Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

سب سے بری عبادت اللہ کی راہ میں جہاد ہے ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ کافروں کا قول تھا کہ بیت اللہ کی خدمت اور حاجیوں کے پانی پلانے کی سعادت ایمان وجہاد سے بہتر ہے ہم چونکہ یہ دونوں خدمتیں انجام دے رہے ہیں اس لیے ہم سے بہتر کوئی نہیں ۔ اللہ نے ان کے فخر و غرور اور حق سے تکبر اور منہ پھیرنے کو بےنقاب کیا کہ میری آیتوں کی تمہارے سامنے تلاوت ہوتے ہوئے تم ان سے بےپرواہی سے منہ موڑ کر اپنی بات چیت میں مشغول رہتے ہو ۔ پس تمہارا گمان بیجا تمہارا غرور غلط ، تمہارا فخر نامناسب ہے یوں بھی اللہ کے ساتھ ایمان اور اس کی راہ میں جہاد بہت بڑی چیز ہے لیکن تمہارے مقابلے میں تو وہ اور بھی بڑی چیز ہے کیونکہ تمہاری تو کوئی نیکی ہو بھی تو اسے شرک کا کیڑا کھا جاتا ہے ۔ پس فرماتا ہے کہ یہ دونوں گروہ برابر کے بھی نہیں یہ اپنے تئیں آبادی کرنے والا کہتے تھے اللہ نے ان کا نام ظالم رکھا ان کی اللہ کے گھر کی خدمت بیکار کر دی گئی ۔ کہتے ہیں کہ حضرت عباس نے اپنی قید کے زمانے میں کہا تھا کہ تم اگر اسلام و جہاد میں تھے تو ہم بھی اللہ کے گھر کی خدمت اور حاجیوں کو آرام پہنچانے میں تھے اس پر یہ آیت اتری کہ شرک کے وقت کی نیکی بیکار ہے ۔ صحابہ نے جب ان سے پر لے دے شروع کی تو حضرت عباس نے کہا تھا کہ ہم مسجد حرام کے متولی تھے ، ہم غلاموں کو آزاد کرتے تھے ، ہم بیت اللہ کو غلاف چڑھاتے تھے ، ہم حاجیوں کو پانی پلاتے تھے ، اس پر یہ آیت اتری ، مروی ہے کہ یہ گفتگو حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ میں ہوئی تھی ۔ مروی ہے کہ طلحہ بن شیبہ ، عباس بن عبد المطلب ، علی بن ابی طالب بیٹھے بیٹھے اپنی اپنی بزرگیاں بیان کرنے لگے ، عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا میں بیت اللہ کا کنجی بردار ہوں میں اگر چاہوں وہاں رات گزار سکتا ہوں ۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا میں زمزم کا پانی پلانے والا ہوں اور اس کا نگہبان ہوں اگر چاہوں تو مسجد ساری رات رہ سکتا ہوں ۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا میں نہیں جانتا کہ تم دونوں صاحب کیا کہہ رہے ہو ؟ میں لوگوں سے چھ ماہ پہلے قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہے میں مجاہد ہوں اور اس پر یہ آیت پوری اتری ۔ عباس رضی اللہ عنہ نے اپنا ڈر ظاہر کیا کہ کہیں میں چاہ زمزم کے پانی پلانے کے عہدے سے نہ ہٹا دیا جاؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں تم اپنے اس منصب پر قائم رہو تمہارے لیے اس میں بھلائی ہے ۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث وارد ہوئی ہے جس کا ذکر بھی یہاں ضروری ہے حضرت نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا اسلام کے بعد اگر میں کوئی عمل نہ کروں تو مجھے پرواہ نہیں بجز اس کے کہ میں حاجیوں کو پانی پلاؤں دوسرے نے اسی طرح مسجد حرام کی آبادی کو کہا تیسرے نے اسی طرح راہ رب کے جہاد کو کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹ دیا اور فرمایا منبر رسول اللہ کے پاس آوازیں بلند نہ کرو یہ واقعہ جمعہ کے دن کا ہے جمعہ کے بعد ہم سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور آپ سے پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وعدہ کیا تھا کہ نماز جمعہ کے بعد میں آپ جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات دریافت کرلوں گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 مشرکین حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی دیکھ بھال کا کام جو کرتے تھے، اس پر انہیں بڑا فخر تھا اور اس کے مقابلے میں وہ ایمان و جہاد کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے جس کا اہتمام مسلمانوں کے اندر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تم سقایت حاج اور عمارت مسجد حرام کو ایمان باللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کے برابر سمجھتے ہو ؟ یاد رکھو اللہ کے نزدیک یہ برابر نہیں، بلکہ مشرک کا کوئی عمل بھی قبول نہیں، چاہے وہ صورۃً خیر ہی ہو۔ جیسا کہ پہلی آیت کے جملے (حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ ) 2 ۔ البقرۃ :217) میں واضح کیا جا چکا ہے۔ بعض روایت میں اس کا سبب نزول مسلمانوں کی آپس میں ایک گفتگو کو بتلایا گیا ہے کہ ایک روز منبر نبوی کے قریب کچھ مسلمان جمع تھے اس میں سے ایک نے کہا کہ اسلام لانے کے بعد میرے نزدیک سب سے بڑا عمل حاجیوں کو پانی پلانا ہے دوسرے نے کہا مسجد حرام کو آباد کرنا ہے تیسرے نے کہا بلکہ جہادفی سبیل اللہ ان تمام عملوں سے بہتر ہے جو تم نے بیان کیے ہیں حضرت عمر (رض) نے جب انہیں اس طرح باہم تکرار کرتے ہوئے سنا تو انہیں ڈانٹا اور فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آوازیں اونچی مت کرو یہ جمعہ کا دن تھا راوی حدیث حضرت نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ جمعہ کے بعد نبی صلی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی آپس کی اس گفتگو کی بابت استفسار کیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (صحیح مسلم) جس میں گو یا یہ واضح کردیا گیا کہ ایمان باللہ ایمان بالآخرت اور جہاد فی سبیل اللہ سب سے زیادہ اہمیت و فضیلت والے عمل ہیں گفتگو کے حوالے سے اصل اہمیت و فضیلت تو جہاد کی بیان کرنی تھی لیکن ایمان باللہ کے بغیر چونکہ کوئی بھی عمل مقبول نہیں اس لیے پہلے اسے بیان کیا گیا بہرحال اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں۔ دوسرا یہ معلوم ہوا کہ اس کا سبب نزول مشرکین کے مزعومات فاسدہ کے علاوہ خود مسلمانوں کا بھی اپنے اپنے طور پر بعض عملوں کو بعض پر زیادہ اہمیت دینا تھا جب کہ یہ کام شارع کا ہے نہ کہ مومنوں کا مومنوں کا کام تو ہر اس بات پر عمل کرنا ہے جو اللہ اور رسول کی طرف سے انہیں بتلائی جائے۔ 19۔ 2 یعنی یہ لوگ چاہے کیسے بھی دعوے کریں۔ حقیقت میں ظالم ہیں یعنی مشرک ہیں، اس لئے کہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ اس ظلم کی وجہ سے یہ ہدایت الٰہی سے محروم ہیں۔ اس لئے ان کا اور مسلمانوں کا، جو ہدایت الٰہی سے بہرہ ور ہیں، آپس میں کوئی مقابلہ نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٨] جہاد کے مسائل :۔ اس آیت کے شان نزول سے متعلق درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے :۔- سیدنا نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ میں آپ کے منبر کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص کہنے لگا مجھے کوئی پروا نہیں اگر میں اسلام لانے کے بعد کوئی عمل نہ کروں سوائے حاجیوں کو پانی پلانے کے۔ دوسرے نے کہا مجھے کوئی پروا نہیں اگر میں اسلام لانے کے بعد کوئی عمل نہ کروں سوائے مسجد حرام کی تعمیر و آبادی کے۔ تیسرے نے کہا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ان کاموں سے افضل ہے جن کا تم ذکر کر رہے ہو۔ سیدنا عمر نے ڈانٹا کہ منبر کے پاس اپنی آوازیں بلند نہ کرو۔ نعمان کہتے ہیں کہ وہ جمعہ کا دن تھا۔ پھر سیدنا عمر نے کہا کہ میں جمعہ کی نماز کے بعد رسول اللہ کے پاس جاؤں گا اور جس بات میں تم اختلاف کر رہے ہو اس بارے میں ضرور سوال کروں گا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (مسلم۔ کتاب الامارۃ باب فضل الشھادۃ فی سبیل اللہ)- اس آیت میں روئے سخن مسلمانوں اور مشرکوں سب کے لیے عام ہے۔ مشرکوں کے لیے اس لحاظ سے کہ وہ بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ ہم حاجیوں کی خدمت کرتے، انہیں پانی پلاتے اور انہیں کھانا کپڑا مہیا کرتے ہیں نیز ہم مسجد حرام کی مرمت یا غلاف کعبہ یا روشنی وغیرہ کا بھی انتظام کرتے ہیں اگر مسلمان اپنے جہاد و ہجرت کو افضل اعمال سمجھتے ہیں تو ہمارے پاس بھی عبادات کا یہ ذخیرہ موجود ہے۔ انہیں تو یہ جواب دیا گیا کہ جب تمہارا آخرت اور اللہ پر ایمان ہی نہیں تو تمہارے یہ سب اعمال رائیگاں جائیں گے اور اگر اس آیت کا روئے سخن مسلمانوں کی طرف سمجھا جائے تو اس سے مراد ان کے اعمال کا باہمی موازنہ ہوگا۔ یعنی صرف اللہ اور آخرت پر ایمان لانے والے مسلمان اللہ کے نزدیک ان مسلمانوں کے برابر نہیں ہوسکتے جو ایمان بھی لائے اور جہاد بھی کیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاۗجِّ : اس آیت کے مخاطب مشرکین اور مسلمان دونوں ہیں، کیونکہ مشرکین کعبہ کی خدمت، تولیت اور حاجیوں کو شربت اور پانی پلانے پر بہت فخر کرتے تھے اور بعض مسلمان بھی اس کو سب سے اعلیٰ عمل سمجھتے تھے۔ نعمان بن بشیر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منبر کے پاس آپ کے اصحاب کی ایک جماعت میں بیٹھا ہوا تھا، تو ایک آدمی نے کہا کہ اسلام لانے کے بعد حاجیوں کو پانی پلانے کے علاوہ میں کوئی کام نہ کروں تو مجھے کچھ پروا نہیں۔ دوسرے نے کہا، بلکہ مسجد حرام کی آباد کاری ( افضل ہے) ۔ ایک اور نے کہا، بلکہ جہاد فی سبیل اللہ اس سے بہتر ہے جو تم کہہ رہے ہو۔ تو عمر (رض) نے انھیں ڈانٹا اور فرمایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منبر کے پاس آوازیں مت بلند کرو، یہ جمعہ کے دن کی بات ہے، لیکن جب تم جمعہ پڑھ چکو گے تو میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤں گا اور تمہارے اس جھگڑے کا فیصلہ کروا لوں گا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری : (اَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاۗجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ اٰمَنَ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ) [ مسلم، الإمارۃ، باب فضل الشھادۃ فی سبیل اللّٰہ تعالیٰ : ١٨٧٩] یعنی یہ کام گو فضیلت کے ہیں مگر اللہ اور یوم آخرت پر ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہیں رکھتے اور پھر یہ ایمان کے بغیر مقبول بھی نہیں۔ (وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ ) شرک سب سے بڑا ظلم ہے، پھر جو اس پر اصرار کرے اس ظالم کو سیدھی راہ کیسے نصیب ہو ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - کیا تم لوگوں نے حجاج کے پانی پلانے کو اور مسجد حرام کے آباد رکھنے کو اس شخص ( کے عمل) کی برابر قرار دے لیا جو کہ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لایا ہو، اور اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو ( وہ عمل ایمان اور جہاد ہے، یعنی یہ عمل برابر نہیں اور جب اعمال برابر نہیں تو) یہ ( عامل) لوگ ( بھی باہم) برابر نہیں اللہ کے نزدیک ( غرض عمل عمل باہم اور عامل عامل باہم برابر نہیں مقصود بقرینہ سیاق یہ ہے کہ ایمان اور جہاد میں سے ہر واحد افضل ہے، سقایہ اور عمارت کے ہر واحد سے یعنی ایمان بھی دونوں سے افضل ہے، اور اس سے جواب ہوگیا مشرکین کا کہ ان میں ایمان نہ تھا، اور جہاد بھی دونوں سے افضل ہے، اس سے جواب ہوگیا بعض مومنین کا جو کہ بعد ایمان کے سقایہ اور عمارت کو جہاد پر تفضیل دیتے تھے) اور ( یہ امر مذکور بہت ہی ظاہر ہے لیکن) جو لوگ بےانصاف ہیں ( مراد مشرک ہیں) اللہ تعالیٰ ان کو سمجھ نہیں دیتا ( اس لئے وہ نہیں مانتے بخلاف اہل ایمان کے کہ وہ اس تحقیق کو فوراً مان گئے، آگے اس مضمون کی تصریح ہے جو اوپر لایستون سے مقصود تھا یعنی) جو لوگ ایمان لائے اور ( اللہ کے واسطے) انہوں نے ترک وطن کیا اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کیا وہ درجہ میں اللہ کے نزدیک ( بمقابلہ اہل سقایہ و اہل عمارت کے) بہت بڑے ہیں ( کیونکہ اگر اہل سقایہ و اہل عمارت میں ایمان نہ ہو تب تو یہ بڑائی انہی مومنین مہاجرین مجاہدین میں منحصر ہے اور اگر ان میں ایمان ہو تو گو وہ بھی بڑے ہیں مگر یہ زیادہ بڑے ہیں) اور یہی لوگ پورے کامیاب ہیں ( کیونکہ اگر ان کے مقابلین میں ایمان نہ ہو تب تو کامیابی کا حصر انہی میں ہے، اور اگر ایمان ہو تو کامیابی مشترک ہے لیکن ان کی کامیابی ان سے اعلی ہے، آگے اس درجہ اور فوز کا بیان ہے کہ) ان کا رب ان کو بشارت دیتا ہے اپنی طرف سے بڑی رحمت اور بڑی رضامندی اور ( جنت کے) ایسے باغوں کی ان کے لئے کہ ان ( باغوں) میں دائمی نعمت ہوگی ( اور) ان میں یہ ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے بلاشبہ اللہ کے پاس بڑا اجر ہے، ( اس میں سے ان کو دیا جائے گا) اے ایمان والو اپنے باپوں کو اور اپنے بھائیوں کو ( اپنا) رفیق مت بناؤ اگر وہ لوگ کفر کو بمقابلہ ایمان کے ( ایسا) عزیز رکھیں ( کہ ان کے ایمان لانے کی امید نہ رہے) اور جو شخص تم میں سے ان کے ساتھ رفاقت رکھے گا سو ایسے لوگ بڑے نافرمان ہیں ( مطلب یہ کہ بڑا مانع ہجرت سے ان لوگوں کا تعلق ہے اور خود وہی جائز نہیں پھر ہجرت میں کیا دشواری ہے ) ۔- معارف و مسائل - شروع کی چار آیتیں ١٩ سے ٢٢ تک ایک خاص واقعہ سے متعلق ہیں وہ یہ کہ بہت سے مشرکین مکہ مسلمانوں کے مقابلہ میں اس پر فخر کیا کرتے تھے کہ ہم مسجد حرام کی آبادی اور حجاج کو پانی پلانے کا انتظام کرتے ہیں، اس سے بڑھ کر کسی کا کوئی عمل نہیں ہوسکتا، اسلام لانے سے پہلے جب حضرت عباس غزوہ بدر میں گرفتار ہو کر مسلمانوں کی قید میں آئے اور ان کے مسلم عزیزوں نے ان کو اس پر ملامت کی کہ آپ نعمت ایمان سے محروم ہیں تو انہوں نے بھی یہی کہا تھا کہ آپ لوگ ایمان و ہجرت کو اپنا بڑا سرمایہ فضیلت سمجھتے ہیں مگر ہم بھی تو مسجد حرام کی عمارت اور حجاج کو پانی پلانے کی اہم خدمات کے متولی ہیں جن کی برابر کسی کا عمل نہیں ہو سکتا، اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں ( ابن کثیر بروایت علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس) - اور مسند عبدالرزاق کی بعض روایات میں ہے کہ حضرت عباس کے مسلمان ہوجانے کے بعد طلحہ بن شیبہ اور حضرت عباس اور علی کرم اللہ وجہہ کے آپس میں گفتگو ہو رہی تھی، طلحہ نے کہا کہ مجھے وہ فضیلت حاصل ہے جو تم میں سے کسی کو حاصل نہیں کہ بیت اللہ کی چابی میرے ہاتھ میں ہے میں اگر چاہوں تو بیت اللہ کے اند جاکر رات گذار سکتا ہوں، حضرت عباس نے فرمایا کہ میں حجاج کو پانی پلانے کا متولی اور منتظم ہوں اور مسجد حرام میں میرے اختیارات ہیں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ حضرات کس چیز پر فخر کر رہے ہیں، میرا حال تو یہ ہے کہ میں نے سب لوگوں سے چھ مہینہ پہلے بیت اللہ کی طرف نماز پڑھی ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد میں شریک رہا ہوں، اور اس پر یہ آیات نازل ہوئیں جن میں واضح کردیا گیا کہ کوئی عمل کتنا ہی اعلیٰ و افضل ہو ایمان کے بغیر اللہ کے نزدیک اس کی کوئی قیمت نہیں اور نہ حالت شرک میں ایسے اعمال کا کرنے والا اللہ کے نزدیک مقبول ہے۔- اور صحیح مسلم میں حضرت نعمان بن بشیر (رض) کی روایت سے یہ واقعہ منقول ہے کہ وہ ایک روز جمعہ کے دن مسجد نبوی میں چند حضرات صحابہ کے ساتھ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منبر کے پاس جمع تھے، حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا کہ اسلام و ایمان کے بعد میرے نزدیک حجاج کو پانی پلانے سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں، اور مجھے اس کے مقابلہ میں کسی دوسرے عمل کی پروا نہیں، ایک دوسرے صاحب نے ان کے جواب میں کہا کہ نہیں اللہ کی راہ میں جہاد سب سے بڑا عمل ہے، ان دونوں میں بحث ہونے لگی تو حضرت فاروق اعظم نے دونوں کو ڈانٹ کر کہا کہ منبر نبوی کے پاس شور و شغب نہ کرو، مناسب بات یہ ہے کہ جمعہ کی نماز پڑھنے کے بعد یہ بات خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کرلو، اس تجویز کے مطابق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں جن میں جہاد کو عمارت مسجد حرام اور سقایہ حجاج سے افضل عمل بتلایا گیا۔- اور اس میں کوئی بعد نہیں کہ اصل آیات کا نزول تو مشرکین کے فخر وتکبر کے جواب میں ہوا ہو، پھر اس کے بعد جو واقعات مسلمانوں کے باہم پیش آئے ان میں بھی انہی آیات کو استدلال کے لئے پیش کیا گیا ہو جس سے سننے والوں کو یہ محسوس ہوا کہ یہ آیات اس واقعہ میں نازل ہوئیں۔- بہرحال آیات مذکورہ میں دونوں قسم کے واقعات کا یہ جواب ہے کہ شرک کے ساتھ تو کوئی عمل کتنا ہی بڑا ہو مقبول اور قابل ذکر ہی نہیں، اس لئے کسی مشرک کو عمارت مسجد یا سقایہ حجاج کی وجہ سے کوئی فضیلت و بزرگی مسلمانوں کے مقابلہ میں حاصل نہیں ہوسکتی اور ایمان کے بعد بھی ایمان و جہاد کا درجہ بہ نسبت عمارت مسجد حرام اور سقایة الحجاج کے بہت زیادہ ہے جو مسلمان ایمان و جہاد میں مقدم رہے وہ ان مسلمانوں سے افضل ہیں جنہوں نے جہاد میں شرکت نہیں کی، صرف مسجد حرام کی تعمیر اور حجاج کے پانی پلانے کی خدمت انجام دیتے رہے۔- اس تمہید کے بعد آیات مذکورہ کے الفاظ اور ترجمہ پر پھر ایک نظر ڈالئے، ارشاد فرمایا کہ کیا تم نے حجاج کو پانی پلانے اور مسجد حرام کے آباد رکھنے کو اس شخص کے برابر قرار دیا جو کہ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لایا ہو اور اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو یہ لوگ برابر نہیں اللہ کے نزدیک۔- بقرینہ سیاق مقصود یہ ہے کہ ایمان اور جہاد میں سے ہر ایک افضل ہے، سقایة الحجاج اور عمارت مسجد سے یعنی ایمان بھی دونوں سے افضل ہے اور جہاد بھی، ایمان کے افضل ہونے سے مشرکین کی بات کا جواب ہوگیا اور جہاد کے افضل ہونے سے ان مسلمانوں کی بات کا جواب ہوگیا جو عمارت مسجد اور سقایة حجاج کو جہاد سے افضل کہتے تھے۔- ذکر اللہ جہاد سے افضل ہے :- تفسیر مظہری میں حضرت قاضی ثناء اللہ (رح) نے فرمایا کہ اس آیت میں جو عمارت مسجد پر جہاد کو فضیلت اور ترجیح دی گئی ہے یہ عمارت کے ظاہری معنی کی رو سے ہے یعنی مسجد کی تعمیر اور ضروری انتظامات کہ جہاد کا ان کے مقابلہ میں افضل ہونا مسلم ہے۔- لیکن عمارت مسجد کے ایک دوسرے معنی عبادت اور ذکر اللہ کے لئے مسجد میں حاضری کے بھی آتے ہیں اور درحقیقت مسجد کی اصلی عمارت وآبادی اسی سے ہے، اس معنی کے اعتبار سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صریح ارشادات کی بناء پر عمارت مسجد جہاد سے افضل و اعلی ہے جیسا کہ مسند احمد اور ترمذی، ابن ماجہ میں حضرت ابوالدرداء کی روایت سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایسا عمل بتلاؤں جو تمہارے تمام اعمال سے بہتر اور تمہارے مالک کے نزدیک سب سے زیادہ افضل ہو اور تمہارے درجات کو سب سے زیادہ بلند کرنے والا اور سونے چاندی کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے بھی افضل ہو اور اس سے بھی افضل ہو کہ تم جہاد میں دشمن سے سخت مقابلہ کرو جس میں تم ان کو قتل کرو وہ تمہیں قتل کریں، صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ عمل ضرور بتلایئے، آپ نے فرمایا کہ وہ عمل ذکر اللہ ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ذکر اللہ کی فضیلت جہاد سے بھی زیادہ ہے اور عمارت مسجد جب بمعنی ذکر اللہ لی جائے تو وہ بھی جہاد سے افضل ہے، مگر اس جگہ مشرکین کا فخر و غرور ظاہر ہے کہ ذکر اللہ اور عبادت کی بناء پر نہ تھا بلکہ ظاہری تعمیر اور انتظامات کی بناء پر تھا اس لئے جہاد کو اس سے افضل قرار دیا گیا۔- اور قرآن و سنت کے مجموعی ارشادات میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی عمل کا دوسرے عمل سے افضل و اعلی ہونا حالات و واقعات کے تابع ہوتا ہے، بعض حالات میں ایک عمل دوسرے سے افضل ہوتا ہے اور حالات بدلنے کے بعد معاملہ اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے، جس وقت اسلام اور مسلمانوں سے دفاع کی ضرورت شدید ہو اس وقت یقیناً جہاد تمام عبادات سے افضل ہوگا جیسا کہ غزوہ خندق میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چار نمازیں قضا ہوجانے کے واقعہ سے ظاہر ہے اور جس وقت ایسی شدید ضرورت نہ ہو تو ذکر اللہ اور عبادت بمقابلہ جہاد کے افضل ہوگا۔- آخر آیت میں (آیت) وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ ، فرما کر یہ بتلا دیا کہ یہ کوئی دقیق اور باریک بات نہیں بلکہ بالکل واضح ہے کہ ایمان سارے اعمال کی بنیاد اور ان سب سے افضل ہے، اور یہ کہ جہاد بہ نسبت عمارت مسجد اور سقایة الحجاج کے افضل ہے، مگر اللہ تعالیٰ بےانصاف لوگوں کو سمجھ نہیں دیتا، اس لئے وہ ایسی کھلی اور ظاہری باتوں میں بھی کج بحثی کرتے رہتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَجَعَلْتُمْ سِقَايَۃَ الْحَاۗجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰہَدَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝ ٠ ۭ لَا يَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللہِ۝ ٠ ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۝ ١٩ ۘ- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- سقاية- ما يجعل فيه ما يسقی، وأسقیتک جلدا : أعطیتکه لتجعله سقاء، وقوله تعالی:- جَعَلَ السِّقايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ [يوسف 70] ، فهو المسمّى صواع الملک، فتسمیته السِّقَايَةَ تنبيها أنه يسقی به، وتسمیته صواعا أنه يكال به .- سقاية- ( مشکیزہ ) وہ برتن جس میں پینے کی چیز رکھی جائے اسی سے ہے اسقیتک جلدا کہ ميں نے تمہیں ( مشکیزہ بنانے کے لئے چمڑا دیا ) اور آیت کریمہ : جَعَلَ السِّقايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ [يوسف 70]( تو ) اپنے بھائی کے شلتیے میں پینے کا برتن رکھ دیا ۔ میں سقایۃ سے مراد وہی ہے جسے ( بعد کی آیت ہیں ) صواع الملک کہا گیا ہے اس ایک ہی برتن کسے یہ دونام دو اعتبار سے ہیں یعنی اس کے ساتھ پانی پینے کے لحاظ سے اسے سقایۃ کہا ہے اور اس لحاظ سے کہ اس کے ساتھ غلہ ماپا جاتا ہے اسے صواع کہد یا ہے ۔- حج - أصل الحَجِّ القصد للزیارة، قال الشاعر : يحجّون بيت الزّبرقان المعصفرا خصّ في تعارف الشرع بقصد بيت اللہ تعالیٰ إقامة للنسک، فقیل : الحَجّ والحِجّ ، فالحَجُّ مصدر، والحِجُّ اسم، ويوم الحجّ الأكبر يوم النحر، ويوم عرفة، وروي : «العمرة الحجّ الأصغر» ( ح ج ج ) الحج ( ن ) کے اصل معنی کسی کی زیارت کا قصد اور ارادہ کرنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (99) یحجون سب الزیتون المعصفرا وہ زبر قان کے زر رنگ کے عمامہ کی زیارت کرتے ہیں ۔ اور اصطلاح شریعت میں اقامت نسک کے ارادہ سے بیت اللہ کا قصد کرنے کا نام حج ہے ۔ الحج ( بفتح الما) مصدر ہے اور الحج ( بکسرالحا) اسم ہے اور آیت کریمہ :۔ ويوم الحجّ الأكبر يوم میں حج اکبر سے مراد یوم نحر یا یوم عرفہ ہے ۔ ایک روایت میں ہے :۔ العمرۃ الحج الاصغر عمر حج اصغر ہے ۔.- حَرَمُ ( محترم)- والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع وکذلک الشهر الحرام،- جهد - الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال :- جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب :- مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان .- ومجاهدة النفس .- وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» - ( ج ھ د ) الجھد - والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور - جہا دتین قسم پر ہے - ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔- - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- استوا - أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6]- ( س و ی ) المسا واۃ - کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩) یہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی جسے بدر کے دن قید کرلیا گیا تھا اس نے حضرت علی (رض) یا بدرین میں سے کسی پر فخریہ یہ اظہار کیا کہ ہم حاجیوں کو پانی پلاتے ہیں اور مسجد حرام کو آباد کرتے ہیں اور فلاں فلاں کام کرتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تم نے حجاج کو پانی پلانے کو اس شخص یعنی بدری کے عمل کے برابر قرار دے لیا جو کہ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لایا ہو اور اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ہو، یہ اعمال ثواب اور (وہ حضرات) اطاعت خداوندی میں برابر نہیں ہوسکتے اور اللہ تعالیٰ مشرکوں کو جو کہ بذات خود اس کے اہل نہیں ہوتے اپنے دین کی سمجھ نہیں دیتا۔- شان نزول : (آیت) ” اجعلتم سقایۃ الحاج “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے علی بن ابی طلحہ (رض) کے ذریعہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت عباس (رض) غزوہ بدر کے دن جب قید کرلیے گئے تو انہوں نے فرمایا کہ اگر تم لوگ ہم سے اسلام ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ کی بنا پر سبقت لے گئے ہو تو ہم بھی مسجد حرام کی خدمت کرتے ہیں اور حجاج کو پانی پلاتے اور غلاموں کو آزاد کرتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔- حضرت امام مسلم (رح) ابن حبان (رح) اور ابوداؤد (رح) نے نعمان بن بشیر (رض) سے روایت کیا ہے کہ میں صحابہ کرام (رض) کی کچھ جماعت میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منبر کے پاس تھا تو ان میں سے ایک شخص کہنے لگا کہ اسلام کے بعد اگر صرف میں حاجیوں کو پانی پلاتا رہوں اور کوئی بڑی نیکی نہ کروں تو میرے لیے یہی کافی ہے، دوسرا کہنے لگا نہیں بلکہ مسجد حرام کی خدمت بڑی نیکی ہے اور تیسرے صاحب کہنے لگے کہ جن نیکیوں کا تم نے ذکر کیا ہے ان سب سے بڑھ کر نیکی جہاد فی سبیل اللہ ہے، حضرت عمر (رض) نے ان سب کو ڈانٹا اور فرمایا کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منبر کے قریب آوازیں مت اونچی کرو اور یہ جمعۃ المبارک کا دن ہے۔- لیکن جب میں جمعۃ المبارک کی نماز پڑھ چکا تو میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور جن باتوں میں ہمارے درمیان اختلاف ہورہا تھا ان کے متعلق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت اتاری اور فریابی نے علامہ ابن سیرین سے روایت کیا ہے کہ حضرت علی (رض) سے دریافت کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور فریابی نے علامہ ابن سیرین سے روایت کیا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) مکہ مکرمہ آئے تو حضرت عباس (رض) سے فرمایا اے چچا آپ ہجرت کیوں نہیں کرتے اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کیوں نہیں آجاتے، اس پر حضرت عباس (رض) نے فرمایا کیا آپ مسجد آباد کرتے ہیں اور بیت اللہ کی نگرانی کرتے ہیں چناچہ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، اور ایک قوم سے کہا کہ تم لوگ ہجرت کیوں نہیں کرلیتے اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کیوں نہیں آجاتے وہ کہنے لگے ہم اپنے بھائیوں قبیلوں اور گھروں میں ٹھہرے ہوئے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے اخیر تک یہ آیات نازل فرمائیں ، (آیت) ” قل ان کان ابآؤکم “۔ (الخ) اور عبدالرزاق نے شعبی سے اسی طرح روایت کیا ہے اور ابن جریر (رح) نے محمد بن کعب قرظی سے روایت کیا ہے کہ طلحہ بن شیبہ اور حضرت عباس (رض) اور علی بن ابی طالب نے آپس میں فخر کیا طلحہ کہنے لگا میں بیت اللہ والا ہوں، میرے پاس بیت اللہ کی چابی ہے، حضرت عباس (رض) بولے میں صاحب سقایہ اور اس کا نگران ہوں، حضرت علی (رض) نے فرمایا میں نے لوگوں سے پہلے قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی ہے اور میں صاحب جہاد ہوں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ تمام آیات نازل فرمائیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ (اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰہَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط) - مشرکین مکہ اس بات پر بہت نازاں ہیں کہ انہوں نے بیت اللہ کو آباد رکھا ہوا ہے اور وہ حاجیوں کو پانی پلانے جیسا کار خیر سر انجام دیتے ہیں ‘ تو کیا ان کے یہ امور ایمان باللہ ‘ ایمان بالآ خرت اور جہاد فی سبیل اللہ کے برابر ہوجائیں گے ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :21 یعنی کسی زیارت گاہ کی سجادہ نشینی ، مجاوری اور چند نمائشی مذہبی اعمال کی بجا آوری ، جس پر دنیا کے سطح بیں لوگ بالعموم شرف اور تقدس کا مدار رکھتے ہیں ، خدا کے نزدیک کوئی قدر و منزلت نہیں رکھتی ۔ اصلی قدر و قیمت ایمان اور راہ خدا میں قربانی کی ہے ۔ ان صفات کا جو شخص بھی حامل ہو وہ قیمتی آدمی ہے خواہ وہ کسی اونچے خاندان سے تعلق نہ رکھتا ہو اور کسی قسم کے امتیازی طرّے اس کو لگے ہوئے نہ ہوں ۔ لیکن جو لوگ ان صفات سے خالی ہیں وہ محض اس لیے کہ بزرگ زادے ہیں ۔ سجادہ نشینی ان کے خاندان میں مدتوں سے چلی آرہی ہے اور خاص خاص موقعوں پر کچھ مذہبی مراسم کی نمائش وہ بڑی شان کے ساتھ کر دیا کرتے ہیں ، نہ کسی مرتبے کے مستحق ہو سکتے ہیں اور نہ یہ جائز ہو سکتا ہے کہ ایسے بے حقیقت ”موروثی“ حقوق کو تسلیم کر کے مقدس مقامات اور مذہبی ادارے ان نالائق لوگوں کے ہاتھوں میں رہنے دیے جائیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

16: اس آیت کریمہ نے یہ اصول بھی بتادیا ہے کہ تمام نیک کام ایک درجے کے نہیں ہوتے، اگر کوئی شخص فرائض توادا نہ کرے، اور نفلی عبادتوں میں لگا رہے تو یہ کوئی نیکی نہیں ہے، حاجیوں کو پانی پلانا بیشک ایک نیک کام ہے، مگر وہ نفلی حیثیت رکھتا ہے، اور مسجد حرام کی دیکھ بھال بھی بعض حیثیتوں سے فرض کفایہ اور بعض حیثیتوں سے نفلی عبادت ہے، اس کے مقابلے میں ایمان انسان کی نجات کے لئے بنیادی شرط ہے، اور جہاد کبھی فرض عین اور کبھی فرض کفایہ، لہذا کسی کو صرف ان خدمات کی وجہ سے کسی مومن پر فوقیت حاصل نہیں ہوسکتی۔