31۔ 1 اس کی تفسیر حضرت عدی بن حاتم کی بیان کردہ حدیث سے بخوبی ہوجاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ آیت سن کر عرض کیا کہ یہود و نصاریٰ نے تو اپنے علماء کی کبھی عبادت نہیں کی، پھر یہ کیوں کہا گیا کہ انہوں نے ان کو رب بنا لیا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ ٹھیک ہے کہ انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی لیکن یہ بات تو ہے نا، کہ ان کے علماء نے جس کو حلال قرار دے دیا، اس کو انہوں نے حلال اور جس چیز کو حرام کردیا اس کو حرام ہی سمجھا۔ یہی ان کی عبادت کرنا ہے (صحیح ترمذی) کیونکہ حرام وحلال کرنے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے یہی حق اگر کوئی شخص کسی اور کے اندر تسلیم کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اس کو اپنا رب بنا لیا ہے اس آیت میں ان لوگوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے جنہوں نے اپنے اپنے پیشواؤں کو تحلیل وتحریم کا منصب دے رکھا ہے اور ان کے اقوال کے مقابلے میں وہ نصوص قرآن و حدیث کو بھی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
[٣١] اہل کتاب کا اپنے علماء ومشائخ کو رب بنانا :۔ ان اہل کتاب کا دوسرا شرک یہ تھا کہ حلت و حرمت کے اختیارات انہوں نے اپنی علماء و مشائخ کو سونپ رکھے تھے۔ حالانکہ یہ اختیار صرف اللہ کو ہے۔ وہ کتاب اللہ کو دیکھتے تک نہ تھے بس جو کچھ ان کے علماء و مشائخ کہہ دیتے اسے اللہ کا حکم سمجھ لیتے تھے جبکہ ان کے علماء و مشائخ کا یہ حال تھا کہ تھوڑی سی رقم لے کر بھی فتوے ان کی مرضی کے مطابق دے دیا کرتے تھے۔ اس طرح انہوں نے اپنے علماء و مشائخ کو رب کا درجہ دے رکھا تھا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے :۔- سیدنا عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ کے پاس آیا میری گردن میں سونے کی صلیب تھی۔ آپ نے فرمایا عدی اس بت کو پرے پھینک دو ۔ اور میں نے آپ کو سورة برأت کی یہ آیت پڑھتے سنا (اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭسُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ 31) 9 ۔ التوبہ :31) پھر آپ نے فرمایا وہ لوگ ان مولویوں اور درویشوں کی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن جب یہ مولوی اور درویش کسی چیز کو حلال کہہ دیتے تو وہ حلال جان لیتے اور جب حرام کہہ دیتے تو حرام سمجھ لیتے تھے (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)- یہ دونوں آیات دراصل ان سے پہلی آیت کی تشریح کے طور پر آئی ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ اہل کتاب اللہ پر ایمان نہیں لاتے۔ یعنی ایسے طرح طرح کے شرک کی موجودگی میں اللہ پر ایمان لانے کا دعویٰ کوئی معنی نہیں رکھتا۔
اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ : ” حَبْرٌ“ حاء کی زبر اور زیر دونوں کے ساتھ آتا ہے اور باء ساکن ہے، وہ عالم جو بہت خوب صورت اور پختہ بات کہے۔ یہ ” تَحْبِیْرٌ“ سے ہے جس کا معنی مزین کرنا ہے۔ رہبان، راہب کی جمع ہے، ڈرنے والا، یعنی جو اللہ کے خوف سے دنیا ترک کر کے لوگوں سے الگ کسی کٹیا میں جا ڈیرہ لگائے۔ ان کے مسیح ابن مریم (علیہ السلام) کو رب بنانے کا ذکر تو اوپر بھی آچکا ہے، کیونکہ بیٹا باپ کے اختیارات میں اس کا شریک اور جانشین ہوتا ہے، اس لیے مسیح (علیہ السلام) کو بیٹا ماننے پر ان کو رب بنانے میں کیا کسر رہ گئی۔ رہے ان کے عالم اور درویش تو انھیں رب بنانے والے کچھ لوگ تو وہ تھے جو واقعی کائنات میں ان کا حکم چلنے کا عقیدہ رکھتے تھے، جس طرح آج کل بعض مسلمان پیروں، فقیروں کو سجدہ کرتے، ان سے اولاد، حاجتیں اور مرادیں مانگتے ہیں اور یہ باطل عقیدہ رکھتے ہیں کہ کائنات کو قطب، ابدال اور اوتاد چلا رہے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق ان پہلوں ہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، مگر بعض اہل کتاب نے انھیں ایک اور طریقے سے رب بنا رکھا تھا۔ چناچہ عدی بن حاتم طائی، جو مسلمان ہوچکے تھے، فرماتے ہیں میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور میری گردن میں سونے کی صلیب تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ بت اپنے آپ سے اتار کر پھینک دو ۔ “ اور میں نے آپ سے سنا کہ آپ سورة براءت میں یہ آیت پڑھ رہے تھے : (اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ) میں نے کہا : ” احبارو رہبان کو رب تو کوئی نہیں مانتا۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” وہ لوگ ان کی عبادت نہیں کیا کرتے تھے، لیکن وہ جب ان کے لیے کوئی چیز حلال کردیتے اسے حلال سمجھ لیتے اور جب ان پر کوئی چیز حرام کرتے تو اسے حرام سمجھ لیتے۔ “ [ ترمذی، التفسیر، باب و من سورة التوبۃ : ٣٠٩٥ و حسنہ الألبانی ]- گویا یہ ان کا دوسرا شرک تھا کہ انھوں نے حلال و حرام قرار دینے کا اختیار اپنے مشائخ و علماء کو دے دیا، حالانکہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور ان پر لازم تھا کہ اپنے نبی کے بتائے ہوئے طریقے اور فرامین پر قائم رہتے۔ بالکل یہی طرز عمل ہمارے زمانے کے مقلدین کا ہے کہ ان کے امام کا قول صاف قرآن یا صحیح حدیث کے خلاف آجائے تب بھی وہ قرآن اور صحیح حدیث ماننے کے بجائے اپنے امام کے حلال کردہ کو حلال اور اس کے حرام کردہ کو حرام کہیں گے، پھر اس پر اصرار کریں گے، مثلاً قرآن مجید کا صاف حکم ہے کہ رضاعت کی مکمل مدت دو سال ہے، مگر کچھ لوگوں نے اسے ماننے کے بجائے اپنے امام کے کہنے پر اسے اڑھائی سال قرار دے لیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحیح اور صریح فرمان : ” ہر نشہ آور حرام ہے “ کے باوجود کھجور اور انگور کے سوا کسی بھی چیز سے بنی ہوئی نشہ آور چیز کو حلال قرار دے لیا، زنا کو حلالہ کہہ کر حلال کرلیا، اجرت پر لائی عورت سے زنا پر حد معاف کردی، تیز دھار آلے اور آگ کے سوا جان بوجھ کر کسی بھی طریقے سے قتل کردینے پر قصاص ختم کردیا، بادشاہ وقت سے اللہ تعالیٰ کی کئی حدود بالکل ہی معاف کردیں، چور کے چوری کے مال پر ملکیت کے خالی دعوے سے، جس پر وہ کوئی دلیل بھی نہ دے، چوری کی حد ختم کردی، گانے بجانے اور رقص کو مشائخ کے کہنے پر معرفت اور روح کی غذا قرار دے لیا اور بعض مشائخ و علماء نے عوام سے یہ بیعت لینا شروع کردی کہ ہمارا ہر حکم، خواہ وہ قرآن و حدیث کے موافق ہو یا مخالف، تم مانو گے۔ بتائیے ان مسلمانوں کے احبارو رہبان کو رب بنانے میں کیا کسر رہ گئی ؟ خلاصہ یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ فرمان بالکل پورا ہوا کہ تم ہو بہو پہلے لوگوں کے نشان قدم پر چل پڑو گے، پھر ہر گروہ کے اپنے پیشوا کی غلط باتوں پر ڈٹ جانے سے مسلمانوں میں ایسا شگاف پڑا جو قرآن و حدیث کی طرف واپس آنے کے بغیر کبھی پر نہیں ہوسکتا۔ ” اِتَّسَعَ الْخَرْقُ عَلَی الرَّاقِعِ “ کی صورت پیدا ہوگئی ہے کہ شگاف پیوند لگانے والے کی بساط سے بھی زیادہ کھلا ہوگیا۔ پہلے (٧٢) گروہ بنے تھے یہ (٧٣) بن گئے۔ [ فَإِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ]- یہودو نصاریٰ کا اپنے احبارو رہبان کو حلال و حرام کا اختیار دینا انھیں رب بنانا تھا، اب جب یہود و نصاریٰ نے احبارو رہبان کے کرتوتوں کو دیکھ کر ان سے بغاوت کردی تو عوام کی اکثریت کو حلال و حرام کا اختیار دے کر انھیں رب بنا لیا اور اس نئے دین کا نام جمہوریت رکھا، جس میں حلال و حرام کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بجائے پارلیمنٹ کی اکثریت کرتی ہے، جو صریح شرک ہے۔ افسوس کہ مسلمان اس شرک میں ان کے قدم بہ قدم چل رہے ہیں، بلکہ اسلام سے اس بغاوت پر فخر کرتے اور دن رات اس کی تعریف کرتے ہیں اور یہ کہنے میں کوئی حیا محسوس نہیں کرتے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی جمہوریت نافذ کرنے کے لیے آئے تھے۔ ان بےچاروں کو معلوم نہیں کہ جمہوریت صرف ان امور میں مشورے کا نام نہیں جہاں اللہ اور اس کے رسول کا حکم موجود نہ ہو بلکہ یہ ایک الگ دین ہے جس کا رب بھی عوام یا ان کے نمائندے ہیں اور رسول بھی۔ انھی کو حلال و حرام اور جائز و ناجائز قرار دینے کا حق حاصل ہے۔ اس دین میں اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول یا اس کی کتاب کا کچھ دخل نہیں، ہاں دھوکا دینے کے لیے ان کا نام استعمال ہوتا ہے۔- وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ : مسیح ابن مریم (علیہ السلام) کو دوبارہ لا کر ان کا رب بنانا اس لیے ذکر فرمایا کہ یہودیوں نے عزیر (علیہ السلام) یا علماء و رہبان کی پرستش اس طرح نہیں کی تھی جس طرح نصاریٰ نے مسیح (علیہ السلام) کی کی اور نہ وہ اس معنی میں عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا ماننے کا اقرار کرتے ہیں جن معنوں میں نصاریٰ مسیح (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے پیدا ہونے کی وجہ سے اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔ رہے احبارو رہبان تو ان کو یہود و نصاریٰ دونوں نے ایک ہی معنی میں رب بنایا تھا۔ پیچھے اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کا ذکر کرکے ان کی اس دلیل کو بھی بےمعنی قرار دیا تھا کہ وہ تو باپ اور ماں دونوں کے بغیر پیدا ہوئے تھے، اگر وہ رب نہیں تو ماں سے پیدا ہونے والا کیسے رب ہوگیا ؟- وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا : یعنی یہ تمام بےہودگی یہودو نصاریٰ نے تورات میں موجود واضح احکام کے باوجود اختیار کی کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا، جو اب بھی تورات کی تحریف کے باوجود مختلف الفاظ کے ساتھ اس میں جا بجا موجود ہیں۔
خلاصہ تفسیر - ( آگے افعال کفریہ کا بیان ہے کہ) انہوں نے ( یعنی یہود و نصاری نے) خدا ( کی توحید فی الطاعۃ) کو چھوڑ کر اپنے علماء اور مشائخ کو ( باعتبار اطاعت کے) رب بنا رکھا ہے ( کہ ان کی اطاعت تحلیل اور تحریم میں مثل اطاعت خدا کے کرتے ہیں کہ نص پر ان کے قول کو ترجیح دیتے ہیں اور ایسی اطاعت بالکل عبادت ہے پس اس حساب سے وہ ان کی عبادت کرتے ہیں) اور مسیح بن مریم ( علیہ السلام) کو بھی ( ایک اعتبار سے رب بنا رکھا ہے کہ ان کو ابن اللہ کہتے ہیں کہ الوہیت اس کے لوازم سے ہے) حالانکہ ان کو ( کتب الہیہ میں) صرف یہ حکم کیا گیا ہے کہ فقط ایک معبود ( برحق) کی عبادت کریں جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں وہ ان کے شرک سے پاک ہے ( اور یہ تو بیان تھا اتباع باطل کا آگے بیان ہے اس کا کہ وہ دین حق کو رد کرتے ہیں کہ یہ بھی کفر ہے یعنی) وہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور ( یعنی دین اسلام) کو اپنے منہ سے ( پھونک مار مار کر) بجھا دیں ( یعنی منہ سے رد و اعتراض کی باتیں اس غرض سے کرتے ہیں کہ دین حق کو فروغ نہ ہو) حالانکہ اللہ تعالیٰ بدون اس کے کہ اپنے نور ( مذکور) کو کمال تک پہنچا دے مانے گا نہیں، گو کافر لوگ ( جن میں یہ بھی آگئے) کیسے ہی ناخوش ہوں، (چنانچہ) وہ اللہ ایسا ہے کہ ( اسی اتمام نور کے لئے) اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت ( کا سامان یعنی قرآن) اور سچا دین ( یعنی اسلام) دے کر ( دنیا میں) بھیجا ہے تاکہ اس ( دین) کو ( کہ وہی نور مذکور ہے) تمام (بقیہ) دینوں پر غالب کردے ( کہ یہی اتمام ہے) گو مشرک (جن میں یہ بھی داخل ہوگئے) کیسے ہی ناخوش ہوں، اے ایمان والو اکثر احبارو رہبان ( یعنی یہود و نصارٰی کے علماء و مشائخ عوام) لوگوں کے مال نامشروع طریقہ سے کھاتے۔ ( اڑاتے) ہیں ( یعنی احکام حقہ کو پوشیدہ رکھ کر موافق مرضی عوام کے فتوے دے کر ان سے نذرانے لیتے ہیں) اور ( اس کی وجہ سے وہ) اللہ کی راہ ( یعنی دین اسلام) سے ( لوگوں کو) باز رکھتے ہیں ( کیونکہ ان کے جھوٹے فتو وں کے دھوکہ میں آکر گمراہی میں پھنسے رہتے ہیں اور حق کو قبول بلکہ طلب بھی نہیں کرتے) اور ( غایت حرص سے مال بھی جمع کرتے ہیں جسکی نسبت یہ وعید ہے کہ) جو لوگ سونا چاندی جمع کر کر رکھتے ہیں اور ان کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ( یعنی زکوٰة نہیں نکالتے) سو آپ ان کو ایک بڑی درد ناک سزا کی خبر سنا دیجئے، جو کہ اس روز واقع ہوگی کہ ان کو دوزخ کی آگ میں ( اول) تپایا جائے گا، پھر ان سے لوگوں کی پیشانیوں اور ان کی کروٹوں اور ان کی پشتوں کو داغ دیا جائے گا، ( اور یہ جتلایا جا ئیگا کہ) یہ وہ ہے جسکو تم نے اپنے واسطے جمع کر کر کے رکھا تھا، سو اب اپنے جمع کرنے کا مزہ چکھو “۔- معارف و مسائل - ان چاروں آیتوں میں یہود و نصارٰی کے علماء اور عباد و زہاد کی گمراہی اور ان کے کفریات قولی و عملی کا ذکر ہے احبار حبر کی جمع ہے اور رہبان راہب کی جمع ہے، حبر یہود و نصارٰی کے عام کو اور راہب عابد و زاہد کو کہا جاتا ہے۔- پہلی آیت میں فرمایا ہے کہ ان لوگوں نے اپنے علماء اور عبادت گذاروں کو اللہ کے سوا اپنا رب اور معبود بنا رکھا ہے، اسی طرح عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو اپنا رب بنا لیا ہے، حضرت عیسیٰ السلام کو رب و معبود بنانا تو اس لئے ظاہر ہے کہ وہ ان کو خدا تعالیٰ کا بیٹا مانتے ہیں اور کہتے تھے، اور علماء و عباد کو معبود بنانے کا جو الزام ان پر عائد کیا گیا ہے اگرچہ وہ صراحتہ ان کو اپنا رب نہ کہتے تھے اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اطاعت مطلقہ جو خالص اللہ جل شانہ کا حق ہے اس حق کو ان کے حوالے کردیا تھا، کہ حال میں ان کے کہنے کی پیروی کرتے تھے، اگرچہ انکا قول اللہ اور رسول کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، تو یہ ظاہر ہے کہ کسی کی ایسی اطاعت کرنا کہ اللہ و رسول کے فرمان کے خلاف بھی کہے تو اس کی اطاعت نہ چھوڑے یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی کو اپنا رب اور معبود کہے، جو کھلا ہوا کفر ہے۔- اس سے معلوم ہوا کہ مسائل دین سے ناواقف عوام کے لئے علماء کے فتوی کا اتباع درحقیقت خدا و رسول ہی کے احکام کا اتباع ہوتا ہے، اہل علم و نظر براہ راست اللہ و رسول کے کلام کو دیکھ کر اس پر عمل کرتے ہیں، اور ناواقف عوام اہل علم سے پوچھ کر انہی احکام پر عمل کرتے ہیں، اور اہل علم جو درجہ اجہتاد کا نہیں رکھتے وہ بھی اجتہادی مسائل میں ائمہ مجتہدین کا اتباع کرتے ہیں، یہ اتباع خود قرآن کریم کے حکم کے مطابق ہے اور حق تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے جیسا کہ ارشاد ہے : (آیت) فَسْــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ، یعنی اگر تم خود احکام خدا و رسول سے واقف نہیں تو اہل علم سے پوچھ کر عمل کیا کرو “۔- یہود و نصارٰی کے عوام نے کتاب اللہ اور احکام خدا و رسول کو بالکل نظر انداز کرکے خود غرض پیشہ ور علماء یا جاہل عبادت گذاروں کے قول و عمل ہی کو اپنا دین بنا لیا تھا، اس کی مذمت اس آیت میں فرمائی گئی ہے۔
اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ٠ ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــہًا وَّاحِدًا ٠ ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ٠ ۭ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ٣١- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- حبر - الحِبْرُ : الأثر المستحسن، ومنه ما روي :«يخرج من النّار رجل قد ذهب حبره وسبره» أي : جماله وبهاؤه، ومنه سمّي الحبر، وشاعر مُحَبِّر، وشعر مُحَبَّر، وثوب حَبِير : محسّن، ومنه : أرض مِحْبَار والحبیر من السحاب، وحَبِرَ فلان : بقي بجلده أثر من قرح،- والحَبْر :- العالم وجمعه : أَحْبَار، لما يبقی من أثر علومهم في قلوب الناس، ومن آثار أفعالهم الحسنة المقتدی بها، قال تعالی: اتَّخَذُوا أَحْبارَهُمْ وَرُهْبانَهُمْ أَرْباباً مِنْ دُونِ اللَّهِ [ التوبة 31] ، وإلى هذا المعنی أشار أمير المؤمنین رضي اللہ عنه بقوله :( العلماء باقون ما بقي الدّهر، أعيانهم مفقودة، وآثارهم في القلوب موجودة) وقوله عزّ وجلّ : فِي رَوْضَةٍ يُحْبَرُونَ [ الروم 15] ، أي : يفرحون حتی يظهر عليهم حبار نعیمهم .- ( ح ب ر ) الحبر ۔ وہ نشان جو عمدہ اور خوبصورت معلوم ہو حدیث میں ہے کہ آگ سے ایک آدمی نکلے گا جس کا حسن و جمال اور چہرے کی رونق ختم ہوچکی ہوگی اسی سے روشنائی کو حبرۃ کہا جاتا ہے ۔ شاعر محتبر عمدہ گو شاعر شعر محبر عمدہ شعر ۔ ثوب حبیر ملائم اور نیا کپڑا ۔ ارض محبار جلد سر سبز ہونے والی زمین ( الجمع محابیر ) الحبیر ( من اسحاب ) خوبصورت بادل ۔ حبر فلان اس کے جسم پر زخم کا نشان باقی ہے ۔ - الحبر - عالم کو کہتے ہیں اسلئے کہ لوگوں کے حلوں پر اس کے علم کا اثر باقی رہتا ہے ۔ اور افعال حسنہ میں لوگ اس کے نقش قدم پر چلتے ہیں اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت علیٰ نے فرمایا کہ علماء تاقیامت باقی رہیں گے اگرچہ ا ن کی شخصیتیں اس دنیا سے فنا ہوجاتی ہیں لیکن ان کا آثار لوگوں دلوں پر باقی رہتے ہیں حبر کی جمع اجار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اتَّخَذُوا أَحْبارَهُمْ وَرُهْبانَهُمْ أَرْباباً مِنْ دُونِ اللَّهِ [ التوبة 31] انہوں نے اپنے علماء اور مشائخ کو اللہ کے سوا خدا بنالیا ہے ۔ اور آیت کریمہ فِي رَوْضَةٍ يُحْبَرُونَ [ الروم 15] کے معنی یہ ہیں کہ وہ جنت میں اس قدر خوش ہوں گے کہ وہاں کی نعمتوں کی ترو تازگی کا اثر ان کے چہروں پر ہویدا ہوگا - رهب - الرَّهْبَةُ والرُّهْبُ : مخافة مع تحرّز و اضطراب، قال : لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر 13] ، وقال : جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص 32] ، وقرئ : مِنَ الرَّهْبِ ، أي : الفزع . قال مقاتل : خرجت ألتمس تفسیر الرّهب، فلقیت أعرابيّة وأنا آكل، فقالت : يا عبد الله، تصدّق عليّ ، فملأت كفّي لأدفع إليها، فقالت : هاهنا في رَهْبِي «5» ، أي : كمّي . والأوّل أصحّ. قال تعالی: وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً- [ الأنبیاء 90] ، وقال : تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ- [ الأنفال 60] ، وقوله : وَاسْتَرْهَبُوهُمْ- [ الأعراف 116] ، أي : حملوهم علی أن يَرْهَبُوا، وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ- [ البقرة 40] ، أي : فخافون، والتَّرَهُّبُ : التّعبّد، وهو استعمال الرّهبة، والرَّهْبَانِيّةُ : غلوّ في تحمّل التّعبّد، من فرط الرّهبة . قال : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها[ الحدید 27] ، والرُّهْبَانُ يكون واحدا، وجمعا، فمن جعله واحدا جمعه علی رَهَابِينَ ، ورَهَابِنَةٌ بالجمع أليق . والْإِرْهَابُ : فزع الإبل، وإنما هو من : أَرْهَبْتُ. ومنه : الرَّهْبُ «1» من الإبل، وقالت العرب : رَهَبُوتٌ خير من رحموت «2» .- ( ر ھ ب ) الرھب - والرھبۃ ایسے خوف کو کہتے ہیں جس میں احتیاط اور اضطراب بھی شامل ہو قرآن میں : ۔ لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر 13] تمہاری ہیبت تو ( ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے بڑھکر ہے جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص 32] اور دفع ) خوف کے لئے اپنے بازو سکیڑ لو ) ۔ اس میں ایک قرآت رھب بضمہ الراء بھی ہے ۔ جس کے معنی فزع یعنی گھبراہٹ کے ہیں متقاتل کہتے ہیں کہ رھب کی تفسیر معلوم کرنے کی غرض سے نکلا دریں اثنا کہ میں کھانا کھا رہا تھا ایک اعرابی عورت آئی ۔ اور اس نے کہا اسے اللہ کے بندے مجھے کچھ خیرات دیجئے جب میں لپ بھر کر اسے دینے لگا تو کہنے لگے یہاں میری آستین میں ڈال دیجئے ( تو میں سمجھ گیا کہ آیت میں بھی ( ھب بمعنی آستین ہے ) لیکن پہلے معنی یعنی گھبراہٹ کے زیادہ صحیح ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً [ الأنبیاء 90] ہمارے فضل کی توقع اور ہمارے عذاب کے خوف سے ہمیں پکارتے رہتے ہیں ) تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ [ الأنفال 60] اس سے تم اللہ کے دشمنوں پر اور اپنے دشمنوں پر دھاک بٹھائے رکھو گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] اور ان کو دہشت میں ڈال دیا ۔ میں استر ھاب کے معنی دہشت زدہ کرنے کے ہیں ۔ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ [ البقرة 40] اور مجھ سے ہی ڈرو ۔ اور ترھب ( تفعیل کے معنی تعبد یعنی راہب بننے اور عبادت ہیں خوف سے کام لینے کے ہیں اور فرط خوف سے عبادت گذاری میں غلو کرنے رھبانیۃ کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها[ الحدید 27] اور رہبانیت ( لذت دنیا کا چوڑ بیٹھنا جو انہوں نے از خود ایجاد کی تھی ۔ اور رھبان ( صومعہ لوگ واحد بھی ہوسکتا ہے اور جمع بھی جو اس کو واحد دیتے ہیں ان کے نزدیک اس کی جمع رھا بین آتی ہے لیکن اس کی جمع رھا بتۃ بنانا زیادہ مناسب ہے الا رھاب ( افعال ) کے اصل معنی اونٹوں کو خوف زدہ کرنے کے ہیں یہ ارھبت ( فعال کا مصدر ہے اور اسی سے زھب ہے جس کے معنی لاغر اونٹنی ( یا شتر نر قوی کلاں جثہ ) کے میں مشہور محاورہ ہے : ۔ کہ رحم سے خوف بہتر ہے ۔- _- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - سبحان - و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر - «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة .- ( س ب ح ) السبح - ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔
احبار و رہبان - قول باری ہے (اتخذوا العبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ والمسیح ابن مریم انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنالیا ہے) ایک قول کے مطابق حبر اس عالم کو کہتے ہیں جس کے اندر یہ خوبی ہو کہ وہ اپنے حسین انداز بیان کے ذریعے معانی میں عمدگی پیدا کردے۔ ایسے شخص کو جبر اور جبیر بھی کہا جاتا ہے۔ راہب ڈر اور خوف رکھنے والے انسان کو کہتے ہیں جس کے لباس سے خوف و خشیت ظاہر ہورہی ہو۔ راہب کی جمع رہبان ہے۔ اس لفظ کا استعمال عیسائیوں کے درویشوں کے لئے کیا جاتا ہے۔- علماء اور درویش کن معنوں میں رب بنائے گئے - قول باری (ارباباً من دون اللہ) کی تفسیر میں دو وجوہ بیان کئے گئے ہیں ایک تو یہ کہ انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو بایں معنی رب بنالیا تھا کہ جس چیز کو یہ حرام قرار دیتے اسے یہ حرام سمجھ لیتے اور جس چیز کو حلال کردیتے اسے یہ حلال قرار دے دیتے۔ عدی (رض) بن حاتم کی روایت میں ہے کہ جب وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے تو آپ نے ان کے سامنے یہ آیت تلاوت فرمائی (اتخذوا احبارھم ورھبا نھم ارباباً من دون اللہ) عدی نے عرض کیا کہ لوگ ان کی پرستش نہیں کرتے تھے پھر ان میں رب کس طرح قرار دیا گیا ؟ یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا یہ بات نہیں تھی کہ جب احبار و رہبان کسی چیز کو حرام قرار دیتے تو لوگ اسے حرام سمجھ لیتے اور جب کسی چیز کو حلال قرار دیتے تو اسے حلال سجھ لیتے عدی نے اس کا جواب اثبات میں دیا اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہی ان پر پرستش تھی جو لوگ کیا کرتے تھے۔ تحلیل و تحریم کا حکم نہ صرف اس ذات کی طرف سے درست ہوسکتا ہے جو بندوں کے تمام صالح سے آگاہ ہو لیکن جب انہوں نے تحلیل و تحریم کے سلسلے میں اپنے احبار و رہبان کی تقلید کی اور اس بارے میں ان کی کہی ہوئی باتوں کو قبول کیا اور اللہ کے احکامات کو نظر انداز کردیا جو تحلیل و تحریم کے سلسلے میں انہیں دیئے گئے تھے تو انہیں اپنے احبار و رہبان کو رب بنا لینے والے قرار دیا گیا کیونکہ انہوں نے انہیں وہی مرتبہ دے دیا تھا جو رب کا ہوتا ہے۔- دوسری توجیہ یہ ہے کہ لوگ ان کی اس طرح تعظیم کرتے تھے جس طرح رب کی کی جاتی ہے اس لئے کہ انہیں دیکھ کر لوگ ان کے آگے سجدے میں گرپڑتے تھے۔ اللہ کے سوا کوئی اور اس نوعیت کی تعظیم کا مستحق نہیں ہوتا۔ جب انہوں نے اپنے احبار و رہبان کی اس طرح تعظیم شروع کردی تو ان پر یہ حکم عائد کردیا گیا کہ انہوں نے ان لوگوں کو اپنا رب بنالیا ہے۔
(٣١) ان یہودیوں نے اپنے علماء کو اور عیسائیوں نے اپنے مشائخ کو رب بنارکھا ہے معصیت خداوندی میں ان کی اطاعت کرتے ہیں اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کو بھی ایک اعتبار سے خدا بنا رکھا ہے حالانکہ ان کو تمام آسمانی کتب میں صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کریں
آیت ٣١ (اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ ج) - عیسائیوں میں دوسری بڑی گمراہی یہ پیدا ہوئی تھی کہ انہوں نے اپنے علماء و مشائخ اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو بھی الوہیت میں حصہ دار بنا لیا تھا۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) تو ان کے ہاں باقاعدہ تین خداؤں میں سے ایک تھے اور اس حیثیت میں وہ آپ ( علیہ السلام) کی پرستش بھی کرتے تھے ‘ مگر احبارو رہبان کو رب ماننے کی کیفیت ذرا مختلف تھی۔ حضرت عدی بن حاتم (رض) (جنہوں نے عیسائیت سے اسلام قبول کیا تھا) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس آیت کے بارے میں وضاحت کی درخواست کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : - (اَمَا اِنَّھُمْ لَمْ یَکُوْنُوْا یَعْبُدُوْنَھُمْ وَلٰکِنَّھُمْ کَانُوْا اِذَا اَحَلُّوْا شَیْءًا اسْتَحَلُّوْہُ وَاِذَا حَرَّمُوْا عَلَیْھُمْ شَیْءًا حَرَّمُوْہُ ) (١)- وہ ان (احبارو رہبان) کی عبادت تو نہیں کرتے تھے ‘ لیکن جب وہ کسی شے کو حلال قرار دیتے تو یہ اسے حلال مان لیتے اور جب کسی شے کو حرام قرار دیتے تو اسے حرام مان لیتے - یعنی حلال و حرام کے بارے میں قانون سازی کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے ‘ اور اگر کوئی دوسرا اس حق کو استعمال کرتا ہے تو گویا وہ اللہ کی الوہیت میں حصہ دار بن رہا ہے ‘ اور جو کوئی اللہ کے علاوہ کسی کا یہ حق تسلیم کرتا ہے وہ گویا اسے اللہ کے سوا اپنا رب تسلیم کر رہا ہے۔- آج بھی پوپ کو پورا اختیار حاصل ہے کہ وہ جو چاہے فیصلہ کرے۔ جیسا کہ اس نے ایک فرمان کے ذریعے سے یہودیوں کو دو ہزار سال پرانے اس الزام سے بری کردیا ‘ کہ انہوں نے حضرت مسیح ( علیہ السلام) کو سولی پر چڑھایا تھا۔ گویا اسے تاریخ تک کو بدل دینے کا اختیار ہے ‘ اسی طرح وہ کسی حرام چیز کو حلال اور حلال کو حرام قرار دے سکتا ہے۔ اس طرح کے تصورات ہمارے ہاں اسماعیلیوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ان کا امام حاضر معصوم ہوتا ہے اور اسے اختیار حاصل ہے کہ وہ جس چیز کو چاہے حلال کر دے اور جس چیز کو چاہے حرام کر دے۔ اس طرح انہوں نے شریعت کو ساقط کردیا ہے۔ تاہم یہ معاملہ بالخصوص گجرات (انڈیا) کے علاقے میں بسنے والے اسماعیلیوں کا ہے ‘ جبکہ ہنزہ میں جو اسماعیلی آباد ہیں ان کے ہاں شریعت موجود ہے ‘ کیونکہ یہ پرانے اسماعیلی ہیں جو باہر سے آکر یہاں آباد ہوئے تھے۔ گجرات (انڈیا) کے علاقہ میں اسماعیلیوں نے جب مقامی آبادی میں اپنے نظریات کی تبلیغ شروع کی تو انہوں نے وہی کیا جو سینٹ پال نے کیا تھا۔ انہوں نے شریعت کو ساقط کردیا اور ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق اوتار کا عقیدہ اپنا لیا۔ مقامی ہندو آبادی میں اپنے نظریات کی آسان ترویج کے لیے انہوں نے حضرت علی (رض) کو دسویں اوتار کے طور پر پیش کیا (ہندوؤں کے ہاں نو اوتار کا عقیدہ رائج تھا) ۔ لہٰذا دشتم اوتار کا عقیدہ مستقل طور پر ان کے ہاں رائج ہوگیا۔ اس کے علاوہ ان کے حاضر امام کو مکمل اختیار ہے کہ وہ شریعت کے جس حکم کو چاہے منسوخ کر دے ‘ کسی حلال چیز کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال کر دے۔
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :31 حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عدی بن حاتم ، جو پہلے عیسائی تھے ، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر مشرف با اسلام ہوئے تو انہوں نے منجملہ اور سوالات کے ایک یہ سوال بھی کیا تھا کہ اس آیت میں ہم پر اپنے علماء اور درویشوں کو خد ا بنا لینے کا جو الزام عائد کیا گیا ہے اس کی اصلیت کیا ہے ۔ جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ واقعہ نہیں ہے کہ جو کچھ یہ لوگ حرام قرار دیتے ہیں اسے تم حرام مان لیتے ہو اور جو کچھ یہ حلال قرار دیتے ہیں اسے حلال مان لیتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ یہ تو ضرور ہم کرتے رہے ہیں ۔ فرمایا بس یہی ان کو خد ا بنا لینا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ کتاب اللہ کی سند کے بغیر جو لوگ انسانی زندگی کے لیے جائز و ناجائز کی حدود مقرر کرتے ہیں وہ دراصل خدائی کے مقام پر بزعم خود متمکن ہوتے ہیں اور جو ان کے اس حق شریعت سازی کو تسلیم کرتے ہیں وہ انہیں خدابناتے ہیں ۔ یہ دونوں الزام ، یعنی کسی کو خدا کا بیٹا قرار دینا ، اور کسی کو شریعت سازی کا حق دے دینا ، اس بات کے ثبوت میں پیش کیے گئے ہیں کہ یہ لوگ ایمان باللہ کے دعوے میں جھوٹے ہیں ۔ خدا کی ہستی کو چاہے یہ مانتے ہوں مگر ان کا تصور خدائی اس قدر غلط ہے کہ اس کی وجہ سے ان کا خدا کو ماننا نہ ماننے کے برابر ہو گیا ہے ۔
30: ان کو خدا بنانے کا جو مطلب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے علماء کو یہ اختیارات دے رکھے ہیں کہ وہ جس کو چاہیں، حلال اور جس چیز کو چاہیں، حرام قرار دے دیں، واضح رہے کہ عام لوگ جو کسی آسمانی کتاب کا براہ راست علم نہیں رکھتے، ان کو شریعت کا حکم معلوم کرنے کے لئے علماء سے رجوع توکرنا ہی پڑتا ہے، اور اﷲ تعالیٰ کے حکم کے شارح کی حیثیت میں ان کی بات ماننی بھی پڑتی ہے۔ اس کا حکم خود قرآنِ کریم نے سورۂ نحل (۱۶: ۴۳) اور سورۂ انبیاء (۲۱:۷) میں دیا ہے۔ اس حد تک تو کوئی بات قابل اعتراض نہیں۔ لیکن یہود ونصاریٰ نے اس سے آگے بڑھ کر اپنے علماء کو بذات خود احکام وضع کرنے کا اختیار دے رکھا تھا کہ وہ آسمانی کتاب کی تشریح کے طور پر نہیں،؛ بلکہ اپنی مرضی سے جس چیز کو چاہیں، حلال اور جس چیز کو چاہیں، حرام قرار دے دیں، خواہ ان کا یہ حکم اللہ کی کتاب کے مخالف ہی کیوں نہ ہو۔