Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51۔ 1 یہ منافقین کے جواب میں مسلمانوں کے صبر و ثبات اور حوصلے کے لئے فرمایا جا رہا ہے کیونکہ جب انسان کو یہ معلوم ہو کہ اللہ کی طرف سے مقدر کا ہر صورت میں ہونا ہے اور جو بھی مصیبت یا بھلائی ہمیں پہنچتی ہے اسی تقدیر الٰہی کا حصہ ہے، تو انسان کے لئے مصیبت کا برداشت کرنا آسان اور اس کے حوصلے میں اضافے کا سبب ہوتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٥] مومن اور کافر یا منافق کی خصلت کا فرق :۔ اس آیت میں مومنوں اور منافقوں کے نظریاتی اختلاف کو بیان کیا گیا ہے۔ منافق جو کچھ بھی کرتا ہے اسے صرف اپنا دنیوی مفاد ملحوظ ہوتا ہے۔ پھر اگر اسے کامیابی ہو تو اترانے لگتا ہے اور خوشی سے پھولا نہیں سماتا اور اگر ناکامی ہو تو مایوس ہو کر رہ جاتا ہے جبکہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے دین کی سربلندی اور اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہے اگر کامیابی ہو تو اللہ کی مہربانی سمجھتا ہے اور اس کا شکر ادا کرتا ہے مگر اتراتا نہیں اور ناکامی ہو تو وہ بھی اسے مایوس نہیں کرتی اور وہ اسے اللہ ہی کی طرف سے سمجھتا ہے کیونکہ اسباب کو اختیار کرنا مومن کا کام ہے اور اس کے اچھے یا برے نتائج پیدا کرنا اللہ کا کام ہے۔ لہذا وہ ہر حال میں اللہ ہی بھروسہ رکھتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لَّنْ يُّصِيْبَنَآ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَا : یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر ایمان و یقین کی برکت کا ذکر ہے، سچ ہے : ” مَنْ عَلِمَ سِرَّ اللّٰہِ فِی الْقَدَرِ ھَانَتْ عَلَیْہِ الْمَصَاءِبُ “ ” جس نے قضا و قدر میں اللہ تعالیٰ کے راز کو پا لیا اس پر مصیبتیں آسان ہوجاتی ہیں۔ “ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” کوئی مصیبت نہ زمین میں پہنچتی ہے اور نہ تمہاری جانوں میں مگر وہ ایک کتاب میں ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں، یقیناً یہ اللہ پر بہت آسان ہے، تاکہ تم نہ اس پر غم کرو جو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور نہ اس پر پھول جاؤ جو وہ تمہیں عطا فرمائے۔ “ [ الحدید : ٢٢، ٢٣ ] - هُوَ مَوْلٰىنَا : وہی ہمارا مالک، مددگار اور حمایتی ہے۔ ہم اپنے مالک پر خوش ہیں اور ایمان والوں کو تو بس اللہ ہی پر بھروسا رکھنا لازم ہے، نہ دنیا کے سازوسامان پر اور نہ اس کے سوا کسی اور ذات پر۔ ” وَعَلَي اللّٰهِ “ کے پہلے آنے سے حصر کا مفہوم پیدا ہوگیا اور ” فَلْيَتَوَكَّلِ “ میں فاء کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان منافقین کے رویے سے پیدا ہونے والی بددلی کا علاج چاہتے ہیں تو ایمان والوں کے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ صرف اللہ پر بھروسا رکھیں اور اس کے سوا کسی کی پروا نہ کریں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

آٹھویں آیت میں حق تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو منافقین کے مذکورہ اقوال سے متاثر نہ ہونے اور اصل حقیقت کو ہمیشہ سامنے رکھنے کی ہدایت ان الفاظ میں دی : (آیت) قُلْ لَّنْ يُّصِيْبَنَآ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَا ۚ هُوَ مَوْلٰىنَا ۚ وَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤ ْمِنُوْنَ ، یعنی آپ ان مادی اسباب کی پرستش کرنے والوں کو بتلا دیجیئے کہ تم دھوکہ میں ہو یہ مادی اسباب محض ایک پردہ ہیں، ان کے اندر کام کرنے والی قوت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے، ہمیں جو حال پیش آتا ہے وہ سب وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے لکھ دیا ہے، اور وہی ہمارا مولیٰ اور مددگار ہے، اور مسلمانوں کو چاہئے کہ اسی پر اصل بھروسہ رکھیں، مادی اسباب کو صرف اسباب و علامات ہی کی حیثیت سے دیکھیں، ان پر کسی بھلائی یا برائی کا مدار نہ جانیں۔- اعتقاد تقدیر استعمال تدبیر کے ساتھ ہونا چاہئے بےتدبیری کا نام توکل رکھنا غلط ہے :- اس آیت نے مسئلہ توکل کی اصل حقیقت بھی واضح کردی، کہ تقدیر و توکل پر یقین رکھنے کا یہ حاصل نہ ہونا چاہئے، کہ آدمی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے، اور یہ کہے کہ جو کچھ قسمت میں ہوگا وہ ہوجائے گا بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ اسباب اختیاریہ کے لئے اپنی پوری توانائی اور ہمت صرف کی جائے اور سجد قدرت اسباب جمع کرنے کے بعد معاملہ کو تقدیر و توکل کے حوالہ کریں، نظر صرف اللہ تعالیٰ پر رکھیں کہ نتائج ہر کام کے اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔- مسئلہ تقدیر و توکل میں عام دنیا کے لوگ بڑی افراتفری میں پائے جاتے ہیں، کچھ بےدین لوگ تو وہ ہیں جو سرے سے تقدیر و توکل کے قائل ہی نہیں انہوں نے مادی اسباب ہی کو خدا بنایا ہوا ہے، اور کچھ ناواقف ایسے بھی ہیں جنہوں نے تقدیر و توکل کو اپنی کم ہمتی اور بیکاری کا بہانہ بنا لیا ہے، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جہاد کے لئے پوری پوری تیاری اور اس کے بعد اس آیت کے نزول نے اس افراط وتفریط کو ختم کرکے صحیح راہ دکھلا دی " بر توکل زانوئے اشتر بہ بند "۔ یعنی اسباب اختیاریہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی دی ہوئی نعمت ہیں، ان سے فائدہ نہ اٹھانا ناشکری اور بیوقوفی ہے، البتہ اسباب کو اساب کے درجہ سے آگے نہ بڑھاؤ اور عقیدہ یہ رکھو کہ نتائج وثمرات ان اسباب کے تابع نہیں، بلکہ فرمان حق جل شانہ کے تابع ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ لَّنْ يُّصِيْبَنَآ اِلَّا مَا كَتَبَ اللہُ لَنَا۝ ٠ ۚ ہُوَمَوْلٰىنَا۝ ٠ ۚ وَعَلَي اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۝ ٥١- كتب ( لکھنا)- الْكَتْبُ : ضمّ أديم إلى أديم بالخیاطة، يقال : كَتَبْتُ السّقاء، وكَتَبْتُ البغلة : جمعت بين شفريها بحلقة، وفي التّعارف ضمّ الحروف بعضها إلى بعض بالخطّ ، وقد يقال ذلک للمضموم بعضها إلى بعض باللّفظ، فالأصل في الْكِتَابَةِ : النّظم بالخطّ لکن يستعار کلّ واحد للآخر، ولهذا سمّي کلام الله۔ وإن لم يُكْتَبْ- كِتَاباً کقوله : الم ذلِكَ الْكِتابُ- [ البقرة 1- 2] ، وقوله : قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم 30] .- ( ک ت ب ) الکتب ۔ کے اصل معنی کھال کے دو ٹکڑوں کو ملاکر سی دینے کے ہیں چناچہ کہاجاتا ہے کتبت السقاء ، ، میں نے مشکیزہ کو سی دیا کتبت البغلۃ میں نے خچری کی شرمگاہ کے دونوں کنارے بند کرکے ان پر ( لوہے ) کا حلقہ چڑھا دیا ، ، عرف میں اس کے معنی حروف کو تحریر کے ذریعہ باہم ملا دینے کے ہیں مگر کبھی ان حروف کو تلفظ کے ذریعہ باہم ملادینے پر بھی بولاجاتا ہے الغرض کتابۃ کے اصل معنی تو تحریر کے ذریعہ حروف کو باہم ملادینے کے ہیں مگر بطور استعارہ کبھی بمعنی تحریر اور کبھی بمعنی تلفظ استعمال ہوتا ہے اور بناپر کلام الہی کو کتاب کہا گیا ہے گو ( اس وقت ) قید تحریر میں نہیں لائی گئی تھی ۔ قرآن پاک میں ہے : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب ( قرآن مجید ) اس میں کچھ شک نہیں ۔ قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم 30] میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے ۔- ولي - والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] ، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] ، وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] ، ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] ، وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] ، قال عزّ وجلّ : قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] ، ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62]- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - الولی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] میرا مددگار تو خدا ہی ہے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] اور خدا مومنوں کا کار ساز ہے ۔ ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کار ساز ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] خوب حمائتی اور خوب مددگار ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] اور خدا کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست ہے اور خوب دوست ہے ۔ اور ودسرے معنی یعنی اسم مفعول کے متعلق فرمایا : ۔ قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو خدا ان کے حامی اور ودست دار ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62] پھر قیامت کے تمام لوگ اپنے مالک پر حق خدائے تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے ۔- وكل - والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال :- تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] - ( و ک ل) التوکل ( تفعل )- اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (قل لن یصیبنا الا ما کتب اللہ لنا ھو مولنا۔ ان سے کہو ” ہمیں ہرگز کوئی برائی یا بھلائی نہیں چنچتی مگر وہ جو اللہ نے ہمارے لئے لکھ دی ہے۔ اللہ ہی ہمارا مولیٰ ہے) حسن سے مروی ہے کہ جو برائی یا بھلائی ہمیں پہنچتی ہے یہ لوح محفوظ میں اللہ کی طرف سے لکھی ہوئی ہوتی ہے۔ “ اس بارے میں کافروں کا یہ تو ہم غلط ہے کہ ہمیں اپنی کوتاہی اور غفلت کی بنا پر برائی پہنچتی ہے اور اس کا ہمارے رب کی تدبیر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ایک قول کے مطابق اس کی تفسیر یہ ہے کہ انجام کار ہمیں وہی نصیب ہوگا جس کا وعدہ اللہ نے کررکھا ہے یعنی اس کی مدد اور نصرت۔ “

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥١) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان منافقین سے فرمادیجیے کہ ہم کو جو اللہ نے ہمارے لیے مقدر فرمادیا ہے وہی حادثہ پیش آتا ہے وہی ہمارا مالک ہے اور مومنوں کو تو اپنے سب کام اللہ تعالیٰ ہی کے سپرد رکھنے چاہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ (قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلاَّ مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَاج ہُوَ مَوْلٰٹنَا ج) - ہم پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ اللہ ہی کی مرضی اور اجازت سے آتی ہے۔ اس کے اذن کے بغیر کائنات میں ایک پتابھی نہیں ہل سکتا۔ وہ ہمارا کارساز اور پروردگار ہے۔ اگر اس کی مشیت ہو کہ ہمیں کوئی تکلیف آئے تو سر آنکھوں پر ع سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے۔ جو اس کی رضا ہو ہم بھی اسی پر راضی ہیں۔ اگر اس کی طرف سے کوئی تکلیف آجائے تو اس میں بھی ہمارے لیے خیر ہے ع ہرچہ ساقئما ریخت عین الطاف است (ہمارا ساقی ہمارے پیالے میں جو بھی ڈال دے اس کا لطف وکرم ہی ہے) ۔ محبوب کی شمشیر سے ذبح ہونا یقیناً بہت بڑے اعزاز کی بات ہے اور یہ اعزاز کسی غیر کے نصیب میں کیوں ہو ‘ جبکہ ہماری گردنیں ہر وقت اس سعادت کے لیے حاضر ہیں : ؂- نہ شود نصیب دشمن کہ شود ہلاک تیغت - سردوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :51 ”یہاں دنیا پرست اور خدا پرست کی ذہنیت کے فرق کو واضح کیا گیا ہے ۔ دنیا پرست جو کچھ کرتا ہے اپنے نفس کی رضا کے لیے کرتا ہے اور اس کے نفس کی خوشی بعض دنیوی مقاصد کے حصول پر منحصر ہوتی ہے ۔ یہ مقاصد اسے حاصل ہو جائیں تو وہ پھول جاتا ہے اور حاصل نہ ہوں تو اس پر مردنی چھا جاتی ہے ۔ پھر اس کا سہارا تمام تر مادی اسباب پر ہوتا ہے ۔ وہ سازگار ہوں تو اس کا دل بڑھنے لگتا ہے اور ناسازگار ہوتے نظر آئیں تو اس کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے ۔ بخلاف اس کے خدا پرست انسان جو کچھ کرتا ہے اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہے اور اس کام میں اس کا بھروسہ اپنی قوت یا مادی اسباب پر نہیں بلکہ اللہ کی ذات پر ہوتا ہے ۔ راہ حق میں کام کرتے ہوئے اس پر مصائب نازل ہوں یا کامرانیوں کی بارش ہو ، دونوں صورتوں میں وہ یہی سمجھتا ہے کہ جو کچھ اللہ کی مرضی ہے وہ پوری ہو رہی ہے ۔ مصائب اس کا دل نہیں توڑ سکتے اور کامیابیاں اس کو اتراہٹ میں مبتلا نہیں کر سکتیں ۔ کیونکہ اول تو دونوں کو وہ اپنے حق میں خدا کی طرف سے سمجھتا ہے اور اسے ہر حال میں یہ فکر ہوتی ہے کہ خدا کی ڈالی ہوئی اس آزمائش سے بخیریت گذر جائے ۔ دوسرے اس کے پیش نظر دنیوی مقاصد نہیں ہوتے کہ ان کے لحاظ سے وہ اپنی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ کر ے ۔ اس کے سامنے تو رضائے الہٰی کا مقصد وحید ہوتا ہے اور اس مقصد سے اس کے قریب یا دور ہونے کا پیمانہ کسی دنیوی کامیابی کا حصول یا عدم حصول نہیں ہے بلکہ صرف یہ امر ہے کہ راہ خدا میں جان و مال کی بازی لگانے کا جو فرض اس پر عائد ہوتا تھا اسے اس نے کہاں تک انجام دیا ۔ اگر یہ فرض اس نے ادا کر دیا ہو تو خواہ دنیا میں اس کی بازی بالکل ہی ہر گئی ہو لیکن اسے پورا بھروسا رہتا ہے کہ جس خدا کے لیے اس نے مال کھپایا اور جان دی ہے وہ اس کے اجر کو ضائع کرنے والا نہیں ہے ۔ پھر دنیوی اسباب سے وہ آس ہی نہیں لگاتا کہ ان کی سازگار حالات میں بھی اسی عزم و ہمت کے ساتھ کام کیے جاتا ہے جس کا اظہار اہل دنیا سے صرف سازگار حالات ہی میں ہوا کرتا ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ فرمایا ہے کہ ان دنیا پرست منافقین سے کہہ دو کہ ہمارا معاملہ تمہارے معاملہ سے بنیادی طور پر مختلف ہے ۔ تمہاری خوشی و رنج کے قوانین کچھ اور ہیں اور ہمارے کچھ اور تم اطمینان اور بے اطمینانی کسی اور ماخذ سے لیتے ہو اور ہم کسی اور ماخذ سے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani