29۔ 1 مشرکین سے قتال عام کے حکم کے بعد اس آیت میں یہود و نصاریٰ سے قتال کا حکم دیا جا رہا ہے (اگر وہ اسلام نہ قبول کریں) یا پھر وہ جزیہ دے کر مسلمانوں کی ماتحتی میں رہنا قبول کرلیں جزیہ ایک متعین رقم ہے جو سالانہ ایسے غیر مسلموں سے لی جاتی ہے جو کسی اسلامی مملکت میں رہائش پذیر ہوں اس کے بدلے میں ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمے داری اسلامی مملکت کی ہوتی ہے۔ یہود و نصاریٰ باوجود اس بات کے وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے تھے، ان کی بابت کہا گیا کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے، اس سے واضح کردیا گیا کہ انسان جب تک اللہ پر اس طرح ایمان نہ رکھے جس طرح اللہ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے بتلایا ہے، اس وقت تک اس کا ایمان باللہ قابل اعتبار نہیں۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ ان کے ایمان باللہ کو غیر معتبر اس لئے قرار دیا گیا کہ یہود و نصاریٰ نے حضرت عزیز و حضرت مسیح (علیہما السلام) کی ابنیت (یعنی بیٹا ہونے کا) اور الوہیت کا عقیدہ گھڑ لیا تھا، جیسا کہ اگلی آیت میں ان کے عقیدے کا اظہار ہے۔
[٢٧] اللہ اور آخرت پر ایمان کا صحیح مفہوم :۔ یہ خطاب اہل کتاب سے ہے حالانکہ وہ اللہ پر بھی اور آخرت پر بھی ایمان رکھنے کے مدعی تھے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ پر ایمان لانے کا حق ہے ویسے وہ ایمان نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے اللہ کے شریک بھی بنائے۔ خود باتیں گھڑ کر اللہ کے نام منسوب کیں۔ اللہ کی آیات کو چھپایا، انہیں بیچا، ان میں تحریف و تاویل کی۔ اگر وہ فی الواقع اللہ اور اس کی صفات پر ایمان لانے والے ہوتے تو یہ کام کبھی نہ کرتے۔ اسی طرح ان کا آخرت پر ایمان اس طرح کا تھا کہ بس ہم ہی جنت میں جائیں گے باقی سب دوزخ میں جائیں گے اس لیے کہ ہم اللہ کے چہیتے اور پیغمبروں کی اولاد ہیں اور اگر ہمیں آگ نے چھوا بھی تو بس چند دن کی بات ہے۔ اسی طرح نصاریٰ نے کفارہ مسیح کا عقیدہ گھڑا اور اللہ کے ہاں مسؤلیت سے بےخوف ہوگئے۔ آخرت پر ایمان لانے کے یہ معنی ہیں کہ انسان اس بات پر بھی یقین رکھے کہ وہاں کوئی سفارش، کوئی نسب، کوئی فدیہ، کسی بزرگ سے انتساب خواہ یہ نسلی ہو یا پیری مریدی کے رنگ میں ہو کچھ بھی کام نہ آسکے گا۔- [٢٨] یعنی جو کچھ ان کی شریعت میں ان پر نازل ہوا تھا اسے بھی پوری طرح تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور اس رسول کی تو سینہ تان کر مخالفت پر اتر آئے ہیں۔- [٢٩] غیرمسلموں سے جزیہ :۔ اس آیت میں صرف اہل کتاب سے جزیہ لینے کا ذکر ہے جبکہ رسول اللہ نے مجوس سے بھی جزیہ لیا تھا۔ جس سے معلوم ہوا کہ ہر مذہب کے غیر مسلموں سے جزیہ لیا جاسکتا ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث میں بھی کسریٰ شاہ ایران سے جزیہ کے مطالبہ کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ یہ لوگ سورج پرست اور آتش پرست تھے۔- خ مغیرہ بن شعبہ کا کسریٰ کے سپہ سالاروں کو خطاب :۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ نے کسی جنگ کے موقع پر کسریٰ کے سپہ سالار سے فرمایا : ہم عرب لوگ سخت بدبختی اور شدید مصیبت میں مبتلا تھے۔ بھوک کی وجہ سے چمڑے اور کھجور کی گٹھلیاں چوسا کرتے اور چمڑے اور بالوں کی پوشاک پہنتے تھے۔ درختوں اور پتھروں کی پوجا کرتے تھے۔ پھر زمین و آسمان کے مالک عزوجل نے ہماری طرف ہم میں سے ہی ایک نبی مبعوث کیا جس کے والدین سے ہم اچھی طرح واقف تھے۔ ہمارے نبی ہمارے پروردگار کے رسول نے ہمیں حکم دیا کہ تم سے جنگ کریں تاآنکہ تم اللہ اکیلے کی عبادت کرو یا پھر جزیہ ادا کرو۔ ہمارے نبی نے ہمیں پروردگار کا یہ پیغام بھی پہنچایا کہ جو شخص ہم میں سے قتل ہوگا وہ جنت کی ایسی نعمتوں میں رہے گا جو کسی نے دیکھی بھی نہیں۔ اور جو بچ گیا وہ تمہاری گردنوں کا مالک ہوگا۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب الجزیۃ الموادعۃ مع اہل الذمۃ والحرب)- جزیہ ان غیر مسلم اقوام سے لیا جاتا ہے جو اسلام قبول نہ کرنا چاہتے ہوں۔ خواہ یہ مسلمانوں کی مفتوحہ قوم ہو۔ یا کسی اسلامی ریاست میں بطور ذمی رہتی ہو جسے آج کی زبان میں اقلیت کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں پر زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہے جس کی شرح مقرر ہے لیکن غیر مسلم قوم پر زکوٰۃ کے بجائے جزیہ کی ادائیگی لازم ہوتی ہے اور اس کی شرح میں اس قوم کی مالی حیثیت کے مطابق کمی بیشی کی جاسکتی ہے اور یہ سب رقوم سرکاری بیت المال میں جمع ہوتی ہے۔ اسلامی حکومت اس جزیہ کے عوض اس قوم کو دفاعی ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیتی ہے۔ اور انہیں اپنے مذہبی افعال کی ادائیگی کی پوری اجازت دی جاتی ہے مگر اس بات کی اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ اسلام پر کیچڑ اچھالیں یا اس کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کریں۔ اور اگر کسی وقت مسلمان غیر مسلموں پر سے دفاعی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرسکیں تو انہیں جزیہ کی رقم واپس دینا ہوگی اور مسلمانوں کی تاریخ میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ چناچہ شام کی فتوحات کے سلسلہ میں بعض جنگی مقاصد کے پیش نظر اسلامی سپہ سالار سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح کو جب حمص سے واپس جانا پڑا تو آپ نے ذمیوں کو بلا کر کہا کہ ہمیں تم سے جو تعلق تھا وہ اب بھی ہے لیکن اب چونکہ ہم تمہاری حفاظت سے قاصر ہیں لہذا تمہارا جزیہ تمہیں واپس کیا جاتا ہے۔ چناچہ کئی لاکھ کی وصول شدہ رقم انہیں واپس کردی گئی۔ عیسائیوں پر اس واقعہ کا اتنا اثر ہوا کہ روتے جاتے تھے اور جوش کے ساتھ کہتے جاتے تھے کہ اللہ تمہیں واپس لائے۔ یہودیوں پر اس سے بھی زیادہ اثر ہوا۔ انہوں نے تورات کی قسم کھا کر کہا کہ جب تک ہم زندہ ہیں قیصر حمص پر قبضہ نہیں کرسکتا۔ یہ کہہ کر شہر پناہ کے دروازے بند کرلیے اور ہر جگہ چوکی پہرہ بٹھا دیا۔ (الفاروق۔ شبلی نعمانی ١٩١)- عرب کی ہمسایہ اور متمدن حکومت ایران میں دو قسم کے ٹیکسوں کا رواج تھا ایک زمین کا لگان جو صرف زمینداروں سے لیا جاتا تھا اور اسے یہ لوگ خراگ کہتے تھے۔ خراج کا لفظ اسی سے معرّب ہے۔ دوسرا ٹیکس عام لوگوں سے دفاعی ضروریات کے پیش نظر لیا جاتا تھا۔ جسے یہ لوگ گزیت کہتے تھے۔ جزیہ کا لفظ اسی سے معرب ہے مسلمانوں نے جب یہ علاقے فتح کیے تو انہوں نے مفتوح اقوام پر کوئی نیا بار نہیں ڈالا بلکہ وہی دونوں قسم کے ٹیکس ان پر عائد کیے گئے جو شاہ ایران اپنی رعایا سے وصول کرتا تھا۔ جبکہ جنگ کے موقعہ پر جزیہ کے علاوہ شاہ ایران کی طرف سے عوام سے جبری ٹیکس بھی وصول کیے جاتے تھے۔- خ جزیہ اور اس کے متعلقہ احکام :۔ جزیہ کو چونکہ مستشرقین اوراقوام مغرب نے خاصا بدنام کر رکھا ہے لہذا اس کے متعلق چند تصریحات ضروری معلوم ہوتی ہیں :۔- ١۔ جزیہ صرف ان افراد پر عائد کیا جاتا ہے جو لڑنے کے قابل ہوں۔ غیر مقاتل افراد مثلاً بچے، بوڑھے، عورتیں معذور لوگ، صوفی اور گوشہ نشین قسم کے حضرات اس سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ جزیہ ادا کرنے کے بعد یہ لوگ دفاعی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجاتے ہیں اور رسول اللہ نے ایسے لوگوں (جنہیں عرف عام میں اہل الذمہ یا ذمی کہتے ہیں) کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی سخت تاکید فرمائی ہے۔- ٢۔ جزیہ ان لوگوں کی مالی حالت کا لحاظ رکھ کر عائد کیا جاتا ہے چناچہ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ میں نے مجاہد سے پوچھا کہ شام کے کافروں سے تو سالانہ چار دینار لیے جاتے ہیں اور یمن کے کافروں سے صرف ایک دینار لیا جاتا ہے اس کی کیا وجہ ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اس لیے کہ شام کے کافر زیادہ مالدار ہیں۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب الجزیۃ الموادعۃ)- ٣۔ جزیہ کی وصولی میں انتہائی نرمی اختیار کی جاتی تھی اور سیدنا عمر کو اس سلسلہ میں دو باتوں کا بہت زیادہ خیال رہتا تھا۔ ایک یہ کہ جزیہ کی شرح ایسی ہو جسے لوگ آسانی سے ادا کرسکیں۔ چناچہ آپ نے عراق کی مفتوحہ زمینوں پر خراج کے تعیین کے لیے سیدنا حذیفہ بن یمان اور سیدنا عثمان بن حنیف (رض) جیسے اکابر صحابہ کو مقرر کیا جو اس فن کے ماہر تھے جب ان بزرگوں نے یہ حساب پیش کیا تو آپ نے ان دونوں کو بلا کر کہا کہ تم لوگوں نے تشخیص جمع میں سختی تو نہیں کی ؟ سیدنا عثمان بن حنیف (رض) نے کہا نہیں۔ بلکہ وہ اس سے دگنا بھی ادا کرسکتے تھے۔ (کتاب الخراج ص ٢١) اور دوسری یہ کہ ہر سال جب عراق کا خراج آتا تو دس معتمد اشخاص کوفہ سے اور اتنے ہی بصرہ سے طلب کیے جاتے۔ سیدنا عمر ان کو چار دفعہ شرعی قسم دلا کر پوچھتے کہ رقم کی وصولی میں کسی شخص پر ظلم یا زیادتی تو نہیں کی گئی (الفاروق ص ٣٢٦)- ٤۔ جزیہ چونکہ دفاعی ذمہ داریوں کے عوض لیا جاتا ہے لہذا جو لوگ ایسی خدمات خود قبول کرتے ان سے جزیہ نہیں لیا جاتا تھا۔ مثلاً- ا۔ طبرستان کے ضلعی شہر جرجان کے رئیس مرزبان نے مسلمانوں کے سالار سوید سے صلح کی اور صلحنامہ میں بتصریح لکھا گیا کہ مسلمان جرجان اور طبرستان وغیرہ کے امن کے ذمہ دار ہیں اور ملک والوں میں سے جو لوگ بیرونی حملوں کو روکنے میں مسلمانوں کا ساتھ دیں گے وہ جزیہ سے بری ہیں۔ (الفاروق ص ٢٣٩)- ب۔ آذر بائی جان کی فتح کے بعد باب متصل کا رئیس شہر براز خود مسلمانوں کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں تمہارا مطیع ہوں لیکن میری درخواست یہ ہے کہ مجھ سے جزیہ نہ لیا جائے بلکہ جب ضرورت پیش آئے تو فوجی امداد لی جائے۔ چناچہ اس کی یہ شرط منظور کرلی گئی۔ (الفاروق ص ٢٤٣)- ج۔ عمر و بن عاص نے جب فسطاط فتح کیا تو مقوقس والی مصر نے جزیہ کی بجائے یہ شرط منظور کی کہ اسلامی فوج جدھر رخ کرے گی، سفر کی خدمت (یعنی راستہ صاف کرنا۔ سڑک بنانا۔ پل باندھنا وغیرہ) مصری سر انجام دیں گے۔ چناچہ عمرو بن عاص جب رومیوں کے مقابلہ کے لیے اسکندریہ کی طرف بڑھے تو مصری خود منزل بمنزل پل باندھتے، سڑک بناتے اور بازار لگاتے گئے۔ علامہ مقریزی نے لکھا ہے کہ چونکہ مسلمانوں کے سلوک نے تمام ملک کو گرویدہ بنا لیا تھا اس لیے قبطی خود بڑی خوشی سے یہ خدمات سر انجام دیتے تھے (الفاروق ص ١٩٤)- خ جزیہ پر اعتراض اور اس کا جواب :۔ اب ان متمدن اور مہذب مغربی اقوام کا حال بھی سن لیجئے۔ وہ جزیہ کو بدنام کرنے اور اسے ذلت کی نشانی ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ یہ لوگ فتح کے بعد مفتوح قوم سے اپنا سارا جنگ کا خرچہ بطور تاوان جنگ وصول کرتے ہیں۔ پچھلی چند صدیوں میں تو تاوان جنگ کے علاوہ سیاسی اوراقتصادی غلامی پر بھی مفتوح اقوام کو مجبور کیا جاتا رہا۔ البتہ دسری جنگ عظیم کے بعد سیاسی غلامی کو متروک قرار دے کر اس کے بدلے اقتصادی غلامی کے بندھن مضبوط تر کردیئے ہیں ان کے زرخیز ترین علاقہ پر ایک طویل مدت کے لیے قبضہ کرلیا جاتا ہے اور اس معاملہ میں انتہائی سختی سے کام لیا جاتا ہے تاکہ مفتوح قوم میں بعد میں اٹھنے کی سکت ہی باقی نہ رہ جائے۔ اسلام نے جزیہ کی ایسی نرم شرائط سے ادائیگی کے بعد نہ تاوان جنگ عائد کرنے کی اجازت دی ہے اور نہ ہی کسی طرح کی اقتصادی غلامی کی۔
قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ : مشرکین عرب سے قتال ( لڑائی) کا حکم دینے کے بعد اب اہل کتاب سے قتال کا حکم دیا جا رہا ہے اور اس کی چار وجہیں بیان فرمائی ہیں : 1 ان کا اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں ہے۔ رہا ان کا اللہ تعالیٰ پر ایمان کا دعویٰ تو وہ درست نہیں، کیونکہ وہ اس کے مطابق نہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام رسولوں نے بتایا، بلکہ وہ اللہ پر ایمان کے بجائے اللہ تعالیٰ کی توہین والا عقیدہ رکھتے ہیں، چناچہ اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں فرمایا : (وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُۨ ابْنُ اللّٰهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّٰهِ ) [ التوبۃ : ٣٠ ] ” اور یہودیوں نے کہا عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ “ یعنی یہود و نصاریٰ اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دے کر اسے محتاج ثابت کر رہے ہیں اور اس کی وحدانیت کا انکار کر رہے ہیں۔ 2 یوم آخرت پر ان کا ایمان بھی کالعدم ہے، کیونکہ ایک تو وہ خاتم النّبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں رکھتے اور جو آپ کے بتانے کے مطابق نہ ہو وہ نہ ہونے کے برابر ہے اور پھر بھی وہ اپنے تمام اعمال بد کے باوجود جنت کے ٹھیکیدار ہونے کے دعوے دار ہیں، فرمایا : (وَقَالُوْا لَنْ يَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى) [ البقرۃ : ١١١ ] ” جنت میں ہرگز داخل نہیں ہوں گے مگر جو یہودی یا نصاریٰ بنیں گے۔ “ پھر یہودیوں نے زیادہ سے زیادہ چند دن جہنم میں رہنے کی یعنی : (لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّآ اَيَّامًا مَّعْدُوْدَةً ) [ البقرۃ : ٨٠ ] اور عیسائیوں نے مسیح (علیہ السلام) کو اپنے گناہوں کا کفارہ قرار دے کر سرے ہی سے جہنم سے محفوظ رہنے کی آرزوئیں دل میں پال رکھی ہیں۔ کیا کوئی بھی سلیم العقل انسان ایسے یوم آخرت کو یوم جزا سمجھ سکتا ہے ؟ اگر کوئی کہے کہ یہ بات تو اب بعض مسلمانوں میں بھی آچکی ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اپنے پیشواؤں کے اعتماد پر جہنم سے بےفکر ہوچکے ہیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ لوگ بھی انھی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کو ان کے پیچھے چلنے سے منع فرمایا تھا۔ 3 وہ ان چیزوں کو حرام نہیں سمجھتے جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تو ان کا ایمان ہی نہیں، اس لیے ان کی حرام کردہ کو حرام سمجھنا تو دور کی بات ہے، وہ اپنی کتاب تورات میں مذکور حرام چیزوں کو بھی حرام نہیں سمجھتے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں انھوں نے سود لینا، رشوت اور حرام کھانا اختیار کر رکھا تھا، فرمایا : (وَّاَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَقَدْ نُھُوْا عَنْهُ وَاَ كْلِهِمْ اَمْوَال النَّاس بالْبَاطِلِ ) [ النساء : ١٦١ ] یعنی ان پر لعنت کا سبب ان کا سود لینا تھا، حالانکہ انھیں اس سے منع کیا گیا تھا اور لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانا بھی لعنت کا سبب تھا۔ نصرانیوں نے ایک نیا دین رہبانیت نکال لیا تھا، فرمایا : (وَرَهْبَانِيَّةَۨ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ ) [ الحدید : ٢٧ ] ” اور رہبانیت، اسے انھوں نے خود ہی ایجاد کرلیا، ہم نے اسے ان پر نہیں لکھا تھا۔ “ اور اب تو یہود و نصاریٰ نے مروت و انسانیت کی ہر حد پار کر کے زنا، قوم لوط کے عمل اور بیشمار خلاف فطرت کاموں کو جمہوریت کے نام پر حلال قرار دے دیا ہے اور تمام دنیا کو زور و زبردستی سے ان میں مبتلا کرنے کی جد و جہد شروع کر رکھی ہے۔ 4 وہ دین حق قبول نہیں کرتے، حالانکہ اسے قبول کرنے کے لیے ان کے انبیاء کے صریح احکام موجود ہیں اور اسلام کے حق ہونے کے واضح دلائل ان کے سامنے ہیں۔ - حافظ ابن کثیر (رض) نے فرمایا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اہل کتاب سے لڑنے کا حکم دیا۔ یہ ٩ ھ کی بات ہے، آپ نے رومیوں سے جہاد کی تیاری کی، لوگوں کو اس کے لیے دعوت دی، مدینہ کے ارد گرد سے بھی لوگوں کو بلایا، تقریباً تیس ہزار مجاہد لے کر آپ روانہ ہوئے، مدینہ اور اس کے ارد گرد کے منافقین ہی پیچھے رہ گئے، یا چند مخلص مسلمان۔ آپ نے شام کا رخ کیا، تبوک تک پہنچے، تقریباً بیس دن وہاں ٹھہرے، مگر رومی سامنے نہ آئے اور آپ اس علاقے کے لوگوں سے معاہدے کر کے واپس آگئے۔ (ملخصاً ) اس کے بعد خلفائے راشدین، بنو امیہ، بنو عباس اور دوسرے خلفاء نے یہ سلسلہ جاری رکھا تو مسلمانوں کی عزت اور غلبہ بھی قائم رہا اور مشرق سے مغرب تک ان کی حکومت بھی رہی، مگر افسوس جب مسلمانوں نے اس حکم کو بھلا دیا تو اللہ تعالیٰ کے شرعی اور کونی نظام کی مخالفت کے نتیجے میں انھیں خود ذلیل ہو کر زندگی گزارنا قبول کرنا پڑا۔ ہاں ایک گروہ ہے جو اس پر اب بھی قائم ہے اور قائم رہے گا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق غالب رہے گا۔ - حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ : اس سے معلوم ہوا کہ جہاد کا مقصد ان کو تلوار کے زور سے مسلمان بنانا نہیں، بلکہ اگر وہ اطاعت قبول کرلیں اور جزیہ دیتے رہیں تو وہ اپنے دین پر رہ کر پر امن زندگی گزار سکتے ہیں، اس کے عوض اسلامی حکومت ان کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ دار ہوگی۔ یہاں صرف اہل کتاب سے جزیہ لینے کا ذکر ہے، یعنی اہل کتاب کے سامنے تین راستے ہیں، مسلمان ہوجائیں یا جزیہ دے کر ماتحتی قبول کرلیں یا لڑائی کے لیے تیار ہوجائیں۔ رہے دوسرے کفار تو عرب کے مشرکین کے سامنے دو ہی راستے تھے، اسلام قبول کریں یا قتل ہونے کے لیے تیار ہوجائیں، الا یہ کہ وہ اس سے پہلے ہی جزیرۂ عرب سے نکل جائیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجوس سے بھی اہل کتاب والا معاملہ کیا۔ [ بخاری، الجزیۃ، باب الجزیۃ والموادعۃ مع أھل الذمۃ والحرب : ٣١٥٦، عن عبد الرحمن بن عوف (رض) ] باقی دنیا کے مشرکین کے متعلق تاریخ اسلام میں مشرکین عرب والے سلوک کا کہیں ذکر نہیں، مثلاً ہندو، بدھ اور دوسرے بت پرست وغیرہ، بلکہ مسلمانوں نے انھیں بھی اپنی رعایا بنا کر ان سے بہترین سلوک کیا۔ اگر اسلامی لڑائی کا مقصد لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانا ہوتا تو جس طرح عیسائیوں نے اندلس میں اسلام اور مسلمانوں کا نام و نشان عیسائی نہ ہونے پر مٹا دیا، اسی طرح مصر، شام، عراق، ایران، ہند، چین، ترکستان وغیرہ ہر جگہ سے بزور شمشیر کفار کو ختم کردیا جاتا۔ برصغیر میں مسلمان اقلیت میں نہ ہوتے، بلکہ سارا ہند مسلمان ہوتا اور یہاں کفار کا نام و نشان تک نہ ہوتا، مگر اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا، ارشاد ہوتا ہے : (لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ ) [ البقرۃ : ٢٥٦ ] ” دین میں زبردستی نہیں۔ “ جو مسلمان ہو سوچ سمجھ کر مسلمان ہو۔ ہاں یہ بات حق ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ کسی طرح قبول نہیں کہ دنیا میں اللہ کے باغی غالب ہوں اور اسلام اور مسلمان مغلوب ہو کر رہیں، کیونکہ اس صورت میں نہ دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے نہ فتنہ و فساد ختم ہوسکتا ہے۔ امن صرف اسلام ہی کے ذریعے سے ممکن ہے، اس لیے تمام دنیا کے کفار سے اسلام قبول کرنے یا جزیہ دینے تک لڑتے رہنے کا حکم دیا گیا اور یہ بھی ضروری قرار دیا گیا کہ کفار میں اتنی قوت کبھی نہ ہونے پائے کہ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں آسکیں، بلکہ لازم ہے کہ وہ اسلام کے مقابلے سے دستبردار ہو کر خود اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں اور حقیر ہو کر رہیں۔ ” صٰغِرُوْنَ “ کا معنی یہی ہے کہ وہ محکوم بن کر اسلام کے سائے میں زندگی بسر کریں۔ اس جزیے کی رقم کا تعین ہر علاقے کے لوگوں کی مالی حالت کو مد نظر رکھ کر کیا جائے گا، جو ان کے ہر شخص کی طرف سے ہر سال ادا کیا جائے گا۔ معاذ (رض) یمن گئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں ہر بالغ سے ایک دینار یا اس کے برابر وہاں کے بنے ہوئے کپڑے وصول کرنے کا حکم دیا۔ [ أبو داوٗد، الخراج، باب فی أخذ الجزیۃ : ٣٠٣٨ ]
خلاصہ تفسیر - اہل کتاب جو کہ نہ خدا پر ( پورا پورا) ایمان رکھتے ہیں اور نہ قیامت کے دن پر ( پورا ایمان رکھتے ہیں) اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے اور اس کے رسول ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام بتلایا ہے اور نہ سچے دین ( اسلام) کو قبول کرتے ہیں ان سے یہاں تک لڑو کہ وہ ماتحت ہو کر اور رعیت بن کر جزیہ دینا منظور کریں، اور یہود ( میں سے بعض) نے کہا کہ ( نعوذ باللہ) عزیر ( علیہ السلام) خدا کے بیٹے ہیں اور نصاری ( میں سے اکثر) نے کہا کہ میسح ( علیہ السلام) خدا کے بیٹے ہیں، یہ ان کا قول ہے ان کے منہ سے کہنے کا ( جس کا واقع میں کہیں نام و نشان نہیں) یہ بھی ان لوگوں کی سی باتیں کرنے لگے جو ان سے پہلے کافر ہوچکے ہیں ( مراد مشرکین عرب جو ملائکہ کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے، مطلب یہ کہ ان کو تو یہ بھی کافر سمجھتے ہیں، پھر انہی کی سی کفریات بکتے ہیں، اور پہلے ہونا اس معنی پر ہے کہ مشرکین کی گمراہی قدیم تھی) خدا ان کو غارت کرے یہ کدھر الٹے جا رہے ہیں ( کہ خدا پر ایسے افتراء باندہتے ہیں یہ تو ان کے اقوال کفریہ تھے ) ۔- معارف و مسائل - آیات مذکورہ سے پہلی آیت میں مشرکین مکہ سے جہاد و قتال کا ذکر تھا، ان آیات میں اہل کتاب سے جہاد کا بیان ہے، یہ گویا غزوہ تبوک کی تمہید ہے جو اہل کتاب کے مقابلہ میں پیش آیا ہے، تفسیر درمنثور میں مفسر القرآن حضرت مجاہد سے نقل کیا گیا ہے کہ یہ آیات غزوہ تبوک کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، اور لفظ اہل کتاب اگرچہ اپنے لغوی معنی کے اعتبار سے ہر اس کافر جماعت پر حاوی ہے جو کسی آسمانی کتاب پر ایمان رکھتی ہو، لیکن قرآن کریم کی اصطلاح میں یہ لفظ صرف یہود و نصاری کے لئے استعمال ہوا ہے، کیونکہ عرب کے قرب و جوار میں یہی دو فرقے اہل کتاب کے معروف تھے، اسی لئے قرآن کریم نے مشرکین عرب کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : (آیت) اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰي طَاۗىِٕفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَا ۠ وَاِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغٰفِلِيْنَ ۔- اور جہاد و قتال کا جو حکم اس آیت میں بمقابلہ اہل کتاب دیا گیا ہے وہ درحقیقت اہل کتاب کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ تمام طوائف کفار کا یہی حکم ہے، کیونکہ اس آیت میں حکم قتال کی جو وجوہ آگے بیان کی گئی ہیں وہ سب کفار میں مشترک ہیں، تو حکم بھی مشترک ہونا چاہئے، مگر ذکر میں اہل کتاب کی خصوصیت اس لئے کی گئی کہ یہ ممکن تھا کہ مسلمانوں کو ان کے مقابلہ میں جہاد و قتال کرنے سے اس بناء پر جھجک ہو کہ یہ لوگ کسی درجہ میں ایمان رکھتے ہیں، تورات و انجیل اور حضرت موسیٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) پر ان کا ایمان ہے تو ممکن تھا کہ انبیاء سابقین اور ان کی کتابوں کے ساتھ ان کا منسوب ہونا مسلمانوں کے لئے جہاد سے رکاوٹ کا سبب بن جائے، اس لئے بالتخصیص ان کے ساتھ قتال کا ذکر کردیا گیا۔- دوسرے اس جگہ ذکر میں اہل کتاب کے ساتھ تخصیص کرنے سے اس طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ ایک حیثیت سے یہ لوگ زیادہ سزا کے مستحق ہیں، کیونکہ یہ اہل علم تھے، ان کے پاس توریت و انجیل کا علم تھا جن میں خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر مبارک اور حلیہ تک تفصیل سے مذکور ہے، اس علم کے باوجود ان کا کفر و انکار اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں تو ایک حیثیت سے ان کا جرم زیادہ شدید ہوگیا، اس لئے خصوصی طور پر ان سے جنگ کا ذکر کیا گیا۔- جنگ کے حکم کی چار وجوہ اس آیت میں بتلائی گئی ہیں، اول لَا يُؤ ْمِنُوْنَ باللّٰهِ ، یعنی وہ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے، دوسرے وَلَا بالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ، یعنی آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، تیسرے لَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ یعنی ان چیزوں کو حرام نہیں سمجھتے جن کو اللہ نے حرام بتلایا ہے، چوتھے لَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ یعنی سچے دین کو قبول نہیں کرتے۔- یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہل کتاب یہود و نصارٰی تو بظاہر خدا تعالیٰ پر بھی ایمان رکھتے ہیں، اور آخرت و قیامت کے بھی قائل ہیں، پھر ان چیزوں پر ان کے ایمان کی نفی کیوں کی گئی وجہ یہ ہے کہ محض ایمان لانے کے الفاظ تو کافی نہیں، جس طرح کا ایمان اللہ تعالیٰ کے نزدیک مطلوب ہے، جب اس طرح کا ایمان نہ ہوا تو وہ نہ ہونے کے حکم میں ہے، یہود و نصارٰی نے اگرچہ علانیہ طور پر توحید کا انکار نہیں کیا، مگر جیسا کہ اگلی آیت میں آرہا ہے کہ یہود نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو نصارٰی نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہہ کر اس کی خدائی میں شریک ٹھہرا دیا، اس لئے ان کو اقرار توحید لغو اور ایمان کا دعوی غلط ہوگیا۔- اسی طرح آخرت پر جس طرح کا ایمان مطلوب ہے وہ بھی اکثر اہل کتاب میں نہیں رہا تھا، ان میں سے بہت سے لوگ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ قیامت میں حشر اجساد یعنی مادی اجسام کی دوبارہ زندگی نہ ہوگی، بلکہ ایک قسم کی روحانی زندگی ہوگی، اور جنت و دوزخ بھی کوئی خاص مقامات نہیں روح کی خوشی کا نام جنت اور رنج کا نام جہنم ہے، جو ارشادات ربانی کے سراسر خلاف ہے، اس لئے یوم آخر پر بھی ان کا ایمان درحقیقت ایمان نہ ہوا۔- تیسری چیز جو یہ فرمائی کہ جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے یہ ان کو حرام نہیں سمجھتے اس سے مراد یہ ہے کہ بہت سی چیزیں جن کو تورات یا انجیل نے حرام قرار دیا تھا یہ اس کی حرمت کے قائل نہیں، جیسے ربا ( سود) اسی طرح اور بہت سی کھانے پینے کی چیزیں جو تورات و انجیل میں حرام قرار دی گئی تھیں انہوں نے ان کو حرام نہ سمجھا، اور ان میں مبتلا ہوگئے۔- اس سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوگیا کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اس کو حلال سمجھنا صرف ایک گناہ ہی کا ارتکاب نہیں بلکہ کفر ہے، اسی طرح کسی حلال چیز کو حرام قرار دینا بھی کفر ہے ہاں اگر حرام کو حرام سمجھتے ہوئے عملی کوتاہی غلطی سے ہوجائے تو وہ کفر نہیں فسق اور گناہ ہے آیت مذکورہ میں ان لوگوں سے جہاد و قتال کرتے رہنے کی ایک حد اور انتھاء بھی بتلائی ہے (آیت) حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ ، یعنی یہ حکم قتال اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ وہ ماتحت ہو کر اور رعیت بن کر جزیہ دینا منظور نہ کرلیں۔- جزیہ کے لفظی معنی بدلے اور جزاء کے ہیں، اصطلاح شرع میں اس سے مراد وہ رقم ہے جو کفار سے قتل کے بدلہ میں لی جاتی ہے۔- وجہ یہ ہے کہ کفر و شرک اللہ اور رسول کی بغاوت ہے جس کی اصلی سزا قتل ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کاملہ سے ان کی سزا میں یہ تحفیف کردی کہ اگر وہ اسلامی حکو مت کی رعیت بن کر عام اسلامی قانون کے ماتحت رہنا منظور کریں تو ان سے ایک معمولی رقم جزیہ کی لے کر چھوڑ دیا جائے، اس اسلامی ملک کا باشندہ ہونے کی حیثیت سے ان کی جان و مال، آبرو کی حفا ظت اسلامی حکومت کے ذمہ ہوگی، ان کی مذہبی رسوم میں کوئی مزاحمت نہ کی جائے، اسی رقم کو جزیہ کہا جاتا ہے۔- جزیہ کا تعین اگر باہمی مصالحت اور رضا مندی سے ہو تو شرعاً اس کی کوئی تحدید نہیں، جتنی مقدار اور جس چیز پر باہمی معاہدہ صلح کا ہوجائے وہی ان سے لیا جائے گا، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل نجران کے ساتھ ایسا ہی معاملہ فرمایا کہ ان کی پوری جماعت سے سالانہ دو ہزار حلے دینے پر معاہدہ ہوگیا، حُلہ دو کپڑوں کے جوڑے کو کہتے ہیں، ایک تہنبد ایک چادر، ہر حلہ کی قیمت کا اندازہ بھی یہ طے کردیا گیا کہ ایک اوقیہ چاندی کی قیمت کا ہوگا، اوقیہ چا لیس ٤٠ درہم یعنی ہمارے وزن کے اعتبار سے تقریباً ساڑھے گیارہ تولہ چاندی ہوتی ہے۔- اسی طرح نصارٰی بنی تغلب سے حضرت فاروق اعظم کا اس پر معاہدہ ہوا کہ ان کا جزیہ اسلامی زکوٰة کے حساب سے وصول کیا جائے مگر زکوٰة سے دو گنا۔- اور اگر مسلمانوں نے کسی ملک کو جنگ کے ذریعہ فتح کیا، پھر وہاں کے باشندوں کی جائیدادوں کو انہی کی ملکیت پر برقرار رکھا، اور وہ رعیت بن کر رہنے پر رضا مند ہوگئے، تو ان کے جزیہ کی مقرر شرح یہ ہوگی جو حضرت فاروق اعظم نے اپنے عہد خلافت میں نافذ فرمائی کہ سرمایہ دار متمول سے چار درہم اور متوسط الحال سے اس کا نصف صرف دو درہم اور غریب سے جو تندرست اور محنت مزدوری یا صنعت و تجارت وغیرہ کے ذریعہ کماتا ہے اس سے اس کا بھی آدھا صرف ایک درہم ماہوار یعنی ساڑھے تین ماشہ چاندی یا اس کی قیمت لی جائے، اور ان کے تارک الدنیا مذہبی پیشواؤں سے کچھ نہ لیا جائے۔- اتنی قلیل مقدار کے لینے کے لئے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایات یہ تھیں کہ کسی شخص پر اس کی طاقت سے زیادہ بار نہ ڈالا جائے، اور جو شخص کسی غیر مسلم باشندہ پر ظلم کرے گا تو میں قیامت کے روز ظالم کے مقابلہ میں اس غیر مسلم کی حمایت کروں گا ( مظہری) - اسی طرح کی روایات سے بعض ائمہ فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ دراصل جزیہ کی کوئی خاص شرح شرعاً مقرر نہیں ہے بلکہ حاکم وقت کی صوابدید پر ہے کہ ان لوگوں کے حالات کا جائزہ لے کر اس کے مناسب تجویز کریں۔- اس بیان سے یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ جزیہ کفار سے سزائے قتل رفع کرنے کا معاوضہ ہے اسلام کا بدلہ نہیں، اس لئے یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ تھوڑے سے دام لے کر اسلام سے اعراض اور کفر پر قائم رہنے کی اجازت کیسے دے دیگئی، اور اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے اسلامی حکومت میں رہنے کی اجازت بہت سے ان لوگوں کو بھی ملتی ہے جن سے جزیہ نہیں لیا جاتا، مثلاً عورتیں، بچے، بوڑھے، مذہبی پیشوا، اپاہج معذور، اگر جزیہ اسلام کا بدلہ ہوتا تو ان سے بھی لیا جانا چا ہئے تھا۔- آیت مذکورہ میں عطاء جزیہ کے ساتھ جو عَنْ يَّدٍ فرمایا ہے اس میں حرف عَنْ بمعنی سبب اور يَّدٍ بمعنی قوت و غبلہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ یہ جزیہ کا دینا بطور اختیاری چندہ یا خیرات کے نہ ہو، بلکہ اسلامی غلبہ کو تسلیم کرنے اور اس کے ماتحت رہنے کی حیثیت سے ہو ( کذا فی الروح) اور وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ کے معنی امام شافعی (رح) کی تفسیر کے مطابق یہ ہیں کہ وہ لوگ اسلام کے عام ( جنرل) قانون کی اطاعت کو اپنے ذمہ لازم قرار دیں ( روح المعانی و مظہری) - اور اس آیت میں جو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ جب یہ لوگ جزیہ ادا کرنا منظور کرلیں تو جنگ بند کردی جائے، اس میں جمہور فقہاء کے نزدیک تمام کفار شامل ہیں، خواہ اہل کتاب ہوں یا غیر اہل کتاب البتہ مشرکین عرب اس سے مستثنیٰ ہیں کہ ان سے جزیہ قبول نہیں کیا گیا۔
قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَۃَ عَنْ يَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوْنَ ٢٩ ۧ- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔- حرم - الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك : وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ...- الآية [ الأنعام 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» .- وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن، والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع - وکذلک الشهر الحرام، وقیل : رجل حَرَام و حلال، ومحلّ ومُحْرِم، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] ، أي : لم تحکم بتحریم ذلک ؟ وكلّ تحریم ليس من قبل اللہ تعالیٰ فلیس بشیء، نحو : وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] ، وقوله تعالی: بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] ، أي : ممنوعون من جهة الجدّ ، وقوله : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] ، أي : الذي لم يوسّع عليه الرزق کما وسّع علی غيره . ومن قال : أراد به الکلب فلم يعن أنّ ذلک اسم الکلب کما ظنّه بعض من ردّ عليه، وإنما ذلک منه ضرب مثال بشیء، لأنّ الکلب کثيرا ما يحرمه الناس، أي : يمنعونه . والمَحْرَمَة والمَحْرُمَة والحُرْمَة، واستحرمت الماعز کناية عن إرادتها الفحل .- ( ح ر م ) الحرام - ( ح ر م ) الحرام وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔ الحرم کو حرام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے اس کے اندر بہت سی چیزیں حرام کردی ہیں جو دوسری جگہ حرام نہیں ہیں اور یہی معنی الشہر الحرام کے ہیں یعنی وہ شخص جو حالت احرام میں ہو اس کے بالمقابل رجل حلال ومحل ہے اور آیت کریمہ : يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] کے معنی یہ ہیں کہ تم اس چیز کی تحریم کا حکم کیون لگاتے ہو جو اللہ نے حرام نہیں کی کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے حرام نہ کی ہو وہ کسی کے حرام کرنے سے حرام نہیں ہوجاتی جیسا کہ آیت : ۔ وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] اور ( بعض ) چار پائے ایسے ہیں کہ ان کی پیٹھ پر چڑھنا حرام کردیا گیا ہے ۔ میں مذکور ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] بلکہ ہم ( برکشتہ نصیب ) بےنصیب ہیں ان کے محروم ہونے سے بد نصیبی مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] مانگنے والے اور نہ مانگنے ( دونوں ) میں محروم سے مراد وہ شخص ہے جو خوشحالی اور وسعت رزق سے محروم ہو اور بعض نے کہا ہے المحروم سے کتا مراد ہے تو اس کے معنی نہیں ہیں کہ محروم کتے کو کہتے ہیں جیسا ان کی تردید کرنے والوں نے سمجھا ہے بلکہ انہوں نے کتے کو بطور مثال ذکر کیا ہے کیونکہ عام طور پر کتے کو لوگ دور ہٹاتے ہیں اور اسے کچھ نہیں دیتے ۔ المحرمۃ والمحرمۃ کے معنی حرمت کے ہیں ۔ استحرمت الما ر عذ بکری نے نر کی خواہش کی دیہ حرمۃ سے ہے جس کے معنی بکری کی جنس خواہش کے ہیں ۔- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - عطا - العَطْوُ : التّناول، والمعاطاة : المناولة، والإعطاء :- الإنالة . قال تعالی: حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة 29] . واختصّ العطيّة والعطاء بالصّلة . قال : هذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ ص 39]- ( ع ط و ) العطوا - ( ن ) کے معنی ہیں لینا پکڑنا اور المعاد طاہ باہم لینا دینا الاعطاء ( افعال ) قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة 29] یہاں تک کہ جزیہ دیں ۔ اور العطیۃ والعطاء خاص کر اس چیز کو کہتے ہیں جو محض تفضیلا دی جائے ۔- جِزْيَة- : ما يؤخذ من أهل الذمة، وتسمیتها بذلک للاجتزاء بها عن حقن دمهم . قال اللہ تعالی: حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صاغِرُونَ [ التوبة 29] ، ويقال : جازيك فلان، أي : كافيك .- الجزیۃ وہ ٹیکس جو ذمیوں سے وصول کیا جاتا ہے ۔ اور اسے جزیہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ان کے جان ومال کی حفاظت کے بدلہ میں ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ یہاں تک کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں ۔ محاورہ ہے :۔ جازیک فلان یعنی فلاں تجھے کافی ہے - يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - صغر - والصَّاغِرُ : الرّاضي بالمنزلة الدّنيّة، قال تعالی: حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صاغِرُونَ [ التوبة 29] .- ( ص غ ر ) الصغریہ - صغر صغر وصغار ا کے معنی ذلیل ہونے کے ہیں اور ذلیل اور کم مر تبہ آدمی کو جو اپنی ذلت پر قائع ہو صاغر کہتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صاغِرُونَ [ التوبة 29] یہاں تک کہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھ سے جز یہ دیں
کن لوگوں سے جزیہ وصول کیا جانا چاہیے - قول باری ہے (قاتلوا الذین لایومنون باللہ ولا بالیوم الآخر ولا یحرمون ماحرم اللہ ورسولہ) تا قول باری (حتی یعطوا لجزیۃ عن یدولم صاغرون) آیت کے مضمون اور اس کے انداز بیان سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اہل کتاب میں سے جزیہ ان لوگوں سے وصول کیا جائے گا جو جنگ کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں گے یعنی اہل قتال ہوں گے۔ اس لئے کہ خصاب الٰہی کا ایسے لوگوں کے ساتھ قتال کے حکم پر مشتمل ہونا محال ہے جو قتال کی اہلیت ہی نہ رکھتے ہوں کیونکہ قتال کا فعل ہمیشہ دو شخصوں کے درمیان سرانجام پاتا ہے اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کا مقاتل قرار پاتا ہے یعنی دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہوتا ہے۔- جزیہ کی وصولی اہل قتال و اہل حرفہ سے ہوگی - جب یہ بات اس طرح ہے تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ جزیہ ان لوگوں سے لیا جائے گا جو قتال کی اہلیت رکھتے ہوں گے اور ان اہل حرفہ سے جن کے لئے اس کی ادائیگی ممکن ہوگی۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر ایک شخص جنگ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا تو اس پر جزیہ عائد نہیں ہوگا۔ ان کا قول ہے کہ اگر ایک شخص نابینا یا مفلوج یا انتہائی بوڑھا یا ہاتھ پائوں سے معذور ہوگا تو مالدار ہونے کے باوجود اس سے جزیہ نہیں لیا جائے گا۔ مشہور روایت کے مطابق ہمارے تمام اصحاب کا یہی قول ہے۔ امام ابو یوسف سے ایک روایت ہے کہ اگر نابینا شخص یا ہاتھ پائوں سے معذور انسان یا انتہائی بوڑھا آدمی مالدار ہوگا تو اس سے جزیہ وصول کیا جائے گا۔ امام ابو یوسفے امام ابوحنیفہ کے قول کی مطابقت میں بھی روایت منقول ہے۔ ابن رستم نے اپنے ” نوادلہ “ میں امام محمد سے اپنا سوال اور ان کا جواب نقل کیا ہے۔ میں نے ان سے سوال کیا : آپ کا کیا خیال ہے کہ بنی تغلب کے نصاریٰ اور دوسرے اہل کتاب اگر اہل حرفہ نہ ہوں اور ان کے پاس مال وغیرہ بھی نہ ہو اور انہیں مال وغیرہ حاصل کرنے کی قدرت بھی نہ ہو تو آیا ایسے لوگوں پر جزی عائد ہوگا ؟ امام محمد نے جواب میں فرمایا : ” ایسے لوگوں پر کوئی چیز عائد نہیں کی جائے گی۔ “ امام محمد کا قول ہے کہ جزیہ صرف ان لوگوں پر عائد کیا جائے گا جو مال دار ہوں گے اور کام کاج کرتے ہوں گے۔ آپ کا یہ بھی قول ہے کہ اگر ایک عیسائی کمائی تو کرتا ہے لیکن اپنے اہل و عیال کے اخراجات کے بعد اس کے پاس کچھ نہیں بچتا تو اس سے کوئی جزیہ وصول نہیں کیا جائے گا۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ گرجوں میں رہنے والے لوگوں نیز سیاحوں سے کوئی جزیہ نہیں لیا جائے گا بشرطیکہ وہ لوگوں سے الگ تھلگ رہتے ہوں اور ان کے ساتھ اختلاط نہ کرتے ہوں، اور ایسے لوگ دوسرے لوگوں کے ساتھ گھل مل جاتے ہوں تو ان پر جزیہ عائد کردیا جائے گا۔ عورتوں اور بچوں پر کوئی جزیہ عائد نہیں کیا جائے گا اس لئے کہ وہ جنگ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں۔- ایوب اور دو سے راویوں نے نافع سے اور انہوں نے اسلم سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے افواج کے سپہ سالاروں کو تحریری طور پر حکم دیا تھا کہ وہ صرف ان لوگوں کے خلاف ہتھیار استعمال کریں گے جو ان کے مقابلہ پر آئیں گے۔ عورتوں اور بچوں کو قتل نہیں کریں گے اور صرف ان لوگوں کو قتل کریں گے جن کے موئے زیر ناف پر استرے پھرے ہوں گے یعنی وہ بالغ ہوں گے۔- جزیہ بالغوں سے - اسی طرح آپ نے لشکروں کے سرداروں کو تحریری حکمنامہ بھیجا تھا کہ وہ مفتوحہ علاقوں میں لوگوں پر جزیہ عائد کریں گے عورتوں اور بچوں پر اسے عائد نہیں کریں گے صرف ان لوگوں پر عائد کریں گے جن کے موئے زیر ناف پر استرے پھرے ہوں گے۔ عاصم نے ابو وائل سے انہوں نے مسروق سے اور انہوں نے حضرت معاذ بن جبل (رض) سے روایت کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن کی طرف بھیجا تھا اور یہ حکم دیا تھا کہ میں ہر بالغ مرد اور بالغ عورت سے ایک ایک دینار یا اس کے مساوی قبیلہ معافر کا بنایا ہوا کپڑا وصول کروں۔- جزیہ کی مقدار - جزیہ کی مقدار کیا ہو ؟ ارشاد باری (حتی یعطوا الجزیۃ عن ید) میں ظاہر آیت کے لحاظ سے اس کی مقدار پر کوئی دلالت نہیں ہے اس لئے فقہاء کے مابین جزیہ کی مقدار کے بارے میں اختلاف رائے پیدا ہوگیا ہے ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جزیہ ادا کرنے والوں میں جو شخص مالدار ہوگا اس سے اڑتالیس درہم وصول کئے جائیں گے۔ متوسط الحال شخص سے چوبیس درہم اور تنگدست مگر کام کاج کرنے والے سے بارہ درہم وصول کئے جائیں گے۔ حسن بن صالح کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ جن لوگوں کے پاس سونا ہوگا ان سے چار دینار اور جن کے پاس چاندی ہوگی ان سے چالیس درہم وصلو کئے جائیں گے۔ مالدار اور فقیر میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں کیا جائے گا۔ اس مقدار میں نہ کمی کی جائے گی اور نہ اضافہ۔ امام شافعی کا قول ہے کہ خواہ مالدار ہو یا فقیر ہر شخص پر ایک دینار عائد ہوگا۔- ابو اسحٰق نے حارثہ بن مضرب سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے عثمان (رض) بن حنیف کو عراق روانہ کیا تھا، انہوں نے دیہی علاقوں میں رہنے والوں پر خرچ کے طور پر اڑتالیس، چوبیس اور بارہ درہم فی کس کے حساب سے ٹیکس عائد کیا تھا۔ اعمش نے ابراہیم بن مہاجر سے، انہوں نے عمرو بن میمون سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت حذیفہ بن الیمان (رض) کو دریائے دجلہ کی دوسری جانب کے علاقوں اور حضرت عثمان (رض) بن حنیف کو دریا کی اس جانب کے علاقوں کا مال افسر بناکر بھیجا تھا دونوں حضرات کا کہنا ہے کہ ہم نے ہر مرد پر ماہانہ چار درہم جزیہ عائد کیا تھا۔ ان سے پوچھا گیا کہ آیا لوگوں کو یہ رقم ادا کرنے کی استطاعت تھی تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ یہ لوگ زمیندار تھے اور فصلیں کاشت کرتے تھے۔ عمرو بن میمون نے سالانہ اڑتالیس درہموں کا ذکر کیا لیکن لوگوں کے طبقات میں کوئی فرق بیان نہیں کیا۔ جبکہ حارثہ بن مضرب نے تین طبقات کی تفصیل بیان کی۔ اس لئے ضروری ہے کہ عمرو بن میمون کی روایت کو اس پر محمول کیا جائے کہ ان کی اس سے مراد یہ ہے زیادہ سے زیادہ جزیہ جو عائد کیا جاتا تھا وہ ان لوگوں پر عائد کیا جاتا تھا جن کا تعلق سب سے اونچے طبقے سے ہوتا تھا۔ متوسط اور سب سے نچلا طبقہ اس میں شامل نہیں ہوتا تھا۔ امام مالک (رح) نے نافع سے اور انہوں نے اسلم سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے سونا رکھنے والوں پر چار دینار اور چاندی رکھنے والوں پر چالیس درہم کا جزیہ عائد کیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی خوراک اور تین دنوں تک ضیافت بھی ان کے ذمے تھی۔- یہ روایت عمرو بن میمون کی روایت کے ہم معنی ہے اس لئے کہ مسلمانوں کی خوراک اور تین دن تک کی ضیافت اور اس کے ساتھ چالیس درہم نقد کل ملاکر اڑتالیس درہم کے مساوی ہوجاتی ہے۔ اس بنا پر وہ روایت جس میں طبقات کی تفصیل موجود ہے اس پر عمل اس روایت کی بہ نسبت اولیٰ ہوگا جس میں یہ تفصیل نہیں ہے اس لئے کہ پہلی روایت میں اضافہ ہے نیز ہر طبقے کا حکم بیان کردیا گیا ہے نیز یہ کہ جو لوگ طبقات کے لحاظ سے جزیہ کی رقمیں عائد کرنے کے قائل ہیں وہ اڑتالیس درہم والی روایت پر بھی عمل پیرا ہیں۔ لیکن جو لوگ طبقات کے قائل نہیں اور یکساں طور پر اڑتالیس درہم کی مقدار کے قائل ہیں وہ اس روایت کے تارک قرار پائیں گے جس میں مختلف طبقات کا ذکر کرکے ہر طبقے کے ساتھ ایک خاص رقم کی تخصیص کردی گئی ہے۔- جو لوگ مالدار اور فقیر سب پر ایک دینار فی کس کے حساب سے جزیہ عائد کرنے کے قائل ہیں انہوں نے حضرت معاذ بن جبل (رض) کی روایت سے استدلال کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب انہیں یمن کی طرف روانہ کیا تھا تو انہیں یہ حکم دیا تھا کہ ہر بالغ مرد اور ہر بالغ عورت سے ایک ایک دینار یا اس کے ماسوی معافری کپڑا وصول کریں۔ ہمارے نزدیک یہ حکم اس صورت پر محمول ہے جب صلح کے طور پر اس قسم کا تعین کیا گیا ہو یا یہ صورت ہوسکتی ہے کہ ان میں سے جو فقراء تھے ان پر جزیہ کی یہ رقم عائد کی گئی تھی۔ ہمارے نزدیک یہ دونوں صورتیں جائز ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت معاذ (رض) سے منقول بعض روایات میں اس کا ذکر ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ ہر بالغ مرد اور بالغ عورت سے ایک ایک دینار جزیہ کے طور پر وصول کریں جب کہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ عورتوں سے صرف اسی صورت میں جزیہ وصول کیا جائے گا جب صلح کے اندر اس کی شرط رکھی گئی ہو۔- ابو عبید نے جریر سے، انہوں نے منصور سے اور انہوں نے حکم سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضت معاذ کو جبکہ وہ یمن میں تھے تحریری حکم بھیجا تھا کہ ہر بالغ مرد اور بالغ عورت پر ایک ایک دینار یا اس کے مساوی معافری کپڑا بطور جزیہ عائد کردیا جائے۔ ابو عبید کہتے ہیں کہ ہمیں عثمان بن صالح نے عبداللہ بن لہیعہ سے اور انہوں نے ابو الاسود سے، انہوں نے عروہ (رض) بن الزبیر سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل یمن کو تحریر فرمایا تھا کہ جو شخص یہودیت یا نصرانیت پر قائم رہے گا اور اسے چھوڑنے پر تیار نہیں ہوگا اس پر جزیہ عائد ہوجائے گا۔ ہر بالغ مرد اور بالغ عورت پر خواہ وہ غلام ہو یا لونڈی یا آزاد ایک ایک دینار یا اس کی قیمت کے مساوی معافری کپڑا ادا کرنا لازم ہے۔- جزیہ تین طبقوں پر ہے - جزیہ تین طبقوں پر عائد ہوتا ہے اس پر یہ امر دلالت کرتا ہے کہ اراضی پر لگان یا خراج زمین کی طاقت اور اس کی پیداوار کے لحاظ سے عائد کیا جاتا ہے۔ اس لئے زمین کی پیداواری صلاحیت کے اختلاف سے خراج کی مقدار بھی مختلف ہوجاتی ہے۔ بعض پر ایک قفیر غلہ مع ایک درہم، بعض پر پانچ درہم اور بعض پر دس درہم کی مقدار عائد کردی جاتی ہے۔ اس لئے فی کس عائد ہونے والا ٹیکس یعنی جزیہ جو درحقیقت خراج کی ایک صورت ہے، اس میں بھی اختلاف احوال کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔ اور جزیہ ادا کرنے والے کی اہلیت اور اس کی طاقت کے لحاظ سے ان کی مقدار میں فرق ہونا چاہیے۔- جزیہ بساط کے مطابق - اس پر حضرت عمر (رض) کی ہدایات دلالت کرتی ہیں جو آپ نے حضرت حذیفہ بن الیمان (رض) اور حضرت عثمان (رض) بن حنیف کو دی تھیں۔ آپ نے فرمایا تھا کہ شاید تم لوگ زمینداروں پر ٹیکس کا اتنا بوجھ ڈال دو جسے وہ برداشت نہ کرسکیں، اس پر دونوں نے کہا تھا کہ ہم ان کے لئے ایک فصل چھوڑ دیں گے، یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ طاقت اور وسعت کا اعتبار کیا جاتا ہے اور یہ چچیز تنگدستی اور مالداری کی دونوں حالتوں کے اعتبار کو واجب کردیتی ہے۔- یحییٰ بن آدم نے ذکر کیا ہے کہ جزیہ کی مقدار کسی توقیت اور وقت کی تعیین کے بغیر اتنی ہوگی جتنی کہ جزیہ ادا کرنے والا ادا کرسکتا ہو لیکن یحییٰ کی یہ بات اجماع کے خلاف ہے۔ حسن بن صالح سے منقول ہے کہ حضرت عمر (رض) نے جزیہ کی جو مقدار مقرر کی تھی اس میں اضافہ تو جائز نہیں ہے البتہ اس میں کمی کی جاسکتی ہے دوسر حضرات کا قول ہے کہ اس میں اضافہ اور کمی دونوں کی گنجائش ہے۔ یہ کمی بیشی جزیہ ادا کرنے والے کی طاقت و استطاعت کو مدنظر رکھ کر کی جائے گی۔ الحکم نے عمرو بن میمون سے روایت کی ہے کہ وہ حضرت عمر (رض) کے پاس موجود تھے جب آپ حضرت عثمان (رض) بن حنیف کو یہ ہدایات دے رہے تھے کہ بخدا اگر تم فی ؟ ؟ ایک قفیر (ایک پیمانے کا نام) غلہ مع ایک درہم اور فی کس دو درہم عائد کردوگے تو یہ مقدار وہاں کے باشندوں کے لئے کوئی ناقابل برداشت مقدار نہیں ہوگی۔ اور نہ ہی اتنی مقدار ادا کرنے میں انہیں کوئی مشقت اٹھانی پڑے گی۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کی مقدار اڑتالیس درہم تھی۔ عثمان بن حنیف نے اس کی مقدار پچاس درہم کردی تھی۔- اس روایت سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جو اضافے کے جواز کے قائل ہیں لیکن یہ روایت مشہور نہیں ہے اور اصول حدیث کے مطابق اس کی روایت ثابت بھی نہیں ہے۔ ان حضرات نے اس روایت سے بھی استدلال کیا ہے جس کے راوی ابو الیمان ہیں، انہوں نے صفوان بن عمرو سے اور انہوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز سے روایت کی ہے کہ انہوں نے گرجوں کے راہبوں پر فی کس دو دینار کے حساب سے جزیہ عائد کیا تھا۔ ہمارے نزدیک یہ روایت اس پر محمول ہے کہ متوسط طبقے سے تعلق کی بنا پر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے راہبوں پر فی کس کے حساب سے یہ رقم عائد کی تھی اس لئے کہ یہ لوگ ان کی رائے میں اس رقم کی ادائیگی کا بوجھ برداشت کرسکتے تھے جس طرح سفیان بن عینیہ نے ابن ابی نجیح سے روایت کی ہے کہ ” میں نے مجاہد سے پوچھا تھا کہ حضرت عمر (رض) نے اہل شام پر اہل یمن کی بہ نبست زیادہ جزیہ کیوں عائد کیا تھا ؟ “ انہوں نے جواب دیا کہ اہل شام میں فراخی اور خوش حالی تھی اس بنا پر جزیہ کی زائد مقدار عائد کی گئی تھی۔- طبقات کے درمیان امتیاز کا بیان - مختلف طبقات انسانی پر مقدار جزیہ - امام ابو یوسف نے کتاب الخراج میں بیان کیا ہے کہ لوگوں سے ان کے طبقات کے حساب سے جزیہ وصول کیا جائے گا جس کی تفصیل یہ ہے، خوش حال شخص سے اڑتالیس درہم، اس میں صراف، بزاز، صنعت کار، تاجر معالج اور طبیب شامل ہیں۔ اسی طرح ہر وہ شخص بھی اس میں شامل ہوگا جس کے ہاتھ میں کوئی صنعت اور تجارت ہوگی جسے اس نے پیشے کے طور پر اختیار کیا ہوگا اہل صنعت و تجارت میں سے ہر شخص سے اس کی صنعت اور تجارت کے مطابق جزیہ وصول کیا جائے گا یعنی خوش حال سے اڑتالیس درہم اور متوسط سے چوبیس درہم جس شخص کی صنعت اڑتالیس درہم کی متحمل ہوگی اس سے اڑتالیس درہم اور جس کی چوبیس درہم کی متحمل ہوگی اس سے چوبیس درہم وصول کئے جائیں گے جو شخص اپنے ہاتھ سے کام رتا ہوگا مثلاً درزی، رنگریز، قصاب، اور موچی نیز ان جیسے دوسرے پیشہ ور لوگ ان میں سے ہر ایک سے بارہ درہم لئے جائیں گے۔- امام ابو یوسف نے ملکیت کا اعتبار نہیں کیا بلکہ صنعت و تجارت کا اعتبار کیا جس طرح لوگ تنگدست اور مالدار کے لئے عادۃً ان ہی باتوں کا اعتبار کرتے ہیں۔ علی بن موسیٰ القمی نے ہمارے اصحاب کی طرف اپنے اس قول کی نسبت کیے بغیر یہ کہا ہے کہ پہلا طبقہ وہ ہے جس کا تعلق صنعت و حرفت سے ہے لیکن اس کے پاس اتنا مال نہ ہو جس پر مسلمانوں کی صورت میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے یہ بدحال قسم کے کاریگروں کا طبقہ ہے جس شخص کے پاس دو سو دوہم سے کم ہوگا اس کا شمار اس طبقے میں ہوگا۔ علی بن موسیٰ نے مزید کہا ہے کہ جس شخص کے پاس دو سو سے لے کر چار ہزار درہم تک ہوں گے اس کا شمار دوسرے طبقے میں ہوگا۔ اس لئے کہ جس شخص کے پاس دو سو درہم ہوتے ہیں وہ غنی کہلاتا ہے اور مسلمان ہونے کی صورت میں اس پر زکوٰۃ واجب ہوجاتی ہے اس لئے ایسا شخص فقراء کے طبقے سے خارج ہوجائے گا۔- علی بن موسیٰ کا کہنا ہے کہ ہم نے چار ہزار درہم تک کا جو اعتبار کیا ہے وہ حضرت علی (رض) اور حضرت عمر (رض) کے اس قول سے ماخوذ ہے کہ ” چار ہزار یا اس سے کم کی رقم نفقہ یعنی اخراجات کی رقم ہے اور اس سے زائد رقم مال کثیر ہے “ انہوں نے مزید کہا ہے کہ جو شخص دو سو سے لے کر دس ہزار درہم تک کا مالک ہو اسے دوسرے طبقے میں شمار کرنا جائز ہے لیکن اس سے زائد رقم کا مالک تیسرے طبقے میں شمار ہوگا اس لئے کہ حماد بن سلمہ نے طلحہ بن عبداللہ بن کریز سے، انہوں نے ابو الضیف سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من ترک عشرۃ الاف درہم جعلت صفائح بعذب بھا یو القیامۃ۔ جو شخص دس ہزار درہم چھوڑ جائے گا اس کے ان درہموں کو پتھر کی سلوں یا چوڑی تلوارروں کی شکل دے دی جائے گی اور قیامت کے دن اس کے ذریعہ اسے عذاب دیا جائے گا) عی بن موسیٰ القمی نے یہ جو کچھ کہا ہے اجتہاد کی بنا پر کہا ہے اور جس شخص کے غالب گمان میں یہ باتیں درست ہوں اس کے لئے ان باتوں کے کہنے کی گنجائش ہے۔- ” عن ید “ کا مفہوم - قول باری (عن ید) کی تفسیر میں قتادہ کا قول ہے کہ ” عن قھر “ یعنی دبائو اور مغلوبیت کی بنا پر گویا انہوں نے اس کی یہ توجیہ کی ہے کہ قوت و طاقت اور غلبہ کا مرکز ہاتھ ہوتا ہے اس لئے اس قول باری کا مفہوم یہ ہوگا کہ اہل کتاب یہ جزیہ ان پر تمہارے غلبہ اور تسلط نیز دبائو کی بنا پر ادا کریں گے۔ ایک قول ہے کہ (عن ید) سے کافر کا ہاتھ مراد ہے۔ ہاتھ کا ذکر اس لئے ہواتا کہ جزیہ کی ادائیگی کی حالت اور غصہ کی حالت کے درمیان فرق کردیا جائے۔ اس لئے کہ ذمی جب جزیہ ادا کرتا ہے تو وہ بخوشی اپنے ہاتھوں سے اس کی ادائیگی کرتا ہے اور اس کے ذریعے اپنی جان اور اپنا خون محفوظ کرلیتا ہے۔ گویا یوں ارشاد ہوا۔ ” وہ جزیہ ادا کر درآنحالیکہ وہ اس کی ادائیگی پر رضامند اور خوش ہو “۔ قول باری (عن ید) میں عن نعمۃ کے معنی کا بھی احتمال ہے۔ اس بنا پر عبارت کی ترتیب کچھ اس طرح ہوگی۔ حتیٰ یعطوا الجزیۃ عن اعترف منھم بالنعمۃ فیھا علیھم بقبولھا منھم “ (حتیٰ کہ وہ اس نعمت کا اعتراف کرتے ہوئے جزیہ ادا کردیں جو ان سے جزیہ قبول کرکے انہیں عطا کی گئی ہے) ۔- ایک قول کے مطابق (عن ید) کے معنی ’ عن نقد ‘ کے ہیں یعنی نقد کی صورت میں جس طرح نقد سودے کو عربی زبان میں ’ یداً بید “ کہاجاتا ہے یعنی ہاتھوں ہاتھ سودا۔ ابو عبیدہ معمر بن المثنیٰ کا قول ہے کہ ہر وہ شخص جو کسی قاہر یعنی تسلط حاصل کرلینے والے شخص کی اطاعت بطیب خاطر یا اس کے دبائو میں آکر اپنے ہاتھ سے اس کے ہاتھ میں کوئی چیز دے کر کرے اس پر یہ فقرہ صادق آئے گا کہ ” احطاہ عن ید “ ابو عبیدہ کا قول ہے کہ صاغر ذلیل و غقیر کو کہتے ہیں قول باری (وھم صاغرون) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ یمشون بھا ملبین (لبیک کہتے ہوئے وہ یہ جزیہ لے کر آئیں) حضرت سلمان فارسی (رض) کا قول ہے کہ ” مذمومین غری محمودین “ (قابل مذمت اور ناقابل تعریف بن کر) ایک قول کے مطابق جزیہ کی ادائیگی ان کے لئے اس بنا پر ذلت کا سامان ہے کہ یہ ان پر لازم کردی جاتی ہے ان سے اس کی وصولی کی جاتی ہے لیکن انہیں اس پر کوئی ثواب یا جزا نہیں دی جاتی۔ عکرمہ کا قول ہے کہ ذلت کی وجہ یہ ہے کہ جزیہ ادا کرنے والا کھڑا ہوتا ہے اور وصول کرنے والا بیٹھا ہوتا ہے۔ ایک قول ہے کہ صنعار فرمانبرداری کو کہتے ہیں اس سے وہ ذلت مراد لینا بھی جائز ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے سروں پر تھوپ دی تھی۔ چناچہ ارشاد ہے (ضربت علیھم الذلۃ اینما ثقفوا الا بحبل من اللہ وحبل من الناس۔ یہ جہاں بھی پائے گے ان پر ذلت کی مار ہی پڑی، کہیں اللہ کے ذمہ یا انسان کے ذمہ میں پناہ مل گئی تو یہ اور بات ہے) جس سے مراد وہ ذمہ ہے جو اللہ نے ان کے لئے اٹھایا ہے اور ان کے متعلق مسلمانوں کو جس کا حکم دیا ہے۔ عبدالکریم الجزری نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے کہ وہ اس بات کو پسند کرتے تھے کہ جب نبطیوں (ایک عجمی قوم جو عراق میں دجلہ و فرات کے دوآبہ کے درمیان آباد تھی سے جزیہ وصول کیا جائے تو ان کے ساتھ اس معاملے میں پوری سختی کی جائے۔- ابو بکر جصاص کہتے ہیں سعید بن المسیب کی اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ انہیں سزا دی جائے یا ان کی استطاعت سے بڑھ کر ان پر بوجھ ڈالا جائے بلکہ یہ مراد ہے انہیں فرمانبرداری پر مجبور کرکے حقیر بنادیا جائے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی۔ انہیں اسحاق بن الحسن نے، انہیں ابو حذیفہ نے، انہیں سفیان نے، انہیں سہیل نے اپنے والد سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (اذا لقیتم المشرکین فی الطریق فلاتبدوھم بالسلام راضطروھم الی اضیقہ، جب راستے میں تم مشرکین کو دیکھو تو انہیں سلام کہنے میں پہل نہ کرو اور انہیں راستہ کی کشادہ جگہ سے تنگ جگہ کی طرف ہف جانے پر مجبور کردو)- ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں مطیر نے، انہیں یوسف الصنعار نے، انہیں ابوبکر بن عیاش نے سہیل سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لاتصافحوا الیھود والنصاریٰ یہودیوں اور عیسائیوں سے مصافحہ نہ کرو) یہ ذلت کی وہ تمام صورتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے کافروں کے سر ان کے کفر کے سبب تھوپ دی ہیں۔- یہودو نصاریٰ سے دوستی کی ممانعت - قول باری ہے (یایھا الذین اٰمنوا لاتتخذوا بطانۃ من دونکم۔ اے ایمان لانے والو اپنے آدمیوں کے سوا کسی کو اپنا راز دانہ نہ بنائو) نیز فرمایا (لا تتخذو الیھود والنصاریٰ اولیاء بعضھم اولیاء بعض ومن یتولھم منکم فانہ منھم۔ یہودو نصاریٰ کو اپنا دلی دوست نہ بنائو، یہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو شخص ان کے ساتھ دوستی کرے گا وہ ان ہی میں سے ہوجائے گا) ان آیات میں کافروں سے دوستی گانٹھنے اور ان کی تعظیم و تکریم سے منع کیا گیا ہے بلکہ یہ حکم دیا گیا ہے کہ ان کی اہانت اور تذلیل کی جائے۔ مسلمانوں کے معاملات میں ان سے مدد لینے کی بھی ممانعت کردی گئی ہے اس لئے کہ مسلمانوں کے معاملات میں دخیل ہوکر انہیں انتظامی طور پر عزت اور بالادستی حاصل ہوجائے گی۔- حضرت عمر (رض) نے حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) کو تحریری طور پر یہ ہدایت کی تھی کہ وہ تحریری کاموں میں کسی مشرک سے مدد نہ لیں۔ اس موقع پر آپ نے اس آیت کا بھی حوالہ دیا تھا (لاتتخذوا بطانۃ من دونکم لا یالونکم حبالاً ) نیز فرمایا تھا کہ اللہ تعایلٰ نے انہیں ذلیل کردیا ہے اب انہیں عزت کے مقام کی طرف واپس نہ لوٹائو۔ قول باری (حتی یعطوا الجزیۃ عن یدوھم صاغرون) ان کے قتل کے وجوب کا مقتضی ہے یہاں تک کہ انہیں دباکر اور ذلیل کرکے ان سے جزیہ وصول کیا جائے۔ اس اقتضاء کی روشنی میں یہ بات جائز نہیں ہوگی کہ اگر یہ لوگ مسلمانوں کے علاقوں میں حکومتوں پر تسلط جمالیں اور ان کے معاملات کے دردبست پر قابض ہوجائیں تو اس صورت میں یہ ذمی بنے رہیں اور ان کی جان و مال کی حفاظت کی ہم پر ذمہ داری عائد ہو۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر ان کی اور ان کی جانوں کی حفاظت کی ذمہ داری صرف اس صورت میں ڈالی ہے کہ یہ جزیہ دیں اور ذلی ہوکر رہیں۔ اس لے ان میں سے جو شخص بھی مسلمانوں پر غاصبانہ تسلط جمالے گا اور ٹیکس وصول کرنا اور ظلم و ستم کرنا شروع کردے گا خواہ اسے سلطان نے اس کام پر لگایا ہو یا وہ از خود یہ سب کچھ کرتا ہو۔ اسے قتل کردینا واجب ہوگا۔- بادشاہ کے عیسائی کارندے مسلمانوں پر ظالمانہ ٹیکس لگائیں تو وہ واجب القتل ہیں - یہ اس امر پر دلالت کرتا ہے بادشاہ کے ایسے عیسائی کا رندے جو اس کی طرف سے انتظامی اسامیوں پر مقرر کئے جاتے ہیں، پھر وہ اپنے عہدوں کا ناجائز فائدہ اٹھاکر مسلمانوں پر ظلم و ستم کرتے ہیں اور ٹیکس وصول کرتے ہیں، یہ ذمی نہیں رہتے، ان کے خون کی حفاظت کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی بلکہ ان کا خون بہانا مباح ہوجاتا ہے۔ اگرچہ ان کے ذریعے حاصل شدہ ٹیکس کی رقمیں ایسے شخص کے خزانے میں پہنچ جاتی ہیں جو اسلام کا دعوے دار ہوتا ہے اور کمین گاہ میں بیٹھ کر لوگوں کا مال لوٹتا ہے۔ ایسے کارندوں اور حاکموں کا خون بہا دینا جائز ہے اس لئے کہ ان کی حیثیت رہزنوں جیسی ہے۔ فقہاء کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص کسی شخص سے اس کا مال چھیننے کی کوشش کرے تو وہ اسے قتل کرسکتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی یہی فرمان ہے (من طلب مالہ فقاتل فقتل فھو شھید۔ جس شخص کا مال کسی نے چھیننے کی کوشش کی اور وہ اس کی حفاظت کی خاطر اس کا مقابلہ کرتا ہوا قتل ہوجائے تو وہ شہید ہوگا)- ایک اور روایت میں ہے (من قتل دون مالہ فھو شھید۔ جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتا وا مارا جائے وہ شہید ہوگا) نیز فرمایا (ومن قتل دون اھلہ فھو شھید ومن قتل دن دمہ فھو شھید۔ اور جو شخص اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کرتا ہوا ہلاک ہوجائے وہ شہید ہوگا اور جو شخص اپنی جان کی حفاظت میں جان گنوا بیٹھے وہ بھی شہید ہوگا) یہ تو اس شخص کا حکم ہے جو کلمہ گو ہونے کے باوجود کسی شخص کے مال پر غاصبانہ قبضے کی کوشش کرے اگر ایسا شخص ذمی ہو تو وہ دو وجوہ سے قتل کا سزا وار قرار پائے گا۔ ایک تو یہ کہ ظاہر آیت اس کے وجوب قتل کا مقتضی ہے اور دوسری یہ کہ اس نے ایک مسلمان کے مال کو ظلماً ہتھیانے کی کوشش کی تھیں۔- جزیہ کے وجوب کا وقت - قول باری ہے (قاتلوا الذین لایومنون باللہ) تا قول باری (حتی یعطوا الجزیۃ عن ید وھو صاغرون) اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ قتال کو واجب کردیا اور جزیہ کی ادائیگی کے وقت کو ان سے رفع قتال کی غایت مقرر کی۔ اس لئے کہ حرف حتیٰ غایت کے معنی ادا کرتا ہے یہی اس لفظ کے حقیقی معنی ہیں اور اس کے ظاہر سے یہی مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قول باری (ولا تقربوھن حتیٰ یطھرن جب تک یہ پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جائو) میں ان سے قربت کی اباحت پر پابندی لگادی گئی ہے یہاں تک کہ حیض کا انقطاع ہوجائے اور طہر وجود میں آجائے۔ اسی طرح کہنے والے کے اس قول سے کہ ” لاتعطزیدا شیئاً حتیٰ یدخل الدار (زید کو اس وقت تک کوئی چیز نہ دو جب تک وہ گھر میں داخل نہ ہوجائے) یہی مفہوم حاصل ہوتا ہے کہ جب تک وہ گھر میں داخل نہ ہوجائے اس وقت تک اسے کوئی چیز دینے کی ممانعت ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت اہل کتاب کے ساتھ قتال کی موجب ہے اور یہ حکم جزیہ کی ادائیگی پر جاکر ختم ہوتا ہے۔ یہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ عقد ذمہ کے ساتھ جزیہ واجب ہوجاتا ہے۔- ابو الحسن کرخی آیت کی تفسیر میں یہی بات کہتے تھے۔ ابن سماعہ نے امام ابو یوسف سے نقل کیا ہے کہ ذمی سے اس وقت تک جزیہ وصول نہیں کیا جائے گا جب تک سال داخل نہ ہوجائے او اس کے دو ماہ نہ گزر جائیں، دو ماہ گزرجانے کے بعد اس سے دو ماہ کا جزیہ وصول کرلیا جائے گا اور اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ دوسرے الفاظ میں جزیہ کی وصولی میں وہی طریق کار اختیار کیا جائے گا جو ٹکس کی وصولی میں کیا جاتا ہے کہ جب دو ماہ گزرجاتے ہیں تو اس سے دو ماہ کا ٹیکس وصول کرلیا جاتا ہے ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ضریبہ یعنی ٹیکس سے مراد اجرت ہے جو اجارہ کی صورتوں میں مقرر کی جاتی ہے۔ امام ابو یوسف کا قول ہے کہ سال کے دخول پر اس سے پورا جزیہ نہیں لیا جائے گا یہاں تک کہ سال کا اختتام ہوجائے - لیکن سال کے دوران جزیہ کی وصولی میں یہ طریق کار اختیار کیا جائے گا ۔ یعنی ہر دو ماہ بعد اس کے بقدر جزیہ وصول کرلیا جائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ امام ابو یوسف نے دو ماہ کا ذکر جزیہ کی پوری وصولی کے لئے کیا ہے۔ اس پر جزیہ کا وجوب تو اس وقت سے ہوجاتا ہے جب ہم اسے عقد ذمہ پر برقرار کردیتے ہیں جیسا کہ ظاہر آیت اسی مفہوم کو متضمن ہے۔ ابن سماعہ نے امام ایو یوسف سے اور انہوں نے امام ابوحنیفہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ ذمی سے اس کے سرکا خراج یعنی جزیہ سال کے دوران وصول کیا جائے گا جب تک سال کے دوران اس کا وجود رہے گا۔ لیکن جب سال گزرجائے گا تو اس سے یہ وصول نہیں کیا جائے گا۔ امام ابوحنیفہ کا یہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے عقد ذمہ کے انعقاد کے ساتھ ہی جزیہ کو واجب قرار دیا ہے سال کے بعض حصے تک اس کی تاخیر صرف واجب مقدار کی پوری وصولی کے لئے ہے اور اس کے ذریعے وصولی کا دائرہ ذرا وسیع کردیا گیا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ امام ابوحنیفہ نے یہ فرمایا ہے کہ جب سال گزر جائے گا تو اس سے جزیہ نہیں لیا جائے گا۔ اس لئے کہ دوسرے سال کے دخول کے ساتھ اس پر دوسرا جزیہ واجب ہوجائے گا۔ جب اس پر جزیہ کی دو قسمیں اکٹھی ہوجائیں گی تو ایک جزیہ ساقط ہوجائے گا۔ تاہم امام ابو یوسف اور امام محمد سے منقول ہے کہ جزیہ کی دو رقموں کا اکٹھا ہوجانا ایک جزیہ کو ساقط نہیں کرے گا۔- امام ابوحنیفہ (رض) کے قول کی توجیہ یہ ہے کہ جزیہ کا وجوب سزا کے طور پر ہوتا ہے اس سزا کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جزیہ دینے والے اپنے کفر پر قائم رہتے ہیں جس کی بنا پر وہ اس بات کے سزاوار ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ جنگ کی جائے لیکن جزیہ کے وجوب کی بنا پر ان سے جنگ نہیں کی جاتی۔ جزیہ وصول کرنے کا حق امام کو ہوتا ہے اس لئے جزیہ حدود کے مشابہ ہوگیا کیونکہ حدود کا وجوب بھی سزا کے طور پر ہوتا ہے اور انہیں نافذ کرنا امام کا حق ہوتا ہے۔ جب ایک ہی قسم کے جرم کی بنا پر کئی حدود جمع ہوجائیں تو پھر صرف ایک ہی حد جاری کرنے پر اقتصار کرلیاجاتا ہے مثلاً ایک شخص کئی دفعہ زنا کرتا ہے یا کئی دفعہ چوری کرتا ہے پھر اس کا معاملہ امام المسلمین کے سامنے پیش ہوتا ہے تو اس صورت میں اس کی تمام چوریوں کے بدلے ایک ہی حد واجب ہوتی ہے۔ یہی زنا کی صورت میں بھی ہوتا ہے جزیہ بھی اسی طرح سزا کے طور پر واجب ہوتا ہے بلکہ اس کا معاملہ حدود کی بہ نسبت زیادہ تنصیف اور زیادہ کمزور ہوتا ہے۔ کیونکہ ہمارے اصحاب کے درمیان اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر ذمی مسلمان ہوجائے تو جزیہ ساقط ہوجاتا ہے لیکن واجب شدہ حد مسلمان ہوجانے پر ساقط نہیں ہوتی۔- اگر یہ کہا جائے کہ جب جزیہ ایک قرض ہوتا ہے اور اس مال پر مسلمانوں کا حق ہوتا ہے تو پھر جزیہ کی دو رقموں کا اکٹھا ہوجانا ایک جزیہ کو ساقط نہیں کرے گا جس طرح ایک شخص پر کئی قرضوں کا اکٹھا ہوجانا یا اراضی پر خراج کی کئی رقموں کا اکٹھا ہوجانا ان میں سے کسی قرض یا خراج کی رقم کے سقوط کا سبب نہیں بن سکتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اراضی کا خراج سزا یا ذلت کے طور پر واجب نہیں ہوتا اس کی دلیل یہ ہے کہ خراج مسلمانوں سے بھی وصول کیا جاتا ہے جبکہ جزیہ مسلمانوں سے وصول نہیں کیا جاتا۔ امام ابوحنیفہ کے قول کے مماثل طائوس سے بھی ایک قول مروی ہے۔ ابن جریج نے سلیمان الاحول سے اور انہوں نے طائوس سے روایت کی ہے کہ جب کئی صدقات یعنی زکوٰۃ کا اجتماع ہوجائے تو جزیہ کی طرح پہلی زکوٰۃ وصول نہیں کی جائے گی۔- ذمی کے مسلمان ہونے پر عائد شدہ جزیہ کے بارے میں آراء - اگر کسی ذمی پر جزیہ واجب ہوجائے اور وہ اس کی ادائیگی سے پہلے مسلمان ہوجائے تو آیا اس سے واجب شدہ جزیہ کی وصولی کی جائے گی یا نہیں ؟ اس بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ وصولی نہیں کی جائے گی، امام مالک اور عبید اللہ بن الحسن کا بھی یہی قول ہے۔ قاضی ابن شبہ اور امام شافعی کا قول ہے کہ اگر وہ سال کے کسی حصے میں مسلمان ہوجاے تو اتنے حصے کا جزیہ حسار کرکے وصول کرلیا جائے گا۔ اسلام لانا واجب شدہ جزیہ کو ساقط کردیتا ہے اس کی دلیل یہ قول باری ہے (قاتلوا الذین لایومنون باللہ) تا قول باری (حتی یعطوا الجزیۃ عن یدوھم صاغرون) یہ آیت ہمارے قول کی صحت پر دو طرح سے دلالت کررہی ہے اول یہ کہ ایسے لوگوں سے جزیہ لینے کا حکم دیا گیا ہے جن کے ساتھ قتال ان کے کفر پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے واجب ہے اگر وہ جزیہ ادا نہ کریں لیکن جب ایسا شخص اسلام لے آئے تو اس کے ساتھ قتال واجب نہیں ہوگا اس لئے اس پر جزیہ بھی واجب نہیں ہوگا۔ دوم یہ کہ قول باری ہے (عن ید وھم صاغرون) اس میں ایسے لوگوں سے انہیں ذلیل اور رسوا کرنے کی خاطر جزیہ کی وصولی کا حکم دیا گیا ہے لیکن اسلام لے آنے کے بعد یہ بات ختم ہوجاتی ہے کیونکہ اس ذلت اور رسوائی کی عدم موجودگی کی صورت میں ان سے جزیہ لینا کسی طرح ممکن نہیں ہے اور اگر ہم ان باتوں کی غیر موجودگی میں ان سے جزیہ لیں گے تو وہ جزیہ نہیں کہلائے گا اس لئے کہ جزیہ تو وہ ہوتا ہے جو ذلت و رسوائی کی بنا پر وصول کیا جاتا ہے۔ سفیان ثوری نے قابوس بن ابی ظبیان سے ، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لیس علی مسلم جزیۃ کسی مسلمان پر جزیہ عائد نہیں ہوتا) آپ نے مسلمان سے جزیہ کی وصولی کی نفی فرمادی۔ آپ نے حالت کفر میں واجب ہونے والے جزیہ اور اسلام لانے کے بعد واجب نہ ہونے والے جزیہ کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ اس حدیث کے ظاہر معنی کے رو سے اسلام لانے کے بعد ایسے شخص سے جزیہ کا استقاط واجب ہوگیا۔ اس کے سقوط پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ جزیہ اور جزاء یعنی سزا دونوں ہم معنی الفاظ ہیں جس کے معنی ہیں کہ ایسے شخص کے کفر پر قائم رہنے کی سزا جس کے ساتھ قتال واجب ہوتا ہے۔ اس لئے جب ایسا شخص مسلمان ہوجائے گا تو اسلام لانے کی وجہ سے اس سے کفر کی بنا پر ملنے والی سزا کا سقوط ہوجائے گا۔ اس لئے کہ توبہ کرلینے والے کو ایسی حالت میں سزا دینا جائز نہیں ہوتا جب توبہ کرلینے کے بعد اسے زندگی کی مہلت مل گئی ہو اور اس کے مکلف ہونے کی صورت باقی رہ گئی ہو۔- اسی امر کے اعتبار کی بنا پر ہمارے اصحاب نے موت کی صورت میں ذمی سے جزیہ ساقط کردیا ہے اس لئے کہ ذمی کی موت کے بعد ذلت و رسوائی کے طور پر اس سے جزیہ لینے کا موقعہ باقی نہیں رہا۔ اس لئے اس کی موت کے بعد اس سے لی ہوئی چیز جزیہ نہیں کہلائے گی۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کسی مسلمان پر اس کے مال اور مویشیوں میں زکوٰۃ واجب ہوجائے اور وہ اس کی ادائیگی سے پہلے وفات پاجائے تو زکوٰۃ ساقط ہوجائے گی اور امام المسلمین اس زکوٰۃ کی وصولی نہیں کرے گا اس لئے کہ زکوٰۃ کی وصولی اور اس کے وجوب کا سارا عمل اصلاً عبادت کی بنیاد پر ہوتا ہے اور موت کے ساتھ عباد ت کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے۔ ہمارے اصحاب کا یہ بھی قول ہے کہ جس شخص پر قاضی کی طرف سے اس کی بیوی کا نان و نفقہ واجب کردیا جائے اور پھر اس کی یا اس کی بیوی کی وفات ہوجائے تو واجب شدہ رقم ساقط ہوجائے گی اس لئے کہ ہمارے اصحاب کے نزدیک نفقہ کا وجوب تعلق زن وشو کے وجوب کی بنا پر ہوتا ہے کیونکہ یہ نفقہ کسی چیز کا بدل نہیں ہوتا اور ظاہر ہے کہ موت کے بعد تعلق زن وشو باقی نہیں رہتا، اس لئے ہمارے اصحاب نے اسی علت کے پیش نظر نفقہ کو ساقط کردیا۔- اگر یہ کہا جائے کہ حدود کا وجوب عقوبت اور سزا کے طور پر ہوتا ہے اور توبہ حدود کو ساقط نہیں کرتی۔ اسی طرح اگر کوئی ایسا ذمی مسلمان ہوجائے جس نے کفر کی حالت میں زنا یا چوری کا ارتکاب کیا ہو تو اس کا مسلمان ہوجانا نیز اس کا توبہ کرلینا اس پر واجب شدہ حد کے اسقاط کا سبب نہیں بن سکتا۔ اگرچہ حد کا وجوب اصلاً سزا کے طور پر ہوا تھا۔ اور توبہ کرلینے والا شخص اس فعل پر سزا کا مستحق نہیں ہوتا جس سے اس نے درست طریقے سے توبہ کرلی ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس پر سزا کے طور پر جو حد واجب ہوئی تھی وہ تو توبہ کی بنا پر ساقط ہوگئی۔ توبہ کے بعد ہم اس پر جو حد واجب کرتے ہیں یہ وہ حد نہیں ہے جس کا وہ سزا کے طور پر سزاوار ہوا تھا بلکہ یہ وہ حد ہے جو اس پر ابتلاء اور آزمائش کے طور پر واجب ہوئی ہے۔ اس کا وجوب اس دلالت کی بنا پر ہوا ہے جو اس سلسلے میں قائم ہوئی ہے اور جو اس دلالت سے مختلف ہے جو پہلی حد کو سزا کے طور پ واجب کرتی تھی۔- اگر کوئی ایسی دلالت قائم ہوجائے جو ذمی کے مسلمان ہوجانے کے بعد اس سے جزیہ اور عقوبت کے سوا کسی اور وجہ کی بنا پر مال کی وصولی کو واجب کرتی ہو تو ہم اسے تسلیم کرلیں گے اور اس کے ایجاب سے انکار نہیں کریں گے۔ البتہ اتنی بات ضرور ہوگی کہ اس سے وصول کیا ہوا یہ مال جزیہ نہیں کہلائے گا اس لئے کہ جزیہ کا اسم سزا اور عقوبت کے معنی کو متضمن ہے جبکہ معترض کا دعویٰ یہ ہے کہ ایسے ذمی کے مسلمان ہوجانے کے بعد اس سے جزیہ ہی وصول کیا جاتا ہے۔ اگر معترض اس امر کا اعتراف کرلیتا ہے کہ ایسے ذمی سے لیا ہوا مال جزیہ کے سوا کوئی اور چیز ہے نیز جزیہ اس پر واجب ہوا تھا جو اب ساقط ہوگیا اور اس پر جزیہ کے سوا کوئی اور مال واجب ہوگیا تو معترض ہی وہ واحد شخص ہوگا جو ہمیں کسی مسلمان پر ایسے مال کے ایجاب کی خبر دے گا جو اس پر بلا کسی ایسے سبب کے واجب ہوگیا ہو جس ک ایجاب کا وہ سرے سے مقتضی نہ ہو۔ معترض کی یہ بات ایسی ہے جسے ہم کبھی تسلیم نہیں کرسکتے۔- المسعودی نے محمد بن عبداللہ الثقفی سے روایت کی ہے کہ ایک دہقان (گائوں کا چودھری) مسلمان ہوگیا اور حضرت علی (رض) کے سامنے پیش ہوگیا۔ آپ نے اس سے یہ فرمایا کہ اب تم پر جزیہ عائد نہیں ہوگا۔ رہی تمہاری زمین تو وہ ہماری ہوگی۔ دوسرے الفاظ میں اگر تم اپنی زمین چھوڑ جائو گے تو اس زمین کے ہم زیادہ حق دار ہوں گے۔ معمر نے ایوب سے اور انہوں نے محمد سے روایت کی ہے کہ ایک شخص مسلمان ہوگیا اس سے خراج یعنی جزیہ کا مطالبہ کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ تم نے اسلام کے ذریعے جزیہ کی ادائیگی سے پناہ حاصل کی ہے۔ اس نے جواب میں کہا کہ اگر میں اسلام لے آیا ہوں تو مجھے اسلام میں پناہ ملنی چاہیے۔ یہ سن کر حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ” بخدا تم بالکل ٹھیک کہتے ہو، اسلام لانے والے کے لئے اسلام میں پناہ موجود ہے۔ “ پھر آپ نے اس سے جزیہ ہٹالیا۔ حماد بن سلمہ نے حمید سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے عمال کو یہ تحریری حکم نامہ بھیجا تھا کہ جو شخص ہماری طرح کلمہ طیبہ پڑھ لے، ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھے اور ختنہ کرائے، اس سے جزیہ وصول نہ کرو۔ ان حضرات سلف نے اسلام لانے سے قبل واجب شدہ جزیہ اور اسلام لانے کے بعد ہر مسلمان سے جزیہ کی نفی کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔- آل مروان کا ذمیو پر ظلم - آل مروان ایک ذمی کے مسلمان ہوجانے کے بعد بھی اس سے جزیہ وصول کرتے تھے۔ انہوں نے اس کی تاویل یہ کی تھی جزیہ کی حیثیت غلام پر لگنے والے ٹیکس کی طرح ہے اور غلام کے مسلمان ہوجانے پر اس پر عائد شدہ ٹیکس معاف نہیں ہوتا اسی طرح ذمی پر اس کے مسلمان ہوجانے کے بعد عائد شدہ جزیہ معاف نہیں ہوگا۔ آل مروان نے مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ڈھائے تھے اور اسلام کے ایک ایک بندھن کو جس طرح توڑا تھا اس کے پہلو بہ پہلوان کا یہ بھی ایک عظیم جرم تھا جس کا ارتکاب انہوں نے مسلمان ہوجانے والے ذمیوں سے جزیہ وصول کرنے کی صورت میں کیا تھا حتیٰ کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز تخت خلافت پر متمکن ہوگئے۔ آپ نے عراق میں اپنے عامل اور صوبہ دار عبدالحمید بن عبدالرحمن کو یہ حکمنامہ تحریر کیا۔- ” اما بعد، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو داعی بناکر بھیجا تھا۔ جزیہ وصول کرنے والا بناکر نہیں بھیجا تھا۔ تمہیں میرا یہ خط جس وقت مل جائے اس کے فوراً بعد ان تمام ذمیوں سے جزئہ ہٹالو جو مسلمان ہوچکے ہیں۔ “ پھر جب ہشام بن عبدالملک خلیفہ بنا تو اس نے مسلمانوں پر دوبارہ جزیہ عائد کردیا، اس زمانے کے فقہاء اور قراء نے عبدالملک بن مروان اور حجاج کے خلاف جنگ کے جواز کا جو فتویٰ دیا تھا اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہی تھا کہ یہ حکمران مسلمانوں سے جزیہ وصول کرتیت تھے پھر یہی چیز ان کی حکومت کے زوال اور ان کی نعمت چھن جانے کا دیگر اسباب کے ساتھ ایک سبب بن گئی۔- عبداللہ بن صالح نے روایت بیان کی ہے، انہیں حرملہ بن عمران نے یزید بن ابی حبیب سے کہ اس امت پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد تین عظیم ترین افتادیں آئیں۔ ایک تو مسلمانوں کے ہاتھوں حضرت عثمان (رض) کا قتل، دوم مسلمانوں کے ہاتھوں کعبہ مکرمہ کو آگ لگ جانے کا سانحہ اور سوم مسلمان حکمرانوں کے ہاتھوں مسلمانوں سے جزیہ کی وصولی ۔ آل مروان کا یہ کہنا کہ جزیہ کی حیثیت غلام پر عائد شدہ ٹیکس جیسی ہے، تو ان کی جہالت کی یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے اس لئے کہ وہ اسلام کے ان امور سے بھی جاہل تھے جو اس جزیہ کے مسئلے سے کہیں زیادہ اہم تھے۔ انہیں اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ ذمیوں کی حیثیت غلاموں جیسی نہیں تھی، اگر ذمی غلام ہوتے تو مسلمان ہونے کی بنا پر ان کی غلامی زائل نہ ہوتی اس لئے کہ غلام کا مسلمان ہوجانا اس سے غلامی کو دور نہیں کرتا۔ جبکہ جزیہ ایک سزا اور عقوبت ہے جو انہیں کفر پر اڑے رہنے کی وجہ سے دی جاتی ہے لیکن جب یہ مسلمان ہوجائیں تو انہیں جزیہ کی وصولی کی صورت میں یہ سزا دینا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ عیسائی غلام سے جزیہ وصول نہیں کیا جاتا۔ اگر ذمی غلام ہوتے تو مسلمان ہونے کی بنا پر ان کی غلامی زائل نہ ہوتی اس لئے کہ غلام کا مسلمان ہوجانا اس سے غلامی کو دور نہیں کرتا۔ جبکہ جزیہ ایک سزا اور عقوبت ہے جو انہیں کفر پر اڑے رہنے کی وجہ سے دی جاتی ہے لیکن جب یہ مسلمان ہوجائیں تو انہیں جزیہ کی وصولی کی صورت میں یہ سزا دینا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ عیسائی غلام سے جزیہ وصول نہیں کیا جاتا۔ اگر ذمی غلام ہوتے تو ان سے ہرگز جزیہ وصول نہ کیا جاتا۔- آیا اراضی پر عائد ہونے والا خراج جزیہ ہے ؟- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اراضی پر عائد شدہ خراج کے متعلق اہل علم کا یہ اختلاف ہے کہ آیا جزیہ کی طرح یہ بھی صنعار یعنی ذلت اور رسوائی پر مبنی ہے اور آیا ایک مسلمان کے لئے خراجی زمین کی ملکیت حاصل کرنا مکروہ ہے ؟ حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت ابن عمر (رض) اور تابعین کی ایک جماعت سے اس کی کراہت مروی ہے۔ ان حضرات نے خراج کو جزیہ کی آیت میں داخل سمجھا ہے۔ حسن بن حی اور شریک کا بھی یہی قول ہے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ جزیہ انسانوں کا خراج ہے اس لئے کسی مسلمان کے لئے خراجی زمین کی ملکیت میں کوئی کراہت نہیں ہے اور نہ ہی اس میں صنعار یعنی ذلت کا مفہوم شامل ہے۔ ہمارے اصحاب اور قاضی ابن ابی لیلیٰ کا یہی قول ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے بھی ایک روایت ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ مکروہ نہیں ہے۔- شعبہ نے اعمش سے اس کی روایت کی ہے انہوں نے سمر بن عطیہ سے ، انہوں نے قبیلہ طے کے ایک شخص سے ، اس نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لاتتخذوا الضیعۃ قترغبوا فی الدنیا۔ زرعی زمینوں کی جائیدادیں نہ بنائو ورنہ پھر تمہیں دنیا سے رغبت پیدا ہوجائے گی) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کہا کرتے تھے کہ ” راذان کے علاقے میں جو زمین ہے وہ راذان میں ہے اور مدینہ میں جو ہے وہ مدینہ میں ہے۔ “ یعنی رازان میں بھی آپ کی زمین تھی اور مدینہ منورہ میں بھی، یہ تو سب کو معلوم ہے کہ رازان کی زمین خراجی زمین تھی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے خراجی زمین کی ملکیت کو مکروہ نہیں سمجھا۔ حضرت عمر (رض) سے نرشاہی کے علاقے میں آباد ایک چودھرائن کے بارے میں روایت ہے کہ جب وہ مسلمان ہوگئی تو آپ نے اپنے عامل کو لکھا کہ اگر وہ اپنی زمینوں پر حسب سابق رہنا چاہے گی تو ہم اس سے خراج وصول کریں گے۔ ایک روایت کے مطابق ابن الرفیل مسلمان ہوگیا۔ حضرت عمر (رض) نے اس سے بھی یہی بات کہی تھی۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ ایک زمیندار مسلمان ہوگیا تھا۔ آپ نے اس سے کہا کہ اگر تم اپنی زمین پر حسب سابق رہنا چاہو گے تو ہم تم سے خراج وصول کریں گے اور اگر نہیں تو پھر ہم اس زمین کے زیادہ مستحق ہوں گے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) اور حضرت سعید بن زید سے بھی اسی طرح کی روایت ہے۔- سہیل بن ابی صالح نے اپنے واحد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (صنعت العراق قفیرھا ودرھمھا دمنعت الشام مداھا ودینارھا و منعت مصراز ربھا وعدتم کما بدأتم۔ اہل عراق نے ان پر واجب ہونے والا حق یعنی قفیز (غلہ ناپنے کا آلہ) اور درہم کی ادائیگی روک دی اہل شام نے مد (غلہ ناپنے کا پیمانہ) اور دینار کی ادائیگی روک دی۔ اور اہل مصر نے اپنے اروب (ایک پیمانہ جس میں چوبیس صاع غلہ آتا ہے) کی ادائیگی روک دی اور اللہ کا حق ادا نہ کرنے کی طرف تم اسی طرح لوٹ آئے ہو جس طرح تم نے ابتدا کی تھی) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فقرات تین دفعہ ارشاد فرمائے، حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میرا گوشت اور میرا خون اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی کچھ ارشاد فرمایا۔ یہ روایت دو وجوہ سے اس پر دلالت کرتی ہے کہ زمین کا خراج ذلت اور رسوائی نہیں ہے۔- ایک تو یہ کہ آپ نے مسلمانوں کے لئے ایسی خراجی زمین کی ملکیت کو ناپسند نہیں فرمایا جس پر ایک قفیز مع ایک درہم خراج عائد کیا جاتا تھا اگر اس کی ملکیت مکروہ ہوتی تو آپ اس کا ضرور ذکر کردیتے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ نے اس بات کی اطلاع دے دی کہ لوگ اللہ کا وہ حق ادا نہیں کریں گے جو ان پر اسلام کی بنا پر فرض ہوا ہے۔ آپ کے ارشاد عدتم کما بداتم کا یہی مفہوم ہے۔ یعنی اللہ کا حق ادا نہ کرنے کی طرف تم اسی طرح لوٹ آئے ہو جس طرح تم نے ابتدا کی تھی۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ خراج بھی ان حقوق میں شامل ہے جو اللہ کے لئے لازم ہیں جس طرح زکوٰۃ اور کفارہ وغیرہ کی صورتیں اللہ کے حقوق میں شامل ہیں اس حق کا لزوم ذلت اور رسوائی کی بنا پر نہیں ہے۔ نیز اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ اسلام لے آنا سروں کا جز یہ یعنی انسانوں سے تعلق رکھنے والے جزیے کو ساقط کردیتا ہے لیکن زمین کے جزیے یعنی خراج کو ساقط نہیں کرتا۔ اگر خراج رسوائی کی علامت ہوتا تو اس کے مالک کا مسلمان ہوجانا اسے ساقط کردیتا۔- اگر یہ کہا جائے کہ اراضی کا خراج فی ہوتا ہے اور جزیہ بھی فی ہوتا ہے۔ جب جزیہ ذلت اور رسوائی ہے تو اس سے ضروری ہوگیا کہ خراج کو بھی ذلت اور رسوائی شمار کیا جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بات اس طرح نہیں ہے اس لئے کہ جو مال فی ہوتا ہے اس کا ایک حصہ یعنی پانچ میں سے چار حصے جنگ میں شریک مجاہدین کو دے دیا جاتا ہے اور ایک حصہ یعنی پانچواں حصہ فقراء اور مساکین کے لئے مختص کردیا جاتا ہے۔ معترض نے جو نکتہ اٹھایا ہے اس کا تعلق اس مصرف پر گفتگو سے ہے جس میں فی کو صرف کیا جاتا ہے لیکن اس سے یہ ضروری نہیں کہ خراج ذلت اور رسوائی کی علامت بن جائے اس لئے کہ صغار یاذلت اس فے میں ہوتی ہے جس کی ابتدا وہ شخص کرتا ہے یعنی ذمی جس پر فی واجب ہوتا ہے لیکن اگر زمین پر کوئی فی واجب ہوجائے اور پھر مسلمان اس زمین کا مالک بن جائے تو اس کی ملکیت اس زمین پر عائد شدہ حق کو زائل نہیں کرتی۔ اس لئے کہ اس حق کا وجوب اس کی ملکیت میں آنے سے پہلے ہوچکا تھا۔ واجب ہونے وال یہ حق ایسا ہے کہ اس کا تعلق تمام مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ جزیہ فی ہونے کی حیثیت سے ذلت کی علامت نہیں ہے بلکہ عقوبت اور سزا ہونے کی حیثیت سے رسوائی کی علامت ہے جبکہ زمین کا خراج عقوبت کے طور پر لازم نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ بچے اور دیوانے کی زمین پر خراج عائد ہوجاتا ہے لیکن ان دونوں سے جزیہ وصول نہی کیا جاتا اس لئے کہ جزیہ عقوبت اور سزا ہے جبکہ زمین پر عائد ہونے والا خراج سزا نہیں ہے۔- ایک اعتراض کا جواب - اگر کو یء ملحدیہ اعتراض کرے کہ کافروں کو مسلمان بنانے کی بجائے جزیہ لے کر انہیں کفر پر برقرار رہنے دینا کس طرح جائز ہوگیا تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان سے جزیہ کی وصولی اس بات کی علامت نہیں ہے کہ ہم ان کی اس کفر والی حالت پر خوش ہیں یا ہماری طرف سے ان کے مشرکانہ عقائد کی اباحت ہوگئی ہے اور ہم نے ان عقائد کو درست سمجھ لیا ہے بلکہ جزیہ تو ایک سزا ہے جو انہیں ان کے کفر کی بنا پر مل رہی ہے۔ جزیہ لے کر انہیں ان کے کفر پر قائم رہنے دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ ہم جزیہ لیے بغیر انہیں اس پر قائم رہنے دیتے۔ اس لئے کہ اتنی بڑی تعداد پر قتل کا حکم عائد کردینا عقل کے خلاف ہے۔ اگر قتل کردینے کی بات درست ہوتی تو پھر اللہ تعالیٰ ایک بھی کافر کو ایک ساعت کے لئے زندہ رہنے نہ دیتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی مقرر کردہ سزا (جزیہ کی ادائیگی) بھگتنے کے لئے زندہ رکھا ہے اور زندہ رکھ کر انہیں گویا کفر سے توبہ کرنے کی دعوت دی ہے نیز ایمان کی طرف مائل ہونے کا موقع فراہم کردیا ہے تو اب جزیہ کے ذریعے انہیں مہلت دینے کا عمل عقلی طور پر متمنع نہیں ہوا۔- اس لئے کہ اللہ کے علم میں یہ بات تھی کہ ان میں سے بہت سے لوگ ایمان لے آئیں گے اور اگر ان میں سے بعض دوسرے ایمان نہیں لاتے تو ان کی نسل میں ایمان لانے والے پیدا ہوں گے۔ اس طرح جزیہ لے کر انہیں مہلت دینے کے عمل میں خود ان کا عظیم تر مفاد پوشیدہ تھا۔ دوسری طرف جزیہ کی رقم سے مسلمانوں کی معیشت سدھر جاتی اور نہیں خوشحالی نصیب ہوتی۔ اس لئے جزیہ لے کر انہیں کفر پر برقرار رکھنا یا جزیہ لئے بغیر بھی انہیں قتل نہ کرنا اس بات کی علامت نہیں قرار دی جاسکتی کہ ہم ان کی کفر والی حالت سے خوش ہیں یا ان کے مشرکانہ عقائد کی اباحت ہوگئی ہے۔ ٹھیک اسی طرح عقلی طور پر یہ بات بھی جائز ہے کہ جزیہ لے کر انہیں کفر پر برقرار رکھنا یا جزیہ لئے بغیر بھی انہیں قتل نہ کرنا اس بات کی علامت نہیں قرار دی جاسکتی کہ ہم ان کی کفر والی حالت سے خوش ہیں یا ان کے مشرکانہ عقائد کی اباحت ہوگئی ہے۔ ٹھیک اسی طرح عقلی طور پر یہ بات بھی جائز ہے کہ جزیہ لے کر انہیں مہلت دے دی جائے۔ اس مہلت میں کم از کم اتنی بات تو ضرور ہوتی ہے کہ ان کے کفر کی سزا کا ایک حصہ فوری طور پر انہیں اسی دنیا میں مل جاتا ہے اور یہ سزا وہ ذلت اور رسوائی ہے جو جزیہ ادا کرنے کی بنا پر انہیں اٹھانی پڑتی ہے۔
(٢٩) اور جو جنت کی نعمتوں پر بھی ایمان نہیں رکھتے اور توریت میں جن چیزوں کو حرام کردیا گیا ہے ان کو حرام نہیں سمجھتے اور نہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کی توحید کے قائل ہو کر جھکتے ہیں اب اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں، وہ یہود و نصاری ہیں ان لوگوں سے اس وقت تک جہاد کرو جب تک کہ وہ ماتحت اور رعیت بن کر جزیہ دینا منظور نہ کرلیں۔
آیت ٢٩ (قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَلا بالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلاَ یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوْنَ )- اس آیت میں بھی دین کا بہت اہم فلسفہ بیان ہوا ہے۔ اس حکم میں مشرکین عرب اور نسل انسانی کے باقی لوگوں کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ سورة التوبہ کی آیت ٥ کی رو سے مشرکین عرب کو جو مہلت یا امان دی گئی تھی اس مدت کے گزرنے کے بعد ان کے لیے تو کوئی اور راستہ ( ) اس کے علاوہ نہیں تھا کہ یا وہ ایمان لے آئیں یا انہیں قتل کردیا جائے گا ‘ یا وہ جزیرہ نمائے عرب چھوڑ کر چلے جائیں۔ ان کا معاملہ تو اس لیے خصوصی تھا کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے رسول کی حیثیت سے ان پر آخری درجہ میں اتمام حجت کردیا تھا ‘ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کر کے وہ لوگ عذاب استیصال کے حق دار ہوچکے تھے۔ مگر یہود و نصاریٰ اور باقی پوری نوع انسانی کے لیے اس ضمن میں قانون مختلف ہے۔ جزیرہ نمائے عرب سے باہر کے لوگوں کے لیے اور قیامت تک تمام دنیا کے انسانوں کے لیے وہ چیلنج نہیں کہ ایمان لاؤ ورنہ قتل کردیے جاؤ گے۔ کیونکہ اس کے بعد اب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بحیثیت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معنوی طور پر تو موجود ہیں مگر بنفس نفیس موجود نہیں ‘ کہ براہ راست کوئی قوم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو رد کر کے عذاب استیصال کی مستحق ہوجائے۔ چناچہ باقی تمام نوع انسانی کے افراد کا معاملہ یہ ہے کہ ان سے قتال کیا جائے گا ‘ یہاں تک کہ وہ دین کی بالادستی کو بحیثیت ایک نظام کے قبول کرلیں ‘ مگر انفرادی طور پر کسی کو قبول اسلام کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا۔ ہر کوئی اپنے مذہب پر کاربند رہتے ہوئے اسلامی ریاست کے ایک شہری کے طور پر رہ سکتا ہے ‘ مگر ایسی صورت حال میں غیر مسلموں کو جزیہ دینا ہوگا۔ اسی فلسفے کے تحت خلافت راشدہ کے دور میں کسی بھی ملک پر لشکر کشی کرنے سے پہلے تین شرائط پیش کی جاتی تھیں۔ پہلی یہ کہ ایمان لے آؤ ‘ ایسی صورت میں تم ہمارے برابر کے شہری ہو گے۔ اگر یہ قبول نہ ہو تو اللہ کے دین کی بالا دستی قبول کر کے اسلامی ریاست کے فرمانبردار شہری بن کر رہنا اور جزیہ دینا قبول کرلو۔ ایسی صورت میں تم لوگوں کو آزادی ہوگی کہ تم یہودی ‘ عیسائی ‘ مجوسی ‘ ہندو وغیرہ جو چاہو بن کر رہو۔ لیکن اگر یہ بھی قابل قبول نہ ہو اور تم لوگ اس زمین پر باطل کا نظام قائم رکھنا چاہو تو پھر اس کا فیصلہ جنگ سے ہوگا۔
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :26 ”اگرچہ اہل کتاب خدا اور آخرت پر ایمان رکھنے کے مدعی ہیں لیکن فی الواقع نہ وہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں نہ آخرت پر ۔ خدا پر ایمان رکھنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آدمی بس اس بات کو مان لے کہ خدا ہے ، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی خدا کو الٰہ واحد اور رب واحد تسلیم کرے اور اس کی ذات ، اس کی صفات ، اس کے حقوق اور اس کے اختیارات میں نہ خود شریک بنے نہ کسی کو شریک ٹھہرائے ۔ لیکن نصاریٰ اور یہود دونوں اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں ، جیسا کہ بعد والی آیات میں بتصریح بیان کیا گیا ہے ۔ اس لیے ان کا خدا کو ماننا بے معنی ہے اور اسے ہرگز ایمان باللہ نہیں کہا جا سکتا ۔ اسی طرح آخرت کو ماننے کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ آدمی یہ بات مان لے کہ ہم مرنے کے بعد پھر اُٹھائے جائیں گے ، بلکہ اس کے ساتھ یہ ماننا بھی ضروری ہے کہ وہاں کوئی سعی سفارش ، کوئی فدیہ ، اور کسی بزرگ سے منتسب ہونا کام نہ آئے گا اور نہ کوئی کسی کا کفارہ بن سکے گا ، خدا کی عدالت میں بے لاگ انصاف ہو گا اور آدمی کے ایمان و عمل کے سوا کسی چیز کا لحاظ نہ رکھا جائے گا ۔ اس عقیدے کے بغیر آخرت کو ماننا لا حاصل ہے ۔ لیکن یہود و نصاریٰ نے اسی پہلو سے اپنے عقیدے کو خراب کر لیا ہے ۔ لہٰذا ان کا ایمان بالآخرت بھی مسلّم نہیں ہے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :27 یعنی اس شریعت کو اپنا قانون زندگی نہیں بناتے جو اللہ نے اپنے رسول کے ذریعہ سے نازل کی ہے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :28 یعنی لڑائی کی غایت یہ نہیں ہے کہ وہ ایمان لے آئیں اور دین حق کے پیرو بن جائیں ، بلکہ اس کی غایت یہ ہے کہ ان کی خودمختاری و بالادستی ختم ہو جائے ۔ وہ زمین میں حاکم اور صاحب امر بن کر نہ رہیں بلکہ زمین کے نظام زندگی کی باگیں اور فرمانروائی و امامت کے اختیارات متبعین دین حق کے ہاتھوں میں ہوں اور وہ ان کے ماتحت تابع و مطیع بن کر رہیں ۔ جزیہ بدل ہے اس امان اور اس حفاظت کا جو ذمیوں کو اسلامی حکومت میں عطا کی جائے گی ۔ نیز وہ علامت ہے اس امر کی کہ یہ لوگ تابع امر بننے پر راضی ہیں ۔ ” ہاتھ سے جزیہ دینے“ کا مفہوم سیدھی طرح مطیعانہ شان کے ساتھ جزیہ ادا کرنا ہے ۔ اور چھوٹے بن کر رہنے کا مطلب یہ ہے کہ زمین میں بڑے وہ نہ ہوں بلکہ وہ اہل ایمان بڑے ہوں جو خلافتِ الہٰی کا فرض انجام دے رہے ہیں ۔ ابتداء یہ حکم یہود و نصاریٰ کے متعلق دیا گیا تھا ، لیکن آگے چل کر خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجوس سے جزیہ لے کر انہیں ذمی بنایا اور اس کے بعد صحابہ کرام نے بالانفاق بیرون عرب کی تمام قوموں پر اس حکم کو عام کر دیا ۔ یہ جزیہ وہ چیز ہے جس کے لیے بڑی بڑی معذرتیں اُنیسویں صدی عیسوی کے دور مذلت میں مسلمانوں کی طرف سے پیش کی گئی ہیں اور اس دور کی یادگار کچھ لوگ اب بھی موجود ہیں جو صفائی دینے میں لگے ہوئے ہیں ۔ لیکن خدا کا دین اس سے بہت بالا و برتر ہے کہ اسے خدا کے باغیوں کے سامنے معذرت پیش کرنے کی کوئی حاجت ہو ۔ سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ جو لوگ خدا کے دین کو اختیار نہیں کرتے اور اپنی یا دوسروں کی نکالی ہوئی غلط راہوں پر چلتے ہیں وہ حد سے حد بس اتنی ہی آزادی کے مستحق ہیں کہ خود جو غلطی کرنا چاہتے ہیں کریں ، لیکن انہیں اس کا قطعا کوئی حق نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر کسی جگہ بھی اقتدار و فرمانروائی کی باگیں ان کے ہاتھوں میں ہوں اور وہ انسانوں کی اجتماعی زندگی کا نظام اپنی گمراہیوں کے مطابق قائم کریں اور چلائیں ۔ یہ چیز جہاں کہیں ان کو حاصل ہو گی ، فساد رونما ہوگا اور اہل ایمان کا فرض ہوگا کہ ان کو اس سے بے دخل کرنے اور انہیں نظام صالح کا مطیع بنانے کی کوشش کریں ۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ جزیہ آخر کس چیز کی قیمت ہے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اس آزادی کی قیمت ہے جو انہیں اسلامی اقتدار کے تحت اپنی گمراہیوں پر قائم رہنے کے لیے دی جاتی ہے ، اور اس قیمت کو اس صالح نظام حکومت کے نظم و نسق پر صَرف ہونا چاہیے جو انہیں اس آزادی کے استعمال کی اجازت دیتا ہے اور ان کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے ۔ اور اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ جزیہ ادا کرتے وقت ہر سال ذمیوں میں یہ احساس تازہ ہوتا رہے گا کہ خدا کی راہ میں زکوٰۃ دینے کے شرف سے محرومی اور اس کے بجائے گمراہیوں پر قائم رہنے کی قیمت ادا کرنا کتنی بڑی بد قسمتی ہے جس میں وہ مبتلا ہیں ۔
25: اس سے اوپر کی اٹھائیس آیات عرب کے بت پرستوں کے بارے میں تھیں۔ اور یہاں سے وہ آیات شروع ہورہی ہیں جو غزوہ تبوک کے بارے میں نازل ہوئی ہیں (الدر المثور بحوالہ مجاہد ج :۴ص : ۱۵۳) اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیتیں اوپر کی اٹھائیس آیتوں سے پہلے نازل ہوئی تھیں، کیونکہ غزوۂ تبوک اعلان براء ت سے پہلے پیش آیا ہے، اور اس کا واقعہ ان شاء اللہ آگے قدرے تفصیل کے ساتھ آئے گا۔ چونکہ یہ غزوۂ روم کی سلطنت کے خلاف ہُوا تھا، اور اُن میں اکثریت عیسائیوں کی تھی، اور یہودیوں کی بھی ایک بڑی تعداد رومی سلطنت کے ماتحت زندگی گذار رہی تھی، اور دونوں کو قرآنِ کریم نے ’’اہل کتاب‘‘ کا نام دیا ہے، اس لئے ان سے جنگ کرنے کا حکم دینے کے ساتھ ان کے عقائد اور اعمال کی کچھ خرابیاں ان آیات میں بیان فرمائی گئی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ ان آیات کا نزول شروع کی اٹھائیس آیتوں سے پہلے ہوا تھا، مگر ان کو موجودہ ترتیب میں ان اٹھائیس آیتوں کے بعد رکھا گیا ہے۔ شاید اس میں یہ اشارہ ہے کہ جزیرۂ عرب کے بت پرستی سے پاک ہونے کے بعد مسلمانوں کو باہر کے اہل کتاب سے سابقہ پیش آنے والا ہے۔ نیز بت پرستوں کے لئے تو جزیرہ عرب میں مستقل رہائش ممنوع کردی گئی تھی، لیکن اہل کتاب کے لئے یہ گنجائش رکھی گئی تھی کہ وہ اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہری کی حیثیت میں جزیہ ادا کر کے رہ سکتے ہیں۔ یہ رعایت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں تو برقرار رہی، لیکن آپ نے وفات سے پہلے یہ وصیت فرمائی تھی کہ یہود اور نصاریٰ کو جزیرۂ عرب سے نکال دو (صحیح بخاری، کتاب الجہاد، حدیث نمبر ۳۰۵۳) چنانچہ بعد میں حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اس وصیت پر عمل فرمایا۔ لیکن یہ حکم صرف جزیرۂ عرب کے ساتھ مخصوص تھا۔ جزیرۂ عرب کے باہر جہاں کہیں اسلامی حکومت قائم ہو، وہاں اب بھی نہ صرف اہل کتاب، بلکہ دوسرے تمام غیر مسلم اسلامی ریاست کے شہری کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں، جہاں انہیں اپنے مذہب پر عمل کی آزادی ہے، بشرطیکہ وہ ملکی قوانین کی پابندی کریں۔ یہاں اگرچہ ذکر صرف اہل کتاب کا ہے، لیکن جو وہ بیان کی گئی ہے کہ وہ دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے، وہ چونکہ تمام غیر مسلموں میں پائی جاتی ہے، اس لئے جزیرۂ عرب سے باہر یہ حکم باجماع امت تمام غیر مسلموں کو شامل ہے۔ واللہ سبحانہ اعلم۔ 26: بظاہر تو اہل کتاب اللہ پر ایمان رکھنے کا دعوی کرتے تھے، لیکن چونکہ انہوں نے اس ایمان کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کے بارے میں بہت سے غلط عقائد گھڑ رکھے تھے، جن میں سے بعض کا بیان اگلی آیت میں آرہا ہے، اس لئے ان کا یہ ایمان کالعدم قرار دے کر یہ فرمایا گیا کہ وہ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے۔ 27: ’’جزیہ‘‘ ایک ٹیکس ہے جو مسلمان ریاست کے ان غیر مسلم شہریوں سے لیا جاتا ہے جو لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، چنانچہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور تارک الدُنیا مذہبی پیشواوں سے جزیہ نہیں لیا جاتا۔ یہ درحقیقت ان کے پر امن طریقے سے اسلامی ریاست میں رہنے اور اسلامی ریاست کے دفاع میں شریک نہ ہونے کا ٹیکس ہے جس کے عوض اسلامی حکومت ان کی جان ومال کی ذمہ داری لیتی ہے (روح المعانی)۔ اس کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ غیر مسلموں سے مسلمانوں کی طرح زکوٰۃوصول نہیں کی جاتی، لیکن وہ ریاست کے تمام شہری حقوق میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ اس لئے بھی ان پر یہ خاص نوعیت کا ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ اور احادیث میں مسلمان حکمرانوں کو یہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ غیر مسلم باشندوں کے حقوق کا پورا خیال رکھیں، اور ان پر اتنا ٹیکس عائد نہ کریں جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو۔ چنانچہ اسلامی تاریخ کے تقریبا ہر دور میں جزیہ کی شرح بہت معمولی رہی ہے۔ اور آیت کریمہ میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ : ’’وہ خوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں۔‘‘ اس کی تفسیر امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ سے یہ منقول ہے کہ وہ اسلامی ریاست کے قوانین کے تابع ہو کر رہنا منظور کرلیں (روح المعانی ج ۱۰ ص ۳۷۹)