Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 جس طرح حدیث میں بھی ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم دیکھو کہ ایک آدمی مسجد میں پابندی سے آتا ہے تو تم اس کے ایمان کی گواہی دو قرآن کریم میں یہاں بھی ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے بعد جن اعمال کا ذکر کیا گیا ہے، وہ نماز زکٰوۃ اور مشیت الٰہی ہے، جس سے نماز، زکٰوۃ اور تقویٰ کی اہمیت واضح ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧] مساجد کی آبادی کا مطلب آباد کرنے والوں کی صفات :۔ آباد کرنے سے مراد مساجد میں نمازوں کے لیے آنا جانا، مساجد کی صفائی، ان میں روشنی کا انتظام، مساجد کی تعمیر، ان کی مرمت اور تولیت وغیرہ سب کچھ شامل ہے اور یہ صرف ان لوگوں کا کام ہے جن میں بالخصوص چار باتیں پائی جائیں۔ اللہ اور روز آخرت پر ایمان پھر اسی ایمان کی ظاہری شہادت کے طور پر نماز کا قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرنا۔ یعنی اللہ کے سوا دوسرے دیوی، دیوتا، بزرگ یا فرشتوں اور ستاروں کی ارواح کے متعلق یہ گمان رکھنا کہ اگر وہ ناراض ہوگئے تو اسے کوئی نقصان پہنچا سکتے یا کسی مصیبت سے دو چار کرسکتے ہیں پھر اسی بنا پر ان کی نذر و نیاز اور منتیں ماننا یا عبادت کی کوئی بھی رسم بجا لانا کسی ایماندار کا شیوہ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ایسے لوگ کبھی ہدایت پاسکتے ہیں خواہ وہ نبی کی اولاد ہی کیوں نہ ہوں اور ایسی تولیت ان کے ورثہ میں چلی آرہی ہو۔ مساجد کی آباد کاری اور ان کا ادب و احترام نہایت اعلیٰ درجہ کا عمل ہے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے :۔- ١۔ سیدنا عثمان (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے سنا ہے کہ جس نے اللہ کی رضا جوئی کے لیے مسجد بنائی اللہ ویسا ہی گھر اس کے لیے بہشت میں بنائے گا۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب من بنی مسجدا )- ٢۔ سیدنا ابو سعید کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اگر تم کسی آدمی کو مسجد میں آنے جانے کا عادی دیکھو تو اس کے ایمان کی گواہی دو ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ کی مسجدیں صرف وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)- ٣۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا سات آدمیوں کو اللہ تعالیٰ اس دن اپنے سائے میں رکھے گا جس دن اس کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔ ١۔ عادل بادشاہ، ٢۔ وہ جوان جو جوانی کی امنگ سے اللہ کی عبادت میں رہا۔ ٣۔ وہ شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے، ٤۔ وہ دو مرد جنہوں نے اللہ کی خاطر محبت کی پھر اس پر قائم رہے۔ اور اسی پر جدا ہوئے، وہ شخص جسے کسی حسب و جمال والی عورت نے (بدی کے لیے) بلایا مگر اس نے کہا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، وہ مرد جس نے داہنے ہاتھ سے ایسے چھپا کر صدقہ دیا کہ بائیں ہاتھ تک کو خبر نہ ہوئی۔ وہ مرد جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کے آنسو بہہ نکلے۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب الصدقۃ بالیمین)- ٤۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا فرشتے اس شخص کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں جو نماز پڑھنے کے بعد مسجد میں اپنی نماز کی جگہ پر بیٹھا رہے جب تک اس کو حدث لاحق نہ ہو۔ فرشتے یوں کہتے رہتے ہیں۔ یا اللہ اس کو بخش دے یا اللہ اس پر رحم کر۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب الحدث فی المسجد)- ٥۔ سائب بن یزے د کہتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں کھڑا تھا اتنے میں ایک شخص نے مجھ پر کنکر پھینکا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ عمر بن خطاب ہیں۔ مجھے کہنے لگے جاؤ ان دو آدمیوں کو بلا لاؤ۔ میں بلا لایا۔ سیدنا عمر نے ان سے پوچھا کہاں سے آئے ہو ؟ وہ کہنے لگے طائف سے سیدنا عمر نے فرمایا اگر تم اس شہر کے رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں خوب سزا دیتا۔ تم رسول اللہ کی مسجد میں اپنی آوازیں بلند کرتے ہو ؟ (بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب رفع الصوت فی المسجد)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ باللّٰهِ : آباد کرنے میں مساجد کی تعمیر، ان میں نمازوں کے لیے آنا، صفائی، روشنی، مرمت اور نگرانی وغیرہ سب چیزیں شامل ہیں اور یہ صرف ان لوگوں کا کام ہے جن میں خصوصاً چار چیزیں پائی جائیں : 1 اللہ اور یوم آخرت پر ایمان۔ 2 ظاہر میں اس ایمان کی شہادت کے لیے نماز کا قیام۔ 3 زکوٰۃ کی ادائیگی۔ 4 اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرنا، جبکہ مشرکین ان چاروں صفات سے عاری ہیں۔ مساجد کی تعمیر، آباد کاری اور ان کا ادب و احترام نہایت اعلیٰ درجے کا عمل ہے۔ امیر المومنین عثمان (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو شخص اللہ کے لیے کوئی مسجد بنائے تو اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لیے اس جیسا گھر بنائے گا۔ “ [ بخاری، الصلاۃ، باب من بنی مسجدًا : ٤٥٠ ] ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام بلاد (جگہوں) میں سب سے زیادہ محبوب ان کی مسجدیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں تمام بلاد (جگہوں) سے زیادہ ناپسند ان کے بازار ہیں۔ “ [ مسلم، المساجد، باب فضل الجلوس فی مصلاہ۔۔ : ٦٧١ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اس آیت میں عمارت مسجد کا منفی پہلو بیان کیا گیا تھا کہ مشرکین اس کے اہل نہیں ہیں۔- دوسری آیت میں عمارت مسجد کا مثبت پہلو اس طرح ارشاد فرمایا : (آیت) اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَام الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰٓى اُولٰۗىِٕكَ اَنْ يَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِيْنَ ، یعنی مسجدوں کو آباد کرنا انہی لوگوں کا کام ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لاویں اور نماز کی پابندی کریں اور زکوٰة دیں اور بجز اللہ تعالیٰ کے کسی سے نہ ڈریں سو ایسے لوگوں کے متعلق توقع ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے “۔- مطلب یہ ہے کہ مساجد کی اصلی عمارت صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو عقیدہ اور عمل کے اعتبار سے احکام الہٰی کے پابند ہوں، اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہوں اور نماز زکوٰة کے پابند ہوں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں، اس جگہ صرف اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا رسول پر ایمان کے ذکر کرنے کی اس لئے ضرورت نہ سمجھی گئی کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی کوئی صورت بجز اس کے ہو ہی نہیں سکتی کہ رسول پر ایمان لائے، اور اس کے ذریعہ جو احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئیں ان کو دل سے قبول کرے، اس لئے ایمان بااللہ میں ایمان بالرسول فطری طور پر داخل ہے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ صحابہ کرام سے پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ اللہ پر ایمان کیا چیز ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ اور رسول ہی زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ اللہ پر ایمان یہ ہے کہ آدمی دل سے اس کی شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی قابل عبادت نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، اس حدیث نے بتلایا کہ رسول پر ایمان لانا اللہ پر ایمان لانے میں داخل اور شامل ہے ( مظہری بحوالہ صحیحین) ۔- اور یہ جو ارشاد فرمایا کہ اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرے، اس کے معنی یہ ہیں کہ دین کے معاملہ میں کسی کے خوف سے اللہ کے حکم کو ترک نہ کر ے، ورنہ خوف کی چیزوں سے ڈرنا اور دہشت کھانا تو تقاضائے عقل و فطرت ہے، درندے اور زہریلے جا نوروں سے چور ڈاکو سے طبعی طور پر ڈرنا اس کے خلاف نہیں، یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے جب جادوگروں نے رسیوں کے سانپ بنا کر دکھلائے تو وہ ڈر گئے، (آیت) فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِهٖ خِيْفَةً مُّوْسٰى، اس لئے ایذاء اور نقصان پہونچانے والوں سے طبعی خوف نہ حکم قرآن کے خلاف ہے نہ رسالت اور ولایت کے، ہاں اس خوف سے مغلوب ہو کر کہ اللہ تعالیٰ کے احکام میں خلل ڈالنا یا ان کو ترک کردینا یہ مومن کی شان نہیں، یہی اس جگہ مراد ہے۔- بعض مسائل متعلقہ آیت : - اور عمارت مسجد جس کے متعلق ان آیتوں میں یہ ذکر ہے کہ مشرک کافر نہیں کرسکتے بلکہ وہ صرف نیک صالح مسلمان ہی کا کام ہے، اس سے مراد مساجد کی تولیت اور انتظامی ذمہ داری ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ کسی کافر کو کسی اسلامی وقف کا متولی اور منتظم بنانا جائز نہیں، باقی رہا ظاہری در و دیوار وغیرہ کی تعمیر، سو اس میں کسی غیر مسلم سے بھی کام لیا جائے تو مضائقہ نہیں ( تفسیر مراغی) اس طرح اگر کوئی غیر مسلم ثواب سمجھ کر مسجد بنا دے یا مسجد بنانے کے لئے مسلمانوں کو چندہ دیدے تو اس کا قبول کرلینا بھی اس شرط سے جائز ہے کہ اس سے کسی دینی یا دنیوی نقصان یا الزام کا یا آئندہ اس پر قبضہ کرلینے کا یا احسان جتلانے کا خطرہ نہ ہو ( در المختار، شامی، مراغی) - اور اس آیت میں جو یہ ارشاد فرمایا کہ مساجد کی عمارت اور آبادی صرف نیک مسلمان ہی کا کام ہے، اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جو شخص مساجد کی حفاظت، صفائی اور دوسری ضروریات کا انتظام کرتا ہے، اور جو عبادت اور ذکر اللہ کے لئے یا علم دین اور قرآن پڑھنے پڑھانے کے لئے مسجد میں آتا جاتا ہے اس کے یہ اعمال اس کے مومن کامل ہونے کی شہادت ہے۔- امام ترمذی اور ابن ماجہ نے بروایت ابو سعید خدری نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ مسجد کی حاضری کا پابند ہے تو اس کے ایمان کی شہادت دو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (آیت) اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ باللّٰهِ ۔ - اور صحیحین کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص صج شام مسجد میں حاضر ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا ایک درجہ تیار فرما دیتے ہیں۔- اور حضرت سلمان فارسی نے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص مسجد میں آیا وہ اللہ تعالیٰ کی زیارت کرنے والا مہمان ہے، اور میزبان پر حق ہے کہ مہمان کا اکرام کرے ( مظہری) بحوالہ طبرانی ابن جریر، بیہقی وغیرہ) ۔- مفسر القرآن حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) نے فرمایا کہ عمارت مسجد میں یہ بھی داخل ہے کہ مسجد کو ایسی چیزوں سے پاک کرے جن کے لئے مسجدیں نہیں بنائی گئیں مثلًا خریدو فروخت دنیا کی باتیں کسی گم شدہ چیز کی تلاش یا دنیا کی چیزوں کا لوگوں سے سوال یا فضول قسم کے اشعار جھگڑا، لڑائی اور شور و شغب وغیرہ ( مظہری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَى الزَّكٰوۃَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللہَ فَعَسٰٓى اُولٰۗىِٕكَ اَنْ يَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُہْتَدِيْنَ۝ ١٨- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔- اقامت - والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة 43]- الاقامتہ - ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے - صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- خشی - الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28]- ( خ ش ی ) الخشیۃ - ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ - إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ - عسی - عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] ، أي : کونوا راجین - ( ع س ی ) عسیٰ- کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے - اهْتِدَاءُ- يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 53] ، - الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٨) مسجد حرام کو آباد کرنا تو ان ہی لوگوں کا کام ہے جو بعث بعد الموت پر ایمان لاتے ہیں اور پانچوں نمازیں اور زکوٰۃ کو ادا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرتے ہیں تو ایسے لوگ یقیناً اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کی حجت کو پالیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani