Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

یہودیوں کے علماء کو احبار اور نصاریٰ کے عابدوں کو رہبان کہتے ہیں ۔ ( لَوْلَا يَنْھٰىهُمُ الرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَاَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۭلَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ 63؀ ) 5- المآئدہ:63 ) میں یہود کے علماء کو احبار کہا گیا ہے ۔ نصرانیوں کے عابدوں کو رہبان اور ان کے علماء کو قسیس ۔ اس آیت میں کہا گیا ( ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيْسِيْنَ وَرُهْبَانًا وَّاَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ 82؀ ) 5- المآئدہ:82 ) آیت کا مقصود لوگوں کو بڑے علماء اور گمراہ صوفیوں اور عابدوں سے ہوشیار کرانا اور ڈرانا ہے ۔ حضرت سفیان بن عینیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ ہمارے علماء میں سے وہی بگڑتے ہیں ، جن میں کچھ نہ کچھ شائبہ یہودیت کا ہوتا ہے اور ہم مسلمانوں میں صوفیوں اور عابدوں میں سے وہی بگڑتے ہیں جن میں نصرانیت کا شائبہ ہوتا ہے ۔ صحیح حدیث شریف میں ہے کہ تم یقیناً اپنے سے پہلوں کی روش پر چل پڑو گے ۔ ایسی پوری مشابہت ہو گی کہ ذرا بھی فرق نہ رہے گا لوگوں نے پوچھا کیا یہود و نصاریٰ کی روش پر؟ آپ نے فرمایا ہاں انہی کی روش پر اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے پوچھا کیا فارسیوں اور رومیوں کی روش پر؟ آپ نے فرمایا اور کون لوگ ہیں؟ پس ان کے اقوال افعال کی مشابہت سے ہر ممکن بچنا چاہئے ۔ اس لئے کہ یہ اس وجاہت سے ریاست و منصب حاصل کرنا اور اس وجاہت سے لوگوں کا مال غصب کرنا چاہتے ہیں ۔ احبار یہود کو زمانہ جاہلیت میں بڑا ہی رسوخ حاصل تھا ۔ ان کے تحفے ، ہدیئے ، خراج ، چراغی مقرر تھی جو بغیر مانگے انہیں پہنچ جاتی تھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بعد اسی طمع نے انہیں قبول اسلام سے روکا ۔ لیکن حق کے مقابلے کی وجہ سے اس طرف سے بھی کورے رہے اور آخرت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ۔ ذلت و حقارت ان پر برس پڑی اور غضب الٰہی میں مبتلا ہو کر تباہ و برباد ہوگئے ۔ یہ حرام خور جماعت خود حق سے رک کر اوروں کے بھی درپے رہتی تھی حق کو باطل سے خلط ملط کر کے لوگوں کو بھی راہ حق سے روک دیتے تھے ۔ جاہلوں میں بیٹھ کر گپ ہانکتے کہ ہم لوگوں کو راہ حق کی طرف بلاتے ہیں حالانکہ یہ صریح دھوکہ ہے وہ تو جہنم کی طرف بلانے والے ہیں قیامت کے دن یہ بےیارو مددگار چھوڑ دیئے جائیں گے ۔ عالموں اور صوفیوں یعنی واعظوں اور عابدوں کا ذکر کرنے کے بعد اب امیروں دولت مندوں اور رئیسوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ جس طرح یہ دونوں طبقے اپنے اندر بدترین لوگوں کو بھی رکھتے ہیں ایسے ہی اس تیسرے طبقے میں بھی شریر النفس لوگ ہوتے ہیں عموماً انہی تین طبقے کے لوگوں کا عوام پر اثر ہوتا ہے عوام کی کثیر تعداد ان کے ساتھ بلکہ ان کے پیچھے ہوتی ہیں پس ان کا بگڑنا گویا مذہبی دنیا کا ستیاناس ہونا ہے جیسے کہ حضرت ابن المبارک رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں ۔ وھل افسدالدین الا الملوک واحبار سوء ورھبانھا یعنی دین واعظوں ، عالموں ، صوفیوں اور درویشوں کے ناپاک طبقے سے ہی بگڑتا ہے ۔ کنز اصطلاح شرع میں اس مال کو کہتے ہیں جس کی زکوٰۃ ادا کی جاتی ہو ۔ حضرت ابن عمر سے یہی مروی ہے بلکہ فرماتے ہیں جس مال کی زکوٰۃ دے دی جاتی ہو وہ اگر ساتویں زمین تلے بھی ہو تو وہ کنز نہیں اور جس کی زکوٰۃ نہ دی جاتی ہو وہ گو زمین پر ظاہر پھیلا پڑا ہو کنز ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی موقوفاً اور مرفوعاً یہی مروی ہے ۔ حضرت عمر بن خطاب بھی یہی فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں بغیر زکوٰۃ کے مال سے اس مالدار کو داغا جائے گا ۔ آپ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ یہ زکوٰۃ کے اترنے سے پہلے تھا زکوٰۃ کا حکم نازل فرما کر اللہ نے اسے مال کی طہارت بنا دیا ۔ خلیفہ برحق حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ اور عراک بن مالک نے بھی یہی فرمایا ہے کہ اسے قول ربانی ( خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً تُطَهِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۭ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّھُمْ ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ ١٠٣؁ ) 9- التوبہ:103 ) نے منسوخ کر دیا ہے ۔ حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں کہ تلواروں کا زیور بھی کنز یعنی خزانہ ہے ۔ یاد رکھو میں تمہیں وہی سناتا ہوں جو میں نے جناب پیغمبر حق صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ چار ہزار اور اس سے کم تو نفقہ ہے اور اس سے زیاہ کنز ہے ۔ لیکن یہ قول غریب ہے ۔ مال کی کثرت کی مذمت اور کمی کی مدحت میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں بطور نمونے کے ہم بھی یہاں ان میں سے چند نقل کرتے ہیں ۔ مسند عبدالرزاق میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سونے چاندی والوں کے لئے ہلاکت ہے تین مرتبہ آپ کا یہی فرمان سن کر صحابہ پر شاق گذرا اور انہوں نے سوال کیا کہ پھر ہم کس قسم کا مال رکھیں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حالت بیان کر کے یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ ذکر کرنے والی زبان شکر کرنے والا دل اور دین کے کاموں میں مدد دینے والی بیوی ۔ مسند احمد میں ہے کہ سونے چاندی کی مذمت کی یہ آیت جب اتری اور صحابہ نے آپس میں چرچا کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا لو میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر آتا ہوں اپنی سواری تیز کر کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملے اور روایت میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا پھر ہم اپنی اولادوں کے لئے کیا چھوڑ جائیں؟ اس میں ہے کہ حضرت عمر کے پیچھے ہی پیچھے حضرت ثوبان بھی تھے ۔ آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سوال پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ اسی لئے مقرر فرمائی ہے کہ بعد کا مال پاک ہو جائے ۔ میراث کے مقرر کرنے کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ جمع کرنے میں کوئی حرج نہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر مارے خوشی کے تکبیریں کہنے لگے ۔ آپ نے فرمایا لو اور سنو میں تمہیں بہترین خزانہ بتاؤں نیک عورت جب اس کا خاوند اس کی طرف نظر ڈالے تو وہ اسے خوش کر دے اور جب حکم دے فوراً بجا لائے اور جب وہ موجود نہ ہو تو اس کی ناموس کی حفاظت کرے ۔ حسان بن عطیہ کہتے ہیں کہ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ ایک سفر میں تھے ایک منزل میں اترے اور اپنے غلام سے فرمایا کہ چھری لاؤ کھیلیں مجھے برا معلوم ہو آپ نے افسوس ظاہر کیا اور فرمایا میں نے تو اسلام کے بعد سے اب تک ایسی بے احتیاطی کی بات کبھی نہیں کی تھی اب تم اسے بھول جاؤ اور ایک حدیث بیان کرتا ہوں اسے یاد رکھو لو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب لوگ سونا چاندی جمع کرنے لگیں تم ان کلمات کو بکثرت کہا کرو ۔ اللھم انی اسئلک الثبات فی الامر والعزیمۃ علی الرشد واسئلک شکر نعمتک واسئلک حسن عبادتک واسئلک قلباسلیماواسئلک لساناصادقاواسئلک من خیر ماتعلم واعوذبک من شرماتعلم واستغفرک لما تعلم انک انت علام الغیوب ( ترجمہ ) یعنی یا اللہ میں تجھ سے کام کی ثابت قدمی اور بھلائیوں کی پختگی اور تیری نعمتوں کا شکر اور تیری عبادتوں کی اچھائی اور سلامتی والا دل اور سچی زبان اور تیرے علم میں جو بھلائی ہے وہ اور تیرے علم میں جو برائی ہے اس کی پناہ اور جن برائیوں کو تو جانتا ہے ان سے استغفار طلب کرتا ہوں ۔ میں مانتا ہوں کہ تو تمام غیب جاننے والا ہے ۔ آیت میں بیان ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنے مال کو خرچ نہ کرنے والے اور اسے بچا بچا کر رکھنے والے درد ناک عذاب دیئے جائیں گے ۔ قیامت کے دن اسی مال کو خوب تپا کر گرم آگ جیسا کر کے اس سے ان کی پیشانیاں ، پہلو اور کمر داغی جائے گی اور بطور ڈانٹ ڈپٹ کے ان سے فرمایا جائے گا کہ لو اپنی جمع جتھا کا مزہ چکھو ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ فرشتوں کو حکم ہو گا کہ گرم پانی کا تریڑ دوزخیوں کے سروں پر بہاؤ اور ان سے کہو کہ عذاب کا لطف اٹھاؤ تم بڑے ذی عزت اور بزرگ سمجھے جاتے رہے ہو بدلہ اس کا یہ ہے ۔ ثابت ہوا کہ جو شخص جس چیز کو محبوب بنا کر اللہ کی اطاعت سے اسے مقدم رکھے گا اسی کے ساتھ اسے عذاب ہو گا ۔ ان مالداروں نے مال کی محبت میں اللہ کے فرمان کو بھلا دیا تھا آج اسی مال سے انہیں سزا دی جا رہی ہے جیسے کہ ابو لہب کھلم کھلا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی کرتا تھا اور اس کی بیوی اس کی مدد کرتی تھی قیامت کے دن آگ کے اور بھڑکانے کے لئے وہ اپنے گلے میں رسی ڈال کر لکڑیاں لا لا کر اسے سلگائے گی اور وہ اس میں جلتا رہے گا ۔ یہ مال جو یہاں سے سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں یہی مال قیامت کے دن سب سے زیادہ مضر ثابت ہوں گے ۔ اسی کو گرم کر کے اس سے داغ دیئے جائیں گے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایسے مالداروں کے جسم اتنے لمبے چوڑے کر دیئے جائیں گے کہ ایک ایک دینار و درہم اس پر آ جائے پھر کل مال آگ جیسا بنا کر علیحدہ علیحدہ کر کے سارے جسم پر پھیلا دیا جائے گا یہ نہیں ایک کے بعد ایک داغ لگے ۔ بلکہ ایک ساتھ سب کے سب ۔ مرفوعاً بھی یہ روایت آئی ہے لیکن اس کی سند صحیح نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ اس کا مال ایک اژدھا بن کر اس کے پیچھے لگے جو عضو سامنے آجائے گا اسی کو چبا جائے گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو اپنے بعد خزانہ چھوڑا جائے اس کا وہ خزانہ قیامت کے دن زہریلا اژدھا بن کر جس کی آنکھوں پر نقطے ہوں گے اس کے پیچھے لگے گا یہ بھاگتا ہوا پوچھے گا کہ تو کون ہے؟ وہ کہے گا تیرا جمع کردہ اور مرنے کے بعد چھوڑا ہوا خزانہ ۔ آخر اسے پکڑ لے گا اور اس کا ہاتھ چبا جائے گا پھر باقی جسم بھی ۔ صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ نہ دے اس کا مال قیامت کے دن آگ کی تختیوں جیسا بنا دیا جائے گا اور اس سے اس کی پیشانی پہلو اور کمر داغی جائے گی ۔ پچاس ہزار سال تک لوگوں کے فیصلے ہو جانے تک تو اس کا یہی حال رہے گا پھر اسے اس کی منزل کی راہ دکھا دی جائے گی جنت کی طرف یا جہنم کی طرف ۔ امام بخاری اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ زید بن وہب حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ربذہ میں ملے اور دریافت کیا کہ تم یہاں کیسے آ گئے ہو؟ آپ نے فرمایا ہم شام میں تھے وہاں میں نے ( وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ 34؀ۙ ) 9- التوبہ:34 ) کی تلاوت کی تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ آیت ہم مسلمانوں کے بارے میں نہیں یہ تو اہل کتاب کے بارے میں ہے ۔ میں نے کہا ہماری اور ان کے سب کے حق میں ہے ۔ اس میں میرا ان کا اختلاف ہو گیا انہوں نے میری شکایت کا خط دربار عثمانی میں لکھا خلافت کا فرمان میرے نام آیا کہ تم یہاں چلے آؤ جب مدینے پہنچا تو چاروں طرف سے مجھے لوگوں نے گھیر لیا ۔ اس طرح بھیڑ لگ گئی کہ گویا انہوں نے اس سے پہلے مجھے دیکھا ہی نہ تھا ۔ غرض میں مدینے میں ٹھہرا لیکن لوگوں کی آمد و رفت سے تنگ آ گیا ۔ آخر میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے شکایت کی تو آپ نے مجھے فرمایا کہ تم مدینے کے قریب ہی کسی صحرا میں چلے جاؤ ۔ میں نے اس حکم کی بھی تعمیل کی لیکن یہ کہہ دیا کہ واللہ جو میں کہتا تھا اسے ہرگز نہیں چھوڑ سکتا ۔ آپ کا خیال یہ تھا کہ بال بچوں کے کھلانے کے بعد جو بچے اسے جمع کر رکھنا مطلقاً حرام ہے ۔ اسی کا آپ فتویٰ دیتے تھے اور اسی کو لوگوں میں پھیلاتے تھے اور لوگوں کو بھی اس پر آمادہ کرتے تھے ۔ اسی کا حکم دیتے تھے اور اس کے مخالف لوگوں پر بڑا ہی تشدد کرتے تھے ۔ حضرت معاویہ نے آپ کو روکنا چاہا کہ کہیں لوگوں میں عام ضرر نہ پھیل جائے یہ نہ مانے تو آپ نے خلافت سے شکایت کی امیر المومنین نے انہیں بلا کر ربذہ میں تنہا رہنے کا حکم دیا آپ وہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہی رحلت فرما گئے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بطور امتحان ایک مرتبہ ان کے پاس ایک ہزار اشرفیاں بھجوائیں آپ نے شام سے قبل سب ادھر ادھر راہ اللہ خرچ کر ڈالیں ۔ شام کو وہی صاحب جو انہیں صبح کو ایک ہزار اشرفیاں دے گئے تھے وہ آئے اور کہا مجھ سے غلطی ہو گئی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے وہ اشرفیاں اور صاحب کے لئے بھجوائی تھیں میں نے غلطی سے آپ کو دے دیں وہ واپس کیجئے آپ نے فرمایا تم پر آفرین ہے میرے پاس تو اب ان میں سے ایک پائی بھی نہیں اچھا جب میرا مال آ جائے گا تو میں آپ کو آپ کی اشرفیاں واپس کر دوں گا ۔ ابن عباس بھی اس آیت کا حکم عام بتاتے ہیں ۔ سدی فرماتے ہیں یہ آیت اہل قبلہ کے بارے میں ہے ۔ احنف بن قیس فرماتے ہیں میں مدینے میں آیا دیکھا کہ قریشیوں کی ایک جماعت محفل لگائے بیٹھی ہے میں بھی اس مجلس میں بیٹھ گیا کہ ایک صاحب تشریف لائے میلے کچیلے موٹے جھوٹے کپڑے پہنے ہوئے بہت خستہ حالت میں اور آتے ہی کھڑے ہو کر فرمانے لگے روپیہ پیسہ جمع کرنے والے اس سے خبردار رہیں کہ قیامت کے دن جہنم کے انگارے ان کی چھاتی کی بٹنی پر رکھے جائیں گے جو کھوے کی ہڈی کے پار ہو جائیں گے پھر پیچھے کی طرف سے آگے کو سوراخ کرتے اور جلاتے ہوئے نکل جائیں گے سب لوگ سر نیچا کئے بیٹھے رہے کوئی بھی کچھ نہ بولا وہ بھی مڑ کر چل دیئے اور ایک ستون سے لگ کر بیٹھ گئے میں ان کے پاس پہنچا اور ان سے کہا کہ میرے خیال میں تو ان لوگوں کو آپ کی بات بری لگی آپ نے فرمایا یہ کچھ نہیں جانتے ۔ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ میرے پاس اگر احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو مجھے یہ بات اچھی نہیں معلوم ہوتی کہ تین دن گذرنے کے بعد میرے پاس اس میں سے کچھ بھی بچا ہوا رہے ہاں اگر قرض کی ادائیگی کے لئے میں کچھ رکھ لوں تو اور بات ہے ۔ غالباً اسی حدیث کی وجہ سے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا یہ مذہب تھا ۔ جو آپ نے اوپر پڑھا واللہ اعلم ۔ ایک مرتبہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کو ان کا حصہ ملا آپ کی لونڈی نے اسی وقت ضروریات فراہم کرنا شروع کیا ۔ سامان کی خرید کے بعد سات درہم بچ رہے حکم دیا کہ اس کے فلوس لے لو تو حضرت عبداللہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے فرمایا اسے آپ اپنے پاس رہنے دیجئے تاکہ بوقت ضرور کام نکل جائے یا کوئی مہمان آ جائے تو کام نہ اٹکے آپ نے فرمایا نہیں مجھ سے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد لیا ہے کہ جو سونا چاندی سربند کر کے رکھی جائے وہ رکھنے والے کے لئے آگ کا انگارا ہے جب تک کہ اسے راہ اللہ نہ دے دے ۔ ابن عساکر میں ہے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ سے فقیر بن کر مل غنی بن کر نہ مل ۔ انہوں نے پوچھا یہ کس طرح؟ فرمایا سائل کو رد نہ کر جو ملے اسے چھپا نہ رکھ انہوں نے کہا یہ کیسے ہو سکے گا آپ نے فرمایا یہی ہے ورنہ آگ ہے ۔ اس کی سند ضعیف ہے ۔ اہل صفہ میں ایک صاحب کا انتقال ہو گیا وہ دینار یا دو درہم پس انداز کئے ہوئے نکلے آپ نے فرمایا یہ آگ کے دو داغ ہیں تم لوگ اپنے ساتھی کے جنازے کی نماز پڑھ لو اور روایت میں ہے کہ ایک اہل صفہ کے انتقال کے بعد ان کی تہبند کی آنٹی میں سے ایک دینار نکلا آپ نے فرمایا ایک داغ آگ کا پھر دوسرے کا انتقال ہوا ان کے پاس سے دو دینار برآمد ہوئے ۔ آپ نے فرمایا یہ دو داغ آگ کے ہیں فرماتے ہیں جو لوگ سرخ و سفید یعنی سونا چاندی چھوڑ کر مرے ایک ایک قیراط کے بدلے ، ایک ایک تختی آگ کی بنائی جائے گی اور اس کے قدم سے لے کر ٹھوڑی تک اس کے جسم میں اس آگ سے داغ کئے جائیں گے ۔ آپ کا فرمان ہے کہ جس نے دینار سے دینار اور درہم سے درہم ملا کر جمع کر کے رکھ چھوڑا اس کی کھال کشادہ کر کے پیشانی اور پہلو اور کمر پر اس سے داغ دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا یہ ہے جسے تم اپنی جانوں کے لئے خزانہ بناتے رہے اب اس کا بدلہ چکھو اس کا راوی ضعیف کذاب و متروک ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

34۔ 1 احبار حبر کی جمع ہے یہ ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو بات کو خوبصورت طریقہ سے پیش کرنے کا طریقہ رکھتا ہو خوبصورت اور منقش کپڑے کو ثوب مُحَبُّر کہا جاتا ہے مراد علماء یہود ہیں، رہبان راہب کی جمع ہے جو رہبنہ سے مشتق ہے۔ اس سے مراد علماء نصاریٰ ہیں بعض کے نزدیک یہ صوفیائے نصاریٰ ہیں۔ یہ دونوں ایک تو کلام اللہ میں تحریف و تغیر کر کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق مسئلے بتاتے اور یوں لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان باب کا عنوان ہے تم پچھلی امتوں کے طور طریقوں کی ضرور پیروی کرو گے ۔ 34۔ 2 حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ یہ زکٰوۃ کے حکم سے پہلے کا حکم ہے۔ زکٰوۃ کا حکم نازل ہونے کے بعد زکٰوۃ کو اللہ تعالیٰ نے مال کی طہارت کا ذریعہ بنادیا ہے اس لئے علماء فرماتے ہیں کہ جس مال سے زکٰوۃ ادا کردی جائے وہ خزانہ نہیں ہے اور جس مال کی زکٰوۃ ادا نہ کی جائے، وہ کنز (خزانہ) ہے، جس پر یہ قرآنی وعید ہے۔ چناچہ صحیح حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنے مال کی زکٰوۃ ادا نہیں کرتا قیامت والے دن اس کے مال کو آگ کی تختیاں بنادیا جائے گا، جس سے اس کے دونوں پہلوؤں کو، پیشانی کو اور کمر کو داغا جائے گا۔ یہ دن پچاس ہزار سال کا ہوگا اور لوگوں کے فیصلے ہوجانے تک اس کا یہی حال رہے گا اس کے بعد جنت یا جہنم میں اسے لے جایا جائے گا (صحیح مسلم) یہ بگڑے ہوئے علماء اور صوفیا کے بعد بگڑے ہوئے اہل سرمایہ ہیں تینوں طبقے عوام کے بگاڑ میں سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٤] اہل کتاب کی حرام خوری :۔ ان کے ناجائز طریقے یہ تھے کہ انہوں نے سود کو جائز قرار دے لیا تھا۔ بالخصوص غیر یہود سے سود وصول کرنا نیکی کا کام سمجھتے تھے۔ نیز غیر یہود کے اموال جس جائز و ناجائز طریقہ سے ہاتھ لگ جائیں وہ ان کے نزدیک حلال اور طیب تھے۔ رشوتیں لے کر غلط فتوے دیتے تھے۔ نجات نامے فروخت کرتے تھے۔ حرام کردہ چیزوں مثلاً چربی کو پگھلا کر ان کی قیمت کھالیتے تھے۔ شادی یا غمی کی کوئی رسم ہو اس میں اپنا حصہ اور نذرانے وصول کرتے تھے۔ اور ان کی یہی کارستانیاں بالواسطہ اللہ کے دین میں رکاوٹ کا سبب بن جاتی تھیں۔- [٣٥] خزانہ جمع کرنے سے مراد :۔ اس جملہ کے مخاطب صرف اہل کتاب ہیں یا ان میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ اس بارے میں صحابہ کرام (رض) کے درمیان بھی اختلاف تھا۔ مثلاً سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) اس بات کے قائل تھے کہ جس مال سے زکوٰۃ ادا کردی جائے وہ خزانہ کے حکم میں نہیں رہتا جبکہ سیدنا ابوذر غفاری اور سیدنا ابن عباس (رض) خزانہ جمع کرنے کے مخالف تھے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے :۔- ١۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جبکہ ابھی زکوٰۃ کی فرضیت نازل نہیں ہوئی تھی۔ پھر جب زکوٰۃ فرض ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے اموال کو زکوٰۃ سے پاک کردیا۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب مااُدِّی زکوٰتہ فلیس بکنز)- ٢۔ احنف بن قیس کہتے ہیں کہ : میں قریش کی ایک جماعت میں بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں ایک شخص آیا جس کے بال سخت، موٹے جھوٹے کپڑے اور سیدھی سادی شکل تھی۔ اس نے سلام کیا۔ پھر کہنے لگا ان کو خوشخبری سنا دو کہ ایک پتھر دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا وہ ان کی چھاتی پر رکھ دیا جائے گا اور ان کے مونڈھے کی اوپر والی ہڈی پر رکھ دیا جائے گا جو چھاتی کی بھٹنی سے پار ہوجائے گا اسی طرح وہ پتھر ڈھلکتا رہے گا۔ یہ کہہ کر اس نے پیٹھ موڑی اور ایک درخت کے پاس جا بیٹھا۔ میں نے اس سے کہا میں سمجھتا ہوں تمہاری یہ بات ان لوگوں کو ناگوار گزری ہے وہ کہنے لگا۔ یہ لوگ تو بیوقوف ہیں۔ مجھ سے میرے جانی دوست نے کہا۔ میں نے پوچھا تمہارا جانی دوست کون ہے ؟ کہنے لگا رسول اللہ اور کون ؟ آپ نے فرمایا ابو ذر تو احد پہاڑ دیکھتا ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں فرمایا میں نہیں چاہتا کہ میرے پاس احد پہاڑ برابر سونا ہو۔ اگر ہو تو میں تین دینار کے علاوہ سب اللہ کی راہ میں خرچ کر ڈالوں۔ اور یہ لوگ تو بیوقوف ہیں جو روپیہ اکٹھا کرتے ہیں اور میں تو اللہ کی قسم ان سے نہ تو دنیا کا کوئی سوال کروں گا اور نہ دین کی کوئی بات پوچھوں گا۔ یہاں تک کہ اللہ سے جا ملوں۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب ما ادی زکوٰتہ فلیس بکنز )- ٣۔ سیدنا ابوذر غفاری کا مسلک :۔ زید بن وہب کہتے ہیں کہ میں نے ربذہ (مدینہ کے قریب ایک مقام ہے) میں ابوذر غفاری کو دیکھا تو پوچھا تم یہاں جنگل میں کیسے آگئے ؟ انہوں نے کہا ہم ملک شام میں تھے۔ مجھ میں اور معاویہ (گورنر شام) میں جھگڑا ہوگیا۔ میں نے یہ آیت پڑھی (وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ 34؀ۙ ) 9 ۔ التوبہ :34) تو امیر معاویہ نے کہا کہ یہ آیت مسلمانوں کے حق میں نہیں (اگر وہ زکوٰۃ ادا کرتے رہیں) بلکہ اہل کتاب کے حق میں ہے جبکہ میں یہ کہتا تھا کہ یہ آیت (عام) ہے اور ان کے اور ہمارے درمیان مشترک ہے (حوالہ ایضاً )

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ : سلسلۂ کلام کو دیکھیں تو یہاں احبارو رہبان سے مراد اہل کتاب کے عالم اور درویش ہیں، مگر الفاظ عام ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے علماء اور زہاد و صوفیا بھی اس میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا انصاف ملاحظہ فرمائیں کہ سب احبارو رہبان کو ایک جیسا قرار نہیں دیا بلکہ ان میں سے بہت سے لوگوں کا یہ حال بیان فرمایا کہ وہ لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکتے ہیں۔ دیکھیے سورة مائدہ ( ٦٢، ٥٩) رازی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہود و نصاریٰ کے بہت سے احبارو رہبان کے فخر و کبر، اللہ کے محبوب ہونے، عام لوگوں سے اونچی مخلوق ہونے اور خدائی اختیارات کے دعوؤں کا ذکر کیا تو اب بتایا کہ ان تمام چیزوں کے اظہار سے ان کا مقصود لوگوں سے رشوت لے کر، غلط مسئلے بتا کر، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بشارتوں کو چھپا کر اور ان کو غلط معنی پہنا کر ان کا مال باطل طریقے سے ہتھیانا اور انھیں اللہ کے راستے، یعنی اسلام سے روکنا ہے۔ اللہ جانتا ہے آپ یہود و نصاریٰ کے بہت سے احبارو رہبان کی جگہ آج کل مسلمانوں کے بہت سے احبارو رہبان کا لفظ لگا دیں تو آپ دونوں میں کوئی فرق نہیں پائیں گے، وہی خدا کے محبوب ہونے اور اس سے ہم کلام ہونے کے دعوے، اسی طرح ترک دنیا کا اظہار جس کے پیچھے بدترین حرص چھپی ہوئی ہے، تقدس کا اظہار جس کے پیچھے کتنی عفیفاؤں کی عزت لوٹنے کی وارداتیں موجود ہیں، دین اسلام کے عالم، ستون اور محقق ہونے کے دعوؤں کے باوجود وہ نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اپنے یا اپنے پیشواؤں کے اقوال کو اللہ اور اس کے رسول کا حکم کہہ کر پیش کرتے اور اصل قرآن و سنت سے لوگوں کو روکتے ہیں۔ اگر یقین نہ ہو تو کسی گدی نشین، خانقاہ کے شیخ یا دارالعلوم کے حضرت صاحب (الا ما شاء اللہ) کا تجربہ کرلیں، آپ کو وہی فرشتوں جیسی پاکیزگی اور دنیا سے کامل بےرغبتی کے اظہار کے پیچھے بہت کچھ چھپا ہوا مل جائے گا۔ جس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان کی تصدیق ہوگی، آپ نے فرمایا : ” یقیناً تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں پر (برابر) سوار ہوجاؤ گے، جس طرح ایک بالشت دوسری بالشت کے اور ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کے برابر ہوتا ہے۔ “ [ مستدرک حاکم ٤؍٤٥٥، ح : ٨٤٠٤ ] ہاں، یہ اللہ کا شکر ہے کہ اس دین کی حفاظت کا ذمہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اٹھایا ہوا ہے، اس لیے آپ ہی کی پیش گوئی کے مطابق مسلمانوں میں اصل دین پر قائم رہنے والے اہل حق ہر طبقہ، مثلاً علماء، زہاد، مجاہدین، تجار وغیرہم میں قیامت تک موجود رہیں گے اور اللہ کی مدد سے غالب و منصور رہیں گے، جیسا کہ چند احادیث پچھلی آیت کی تفسیر میں گزری ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے فضل سے ان لوگوں میں شامل فرمائے۔ - وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ : اس میں ” الَّذِيْنَ “ (وہ لوگ) سے مراد بعض صحابہ اور مفسرین نے یہود و نصاریٰ کے احبارو رہبان ہی لیے ہیں جن کی پہلی دو کمینگیوں (باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھانا اور اللہ کی راہ سے روکنا) کے بعد تیسری کمینگی سونا چاندی جمع کرنا بیان فرمائی ہے، کیونکہ بات انھی کی ہو رہی ہے، لیکن اکثر صحابہ اور مفسرین کے مطابق الفاظ کے عام ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ ہوں یا مسلمان، یہ کمینگی جس میں بھی پائی جائے وہ اس وعید کا مستحق ہے اور حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کوئی بھی شخص جو سونے یا چاندی کا مالک ہو، اس سے اس کا حق ادا نہ کرے، اس کے لیے قیامت کے دن آگ سے (اس سونے یا چاندی کی) سلاخیں یا تختے بنائے جائیں گے، پھر جہنم کی آگ میں انھیں خوب گرم کرکے اس کے پہلو، پیشانی اور پیٹھ کو داغا جائے گا، جب وہ ٹھنڈے ہوجائیں گے تو انھیں دوبارہ گرم کرلیا جائے گا، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی، یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے، تو وہ جنت یا آگ کی طرف اپنا راستہ دیکھے گا۔ “ (لمبی حدیث ہے جس میں اونٹوں، بکریوں اور گھوڑوں وغیرہ کا حق ادا نہ کرنے والوں کی وعید بھی مذکور ہے) [ مسلم، الزکاۃ، باب إثم مانع الزکاۃ : ٢٤؍٩٨٧ ]- وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ میں خرچ کرنا یہ ہے کہ زکوٰۃ دیتا رہے، اس کے علاوہ بھی ضرورت مندوں پر خرچ کرتا رہے، حاجت مندوں کو قرض دے، حق داروں کا حق ادا کرے، جیسا کہ ” لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا “ والی آیت میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی مال دینے کا بیان ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (١٧٧) مثلاً اہل خانہ کے اخراجات، مہمان کی ضیافت، مسجد بنانا، جہاد کی تیاری میں مال خرچ کرنا وغیرہ۔- فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ : بعض صحابہ جیسے ابوذر غفاری (رض) نے اس آیت کی رو سے مطلقاً سونا چاندی جمع کرنے کو حرام قرار دیا ہے، مگر جمہور صحابہ جیسے امیر المومنین عمر، ابن عمر، ابن عباس، جابر اور ابوہریرہ (رض) اس طرف گئے ہیں کہ جس مال کی زکوٰۃ دے دی جائے وہ یہ کنز نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس وعید کے تحت آتا ہے۔ ابن عمر (رض) نے فرمایا : ” یہ زکوٰۃ کا حکم نازل ہونے سے پہلے کی بات ہے، جب زکوٰۃ کا حکم اترا تو اللہ تعالیٰ نے اسے اموال کے پاک کرنے کا ذریعہ بنادیا۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ عز و جل : ( یوم یحمی علیھا ) : ٤٦٦١ ] اگر ضرورت سے زائد سارا مال خرچ کرنا واجب ہو تو میراث اور وصیت وغیرہ کا کچھ مطلب باقی نہیں رہتا اور ایک صحابی کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارکان اسلام بتاتے ہوئے جب زکوٰۃ کے فرض ہونے کا ذکر فرمایا تو اس نے پوچھا : ( ھَلْ عَلَیَّ غَیْرُھَا ؟ ) ” کیا مجھ پر اس کے علاوہ بھی فرض ہے ؟ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا : ( لاَ إِلاَّ اَنْ تَطَوَّعَ ) ” نہیں، مگر یہ کہ تو خوشی سے دے۔ “ یعنی اس سے زائد فرض نہیں نفل ہے۔ [ بخاری، الإیمان، باب الزکوٰۃ : ٤٦۔ مسلم : ١١ ] - زکوٰۃ جس کی ادائیگی سے مال کنز کے حکم میں نہیں رہتا، پاک ہوجاتا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی مقدار مقرر فرمائی۔ چاندی پانچ اوقیہ (٢٠٠ درہم) سے کم پر زکوٰۃ نہیں۔ جب دو سو درہم ہوں اور ان پر سال گزر جائے تو ان میں پانچ درہم زکوٰۃ ہوگی، یعنی اڑھائی فیصد (چالیس میں سے ایک درہم) اور سونے میں جب تک بیس دینار نہ ہوں زکوٰۃ نہیں، جب بیس دینار ہوں اور ان پر سال گزر جائے تو ان میں نصف دینار زکوٰۃ ہے، جو زیادہ ہو اس کی زکوٰۃ اسی حساب سے ہوگی۔ [ أبوداوٗد، الزکاۃ، باب زکاۃ السائمۃ : ١٥٧٣، عن علی، عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و صححہ الألبانی ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

چو تھی آیت میں مسلمانوں کو مخاطب بنا کر یہود و نصارٰی کے علماء و مشائخ کے ایسے حالات کا ذکر ہے جن کی وجہ سے عوام میں گمراہی پھیلی، مسلمانوں کو مخاطب کرنے سے شاید اس طرف اشارہ ہے کہ اگرچہ یہ حالات یہود و نصارٰی کے علماء و مشائخ کے بیان ہو رہے ہیں لیکن ان کو بھی اس سے متنبہ رہنا چاہئے کہ ان کے ایسے حالات نہ ہوجائیں۔- اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ یہود و نصارٰی کے بہت سے علماء و مشائخ کا یہ حال ہے کہ باطل طریقوں سے لوگوں کا مال کھاتے ہیں اور اللہ کے سیدھے راستہ سے ان کو روکتے ہیں۔- یہود و نصارٰی کے اکثر علماء و مشائخ کا یہی حال تھا اور ایسے حالات میں عام طور پر کہنے والے سبھی کو برا کہا کرتے ہیں، لیکن قرآن کریم نے اس جگہ لفظ كَثِيْرًا کا اضافہ کرکے مسلمانوں کو دشمنوں کے معاملہ میں بھی احتیاط کلام کی تلقین فرمادی کہ یہ حال سب لوگوں کی طرف منسوب نہیں فرمایا، بلکہ یہ فرمایا کہ ان میں بہت سے لوگ ایسا کرتے ہیں، ان کی گمراہی یہ بتلائی گئی کہ وہ لوگوں کے اموال باطل طریقہ سے کھاتے ہیں، باطل طریقہ سے مراد یہ ہے کہ یہ لوگ بعض اوقات ان لوگوں سے پیسے لے کر حکم تورات کے خلاف فتوٰی دیدیتے تھے، اور بعض اوقات احکام الہی میں اخفاء اور تلبیس سے کام لیتے تھے، اس پر مزید ان کی یہ گمراہی بتلائی گئی کہ یہ کم بخت صرف خود ہی گمراہ نہیں بلکہ دوسرے طالبان رشد و ہدایت کو اللہ کے راستہ سے روکنے کا سبب بھی ہیں، کیوں کہ جب لوگ اپنے مقتداؤں کو ایسے کام کرتے دیکھیں تو ان میں بھی جذبہ حق پرستی مرجاتا ہے، اس کے علاوہ ان کے غلط فتو وں کی بنیاد پر وہ گمراہی اور غلطی ہی کو صواب و صحیح سمجھنے لگتے ہیں۔ - یہود و نصارٰی کے علماء و مشائخ کی یہ بیماری کہ پیسوں کے لالچ میں غلط فتوی دیدیں چونکہ حب مال اور حرص دنیا کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی، اس لئے آیت مذکورہ میں حب مال کے اندر غلو کے نتائج بد اور عذاب الیم کا بیان اور اس بیماری سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ ذکر کیا گیا ہے، ارشاد ہے (آیت) وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ ، یعنی جو لوگ سونے چاندی کو جمع کرتے رہتے ہیں اور اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو عذاب دردناک کی خوش خبری سنا دیجئے “۔- وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا کے لفظوں سے اس طرف اشارہ ہوگیا کہ جو لوگ بقدر ضروری اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں تو باقی ماندہ جمع کیا ہوا مال ان کے حق میں مضر نہیں۔- حدیث میں خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس مال کی زکوٰة ادا کردی جائے وہ كَنَزْتُمْ میں داخل نہیں۔ ( ابوداود، احمد وغیرہ) - جس سے معلوم ہوا کہ زکوٰة نکالنے کے بعد جو مال باقی رہے اس کا جمع رکھنا کوئی گناہ نہیں۔- جمہور فقہاء و ائمہ کا یہی مسلک ہے وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا کی ضمیر فضۃ کی طرف راجع ہے، جس کے معنی چاندی کے ہیں، اوپر سونے اور چاندی دو چیزوں کا ذکر تھا مگر ضمیر صرف چاندی کی طرف راجع کی گئی، تفسیر مظہری میں اس کو اشارہ اس بات کا قرار دیا ہے کہ جب کسی شخص کے پاس سونا اور چاندی تھوڑا تھوڑا موجود ہو تو اعتبار چاندی کا کیا جائے گا، سونے کی قیمت بھی چاندی کے حساب میں لگا کر زکوٰة ادا کی جائے گی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّہْبَانِ لَيَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۝ ٠ ۭ وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا يُنْفِقُوْنَہَا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝ ٠ ۙ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ۝ ٣٤ ۙ- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- حبر - الحِبْرُ : الأثر المستحسن، ومنه ما روي :«يخرج من النّار رجل قد ذهب حبره وسبره» أي : جماله وبهاؤه، ومنه سمّي الحبر، وشاعر مُحَبِّر، وشعر مُحَبَّر، وثوب حَبِير : محسّن، ومنه : أرض مِحْبَار والحبیر من السحاب، وحَبِرَ فلان : بقي بجلده أثر من قرح،- والحَبْر :- العالم وجمعه : أَحْبَار، لما يبقی من أثر علومهم في قلوب الناس، ومن آثار أفعالهم الحسنة المقتدی بها، قال تعالی: اتَّخَذُوا أَحْبارَهُمْ وَرُهْبانَهُمْ أَرْباباً مِنْ دُونِ اللَّهِ [ التوبة 31] ، وإلى هذا المعنی أشار أمير المؤمنین رضي اللہ عنه بقوله :( العلماء باقون ما بقي الدّهر، أعيانهم مفقودة، وآثارهم في القلوب موجودة) وقوله عزّ وجلّ : فِي رَوْضَةٍ يُحْبَرُونَ [ الروم 15] ، أي : يفرحون حتی يظهر عليهم حبار نعیمهم .- ( ح ب ر ) الحبر ۔ وہ نشان جو عمدہ اور خوبصورت معلوم ہو حدیث میں ہے کہ آگ سے ایک آدمی نکلے گا جس کا حسن و جمال اور چہرے کی رونق ختم ہوچکی ہوگی اسی سے روشنائی کو حبرۃ کہا جاتا ہے ۔ شاعر محتبر عمدہ گو شاعر شعر محبر عمدہ شعر ۔ ثوب حبیر ملائم اور نیا کپڑا ۔ ارض محبار جلد سر سبز ہونے والی زمین ( الجمع محابیر ) الحبیر ( من اسحاب ) خوبصورت بادل ۔ حبر فلان اس کے جسم پر زخم کا نشان باقی ہے ۔ - الحبر - عالم کو کہتے ہیں اسلئے کہ لوگوں کے حلوں پر اس کے علم کا اثر باقی رہتا ہے ۔ اور افعال حسنہ میں لوگ اس کے نقش قدم پر چلتے ہیں اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت علیٰ نے فرمایا کہ علماء تاقیامت باقی رہیں گے اگرچہ ا ن کی شخصیتیں اس دنیا سے فنا ہوجاتی ہیں لیکن ان کا آثار لوگوں دلوں پر باقی رہتے ہیں حبر کی جمع اجار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اتَّخَذُوا أَحْبارَهُمْ وَرُهْبانَهُمْ أَرْباباً مِنْ دُونِ اللَّهِ [ التوبة 31] انہوں نے اپنے علماء اور مشائخ کو اللہ کے سوا خدا بنالیا ہے ۔ اور آیت کریمہ فِي رَوْضَةٍ يُحْبَرُونَ [ الروم 15] کے معنی یہ ہیں کہ وہ جنت میں اس قدر خوش ہوں گے کہ وہاں کی نعمتوں کی ترو تازگی کا اثر ان کے چہروں پر ہویدا ہوگا - رهب - الرَّهْبَةُ والرُّهْبُ : مخافة مع تحرّز و اضطراب، قال : لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر 13] ، وقال : جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص 32] ، وقرئ : مِنَ الرَّهْبِ ، أي : الفزع . قال مقاتل : خرجت ألتمس تفسیر الرّهب، فلقیت أعرابيّة وأنا آكل، فقالت : يا عبد الله، تصدّق عليّ ، فملأت كفّي لأدفع إليها، فقالت : هاهنا في رَهْبِي «5» ، أي : كمّي . والأوّل أصحّ. قال تعالی: وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً- [ الأنبیاء 90] ، وقال : تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ- [ الأنفال 60] ، وقوله : وَاسْتَرْهَبُوهُمْ- [ الأعراف 116] ، أي : حملوهم علی أن يَرْهَبُوا، وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ- [ البقرة 40] ، أي : فخافون، والتَّرَهُّبُ : التّعبّد، وهو استعمال الرّهبة، والرَّهْبَانِيّةُ : غلوّ في تحمّل التّعبّد، من فرط الرّهبة . قال : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها[ الحدید 27] ، والرُّهْبَانُ يكون واحدا، وجمعا، فمن جعله واحدا جمعه علی رَهَابِينَ ، ورَهَابِنَةٌ بالجمع أليق . والْإِرْهَابُ : فزع الإبل، وإنما هو من : أَرْهَبْتُ. ومنه : الرَّهْبُ «1» من الإبل، وقالت العرب : رَهَبُوتٌ خير من رحموت «2» .- ( ر ھ ب ) الرھب - والرھبۃ ایسے خوف کو کہتے ہیں جس میں احتیاط اور اضطراب بھی شامل ہو قرآن میں : ۔ لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر 13] تمہاری ہیبت تو ( ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے بڑھکر ہے جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص 32] اور دفع ) خوف کے لئے اپنے بازو سکیڑ لو ) ۔ اس میں ایک قرآت رھب بضمہ الراء بھی ہے ۔ جس کے معنی فزع یعنی گھبراہٹ کے ہیں متقاتل کہتے ہیں کہ رھب کی تفسیر معلوم کرنے کی غرض سے نکلا دریں اثنا کہ میں کھانا کھا رہا تھا ایک اعرابی عورت آئی ۔ اور اس نے کہا اسے اللہ کے بندے مجھے کچھ خیرات دیجئے جب میں لپ بھر کر اسے دینے لگا تو کہنے لگے یہاں میری آستین میں ڈال دیجئے ( تو میں سمجھ گیا کہ آیت میں بھی ( ھب بمعنی آستین ہے ) لیکن پہلے معنی یعنی گھبراہٹ کے زیادہ صحیح ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً [ الأنبیاء 90] ہمارے فضل کی توقع اور ہمارے عذاب کے خوف سے ہمیں پکارتے رہتے ہیں ) تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ [ الأنفال 60] اس سے تم اللہ کے دشمنوں پر اور اپنے دشمنوں پر دھاک بٹھائے رکھو گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] اور ان کو دہشت میں ڈال دیا ۔ میں استر ھاب کے معنی دہشت زدہ کرنے کے ہیں ۔ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ [ البقرة 40] اور مجھ سے ہی ڈرو ۔ اور ترھب ( تفعیل کے معنی تعبد یعنی راہب بننے اور عبادت ہیں خوف سے کام لینے کے ہیں اور فرط خوف سے عبادت گذاری میں غلو کرنے رھبانیۃ کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها[ الحدید 27] اور رہبانیت ( لذت دنیا کا چوڑ بیٹھنا جو انہوں نے از خود ایجاد کی تھی ۔ اور رھبان ( صومعہ لوگ واحد بھی ہوسکتا ہے اور جمع بھی جو اس کو واحد دیتے ہیں ان کے نزدیک اس کی جمع رھا بین آتی ہے لیکن اس کی جمع رھا بتۃ بنانا زیادہ مناسب ہے الا رھاب ( افعال ) کے اصل معنی اونٹوں کو خوف زدہ کرنے کے ہیں یہ ارھبت ( فعال کا مصدر ہے اور اسی سے زھب ہے جس کے معنی لاغر اونٹنی ( یا شتر نر قوی کلاں جثہ ) کے میں مشہور محاورہ ہے : ۔ کہ رحم سے خوف بہتر ہے ۔- _- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - بطل - البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62]- ( ب ط ل ) الباطل - یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔ - صدد - الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً [ النساء 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] - ( ص د د ) الصدود والصد - ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- كنز - الْكَنْزُ : جعل المال بعضه علی بعض وحفظه . وأصله من : كَنَزْتُ التّمرَ في الوعاء، وزمن الْكِنَازُ «2» : وقت ما يُكْنَزُ فيه التّمر، وناقة كِنَازٌ مُكْتَنِزَةُ اللّحم . وقوله تعالی: وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ [ التوبة 34] أي : يدّخرونها، وقوله : فَذُوقُوا ما كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ- [ التوبة 35] ، وقوله : لَوْلا أُنْزِلَ عَلَيْهِ كَنْزٌ [هود 12] أي : مال عظیم . - ( ک ن ز ) الکنز - ( ض ) کے معنی دولت جمع کر کے اس محفوظ رکھ دینے کے ہیں یہ اصل میں کنزت التمر فی الواعاء سے مشتق ہے ۔ - جس کے معنی کھجور کا بار دان میں بھر کر محفوظ کرلینے کے ہیں ۔ اور کھجوا اندوختہ کرنے کے موسم مو زمن الکناز کہا جاتا ہے ۔ اور ناقتہ کناز کے معنی گوشت سے گتھی ہوئی اونٹنی کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ - : وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ [ التوبة 34] اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں ۔ میں یکنزون سے مراد وہ لوگ ہیں جو سونا اور چاندی جمع کرنے مصروف رہتے ہیں ۔ اور اسے راہ خدا میں صرف نہیں کرتے ایسے لوگوں کو قیامت کے دن کہاجائے گا : فَذُوقُوا ما كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ [ التوبة 35] کہ جو کچھ جمع کرتے تھے اس کا مزہ چکھو ۔ اور آیت لَوْلا أُنْزِلَ عَلَيْهِ كَنْزٌ [هود 12] میں کنز کے معنی خزانہ اور بڑی دولت کے ہیں - ذهب ( سونا)- الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ورجل ذَهِبٌ: رأى معدن الذّهب فدهش، وشیء مُذَهَّبٌ: جعل عليه الذّهب، وكميت مُذْهَبٌ: علت حمرته صفرة، كأنّ عليها ذهبا،- ( ذ ھ ب ) الذھب ۔ سونا ۔ اسے ذھبتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ رجل ذھب ، جو کان کے اندر زیادہ سانا دیکھ کر ششدرہ جائے ۔ شیئ مذھب ( او مذھب ) زرا ندددہ طلاء کی ہوئی چیز ۔ کمیت مذھب ( اومذھب ) کمیت گھوڑا جس کی سرخی پر زردی غالب ہو ۔ گویا وہ سنہری رنگ کا ہے ۔- فِضَّةُ- اختصّت بأدون المتعامل بها من الجواهر، ودرع فَضْفَاضَةٌ ، وفَضْفَاضٌ: واسعة .- والفِضَّةُچاندی یعنی وہ ادنی جو ہر جس کے ذریعہ لین دین کیا جاتا ہے ۔ درع فضفا ضۃ وفضفا ض فراخ زرہ ۔- نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے معیب کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

اخبار و رہبان کی اکثریت لوگوں کے مال باطل طریقے سے ہڑپ کرتی ہے - قول باری ہے (یایھا الذین اٰمنوا ان کثیراً من الاحبار والرھبان لیاکلون اموال الناس باباطل اے ایمان لانے والو ان اہل کتاب کے اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں) باطل طریقوں سے مال کھانے کا مفہوم یہ ہے کہ مال پر ناجائز طریقوں سے قبضہ کرلیا جائے جن سے مروی ہے کہ یہ لوگ فیصے کرنے میں رشوتیں لیتے تھے۔ یہاں صرف اکل یعنی کھانے کا ذکر ہوا ہے لیکن مراد تمام منافع و فوائد اور تصرفات ہیں چونکہ مال کا سب سے بڑا فائدہ اکل و شرب کی صورت میں حاصل ہوتا ہے اس لئے اس کا ذکر ہوا۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے (لاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل۔ آپس میں باطل طریقوں سے ایک دوسرے کا مال نہ کھائو) اس سے منافع کی تمام صورتیں مراد ہیں یا جس طرح یہ قول باری ہے (ولا تاکلوا اموالھم۔ ان کے مال نہ کھائو) نیز (ان الذین یاکلون اموال الیتامیٰ ۔ جو لوگ یتیموں کا مال کھاجاتے ہیں) وغیرہا۔- انفاق کلی مراد ہے یا بعض ؟- قول باری ہے (والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقو نھا فی سبیل اللہ جو لوگ سونا چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ہیں ) تا آخر آیت۔ ظاہر آیت اس امر کی مقتضی ہے کہ سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیا جائے اس لئے وعید اس شخص کو لاحق ہورہی ہے جو سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتا۔ اس لئے کہ قول باری ہے (ولا ینفقونھا) اللہ نے یہ نہیں فرمایا : ” ولا ینفقون منھا۔ (وہ اپنے مال میں سے خرچ نہیں کرتے)- اگر یہ کہا جائے کہ سارا مال خرچ کردینا اگر مراد ہوتا تو آیت کے الفاظ یہ ہوتے۔ ” ولا ینفقونھا (اور وہ سونا چاندی خرچ نہیں کرتے) تو اس کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ آیت کے الفاظ اس طرح نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ کلام ایسے امر کی طرف راجع ہے جو پورا مال خرچ کردینے کے مفہوم کا مدلول ہے گویا یوں ارشاد ہوا ” ولاینفقون الکنوز “ (اور اپنے خزانوں یعنی جمع شدہ اموال کو خرچ نہیں کرتے) دوسری توجیہ یہ ہے کہ ایجاذ کے طور پر ایک چیز یعنی چاندی کے ذکر کو سونے کے ذکر کے لئے کافی سمجھ لیا گیا۔ جس طرح یہ قول باری ہے (واذا راوتجارۃ اولھون انفضوا الیھا۔ اور جب کوئی تجارت یا کھیل تماشہ دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں) یہاں ایجاز کے طور پر صرف تجارت کا ذکر ہوا جس کی طرف لوگ دوڑ پڑتے تھے۔ شاعر کا قول ہے۔- نحن بما عندا وانت بما عندک راض والرای مختلف - ہمارے پاس جو چیز ہے اس پر ہم راضی ہیں اور جو تمہارے پاس جو کچھ ہے اس پر تم راضی ہو، ہمارے تمارے درمیان صرف آراء کا اختلاف ہے۔- یہاں شاعر نے ایجاز کے طور پر ” راض “ کا لفظ ایک دفعہ بیان کیا جس کا تعلق انت کی ضمیر کے ساتھ ہے جبکہ مفہوم کے لحاظ سے اس کا تعلق نحن کے ساتھ بھی ہے لیکن الفاظ میں مذکور نہیں ہے اس لئے معنی کے لحاظ سے یہاں ’ رضوان ‘ کا لفظ بھی موجود ہے۔- قول باری میں انفاق کا تعلق سونا اور چاندی دونوں سے ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اس کا رجوع صرف ایک کی طرف ہوتا دوسرے کی طرف نہ ہوتا تو اس صورت میں ان میں سے ایک خبر سے خالی رہ جاتا اور پھر یہ ایک منقطع کلام بن جاتا جو بےمعنی ہوتا۔ اس لئے کہ قول باری (والذین یکنزون الذھب والفضۃ) کو خبر کی ضرورت ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ آیت کے صرف اتنے حصے پر اقتصار کرلینا کسی طرح درست نہیں ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ ایک اور حصہ بھی چاہیے جو خبر کی جگہ لے سکے۔- ظاہر آیت کے معنوں میں کئی روایات منقول ہیں۔ موسیٰ بن عبیدہ نے بیان کیا ہے کہ انہیں عمران بن ابی انس نے مالک بن اوس بن الحدثان سے اور انہوں نے حضرت ابوذر (رض) سے یہ روایت کی ہے کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اونٹوں میں زکوٰۃ ہے جو شخص دینار یا درہم یا سونا چاندی جمع کرتا ہے جسے وہ کسی قرض خواہ کے قرض کی ادائیگی کے لئے تیار نہیں رکھتا اور نہ ہی اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو وہ لوہا تیار کرتا ہے جس کے ذریعے قیامت کے دن اسے داغا جائے گا۔ “ راوی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد پر غور فرمائیے۔ کیونکہ لوگوں کے پاس ان اموال کی ؟ ؟ ہوگئی ہے۔ یہ سن کر حضرت ابو ذر (رض) نے فرمایا : کیا تم قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھتے (والذی یکنزون لذھب والفضۃ) تاآخر آیت۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر حدیث اس امر کی مقتضی ہے کہ اونٹوں میں زکوٰۃ ہے سارے اونٹ دینا مراد نہیں ہے۔ صرف فرض شدہ زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے لیکن سونا اور چاندی میں سارے کا سارا خرچ کردینا ضروری ہے۔ حضرت ابوذر (رض) کا مسلک یہی تھا کہ سونا چاندی ذخیرہ کرنا جائز نہیں ہے۔ محمد بن عمر (رض) نے ابو سلمہ سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے یہ بات پسند نہیں کہ احد پہاڑ کے برابر میرے پاس سونا ہو اور تین دن گزر جانے کے بعد اس میں سے کچھ بھی میرے پاس باقی رہ جائے الا یہ کہ مجھے صدقہ قبول کرنے والا کوئی نہ ملے یا کہ میں اسے اپنا قرض اتارنے کے لئے کچھ چھوڑوں۔ “ اس روایت میں یہ مذکور ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ذات کیلئے سونا چاندی ذخیرہ کرنا پسند نہیں کیا بلکہ اسے خرچ کردینا پسند فرمایا لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خرچ نہ کرنے والے کے لئے کسی وعید کا ذکر نہیں کیا۔- قتادہ نے شہر بن حوشب سے اور انہوں نے حضرت ابو امامہ سے روایت کی ہے کہ اہل صفہ میں سے ایک صحابی کا انتقال ہوگیا۔ اس کے پاس سے ایک دینا برآمد ہوا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- اس کے ذریعہ قیامت میں اسے داغا جائے گا۔ یہ ممکن ہے کہ آپ کو شاید پتہ چل گیا ہو کہ مرنے والے نے یہ دینار حاصل کیا تھا حالانکہ انہیں اس کی ضرورت نہیں تھی۔ جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مروی ہے کہ جس شخص نے مالدار ہوتے ہوئے کسی کے سامنے دست سوال دراز کیا اس نے گویا اپنے لئے جہنم کے انگاروں کا ڈھیر لگالیا “ صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ اس کی مال داری کی کیا حد ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کی حد یہ ہے کہ اس کے اہل خانہ کے پاس اتنا مال موجود ہو جس سے وہ اپنے اہل و عیال کے لئے صبح و شام کی دو وقت خوراک کا انتظام کرسکتا ہو۔ “ یہ اس وقت کی بات تھی جب لوگ انتہائی ضرورت مند ہوتے تھے اور نہایت عزت سے زندگی گزارتے تھے جس کی بنا پر ایک دوسرے کی خبر گیری اور مدد ان پر واجب تھی۔- حضرت عمر بن عبدالعزیز سے مروی ہے کہ سارا سونا چاندی خرچ کردینے کا حکم ہے۔ قول باری (خذ من اموالھم صدقۃ تطھرھم بھا۔ آپ ان کے اموال میں سے صدہق لیں جس کے ذریعے آپ انہیں پاک کردیں) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ نقل مستفیض کی بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نے دو سو درہم میں پانچ درہم اور بیس دینار میں نصف دینار زکوٰۃ کے طور پر واجب کردیا تھا۔ جس طرح آپ نے مویشیوں میں زکوٰۃ کے وجوب کا حکم دیا تھا اور ساے مویشی اللہ کی راہ میں دے دینا واجب قرار نہیں دیا تھا۔ اگر سارے کا سارا سونا اور چاندی خرچ کرنیا واجب ہوتا تو پھر نصاب مقرر کرنے نیز اس نصاب پر زکوٰۃ لازم کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ نیز صحابہ کرام میں ایسے حضرات بھی موجود تھے جو بڑے خوشحال تھے اور جن کے پاس وافر مقدار میں مال و دولت موجود تھی۔ مثلاً حضرت عثمان (رض) اور حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) وغیرہما۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی اس دولت مندی کا علم بھی تھا لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں سارے کا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردینے کا حکم نہیں دیا۔- اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ سارے کا سارا سونا چاندی خرچ کردینا واجب نہیں ہے۔ بلکہ صرف فرض زکوٰۃ نکالنا واجب ہے الا یہ کہ کوئی ایسی صورت پیش آجائے جو ہمدردی اور خبرگیری نیز مدد کو واجب کردیتی ہو مثلاً بھوک کے ہاتھوں مجبور انسان یا افلاس کا مارا ہوا تن بدن پر کپڑے سے عاری شخص آجائے یا کسی بےگورو کفن میت کی تجہیز و تکفین کا مسئلہ سامنے آجائے تو ان صورتوں میں ایک شخص کو اپنے مال میں سے خرچ کرنا چاہیے۔ زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد اسے ان صورتوں میں پیسہ خرچ کرنے سے ہاتھ اٹھالینا نہیں چاہیے۔ شریک نے ابو حمزہ سے، انہوں نے عامر سے، انہوں نے حضرت فاطمہ بنت قیس سے اور انہوں ن ے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (فی السمال حق سوی الزکوٰۃ۔ زکوٰۃ کے سوا بھی مال میں حق ہے) اس موقع پر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق والمغرب۔ نیکی یہ نہیں کہ تم اپنا رخ مشرق اور مغرب کی طرف پھیرو) تا اخر آیت۔- قول باری (ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ) میں یہ احتمال ہے کہ اس سے ولاینفقون منھا۔ مراد ہو، حرف من حذف کردیا گیا ہو لیکن معنی کے لحاظ سے وہ مراد ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس مراد کو اپنے اس قول (خذ من اموالھم صدقۃ ) سے بیان کردیا ہو۔ اور اس طرح مال کا بعض حصہ وصول کرنے کی ہدایت دے دی گئی کل مال وصول کرنے کی نہیں۔ اس سے پہلی آیت کے نسخ کا وجوب نہیں ہوتا اس لئے کہ اس سے ولاینفقون منھا۔ مراد لینا درست ہے اس لئے نسخ لازم نہیں آتا۔- کنز کسے کہتے ہیں ؟- کنز ایک چیز کو بھینچ دینا اور اسے اچھی طرح دبا کر رکھنے کو کہتے ہیں۔ الھندلی کا شعر ہے۔- لادر دری ان الطعمت نازلسکم قرف الحتی وعندی البر مکنوز - خدا کرے میں خوش حال نہ رہوں اگر میں تمہارے مہمان کو بھوسے کی روٹی کا تنور میں رہ جانے والا چھلکا کھلائوں یعنی جلی ہوئی روٹی دوں جب کہ میرے گندم کا آٹا موجود ہو جو ٹھسا ہوا رکھا ہے۔- جب آپ کھجور کو بانس کی ٹوکری میں دبا دبا ر رکھیں تو اس وقت کہا جاتا ہے : کنرت التمر۔ شریعت میں کنز اس مال کا نام ہے جس کی زکوٰۃ ادا نہ کی گئی ہو۔ حضرت عمر (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت ابن عمر (رض) حسن، عامر، سدی اور دیگر حضرات سے مروی ہے کہ جس مال کی زکوٰۃ ادا نہ کی گئی ہو وہ کنز کہلائے گا۔ پھر ان میں سے بعض کا یہ قول ہے کہ اگر زکوٰۃ نہ نکالی گئی ہو تو وہ مال خواہ ظاہر ہو یعنی دفینے کی صورت میں نہ ہو کہ کنز کہلائے گا اور اگر زکوٰۃ نکال دی گئی ہو تو وہ مال خواہ دفینے کی صورت میں ہو کنز نہیں کہلائے گا۔ یہ بات تو واضح ہے کہ شرعی اسماء توقیف یعنی شرعی دلیل اور رہنمائی کے ذریعے ہی مقرر کئے جاتے ہیں اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ کنز ہر اس مال کا نام ہے جس کی مقررہ زکوٰۃ نہ نکالی گئی ہو۔ جب بات اس طرح ہے تو قول باری (والذین لا یکنزون الذھب والفضۃ) کی عبارت کچھ اس طرح ہوگی۔ الذین لایودون زکاۃ الذھب والفضۃ (جو لوگ سونے اور چاندی کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے) پھر فرمایا (ولاینفقونھا) یعنی زکوٰۃ کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ اس صورت میں آیت صرف وجوب زکوٰۃ کی مقتضی ہوگی کسی اور مفہوم کی نہیں۔- ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی۔ انہیں ابودائود نے، انہیں عثمان بن ابی شیبہ نے، انہیں یحییٰ بن یعلی المحاربی نے، انہیں ان کے والد نے ، انہیں غیلان نے جعفر بن ایاس سے، انہوں نے مجاہد سے۔ اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ جب آیت زیر بحث نازل ہوئی تو مسلمان اس سے بڑے فکرمند ہوگئے۔ حضرت عمر (رض) فرمانے لگے کہ میں اس پریشانی کو دور کرنے کا چارہ کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر آپ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچ گئے اور عرض کیا کہ اس آیت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کو بڑی پریشانی لاحق ہوگئی ہے اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کی فرضیت صرف اس لئے کی ہے کہ تمہارا باقی ماندہ مال تمہارے لئے پاک و طیب ہوجائے۔ اسی طرح تم پر میراث کی فرضیت اس لئے کی گئی ہے کہ یہ مال تمہارے پس ماندگان کو مل جائے۔ “ جب حضرت عمر (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے یہ بات سنی تو خوشی میں آکر اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزید فرمایا : ” میں تمہیں نہ بتادوں کہ انسان کے لئے اس کا بہترین خزانہ کونسا ہے اس کی وہ نیک بیوی ہے کہ جب اس پر نظر ڈالے تو خوش ہوجائے اور جب کوئی کام کہے تو فوراً کرلے۔ اور جب اس کے پاس موجود نہ ہو تو اس دوران اس کی نگہبانی کرے۔ “ یعنی اپنی عزت و آبرو اور اپنے شوہر کے مال کی حفاظت کرے۔ اس حدیث میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمادیا کہ انفاق سے مال کا کچھ حصہ خرچ کرنا مراد ہے۔ سارا مال خرچ کردینا مراد نہیں ہے۔- اور قول باری (الذین یکنزون) سے وہ لوگ مراد ہیں جو زکوٰۃ نہیں نکالتے۔ ابن لھیعہ نے روایت بیان کی ہے، انہیں دراج نے ابو الہیثم سے، انہوں نے حضرت ابو سعید (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (اذا ادیت زکوٰۃ مالک فقد قضیت الحق الذی یجب علیک۔ جب تم اپنے مال کی زکوٰۃ نکال دو تو تم نے گویا وہ حق ادا کردیا جو تم پر واجب ہوا تھا) اس حدیث میں بھی یہی بیان کیا گیا کہ مال میں واجب ہونے والے حق کا نام زکوٰۃ ہے۔- سہیل بن ابی صالح نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (مامن صاحب کنز لایودی زکوٰۃ کنزہ الاجی بہ یوم القیامۃ وبکنزہ فیحمی بھا جنبہ وجبینہ حتیٰ یحکم اللہ بین عبادہ۔ جس شخص کے پاس کنز یعنی خزانہ ہو اور وہ اس کی زکوٰۃ ادانہ کرے تو قیامت کے دن اسے اس کے خزانے کے ساتھ لایا جائے گا اور پھر اس کے خزانے کو پگھلا کر اس کے پہلو اور پیشانی کو داغا جاتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے متعلق اپنے فیصلہ سنادے گا) اس حدیث میں بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتادیا کہ کنز یعنی خزانے میں واجب ہونے والا حق زکوٰ ۃ کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ نیز یہ کہ سارا خزانہ خرچ کردینا واجب نہیں ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد (فیحمیٰ بھا جنبہ وجبینہ) اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے یہ فرما کر وہی معنی لئے ہیں جو اس قول میں مذکور ہیں (ولذین یکنزون الذھب والفضۃ) تا قول باری (فتکویٰ بھا جباھم وجنوبھم وظھورھم ھذا ماکنزتم لانفسکم۔ اور پھر اسی سونے چاندی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوئوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لئے جمع کررکھا تھا) یعنی تم لوگوں نے اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی۔- ہمیں عبدالباقی بن قانے نے روایت بیان کی۔ انہیں بشر بن موسیٰ نے، انہیں عبداللہ بن صالح نے، انہیں عبدالعزیز بن ابی سلمہ الماجشون نے عبداللہ بن دینار سے اور انہوں نے حضرت عمر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ان الذی لایودی زکوٰتہ یمثل لہ شجاع اقرع لہ زبیبتان بلزمہ اویطوقہ فیقول ا ناکترک، اناکنزک۔ جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں نکالتا قیامت کے دن اس کے اس مال کو ایک زہریلے گنجے سانپ کی شکل دے دی جائے گی جس کی آنکھوں کے اوپر دو سیاہ نقطے ہوں گے، پھر یہ سانپ اس کے ساتھ چپکا رہے گا یا اس کی گردن کے گرد لپٹا رہے گا۔ اور اس سے کہتا رہے گا کہ میں تیرا خزانہ ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں) ۔- ہمارے بیان سے جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ قول باری (والذین یکنزون الذھب والفضۃ) تا آخر آیت میں زکوٰۃ کی عدم ادائیگی مراد ہے، آیت کے عموم نے ہر قسم کے سونا چاندی میں زکوٰۃ کے ایجاب کو لازم کردیا ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حکم کو سونے چاندی کے اسم کے ساتھ معلق کردیا ہے، اس لئے آیت اسم کے وجود کے ساتھ سونے چاندی کی زکوٰۃ کے ایجاب کی مقتضی ہوگی، اس کے وجوب کے لئے سونے چاندی کے اسم کا وجود ضروری ہے، سونے چاندی سے متعلقہ کاریگری کی ضرورت نہیں ہے یعنی جس شخص کے پاس سونا یا چاندی خواہ کسی بھی شکل میں ہو اس پر زکوٰۃ واجب ہوجائے گی۔ دوسرے الفاظ میں اس کے پاس ڈھلا ہوا سونا یا چاندی ہو یا سکوں کی شکل میں ہو یا ڈلیوں کی صورت میں ہو اس پر لفظ کے عموم کی بنا پر زکوٰۃ واجب ہوجائے گی۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے آیت زیر بحث میں سونا اور چاندی دونوں کا ایک ساتھ ذکر کرکے ان کے مجموعے پر زکوٰۃ کا حق واجب کردیا ہے۔ اس لئے اس سے یہ دلالت حاصل ہوتی ہے کہ نصاب زکوٰۃ مکمل کرنے کے لئے سونے کو چاندی کے ساتھ ملانا واجب ہے۔- زیورات کی زکوٰۃ - زیورات کی زکوٰۃ کی مسئلے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب نے زیورات پر زکوٰۃ واجب کردی ہے۔ حضرت عمر (رض) اور حضرت ابن مسعود سے اسی قسم روایت ہے سفیان ثوری (رح) نے حماد سے اس کی روایت کی ہے انہوں نے ابراہیم نخعی سے، انہوں نے علقمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن مسعود (رض) سے ، حضرت جابر (رض) ، حضرت ابن عمر (رض) اور حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ زیورات میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) کا یہی قول ہے۔ حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ زیورات کی صرف ایک دفعہ زکوٰۃ نکالی جائے گی اور اس کے بعد اس کی زکوٰۃ نکالنے کی ضرورت نہیں۔ ہم نے زیورات میں زکوٰۃ کے وجوب پر آیت کی دلالت کی وجہ بیان کردی ہے جو یہ ہے کہ سونے اور چاندی کا اسم زیورات کو بھی شامل ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیورات میں زکوٰۃ کے وجوب پر دلالت کرنے والی روایات منقول ہیں۔- ایک روایت کے راوی عمرو بن شعیب ہیں۔ انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے عمرو کے دادا حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت کی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو عورتوں کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن دیکھے۔ آپ نے پوچھا کہ ان کی زکوٰۃ نکالی جاتی ہے ؟ جواب نفی میں ملا۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں خواتین سے فرمایا : کیا تمہیں یہ بات اچھی لگے گی کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان دونوں کنگنوں کے بدلے جہنم کی آگ کے دوگنگن تمہیں پہنادے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کنگن میں بھی زکوٰۃ واجب کردی۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی۔ انہیں ابو دائود نے، انہیں محمد بن عیسیٰ نے، انہیں عتاب نے ثابت بن عجلان سے، انہوں نے عطا سے اور انہوں نے حضرت ام سلمہ (رض) سے، وہ فرماتی ہیں کہ میں سونے کے قازیب پہنا کرتی تھی۔ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ آیا یہ کنز میں داخل ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا کہ ” جس سونے کی مقدار زکوٰۃ کے نصبا کو پہنچ جائے اس کی زکوٰۃ ادا کرو، وہ کنز نہیں کہلائے گا۔ “ اس روایت میں دو باتوں پر دلالت پائی جاتی ہے ایک تو یہ کہ زیورات میں زکوٰۃ واجب ہے اور دوسری یہ کہ جس مال کی زکوٰۃ ادا نہ کی جائے وہ کنز ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں محمد بن ادریس الرازی نے، انہیں عمرو بن الربیع بن طارق نے ، انہیں یحییٰ بن ایوب نے عبید اللہ بن ابی جعفر سے، کہ انہیں محمد بن عمرو بن عطاء نے بتایا ہے کہ انہیں حضرت عبداللہ (رض) بن شداد بن الہاد نے یہ خبر دی کہ ہم حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ فرمانے لگیں کہ ایک مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس تشریف لائے۔ اس وقت میرے ہاتھ میں چاندی کے زیور پڑے ہوئے تھے۔ آپ نے دیکھ کر پوچھا کہ یہ زیور کیسے ہیں ؟ میں نے عرض کیا۔ میں نے خود ہی انہیں زیور کی شکل دے دی ہے تاکہ آپ کے سامنے انہیں پہن لیا کروں۔ آپ نے پوچھا کہ اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو ؟ میں نے نفی میں جواب دیا یا اسی قسم کے ، اللہ جانے، کوئی الفاظ کہے، جسے سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ھو حسبک من النار۔ تمہارے لئے جہنم کی آگ کا اتنا ہی حصہ کافی ہے) ۔- یہ حدیث دو باتوں پر دلالت کرتی ہے۔ ایک تو یہ کہ زیورات پر زکوٰۃ واجب ہے اور دوسری یہ کہ ڈھلی ہوئی چاندی کو بھی ورق کہا جاتا ہے اس لئے کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا تھا (فتخان من ورق) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ (فی الرقۃ ربع العشر۔ چاندی کی ڈلیوں یا سکوں میں چالیسواں حصہ ہے) آپ کا یہ قول ظاہری طور پر زیورات میں زکوٰۃ کے ایجاب کا مقتضی ہے اس لئے کہ رقۃ اور ورق دونوں ہم معنی الفاظ ہیں۔ قیاس اور نظر کی جہت سے بھی اس پر دلالت ہورہی ہے وہ یہ کہ سونے اور چاندی کے عین میں زکوٰۃ کا وجوب ہوتا ہے بشرطیکہ وہ ایسے شخص کی ملکیت میں ہوں جو زکوٰۃ نکالنے کا اہل ہوں۔ زکوٰۃ کا وجوب سونے اور چاندی کی کسی صفت کے ساتھ نہیں ہوتا جو ان کے ساتھ مخصوص ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ سونے یا چاندی کے پگھلے ہوئے ٹکڑوں یا ڈلیوں پر زکوٰۃ واجب ہوجاتی ہے اگرچہ مال کی افزائش کی خاطر نہ رکھا گیا ہو، سونا اور چاندی اسی امر میں دوسرے اموال سے مختلف ہیں اس لئے کہ دوسرے اموال میں صرف زکوٰۃ کے اہل شخص کی ملکیت میں آجانے کی بنا پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی جب تک کہ ان میں نماء یعنی مال کی افزائش کا پہلو نہ پایا جائے۔ اس لئے ڈھلے ہوئے سونے اور زیورات کی شکل میں موجود سونے کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ نیز اس پر سب کا اتفاق ہے کہ زیورات اگر مرد کی ملکیت میں ہوں تو ان پر زکوٰۃ واجب ہوجائے گی اس لئے اگر یہ عورت کی ملکیت میں ہوں تو اس صورت میں بھی ان کا یہی حکم ہونا چاہیے جس طرح درہم و دیار کا حکم ہے۔ نیز جن اموال میں زکوٰۃ لازم ہوتی ہے ان کے حکم میں مرد اور عورت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اس لئے زیورات کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ اور مرد و عورت کے لحاظ میں ان میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔- اگر یہ کہا جائے کہ زیورات کی حیثیت کام کرنے والے بیلوں اور استعمال ہونے والے کپڑوں کی طرح ہے اور چونکہ ان میں زکوٰۃ کا وجوب نہیں ہوتا اس لئے زیورات میں بھی زکوٰۃ واجب نہیں ہونی چاہیے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ سونے چاندی کے علاوہ دوسرے تمام اموال میں زکوٰۃ کا وجوب اس وقت ہوتا ہے جب ان میں نماء یعنی افزائش کا پہلو موجود ہو اور انہیں افزائش کی خاطر رکھا گیا ہو۔ اس لئے جن اموال می یہ مفہوم نہیں پایا جائے گا اور ان میں زکوٰۃ کا وجوب نہیں ہوگا جبکہ عین سونا اور عین چاندی پر زکوٰۃ کا وجوب ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ درہم و دینار اور سونے چاندی کی ڈھلی ہوئی ڈلیوں پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے جبکہ ڈھلائی کا مقصد صرف یہ ہو کہ ملاوٹ سے انہیں پاک کردیا جائے اور اس کے بعد محفوظ کرلیا جائے۔ مال کی افزائش مقصد نہ ہو۔ نیز ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سونے اور چاندی کے اندر کاریگروں کی کاریگری ا کوئی اثر نہیں ہوتا اور اس کاریگری کی وہ سے کسی بھی حالت میں ان کے حکم کے اندر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ کاریگری کے وجود اور عدم وجود دونوں صورتوں میں حکم کے اندر کوئی فرق نہ آئے۔- اگر یہ کہا جائے کہ زیورات کو عاریت کے طور پر کسی کو دے دینا ہی اس کی زکوٰۃ ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے اس لئے کہ عاریت واجب نہیں ہوتی جبکہ زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔ اس لئے عاریت کو زکوٰۃ کا نام دے دینا باطل ہے۔ امام مالک (رح) کا یہ قول کہ زیورات میں صرف ایک مرتبہ زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔ اس کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ اس لئے کہ اگر زیورات زکوٰۃ واجب ہونے والے اموال کی جنس میں شامل ہیں تو ان میں ہر سال زکوٰۃ واجب ہوگی۔- فصل - زیر بحث آیت سونے اور چاندی دونوں کے مجموعے پر زکوٰۃ کے وجوب پر دلالت کرتی ہے۔ اس لئے یہ دلالت ایک کو دوسرے کے ساتھ ضم کردینے کے وجوب کی مقتضی ہے۔ اس بارے میں فقہاء کی آراء مختلف ہیں۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ ایک کو وسرے میں ضم کردیا جائے گا اور اس طرح جب نصاب مکمل ہوجائے گا تو زکوٰۃ نکال دی جائے گی۔ تاہم انضمام کی کیفیت کے متعلق ہمارے اصحاب کے مابین اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے کہ قیمت کے ذریعے انضمام ہوگا جس طرح عروض یعنی سامان تجارت میں ہوتا ہے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ یہ انضمام اجزاء کے ذریعے ہوگا۔ ابن ابی لیلیٰ اور امام شافعی (رح) کا قول ہے کہ ایک کو دوسرے کے ساتھ ملایا نہیں جائے گا۔ ایک کو دوسرے میں ضم کرنے کی روایت حسن ، قتادہ اور یکہ بن عبداللہ بن الاشج سے بھی مروی ہے۔ سونا اور چاندی دونوں کے مجموعے پر زکوٰۃ کے وجوب کی دلیل یہ قول باری ہے (والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ) اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو ملاکر ان پر زکوٰۃ واجب کردی ہے اس لئے کہ قول باری (ولاینفقونھا) میں ان دونوں کا انفاق مراد ہے۔ دونوں کو ملادینے کے وجوب پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ حق کے وجوب کے لحاظ سے دونوں یکساں ہیں یہ حق چالیسواں حصہ ہے اس لئے ان دونوں کی حیثیت تجارت کی غرض سے موجود مختلف اشیا جیسی ہے تجارت کی ان اشیاء کا چونکہ چالیسواں حصہ بطور زکوٰۃ لیا جاتا ہے اس لئے انہیں ایک دوسرے کے ساتھ ضم کردیا جاتا ہے حالانکہ ان کی جنس ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ امام شافعی نے یہ فرمایا ہے کہ اگر ایک شخص کے پاس ایک سو درہم نقد ہوں اور ایک سو درہم کا سامان تجارت ہو تو اس صورت میں اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ اس طرح انہوں نے سامان کو سو درہم نقد کے ساتھ ملادیا حالانکہ دونوں کی جنس ایک دوسرے سے متخلف ہے۔ اس انضمام کی وجہ یہ ہے کہ چالیسویں حصے کے وجوب کے لحاظ سے دونوں یکساں ہیں۔ تاہم سونا اور چاندی اونٹوں اور بھیڑ بکریوں کی نسبت سے دو جنس کی طرح نہیں ہیں اس لئے کہ اونٹوں اور بھیڑ بکریوں کی زکوٰۃ کا حساب ایک دوسرے سے مختلف ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ پانچ اونٹوں کی زکوٰۃ چالیس بکریوں کی زکوٰۃ کی طرح ہے لیکن واجب ہونے والے حق کے لحاظ سے ان دونوں کی یکسانیت ایک کو دوسرے کے ساتھ ملانے کی موجب نہیں ہے اس کے جوا ب میں کہا جائے گا کہ ہم نے یہ نہیں کہا ہے کہ واجب ہونے والی مقدار میں سونے اور چاندی کی یکسانیت ایک کو دوسرے کے ساتھ ملا دینے کی موجب ہے۔ ہم نے تو صرف یہ کہا ہے کہ ان دونوں کی چالیسویں حصے کے وجوب میں یکسانیت ان دونوں کے انضمام کی سبب ہے جس طرح اشیاء تجارت میں انضمام کے وقت چالیسویں حصے کے وجوب میں یکسانیت ہوتی ہے اس کے برعکس اونٹوں اور بھیڑ بکریوں میں چالیسواں حصہ واجب نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ ایک بکری پانچ اونٹوں کا چالیسواں حصہ نہیں ہوتی نہ ہی یہ چالیس بکریوں کا چالیسواں حصہ ہوتی ہے۔ اس لئے کہ ہوسکتا ہے کہ چالیس بکریاں عمدہ قسم کی ہوں اور زکوٰۃ میں لی جانے والی بکری متوسط درجے کی ہو۔ اس طرح یہ بری چالیسویں حصے سے کم ہوگی۔ اس لئے معترض کا یہ الزامی اعتراض ساقط اور باطل ہے۔ اگر یہ حضرات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس حدیث سے استدلال کریں کہ (لیس فیما دون خمس واق صدقۃ۔ پانچ اوقیہ چاندی سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے) ۔ یہ حدیث چاندی میں زکوٰۃ کو واجب کردیتی ہے خواہ اس کے ساتھ سونا موجود ہو یا نہ ہو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد سو درہم کو سامان تجارت کی قیمت کے ساتھ ضم کرنے سے مانع نہیں ہے اور معترض کے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ انضمام اس وقت ہوگا جب اس سو درہم کے ساتھ اس سامان تجارت کے علاوہ دوسری اشیاء نہ ہوں۔ اسی طرح ہم بھی چاندی کو سونے کے ساتھ ملاکر زکوٰۃ نکالنے کے بارے میں کہتے ہیں۔ اس لئے اس حدیث کے ذریعے ہمارے مسلک پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٤) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان رکھنے والو، اکثر علماء یہود اور مشائخ نصاری رشوت اور حرام کا مال کھاتے ہیں اور دین الہی اور اطاعت سے لوگوں کو باز رکھتے ہیں۔- اور جو لوگ سونا چاندی کو جمع کرکے رکھتے ہیں اور ان خزانوں کو اطاعت خداوندی میں خرچ نہیں کرتے اور اس مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ انھیں درد ناک سزا کی خبر سنا دیجیے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٤ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّہْبَانِ لَیَاْکُلُوْنَ اَمْوَال النَّاس بالْبَاطِلِ ) - مختلف مسلمان امتوں میں مذہبی پیشواؤں کے لیے مختلف نام اور القاب رائج رہے ہیں۔ بنی اسرائیل کے ہاں انہیں احبار اور رہبان کہا جاتا تھا۔ آیت زیر نظر کے مطابق اس طبقے میں اکثریت ایسے لوگوں کی رہی ہے جو باطل اور ناجائز ذرائع سے مال و دولت جمع کرنے اور جائیداد بنانے کے مکروہ دھندے میں ملوث رہے ہیں۔ ایک عام دنیا دار آدمی جائز طریقے سے مال و دولت کماتا ہے یا جائیداد بناتا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ مگر ایک ایسا شخص جو دین کی خدمت میں مصروف ہے اور اسی حقیقت سے جانا پہچانا جاتا ہے ‘ اگر وہ بھی مال و دولت جمع کرنے اور جائیداد بنانے میں مشغول ہوجائے ‘ اور مزید یہ کہ دین کو استعمال کرتے ہوئے اور اپنی دینی حیثیت کو نیلام کرتے ہوئے لوگوں کے مال ہڑپ کرنے لگے اور مال و دولت جمع کرنیہی کو اپنا مقصد زندگی بنا لے ‘ تو ایسا انسان آسمان کی چھت کے نیچے بد ترین انسان ہوگا۔ اپنی امت کے علماء کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک بہت عبرت انگیز حدیث ہے : - عَنْ عَلِیٍّ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : (یُوْشِکُ اَنْ یَأْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَام الاَّ اسْمُہٗ ‘ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْآن الاَّ رَسْمُہٗ ‘ مَسَاجِدُھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی ‘ عُلَمَاؤُھُمْ شَرٌّ مَنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَاءِ ‘ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ ) (١)- حضرت علی (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے اندیشہ ہے کہ لوگوں پر ایک وقت ایسا آئے گا جب اسلام میں سے اس کے نام کے سوا کچھ نہیں بچے گا اور قرآن میں سے اس کے رسم الخط کے سوا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ ان کی مسجدیں بہت آباد (اور شاندار) ہوں گی مگر وہ ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کی چھت کے نیچے بد ترین مخلوق ہوں گے ‘ فتنہ انہی میں سے برآمد ہوگا اور ان ہی میں لوٹ جائے گا - (وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط) - جب کوئی دینی تحریک اٹھتی ہے ‘ کوئی اللہ کا مخلص بندہ لوگوں کو دین کی طرف بلاتا ہے ‘ تو ان مذہبی پیشواؤں کو اپنی مسندیں خطرے میں نظر آتی ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے عقیدت مند انہیں چھوڑ کر کسی دوسری دعوت کی طرف متوجہ ہوں ‘ کیونکہ انہی عقیدت مندوں کے نذرانوں ہی سے تو ان کے دولت کے انباروں میں اضافہ ہو رہا ہوتا ہے اور ان کی جائیدادیں بن رہی ہوتی ہیں۔ وہ آخر کیونکر چاہیں گے کہ ان کے نام لیوا کسی دوسری دعوت پر لبیک کہیں۔- (وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلاَ یُنْفِقُوْنَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِلا فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ) - اس آیت کے حوالے سے حضرت ابوذر غفاری (رض) کی ذاتی رائے یہ تھی کہ سونا اور چاندی اپنے پاس رکھنا مطلقاً حرام ہے۔ مگر دوسرے صحابہ کرام (رض) ‘ حضرت ابوذر غفاری (رض) کی اس رائے سے متفق نہیں تھے۔ چناچہ دین کا عام قانون اس سلسلے میں یہی ہے کہ اگر کسی نے کوئی مال جائز طریقے سے کمایا ہو اور وہ اس میں سے زکوٰۃ بھی ادا کرتا ہو تو اس مال کو وہ اپنے پاس رکھا سکتا ہے ‘ چاہے اس کی مقدار کتنی ہی زیادہ ہو اور چاہے وہ سونے یا چاندی ہی کی شکل میں ہو۔ ایسا مال ایک شخص کی موت کے بعد اس کے ورثاء کو جائز مال کے طور پر قانون وراثت کے مطابق منتقل بھی ہوگا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ قانون وراثت خود اس بات پر دلیل ہے کہ مال و دولت کو اپنی ملکیت میں رکھنا ناجائز نہیں ہے ‘ کیونکہ اگر مال جمع نہیں ہوگا تو وراثت کس چیز کی ہوگی اور قانون وراثت کا عملاً کیا مقصد رہ جائے گا ؟ اس لحاظ سے قرآن کے وہ احکام روحانی اور اخلاقی تعلیم کے زمرے میں آتے ہیں جن میں بار بار مال خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور اس سلسلے میں (قُلِ الْعَفْوَ ط) ( البقرۃ : ٢١٩) کے الفاظ بھی موجود ہیں۔ یعنی جو بھی زائد از ضرورت ہو اسے اللہ کی راہ میں خرچ کردیا جائے۔ چناچہ حضرت عثمان (رض) کے دورخلافت میں حضرت ابوذر غفاری (رض) کی مخالفت کے باوجود قانونی نقطہ نظر سے یہی فیصلہ ہوا تھا کہ سونا ‘ چاندی اپنے پاس رکھنا مطلقاً حرام نہیں ہے ‘ مگر حضرت ابوذر غفاری (رض) اپنی رائے میں کسی قسم کی لچک پیدا کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ چونکہ آپ (رض) کے اختلاف کی شدت کے باعث مدینہ کے ماحول میں ایک اضطرابی کیفیت پیدا ہو رہی تھی ‘ اس لیے حضرت عثمان (رض) نے آپ (رض) کو حکم دیا کہ وہ مدینہ سے باہر چلے جائیں۔ اس پر آپ (رض) مدینہ سے نکل گئے اور صحرا میں ایک چھونپڑی بنا کر اس میں رہنے لگے۔- میرے نزدیک اس آیت کا حکم احبار اور رہبان یعنی مذہبی پیشواؤں کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس میں وہ سب لوگ شامل ہیں جنہوں نے اپنا وقت اور اپنی صلاحیتیں دین کی خدمت کے لیے وقف کر رکھی ہیں اور ان کا اپنا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے۔ ایسے مذہبی پیشواؤں کو لوگ ہدیے دیتے ہیں اور ان کی مالی معاونت کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرسکیں۔ جیسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بیت المال سے اپنی ضروریات پوری کرتے تھے ‘ ازواج مطہرات (رض) کو نان نفقہ بھی دیتے تھے اور اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ حسن سلوک بھی کرتے تھے ‘ مگر بیت المال سے کچھ میسر نہ ہونے کی صورت میں فاقے بھی کرتے تھے۔ اسی طرح خلفائے راشدین (رض) کی مثال بھی ہے۔ چناچہ ایسے مذہبی پیشواؤں پر بھی لازم ہے کہ وہ دوسروں کے ہدیے اور وظائف صرف معروف انداز میں اپنی اور اپنے زیر کفالت افراد کی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے استعمال میں لائیں۔ لیکن اگر یہ لوگ اپنی مذکورہ حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دولت اکٹھی کرنا اور جائیدادیں بنانا شروع کردیں ‘ اور پھر یہ جائیدادیں قانون وراثت کے تحت ان کے ورثاء کو منتقل ہوں تو ایسی صورت میں ان لوگوں پر اس آیت کے احکام کا حرف بہ حرف انطباق ہوگا۔ چناچہ آج بھی اگر آپ علمائے حق اور علمائے سو کے بارے میں معلوم کرنا چاہیں تو میرے نزدیک یہ آیت اس کے لیے ایک طرح کا لٹمس ٹیسٹ ( ) ہے۔ اگر کوئی مذہبی پیشوا یا عالم اپنے دینی کیرئیر کے نتیجے میں جائیدادبنا کر اور اپنے پیچھے دولت چھوڑ کرمرا ہو تو وہ بلاشک و شبہ علمائے سو میں سے ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :33 یعنی ظالم صرف یہی ستم نہیں کرتے کہ فتوے بیچتے ہیں ، رشوتیں کھاتے ہیں ، نذرانے لوٹتے ہیں ، ایسے ایسے مذہبی ضابطے اور مراسم ایجاد کرتے ہیں جن سے لوگ اپنی نجات ان سے خریدیں اور ان کا مرنا جینا اور شادی و غم کچھ بھی ان کو کھلائے بغیر نہ ہو سکے اور وہ اپنی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کا ٹھیکہ دار ان کو سمجھ لیں ۔ بلکہ مزید براں اپنی انہی اغراض کی خاطر یہ حضرات خلق خدا کو گمراہیوں کے چکر میں پھنسائے رکھتے ہیں اور جب کبھی کوئی دعوت حق اصلاح کے لیے اُٹھتی ہے تو سب سے پہلے یہی اپنی عالمانہ فریب کاریوں اور مکاریوں کے حربے لے لے کر اس کا راستہ روکنے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

31: لوگوں کا مال ناحق طریقے سے کھانے کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں، لیکن ان علماء کے حوالے سے خاص طور پر جو بات کہی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ یہ لوگ رشوت لے کر لوگوں کی مرضی کے مطابق شریعت کو توڑ موڑ ڈالتے ہیں، اور اس طرح اللہ کے مقرر کئے ہوئے صحیح راستے سے لوگوں کو روک دیتے ہیں۔ 32: اگرچہ یہ آیت براہ راست ان اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو بخل کی وجہ سے مال جمع کرتے رہتے تھے، اور اس کے شرعی حقوق ادا نہیں کرتے تھے، لیکن آیت کے الفاظ عام ہیں اور ان کا اطلاق ان مسلمانوں پر بھی ہوتا ہے جو مال ودولت اکھٹا کرتے چلے جائیں اور وہ حقوق ٹھیک ٹھیک ادا نہ کریں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے مال پر عائد کئے ہیں جن میں سب سے اہم زکوٰۃ کی ادائیگی ہے۔