Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مشرکین کو حدود حرم سے نکال دو اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین اپنے پاک دین والے پاکیزگی اور طہارت والے مسلمان بندوں کو حکم فرماتا ہے کہ وہ دین کی رو سے نجس مشرکوں کو بیت اللہ شریف کے پاس نہ آنے دیں یہ آیت سنہ 9ہجری میں نازل ہوئی اسی سال آنحضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھیجا اور حکم دیا کہ مجمع حج میں اعلان کر دو کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور کوئی ننگا شخص بیت اللہ شریف کا طواف نہ کرے اس شرعی حکم کو اللہ تعالیٰ قادر و قیوم نے یوں ہی پورا کیا کہ نہ وہاں مشرکوں کو داخلہ نصیب ہوا نہ کسی نے اس کے بعد عریانی کی حالت میں اللہ کے گھر کا طواف کیا ۔ حضرت جابر بن عبداللہ غلام اور ذمی شخص کو مستثنیٰ بناتے ہیں ۔ مسند کی حدیث میں فرمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ہماری اس مسجد میں اس کے بعد سوائے معاہدہ والے اور تمہارے غلاموں کے اور کوئی کافر نہ آئے ۔ لیکن اس مرفوع سے زیادہ صحیح سند والی موقوف روایت ہے ۔ خلیفتہ المسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے فرمان جاری کر دیا تھا کہ یہود و نصرانی کو مسلمانوں کی مسجدوں میں نہ آنے دو ان کا یہ امتناعی حکم اسی آیت کے تحت تھا ۔ حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ حرم سارا اس حکم میں مثل مسجد حرام کے ہے ۔ یہ آیت مشرکوں کی نجاست پر بھی دلیل واثق ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے مومن نجس نہیں ہوتا ۔ باقی رہی یہ بات کہ مشرکوں کا بدن اور ذات بھی نجس ہے یا نہیں؟ پس جمہور کا قول تو یہ ہے کہ نجس نہیں ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کا ذبیحہ حلال کیا ہے ۔ بعض ظاہریہ کہتے ہیں کہ مشرکوں کے بدن بھی ناپاک ہی ۔ حسن فرماتے ہیں جو ان سے مصافحہ کرے وہ ہاتھ دھو ڈالے ۔ اس حکم پر بعض لوگوں نے کہا کہ پھر تو ہماری تجارت کا مندا ہو جائے گا ۔ ہمارے بازار بےرونق ہو جائیں گے اور بہت سے فائدے جاتے رہیں گے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ غنی و حمید فرماتا ہے کہ تم اس بات سے نہ ڈرو اللہ تمہیں اور بہت سی صورتوں سے دلا دے گا تمہیں اہل کتاب سے جزیہ دلائے گا اور تمہیں غنی کر دے گا تمہاری مصلحتوں کو تم سے زیادہ رب جانتا ہے اس کا حکم اس کی ممانعت کسی نہ کسی حکمت سے ہی ہوتی ہے ۔ یہ تجارت اتنے فائدے کی نہیں جتنا فائدہ وہ تمہیں جزیئے سے دیتا ۔ ان اہل کتاب سے جو اللہ ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اور قیامت کے منکر ہیں جو کسی نبی کے صحیح معنی میں پورے متبع نہیں بلکہ اپنی خواہشوں کے اور اپنے بڑوں کی تقلید کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اگر انہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی شریعت پر پورا ایمان ہوتا تو وہ ہمارے اس نبی پر بھی ضرور ایمان لاتے ان کی بشارت تو ہر نبی دیتا رہا ان کی اتباع کا حکم ہر نبی نے دیا لیکن باوجود اس کے وہ اس اشرف الرسل کے انکاری ہیں پس اگلے نبیوں کے شرع سے بھی دراصل انہیں کوئی دور کا سروکار بھی نہیں اسی وجہ سے ان نبیوں کا زبانی اقرار ان کے لئے بےسود ہے کیونکہ یہ سید الانبیاء افضل الرسل خاتم النبین اکمل المرسلین سے کفر کرتے ہیں اس لئے ان سے بھی جہاد کرو ۔ ان سے جہاد کے حکم کی یہ پہلی آیت ہے اس وقت تک آس پاس کے مشرکین سے جنگ ہو چکی تھی ان میں سے اکثر توحید کے جھنڈے تلے آ چکے تھے جزیرۃ العرب میں اسلام نے جگہ کر لی تھی اب یہود و نصاریٰ کی خبر لینے اور انہیں راہ حق دکھانے کا حکم ہوا ۔ سنہ 9 ہجری میں یہ حکم اترا اور آپ نے رومیوں سے جہاد کی تیاری کی لوگوں کو اپنے ارادے سے مطلع کیا مدینہ کے ارد گرد کے عربوں کو آمادہ کیا اور تقریباً تیس ہزار کا لشکر لے کر روم کا رخ کیا ۔ بجز منافقین کے یہاں کوئی نہ رکا سوائے بعض کے ۔ موسم سخت گرم تھا پھلوں کا وقت تھا روم سے جہاد کیلئے شام کے ملک کا دور دراز کا کٹھن سفر تھا ۔ تبوک تک تشریف لے گئے وہاں تقریباً بیس روز قیام فرمایا پھر اللہ سے استخارہ کر کے حالت کی تنگی اور لوگوں کی ضعیفی کی وجہ سے واپس لوٹے ۔ جیسے کہ عنقریب اس کا واقعہ انشاء اللہ تعالیٰ بیان ہو گا ۔ اسی آیت سے استدلال کر کے بعض نے فرمایا ہے کہ جزیہ صرف اہل کتاب سے اور ان جیسوں سے ہی لیا جائے جیسے مجوس ہیں چنانچہ ہجر کے مجسیوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیہ لیا تھا ۔ امام شافعی کا یہی مذہب ہے اور مشہور مذہب امام احمد کا بھی یہی ہے ۔ امام ابو حنیفہ کہتے ہیں سب عجمیوں سے لیا جائے خواہ وہ اہل کتاب ہوں خواہ مشرک ہوں ۔ ہاں عرب میں سے صرف اہل کتاب سے ہی لیا جائے ۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ جزیئے کا لینا تمام کفار سے جائز ہے خواہ وہ کتابی ہوں یا مجوسی ہوں یابت پرست وغیرہ ہوں ۔ ان مذاہب کے دلائل وغیرہ کی تفصیل کی یہ جگہ نہیں واللہ اعلم ۔ پس فرماتا ہے کہ جب تک وہ ذلت و خواری کے ساتھ اپنے ہاتھوں جزیہ نہ دیں انہیں نہ چھوڑو پس اہل ذمہ کو مسلمانوں پر عزت و توقیر دینی اور انہیں اوج و ترقی دینی جائز نہیں صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں یہود و نصاریٰ سے سلام کی ابتداء نہ کرو اور جب ان سے کوئی راستے میں مل جائے تو اسے تنگی سے مجبور کرو ۔ یہی وجہ تھی جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے ایسی ہی شرطیں کی تھیں عبدالرحمٰن بن غنم اشعری کہتے ہیں میں نے اپنے ہاتھ سے عہد نامہ لکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیا تھا کہ اہل شام کو فلاں فلاں شہری لوگوں کی طرف سے یہ معاہدہ ہے امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کہ جب آپ کے لشکر ہم پر آئے ہم نے آپ سے اپنی جان مال اور اہل و عیال کے لئے امن طلب کی ہم ان شرطوں پر وہ امن حاصل کرتے ہیں کہ ہم اپنے ان شہرں میں اور ان کے آس پاس کوئی گرجا گھر اور خانقاہ نئی نہیں بنائیں گے ۔ مندر اور نہ ایسے کسی خرابی والے مکان کی اصلاح کریں گے اور جو مٹ چکے ہیں انہی درست نہیں کریں گے ان میں اگر کوئی مسلمان مسافر اترنا چاہے تو روکیں گے نہیں خواہ دن ہو خواہ رات ہو ہم ان کے دروازے رہ گذر اور مسافروں کے لئے کشادہ رکھیں گے اور جو مسلمان آئے ہم اس کی تین دن تک مہمانداری کریں گے ، ہم اپنے ان مکانوں یا رہائشی مکانوں وغیرہ میں کہیں کسی جاسوس کو نہ چھپائیں گے ، مسلمانوں سے کوئی دھوکہ فریب نہیں کریں گے ، اپنی اولاد کو قرآن نہ سکھائیں گے ، شرک کا اظہار نہ کریں گے نہ کسی کو شرک کی طرف بلائیں گے ، ہم میں سے کوئی اگر اسلام قبول کرنا چاہے ہم اسے ہرگز نہ روکیں گے ، مسلمانوں کی توقیر و عزت کریں گے ، ہماری جگہ اگر وہ بیٹھنا چاہیں تو ہم اٹھ کر انہیں جگہ دے دیں گے ، ہم مسلمانوں سے کسی چیز میں برابری نہ کریں گے ، نہ لباس میں نہ جوتی میں نہ مانگ نکالنے میں ، ہم ان کی زبانیں نہیں بولیں گے ، ان کی کنیتیں نہیں رکھیں گے ، زین والے گھوڑوں پر سواریاں نہ کریں گے ، تلواریں نہ لٹکائیں گے نہ اپنے ساتھ رکھیں گے ۔ انگوٹھیوں پر عربی نقش نہیں کرائیں گے ، شراب فروشی نہیں کریں گے ، اپنے سروں کے اگلے بالوں کو تراشوا دیں گے اور جہاں کہیں ہوں گے زنار ضرورتاً ڈالے رہیں گے ، صلیب کا نشان اپنے گرجوں پر ظاہر نہیں کریں گے ۔ اپنی مذہبی کتابیں مسلمانوں کی گذر گاہوں اور بازاروں میں ظاہر نہیں کریں گے گرجوں میں ناقوس بلند آواز سے بجائیں گے نہ مسلمانوں کی موجودگی میں با آواز بلند اپنی مذہبی کتابیں پڑھیں گے نہ اپنے مذہبی شعار کو راستوں پر کریں گے نہ اپنے مردوں پر اونچی آواز سے ہائے وائے کریں گے نہ ان کے ساتھ مسلمانوں کے راستوں میں آگ لے کر جائیں گے مسلمانوں کے حصے میں آئے ہوئے غلام ہم نہ لیں گے مسلمانوں کی خیر خواہی ضرور کرتے رہیں گے ان کے گھروں میں جھانکیں گے نہیں ۔ جب یہ عہد نامہ حضرت فاروق اعظم کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے ایک شرط اور بھی اس میں بڑھوائی کہ ہم کسی مسلمانوں کو ہرگز ماریں گے نہیں یہ تمام شرطیں ہمیں قبول و منظور ہیں اور ہمارے سب ہم مذہب لوگوں کو بھی ۔ انہی شرائط پر ہمیں امن ملا ہے اگر ان میں سے کسی ایک شرط کی بھی ہم خلاف ورزی کریں تو ہم سے آپ کا ذمہ الگ ہو جائے گا اور جو کچھ آپ اپنے دشمنوں اور مخالفوں سے کرتے ہیں ان تمام کے مستحق ہم بھی ہو جائیں گے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 مشرک کے (پلید، ناپاک) ہونے کا مطلب، عقائد و اعمال کے لحاظ سے ناپاک ہونا ہے۔ بعض کے نزدیک مشرک ظاہر و باطن دونوں اعتبار سے ناپاک ہے۔ کیونکہ وہ طہارت (صفائی و پاکیزگی) کا اس طرح اہتمام نہیں کرتا، جس کا حکم شریعت نے دیا ہے۔ 28۔ 2 یہ وہی حکم ہے جو سن 9 ہجری میں اعلان برات کے ساتھ کیا گیا تھا، جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے ممانعت بعض کے نزدیک صرف مسجد حرام کے لئے ہے۔ ورنہ حسب ضرورت مشرکین دیگر مساجد میں داخل ہوسکتے ہیں جس طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ثمامہ بن اثال کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھے رکھا تھا حتیٰ کہ اللہ نے ان کے دل میں اسلام کی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت ڈال دی اور وہ مسلمان ہوگئے۔ علاوہ ازیں اکثر علماء کے نزدیک یہاں مسجد حرام سے مراد پورا حرم ہے یعنی حدود حرم کے اندر مشرک کا داخلہ ممنوع ہے بعض آثار کی بنیاد پر اس حکم سے ذمی اور خدام کو مشثنیٰ کیا گیا ہے اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس سے استدلال کرتے ہوئے اپنے دور حکومت میں یہود و نصاریٰ کو بھی مسلمانوں کی مسجدوں میں داخلے سے ممانعت کا حکم جاری فرمایا تھا (ابن کثیر) 28۔ 2 مشرکین کی ممانعت سے بعض مسلمانوں کے دل میں یہ خیال آیا کہ حج کے موسم میں زیادہ اجتماع کی وجہ سے جو تجارت ہوتی ہے، یہ متاثر ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اس مفلسی (یعنی کاروبار کی کمی) سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ عنقریب اپنے فضل سے تمہیں غنی کر دے گا چناچہ فتوحات کی وجہ سے کثرت سے مال غنیمت مسلمانوں کو حاصل ہوا۔ اور پھر بتدریج سارا عرب بھی مسلمان ہوگیا اور حج کے موسم میں حاجیوں کی ریل پیل پھر اسی طرح ہوگئی جس طرح پہلے تھی بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہوئی اور جو مسلسل روز افزوں ہی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٦] مشرکوں کے جانے سے میدان معیشت میں خلا کا خدشہ :۔ اس آیت میں مشرکوں کو ناپاک کہا گیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ فی ذاتہ ناپاک ہوتے ہیں کہ ان سے اگر ہاتھ لگ جائے تو ہاتھ دھونا پڑے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کے عقائد ناپاک اور گندے، اخلاق ناپاک اور نیتوں میں ہر وقت فتور اور مکر و فریب اور اعمال گندے ہیں۔ جو ہر وقت اسلام دشمنی، مسلمانوں پر ظلم و تشدد اور معاندانہ سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔- اس آیت کی رو سے مسلمانوں کو واضح حکم دے دیا گیا کہ اب مشرکین بیت اللہ کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتے۔ مکہ جہاں ایک مقدس مقام تھا وہاں تجارتی مرکز بھی تھا اور یہ تجارت زیادہ تر مشرکین مکہ کے ہاتھ میں تھی۔ لہذا مکہ اور اس کے آس پاس بسنے والے بالخصوص نو مسلموں کو خدشہ لاحق ہوا کہ اب ضروریات کیسے پوری ہوں گی۔ نیز ذرائع روزگار بھی متاثر ہونے کا اندیشہ تھا۔ اللہ نے ان مسلمانوں کو تسلی دی اور اس خدشہ کا مداوا یوں ہوا کہ مسلمانوں نے معیشت کے سارے میدان خود سنبھال لیے جن میں اللہ نے برکت عطا فرمائی اور مسلمانوں کو غنی بنادیا۔ اس صورت حال کا صحیح اندازہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ جب پاکستان بننے کے وقت ١٩٤٧ ء میں ہندو لوگ، جن کے ہاتھ میں معیشت کی باگ ڈور تھی، پاکستان کو چھوڑ کر ہندوستان جا رہے تھے اور زندگی کے ہر میدان میں اور بالخصوص معیشت کے میدان میں بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا تو عرصہ تک تجارتی منڈیاں ہی بند رہیں آخر مسلمانوں نے ان منڈیوں کو سنبھال لیا تو اللہ نے انہیں بہت جلد غنی کردیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ : زمخشری نے فرمایا : ” نَجَسٌ“ مصدر ہے، کہا جاتا ہے ” نَجَِسَ نَجَسًا وَ قَذَِرَ قَذَرًا (ع، ن) “ گندا، ناپاک، پلید ہونا۔ گویا تمام مشرک اتنے ناپاک ہیں کہ یوں سمجھو کہ وہ سراسر نجاست ہیں۔ ناپاک ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ عقائد و اعمال اور اخلاق کے لحاظ سے گندے ہیں، ان کی نجاست معنوی نجاست ہے، بدن ناپاک ہونا مراد نہیں کہ اسے ہاتھ لگنے یا اس کے ہاتھ لگانے سے کوئی چیز پلید ہوجاتی ہو، اس لیے اہل کتاب عورتوں سے نکاح کرنا، انھیں لونڈی و غلام بنا کر خدمت لینا جائز ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مشرک عورت کے مشکیزوں کا پانی پیا۔ [ بخاری : ٣٥٧١ ] اور آپ نے خیبر کے یہود کی دعوت قبول فرمائی۔ [ بخاری : ٢٦١٧ ] اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا ہاتھ یا جسم لگنے سے کوئی چیز پلید نہیں ہوتی۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو مشرک بدنی طور پر بھی طہارت کا اہتمام نہیں کرتے، نہ استنجا، نہ غسل جنابت، نہ زیر ناف کی صفائی، نہ کسی نجاست سے اجتناب، پھر خنزیر کھانا، سگریٹ اور شراب پینا اور زنا کرنا ان کی عام روش ہے۔ الغرض مشرک جتنا بھی صاف ستھرا ہو، فرانس وغیرہ کی بنی ہوئی خوشبو جتنی بھی لگالے اس کے جسم اور کپڑوں سے بدبو ختم نہیں ہوگی۔ مسلمان جتنا بھی میلا کچیلا ہو اس سے اس قسم کی بدبو کبھی نہیں آئے گی، بشرطیکہ نماز پڑھتا ہو، اگر نماز ہی نہیں پڑھتا تو مشرک کا اور اس کا معاملہ ایک جیسا ہی ہے۔ یہ عام مشاہدے کی بات ہے، اس لیے کفار کو مسلمان ہونے سے پہلے غسل کی تاکید کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو ناپاک قرار دے کر آئندہ کے لیے مسجد حرام کے قریب آنے سے بھی منع فرما دیا، چناچہ جیسا کہ پہلے گزرا ہے ٩ ھ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان کروایا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک ہرگز حج نہیں کرے گا۔ قریب آنے سے ممانعت کا صاف مطلب ہے کہ غیر مسلم کا پورے حرم مکہ میں داخلہ منع ہے۔ مسند احمد کی ایک روایت ابن کثیر نے جابر (رض) سے نقل فرمائی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہمارے اس سال کے بعد ہماری اس مسجد میں ذمی اور ان کے خادم کے سوا کوئی نہ آئے۔ “ مسند احمد میں ایک اور روایت ہے : ” ہماری اس مسجد میں ہمارے اس سال کے بعد اہل کتاب اور ان کے خادموں کے سوا کوئی داخل نہ ہو۔ “ مگر یہ دونوں روایتیں ثابت نہیں۔ شعیب الارنؤوط نے دونوں کی سند کو ضعیف کہا ہے، حسن بصری نے جابر (رض) سے نہیں سنا اور دو راوی اشعث بن سوار اور شریک ضعیف ہیں، لہٰذا کسی بھی غیر مسلم کو حرم مکہ میں داخلے کی اجازت نہیں، بلکہ اپنی آخری وصیت میں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین اور یہود و نصاریٰ کو جزیرۂ عرب ہی سے نکال دینے کا حکم دیا تھا، چناچہ اس وصیت کے مطابق امیر المومنین عمر (رض) نے یہود و نصاریٰ کو بھی جزیرۂ عرب سے نکال دیا۔ - مسجد حرام کے سوا دوسری مساجد میں غیر مسلم داخل ہوسکتا ہے، جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض مشرکوں کو اپنی مسجد میں آنے کی اجازت دی اور ثمامہ کو مسجد کے ستون سے باندھنے کا واقعہ تو مشہور ہی ہے۔ - وَاِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً : غیر مسلموں کی سال بھر تجارت اور حج و عمرہ کے لیے آمد و رفت بند ہونے سے وہ سامان تجارت جو وہ لایا کرتے تھے اور دوسرے مالی فوائد جو ان کی آمد سے اہل مکہ کو حاصل ہوتے تھے، لازماً ختم ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس اندیشے کو رفع کرنے اور مسلمانوں کو تسلی دینے کے لیے یہ الفاظ نازل فرمائے کہ تجارت اور کاروبار کی بندش کی فکر مت کرو، اللہ تعالیٰ چاہے گا تو تمہیں ضرور غنی کر دے گا، وہ سب کچھ جانتا ہے، یہ تو اس کے لیے کوئی بات ہی نہیں کہ وہ مسلمانوں کو کیسے غنی کرتا ہے، مگر اس کا ہر کام اور ہر طریقہ حکمت پر مبنی ہے۔ چناچہ اس کے بعد فتوحات عالم کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ قیصر و کسریٰ کے خزانے مسلمانوں کے ہاتھ آئے اور وہ سب اللہ کے فضل سے غنی ہوگئے، پھر حج و عمرہ کرنے والے مسلمانوں کی اتنی کثرت ہوئی کہ اہل مکہ کے لیے فقر کا مسئلہ ہی نہ رہا۔ اس وقت ١٤٣١ ھ میں تقریباً ٣٥ یا ٤٠ لاکھ حاجیوں نے حج ادا کیا ہے اور حکومت سعودیہ کا اندازہ ہے کہ چند ہی سال میں یہ تعداد ایک کروڑ تک پہنچ جائے گی اور حکومت اس کے مطابق باقاعدہ حرم کی عمارات اور رہائشی عمارات کی توسیع کے منصوبے پر نہایت تیزی کے ساتھ عمل کر رہی ہے - اِنْ شَاۗءَ : یہ بطور شرط نہیں بلکہ بات کو پختہ کرنے کے لیے ہے، کیونکہ ہر معاملہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة فتح (٢٧) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو مشرک لوگ ( بوجہ عقائد خبیثہ کے) نرے ناپاک ہیں سو ( اس ناپاکی پر جو احکام متفرع ہوئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ) یہ لوگ اس سال کے بعد مسجد حرام ( یعنی حرم) کے پاس ( بھی) نہ آنے پائیں ( یعنی حرم کے اندر داخل نہ ہوں) اور اگر تم کو ( اس حکم کے جاری کرنے سے بدیں وجہ) مفلسی کا اندیشہ ہو ( کہ لین دین انہی سے زیادہ متعلق ہے جب یہ نہ رہیں گے تو کام کیسے چلے گا) تو ( تم خدا پر توکل رکھو) خدا تم کو اپنے فضل سے اگر چاہے گا ( ان کا) متحاج نہ رکھے گا، بیشک اللہ تعالیٰ ( احکام کی مصلحتوں کو) خوب جاننے والا ہے ( اور ان مصلحتوں کی تکمیل کے باب میں) بڑا حکمت والا ہے ( اس لئے یہ حکم مقرر کیا اور تمہارے افلاس کے انسداد کا سامان بھی کردے گا ) ۔- معارف و مسائل - سورة توبہ کے شروع میں کفار و مشرکین سے اعلان براءت کیا گیا تھا، مذکورۃ الصدر آیت میں اس اعلان براءت سے متعلقہ احکام کا ذکر ہے، اعلان براءت کا حاصل یہ تھا کہ سال بھر کے عرصہ میں تمام کفار کے معاہدایت ختم یا پورے کردیئے جائیں، اور اعلان کے ایک سال بعد کوئی مشرک حدود حرم میں نہ رہنے پائے۔- اس آیت میں اسی کا بیان ایک خاص انداز میں کیا گیا جس میں اس حکم کی حکمت و مصلحت بھی بتلا دی اور اس کی تعمیل میں جو بعض مسلمانوں کو خطرات تھے ان کا بھی جواب دیدیا، اس میں لفظ نجس بفح جیم استعمال فرمایا ہے جو نجاست کے معنی میں ہے، اور نجاست کہا جاتا ہے ہر گندگی کو جس سے انسان کی طبیعت نفرت کرے، امام راغب اصفہانی نے فرمایا کہ اس میں وہ نجاست بھی داخل ہے جو آنکھ ناک یا ہاتھ وغیرہ سے محسوس ہو، اور وہ بھی جو علم و عقل کے ذریعہ معلوم ہو، اس لئے لفظ نجس اس غلاظت اور گندگی کو بھی شامل ہے جو ظاہری طور پر سب محسوس کرتے ہیں، اور اس معنوی نجاست کو بھی جس کی بنا پر شرعاً وضو یا غسل واجب ہوتا ہے، جیسے جنابت یا حیض و نفاس کے ختم ہونے کے بعد کی حالت، اور وہ باطنی نجاست بھی جس کا تعلق انسان کے قلب سے ہے جیسے عقائد فاسدہ اور اخلاق رذیلہ۔- آیت مذکورہ میں کلمہ اِنَّمَا لایا گیا ہے جو حصر کے لئے استعمال ہوتا ہے اس لئے اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ کے معنی یہ ہوگئے کہ مشرکین نری نجاست ہی ہیں، اور صحیح بات یہ ہے کہ عام طور پر مشرکین میں تینوں قسم کی نجاستیں ہوتی ہیں، کیونکہ بہت سی ظاہری ناپاک چیزوں کو وہ ناپاک نہیں سمجھتے اس لئے ان ظاہری نجاستوں سے بھی نہیں بچتے جیسے شراب اور اس سے بنی ہوئی چیزیں، اور معنوی نجاست سے غسل جنابت وغیرہ کے تو وہ معتقد ہی نہیں، اسی طرح عقائد فاسدہ اور اخلاق رذیلہ کو بھی وہ کچھ نہیں سمجھتے۔- اسی لئے آیت مذکورہ میں مشرکین کو نری نجاست قرار دے کر یہ حکم دیا گیا (آیت) فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا یعنی ایسا کرنا چاہئے کہ اس سال کے بعد یہ مشرکین مسجد حرام کے پاس نہ جاسکیں “۔- مسجد حرام کا لفظ عام طور پر تو اس جگہ کے لئے بولا جاتا ہے جو بیت اللہ کے گرد چہار دیواری سے گھری ہوئی ہے، لیکن قرآن و حدیث میں بعض اوقات یہ لفظ پورے حرم مکہ کے لئے بھی استعمال ہوا ہے، جو کئی میل مربع کا رقبہ اور چاروں طرف حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰة والسلام کی قائم کردہ حدود سے گھرا ہوا ہے، جیسا کہ واقعہ معراج میں مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ سے باتفاق یہی معنی مراد لئے گئے ہیں، کیونکہ واقعہ معراج معروف مسجد حرام کے اندر سے نہیں بلکہ حضرت ام ہانی کے مکان سے ہوا ہے، اسی طرح آیت کر یمہ (آیت) اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، میں مسجد حرام سے پورا حرم ہی مراد ہے، کیونکہ جس واقعہ صلح کا اس میں ذکر ہے وہ مقام حدیبیہ پر ہوا ہے، جو حدود حرم سے باہر اس کے متصل واقع ہے ( جصاص) - اس لئے معنے آیت کے یہ ہوگئے کہ اس سال کے بعد مشرکین کا داخلہ حدود حرم میں ممنوع ہے، اس سال سے مراد کونسا سال ہے بعض حضرات نے فرمایا کہ ١٠ ہجری مراد ہے، مگر جمہور مفسرین کے نزدیک ٩ ہجری راجح ہے، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان براءت حضرت صدیق اکبر اور علی مرتضیٰ کے ذریعہ موسم حج میں اسی ٩ ھ میں کرایا ہے، اس لئے ٩ ھ سے ١٠ ھ تک مہلت کا سال ہے، ١٠ ہجری کے بعد یہ قانون نافذ ہوا۔- مشرکین کے مسجد حرام میں داخلے کی ممانعت کا مطلب اور یہ کہ مسجد حرام کی خصوصیت ہے یا سب مساجد کے لئے عام ہے :- آیت مذکورہ میں جو حکم دیا گیا ہے کہ ١٠ ھ میں بعد سے کوئی مشرک مسجد حرام کے پاس نہ جانے پائے اس کے متعلق تین باتیں غور طلب ہیں کہ یہ حکم مسجد حرام کے ساتھ مخصوص ہے یا دنیا کی دوسری مسجدیں بھی اسی حکم میں داخل ہیں، اور اگر مسجد حرام کے ساتھ مخصوص ہے تو کسی مشرک کا داخلہ مسجد حرام میں مطلقا ممنوع ہے، یا صرف حج وعمرہ کیلئے داخلہ کی ممانعت ہے ویسے جاسکتا ہے، تیسرے یہ کہ آیت میں یہ حکم مشرکین کا بیان کیا گیا ہے کفار اہل کتاب بھی اس شامل ہیں یا نہیں۔- ان تفصیلات کے متعلق چونکہ الفاظ قرآن ساکت ہیں اس لئے اشارات قرآن اور روایات حدیث کو سامنے رکھ کر ائمہ مجہتدین نے اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق احکام بیان فرمائے، اس سلسلہ میں پہلی بحث اس میں ہے کہ قرآن کریم نے مشرکین کو نجس کس اعتبار سے قرار دیا ہے، اگر ظاہری نجاست یا معنوی جنابت والے شخص یا حیض و نفاس والی عورت کا داخلہ کسی مسجد میں جائز نہیں، اور اگر اس میں نجاست سے مراد کفر و شرک کی باطنی نجاست ہے تو ممکن ہے کہ اس کا حکم ظاہری نجاست سے مختلف ہو۔- تفسیر قرطبی میں ہے کہ فقہائے مدینہ امام مالک وغیرہ رحمہم اللہ نے فرمایا کہ مشرکین ہر معنی کے اعتبار سے نجس ہیں، ظاہری نجاست سے بھی عموماً اجتناب نہیں کرتے اور جنابت وغیرہ کے بعد غسل کا بھی اہتمام نہیں کرتے، اور کفر و شرک کی باطنی نجاست تو ان میں ہے ہی، اس لئے یہ حکم تمام مشرکین اور تمام مساجد کے لئے عام ہے، اور اس کی دلیل میں حضرت عمر بن عبد العزیز کا یہ فرمان پیش کیا جس میں انہوں نے امراء بلاد کو ہدایت کی تھی کہ کفار کو مساجد میں داخل نہ ہونے دیں، اس فرمان میں اسی آیت مذکورہ کو تحریر فرمایا تھا :- نیز یہ کہ حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :- لا احل المسجد لحائض ولا جنب " یعنی مسجد میں داخل ہونا کسی حائضہ عورت یا جنبی شخص کیلئے میں حلال نہیں سمجھتا "۔- اور مشرکین و کفار عموماحالت جنابت میں غسل کا اہتمام نہیں کرتے، اس لئے ان کا داخلہ مساجد میں ممنوع ہے۔ - امام شافعی نے فرمایا کہ یہ حکم مشرکین اور کفار اہل کتاب سب کے لئے عام ہے، مگر مسجد حرام کے لئے مخصوص ہے دوسری مساجد میں ان کا داخلہ ممنوع نہیں، ( قرطبی) اور دلیل میں ثمامہ ابن اثال کا واقعہ پیش کرتے ہیں کہ مسلمان ہونے سے پہلے جب یہ گرفتار ہوئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا تھا۔- امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک آیت میں مشرکین کو مسجد حرام کے قریب جانے سے منع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ سال سے ان کو مشرکانہ طرز پر حج وعمرہ کرنے کی اجا زت نہ ہوگی، اور دلیل یہ ہے کہ جس وقت موسم حج میں حضرت علی مرتضیٰ کے ذریعہ اعلان براءت کردیا گیا تو اس میں اعلان اسی کا تھا کہ لا یحجن بعد العام مشرک، جس میں ظاہر کردیا گیا تھا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرسکے گا، اس لئے اس آیت میں (آیت) فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ کے معنی بھی اس اعلان کے مطابق یہی ہیں کہ ان کو حج وعمرہ کی ممانعت کردی گئی، اور کسی ضرورت سے باجازت امیر المومنین داخل ہو سکتے ہیں، وفد ثقیف کا واقعہ اس کا شاہد ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب ان کا ایک وفد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ان کو مسجد میں ٹھہرایا حالانکہ یہ لوگ اس وقت کافر تھے، صحابہ کرام نے عرض بھی کیا یا رسول اللہ یہ نجس قوم ہے، تو آپ نے فرمایا کہ مسجد کی زمین پر ان لوگوں کی نجاست کا کوئی اثر نہیں پڑتا ( جصاص) اس روایت نے یہ بات بھی واضح کردی کہ قرآن کریم میں مشرکین کو نجس کہنے سے انکی نجاست کفر و شرک مراد ہے، جیسا کہ امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک ہے اسی طرح حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوئی مشرک مسجد کے پاس نہ جائے، بجز اس کے کہ وہ کسی مسلمان کا غلام یا کنیز ہو تو بضرورت اس کو داخل کرسکتے ہیں ( قرطبی) - یہ حدیث بھی اسی کی شاہد ہے کہ نجاست ظاہری کو سبب قرار دے کر مشرکین کو مسجد حرام سے نہیں روکا گیا ورنہ اس میں غلام اور جاریہ کی کوئی تخصیص نہ تھی، بلکہ بنیاد اصل کفر و شرک اور ان کے غلبہ کا خطرہ ہے، غلام و کنیز میں یہ خطرہ نہیں، ان کو اجازت دے دیگئی، اس کے علاوہ ظاہری نجاست کے اعتبار سے تو مسلمان بھی اس میں داخل ہیں کہ نجاست یا حدث اکبر کی حالت میں ان کے لئے بھی مسجد حرام داخلہ ممنوع ہے۔- نیز جمہور کی تفسیر کے مطابق مسجد حرام سے اس جگہ جب پورا حرم مراد ہے تو وہ بھی اسی کا مقتضی ہے کہ یہ ممانعت ظاہری نجاست کی بنیاد پر نہیں، بلکہ کفر و شرک کی نجاست کی بناء پر ہے اسی لئے صرف مسجد حرام میں ان کا داخلہ ممنوع نہیں کیا گیا بلکہ پورے حرم محترم میں ممنوع قرار دیا گیا، کیونکہ وہ اسلام کا حمی اور ایک قلعہ ہے، اس میں کسی غیر مسلم کو رکھنا گوارا نہیں کیا جاسکتا۔- امام اعظم ابوحنیفہ کی اس تحقیق کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ نجاسات سے مساجد کی تطہیر بھی ایک مستقل مسئلہ ہے جو قرآن مجید اور احادیث سے ثابت ہے، لیکن اس آیت کا تعلق اس مسئلہ سے نہیں بلکہ اسلام کے اس سیاسی حکم سے ہے جس کا اعلان سورة براءت کے شروع میں کیا گیا ہے کہ جتنے مشرکین مکہ میں موجود تھے ان سب سے حرم محترم کو خالی کرانا مقصود تھا، لیکن بتقاضائے عدل و انصاف و رحم و کرم مکہ فتح ہوتے ہی سب کو یک قلم خارج کرنے کا حکم نہیں دیا گیا، بلکہ جن لوگوں سے کسی خاص میعاد کا معاہدہ تھا اور وہ لوگ اس معاہدہ پر قائم رہے تو ان کی میعاد معاہدہ پوری کرکے اور باقیوں کو کچھ کچھ مہلت دے کر سال بھر کے اندر اس تجویز کی تکمیل پیش نظر تھی، اسی کا بیان اس آیت مذکورہ میں آیا کہ اس سال کے بعد مشرکین کا داخل حدود حرم میں ممنوع ہوجائے گا وہ مشرکانہ حج وعمرہ نہ کرنے پائیں گے۔- اور جس طرح سورة توبہ کی آیات میں واضح طور پر یہ بیان کردیا گیا ہے کہ ٩ ہجری کے بعد کوئی مشرک حدود حرم میں داخل نہ ہوسکے گا، روایات حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دائرہ کو اور وسیع فرما کر پورے جزیرۃ العرب کے لئے بھی حکم دے دیا تھا، مگر عہد رسالت میں اس کی تکمیل نہ ہونے پائی، پھر صدیق اکبر بھی دوسرے ہنگامی مسائل کی وجہ سے اس پر توجہ نہ دے سکے فاروق اعظم نے اپنے زمانہ میں اس حکم کو نافذ فرمایا۔- اب رہا کفار کی نجاست اور مساجد کی نجاسات سے تطہیر کا مسئلہ وہ اپنی جگہ ہے، جس کے مسائل کتب فقہ میں تفصیل سے مذکور ہیں، کوئی مسلمان بھی ظاہری نجاست یا حالت جنابت میں کسی مسجد میں داخل نہیں ہوسکتا، اور عام کفار و مشرکین ہوں یا اہل کتاب وہ بھی عموماً ان نجاسات سے پاک نہیں ہوتے، اس لئے بلا ضرورت شدیدہ ان کا داخلہ بھی کسی مسجد میں جائز نہیں۔- اس آیت کی رو سے جب کفار و مشرکین کا داخلہ حرم میں ممنوع دیا گیا تو مسلمانوں کے سامنے ایک معاشی مسئلہ یہ پیش آیا کہ مکہ میں کوئی پیداوار نہیں، باہر کے آنے والے ہی اپنے ساتھ ضروریات لاتے تھے، اور موسم حج میں اہل مکہ کے لئے سب ضروریات جمع ہوجاتی تھیں، اب ان کا داخل ممنوع ہوجانے کے بعد کام کیسے چلے گا، اس کا جواب قرآن میں یہ دیا گیا کہ (آیت) وَاِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيْكُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖٓ اِنْ شَاۗءَ ، یعنی اگر تمہیں معاشی مشکلات کا اندیشہ ہو تو سمجھ لو کہ نظام معاش تمام مخلوق کا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہے، اگر وہ چاہیں گے تو تمہیں ان سب کفار سے مستغنی کردیں گے، اور یہاں " اگر چاہیں گے " کی قید لگانے کا مطلب یہ نہیں کہ اس میں کوئی شک و تردد ہے بلکہ اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ صرف مادی اسباب پر نظر رکھنے والوں کے لئے اگرچہ یہ بات بہت بعید اور مشکل نظر آتی ہے کہ ظاہری ذریعہ معاش یہی غیر مسلم تھے، ان کا داخلہ ممنوع کرنا اپنے لئے اسباب معاش منقطع کرنے کے مترادف ہے، مگر ان کو معلوم ہونا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ ان مادی اسباب کا محتاج نہیں، جب ان کا ارادہ کسی کام سے متعلق ہوجائے تو سب اسباب مطابق ہوتے چلے جاتے ہیں بس چاہنے کی دیر ہے اور کچھ نہیں، اس لئے اِنْ شَاۗءَ فرما کر اس کی طرف اشارہ کردیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہٰذَا۝ ٠ ۚ وَاِنْ خِفْتُمْ عَيْلَۃً فَسَوْفَ يُغْنِيْكُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖٓ اِنْ شَاۗءَ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝ ٢٨- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- نجس - النَّجاسة : القَذَارة، وذلک ضرْبان : ضرْب يُدْرَك بالحاسّة، وضرْب يُدْرَك بالبصیرة، والثاني وصف اللهُ تعالیٰ به المشرکين فقال : إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ [ التوبة 28] ويقال : نَجَّسَهُ. أي : جعله نَجِساً ، ونَجَّسَهُ أيضا : أَزَالَ نَجَسَهُ ، ومنه تَنْجِيسُ العَرَب، وهو شيءٌ کانوا يفعلونه من تعلیق عَوَذَةٍ علی الصَّبيِّ ليدفعوا عنه نجاسةَ الشَّيطان، والنَّاجِسُ والنَّجِيسُ : داءٌ خبیثٌ لا دواء له .- ( ن ج س ) النجاسۃ کے معنی پلیدی کے ہیں اور یہ وہ قسم پر ہے مجاست حسی یا مدی جس کا ادارک حس سے ہوسکتا ہو مجاست معنوی جس کا ادارک بصیرت سے ہوتا ہو ۔ چناچہ نجاست معنوی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے متعلق فرمایا : ۔ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ [ التوبة 28] مشرک تو پلید ہیں ۔ نجسہ کے معنی کیس چیز کو نجس کردینا کے ہیں ۔ نیز اس کے معنی ازالہ نجاست بھی آتے ہیں ۔ اور اسی سے تنجیس العرب ہے یعنی تعویز گنڈا ۔ جو شیطانی نجاست کو دور کرنے کے لئے بچے کے گلہ میں لٹکاتے تھے ۔ نا جس ونجیس ۔ ایک بری اور لاعلاج بیماری - قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] . وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] ، وقوله : وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء 109] . وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] . وفي الحظوة : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء 172] ، وقال في عيسى: وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران 45] ، عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین 28] ، فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة 88] ، قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف 114] ، وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] . ويقال للحظوة : القُرْبَةُ ، کقوله : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] ، تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ 37] . وفي الرّعاية نحو : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف 56] ، وقوله : فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة 186] - وفي القدرة نحو : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] . قوله وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ [ الواقعة 85] ، يحتمل أن يكون من حيث القدرة- ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء 109] اور مجھے معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] یتیم رشتے دار کو ۔۔۔ اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا کے متعلق فرمایا : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء 172] اور نہ مقرب فرشتے ( عار ) رکھتے ہیں ۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران 45]( اور جو ) دنیا اور آخرت میں آبرو اور ( خدا کے ) خاصوں میں سے ہوگا ۔ عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین 28] وہ ایک چشمہ ہے جس میں سے ( خدا کے ) مقرب پئیں گے ۔ فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة 88] پھر اگر وہ خدا کے مقربوں میں سے ہے : قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف 114]( فرعون نے ) کہا ہاں ( ضرور ) اور اس کے علاوہ تم مقربوں میں داخل کرلئے جاؤ گے ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] اور باتیں کرنے کے لئے نزدیک بلایا ۔ اور القربۃ کے معنی قرب حاصل کرنے کا ( ذریعہ ) کے بھی آتے ہیں جیسے فرمایا : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] اس کو خدا کی قربت کا ذریعہ ۔ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] دیکھو وہ بےشبہ ان کے لئے ( موجب ) قربت ہے۔ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ 37] کہ تم کو ہمارا مقرب بنادیں ۔ اور رعایت ونگہبانی کے متعلق فرمایا : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف 56] کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے ۔ فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة 186] میں تو تمہارے پاس ہوں ۔ جب کوئی پکارنے والا پکارتا ہے تو میں اسکی دعا قبول کرتا ہوں ۔ اور قرب بمعنی قدرہ فرمایا : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔- مَسْجِدُ- : موضع الصلاة اعتبارا بالسجود، وقوله : وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] ، قيل : عني به الأرض، إذ قد جعلت الأرض کلّها مسجدا وطهورا کما روي في الخبر وقیل : الْمَسَاجِدَ : مواضع السّجود : الجبهة والأنف والیدان والرّکبتان والرّجلان، وقوله : أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25] أي : يا قوم اسجدوا، وقوله : وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] ، أي : متذلّلين، وقیل : کان السّجود علی سبیل الخدمة في ذلک الوقت سائغا، وقول الشاعر : وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِعنی بها دراهم عليها صورة ملک سجدوا له . المسجد ( ظرف ) کے معنی جائے نماز کے ہیں اور آیت وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] اور مسجدیں تو خدا ہی ( کی عبادت کے لئے ہیں ) میں بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے روئے زمین مراد ہے کیونکہ آنحضرت کے لئے تمام زمین کو مسجد اور طھور بنایا گیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں مروی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے اعضاء سجود یعنی پیشانی ناک دونوں ہاتھ دونوں زانوں اور دونوں پاؤں مراد ہیں اور آیت : ۔ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25]( اور نہیں سمجھتے ) کہ اللہ کو ۔۔۔۔۔۔۔ سجدہ کیوں نہ کریں ۔ میں لا زائدہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ میری قوم اللہ ہی کو سجدہ کرو ۔ اور آیت : ۔ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے ۔ میں اظہار عاجزی مراد ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ مراد سجدہ خدمت ہے جو اس وقت جائز تھا اور شعر ( الکامل ) وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِمیں شاعر نے وہ دراھم مراد لئے ہیں جن پر بادشاہ کی تصویر ہوتی تھی اور لوگ ان کے سامنے سجدہ کرتے تھے ۔- حَرَمُ ( محترم)- والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع وکذلک الشهر الحرام،- عام - العَامُ کالسّنة، لکن كثيرا ما تستعمل السّنة في الحول الذي يكون فيه الشّدّة أو الجدب . ولهذا يعبّر عن الجدب بالسّنة، والْعَامُ بما فيه الرّخاء والخصب، قال : عامٌ فِيهِ يُغاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف 49] ، وقوله : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عاماً- [ العنکبوت 14] ، ففي كون المستثنی منه بالسّنة والمستثنی بِالْعَامِ لطیفة موضعها فيما بعد هذا الکتاب إن شاء الله، - ( ع و م ) العام ( سال ) اور السنۃ کے ایک ہی معنی ہیں ۔ لیکن السنۃ کا لفظ عموما اس سال پر بولا جاتا ہے جس میں تکلیف یا خشک سالی ہو اس بنا پر قحط سالی کو سنۃ سے تعبیر کرلیتے ہیں اور عامہ اس سال کو کہا جاتا ہے جس میں وسعت اور فروانی ہو قرآن پاک میں ہے : ۔ عامٌ فِيهِ يُغاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف 49] اس کے بعد ایک ایسا سال آئیگا جس میں خوب بارش ہوگی اور لوگ اس میں نچوڑیں گے اور آیت کریمہ : ۔ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عاماً [ العنکبوت 14] تو وہ ان میں پچاس برس کم ہزار برس رہے ۔ میں لفظ سنۃ کو مستثنی منہ اور لفظ عام کو مستثنی لانے میں ایک لطیف نکتہ ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد کسی دوسرے موقع پر بیان کریں گے انشا اللہ - خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔- عيل - قال تعالی: وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً [ التوبة 28] ، أي : فقرأ . يقال : عَالَ الرّجل : إذا افتقر يَعِيلُ عَيْلَةً فهو عَائِلٌ وأما أَعَالَ : إذا کثر عِيَالُهُ فمن بنات الواو، وقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى- أي : أزال عنک فقر النّفس وجعل لک الغنی الأكبر المعنيّ بقوله عليه السلام :- «الغنی غنی النّفس» . وقیل : «ما عَالَ مقتصد» وقیل : ووجدک فقیرا إلى رحمة اللہ وعفوه، فأغناک بمغفرته لک ما تقدّم من ذنبک وما تأخّر .- ( ع ی ل ) العیلۃ کے معنی فقر وفاقہ کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً [ التوبة 28] اگر تم کو مفلسی کا خوف ہو ۔ عال الرجل یعیل وہ آدمی محتاج اور ضرورت مند ہوگیا ۔ عائل ۔ محتاج ۔ ضرورت مند مگر اعال ) افعال ) جس کے معنی کثیر العیال ہونے کے ہیں اجواف وادی ( ع و ل ) سے ہے ۔ اور آیت : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنىاور تجھے ضرورت مند پایا تو غنی کردیا ۔ میں عائلا کے معنی ہیں تجھ سے فقر نفس کو دور کر کے تجھے غنائے اکبر عطا کی چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس غنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا الغنی عنی النفس ( کہ اصل غنی تو نفس کی بےنیازی ہے ۔ کہا جاتا ہے ۔ ماعال مقتصد اعتدال سے خرچ کرنے والا کبھی فقیر نہیں ہوتا ۔ مگر بعض نے آیت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنی رحمت اور عفو کا محتاج پاکر تمہارے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیئے اور تجھے اپنی مغفرت سے بہرہ وافر عطا فرما کر غنی کردیا ۔ - سوف - سَوْفَ حرف يخصّص أفعال المضارعة بالاستقبال، ويجرّدها عن معنی الحال، نحو :- سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف 98] ، وقوله : فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام 135] ، تنبيه أنّ ما يطلبونه۔ وإن لم يكن في الوقت حاصلا۔ فهو ممّا يكون بعد لا محالة، ويقتضي معنی المماطلة والتأخير، واشتقّ منه التَّسْوِيفُ اعتبارا بقول الواعد : سوف أفعل کذا، والسَّوْفُ :- شمّ التّراب والبول، ومنه قيل للمفازة التي يَسُوفُ الدلیل ترابها : مَسَافَةٌ ، قال الشاعر :- إذا الدّليل اسْتَافَ أخلاق الطّرق والسُّوَافُ : مرض الإبل يشارف بها الهلاك، وذلک لأنها تشمّ الموت، أو يشمّها الموت، وإمّا لأنه ممّا سوف تموت منه .- ( س و ف ) سوف ۔ حرف تسویف یہ حرف ہے جو فعل مضارع کو معنی حال سے مجرد کر کے معنی استقبال کے لئے خاص کردیتا ہے ( اسی لئے اسے حرف استقبال بھی کہتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف 98] میں اپنے پروردگار سے تمہارے لئے بخشش مانگوں گا ۔ اور آیت : ۔ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام 135] عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا ۔ میں متنبہ کیا ہے جس بات کا وہ مطالبہ کرتے ہیں اگرچہ فی الحال وہ حاصل نہیں ہے ۔ لیکن وہ لامحالہ ہوکر رہے گی ۔ اور اس میں مماطلتہ ( ٹال مٹول ) اور تاخیر کے معنی پائے جاتے ہیں اور چونکہ وعدہ کرنے والا سوف افعل کذا کا محاورہ استعمال کرتا ہے اسلئے التسویف ( تفعیل ) کے معنی ٹال مٹول کرنا بھی آجاتے ہیں ۔ السوف ( ن) کے معنی مٹی یابول کی بو سونگھنے کے ہیں پھر اس سے اس ریگستان کو جس میں راستہ کے نشانات بنے ہوئے ہوں اور قافلہ کا رہنما اس کی مٹی سونگھ کر راہ دریافت کرے اسے مسافتہ کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( درجز ) ( 246) اذاللیل استاف اخلاق الطرق جب رہنما بت نشان راستوں پر سونگھ سونگھ کر چلے ۔ السوف ۔ اونٹوں کے ایک مرض کا نام ہے جس کی وجہ سے وہ مرنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور اس مرض کو سواف یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے موت کی بو سونگھ لیتے ہیں یا موت ان کو سونگھ لیتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے جلد ہی ان کی موت آجاتی ہے ۔- غنی - الغِنَى يقال علی ضروب :- أحدها : عدم الحاجات،- ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] ، - الثاني : قلّة الحاجات،- وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس»- والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس - کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] ،- ( غ ن ی ) الغنیٰ- ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ - 2 قدرے محتاج ہونا - اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور - غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں - اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ - فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- حكيم - فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر - لحكمة» أي : قضية صادقة- لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

حدود حرم میں مشرکین کا داخلہ ممنوع - قول باری ہے (انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامہم ھذا مشرکین ناپاک ہیں لہٰذا اس سال کے بعد یہ مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں) نجس کے اسم کا مشرکین پر اس لئے اطلاق ہوا ہے کہ جس شرک کا وہ اعتقاد رکھتے ہیں اس سے اس طرح اجتناب واجب ہے جس طرح نجاستوں اور گندگیوں سے اجتناب واجب ہے اسی بنا پر اسے نجس کہا گیا ہے۔- نجاست ظاہری و باطنی - شریعت میں نجاست کی دو صورتیں ہیں۔ ایک اعیان کی نجاست یعنی ایسی نجات جس کا تعلق ان چیزوں سے ہو جن کا مشاہدہ کیا جاسکتا یا انہیں محسوس کیا جاسکتا ہو دوم گناہوں کی نجاست اسی طرح رجس اور رجز کو بھی ان ہی دو صورتوں پر محمول کیا جاتا ہے چناچہ ارشاد باری ہے (انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان۔ بیشک شراب جوا، آستانے اور پانسے یہ سب کے سب گندے شیطانی عمل ہیں) منافقین کے متعلق فرزمایا (سیحلفون باللہ لکم اذا انقلبتم الیھم لتعرضوا عنہم فاعرضوا عنہم انھم رجس۔ تمہاری واپسی پر تمہارے سامنے قسمیں کھائی گے تاکہ تم ان سے صرف نظر کرو، تو بیشک تم ان سے صرف نظر ہی کرلو کیونکہ یہ ایک گندگی ہیں) اللہ تعالیٰ نے منافقین کو رجس کہہ کر پکارا جس طرح مشرکین کو نجس کا نام دیا۔ قول باری (انما المشرکون نجس) یہ بات معلوم ہوگئی کہ مشرکین کا مسجد میں داخلہ ممنوع ہے الا یہ کہ کوئی عذر پیش آ جائے اس لئے کہ مساجد کو نجاستوں سے پاک رکھنا ہم پر فرض ہے۔ قول باری (فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامھم ھذا) کی تفسیر میں اہل علم کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ امام مالک اور امام شافعی کچا قول ہے کہ مشرک مسجد حرام میں داخل نہیں ہوگا۔- مشرک مجبوری کے عالم میں داخل مسجد ہوسکتا ہے - امام مالک نے مزید فرمایا ہے کہ وہ مسجد حرام کے علاوہ دوسری مساجد میں بھی بلاضرورت داخل نہیں وہ سکے گا۔ مثلا کسی مشرک کو اپنے مقدمے کے سلسلے میں مسجد جا کر حاکم کے سامنے پیش ہونے کی ضرورت لاحق ہوجائے تو ایسی صورت میں وہ مسجد میں داخل ہوسکتا ہے۔ امام شافعی کے نزدیک مشرک مسجد حرام کے سوا ہر مسجد میں داخل ہوسکتا ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ ذمی کے لئے تمام مساجد میں داخل ہونا جائز ہے۔ آیت کے معنی کو دو میں سے ایک مفہوم پر محمول کیا جائے گا۔ یا تو اس نہی کا تعلق خاص طور پر ان مشرکین کے ساتھ ہے جنہیں مکہ نیز تمام مساجد میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں ذمی قرار نہیں دیا گیا تھا اور ان کے سامنے دو ہی راستے رکھے گئے تھے یا تو اسلام قبول کرلیں یا پھر تلوار کا سامنا کریں۔ ان میں عرب کے تمام مشرکین شامل تھے یا اس سے مراد یہ ہے کہ انہیں حج کے لئے مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔- اسی بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کو حج پر بھیج کر انہیں یوم النحر میں یہ اعلان کردینے کا حکم دیا تھا۔ زہری نے اس کی روایتیں حمید بن عبدالرحمن سے کی ہیں اور انہوں نے حضرت ابوبکر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کو ان لوگوں کے ساتھ مکہ روانہ کیا تھا جنہوں نے یوم النحر میں منیٰ کے مقام پر یہ اعلان کردیا تھا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کے لئے نہ آئے۔ حضرت ابوبکر نے سب کے سامنے علانیہ طور پر یہ بات کہہ دی تھی جس کے نتیجے میں آئندہ سال جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حج کے لئے تشریف لے گئے تو کوفی مشرک مکہ میں موجود نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو اس سال نازل فرمایا تھا جس سال حضرت ابوبکر (رض) نے مکہ جا کر مشرکین کو علانیہ طور پر اس بات کی اطلاع دے دی تھی۔ حضرت علی (رض) سے مروی حدیث میں ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں سورة براء ۃ پڑھ کر سنانے کے لئے مکہ روانہ کیا تھا تو یہ اعلان کرنے کا بھی حکم دیا تھا کہ آئندہ سال کوئی مشرک حج کے لئے نہ آئے۔ قول باری (فلا یقربوا المسجد الحرام) سے جو مفہوم مراد ہے اس پر درج بالا روایت دلالت کرتی ہے۔ اس پر آیت کا تسلسل بھی دلالت کرتا ہے۔ ارشاد ہے (وان خفتم عیلۃ فسوف یغنیکم اللہ من فضلہ ان شاء، اور اگر تمہیں تنگ دستی کا خوف ہے تو بعید نہیں کہ اللہ چاہے تو تمہیں اپنے فضل سے غنی کر دے) تنگ دستی کا خوف اس لئے تھا کہ مشرکین کو حج پر آنے سے روک دینے کی بنا پر اس موقع پر ہونے والے اجتماعات میں وہ شریک نہیں ہوسکتے تھے اور اس طرح ان اجتماعات میں ہونے والی تجارت وغیرہ سے حاصل ہونے والے فوائد و منافع کا انقطاع ہوگیا تھا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ آیت زیر بحث میں نہی کا تعلق حج کے ساتھ ہے۔ اس پر اہل اسلام کا یہ اتفاق بھی دلالت کرتا ہے کہ مشرکین کو حج کرنے، عرفات اور مزدلفہ میں وقوف کرنے اور دیگر افعال حج ادا کرنے کی ممانعت ہے۔ خواہ یہ افعال مسجد میں ادا نہ بھی کئے جاتے ہوں۔ اس کے برعکس ذمیوں کو ان مقامات میں جانے کی ممانعت نہیں ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت سے مراد حج ہے، حج کے سوا کسی اور مقصد کے لئے مسجد کے قریب جانا مراد نہیں ہے۔ اس لئے کہ اگر آیت کی مراد کو درج بالا معنوں پر محمول کیا جائے گا تو اس میں تمام مشرکین کے لئے عموم ہوگا اور اگر اسے دخول مسجد پر محمول کیا جائے گا تو یہ صرف دخول مسجد کے ساتھ خاص ہوجائے گا۔ قرب مسجد کا مفہوم اس میں شامل نہیں ہوگا جبکہ ایٓت میں قرب مسجد کی نہی ہے۔ اس لئے اس حکم کے ساتھ مسجد کی تخصیص درست نہیں ہوگی اور مسجد کے اردگرد کی جگہ کو اس سے خارج رکھنا جائز نہیں ہوگا۔- حماد بن سلمہ نے حمید سے، انہوں نے حسن سے اور انہوں نے عثمان بن ابی العاص سے روایت کی ہے کہ جب قبیلہ ثقیف کا وفد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لئے مسجدنبوی میں شامیانہ لگانے کا حکم دیا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یہ نجس لوگ ہیں یہ مسجد میں کیسے قیام کرسکتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سن کر فرمایا : ” زمین لوگوں کی نجاستوں سے آلودہ نہیں ہوتی بلکہ لوگوں کی نجاستیں خود ان کی اپنی ذات میں رہتی ہیں “۔ یونس نے زہری سے اور انہوں نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے کہ ابو سفیان کفر کی حالت میں مسجد نبوی میں آئے تھے۔ تاہم مسجد حرام میں اس کی اجازت نہیں تھی اس لئے کہ قول باری ہے (فلا یقربوا المسجد الحرام) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ثقیف کا وفد فتح مکہ کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اور آیت کا نزول اس سال ہوا تھا جس سال حضرت ابوبکر (رض) حج پر گئے تھے۔ یہ ٩ ھ کا واقعہ ہے۔ حضورں نے اس وفد کو مسجد میں ٹھہرایا تھا اور یہ فرما دیا تھا کہ ان کا نجس ہونا دخول مسجد سے مانع نہیں ہے۔ اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ کفر کی نجاست کافر کو مسجد میں داخل ہونے سے نہیں روکتی۔ ابو سفیان معاہدہ کی تجدید کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تھے یہ واقعہ فتح مکہ سے پہلے کا ہے اس وقت ابو سفیان مشرک تھے۔ آیت کا نزول اگچہ اس واقعہ ک بعد ہوا تھا تاہم یہ مسجد حرام کے قرب کی نہی کی مقتضی ہے دوسری تمام مساجد میں کافروں کے داخلے کی ممانعت کی مقتضی نہیں ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ کافر کے لئے حدود حرم میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے الا ( ) یہ کہ وہ غلام یا بچہ ہو اس لئے کہ قول باری ہے (فلا یقربوا المسجد الحرام) ( ) نیز زید بن یثیع نے حضرت علی سے روایت کی ہے کہ آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے بموجب یہ اعلان کردیا تھا کہ اب کوئی مشرک حدود حرم میں داخل نہ ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر روایت کے الفاظ یہی ہیں تو اس سے یہ مراد ہے کہ کوئی مشرک حج کے لئے حدود حرم میں نہ آئے۔ حضرت علی (رض) سے دوسری روایات کے مطابق یہ منقول ہے کہ آپ نے یہ اعلان کیا تھا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کرنے کے لئے نہ آئے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں بھی یہ اعلان ان ہی لفظوں میں ہوا تھا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ معترض نے جس روایت کا حوالہ دیا ہے اس سے حج کے لئے حرم میں داخل ہونا مراد ہے۔ شریک نے اشعث سے ، انہوں نے حسن سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ ” اس سال حج کے بعد مشرکین مسجد حرام کے پاس پھٹکنے نہ پائیں الا ( ) یہ کہ کوئی غلام یا لونڈی ہو جو کسی ضرورت کی بنا پر یہاں داخل ہوئی ہو۔ “ آپ نے غلام یا لونڈی کا کسی ضرورت کی بنا پر داخلہ مباح کردیا تھا حج کے لئے داخلہ مباح نہیں کیا تھا۔ یہ امر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ایک ذمی جو آزاد ہو وہ یہاں کسی ضرورت کی بنا پر داخل ہوسکتا ہے اس لئے کہ کسی نے غلام اور آزاد کے درمیان فرق نہیں کیا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غلام اور لونڈی کا خصوصیت سے ذکر کیا تو اس کی وجہ ۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔ یہ ہے کہ ان دونوں کا اکثر احوال میں حج کے لئے یہاں داخلہ نہیں ہوتا۔- ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحٰق المروزی نے روایت بیان کی ہے انہیں حسن بن ابی الربیع الجرجانی نے، انہیں عبدالرزاق نے انہیں ابن جریر نے، اور انہیں ابو الزبیر نے کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کو قول باری (انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام) ( ) کی تفسیر میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ” الا یہ کہ کوئی غلام ہو یا اہل ذمہ میں سے کوئی ہو۔ “ ابو الزبیر نے اس روایت کو حضرت جابر (رض) پر لے جاکر موقوف کردیا ہے۔- یہ دونوں روایتیں درست ہیں۔ حضرت جابر (رض) اس روایت کو کبھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرفوعاً بیان کرتے تھے اور کبھی خود اس کا فتویٰ دیتے تھے۔ ابن جریج نے عطاء سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ کوئی مشرک مسجد میں داخل نہ ہو۔ عطاء نے اس کے ساتھ یہ آیت تلاوت کی تھی (فلایقربوا المسجد الحرام بعدعا مھم ھذا) ( ) - مسجد حرام سے مراد حرام ہے - عطار کا قول ہے کہ مسجد حرام میں سارا حرم داخل ہے۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ عمرو بن دینار نے بھی مجھے یہی بتایا تھا۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ پورے حرم کو مسجد حرام کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے اس لئے کہ حرم کی حرمت مسجد حرام کی حرمت کی بنا پر ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے (والمسجد الحرام الذی جعلنہ للناس سواء ن العاکف فیہ والباد۔ ( ) اور مسجد حرام سے جس کو ہم نے مقرر کیا ہے لوگوں کے واسطے کہ اس میں رہنے والا اور باہر سے آنے والا سب برابر ہیں) اس آیت میں مسجد حرام سے پورا حرم مراد ہے۔ اسی طرح یہ قول باری ہے (ثم محلھا الی البیت العتیق۔ ( ) پھر اس کے ذبح کے موقع بہت عتیق کے قریب ہے ( یہاں بھی سارا حرم مراد ہے۔ اس لئے کہ حرم کے جس حصے میں بھی قربانی کے اونٹ ذبح کئے جائیں گے قربانی درست ہوجائے گی۔ اس بنا پر قول باری (فلا یقربوا المسجد الحرام) ( ) سے حج کے لئے سارا حرم مراد لینا درست ہے اس لئے کہ اکثر مناسک کا تعلق حرم کے ساتھ ہے اس بنا پر سارا حرم مسجد کے حکم میں ہے اور اور اس لئے کہ اکثر مناسک کا تعلق حرم کے ساتھ ہے۔ اس بنا پر سارا حرم مسجد کے حکم میں ہے اور اسی لئے مسجد کے لفظ سے پورا حرم اور حرم کے لفظ سے حج تعبیر ہے۔ اس جگہ مسجد سے مراد حرم ہے اس پر قول باری (الا الذین عاھدتم عند المسجد الحرام فنا استقاموا لکم فاستقیموا لھم) ( ) دلالت کرتا ہے یہ بات سب کو معلوم ہے کہ یہ معاہدہ حدیبیہ کے مقام پر ہوا تھا جو حرم کے کنارے پر واقع ہے۔- حضرت مسور بن مخرمہ (رض) اور مروان بن الحکم کے بیان کے مطابق حدیبیہ کا بعض حصہ حرم کے اندر ہے اور بعض حصہ حل یعنی حرم سے باہر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر عند المسجد الحرام ( ) کا اطلاق کیا جس کے معنی ’ عند الحرم ‘ ( ) یعنی حرم کے پاس کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین پر نجس کے اسم کا اطلاق کیا ہے جو امر کا مقتضی ہے کہ مشرکین سے اجتناب کیا جائے اور ان سے گھل مل جانے سے پرہیز کیا جائے اس لئے کہ مکہ ہمیں نجس چیزوں سے دور رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قول باری (بعدعامھم ھذا) ( ) سے قتادہ کے قول کے مطابق وہ سال مراد ہے جس میں حضرت ابوبکر (رض) حج کے لئے گئے تھے اور تمام لوگوں کو سورة برأت پڑھ کر سنائی تھی یہ ہجرت کانوواں سال تھا۔ اس کے بعد ١٠ ھ؁ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فریضہ حج ادا فرمایا تھا جو حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔ قول باری ہے (وان خفتم عیلۃ فسوف یغنیکم اللہ من فضلہ ان شاء۔ ( ) اور اگر تمہیں تنگ دستی کا خوف ہے تو بعید نہیں کہ اللہ چاہے تو تمہیں اپنے فضل سے غنی کردے) عیلہ ( ) فقر و تنگ دستی کو کہتے ہیں۔ جب کوئی آدمی تنگ دست ہوجائے تو کہا جاتا ہے۔ ” عال فلان یعیل “ ( ) (فلان تنگ دست ہوگیا یا ہوجائے گا)- شاعر کہتا ہے :- وما یدری الفقیر متیٰ غناہ وما یدری الغنی متی یعیل ( ) - (فقیر کو کیا معلوم کہ وہ کب مال دار ہوجائے گا اور مال دار کو کیا پتہ کہ وہ کب فقیر بن جائے گا)- مجاہد اور قتادہ کا قول ہے کہ انہیں یہ خوف تھا کہ مشرکین کو حج پر آنے کی ممانعت سے تجارتی سرگرمیاں ٹھپ ہوکر رہ جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بتادیا کہ وہ اپنے فضل سے انہیں غنی کردے گا۔ ایک قول کے مطابق اس سے وہ جزیہ مراد ہے جو مشرکین سے لیا جاتا ہے ایک اور قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ یہ تجارتی سرگرمیاں مسلمانوں کی آمد کی بنا پر جاری رہیں گی اس لئے کہ اس کے علم میں یہ بات تھی کہ پورا عالم عرب اور عجم کے علاقے عنقریب دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں گے اور پھر حج کے ارادے سے آنے والے مسلمانوں کے ساتھ تجارت کرکے یہاں کے لوگوں کو وہ منافع اور فوائد حاصل ہوجائیں گے جن کے مشرکین کی آمد کا سلسلہ منقطع ہونے کی وجہ سے ہاتھ سے نکل جانے کا ابھی خوف پیدا ہوگیا تھا۔- کعبۃ اللہ مکان محترم ہے - یہ قول باری اس قول باری کی نظیر ہے (جعل اللہ الکعبۃ البیت الحرام قیاماً للناس والشھر الحرام والھدی والقلائد ( ) اللہ تعالیٰ نے مکان محترم کعبہ کو لوگوں کے لئے (اجتماعی زندگی کے) قیام کا ذریعہ بنایا اور ماہ حرام اور قربانی کے جانوروں اور قلادوں کو بھی) اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمادیا کہ بیت اللہ کے حج، قربانی کے جانوروں اور قلادوں میں لوگوں کے دنیاوی اور دینی منافع و فوائد اور مصالح رکھ دیئے گئے ہیں۔ نیز اپنے ارشاد (وان خفتم عیلۃ فسوف یغنیکم اللہ من فضلہ ان شاء) ( ) اس بات کی اطلاع دے دی کہ مسلمانوں کی حج کے لئے آمد سے یہاں کے لوگوں کو بہت سے فوائد و منافع اور دولتمندی حاصل ہوگی اگرچہ آیت کے نزول کے وقت مسلمانوں کی تعداد تھوڑی تھی۔- اللہ تعالیٰ نے دولتمندی کو اپنی مشیت کے ساتھ معلق کردیا تو اس کے دو وجوہ بیان کئے گئے ہیں ان میں سے ہر ایک آیت میں مراد ہوسکتی ہے۔ ایک تو یہ کہ ان میں سے چونکہ بہت سے لوگ وفات پاجانے والے تھے اور وہ اس موعود مالداری کو حاصل نہیں کرسکتے تھے اس لئے اسے اپنی مشیت کے ساتھ معلق کردیا۔ دوسری وجہ یہ ہے اس تعبیر سے لوگ اپنے دینی اور دنیوی امور کی اصلاح کے لئے صرف اللہ کی ذات سے اپنی امیدیں وابستہ کرلیتے جس طرح یہ قول باری ہے (لتدخلن المسجد الحرام ان شاء اللہ اٰمنین۔ ( ) اگر اللہ چاہے تو تم ضرور مسجد حرام میں امن و اطمینان کے ساتھ داخل ہوگے)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٨) مشرک عام برأت یعنی یوم النحر کے بعد حج اور طواف کے لیے نہ آئیں اور اگر تمہیں اس حکم کے اجراء میں فقر ومفلسی کا ڈر ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے طریقہ سے اپنا رزق خاص عطا فرمائے گا اور بکربن وائل کی تجارت سے تمہیں مالا مال کردے گا اور تمہاری روزیوں کو جاننے والا اور جو فیصلہ فرمایا ہے اس میں حکمت والا ہے۔- شان نزول : (آیت) ” وان خفتم عیلۃ “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ مشرکین بیت اللہ آیا کرتے اور اپنے ساتھ کھانے کی چیزیں بھی لاتے تھے اور وہاں تجارت کرتے جب ان کو بیت اللہ آنے سے روک دیا گیا تو مسلمان کہنے لگے کہ اب کھانے پینے کی چیزیں کہاں سے آئیں گی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اگر تمہیں مفلسی اور ناداری کا اندیشہ ہو (الخ) ۔- ابن جریر (رح) نے اور ابوالشیخ (رح) نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب آیت نازل ہوئی (آیت) ” انما المشرکون نجس فلایقربوا المسجد الحرام “۔ تو مسلمانوں پر یہ حکم طبعی طور پر شاق گزرا اور کہنے لگے کہ کھانے کی چیزیں اور دوسرے سامان ہمارے پاس کون لے کر آئے گا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (آیت) ” وان خفتم عیلۃ “۔ (الخ) نیز اس طرح عکرمہ (رض) ، عطیہ (رض) ، عوفی (رض) ، ضحاک (رض) اور قتادہ (رض) وغیرہ سے روایات نقل کی گئی ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلاَ یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہٰذَا ج) - یعنی اس سال (٩ ہجری) کے حج میں تو مشرکین بھی شامل ہیں ‘ مگر آئندہ کبھی کوئی مشرک حج کے لیے نہیں آسکے گا اور نہ کسی مشرک کو بیت اللہ یا مسجد حرام کے قریب آنے کی اجازت ہوگی۔ - (وَاِنْ خِفْتُمْ عَیْلَۃً ) (فَسَوْفَ یُغْنِیْکُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖٓ اِنْ شَآءَط اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ )- اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ اس حکم کے بعد حاجیوں کی تعداد کم ہوجائے گی اور ان کے نذرانوں اور قربانیوں سے ہونے والی آمدنی میں بھی کمی آجائے گی ‘ تو اسے اللہ کی ذات پر پورا پورا بھروسہ رکھنا چاہیے۔ عنقریب اس قدر دنیوی دولت تم لوگوں کو ملے گی کہ تم سنبھال نہیں سکو گے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد چند سالوں کے اندر اندر حالات یکسر تبدیل ہوگئے۔ سلطنت فارس اور سلطنت روما کی فتوحات کے بعد مال غنیمت کا گویا سیلاب امنڈ آیا اور اس قدر مال مسلمانوں کے لیے سنبھالنا واقعی مشکل ہوگیا۔ یہی صورت حال تھی جس کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں فرمایا تھا :- (فَوَاللّٰہِ لَا الْفَقْرُ اَخْشٰی عَلَیْکُمْ ‘ وَلٰکِنْ اَخْشٰی عَلَیْکُمْ اَنْ تُبْسَطَ عَلَیْکُمُ الدُّنْیَا کَمَا بُسِطَتْ عَلٰی مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ ‘ فَتَنَافَسُوْھَا کَمَا تَنَافَسُوْھَا ‘ وَتُھْلِکَکُمْ کَمَا اَھْلَکَتْھُمْ ) (١)- پس اللہ کی قسم (اے مسلمانو ) مجھے تم پر فقر و احتیاج کا کوئی اندیشہ نہیں ہے ‘ بلکہ مجھے تم پر اس بات کا اندیشہ ہے کہ تم پر دنیا کشادہ کردی جائے گی (تمہارے قدموں میں مال و دولت کے انبار لگ جائیں گے) جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کی گئی ‘ پھر تم اس کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو گے جیسے کہ وہ لوگ کرتے رہے ‘ پھر یہ تمہیں تباہ و برباد کر کے رکھ دے گی جیسے کہ اس نے ان لوگوں کو تباہ و برباد کردیا

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :25 یعنی آئندہ کے لیے ان کا حج اور ان کی زیارت ہی بند نہیں بلکہ مسجد حرام کے حدود میں ان کا داخلہ بھی بند ہے تاکہ شرک و جاہلیت کے اعادہ کا کوئی امکان باقی نہ رہے ۔ ”ناپاک“ ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ بذاتِ خود ناپاک ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اعتقادات ، ان کے اخلاق ، ان کے اعمال اور ان کے جاہلانہ طریق زندگی ناپاک ہیں اور اسی نجاست کی بنا پر حدود حرم میں ان کا داخلہ بند کیا گیا ہے ۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس سے مراد صرف یہ ہے کہ وہ حج اور عمرہ اور مراسم جاہلیت ادا کرنے کے لیے حدود حرم میں نہیں جا سکتے ۔ امام شافعی کے نزدیک اس حکم کا منشا یہ ہے کہ یہ مسجد حرام میں جاہی نہیں سکتے ۔ اور امام مالک یہ رائے رکھتے ہیں کہ صرف مسجد حرام ہی نہیں بلکہ کسی مسجد میں بھی ان کا داخل ہونا درست نہیں ۔ لیکن یہ آخری رائے درست نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسجد نبوی میں ان لوگوں کو آنے کی اجازت دی تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

22: اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ ان کے جسم بذات خود ناپاک ہیں، بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان کے عقائد ناپاک ہیں جو ان کے وجود میں سرایت کرچکے ہیں 23: یہ اعلان براء ت کا تکملہ ہے۔ اور اس کے ذریعے مشرکین کو مسجد حرام کے قریب آنے سے منع فرما دیا گیا ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ نے اس کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ مشرکین کو اگلے سال سے حج کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ اس آیت کریمہ کی تعمیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علیؓ سے جو اعلان کروایا اس کے الفاظ یہ تھے کہ: ’’لا یجمعن بعد ھذا العام مشرک‘‘ یعنی اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرسکے گا (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ برأۃ)۔ اس سے معلوم ہوا کہ ’’مسجد حرام کے قریب نہ آنے‘‘ کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ حج نہ کریں، اور یہ ایسا ہی ہے جیسے مردوں سے کہا گیا ہے کہ وہ حیض کی حالت میں عورتوں کے قریب بھی نہ جائیں، اور مراد یہ ہے کہ ان سے جماع نہ کریں، چنانچہ ان کے قریب جانا ممنوع نہیں ہے۔ اسی طرح کفار حج تو نہیں کرسکتے، لیکن کسی اور ضرورت سے مسجد حرام یا کسی اور مسجد میں ان کا داخلہ بالکلیہ ممنوع نہیں ہے، کیونکہ کئی مواقع پر یہ ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کو مسجد نبوی میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ البتہ امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ اس آیت کی رو سے مسجد حرام بلکہ پوری حددود حرم میں کفار کا داخلہ ممنوع ہے۔ بلکہ امام مالکؒ کے نزدیک دوسری کسی مسجد میں بھی کسی کافر کا داخلہ جائز نہیں ہے۔ 24: غیر مسلموں کو حج سے منع کرنے کا ایک نتیجہ ظاہری طور پر یہ ہوسکتا تھا کہ مکہ مکرَّمہ کی تجارت اور معیشت پر برا اثر پڑے، کیونکہ مکہ مکرَّمہ میں اپنی تو کوئی پیداوار نہیں تھی، باہر سے آنے والوں پر ہی اس کی تجارت کا دار و مدار تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں اس اندیشے کو دور کرتے ہوئے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کی احتیاج اپنے فضل سے دور فرمائے گا۔