امن مانگنے والوں کو امن دو منافقوں کی گردن ماردو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ جن کافروں سے آپ کو جہاد کا حکم دیا گیا ہے ان میں سے اگر کوئی آپ سے امن طلب کرے تو آپ اس کی خواہش پوری کر دیں اسے امن دیں یہاں تک کہ وہ قرآن کریم سن لے آپ کی باتیں سن لے دین کی تعلیم معلوم کرلے حجت ربانی پوری ہو جائے ۔ پھر اپنے امن میں ہی اسے اس کے وطن پہنچا دو بےخوفی کے ساتھ یہ اپنے امن کی جگہ پہنچ جائے ممکن ہے کہ سوچ سمجھ کر حق کو قبول کرلے ۔ یہ اس لئے ہے کہ یہ بےعلم لوگ ہیں انہیں دینی معلومات بہم پہنچاؤ اللہ کی دعوت اس کے بندوں کے کانوں تک پہنچادو ۔ مجاہد فرماتے ہیں کہ جو تیرے پاس دینی باتیں سننے سمجھنے کے لئے آئے خواہ وہ کوئی ہی کیوں نہ ہو وہ امن میں ہے یہاں تک کہ کلام اللہ سنے پھر جہاں سے آیا ہے وہاں باامن پہنچ جائے اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو جو دین سمجھنے اور اللہ کی طرف سے لائے ہوئے پیغام کو سننے کے لئے آتے انہیں امن دے دیا کرتے تھے حدیبیہ والے سال بھی قریش کے جتنے قاصد آئے یہاں انہیں کوئی خطرہ نہ تھا ۔ عروہ بن مسعود ، مکرزبن حفص ، سہیل بن عمرو وغیرہ یکے بعد دیگرے آتے رہے ۔ یہاں آکر انہیں وہ شان نظر آئی جو قیصر و کسریٰ کے دربار میں بھی نہ تھی یہی انہوں نے اپنی قوم سے کہا پس یہ رویہ بھی بہت سے لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بن گیا ۔ مسیلمہ کذاب مدعی نبوت کا قاصد جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچا آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا تم مسلیمہ کی رسالت کے قائل ہو؟ اس نے کہاں ہاں آپ نے فرمایا اگر قاصدوں کا قتل میرے نزدیک ناجائز نہ ہوتا تو میں تیری گردن اڑا دیتا ۔ آخر یہ شخص حضرت ابن مسعود کوفی کی امارت کے زمانے میں قتل کر دیا گیا اے ابن النواحہ کہا جاتا تھا آپ کو جب معلوم ہوا کہ یہ مسیلمہ کا ماننے والا ہے تو آپ نے بلوایا اور فرمایا اب تو قاصد نہیں ہے اب تیری گردن مارنے سے کوئی امر مانع نہیں چنانچہ اسے قتل کر دیا گیا اللہ کی لعنت اس پر ہو ۔ الغرض دارالحرب سے جو قاصد آئے یا تاجر آئے یا صلح کا طالب آئے یا آپس میں اصلاح کے ارادے سے آئے یا جزیہ لے کر حاضر ہو امام یا نائب امام نے اسے امن وامان دے دیا ہو تو جب تک وہ دارالاسلام میں رہے یا اپنے وطن نہ پہنچ جائے اسے قتل کرنا حرام ہے ۔ علماء کہتے ہیں ایسے شخص کو دارالاسلام میں سال بھر تک نہ رہنے دیا جائے ۔ زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک وہ یہاں ٹھہر سکتا ہے پھر چار ماہ سے زیادہ اور سال بھر کے اندر دو قول ہیں امام شافعی وغیرہ علماء کے ہیں رحمہم اللہ تعالیٰ ۔
6۔ 1 اس آیت میں مذکورہ حربی کافروں کے بارے میں ایک رخصت دی گئی ہے کہ اگر کوئی کافر پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دو ، یعنی اسے اپنی حفظ وامان میں رکھو تاکہ کوئی مسلمان اسے قتل نہ کرسکے اور تاکہ اسے اللہ کی باتیں سننے اور اسلام کے سمجھنے کا موقعہ ملے، ممکن ہے اس طرح اسے توبہ اور قبول اسلام کی توفیق مل جائے۔ لیکن اگر وہ کلام اللہ سننے کے باوجود مسلمان نہیں ہوتا تو اسے اس کی جائے امن تک پہنچا دو ، مطلب یہ ہے کہ اپنی امان کی پاسداری آخر تک کرنی ہے، جب تک وہ اپنے مستقر تک بخیریت واپس نہیں پہنچ جاتا، اس کی جان کی حفاظت تمہاری ذمہ داری ہے۔ 6۔ 2 یعنی پناہ کے طلبگاروں کو پناہ کی رخصت اس لئے دی گئی ہے کہ یہ بےعلم لوگ ہیں، ممکن ہے اللہ اور رسول کی باتیں ان کے علم میں آئیں اور مسلمانوں کا اخلاق و کردار وہ دیکھیں تو اسلام کی حقانیت و صداقت کے وہ قائل ہوجائیں۔ اور اسلام قبول کر کے آخرت کے عذاب سے بچ جائیں۔ جس طرح صلح حدیبیہ کے بعد بہت سے کافر امان طلب کر کے مدینہ آتے جاتے رہے تو انہیں مسلمانوں کے اخلاق و کردار کے مشاہدے سے اسلام کے سمجھنے میں بڑی مدد ملی اور بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔
[٦] مشرک کو امان مانگنے پر امان دینا اور اسلام سمجھانا چاہئے :۔ یعنی اگر کوئی مشرک اس چار ماہ کی معینہ مدت کے اندر یا بعد میں پکڑ دھکڑ کے دوران یہ درخواست کرے کہ مجھے اسلام کی تعلیم پوری طرح سمجھا دو ۔ تو اس کی اس درخواست کو رد نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے اپنے ہاں پناہ دو تاکہ دوسرا کوئی مسلمان بھی اس سے تعرض نہ کرے۔ پھر اسے اسلام کے اصول و ارکان اور اس کے حقائق پوری طرح سمجھا دو ۔ پھر بھی اگر وہ اسلام نہیں لاتا اور معاندانہ روش اختیار کرتا ہے تو وہیں اسے قتل نہ کردو بلکہ اسے اس کی حفاظت کے مقام پر پہنچا دو ۔ پھر اس کے بعد تم اس سے وہی سلوک کرسکتے ہو جو دوسرے مشرکوں سے کرنا چاہیے۔ یہ رعایت اس لیے دی گئی کہ کسی مشرک کے لیے اتمام حجت کا عذر باقی نہ رہے۔- پناہ یا امان بھی دراصل ایفائے عہد ہی کی ایک قسم ہے جس میں پناہ لینے والے کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ پناہ دینے والا اس کی جان و مال کی دشمنوں سے حفاظت کی ذمہ داری لیتا ہے۔ اور وہ خود بھی اسے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچائے گا۔ مسلمانوں کا اس قسم کا ایفائے عہد یا امان کی پاسداری اس قدر زبان زد تھی کہ دشمن نے بعض دفعہ مسلمانوں کی کسی واقعہ سے لاعلمی سے فائدہ اٹھا کر امان حاصل کی اور عظیم فائدے حاصل کیے اور مسلمان جو پناہ دے چکے تھے۔ یہ جاننے کے باوجود کہ یہ امان مکر و فریب سے حاصل کی گئی ہے اپنا نقصان اٹھا کر بھی اس عہد کو پورا کیا۔- اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اگر صرف ایک مسلمان خواہ وہ آزاد ہو یا غلام یا عورت ہو کسی کو پناہ دے دے تو وہ تمام مسلمانوں کی طرف سے امان سمجھی جائے گی۔ چناچہ خوزستان (ایران) کی فتوحات کے سلسلہ میں ایک مقام شابور کا مسلمانوں نے محاصرہ کیا ہوا تھا۔ ایک دن شہر والوں نے خود شہر پناہ کے دروازے کھول دیئے اور نہایت اطمینان سے اپنے کام کاج میں لگ گئے۔ مسلمانوں کو اس بات پر بڑی حیرت ہوئی۔ سبب پوچھا تو شہر والوں نے کہا کہ تم ہم کو جزیہ کی شرط پر ایمان دے چکے ہو۔ اب کیا جھگڑا رہا (واضح رہے کہ جزیہ کی شرط پر امان کا اصل وقت جنگ شروع ہونے سے پہلے ہے۔ دوران جنگ یا فتح کے بعد نہیں) سب کو حیرت تھی کہ امان کس نے دی۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایک غلام نے لوگوں سے چھپا کر امن کا رقعہ لکھ دیا ہے۔ ابو موسیٰ اسلامی سپہ سالار نے کہا کہ ایک غلام کی امان حجت نہیں ہوسکتی۔ شہر والے کہتے تھے کہ ہم آزاد غلام نہیں جانتے۔ آخر حضرت عمر (رض) کو خط لکھا گیا۔ آپ نے جواب میں لکھا کہ مسلمانوں کا غلام بھی مسلمان ہے اور جس کو اس نے امان دی تمام مسلمان امان دے چکے۔ (الفاروق ص ٢٣١)- اور عورت کی امان کے سلسلہ میں درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے :۔- فتح مکہ کے موقعہ پر ام ہانی رسول اللہ کے پاس گئیں۔ اس وقت آپ پس پردہ غسل فرما رہے تھے۔ آپ نے پوچھا کون ہے ؟ ام ہانی کہنے لگیں میں ام ہانی ہوں پھر ام ہانی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میری ماں کے لڑکے (علیص) یہ کہتے ہیں کہ وہ ہبیرہ (ام ہانی کے خاوند کا نام) کے لڑکے کو قتل کردیں گے جبکہ میں اسے پناہ دے چکی ہوں۔ آپ نے فرمایا ام ہانی جس کو تم نے پناہ دی ہم نے بھی اس کو پناہ دی۔ (بخاری کتاب الغسل۔ باب التستر فی الغسل)- مسلمانوں کی اس راستبازی اور ایفائے عہد کی بنا پر دشمن دھوکا دے کر بھی امان حاصل کرلیتے تھے۔ چناچہ عراق و ایران کی جنگوں میں خارق کے مقام پر سیدنا ابو عبیدہ صبن الجراح اور ایرانیوں کے سپہ سالار جاپان کی افواج کا مقابلہ ہوا۔ جاپان شکست کھا کر گرفتار ہوگیا۔ مگر جس مجاہد نے اسے گرفتار کیا تھا وہ اسے پہچانتا نہیں تھا۔ جاپان نے اس کی لاعلمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے عوض دو نوجوان غلام دینے کا وعدہ کر کے امان لے لی۔ اتنے میں کسی دوسرے نے اسے پہچان لیا اور پکڑ کر ابو عبیدہ کے پاس لے گئے۔ سیدنا ابو عبیدہ نے یہ صورت حال دیکھ کر فرمایا اگرچہ ایسے دشمن کو چھوڑ دینا ہمارے حق میں بہت مضر ثابت ہوگا مگر ایک مسلمان اسے پناہ دے چکا ہے اس لیے بدعہدی جائز نہیں چناچہ اس امان کی بنا پر اسے چھوڑ دیا گیا۔ (تاریخ اسلام۔ حمید الدین ص ١٣٢)- اب اس کے مقابلہ میں عیسائی دنیا کی صلیبی جنگوں میں امان، کا قصہ بھی سن لیجئے۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد طرابلس کے مسلمان بادشاہ نے کاؤنٹ بوہیمانڈ کو پیغام بھیجا کہ وہ معاہدہ کرنے کو تیار ہے اور ساتھ ہی دس گھوڑے اور سونا بھی خیر سگالی کے طور پر بھیجا اور یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا تھا جب کاؤنٹ امان دے چکنے کے بعد پورے شہر کے زن و مرد کو موت کی گھاٹ اتار رہا تھا۔ بوہیمانڈ نے ترجمان کے ذریعہ مسلمان امیروں کو بتایا کہ اگر وہ صدر دروازے کے اوپر والے محل میں پناہ لے لیں تو ان کو، ان کی بیویوں اور ان کے بچوں کو پناہ دے دی جائے گی اور ان کا مال واپس کردیا جائے گا۔ شہر کا ایک کونا بھی مسلمانوں کی لاشوں سے خالی نہ تھا اور چلنا پھرنا دشوار ہوگیا تھا بوہیمانڈ نے جن کو پناہ دی تھی ان کا سونا چاندی اور زیورات ان سے لے لیے اور ان میں سے بعض کو تو مروا دیا اور باقی ماندہ کو انطاکیہ میں غلام بنا کر بیچ ڈالا گیا۔ (پہلی صلیبی جنگ ص ٤٥ بحوالہ جہاد از بریگیڈیئر گلزار احمد ص ٢٦٧)
وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ : یعنی امن کی مدت گزرنے کے بعد اگر کوئی مشرک، جس سے تمہارا کوئی عہد نہیں، تم سے درخواست کرے کہ مجھے اپنے ہاں پناہ دو تو اسے پناہ دے دو ، تاکہ وہ اللہ کا کلام سنے اور اگر آیا ہی اسلام کو سمجھنے یا اپنے شبہات دور کرنے کے لیے ہے تو اسے بدرجۂ اولیٰ پناہ دینی چاہیے۔ اب اگر وہ اسلام لانے کے لیے آمادہ نہ ہو اور اپنے ٹھکانے پر واپس جانا چاہے تو تم اسے اس کے ٹھکانے پر پہنچا دو ، کیونکہ ان لوگوں کو اسلام کی حقیقت معلوم نہیں، ممکن ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کی باتیں سن کر، ان کا معاشرہ اور اخلاق و کردار دیکھ کر مسلمان ہوجائیں، پھر جب وہ اپنے ٹھکانے پر پہنچ جائے تو دوسرے مشرکین کی طرح اسے مارنا اور قتل کرنا جائز ہے، اس سے پہلے جائز نہیں۔ یہ حکم ہمیشہ کے لیے ہے اور کوئی بھی مسلمان ہو وہ کافر کو پناہ دے سکتا ہے، خواہ مسلمانوں میں اس کی حیثیت معمولی ہو اور تمام مسلمانوں پر یہ پناہ پوری کرنا لازم ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر ام ہانی (رض) نے ایک مشرک کو پناہ دی، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آکر یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا : ” ہم نے اسے پناہ دی جسے تم نے پناہ دی، ہم نے اسے امان دی جسے تم نے امان دی۔ “ [ أبو داوٗد، الجہاد، باب فی أمان المرأ ۃ : ٢٧٦٣۔ بخاری : ٣٥٧ ] - حَتّٰي يَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ : اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کو پناہ دینے سے اصل مقصود دعوت دین، قرآن سنانا اور اسلام کا تعارف کروانا ہے، پھر اگر وہ مسلمان نہ ہوں تو انھیں جلدی رخصت کردینا چاہیے، یہ نہیں کہ وہ اپنے اڈے بنا کر جاسوسی کریں اور مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں۔
خلاصہ تفسیر - اور اگر کوئی شخص مشرکین میں سے ( زمانہ اباحت قتل میں بعد ختم میعاد امن کے توبہ و اسلام کے فوائد و برکات سن کر اس طرف راغب ہو اور حقیقت و حقّیت اسلام کی تلاش کی غرض سے آپ کے پاس آکر) آپ سے پناہ کا طالب ہو ( تاکہ اطمینان سے سن سکے اور سمجھ سکے) تو ( ایسی حالت میں) آپ اس کو پناہ دیجئے تاکہ وہ کلام الہٰی ( مراد مطلق دلائل دین حق کے ہیں) سن لے پھر ( اس کے بعد) اس کو اس کی امن کی جگہ میں پہنچا دیجئے ( یعنی پہنچنے دیجئے تاکہ وہ سوچ سمجھ کر اپنی رائے قائم کرلے) یہ حکم ( اتنی پناہ دینے کا) اس سبب سے (دیا جاتا) ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں کہ پوری خبر نہیں رکھتے ( اس لئے قدرے مہلت دینا ضروری ہے۔ جماعت اول نے جو نقض عہد کیا تھا ان کے نقض عہد سے پہلے بطور پیشین گوئی کے فرماتے ہیں کہ) ان مشرکین ( قریش) کا عہد اللہ کے نزدیک اور اس کے رسول کے نزدیک کیسے ( قابل رعایت) رہے گا ( کیونکہ رعایت تو اس عہد کی ہوتی ہے جس کو دوسرا شخص خود نہ توڑے ورنہ رعایت نہیں باقی رہتی۔ مطلب یہ کہ یہ لوگ عہد کو توڑ دیں گے اس وقت اس طرف سے بھی رعایت نہ ہوگی) مگر جن لوگوں سے تم نے مسجد حرام ( یعنی حرم) کے نزدیک عہد لیا ہے ( مراد دوسری جماعت ہے جن کا استثناء اوپر بھی (آیت) اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ الخ میں آچکا ہے یعنی ان سے امید ہے کہ یہ عہد کو قائم رکھیں گے) سو جب تک یہ لوگ تم سے سیدھی طرح رہیں ( یعنی عہد نہ توڑیں) تم بھی ان سے سیدھی طرح رہو ( اور مدت عہد کی ان سے پوری کردو چناچہ زمانہ نزول براءت میں اس مدت میں نو ماہ باقی رہے اور بوجہ ان کی عہد شکنی نہ کرنے کے ان کی یہ مدت پوری کی گئی) بلا شبہ اللہ تعالیٰ ( بدعہدی سے) احتیاط رکھنے والوں کو پسند کرتے ہیں ( پس تم بھی احتیاط رکھنے سے پسندیدہ حق ہوجاؤ گے یہ استثناء کرکے پھر عود ہے مضمون متعلق جماعت اول کی طرف کہ) کیسے (ان کا عہد قابل رعایت رہے گا یعنی وہ لوگ عہد پر کب قائم رہیں گے) حالانکہ ان کی یہ حالت ہے کہ اگر وہ تم پر کہیں غلبہ پاجائیں تو تمہارے بارے میں نہ قرابت کا پاس کریں اور نہ قول وقرار کا ( کیونکہ ان کی یہ صلح مجبوری اور خوف جہاد سے ہے دل سے نہیں پس) یہ لوگ تم کو ( صرف) اپنی زبانی باتوں سے راضی کررہے ہیں اور ان کے دل ( ان باتوں کو) نہیں مانتے ( پس جب دل سے اس عہد کے پورا کرنے کا عزم نہیں ہے تو کیا پورا ہوگا) اور ان میں زیادہ آدمی شریر ہیں ( کہ عہد پورا کرنا نہیں چاہتے اور اگر ایک آدھ پورا کرنا بھی چاہتا ہو تو زیادہ کے سامنے ایک دو کی کب چلتی ہے اور وجہ ان کے شریر ہونے کی یہ ہے کہ) انہوں نے احکام الہٰیہ کے عوض ( دنیا کی) متاع ناپائیدار کو اختیار کر رکھا ہے ( جیسا کہ کفار کی حالت ہوتی ہے کہ دین کو چھوڑ کر دنیا کو اس پر ترجیح دیتے ہیں جب دنیا زیادہ محبوب ہوگی تو جب عہد شکنی میں دنیوی غرض حاصل ہوتی نظر آئے گی اس میں کچھ باک نہ ہوگا بخلاف اس شخص کے جو دین کو ترجیح دیتا ہے وہ احکام الہٰیہ اور وفائے عہد وغیرہ کا پابند ہوگا) سو ( اس ترجیح دنیا علی الدین کی وجہ سے) یہ لوگ اللہ کے ( سیدھے) راستہ سے ( جس میں وفائے عہد بھی داخل ہے) ہٹے ہوئے ہیں ( اور) یقینا یہ ان کا عمل بہت ہی برا ہے ( اور ہم نے جو اوپر کہا ہے لَا يَرْقُبُوْا فِيْكُمْ الخ سو اس میں تمہاری کچھ تخصیص نہیں ان کی تو یہ حالت ہے کہ) یہ لوگ کسی مسلمان کے بارے میں ( بھی) نہ قرابت کا پاس کریں اور نہ قول وقرار کا اور یہ لوگ ( خصوص اس باب میں) بہت ہی زیادتی کر رہے ہیں سو ( جب ان کے عہد پر اعتماد و اطمینان نہیں بلکہ احتمال عہد شکنی کا بھی ہے جیسا کہ اس کی جانب مخالف کا بھی احتمال ہے اس لئے ہم ان کے بارے میں مفصل حکم سناتے ہیں کہ) اگر یہ لوگ ( کفر سے) تو بہ کرلیں ( یعنی مسلمان ہوجائیں) اور ( اس اسلام کو ظاہر بھی کردیں مثلا) نماز پڑھنے لگیں اور زکوٰة دینے لگیں تو ( پھر ان کی عہد شکنی وغیرہ پر اصلا نظر نہ ہوگی خواہ انہوں نے کچھ ہی کیا ہو اسلام لانے سے) وہ تمہارے دینی بھائی ہوجائیں گے ( اور پچھلا کیا ہوا سب معاف ہوجائے گا) اور ہم سمجھدار لوگوں ( کو بتلانے) کے لئے احکام کو خوب تفصیل سے بیان کرتے ہیں ( چناچہ اس مقام پر بھی ایسا ہی کیا گیا ) ۔- معارف و مسائل - سورة توبہ کی ابتدائی پانچ آیتوں میں اس کا ذکر تھا کہ فتح مکہ کے بعد مکہ اور اس کے اطراف کے تمام مشرکین و کفار کو جان و مال کا عام امان دے دیا گیا مگر ان کی سابقہ غداری اور عہد شکنی کے تجربہ کی بنا پر آئندہ کے لئے ان سے کوئی معاہدہ نہ کیا جانا طے ہوگیا۔ اس قرارداد کے باوجود جن لوگوں سے کوئی معاہدہ اس سے پہلے ہوچکا تھا اور انہوں نے عہد شکنی نہیں کی تو ان کا معاہدہ ختم میعاد تک پورا کرنے کے احکام ان آیات میں نازل ہوئے۔ اور جن سے کوئی معاہدہ نہیں تھا یا کسی معین میعاد کا معاہدہ نہیں تھا ان کے ساتھ بھی یہ رعایت کی گئی کہ ان کو فوری طور پر مکہ چھوڑ دینے کے حکم کے بجائے چار مہینہ کی وسیع مہلت دے دی گئی کہ اس عرصہ میں وہ مکہ چھوڑ کر جہاں مناسب سمجھیں سہولت و اطمینان کے ساتھ چلے جائیں۔ یا اگر اسلام کی حقانیت ان پر روشن ہوچکی ہے تو مسلمان ہوجائیں۔ ان احکام کا نتیجہ یہ تھا کہ سال آئندہ تک مکہ مکرمہ سہولت کے ساتھ ان سب غدار مشرکین سے خالی ہوجائے اور چونکہ یہ خالی کرنا بھی کسی انتقامی جذبہ سے نہیں بلکہ مسلسل تجربوں کے بعد اپنی حفاظت کے پیش نظر عمل میں لایا گیا تھا اس لئے ان کی اصلاح و خیر خواہی کا دروازہ اب بھی کھلا رکھا گیا۔ جس کا ذکر چھٹی آیت میں ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر مشرکین میں سے کوئی شخص آپ سے پناہ مانگے تو آپ کو پناہ دینی چاہئے تاکہ وہ آپ کے قریب آکر اللہ کا کلام سن سکے اور اسلام کی حقانیت کو سمجھ سکے اور صرف یہی نہیں کہ وقتی طور پر اس کو پناہ دے دی جائے بلکہ جب وہ اپنے اس کام سے فارغ ہوجائے تو اپنی حفاظت اور نگرانی میں اس کو اس مقام تک پہنچانا بھی مسلمانوں کے ذمہ ہے جہاں یہ اپنے آپ کو محفوظ و مطمئن سمجھتا ہے۔ آخر آیت میں فرمایا کہ یہ حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ یہ لوگ پوری خبر نہیں رکھتے قریب آکر باخبر ہو سکتے ہیں۔- اس آیت سے بھی چند مسائل اور فوائد حاصل ہوئے جن کو امام ابوبکر جصاص نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔- حقانیت اسلام کو دلائل کے ساتھ سمجھانا علماء دین کا فرض ہے :- اول یہ کہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اگر کوئی کافر مسلمانوں سے اس کا مطالبہ کرے کہ مجھے اسلام کی حقانیت دلیل سے سمجھاؤ تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس کا مطالبہ پورا کریں۔- دوسرے یہ کہ جو شخص اسلام کی تحقیق اور معلومات حاصل کرنے کے لئے ہمارے پاس آئے تو ہم پر واجب ہے کہ اس کو اجازت دیں اور اس کی حفاظت کریں۔ اس کو کسی قسم کی تکلیف یا نقصان پہنچانا جائز نہیں۔ تفسیر قرطبی میں ہے کہ یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ اس کے آنے کا مقصد اللہ کا کلام سننا اور اسلام کی تحقیق کرنا ہو اور اگر کوئی دوسری غرض تجارت وغیرہ ہو تو وہ مسلمانوں کے مصالح اور حاکم مسلمین کی صوابدید پر موقوف ہے مناسب سمجھے تو اجازت دے ورنہ اختیار ہے۔- غیر مسلم جو دارالاسلام کے باشندے نہ ہوں ان کو ضرورت سے زائد دارالاسلام میں ٹھہرنے کی اجازت نہ دی جائے :- تیسرے یہ کہ غیر مسلم حربی جس کے ساتھ ہمارا کوئی معاہدہ نہ ہو اس کو ضرورت سے زیادہ ٹھہرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ کیونکہ آیت مذکورہ میں پناہ دینے اور ٹھہرانے کی یہ حد مقرر کردی گئی ہے (آیت) حَتّٰي يَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ۔ یعنی اس کو اپنے یہاں اتنا ٹھہراؤ کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔- چوتھے یہ کہ مسلمان حاکم و امیر کے فرائض میں سے ہے کہ جب کوئی حربی غیر مسلم کسی ضرورت کی بنا پر ہم سے اجازت ( ویزا) لے کر ہمارے ملک میں داخل ہو تو اس کے حالات پر نظر رکھے اور جب وہ اپنا کام پورا کرچکے اس کو حفاظت کے ساتھ واپس کردے۔- ساتویں آٹھویں نویں دسویں چار آیتوں میں اس اعلان برأت کی حکمت کا بیان ہے جو سورة توبہ کی ابتدائی آیات میں ذکر کیا گیا ہے اس آیت میں عہد شکنی کرنے والے مشرکین کی طبعی خسّت اور مسلمانوں سے بغض وعناد کی شرت کا ذکر کرکے یہ بتلایا گیا ہے کہ ان سے وفاء عہد کی امید رکھنا ہی غلط ہے۔ ارشاد فرمایا کہ بجز چند لوگوں کے جن سے مسجد حرام کے پاس تمہارا معاہدہ ہوا تھا ان مشرکین کا کوئی عہد اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک قابل رعایت کیسے ہوسکتا ہے جب کہ ان کا یہ حال ہے کہ اگر ان کو کسی وقت بھی ذرا موقع مل جائے تو وہ تمہارے بارے میں نہ کسی قرابت داری کی رعایت کریں نہ عہد و پمیان کی اور وجہ اس کی یہ ہے کہ لوگ معاہدہ کرنے کے وقت بھی دل میں اس کے پورا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے بلکہ صرف الفاظ سے تمہیں خوش کرنا چاہتے ہیں اور ان میں سے اکثر لوگ فاسق یعنی عہد شکن غدار ہیں۔
وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْہُ حَتّٰي يَسْمَعَ كَلٰمَ اللہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗ ٠ ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُوْنَ ٦ ۧ- أحد - أَحَدٌ يستعمل علی ضربین :- أحدهما : في النفي فقط - والثاني : في الإثبات .- فأمّا المختص بالنفي فلاستغراق جنس الناطقین، ويتناول القلیل والکثير علی طریق الاجتماع والافتراق، نحو : ما في الدار أحد، أي : لا واحد ولا اثنان فصاعدا لا مجتمعین ولا مفترقین، ولهذا المعنی لم يصحّ استعماله في الإثبات، لأنّ نفي المتضادین يصح، ولا يصحّ إثباتهما، فلو قيل : في الدار واحد لکان فيه إثبات واحدٍ منفرد مع إثبات ما فوق الواحد مجتمعین ومفترقین، وذلک ظاهر الإحالة، ولتناول ذلک ما فوق الواحد يصح أن يقال : ما من أحدٍ فاضلین «1» ، کقوله تعالی: فَما مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حاجِزِينَ [ الحاقة 47] .- وأمّا المستعمل في الإثبات فعلی ثلاثة أوجه :- الأول : في الواحد المضموم إلى العشرات نحو : أحد عشر وأحد وعشرین .- والثاني : أن يستعمل مضافا أو مضافا إليه بمعنی الأول، کقوله تعالی: أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً [يوسف 41] ، وقولهم : يوم الأحد . أي : يوم الأول، ويوم الاثنین .- والثالث : أن يستعمل مطلقا وصفا، ولیس ذلک إلا في وصف اللہ تعالیٰ بقوله : قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ [ الإخلاص 1] ، وأصله : وحد ولکن وحد يستعمل في غيره نحو قول النابغة :- كأنّ رحلي وقد زال النهار بنا ... بذي الجلیل علی مستأنس وحد - ( ا ح د ) احد کا لفظ دو طرح استعمال ہوتا ہے کبھی صرف نفی میں اور کبھی صرف اثبات میں ۔ نفی کی صورت میں ذوی العقول کے لئے آتا ہے اور استغراق جنس کے معنی دیتا ہے خواہ قلیل ہو یا کثیر مجتمع ہو یا متفرق جیسے ما فی الدار احد ( گھر میں کوئی بھی نہیں ہے ) یعنی نہ ایک ہے اور نہ دو یا دو سے زیادہ نہ مجتمع اور نہ ہی متفرق طور پر اس معنی کی بنا پر کلام مثبت میں اس استعمال درست نہیں ہے کیونکہ دو متضاد چیزوں کی نفی تو صحیح ہوسکتی ہے لیکن دونوں کا اثبات نہیں ہوتا جب فی الدار واحد کہا جائے تو ظاہر ہی کہ ایک اکیلے کا گھر میں ہونا تو ثابت ہوگا ہی مگر ساتھ ہی دو یا دو سے زیادہ کا بھی اجتماعا و افتراقا اثبات ہوجائے گا پھر احد کا لفظ چونکہ مافوق الواحد کی بھی نفی کرتا ہے اس لئے ما من احد فاضلین ۔ کہناصحیح ہوگا ۔ چناچہ قرآن میں ہے فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ ( سورة الحاقة 47) پھر تم میں سے کوئی بھی ہمیں اس سے روکنے والا نہ ہوگا ۔ کلام مثبت میں احد کا استعمال تین طرح پر ہوتا ہے (1) عشرات کے ساتھ ضم ہوکر جیسے احد عشر ( گیارہ ) احد وعشرون ( اکیس ) وغیرہ (2) مضاف یا مضاف الیہ ہوکر اس صورت میں یہ اول ( یعنی پہلا کے معنی میں ہوگا جیسے فرمایا : أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا ( سورة يوسف 41) یعنی تم میں سے جو پہلا ہے وہ تو اپنے آقا کو شراب پلایا کرے گا ۔ یوم الاحد ہفتے کا پہلا دن یعنی اتوار (3) مطلقا بطور وصف ہی ہوگا ( اور اس کے معنی ہوں گے یکتا ، یگانہ بےنظیر ، بےمثل ) جیسے فرمایا :۔ قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ ( سورة الإِخلَاص 1) کہو کہ وہ ( ذات پاک ہے جس کا نام ) اللہ ہے ۔ ایک ہے ۔ احد اصل میں وحد ہے لیکن وحد کا لفظ غیر باری تعالیٰ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ نابغہ نے کہا ہے ع ( بسیط) (10) کان رجلی وقد زال النھار بنا بذی الجلیل علی مستأنس وحددن ڈھلے وادی ذی الجلیل میں میری اونٹنی کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ جیسے میرا پالان بجائے اونٹنی کے اس گورخر پر کسا ہوا ہو جو تنہا ہو اور انسان کی آہٹ پاکر ڈر کے مارے تیز بھاگ رہا ہو ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- استجارک - ۔ اس کا مادہ جور ہے الجار۔ پڑوسی۔ ہمسایہ ۔ استجار۔ اس نے پناہ طلب کی۔ استجارک۔ اس نے تجھ سے پناہ طلب کی۔ استجارۃ ( افتعال) ماضی واحد مذکر غائب ک ضمیر واحد مذکر حاضر۔ جار پناہ دینے والا۔ مددگار۔ وانی جارلکم (8:48) اور میں تمہارا حامی مددگار ہوں۔ اور وھو یجیر ولا یجار علیہ (23:88) اور وہ پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابل کوئی پناہ نہیں دے سکتا۔- اور معنی قرب کے اعتبار سے جار عن الطریق کا محاورہ استعمال ہوتا ہے۔ جس کے معنی ہیں راستہ سے ایک طرف مائل ہونے کے۔ پھر مطلقاً حق سے عدول کرنے کے لئے اس کو اصل قرار دے کر اس سے الجور بمعنی ظلم بنایا گیا۔ قرآن حکیم میں ہے ومنھا جائر (16:9) اور بعض راستے سیدھی راہ سے ایک جانب مائل ہو رہے ہیں۔ جو روستم۔ ظلم و ستم کے معنی میں عام استعمال ہوتا ہے - جار - الجار : من يقرب مسکنه منك، وهو من الأسماء المتضایفة، فإنّ الجار لا يكون جارا لغیره إلا وذلک الغیر جار له قال تعالی: وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى وَالْجارِ الْجُنُبِ [ النساء 36] ، ويقال : استجرته فأجارني، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِنِّي جارٌ لَكُمْ [ الأنفال 48] ، وقال عزّ وجلّ : وَهُوَ يُجِيرُ وَلا يُجارُ عَلَيْهِ- [ المؤمنون 88] ، وقد تصوّر من الجار معنی القرب، فقیل لمن يقرب من غيره :، قال تعالی: لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا [ الأحزاب 60] ، وقال تعالی: وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُتَجاوِراتٌ [ الرعد 4] - ( ج و ر )- الجارو ( پڑسی ۔ ہمسایہ ہر وہ شخص جس کی سکونت گاہ دوسرے کے قرب میں ہو وہ اس کا جار کہلاتا ہے یہ ، ، اسماء متضا یفہ ، ، یعنی ان الفاظ سے ہے جو ایک دوسرے کے تقابل سے اپنے معنی دیتے ہیں جیسا کہ اخ اور صدیق کے معنی دیتے ہیں جیسا کہ اخ اور صداقت دونوں جانب سے ہوتی ہے ) کیونکہ کسی کا پڑوسی ہونا اسی وقت متصور ہوسکتا ہے جب دوسرا بھی اسکا پڑسی ہو ۔ چونکہ ہمسائے کا حق عقلا اور شرعا بہت بڑا حق سمجھا گیا ہے اس بنا پر ہر وہ شخص جس کا حق بڑا ہو یا وہ کسی دوسرے کے حق بڑا خیال کرتا ہو اسے اس کا ، ، جار ، ، کہہ دیتے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى وَالْجارِ الْجُنُبِ [ النساء 36] اور رشتہ دار ہمسایہ اور اجنبی ہمسایوں ۔ میں نے اس سے پناہ طلب کی چناچہ اس نے مجھے پناہ دے دی ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَإِنِّي جارٌ لَكُمْ [ الأنفال 48] اور میں تمہارا حامی اور مدد گارہوں میں جار اسی معنی پر محمول ہے نیز فرمایا : ۔ وَهُوَ يُجِيرُ وَلا يُجارُ عَلَيْهِ [ المؤمنون 88] اور وہ پناہ دیتا ہے اور اسکے بالمقابل کوئی پناہ نہیں دے سکتا ۔- حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- کلام - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع،- فَالْكَلَامُ يقع علی الألفاظ المنظومة، وعلی المعاني التي تحتها مجموعة، وعند النحويين يقع علی الجزء منه، اسما کان، أو فعلا، أو أداة . وعند کثير من المتکلّمين لا يقع إلّا علی الجملة المرکّبة المفیدة، وهو أخصّ من القول، فإن القول يقع عندهم علی المفردات، والکَلمةُ تقع عندهم علی كلّ واحد من الأنواع الثّلاثة، وقد قيل بخلاف ذلک «4» . قال تعالی: كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5]- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلام کا اطلاق منظم ومرتب الفاظ اور ان کے معانی دونوں کے مجموعہ پر ہوتا ہے ۔ اور اہل نحو کے نزدیک کلام کے ہر جز پر اس کا اطلاق ہوسکتا ہے ۔ خواہ وہ اسم ہو یا فعل ہو یا حرف مگر اکثر متکلمین کے نزدیک صرف جملہ مرکبہ ومفیدہ کو کلام کہاجاتا ہے ۔ اور یہ قول سے اخص ہے کیونکہ قول لفظ ان کے نزدیک صرف مفرد الفاظ پر بولاجاتا ہے اور کلمۃ کا اطلاق انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف تینوں میں سے ہر ایک پر ہوتا ہے ۔ اور بعض نے اس کے برعکس کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5] یہ بڑی سخت بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے ۔ - بلغ - البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15]- ( ب ل غ ) البلوغ - والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : - بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ - أمن - أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، - ( ا م ن ) الامن ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11]
مشرک حربی اگر اسلام فہمی کے لئے امان طلب کرے تو امان دی جائے - قول باری ہے (و ان احد من المشرکین استجارک فاجرہ حتی یسمع کلام اللہ اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمہارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ کا کلام سنے) تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے) آیت حربی کو امان دینے کے جواز کی مقتضی ہے جب وہ ہم سے اسلام کی صداقت کو ثابت کرنے والے دلائل سننے کی خاطر پناہ مانگ کر ہمارے پاس آنا چاہے تو اسے پناہ دینا ہمارے لئے جائز ہوگا اس لئے کہ قول باری (استجارک) کے معنی ہیں تم سے امان طلب کرے “ اور قول باری (فاجرہ) کے معنی ہیں ” اسے امان دے دو “ تاکہ دلائل موجود ہیں یہ امر اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ اگر کوئی کافر ہم سے یہ مطالبہ کرے کہ اس کے کفر کی تردید میں دلائل دیئے جائیں اور توحید و رسالت کے ثبوت میں براہین پیش کئے جائیں تاکہ اتمام حجت کی بنا پر اور دلائل کی روشنی میں وہ ان دونوں باتوں کو تسلیم کرسکے تو اس پر اتمام حجت کرنا اور توحید باری کو بیان کرنا نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صداقت کو ثابت کرنا ہم پر لازم ہوگا۔ ہمارے لئے توحید و رسالت کے دلائل و براہین بیان کئے بغیر اسے قتل کردینا جائز نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ایسے شخص کو امان دے دیں تاکہ وہ ہمارے پاس آ کر اللہ کا کلام سن سکے۔ آیت میں یہ دلالت بھی موجود ہ کہ جو شخص دین کی کوئی بات سیکھنا چاہے اسے سکھانا ہم پر فرض ہوگا اس لئے کہ جو کافر اللہ کا کلام سننے کی خاطر ہم سے امان کی درخواست کرتا ہے اس کے پیش نظر صرف یہی مقصد ہوتا ہے کدین اسلام کی صداقت اور حقانیت سے کسی نہ کسی طرح وہ آگاہ اور روشناس ہوجائے۔- حربی کو بحفاظت اس کے ٹھکانے پہنچانا ضروری ہے - قول باری ہے (ثم ابلغہ ما منہ، پھر اسے اس کے مامن تک پہنچا دو ) یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ امام المسلمین پر امان لے کر آنے والے اس حربی کی حفاظت ونگداشت نیز لوگوں کو اسے کسی قسم کی گزند پہنچانے سے روکنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس لئے کہ فرمان الٰہی ہے (فاجدہ) پھر ارشاد ہے (ثم ابلغہ ما منہ) اس میں یہ دلیل بھی موجود ہے کہ امام المسلمین کی یہ ذم داری ہے کہ ذمیوں کی حفاظت کرے، لوگوں کو انہیں نقصان پہنچانے سے روکے رکھے نیز ان پر ظلم و ستم کے ہر اقدام کا سد باب کرے۔- حربی زیادہ عرصہ دارالاسلام میں نہ ٹھہرے ورنہ سال بعد ذمی ہوگا اور خراج دے گا - یہ دلالت بھی موجود ہے کہ حربی کو دارالاسلام میں زیادہ عرصے تک ٹھہرے رہنے کی اجازت دینا جائز نہیں ہے۔ اسے صرف اتنا ہی عرصہ قیام کرنے کی اجازت ملنی چاہیے جس میں وہ اپنی ضرورت پوری کرلے۔ اس لئے کہ قول باری ہے (حتیٰ یسمع کلام اللہ ثم ابلغہ مامنہ) اللہ تعالیٰ نے کلام الٰہی سننے کے بعد اسے دارالحرب واپس بھیج دینے کا حکم دیا ہے۔ ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے کہ امام المسلمین کے لئے یہ جائز نہیں کہ بلاوجہ اور بلا عذر کسی حربی کو دارالاسلام میں قیام پذیر رہنے کی کھلی چھٹی دے دے بلکہ اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوگی کہ وہ اسے دارالحرب واپس جانے کے لئے کہہ دے اگر وہ اس کے بعد بھی یاک سال تک دارالاسلام میں ٹھہرا رہے گا تو ذمی بن جائے گا اور اس پر خراج عائد کردیا جائے گا۔ قول باری ہے (کیف یکون للمشرکین عھذ عند اللہ و عند رسولہ الا الذین عاھدتم عند المسجد الحرام۔ ان مشرکین کے لئے اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کوئی عد آخر کیسے ہوسکتا ہے… بجز ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ سورت کی ابتدا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مشرکین کے درمیان معاہدوں کے انقطاع کے ذکر سے ہوئی چناچہ ارشاد ہوا (براء ۃ من اللہ و رسولہ الا الایذن عاھدتم من المشرکین) ایک قول کے مطابق یہ ایسے مشرکین تھے جن کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاہدہ تھا۔ انہوں نے بدعہدی کی تھی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علانیہ طور پر اس معاہدے کو اس کے سامنے پھینک دینے کا حکم دیا اور انہیں چار ماہ تک ملک میں چلنے پھرنے کی اجازت دے دی چناچہ ارشاد ہے (فسیحوا فی الارض اربعۃ اشھر) ایک اور قول کے مطابق آیت میں مذکورہ معاہدہ سے وہ معاہدہ مراد ہے جو آپ کے اور تمام مشرکین کے درمیان طے پایا تھا کہ کسی مشرک کو حج کے لئے مکہ میں داخل وہنے سے نہیں روکا جاء گا، نیز ماہ حرام میں نہ ان کے ساتھ جنگ کی جائے گی اور نہ انہیں قتل کیا جائے گا۔ اس طرح (براء ۃ من اللہ و رسولہ) کا حکم مذکورہ بالا دونوں گروہوں میں سے کسی ایک کے متعلق تھا۔ پھر ان میں سے مشرکین کے اس گروہ کو مستثنیٰ کردیا گیا تھا جس کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی خاص معاہدہ تھا اور انہوں نے نہ بدعہدی کی تھی اور ہی آپ کو کوئی نقصان پہنچانے کی سازش کی تھی۔ ایسے مشرکین کے متعلق ارشاد ہولا۔ الا الذین عاھدتم من المشرکین ثم لم ینقصوکم شیئا ولم یظاہروا علیکم احدا فاتموا الیھم عھد ھم انی مدتھم) اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین کے بارے میں پہلے حکم سے مختلف حکم دیا۔ انہوں نے کوئی بدعہدی نہیں کی تھی، مسلمانوں کے خلاف کسی کی مدد نہیں کی تھی اور معاہدے کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی تھی بلکہ معاہدے پر ثابت قدم رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے مشرکین کے ساتھ کئے گئے معاہدے کو اس کی مدت کے اختتام تک باقی رکھنے کا حکم دیا جبکہ پہلے گروہ کے ساتھ کئے گئے معاہدے کو علانیہ طور پر توڑ دینے کی ہدایت کی۔- یہ پہلا گروہ یا تو ایسے مشرکین پر مشتمل تھا جنہوں نے قصدا بدعہدی کی تھی یا وہ ایسے مشرکین تھے جن ک ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی ایسا خاص معاہدہ نہیں تھا جس میں یہ طے پایا ہو کہ اس پر تمام احوال میں عمل ناگزیر ہے بلکہ اس معاہدے کا تعلق صرف حج کے لئے مکہ میں داخل ہونے اور اشہر حرم میں امان دینے کے ساتھ تھا، جو ان مہینوں میں تمام لوگوں کو حاصل ہوتی تھی۔ قول باری (ولم یظاہروا علیکم احدا) اس پر دلالت کرتا ہے کہ معاہد اگر ہمارے خلاف کسی کی مدد کرے گا تو اس حرکت کی بنا پر معاہدہ ختم ہو جاء گا۔ پھر ارشاد ہوا (فاذا اسلح الاشھر الحرم فقتلوالمشرکین) اشہر حرم گزر جانے پر ہر معاہدے کے خاتمے کا اعلان کردیا گیا خواہ وہ خاص معاہدہ ہو یا عام پھر فرمایا (کیف یکون للمشرکین عھد عند اللہ و عند رسولہ) اس لئے کہ انہوں نے بدعہدی کی تھی اور معاہدے پر قائم نہیں رہے تھے۔ پھر ان سے ان مشرکین کو مستثنیٰ کردیا جن کے ساتھ مسلمانوں نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا۔- ابو اسحاق کے قول کے مطابق یہ بنی کنانہ کا ایک گروہ تھا۔ حضرت ابن عباس (رض) کے نزدیک ان کا تعلق قریش سے تھا اور مجاہد کے قول کے مطابق یہ بنی خزاعہ تھے، اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے ساتھ کئے گئے معاہدے کو اس وقت تک برقرار رکھنے کا حکم دیا جب تک یہ لوگ اس پر عمل پیرا ہونے کے سلسلے میں مسلمانوں کے ساتھ اپنا رویہ درست رکھیں۔ یہ ممکن ہے کہ ان کے معاہدے کی دت اشہر حرم کا اختتام نہ ہو بلکہ معاہدے میں طے شدہ مدت ہو۔ اس لئے کہ قول باری ہے (فاذا انسخ الاشھر الحرم فاقتلو المشرکین حیث و جدتموھم) اس کا عموم مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان طے پانے والے تمام معاہدوں کی تنسیخ کا مقتضی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے معاہدے کی مدت اشہر حرم کے اختتام کے بعد تک ہو اور انہیں ان مشرکین کے حکم سے مستثنیٰ کردیا گیا ہو جنہیں اشہر حرم کے گزر جانے کے بعد قتل کردینے کی ہدایت کی گئی تھی نیز اس معاہدے کا تعلق خصوصی طور پر ایسے گروہ کے ساتھ ہو جس میں بدعہدی کرنے والے اور معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے بھی موجود ہوں کیونکہ آگے ارشاد ہے (فما استقاموا لکم فستقیموا لہم۔ جب تک یہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو) اس میں کسی مدت کا تعین نہیں کیا گیا۔
(٦) اور جو اس زمانہ میں بغرض تلاش حق آپ سے امن طلب کرے تو اسے امن دے دیجیے تاکہ وہ آپ کی زبان مبارک سے کلام الہی سن لے پھر اگر وہ ایمان نہ لائے تو اس کو اس کے وطن جانے دے دیجئے یہ حکم اس بنا پر ہے کہ یہ لوگ احکام الہی اور توحید الہی کی خبر نہیں رکھتے۔
آیت ٦ (وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ) - جزیرہ نمائے عرب میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے ابھی تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو سنجیدگی سے سنا ہی نہیں ہوگا۔ اتنے بڑے الٹی میٹم کے بعد ممکن ہے ان میں سے کچھ لوگ سوچنے پر مجبور ہوئے ہوں کہ اس دعوت کو سمجھنا چاہیے۔ چناچہ اسی حوالے سے حکم دیا جا رہا ہے کہ اگر کوئی شخص تم لوگوں سے پناہ طلب کرے تو نہ صرف اسے پناہ دے دی جائے ‘ بلکہ اسے موقع بھی فراہم کیا جائے کہ وہ قرآن کے پیغام کو اچھی طرح سن لے۔ یہاں پر کلام اللہ کے الفاظ قرآنی گویا شہادت دے رہے ہیں کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔- (ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗ ط) - یعنی ایسے شخص کو فوری طور پر فیصلہ کرنے پر مجبور نہ کیا جائے کہ اسلام قبول کرتے ہو یا نہیں ؟ اگر قبول نہیں کرتے تو ابھی تمہاری گردن اڑادی جائے گی ‘ بلکہ کلام اللہ سننے کا موقع فراہم کرنے کے بعد اسے سمجھنے اور سوچنے کے لیے مہلت دی جائے اور اسے بحفاظت اس کے گھر تک پہنچانے کا انتظام کیا جائے ۔- (ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَعْلَمُوْنَ ) - یعنی یہ لوگ ابھی تک بھی غفلت کا شکار ہیں۔ انہوں نے ابھی تک سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں کہ یہ دعوت ہے کیا - جس مضمون سے سورت کی ابتدا ہوئی تھی وہ یہاں عارضی طور پر ختم ہورہا ہے ‘ اب دوبارہ اس مضمون کا سلسلہ چوتھے رکوع کے ساتھ جا کر ملے گا۔ اس کے بعد اب دو رکوع (دوسرا اور تیسرا) وہ آئیں گے جو فتح مکہ سے قبل نازل ہوئے اور ان میں مسلمانوں کو قریش مکہ کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے آمادہ کیا جا رہا ہے ۔
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :8 یعنی دوران جنگ میں اگر کوئی دشمن تم سے درخواست کرے کہ میں اسلام کو سمجھنا چاہتا ہوں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ اسے امان دے کر اپنے ہاں آ نے کا موقع دیں اور اسے سمجھائیں ، پھر اگر وہ قبول نہ کرے تو اسے اپنی حفاظت میں اس کے ٹھکانے تک واپس پہنچا دیں ۔ فقہ اسلامی میں ایسے شخص کو جو امان لے کر دارالاسلام میں آئے مُستامن کہا جاتا ہے ۔
5: مشرکین کی مذکورہ بالا چاروں قسموں کو اس آیت نے اپنی اپنی مہلت کے علاوہ یہ مزید سہولت عطا فرمائی کہ اگر ان میں سے کوئی مزید مہلت مانگے، اور وہ اسلام کی دعوت پر غور کرنا چاہتا ہو تو اسے پناہ دی جائے، اور اللہ کا کلام سنایا جائے، یعنی اسلام کی حقانیت کے دلائل سمجھائے جائیں۔ 6: یعنی صرف اللہ کا کلام سنانے پر اکتفا نہ کیا جائے، بلکہ اسے ایسی امن کی جگہ فراہم کی جائے جہاں وہ اطمینان کے ساتھ کسی دباؤ کے بغیر اسلام کی حقانیت پر غور کرسکے۔