27۔ 1 حُنَیْن مکہ اور طائف کے درمیان ایک وادی ہے۔ یہاں ھَوَاذِن اور ثَقِیْف رہتے تھے، یہ دونوں قبیلے تیر اندازی میں مشہور تھے۔ یہ مسلمانوں کے خلاف لڑنے کی تیاری کر رہے تھے جس کا علم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہوا تو آپ 21 ہزار کا لشکر لے کر ان قبیلوں سے جنگ کے لئے حنین تشریف لے گئے، یہ فتح مکہ کے 18، 19 دن بعد، شوال کا واقعہ ہے۔ مذکورہ قبیلوں نے بھرپور تیاری کر رکھی تھی اور مختلف کمین گاہوں میں تیر اندازوں کو مقرر کردیا تھا۔ ادھر مسلمانوں میں یہ عجب پیدا ہوگیا کہ آج کم از کم قلت کی وجہ سے ہم مغلوب نہیں ہونگے۔ یعنی اللہ کی مدد کے بجائے اپنی کثرت تعداد پر اعتماد زیادہ ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ کو یہ عجب کا کلمہ پسند نہیں آیا جب ہوازن کے تیر اندازوں نے مختلف کمین گاہوں سے مسلمانوں کے لشکر پر یک بارگی تیر اندازی کی تو اس غیر متوقع اور اچانک تیروں کی بچھاڑ سے مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ میدان میں صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سو کے قریب مسلمان رہ گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کو پکار رہے تھے اللہ کے بندو میرے پاس آؤ میں اللہ کا رسول ہوں کبھی یہ رجزیہ کلمہ پڑھتے اَنَا النَّبِیّْ لَا کَذ ِبْ ۔ اَنَا ابنُ عَبْدِ الْمُظَّلِبْ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عباس کو (جو نہایت بلند آواز تھے) حکم دیا کہ مسلمانوں کو جمع کرنے کے لئے آوازیں دیں۔ چناچہ ان کی ندا سن کر مسلمان سخت پشیمان ہوئے اور دوبارہ میدان میں آگئے اور پھر اس طرح جم کر لڑے کہ اللہ نے فتح عطا فرمائی، اللہ تعالیٰ کی مدد بھی حاصل ہوئی، جس سے ان کے دلوں سے دشمن کا خوف دور ہوگیا، دوسرے فرشتوں کا نزول ہوا۔ اس جنگ میں مسلمانوں نے چھ ہزار کافروں کو قیدی بنایا (جنہیں بعد میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی درخواست پر چھوڑ دیا گیا اور بہت سا مال غنیمت حاصل ہوا، جنگ کے بعد ان کے بہت سے سردار بھی مسلمان ہوگئے یہاں 3 آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس واقعے کا مختصر ذکر فرمایا ہے۔
[٢٥] لونڈی غلاموں کی واپسی :۔ جنگ کا یہ انجام دیکھ کر ان قبائل کے بہت سے لوگ اسلام لے آئے۔ پھر تقریباً دو مہینہ بعد یہ لوگ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جو اس وقت مکہ میں مقیم تھے اور درخواست کی کہ ان کے اموال ان کو واپس کردیئے جائیں اور لونڈی غلام آزاد کردیئے جائیں۔ آپ اس وقت تک یہ سب کچھ مجاہدین میں تقسیم کرچکے تھے۔ آپ نے انہیں جواب دیا کہ تم بہت دیر سے آئے۔ میں تمہارا انتظار کرتا رہا۔ اب تو میں سب کچھ تقسیم کرچکا ہوں۔ اب تو یہی ہوسکتا ہے کہ تم اپنے اموال واپس لے لو یا لونڈی غلام۔ ان لوگوں نے لونڈی غلام لینے کو ترجیح دی چناچہ آپ کے ارشاد کی تعمیل کرتے ہوئے برضا ورغبت مسلمانوں نے سارے کے سارے لونڈی غلام واپس کردیئے۔
ثُمَّ يَتُوْبُ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ : چناچہ غزوۂ حنین کے تقریباً بیس روز بعد ہوازن کے بقیہ لوگ مسلمان ہو کر جعرانہ کے مقام پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان لوگوں سے رضاعی رشتہ بھی تھا، کیونکہ آپ کی رضاعی ماں حلیمہ (رض) انھی سے تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو مسلمان ہونے کی توفیق بخشی، یہ اپنے اموال اور قیدی واپس لینے کی درخواست لے کر آئے۔ آپ نے فرمایا : ” تم نے آنے میں دیر کردی، میں نے غنیمت تقسیم کرنے سے پہلے تمہارا بہت انتظار کیا، اب دیکھ رہے ہو یہ لشکر میرے ساتھ ہے، اب ایک چیز کا انتخاب کرلو، یا اپنے اموال لے لو یا قیدی۔ “ انھوں نے کہا، آپ ہمارے قیدی آزاد کردیں۔ چناچہ آپ نے ان کے قیدی جو ابن کثیر کے مطابق (عورتیں بچے ملا کر) چھ ہزار تھے، سب مسلمانوں کو ترغیب دلا کر آزاد کردیے، البتہ مال غنیمت واپس نہیں کیا۔ [ بخاری، المغازی، باب قول اللہ تعالیٰ : ( ویوم حنین۔۔ ) : ٤٣١٨، ٤٣١٩ ]- حافظ ابن قیم (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عرب کے غزوات کا آغاز بدر سے اور خاتمہ حنین سے کیا، اس لیے یہاں دونوں کو یکے بعد دیگرے ملا کر ذکر فرمایا، ان دونوں کے درمیان سات سال کا فاصلہ تھا، اس کے ساتھ ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے مقابلے میں عرب کی جنگ کا انگارا بجھ گیا۔ پہلی جنگ نے انھیں خوف زدہ کرکے ان کی قوت توڑ دی تھی، آخری جنگ نے ان کی قوت کا خاتمہ کردیا، ان کا اسلحہ بےاثر کردیا اور ان کی جماعت کو اس طرح پیسا کہ ان کے لیے اسلام میں داخل ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ ادھر اس آخری جنگ میں مسلمانوں کو یہ سبق بھی خوب یاد کروا دیا کہ جنگ میں فتح تمہاری کثرت یا اسلحہ کی برتری کی وجہ سے نہیں بلکہ دین کی برکت اور اللہ کی مدد سے حاصل ہوتی ہے۔
(آیت) ثُمَّ يَتُوْبُ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ، یعنی پھر خدا تعالیٰ جس کو چاہیں توبہ نصیب کردیں، اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت کرنے والے بڑی رحمت کرنیوالے ہیں “۔ - اس میں اشارہ ہے کہ اس جہاد میں جن لوگوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں مغلوب اور مفتوح ہونے کی سزا مل چکی ہے، اور ابھی تک وہ اپنے کفر پر قائم ہیں، ان میں سے بھی کچھ لوگوں کو توفیق ایمان نصیب ہوگی، چناچہ ایسا ہی واقعہ پیش آیا جس کی تفصیل یہ ہے :- حنین کی فتح اور ہوازن و ثقیف کے سرداروں کا مسلمان ہو کر حاضر ہونا قیدیوں کی واپسی :- حنین میں قبیلہ ہوازن و ثقیف کے کچھ سردار مارے گئے، کچھ بھاگ کھڑے ہوئے ان کے ساتھ جو ان کے اہل و عیال اور اموال تھے وہ مسلمانوں کے قیدی اور مال غینمت بن کر مسلمانوں کے ہاتھ آئے جس میں چھ ہزار قیدی، چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار سے زائد بکریاں اور چار ہزار اوقیہ چاندی تھی، جس کے تقریباً چار من ہوتے ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو سفیان بن حرب کو اموال غنیمت کا نگران مقرر فرمایا۔- پھر شکست خوردہ ہوازن اور ثقیف نے مختلف مقامات پر مسلمانوں کے خلاف اجتماع کیا مگر ہر مقام پر ان کو شکست ہوتی گئی، وہ سخت مرعوب ہو کر طائف کے نہایت مستحکم قلعہ میں قلعہ بند ہوگئے، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پندرہ بیس روز اس قلعہ کا محاصرہ کیا، یہ قلعہ بند دشمن اندر ہی سے تیر برساتے رہے، سامنے آنے کی کسی کو ہمت نہ ہوئی، صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ان لوگوں کے لئے بد دعا فرمائیے، مگر آپ نے ان کے لئے ہدایت کی دعا فرمائی اور با لآخر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے مشورہ فرما کر واپسی کا قصد فرمایا، اور مقام جعرانہ پر پہنچ کر ارادہ فرمایا کہ پہلے مکہ معظمہ جا کر عمرہ ادا کریں پھر مدینہ طیبہ کو واپسی ہو، مکہ والوں کی بڑی تعداد جو تماشائی بن کر مسلمانوں کی فتح و شکست کا امتحان کرنے آئی تھی، اس جگہ پہنچ کر ان میں سے بہت لوگوں نے مسلمان ہونے کا اعلان کردیا۔- اسی مقام پر پہنچ کر مال غنیمت کی تقسیم کا انتظام کیا گیا تھا، ابھی اموال غنیمت تقسیم ہو ہی رہے تھے کہ دفعۃً ہوازن کے چودہ سرداروں کا ایک وفد زہیر بن صرد کی قیادت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رضاعی چچا ابو یرقان بھی تھے، انہوں نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ ہم مسلمان ہوچکے ہیں، اور یہ درخواست کی کہ ہمارے اہل و عیال اور اموال ہمیں واپس دیدئیے جائیں، اس درخواست میں عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ہم بلسلہ رضاعت آپ کے خویش و عزیز ہیں، اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے وہ آپ سے مخفی نہیں، آپ ہم پر احسان فرمائیں، رئیس وفد ایک شاعر آدمی تھا، اس نے کہا کہ یا رسول اللہ اگر ہم بادشاہ روم یا شاہ عراق سے اپنی ایسی مصیبت کے پیش نظر کوئی درخواست کرتے تو ہمارا خیال یہ ہے کہ وہ بھی ہماری درخواست کو رد نہ کرتے اور آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے اخلاق فاضلہ میں سب سے زیادہ ممتاز فرمایا ہے آپ سے ہم بڑی امید لے کر آئے ہیں۔- رحمہ للعالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے یہ موقع دوہری مشکل کا تھا کہ ایک طرف ان لوگوں پر رحم و کرم کا تقاضا یہ کہ ان کے سب قیدی اور اموال ان کو واپس کردیئے جائیں، دوسری طرف یہ کہ اموال غنیمت میں تمام مجاہدین کا حق ہوتا ہے، ان سب کو ان کے حق سے محروم کردینا ازروئے انصاف درست نہیں، اس لئے صحیح بخاری کی روایت کے مطابق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے جواب میں فرمایا :- میرے ساتھ کس قدر مسلمانوں کا لشکر ہے جو ان اموال کے حق دار ہیں، میں سچی اور صاف بات کو پسند کرتا ہوں، اس لئے آپ لوگوں کو اختیار دیتا ہوں کہ یا تو اپنے قیدی واپس لے لو یا اموال غنیمت ان دونوں میں جس کو تم انتخاب کرو وہ تمہیں دیدئیے جائیں گے، سب نے قیدیوں کی واپسی کو اختیار کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام صحابہ کو جمع فرما کر ایک خطبہ دیا، جس میں حمد وثناء کے بعد فرمایا کہ :- یہ تمہارے بھائی تائب ہو کر آگئے ہیں، میں یہ چاہتا ہوں کہ ان کے قیدی ان کو واپس دے دیے جائیں تم میں سے جو لوگ خوش دلی کے ساتھ اپنا حصہ واپس دینے کے لئے تیار ہوں وہ احسان کریں اور جو اس کے لئے تیار نہ ہوں تو ہم ان کو آئندہ اموال فئے میں سے اس کا بدلہ دیدیں گے۔- حقوق کے معاملہ میں رائے عامہ معلوم کرنے کے لئے عوامی جلسوں کی آوازیں کافی نہیں، ہر ایک سے علیحدہ رائے معلوم کرنی چاہئے : - مختلف اطراف سے یہ آواز اٹھی کہ ہم خوش دلی کے ساتھ سب قیدی واپس کرنے کے لئے تیار ہیں، مگر عدل و انصاف اور حقوق کے معاملہ میں احتیاط کے پیش نظر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح کی مختلف آوازوں کو کافی نہ سمجھا، اور فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ کون لوگ اپنا حق چھوڑنے کے لئے خوش دلی سے تیار ہوئے اور کون ایسے ہیں جو شرما شرمی خاموش رہے، معاملہ لوگوں کے حقوق کا ہے اس لئے ایسا کیا جائے کہ ہر جماعت اور خاندان کے سردار اپنی اپنی جماعت کے لوگوں سے الگ الگ صحیح بات معلوم کرکے مجھے بتائیں۔- اس کے مطابق سرداروں نے ہر ایک سے علیحدہ علیحدہ اجا زت حاصل کرنے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلایا کہ سب لوگ خوش دلی سے اپنا حق چھوڑنے کے لئے تیار ہیں، تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سب قیدی ان کو واپس کردیئے۔- یہی وہ لوگ تھے جن کے تائب ہونے کی طرف مذکورہ تیسری آیت میں اشارہ فرمایا گیا ہے (آیت) ثُمَّ يَتُوْبُ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ ، غزوہ حنین میں پیش آنے والے واقعات کی جو تفصیل بیان کی گئی ہے اس کا کچھ حصہ تو خود قرآن کریم میں مذکور ہے اور باقی مستند روایات حدیث سے لیا گیا ہے ( مظہری و ابن کثیر) - احکام و مسائل - ان واقعات کے ضمن میں بہت سے احکام و ہدایات اور ضمنی فوائد آئے ہیں، وہی ان واقعات کے بیان کرنے کا اصل مقصد ہیں۔- آیات مذکورہ میں سب سے پہلی ہدایت تو یہ دی گئی کہ مسلمانوں کو کسی وقت بھی اپنی جمعیت اور طاقت پر غرہ نہ ہونا چاہئے، جس طرح کمزوری اور بےسامانی کے وقت ان کی نظر اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد پر رہتی ہے اسی طرح قوت و طاقت کے وقت بھی ان کا مکمل اعتماد صرف اللہ تعالیٰ کی امداد ہی پر ہونا چاہئے۔- غزوہ حنین میں مسلمانوں کی تعدادی کثرت اور سامان حرب کے کافی ہونے کی وجہ سے بعض صحابہ کرام کی زبان پر جو بڑا بول آگیا تھا کہ آج تو کسی کی مجال نہیں جو ہم سے بازی لیجاسکے، اللہ تعالیٰ کو اپنی اس محبوب جماعت کی زبان سے ایسے کلمات پسند نہ آئے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابتدائی ہلہ کے وقت مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے، اور بھاگنے لگے، پھر اللہ تعالیٰ ہی کی غیبی امداد سے یہ میدان فتح ہوا۔- مفتوح و مغلوب کفار کے اموال میں عدل و انصاف اور احتیاط : - دوسری ہدایت اس واقعہ سے یہ حاصل ہوئی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ حنین کے لئے مکہ کے مفتوح غیر مسلموں سے جو سامان جنگ زرہیں اور نیزے لئے تھے یہ ایسا موقع تھا کہ ان سے زیر دستی بھی یہ چیزیں کی جاسکتی تھیں، مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عاریت کہہ کرلیا اور پھر سب کو ان کی مستعار چیزیں واپس کردیں۔- اس واقعہ نے مسلمانوں کے ساتھ بھی پورے عدل و انصاف اور رحم و کرم کے معاملہ کا سبق دیا۔- تیسری ہدایت اس ارشاد نبوی سے حاصل ہوئی جس میں حنین کی طرف جاتے ہوئے خیف بنی کنانہ میں قیام کے وقت فرمایا کہ کل ہم ایسے مقام پر قیام کریں گے جس میں بیٹھ کر ہمارے دشمن قریش مکہ نے مسلمانوں کے خلاف مقاطعہ کی قرارداد پر معاہدہ کیا تھا، اس میں اشارہ ہے کہ جب مسلمانوں کو حق تعالیٰ نے فتح و قوت عطا فرمادی تو اپنے پچھلے مصیبت کے دور کو نہ بھلا دیں، تاکہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا ہوسکے، ہوازن کے شکست خوردہ لوگوں کے بار بار حملہ آور ہونے اور تیر برسانے کے جواب میں رحمۃ للعالمین کی زبان مبارک سے بددعا کے بجائے ان کے لئے ہدایت کی دعا مسلمانوں کو یہ سبق دے رہی ہے کہ مسلمانوں کی جنگ و جہاد کا مقصد صرف دشمن کو زیر کرنا نہیں، بلکہ ان کو ہدایت پر لانا ہے، اس لئے اس کی کوشش سے کسی وقت غفلت نہ ہونی چاہئے۔- تیسری آیت نے یہ ہدایت کردی کہ جو کفار مقابلہ میں مغلوب ہوجائیں ان سے بھی مایوس نہ ہوں کہ شاید اللہ تعالیٰ ان کو پھر اسلام و ایمان کی ہدایت دیدیں، جیسا کہ وفد ہوازن کے واقعہ اسلام سے ثابت ہوا۔- وفد ہوازن کی درخواست پر ان کے جنگی قیدیوں کی واپسی کے وقت جب صحابہ کرام کے مجمع سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوال کیا اور مجمع کی طرف سے یہ آوازیں آئیں کہ ہم سب انکی واپسی کے لئے خوشدلی سے رضا مند ہیں، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو کافی نہ سمجھا بلکہ جدا جدا ہر ایک کی اجازت معلوم کرنے کا اہتمام فرمایا۔- اس سے ثابت ہوا کہ حقوق کے معاملہ میں جب تک خوش دلی کا اطمینان نہ ہوجائے کسی کا حق لینا جائز نہیں، مجمع کے رعب یا لوگوں کی شرم سے کسی کا خاموش رہنا رضا مندی کے لئے کافی نہیں، اسی سے حضرات فقہاء نے فرمایا ہے کہ کسی شخص پر اپنی وجاہت کا رعب ڈال کر کسی دینی مقصد کے لئے چندہ کرنا بھی درست نہیں، کیونکہ ایسے حالات میں بہت سے شریف آدمی محض شرما شرمی کچھ دیدیتے ہیں، پوری رضا مندی نہیں ہوتی، اس طرح کے مال میں برکت بھی نہیں ہوتی۔
ثُمَّ يَتُوْبُ اللہُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ ٠ ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ٢٧- توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
(٢٧) پھر اس قتال اور شکست کے بعد جس نے ان میں سے توبہ کرلی تو اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے کی مغفرت فرمانے والے ہیں۔
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :24 غزوہ حنین میں فتح حاصل کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شکست خوردہ دشمنوں کے ساتھ جس فیاضی و کریم النفسی کا برتاؤ کیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے بیشتر آدمی مسلمان ہو گئے ۔ اس مثال سے مسلمانوں کو یہ بتانا مقصود ہے کہ تم نے یہی کیوں سمجھ رکھا ہے کہ بس اب سارے مشرکین عرب تہس نہس کر ڈالے جائیں گے ۔ نہیں ، پہلے کے تجربات کو دیکھتے ہوئے تو تم کو یہ توقع ہونی چاہیے کہ جب نظام جاہلیت کے فروغ و بقا کی کوئی امید ان لوگوں کو باقی نہ رہے گی اور وہ سہارے ختم ہو جائیں گے جن کی وجہ سے یہ اب تک جاہلیت کو چمٹے ہوئے ہیں تو خود بخود یہ اسلام کے دامن رحمت میں پناہ لینے کے لیے آجائیں گے ۔
21: اس آیت میں اشارہ فرمادیا گیا کہ ہوازن کے جو لوگ بڑے جوش و خروش کے ساتھ لڑنے کے لیے آئے تھے، ان میں سے بہت سے لوگوں کو ایمان اور توبہ کی توفیق ہوجائے گی، چنانچہ ایسا ہی ہوا، اور ہوازن اور ثقیف کے لوگوں کی بہت بڑی تعداد بعد میں مسلمان ہوئی۔ خود مالک بن عوف جو ہوازن کے سب سے بڑے سردار تھے، مسلمان ہوئے اور اسلام کے بڑے علم برداروں میں ان کا شمار ہوا۔ آج انہیں حضرت مالک بن عوف (رض) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے