Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 دلائل وبراہین کے لحاظ سے تو یہ غلبہ ہر وقت حاصل ہے۔ تاہم مسلمانوں نے دین پر عمل کیا تو انہیں دنیاوی غلبہ بھی حاصل ہوا۔ اور اب بھی مسلمان اگر اپنے دین کے عامل بن جائیں تو ان کا غلبہ یقینی ہے، اس لئے کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ حزب اللہ غالب و فاتح ہوگا۔ شرط یہی ہے کہ مسلمان حزب اللہ بن جائیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٣] آپ کی بعثت کا مقصد اسلام کی نظریاتی اور سیاسی بالادستی :۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ نے رسول اس لیے بھیجا ہے کہ ساری دنیا کو مسلمان بنا کے چھوڑے۔ بلکہ یہ مطلب ہے کہ دنیا میں جو جو دین یا نظام ہائے زندگی رائج ہیں ان سب پر بلحاظ عقل اور دلیل و حجت اسلام کی بالادستی قائم ہوجائے۔ مثلاً دور نبوی میں یہودیت ایک دین تھا۔ عیسائیت، مجوسیت، منافقت، صائبیت، مشرکین کا دین۔ ان سب ادیان کے عقائد الگ الگ تھے۔ اور انہی عقائد کی مناسبت سے ان کا پورے کا پورا نظام زندگی ترتیب پاتا تھا۔ رسول کی بعثت کا مقصد اللہ کے نزدیک یہ ہے کہ ان تمام باطل ادیان کے نظام ہائے زندگی پر اسلام کی برتری اور بالادستی قائم کر دے۔ اور عقل اور دلیل و حجت کے لحاظ سے اسلام کی یہ برتری اور بالادستی آج تک قائم ہے۔ بیرون عرب ادیان باطل کی مثالیں۔ ہندو ازم، سکھ ازم، بدھ ازم، جمہوریت اور اشتراکیت وغیرہ ہیں۔ ایسے سب ادیان پر اسلام کی برتری اور بالادستی کو بہ دلائل ثابت کرنا علمائے اسلام کا فریضہ ہے۔ یہ تو نظریاتی برتری ہوئی۔ اور سیاسی برتری کے لحاظ سے بھی اللہ نے اسے کئی صدیوں تک غالب رکھا۔ بعد میں جب مسلمانوں میں اخلاقی انحطاط اور انتشار رونما ہوا تو مسلمانوں سے یہ نعمت چھین لی گئی۔- اور اس کا اصول یہ ہے کہ جب تک اور جہاں تک مسلمان اپنے نظام زندگی اسلامی نظریات کے مطابق ڈھالیں گے اسی حد تک مسلمانوں کو غیر مسلم اقوام پر سیاسی بالادستی اور برتری حاصل ہوگی جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میں بالقوۃ یہ استعداد موجود ہے کہ وہ سیاسی طور پر بھی تمام غیر مسلم اقوام اور نظریات پر غلبہ حاصل کرے۔ اگرچہ مسلمانوں کی عملی کوتاہیوں کی وجہ سے یہ استعداد بالفعل منظر عام پر نہ آسکتی ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بالْهُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ : اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کا دین اس لیے نہیں آیا کہ وہ کسی دوسرے دین، بت پرستی، دہریت، یہودیت، عیسائیت، جمہوریت یا سوشلزم سے مغلوب ہو کر اس سے مصالحت کرکے دنیا میں زندہ رہے، بلکہ دین اسلام کا اول و آخر مقصد یہ ہے کہ وہ دوسرے تمام ادیان اور نظام ہائے زندگی کو مغلوب کرکے ساری دنیا پر غالب دین اور نظام زندگی کی حیثیت سے زندہ رہے۔ یہاں ” لِيُظْهِرَهٗ “ میں ظہور (غلبہ) سے مراد دلائل وبراہین کے ساتھ غلبہ بھی ہے اور حکمرانی کے لحاظ سے بھی۔ پہلی قسم کا غلبہ تو ہمیشہ اور دائمی ہے اور آج تک کوئی شخص قرآن کے چیلنج تین آیتوں کی سورت کا جواب لانے کی جرأت نہیں کرسکا۔ دوسری قسم کا غلبہ ایک مرتبہ ہم دور نبوت و خلافت میں دیکھ چکے ہیں اور دوبارہ مزید غلبے کی بشارتیں ضرور پوری ہو کر رہیں گی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے صحیح مومن ہونے کی شرط لگائی ہے، فرمایا : (وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ) [ آل عمران : ١٣٩ ] ” اور تم ہی غالب ہو اگر تم مومن ہو۔ “ الحمد للہ مسلمانوں اور کافروں کے درمیان مختلف مقامات پر جہاد کے ساتھ اس کے آثار شروع ہوچکے ہیں۔ ثوبان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میرے لیے یہ زمین، اس کے مشرق و مغرب لپیٹ دیے گئے اور میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچے گی جو میرے لیے اس میں سے لپیٹا گیا ہے۔ “ [ مسلم، الفتن، باب ھلاک ھٰذہ الأمۃ بعضھم ببعض : ٢٨٨٩]- مقداد بن اسود (رض) فرماتے ہیں کہ زمین کی پشت پر نہ کوئی اینٹ کا مکان اور نہ پشم کا (خیمہ) باقی رہے گا، مگر اللہ تعالیٰ اس میں اسلام کا کلمہ داخل کر دے گا، عزت والے کو عزت بخش کر اور ذلیل کو ذلت دے کر، یا تو انھیں عزت بخشے گا تو وہ اس میں داخل ہوجائیں گے، یا انھیں ذلیل کرے گا تو اس کے تحت ہوجائیں گے۔ [ مستدرک حاکم : ٤؍٤٣٠، ح : ٨٣٢٤ و صححہ ھو والذھبی ] یہ پیش گوئی ابھی پوری نہیں ہوئی، پوری ہو کر رہے گی۔ (ان شاء اللہ) جابر بن سمرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا، اس پر مسلمانوں کی ایک قوی جماعت لڑتی رہے گی، حتیٰ کہ قیامت قائم ہو۔ “ [ مسلم، الإمارۃ، باب قولہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : لا تزال طائفۃ من أمتی۔۔ : ١٩٢٢ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اس کے بعد تسیری آیت کے مضمون کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ہدایت کا سامان یعنی قرآن اور دین حق یعنی اسلام دے کر اسی لئے بھیجا ہے تاکہ اس کو دنیا کے تمام بقیہ دینوں پر غالب کردے، تقریباً انہی لفظوں کے ساتھ قرآن کریم میں متعدد آیات آئی ہیں جن میں یہ وعدہ ہے کہ دین اسلام کو تمام دنیا کے ادیان پر غالب کیا جائے گا۔- تفسیر مظہری میں ہے کہ دین اسلام کو تمام دوسرے دینوں پر غالب کرنے کی خوشخبری اکثر زمانوں اور اکثر حالات کے اعتبار سے ہے جیسا کہ حضرت مقداد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ روئے زمین پر کوئی کچا پکا مکان باقی نہ رہے گا جس میں اسلام کا کلمہ داخل نہ ہوجائے، عزت داروں کی عزت کے ساتھ اور ذلیل لوگوں کی ذلت کے ساتھ جن کو اللہ تعالیٰ عزت دیں گے وہ مسلمان ہوجائیں گے اور جن کو ذلیل کرنا ہوگا وہ اسلام کو قبول تو نہ کریں گے مگر اسلامی حکومت کے تابع ہوجائیں گے، چناچہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوا، ایک ہزار سال کے قریب اسلام کی شان و شوکت پوری دنیا پر چھائی رہی۔- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سلف صالحین کے عہد مبارک میں تو اس نور کی تکمیل و اتمام کا مشاہدہ ساری دنیا کر ہی چکی ہے، اور آئندہ بھی دلائل اور حقائق کے اعتبار سے ہر زمانہ میں دین اسلام ایسا مکمل دین ہے کہ کسی معقول پسند انسان کو اس پر حرف گیری کا موقع نہیں مل سکتا، اس لئے کفار کی مخالفتوں کے باوجود یہ دین حق اپنی حجت و دلیل کے اعتبار سے ہمیشہ غالب ہے، اور جب مسلمان اس دین کی پوری پیروی کریں تو ان کا ظاہری غلبہ اور حکومت و سلطنت بھی اس کے لوازم میں سے ہے، جیسا کہ تاریخ اسلام کا تجربہ اس پر شاہد ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے قرآن و سنت پر پوری طرح عمل کیا تو کوئی کوہ و دریا ان کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکا، اور یہ پوری دنیا پر غالب آکر رہے، اور جب کبھی جہاں کہیں ان کو مغلوب یا مقہور ہونے کی نوبت آئی ہے، تو وہ قرآن و سنت کے احکام سے غفلت اور خلاف ورزی کا نتیجہ بد تھا، جو ان کے سامنے آیا، دین حق پھر بھی اپنی جگہ مظفر و منصور ہی رہا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۝ ٠ ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ۝ ٣٣- رسل ( ارسال)- والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، - ( ر س ل ) الرسل - الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔- رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- كره - قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ :- ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] - ( ک ر ہ ) الکرہ - ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

بعثت نبوی کی غرض و غایت ، غلبہ اسلام کے لئے ہے - قول باری ہے (ھو الذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ۔ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کردے) اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان کے لئے بشارت ہے کہ اللہ ان کی مدد کرے گا اور ان کے دین کو تمام دوسرے ادیان پر غالب کردے گا۔ یعنی حجت و دلائل کی قوت اور غلبے کے ذریعے یہ دوسری تمام امتوں پر اس امت کو غلبہ عطا کرکے اللہ تعالیٰ دین اسلام کا پرچم بلند کردے گا۔ آیت میں جس امر کی خبر دی تھی واقعاتی دنیا میں بھی ایسا ہی پیش آیا۔ یہ امت دین اسلام کی مخالفت اور دشمن قوتوں اور قوموں پر غالب آگئی اور ان پر اسے بالادستی حاصل ہوگئی۔- اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صداقت پر دلالت موجود ہے۔ نیز یہ دلالت بھی ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور اللہ کے پاس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے اس لئے کہ اس قسم کی پیشین گوئیاں اندازے لگانے والوں نیز طن و تخمین کی بنیاد پر آئندہ کی باتیں بتانے والوں اور جھوٹی خبریں دینے والوں کو میسر نہیں آسکتیں جبکہ قرآن میں کثرت سے غیب کی خبریں بتائی گئی ہیں۔ اور غیب کی خبر اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں ہوسکتی اس لئے قرآن مجید، اللہ کا کلام ہے اور اس میں بیان ہونے والی باتیں اللہ کی طرف سے دی ہوئی خبریں ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنا کلام صرف اپنے رسولوں پر نازل کرتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٣) اس ذات نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن و ایمان اور دین اسلام یعنی شہادت ” اشھد ان لاالہ اللہ “۔ دے کر بھیجا تاکہ قیام قیامت تک دین اسلام کو تمام سابقہ دینوں پر غلبہ دے دے اگرچہ مشرکین اس سے کتنے ہی ناخوش ہوں،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ (ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖلا وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ) - یہ آیت بہت واضح انداز میں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی امتیازی یا تکمیلی شان کا مظہر ہے۔ جیسے کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے ‘ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا بنیادی مقصد تو دوسرے انبیاء ورسل کی طرح تبشیر ‘ انذار ‘ تذکیر ‘ دعوت اور تبلیغ ہے ‘ جس کا تذکرہ سورة النساء (آیت ١٦٥) میں بایں الفاظ موجود ہے : (رُسُلاً مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِءَلاَّ یَکُوْنَ للنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌم بَعْدَ الرُّسُلِ ط) لیکن اس کے علاوہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا ایک امتیازی اور خصوصی مقصد بھی ہے اور وہ ہے تکمیل رسالت ‘ یعنی دین کو بالفعل قائم اور غالب کرنا۔ اِن دو آیات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی اسی تکمیلی شان کا ذکر ہے۔ آیات کا یہ جوڑا بالکل اسی ترتیب سے سورة الصف (آیت ٨ اور ٩) میں بھی آیا ہے۔ ان میں سے پہلی آیت سورة الصف میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ آئی ہے : (یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِءُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ ) جبکہ دوسری آیت جوں کی توں ہے ‘ اس میں اور سورة التوبہ کی اس آیت میں بالکل کوئی فرق نہیں ہے۔ میں نے اس آیت پر چو بیس صفحات پر مشتمل ایک مقالہ لکھا تھا جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقصد بعثت کے عنوان سے شائع ہوتا ہے۔ اس کتاب میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے خصوصی یا امتیازی مقصد کی کلی انداز میں تکمیل یعنی دنیا میں دین کو قائم اور غالب کرنے کی جدوجہد ہم سب پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امتی ہونے کی حیثیت سے فرض ہے۔ اگرچہ بہت سے لوگوں نے اس فرض سے جان چھڑانے کے لیے بھی دلائل دیے ہیں کہ دین کو ہم انسانوں نے نہیں بلکہ اللہ نے غالب کرنا ہے ‘ لیکن اس کتاب کے مطالعے سے آپ پر واضح ہوگا کہ اس فرض سے فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :32 متن میں”الدین“ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا ترجمہ ہم نے ”جنس دین“ کیا ہے ۔ دین کا لفظ ، جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں ، عربی زبان میں اس نظام زندگی یا طریق زندگی کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کے قائم کرنے والے کو سند اور مُطاع تسلیم کر کے اس کا اتباع کیا جائے ۔ پس بعثت رسول کی غرض اس آیت میں یہ بتائی گئی ہے کہ جس ہدایت اور دین حق کو وہ خدا کیطرف سے لایا ہے اسے دین کی نوعیت رکھنے والے تمام طریقوں اور نظاموں پر غالب کر دے ۔ دوسرے الفاظ میں رسول کی بعثت کبھی اس غرض کے لیے نہیں ہوئی کہ جو نظام زندگی لے کر وہ آیا ہے وہ کسی دوسرے نظام زندگی کا تابع اور اس سے مغلوب بن کر اور اس کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجائشوں میں سمٹ کر رہے ۔ بلکہ وہ بادشاہ ارض و سما کا نمائندہ بن کر آیا ہے اور اپنے بادشاہ کے نظام حق کو غالب دیکھنا چاہتا ہے ۔ اگر کوئی دوسرا نظام زندگی دنیا میں رہے بھی تو اسے خدائی نظام کی بخشی ہوئی گنجائشوں میں سمٹ کر رہنا چاہیے جیسا کہ جزیہ ادا کرنے کی صورت میں ذمیوں کا نظام زندگی رہتا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو الزمر ، حاشیہ ۳ ، المومن ، حاشیہ ٤۳ – الشوریٰ حاشیہ ۲۰ )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani