بزرگ بڑے نہیں اللہ جل شانہ سب سے بڑا ہے ان تمام آیتوں میں بھی جناب باری عزوجل مومنوں کو مشرکوں ، کافروں ، یہودیوں اور نصرانیوں سے جہاد کرنے کی رغبت دلاتا ہے ۔ فرماتا ہے دیکھو وہ اللہ کی شان میں کیسی گستاخیاں کرتے ہیں یہود و عزیر کو اللہ کا بیٹا بتاتے ہیں اللہ اس سے پاک اور برتر و بلند ہے کہ اس کی اولاد ہو ۔ ان لوگوں کو حضرت عزیر کی نسبت جو یہ وہم ہوا اس کا قصہ یہ ہے کہ جب عمالقہ بنی اسرائیل پر غالب آ گئے ان کے علماء کو قتل کر دیا ان کے رئیسوں کو قید کر لیا ۔ عزیر علیہ السلام کا علم اٹھ جانے اور علماء کے قتل ہو جانے سے اور بنی اسرائیل کی تباہی سے سخت رنجیدہ ہوئے اب جو رونا شروع کیا تو آنکھوں سے آنسو نہ تھمتے تھے روتے روتے پلکیں بھی جھڑ گئیں ایک دن اسی طرح روتے ہوئے ایک میدان سے گذر ہوا دیکھا کہ ایک عورت ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی ہے اور کہہ رہی ہے ہائے اب میرے کھانے کا کیا ہو گا ؟ میرے کپڑوں کا کیا ہو گا ؟ آپ اس کے پاس ٹھہر گئے اور اس سے فرمایا اس شخص سے پہلے تجھے کون کھلاتا تھا اور کون پہناتا تھا ؟ اس نے کہا اللہ تعالیٰ ۔ آپ نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ تو اب بھی زندہ باقی ہے اس پر تو کبھی نہیں موت آئے گی ۔ یہ سن کر اس عورت نے کہا اے عزیر پھر تو یہ تو بتا کہ بنی اسرائیل سے پہلے علماء کو کون علم سکھاتا تھا ؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس نے کہا آپ یہ رونا دھونا لے کر کیوں بیٹھے ہیں؟ آپ کو سمجھ میں آ گیا کہ یہ جناب باری سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے آپ کو تنبیہہ ہے پھر آپ سے فرمایا گیا کہ فلاں نہر پر جا کر غسل کرو وہیں دو رکعت نماز ادا کرو وہاں تمہیں ایک شخص ملیں گے وہ جو کچھ کھلائیں وہ کھا لو چنانچہ آپ وہیں تشریف لے گئے نہا کر نماز ادا کی دیکھا کہ ایک شخص ہیں کہہ رہے ہیں منہ کھولو آپ نے منہ کھول دیا انہوں نے تین مرتبہ کوئی چیز آپ کے منہ میں بڑی ساری ڈالی اسی وقت اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کا سینہ کھول دیا اور آپ توراۃ کے سب سے بڑے عالم بن گئے بنی اسرائیل میں گئے ان سے فرمایا کہ میں تمہارے پاس تورات لایا ہوں انہوں نے کہا ہم سب آپ کے نزدیک سچے ہیں آپ نے اپنی انگلی کے ساتھ قلم کو لپیٹ لیا اور اسی انگلی سے یہ یک وقت پوری توراۃ لکھ ڈالی ادھر لوگ لڑائی سے لوٹے ان میں ان کے علماء بھی واپس آئے تو انہیں عزیر علیہ السلام کی اس بات کا علم ہوا یہ گئے اور پہاڑوں اور غاروں میں تورات شریف کے جو نسخے چھپا آئے تھے وہ نکال لائے اور ان نسخوں سے حضرت عزیر علیہ السلام کے لکھے ہوئے نسخے کا مقابلہ کیا تو بالکل صحیح پایا اس پر بعض جاہلوں کے دل میں شیطان نے یہ وسوسہ ڈال دیا کہ آپ اللہ کے بیٹے ہیں ۔ حضرت مسیح کو نصرانی اللہ کا بیٹا کہتے تھے ان کا واقعہ تو ظاہر ہے ۔ پس ان دونوں گروہوں کی غلط بیانی قرآن بیان فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ ان کی صرف زبانی باتیں ہیں جو محض بےدلیل ہیں جس طرح ان سے پہلے کے لوگ کفر و ضلالت میں تھے یہ بھی انہی کے مرید و مقلد ہیں اللہ انہیں لعنت کرے حق سے کیسے بھٹک گئے؟ مسند احمد ترمذی اور ابن جریر میں ہے کہ جب عدی بن حاتم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین پہنچا تو شام کی طرف بھاگ نکلا جاہلیت میں ہی یہ نصرانی بن گیا تھا یہاں اس کی بہن اور اس کی جماعت قید ہو گئی پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور احسان اس کی بہن کو آزاد کر دیا اور رقم بھی دی یہ سیدھی اپنے بھائی کے پاس گئیں اور انہیں اسلام کی رغبت دلائی اور سمجھایا کہ تم رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ التسلیم کے پاس چلے جاؤ چنانچہ یہ مدینہ شریف آ گئے تھے اپنی قوم طے کے سردار تھے ان کے باپ کی سخاوت دنیا بھر میں مشہور تھی لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچائی آپ خود ان کے پاس آئے اس وقت عدی کی گردن میں چاندی کی صلیب لٹک رہی تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اسی ( آیت اتخذوا ) کی تلاوت ہو رہی تھی تو انہوں نے کہا کہ یہود و نصاریٰ نے اپنے علماء اور درویشوں کی عبادت نہیں کی آپ نے فرمایا ہاں سنو ان کے کئے ہوئے حرام کو حرام سمجھنے لگے اور جسے ان کے علماء اور درویش حلال بتا دیں اسے حلال سمجھنے لگے یہی ان کی عبادت تھی پھر آپ نے فرمایا عدی کیا تم اس سے بےخبر ہو کہ اللہ سب سے بڑا ہے؟ کیا تمہارے خیال میں اللہ سے بڑا اور کوئی ہے؟ کیا تم اس سے انکار کرتے ہو کہ معبود برحق اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں؟ کیا تمہارے نزدیک اس کے سوا اور کوئی بھی عبادت کے لائق ہے؟ پھر آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی انہوں نے مان لی اور اللہ کی توحید اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی ادا کی آپ کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا اور فرمایا یہود پر غضب الٰہی اترا ہے اور نصرانی گمراہ ہوگئے ہیں ۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ سے بھی اس آیت کی تفسیر اسی طرح مروی ہے کہ اس سے مراد حلال و حرام کے مسائل میں علماء اور ائمہ کی محض باتوں کی تقلید ہے ۔ سدی فرماتے ہیں انہوں نے بزرگوں کی ماننی شروع کر دی اور اللہ کی کتاب کو ایک طرف ہٹا دیا ۔ اسی لئے اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں حکم تو صرف یہ تھا کہ اللہ کے سوا اور کی عبادت نہ کریں وہی جسے حرام کر دے حرام ہے اور وہ جسے حلال فرما دے حلال ہے ۔ اسی کے فرمان شریعت ہیں ، اسی کے احکام بجا لانے کے لائق ہیں ، اسی کی ذات عبادت کی مستحق ہے ۔ وہ مشرک سے اور شرک سے پاک ہے ، اس جیسا اس کا شریک ، اس کا نظیر اس کا مددگار اس کی ضد کا کوئی نہیں وہ اولاد سے پاک ہے نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ پروردگار ۔
[٣٠] بخت نصر بابلی سے یہودیوں کی پٹائی :۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت کے بعد پھر یہودیوں پر اللہ کی نافرمانیوں کی وجہ سے زوال آیا اور بخت نصر بابلی نے فلسطین پر پے در پے حملے کر کے اس کو تباہ و برباد کردیا۔ تورات اور تمام مذہبی کتابوں کو جلا کر خاکستر کرایا اور بنی اسرائیل کی ایک کثیر تعداد کو قید کر کے اپنے ساتھ بابل لے گیا۔ انہیں قیدیوں میں عزیر (علیہ السلام) بھی تھے جو ابھی کمسن ہی تھے۔ کچھ مدت غالباً سات سال بعد اس نے ان قیدیوں کو رہا کیا۔ اس دوران یہ اسرائیل اپنی زبان تک بھول چکے تھے۔ عزیر (علیہ السلام) نے اپنے وطن واپسی کے دوران ایک اجڑی بستی کو دیکھا جو بخت نصر کے ہاتھوں ہی برباد ہوئی تھی۔ اس واقعہ کا ذکر سورة بقرہ کی آیت نمبر ٢٥٩ کے تحت تفصیل سے گزر چکا ہے۔ اس کے بعد آپ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی۔ آپ کو تورات پوری کی پوری زبانی یاد تھی۔ لہذا آپ نے ازسر نو تورات لکھی اس طرح یہود کی الہامی کتاب دوبارہ ان کے ہاتھ آئی۔ (تورات میں آپ کا نام عزرا مذکور ہے) اسی وجہ سے یہودی آپ کی بہت تعظیم کرتے تھے۔ اور بعض نے اس تعظیم میں اس درجہ غلو کیا کہ انہیں اللہ کا بیٹا کہنے لگے۔- اللہ کی اولاد قرار دینے والے فرقے :۔ اور نصاریٰ نے مسیح کو اللہ کا بیٹا قرار دے دیا تھا جس کی وجہ ان کی معجزانہ پیدائش، آپ کو اللہ کے عطاکردہ معجزات اور آپ کا آسمان پر اٹھایا جانا تھے۔ جس کا ذکر قرآن میں جا بجا مذکور ہے۔ ان اہل کتاب نے دراصل سابقہ اقوام کے فلسفہ و اوہام سے متاثر ہو کر ایسے گمراہ کن عقائد اختیار کرلیے تھے۔ بعض نصاریٰ ایسے بھی تھے جو سیدنا عیسیٰ کو خدا یا تین خداؤں میں سے ایک خدا ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے اور کچھ انہیں خدا کا بیٹا قرار دیتے تھے اور اس آیت میں سابقہ اقوام سے مراد یونانی، ہندی اور مصری تہذیبیں ہیں۔ جنہوں نے اللہ کی بیوی، بیٹے بیٹیاں پھر اس سے آگے اس کی اولاد کی نسل چلا کر ایسے دیوی دیوتاؤں کی ایک پوری دیو مالا تیار کردی تھی اور اس کے اثرات ملک عرب میں بھی پائے جاتے تھے۔
وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُۨ ابْنُ اللّٰهِ : پچھلی آیت میں اہل کتاب کے ساتھ قتال کی چار وجوہ بیان فرمائی تھیں، اب ان میں سے بعض کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ فرمایا کہ یہود نے عزیر (علیہ السلام) کو اور نصاریٰ نے مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیا، جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ۔ اَللّٰهُ الصَّمَدُ ۔ لَمْ يَلِدْ ڏ وَلَمْ يُوْلَدْ ۔ وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ) [ الإخلاص ] ” کہہ دے اللہ ایک ہے، اللہ ہی بےنیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا اور نہ کبھی کوئی اس کے برابر کا ہے۔ “ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کا بیٹا ماننے کی صورت میں اس کی بیوی بھی ماننا پڑے گی اور خاوند، بیوی، باپ، بیٹا ایک ہی جنس سے ہوتے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ ان سب چیزوں سے پاک ہے۔ الغرض ان سے قتال کی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور اس کے متعلق ان کا عقیدہ سراسر اللہ تعالیٰ کی توہین اور متعدد معبودوں کو ماننا ہے، تثلیث (تین خدا ماننا) ہو یا حلول (کسی انسان یا مخلوق میں اللہ کا اتر آنا) یا اتحاد کسی انسان کا خدا بن جانا، ان سب کو قرآن نے کفر قرار دیا۔ دیکھیے سورة مائدہ (٧٢، ٧٣) پھر جو شخص ہر چیز ہی کو اللہ تعالیٰ قرار دے، ” ہر میں ہر “ کا نعرہ لگائے، وحدت الوجود کو معرفت قرار دے اس کے کفر میں کیا شک ہے ؟ اسی طرح اب اگر کوئی مسلمان بھی یہ عقیدہ رکھے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود اللہ تعالیٰ ہی تھے، یا اس کے نور کا ٹکڑا تھے، یا اولیاء میں اللہ تعالیٰ اتر آتا ہے، یا ترقی کر کے ولی بھی اللہ تعالیٰ بن جاتا ہے اور اس کے اختیارات کا مالک بن جاتا ہے، اس لیے وہ ” أَنَا الْحَقُّ “ (میں ہی حق یعنی اللہ ہوں) کا نعرہ لگاتا ہے اور ” سُبْحَانِیْ مَا اَعْظَمَ شَانِیْ “ (میں پاک ہوں، میری شان کتنی بڑی ہے) کہتا ہے، تو بیشک یہ مسلمان کہلاتا رہے حقیقت میں یہود و نصاریٰ میں اور اس میں کوئی فرق نہیں اور ہندوؤں کے کروڑوں خداؤں کے عقیدے اور اس کے عقیدے میں بھی کوئی فرق نہیں۔ اس خبیث عقیدے سے تو تمام دین، تمام انبیاء و رسل اور ان کے احکام ہی بےکار ٹھہرتے ہیں۔ ایسے عقیدے والا شخص اپنے آپ کو تصوف یا معرفت یا طریقت کے پردوں میں لاکھ چھپائے، حقیقت میں وہ اللہ تعالیٰ کی تمام شریعتوں، رسولوں، کتابوں اور ان کے احکام کا منکر ہے، جس نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے تقدس کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ - ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ : یعنی نہ عقل سے اس کی کوئی دلیل پیش کی جاسکتی ہے نہ نقل سے، محض منہ کی بےکار بات ہے، جیسے خواہ مخواہ کوئی شخص مہمل اور بےمعنی باتیں کرتا رہے۔ - يُضَاهِــــُٔـوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ : یعنی ( یہ لوگ) اہل کتاب ہو کر بھی مشرکوں کی ریس کرنے لگے۔ (موضح) اور پہلی مشرک اور کافر قوموں کی طرح گمراہ ہوگئے۔ صاحب المنار فرماتے ہیں کہ شرق و غرب کے قدیم بت پرستوں کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن اللہ ہونے، حلول اور تثلیث ( اور متعدد معبودوں) کا عقیدہ ہند کے برہمنوں میں معروف تھا (اور اب بھی ہے) ، اسی طرح چین، جاپان، قدیم مصریوں اور قدیم ایرانیوں میں بھی یہ عقائد مشہور و معروف تھے۔ اہل کتاب بھی ان کفار کی ریس کرنے لگے اور اب بعض مسلمان بھی ان کے نقش قدم پر چل پڑے۔ - قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ : یعنی یہ لوگ اس کے حق دار ہیں کہ ان کے حق میں یہ بددعا کی جائے، ورنہ اللہ تعالیٰ کو دعا یا بددعا کی کیا ضرورت ہے ؟ وہ تو خود جو چاہے کرسکتا ہے۔
دوسری آیت میں اسی مضمون کی مزید تفصیل ہے، جس کا ذکر پہلی آیت میں اجمالا آیا ہے کہ یہ اہل کتاب اللہ پر ایمان نہیں رکھتے، اس دوسری آیت میں فرمایا کہ یہود تو عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں اور نصارٰی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو، اس لئے ان کا دعوٰی توحید اور ایمان کا غلط ہوا۔ پھر فرمایا (آیت) ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ ، یعنی یہ ان کا قول ہے ان کے منہ سے، اس کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ لوگ صاف طور پر اپنی زبانوں سے اس کا اقرار کرتے ہیں کوئی مخفی چیز نہیں، اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ یہ کلمہ کفر صرف ان کی زبانوں پر ہے نہ اس کی کوئی وجہ بتاسکتے ہیں نہ دلیل۔- پھر ارشاد فرمایا (آیت) يُضَاهِــــُٔـوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ۭ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ اَنّٰى يُؤ ْفَكُوْنَ یعنی یہ ان لوگوں کی سی باتیں کرنے لگے جو ان سے پہلے کافر ہوچکے ہیں، خدا ان کو غارت کرے یہ کدھر الٹے جا رہے ہیں۔ انبیاء کو خدا کا بیٹا کہنے میں ایسے ہی ہوگئے جیسے پچھلے کفار و مشرکین تھے کہ فرشتوں کو اور لات و منات کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔
وَقَالَتِ الْيَہُوْدُ عُزَيْرُۨ ابْنُ اللہِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللہِ ٠ ۭ ذٰلِكَ قَوْلُہُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ ٠ ۚ يُضَاہِـــُٔـوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ٠ ۭ قٰتَلَہُمُ اللہُ ٠ ۚ ۡاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ ٣٠- هَادَ ( یہودی)- فلان : إذا تحرّى طریقة الْيَهُودِ في الدّين، قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا - [ البقرة 62] والاسم العلم قد يتصوّر منه معنی ما يتعاطاه المسمّى به . أي : المنسوب إليه، ثم يشتقّ منه . نحو : قولهم تفرعن فلان، وتطفّل : إذا فعل فعل فرعون في الجور، وفعل طفیل في إتيان الدّعوات من غير استدعاء، وتَهَوَّدَ في مشيه : إذا مشی مشیا رفیقا تشبيها باليهود في حركتهم عند القراءة، وکذا : هَوَّدَ الرّائض الدابّة : سيّرها برفق، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام .- الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرنا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا[ البقرة 62] ہم تیری طرف رجوع ہوچکے بعض نے کہا ہے لفظ یہود بھی سے ماخوذ ہے یہ اصل میں ان کا تعریفی لقب تھا لیکن ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد ان پر بطور علم جنس کے بولا جاتا ہے نہ کہ تعریف کے لئے جیسا کہ لفظ نصارٰی اصل میں سے ماخوذ ہے پھر ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد انہیں اسی نام سے اب تک پکارا جاتا ہے ھاد فلان کے معنی یہودی ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة 109] جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی کیونکہ کبھی اسم علم سے بھی مسمی ٰ کے اخلاق و عادات کا لحاظ کر کے فعل کا اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا ایک شخص فرعون کی طرح ظلم وتعدی کرتا ہے تو اس کے کے متعلق تفر عن فلان کہ فلان فرعون بنا ہوا ہے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اسہ طرح تطفل فلان کے معنی طفیلی یعنی طفیل نامی شخص کی طرح بن بلائے کسی کا مہمان بننے کے ہیں ۔ تھودا فی مشیہ کے معنی نرم رفتاری سے چلنے کے ہیں اور یہود کے تو راۃ کی تلاوت کے وقت آہستہ آہستہ جھومنے سے یہ معنی لئے کئے ہیں ۔ ھو دا لرائض الدبۃ رائض کا سواری کو نر می سے چلانا ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔- نَّصَارَى- وَالنَّصَارَى قيل : سُمُّوا بذلک لقوله : كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ- [ الصف 14] ، وقیل : سُمُّوا بذلک انتسابا إلى قرية يقال لها : نَصْرَانَةُ ، فيقال : نَصْرَانِيٌّ ، وجمْعُه نَصَارَى، قال : وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاری - الآية [ البقرة 113] ، ونُصِرَ أرضُ بني فلان . أي : مُطِرَ «1» ، وذلک أنَّ المطَرَ هو نصرةُ الأرضِ ، ونَصَرْتُ فلاناً : أعطیتُه، إمّا مُسْتعارٌ من نَصْرِ الأرض، أو من العَوْن .- اور بعض کے نزدیک عیسائیوں کو بھی نصاری اس لئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے نحن انصار اللہ کا نعرہ لگا دیا تھا ۔ چناچہ قران میں ہے : ۔ كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف 14] جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) بن مر یم نے حواریوں سے کہا بھلا کون ہے جو خدا کی طرف بلانے میں میرے مددگار ہوں تو حوراریوں نے کہا ہم خدا کے مددگار ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ نصرانی کی جمع ہے جو نصران ( قریہ کا نام ) کی طرف منسوب ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاریالآية [ البقرة 113] یہود کہتے ہیں کہ عیسائی رستے پر نہیں ۔ نصر ارض بنی فلان کے معنی بارش بر سنے کے ہیں کیونکہ بارش سے بھی زمین کی مدد ہوتی ہے اور نصرت فلانا جس کے معنی کسی کو کچھ دینے کے ہیں یہ یا تو نصر الارض سے مشتق ہے اور یا نصر بمعنی عون سے ۔- فوه - أَفْوَاهُ جمع فَمٍ ، وأصل فَمٍ فَوَهٌ ، وكلّ موضع علّق اللہ تعالیٰ حکم القول بِالْفَمِ فإشارة إلى الکذب، وتنبيه أنّ الاعتقاد لا يطابقه . نحو : ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب 4] ، وقوله : كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5].- ( ف و ہ )- افواہ فم کی جمع ہے اور فم اصل میں فوہ ہے اور قرآن پاک میں جہاں کہیں بھی قول کی نسبت فم یعنی منہ کی طرف کی گئی ہے وہاں در وغ گوئی کی طرف اشارہ ہے اور اس پر تنبیہ ہے کہ وہ صرف زبان سے ایسا کہتے ہیں ان کے اندرون اس کے خلاف ہیں جیسے فرمایا ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب 4] یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں ۔ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5] بات جوان کے منہ سے نکلتی ہے ۔- ضاهى- قال تعالی: يُضاهِؤُنَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ التوبة 30] ، أي : يشاکلون، وقیل :- أصله الهمز، وقد قرئ به والضَّهْيَاءُ : المرأةُ التي لا تحیض، وجمعه : ضُهًى.- ( ض ھ ی ) المضاھا ۃ ۔ کے معنی مشابہ اور مشکالت کے ہیں چناچہ ایت کریمہ : يُضاهِؤُنَ«4» قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ التوبة 30] یہ بھی انہی جیسی باتیں کرتے ہیں ۔ میں یضاھون کے معنی یشاکلون ہیں ۔ یعنی دوسروں کو مشابہ اور ہم شکل ہونا ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل مہموز ہے اور اس میں ایک قراءت ( یضاھون ) ہمزہ کے ساتھ بھی ممنقول ہے ۔ امرءۃ ضھیاء ۔ وہ عورت جسے حیض نہ آتا ہو ۔ اس کی جمع ضھی آتی ہے ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- أنى- أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران 37] ، أي : من أين، وكيف .- ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ أَنَّى لَكِ هَذَا ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔- أفك - الإفك : كل مصروف عن وجهه الذي يحق أن يكون عليه، ومنه قيل للریاح العادلة عن المهابّ : مُؤْتَفِكَة . قال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكاتُ بِالْخاطِئَةِ [ الحاقة 9] ، وقال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم 53] ، وقوله تعالی: قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ [ التوبة 30] أي : يصرفون عن الحق في الاعتقاد إلى الباطل، ومن الصدق في المقال إلى الکذب، ومن الجمیل في الفعل إلى القبیح، ومنه قوله تعالی: يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ [ الذاریات 9] ، فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ [ الأنعام 95] ، وقوله تعالی: أَجِئْتَنا لِتَأْفِكَنا عَنْ آلِهَتِنا [ الأحقاف 22] ، فاستعملوا الإفک في ذلک لمّا اعتقدوا أنّ ذلک صرف من الحق إلى الباطل، فاستعمل ذلک في الکذب لما قلنا، وقال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ جاؤُ بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ [ النور 11] - ( ا ف ک ) الافک ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیردی گئی ہو ۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤلفکۃ کہا جاتا ہے اور آیات کریمہ : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ ( سورة الحاقة 9) اور وہ الٹنے والی بستیوں نے گناہ کے کام کئے تھے ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى ( سورة النجم 53) اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا ۔ ( میں موتفکات سے مراد وہ بستیاں جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے الٹ دیا تھا ) قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ ( سورة التوبة 30) خدا ان کو ہلاک کرے ۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔ یعنی اعتقاد و حق باطل کی طرف اور سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے افعال کی طرف پھر رہے ہیں ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ ( سورة الذاریات 9) اس سے وہی پھرتا ہے جو ( خدا کی طرف سے ) پھیرا جائے ۔ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ ( سورة الأَنعام 95) پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا ( سورة الأَحقاف 22) کیا تم ہمارے پاس اسلئے آئے ہو کہ ہمارے معبودوں سے پھیردو ۔ میں افک کا استعمال ان کے اعتقاد کے مطابق ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے اعتقاد میں الہتہ کی عبادت ترک کرنے کو حق سے برعمشتگی سمجھتے تھے ۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ ( سورة النور 11) جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تمہیں لوگوں میں سے ایک جماعت ہے ۔
یہودو نصاریٰ میں سے بعض نے کہا ” ابن اللہ “ سب نے نہیں کہا - قول باری ہے (وقالت الیھود عزیز ابن اللہ وقالت النصاری المسیح ابن اللہ۔ یہودی کہتے ہیں کہ عزیز اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے) ایک قول ہے کہ اس سے مراد یہودیوں کا ایک فرقہ ہے جس نے یہ بات کہی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول کی صداقت کی یہ دلیل ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں یہودیوں نے یہ بات سن کر اس کی تردید نہیں کی تھی۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص یہ کہے ” خوارج استعراض یعنی دریافت حال کے بغیر قتل کردینے پر بچوں کو مار ڈالنے کو جائز سمجھتے ہیں “ اس قول سے یہ مراد لیا جائے گا کہ خوارج کے ایک گروہ کے نزدیک یہ بات جائز ہے سب کے نزدیک نہیں۔ یا اسی طرح مثلاً آپ کہیں ” جاءنی بنو تمیم “ (میرے پاس بنو تمیم آئے) اس سے بنو تمیم کے تمام افراد مراد نہیں ہوں گے بلکہ بعض مراد ہوں گے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ یہ بات یہود کی ایک جماعت نے کہی تھی، یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے انہوں نے یہ بات کہی تھی۔ اس جماعت میں سلام بن متکم، نعمان بن اوفیٰ ، شاس بن قیس اور مالک بن الصیف شامل تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ جہاں تک ہمیں علم ہے اب کوئی یہودی اس بات کا قائل نہیں ہے ان کے کسی فرقے نے یہ بات کہی ہوگی جواب مٹ چکا ہے۔- یہودو نصاریٰ کی مشابہت مشرکین سے - قول باری ہے (یضاھئون قول الذین کفروا من قبل۔ ان لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے تھے) یعنی یہ ان کافروں کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے یہ بات کہتے ہیں۔ اسی لفظ سے ” امراۃ صھیاء “ نکلا ہے جو اس عورت کو کہا جاتا ہے جسے حیض نہ آتا ہو اس لئے کہ حیض نہ آنے کی بنا پر مردوں کے ساتھ اس کی مشابہت ہوجاتی ہے۔ یہ لوگ ان مشرکین کے مشابہ ہوگئے جنہوں نے اللہ کے شریک بت بنا رکھے تھے اس لئے کہ انہوں نے عزیز اور مسیح دونوں کو اللہ کے بیٹے قرار دے کر اس کا شریک بنادیا تھا حالانکہ یہ دونوں اللہ کی دیگر مخلوقات کی طرح تھے جس طرح ان مشرکین نے بتوں کو جو اللہ کی مخلوق تھے اللہ کا شریک قرار دیا تھا۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ (الذین کفروا من قبل) سے بت پرست مراد ہیں جو لات و عزیٰ اور منات کی پوجا کرتے تھے۔ ایک قول کے مطابق یہ لوگ مشرکین کے اس لیے مشابہ تھے کہ مشرکین کا دعویٰ یہ تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور ان کا دعویٰ یہ تھا کہ عزیز اور مسیح اللہ کے بیٹے ہیں ایک اور قول ہے کہ یہ لوگ اپنے اسلاف کی تقلید میں مشرکین کے مشابہ ہیں۔- قول باری ہے (ذلک قولھم بافواھم) یہ بےحقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں) یعنی ان کی یہ باتیں بےمعنی اور بےحقیقت ہیں اور سوائے اس کے کہ وہ ان کی زبانوں سے نکلتی ہیں۔ ان کا کوئی اور حاصل نہیں ہے۔- قول باری ہے (قاتلھم اللہ۔ خدا کی مار ان پر) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اس کے معنی ہیں : ” خدا ان پر لعنت کرے “ ایک قول ہے کہ اس کے معنی ہیں اللہ انہیں قتل کرے جس طرح عرب کہتے ہیں ’ عاناہ اللہ ‘ یعنی اللہ اسے تکلیف و مصیبت سے عافیت میں رکھے۔ ایک قول کے مطابق اللہ کے ساتھ عداوت رکھنے میں اسے اس شخص کی طرح قرار دیا گیا جو اپنے غیر کے ساتھ برسر پیکار رہتا ہو۔
(٣٠) یعنی مدینہ منورہ کے یہودی حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا اور نجران کے عیسائی حضرت مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتے تھے یہ انکی زبانی باتیں ہیں جو ان سے پہلے لوگوں یعنی کفار مکہ کے مشابہ ہیں۔- کیوں کہ وہ بھی اللہ معاف کرے اس بات کا دعوی کرتے تھے کہ لات، عزی اور منات خدا کی بیٹیاں ہیں اسی طرح یہود حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں اور نصاری میں سے بعض حضرت مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا اور بعض خدا کا شریک اور بعض بعینہ خدا اور بعض تین میں ایک کہتے ہیں خدا ان لوگوں پر اپنی لعنت نازل فرمائے یہ خدا پر جھوٹا الزام لگاتے ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” وقالت الیھود “۔ (الخ)- جناب ابن ابی حاتم (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ سلام بن مشکم اور نعمان بن اوفی اور محمد بن وحیہ اور شاس بن قیس اور مالک بن صیف یہ لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے کہ ہم کس طرح آپ کی پیروی کریں حالانکہ آپ نے ہمارے قبلہ کو چھوڑ دیا اور حضرت عزیر (علیہ السلام) کو آپ خدا کا بیٹا بھی نہیں کہتے تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے یہ آیت نازل فرمائی یعنی یہودیوں نے کہا کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) خدا کے بیٹے ہیں۔
آیت ٣٠ (وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰہِ وَقَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ ط) (ذٰلِکَ قَوْلُہُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ ج یُضَاہِءُوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ط) - ان کی ان باتوں یا من گھڑت عقیدوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے ‘ بلکہ یہ لوگ اپنے سے پہلے والے مشرکین کے عقائد کی نقل کر رہے ہیں۔ متھرا ازم ایک قدیم مذہب تھا جس کا مرکز مصر تھا۔ اس مذہب میں پہلے سے یہ تثلیث موجود تھی : " . " یعنی خدا ‘ خدا کا بیٹا اور اس کی ماں آئسس دیوی۔ یہ پہلی تثلیث تھی جو مصر میں بنی۔ پھر جب سینٹ پال نے عیسائیت کی تبلیغ شروع کی اور اس کا دائرہ غیر اسرائیلیوں ( ) تک وسیع کردیا تو اہل مصر کی نقالی میں تثلیث جیسے نظریات عیسائیت میں شامل کرلیے گئے تاکہ ان نئے لوگوں کو عیسائیت اختیار کرنے میں آسانی ہو۔ چناچہ عیسائیت میں جو پہلی تثلیث شامل کی گئی وہ یہی تھی کہ خدا ‘ خدا کا بیٹا یسوع اور مریم مقدس۔ تو انہوں نے قدیم مذاہب کی نقالی میں یہ تثلیث ایجاد کی تھی۔
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :29 عُزَیر سے مراد عَزرا ( ) ہیں جن کو یہودی اپنے دین کا مجدد مانتے ہیں ۔ ان کا زمانہ سن ٤۵۰ قبل مسیح کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے ۔ اسرائیلی روایات کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد جو دور ابتلاء بنی اسرائیل پر آیا اس میں نہ صرف یہ کہ توراۃ دنیا سے گم ہو گئی تھی بلکہ بابل کی اسیری نے اسرائیلی نسلوں کو اپنی شریعت ، اپنی روایات اور اپنی قومی زبان ، عبرانی تک سے ناآشنا کر دیا تھا ۔ آخر کار انہی عزیر یا عزرا نے بائیبل کے پُرانے عہد نامے کو مرتب کیا ، اور شریعت کی تجدید کی ۔ اسی وجہ سے بنی اسرائیل ان کی بہت تعظیم کرتے ہیں اور یہ تعظیم اس حد تک بڑھ گئی کہ بعض یہودی گروہوں نے ان کو ابن اللہ تک بنا دیا ۔ یہاں قرآن مجید کے ارشاد کا مقصود یہ نہیں ہے کہ تمام یہودیوں نے بالاتفاق عزرا کاہن کو خدا کا بیٹا بنایا ہے بلکہ مقصود یہ بتانا ہے کہ خدا کے متعلق یہودیوں کے اعتقادات میں جو خرابی رونما ہوئی وہ اس حد تک ترقی کر گئی کہ عزرا کو خدا کا بیٹا قرار دینے والے بھی ان میں پیدا ہوئے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :30 یعنی مصر ، یونان ، روم ، ایران اور دوسرے ممالک میں جو قومیں پہلے گمراہ ہو چکی تھیں ان کے فلسفوں اور اوہام و تخیلات سے متاثر ہو کر ان لوگوں نے بھی ویسے ہی گمراہانہ عقیدے ایجاد کر لیے ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو المائدہ حاشیہ ۱۰۱ ) ۔
28: حضرت عزیر (علیہ السلام) ایک جلیل القدر پیغمبر تھے،(ان کو بائبل میں عزرا کے نام سے یاد کیا گیا ہے، اور ایک پوری کتاب ان کے نام سے منسوب ہے) اور جب بخت نصر کے حملے میں تورات کے نسخے ناپید ہوگئے تھے توانہوں نے اپنی یادداشت سے دوبارہ لکھوایا تھا، اور شائد اسی وجہ سے بعض یہودی انہیں اللہ تعالیٰ کا بیٹا ماننے لگے تھے، یہاں یہ واضح رہے کہ ان کا بیٹا ماننے کا عقیدہ سب یہودیوں کا نہیں ہے ؛ بلکہ بعض یہودیوں کا ہے جو عرب میں بھی آباد تھے۔ 29: اس سے مراد غالباً عرب کے مشرین ہیں جو فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔