بدفطرت لوگوں کا دوغلا پن ان بدباطن لوگوں کی اندرونی خباثت کا بیان ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی فتح و نصرت سے ، ان کی بھلائی اور ترقی سے ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے اور اگر اللہ نہ کرے یہاں اس کے خلاف ہوا تو بڑے شور و غل مچاتے ہیں گاگا کر اپنی چالاکی کے افسانے گائے جاتے ہیں کہ میاں اسی وجہ سے ہم تو ان سے بچے رہے مارے خوشی کے بغلیں بجانے لگتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کو جواب دے کر رنج راحت اور ہم خود اللہ کی تقدیر اور اس کی منشا کے ماتحت ہیں وہ ہمارا مولیٰ ہے وہ ہمارا آقا ہے وہ ہماری پناہ ہے ہم مومن ہیں اور مومنوں کا بھروسہ اسی پر ہوتا ہے وہ ہمیں کافی ہے بس ہے وہ ہمارا کار ساز ہے اور بہترین کار ساز ہے ۔
50۔ 1 سیاق کلام کے اعتبار سے حسنَۃ، ُ سے یہاں کامیابی اور غنیمت اور سَیَئَۃ سے ناکامی، شکست اور اسی قسم کے نقصانات جو جنگ میں متوقع ہوتے ہیں مراد ہیں۔ اس میں ان کے خبث باطنی کا اظہار ہے جو منافقین کے دلوں میں تھا اس لئے کہ مصیبت پر خوش ہونا اور بھلائی حاصل ہونے پر رنج اور تکلیف محسوس کرنا، غایت عداوت کی دلیل ہے۔
[٥٤] یعنی اگر فتح نصیب ہو تو یہ جل بھن جاتے ہیں اور اگر خدانخواستہ شکست سے دو چار ہونا پڑے تو کہتے ہیں کہ ہم نے ازراہ دور اندیشی پہلے ہی اپنے بچاؤ کا انتظام کرلیا تھا ہم سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کا یہی حشر ہونے والا ہے لہذا ان کے ساتھ گئے ہی نہیں۔ پھر وہ خوشی خوشی ڈھینگیں مارتے اور بغلیں بجاتے اپنی مجلسوں سے اپنے گھروں کو واپس جاتے ہیں۔
اِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ : یہاں ” حَسَنَةٌ“ سے مراد کامیابی، فتح، غنیمت اور سلامتی ہے اور ” مُصِيْبَةٌ“ سے مراد فتح حاصل کرنے میں وقتی ناکامی یا مسلمانوں کا زخمی اور شہید ہونا ہے۔ یہ بھی ان کے خبث باطن اور مکر و فریب کی ایک دلیل ہے کہ انھیں مسلمانوں کو کوئی فائدہ حاصل ہونا ناگوار ہوتا ہے اور اگر وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہوں تو خوش ہوتے ہیں اور انھیں اپنی ہوش مندی اور سیاست دانی کا پروپیگنڈا کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو پہلے ہی بچاؤ کرلیا تھا، جیسے جنگ احد کے بعد عبداللہ بن ابی منافق نے کہا تھا کہ ہم تو اسی وجہ سے پہلے پلٹ آئے تھے کہ ہمیں معلوم تھا کہ مسلمانوں کو شکست ہوگی اور وہ مارے جائیں گے۔ ایسے ہی وہ منافق جو غزوۂ تبوک کے موقع پر مدینہ میں رہ گئے تھے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے متعلق مشہور کرتے رہے کہ یہ لوگ رومیوں سے بچ کر نہیں آسکیں گے، لیکن جب انھیں اطلاع ملی کہ مسلمان صحیح و سالم فتح حاصل کرکے واپس آ رہے ہیں تو انھیں انتہائی غم ہوا۔ (ابن کثیر) ان کی اس بدخصلت کے مزید تذکرے کے لیے دیکھیے سورة آل عمران (١٥٦) اور نساء (٧٢) ۔
ساتویں آیت میں ان کی ایک اور کم ظرفی کا بیان ہے، کہ یہ لوگ اگرچہ ظاہر میں مسلمانوں کے ساتھ ملے رہتے ہیں، لیکن حال یہ ہے کہ (آیت) اِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤ ْهُمْ ، یعنی اگر آپ کو کوئی فتح اور کامیابی حاصل ہوتی ہے تو ان کو سخت ناگوار ہوتا ہے، (آیت) وَاِنْ تُصِبْكَ مُصِيْبَةٌ يَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَآ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَيَتَوَلَّوْا وَّهُمْ فَرِحُوْنَ ، یعنی اگر آپ کو کوئی مصیبت پہونچتی ہے تو یہ لوگ کہنے لگتے ہیں کہ ہم تو پہلے ہی جانتے تھے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو مصیبت میں ڈال رہے ہیں، اسی لئے ہم نے اپنی مصلحت کو اختیار کیا، ان کے ساتھ شریک نہیں ہوئے اور یہ کہہ کر وہ خوشی خوشی واپس ہوجاتے ہیں۔
اِنْ تُصِبْكَ حَسَـنَۃٌ تَسُؤْہُمْ ٠ ۚ وَاِنْ تُصِبْكَ مُصِيْبَۃٌ يَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَآ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَيَتَوَلَّوْا وَّہُمْ فَرِحُوْنَ ٥٠- ( صاب) مُصِيبَةُ- والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. - مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ - حسنة- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] - والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی - أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، - ( ح س ن ) الحسن - الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے - الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔- اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ - ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] - ساء - اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ - أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - فرح - الْفَرَحُ : انشراح الصّدر بلذّة عاجلة، وأكثر ما يكون ذلک في اللّذات البدنيّة الدّنيوية، فلهذا قال تعالی: لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید 23] ، وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد 26] ، ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر 75] ،- ( ف ر ح ) ا لفرح - کے معنی کسی فوری یا دینوی لذت پر انشراح صدر کے ہیں ۔ عموما اس کا اطلاق جسمانی لذتوں پر خوش ہونے کے معنی میں ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید 23] اور جو تم کو اس نے دیا ہوا اس پر اترایا نہ کرو ۔ وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد 26] اور ( کافر ) لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں ۔ ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر 75] یہ اس کا بدلہ ہے کہ تم ۔۔۔۔۔ خوش کرتے تھے
(٥٠) اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غزوہ بدر کی طرح فتح وغنیمت پیش آتی ہے تو وہ ان منافقین کے لیے غم کا سبب ہوتی ہے اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر غزوہ احد کی طرح قتل وہزیمت کا کوئی حادثہ آپڑتا ہے تو یہ منافقین یعنی عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے اس حادثہ کے پیش آنے سے پہلے ہم نے ساتھ نہ دے کر اپنی حفاظت کرلی تھی اور یہ کہہ کر غزوہ احد کے دن رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو جو حادثہ پیش آیا، خوشی خوشی جہاد سے واپس چلے آتے ہیں۔- شان نزول : ان تصبک حسنۃ تسؤھم “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ جو منافقین مدینہ منورہ میں رہ گئے تھے اور انہوں نے جہاد میں شرکت نہیں کی تھی وہ لوگوں کو نعوذ باللہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے بری بری خبریں بیان کرتے تھے اور اس بات کی اشاعت کرتے تھے کہ نعوذ باللہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) سفر میں بہت ہی مشقت میں پڑگئے اور ہلاک ہوگئے جب ان لوگوں کی تکذیب اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کی عافیت معلوم ہوگئی تو ان لوگوں کو بہت شاق اور ناگوار گزار اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔
آیت ٥٠ (اِنْ تُصِبْکَ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ ج) - اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہیں سے کوئی کامیابی ملتی ہے ‘ کوئی اچھی خبر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے آتی ہے تو انہیں یہ سب کچھ ناگوار لگتا ہے۔- (وَاِنْ تُصِبْکَ مُصِیْبَۃٌ یَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَآ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ ) - کہ ہم کوئی ان لوگوں کی طرح بیوقوف تھوڑے ہیں ‘ ہم نے تو پہلے ہی ان برے حالات سے اپنی حفاظت کا بندوبست کرلیا تھا۔- (وَیَتَوَلَّوْا وَّہُمْ فَرِحُوْنَ )- وہ اس صورت حال میں بڑے شاداں وفرحاں پھرتے ہیں کہ مسلمانوں پر مصیبت آگئی اور ہم بچ گئے ۔- اگلی دو آیات معرکہ حق و باطل میں ایک بندۂ مؤمن کے لیے بہت بڑا ہتھیار ہیں۔ اس لیے ہر مسلمان کو یہ دونوں آیات زبانی یاد کر لینی چاہئیں۔