولی بنے رہیں جو صرف خد اکی عبادت کے لیے بنائی گئی تھی ۔ یہاں اگرچہ بات عام کہی گئی ہے اور اپنی حقیقت کے لحاظ سے یہ عام ہے بھی لیکن خاص طور پر یہاں اس کا ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ خانہ کعبہ اور مسجد حرام پر سے مشرکین کی تولیت کا خاتمہ کر دیا جائے اور اس پر ہمیشہ کے لیے اہل توحید کی تولیت قائم کر دی جائے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :20 یعنی جو تھوڑی بہت واقعی خدمت انہوں نے بیت اللہ کی انجام دی وہ بھی اس وجہ سے ضائع ہوگئی کہ یہ لوگ اس کے ساتھ شرک اور جاہلانہ طریقوں کی آمیزش کرتے رہے ۔ ان کی تھوڑی بھلائی کو ان کی بہت بڑی برائی کھا گئ ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

15: مشرکین مکہ اس بات پر فخر کیا کرتے تھے کہ وہ مسجد حرام کے پاسبان ہیں، اس کی خدمت، دیکھ بھال اور تعمیر جیسے نیک انجام دیتے ہیں، اس لئے ان کو مسلمانوں پر فوقیت حاصل ہے۔ اس آیت نے ان کے اس زعم باطل کی تردید فرمائی ہے، اور وہ اس طرح کہ مسجد حرام یا کسی بھی مسجد کی خدمت یقینا بڑی عبادت ہے، بشرطیکہ وہ ایمان کے ساتھ ہو، کیونکہ مسجد کا اصل مقصد اﷲ تعالیٰ کی ایسی عبادت ہے جس میں اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ اگر یہ بنیادی مقصد ہی مفقود ہو تو مسجد کی خدمت کا کیا فائدہ؟ لہٰذا کفر وشرک کے ساتھ کوئی بھی شخص مسجد کا پاسبان بننے کا اہل نہیں ہے۔ چنانچہ آگے آیت نمبر ۲۸ میں مشرکین کو یہ حکم سنادیا گیا ہے کہ اب وہ ان کاموں کے لئے مسجد حرام کے قریب بھی نہیں آسکیں گے۔