Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

پابندی عہد کی شرائط اوپر والے حکم کی حکمت بیان ہو رہی ہے کہ چارہ ماہ کی مہلت دینے پر لڑائی کی اجازت دینے کی وجہ سے ہے کہ وہ اپنے شرک و کفر کو چھوڑ نے اور اپنے عہد و پیمان پر قائم رہنے والے ہی نہیں ۔ ہاں صلح حدیبیہ جب تک ان کی طرف سے نہ ٹوٹے تم بھی نہ توڑنا ۔ یہ صلح دس سال کے لیے ہوئی تھی ۔ ماہ ذی القعدہ سنہ ٦ ہجری سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاہدہ کو نبھایا یہاں تک کے قریشیوں کی طرف سے معاہدہ توڑا گیا ان کے حلیف بنو بکر نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے حلیف خزاعہ پر چڑھائی کی بلکہ حرم میں بھی انہیں قتل کیا اس بنا پر رمضان شریف ٨ ہجری میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر چڑھائی کی ۔ رب العالمین نے مکہ آپ کے ہاتھوں فتح کرایا اور انہیں آپ کے بس کر دیا ۔ وللّٰہ الحمد والمنہ لیکن آپ نے باوجود غلبہ اور قدرت کے ان میں سے جنہوں نے اسلام قبول کیا سب کو آزاد کر دیا انہی لوگوں کو طلقاً کہتے ہیں ۔ یہ تقریباً دو ہزار تھے جو کفر پر پھر بھی باقی رہے اور ادھر ادھر ہوگئے ۔ رحمتہ اللعالمین نے سب کو عام پناہ دے دی اور انہیں مکہ شریف میں آنے اور یہاں اپنے مکانوں میں رہنے کی اجازت مرحمت فرمائی کہ چارماہ تک وہ جہاں چاہیں آ جا سکتے ہیں انہی میں صفوان بن اُمیہ اور عکرمہ بن ابی جہل وغیرہ تھے پھر اللہ نے انکی رہبری کی اور انہیں اسلام نصیب فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ اپنے ہر اندازے کے کرنے میں اور ہر کام کے کرنے میں تعریفوں والا ہی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یہ استہفام نفی کے لئے ہے، یعنی جن مشرکین سے تمہارا معاہدہ ہے، ان کے علاوہ اب کسی سے معاہدہ باقی نہیں رہا ہے۔ 7۔ 2 یعنی عہد کی پاسداری، اللہ کے ہاں بہت پسندیدہ امر ہے۔ اس لئے معاملے میں احتیاط ضروری ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧] صلح حدیبیہ اور حلیف قبائل :۔ ان سے مراد وہ تین مشرک قبائل ہیں بنو خزاعہ، بنو کنانہ اور بنو ضمرہ۔ جو صلح حدیبیہ کے وقت مسلمانوں کے حلیف بنے تھے۔ اور جب اعلان برأت ہوا تو ان سے معاہدہ کی میعاد میں ابھی نو مہینے باقی تھے۔ اس سورة کی آیت نمبر ٤ کے مطابق اس مدت میں ان سے تعرض نہیں کیا گیا۔ نیز اس آیت کی رو سے اس بات کی بھی اجازت دے دی گئی کہ کوئی مشرک جب تک اپنے معاہدہ پر قائم رہتا ہے اس وقت تو تمہیں بہرحال قائم رہنا چاہیے اور اگر وہ اپنا عہد توڑتا ہے تو اس وقت تمہیں بھی مخالفانہ کارروائی کرنے کی اجازت ہے۔ بالفاظ دیگر معاہدہ کی خلاف ورزی کی ابتداء تمہاری طرف سے بہرصورت نہیں ہونی چاہیے اور اس کی مثال معاہدہ یا صلح حدیبیہ ہے جس کی رو سے طے پایا تھا کہ آئندہ مسلمان اور قریش مکہ آپس میں دس سال تک جنگ نہیں کریں گے اور جو قبائل مسلمانوں کے حلیف ہیں قریش ان پر بھی کوئی زیادتی نہ کریں گے اور جو قریش کے حلیف ہیں ان پر مسلمان کوئی زیادتی نہ کریں گے۔ اسی معاہدہ کی رو سے بنو خزاعہ تو مسلمانوں کے حلیف بنے اور بنو بکر قریش کے۔ اور بنو خزاعہ اور بنو بکر کی آپس میں لگتی تھی۔ صلح حدیبیہ کو ابھی سال کا عرصہ بھی نہ گزرا تھا کہ بنو خزاعہ اور بنو بکر کی آپس میں لڑائی ہوگئی اور قریش نے معاہدہ حدیبیہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنو بکر کو ہتھیار بھی مہیا کیے اور کھل کر ان کا ساتھ بھی دیا۔ اور بنو خزاعہ کی خوب پٹائی کی۔ بنو خزاعہ کا ایک وفد عمر و بن سالم کی سر کردگی میں مدینہ گیا۔ آپ سے فریاد کی اور کہا کہ قریش نے عہد توڑ ڈالا۔ آپ نے فرمایا : اچھا میں اب تمہاری مدد کرنے میں حق بجانب ہوں گا۔ قریش کی عہد شکنی دراصل مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ تھا۔ تاہم آپ نے قریش کے سامنے تین شرطیں پیش کیں کہ ان میں سے کوئی ایک قبول کرلی جائے۔- ١۔ بنو خزاعہ کے مقتولین کا خون بہا ادا کیا جائے۔- ٢۔ قریش بنو بکر کی حمائت سے دستبردار ہوجائیں۔- ٣۔ اعلان کیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ختم ہوگیا۔- قاصد نے جب یہ شرائط قریش کے سامنے پیش کیں تو ان کا نوجوان طبقہ فوراً بھڑک اٹھا اور ان میں سے ایک شخص فرط بن عامر نے قریش کی طرف سے اعلان کردیا کہ صرف تیسری شرط منظور ہے۔ جب قاصد واپس چلا گیا تو ان لوگوں کے ہوش ٹھکانے آگئے اور ابو سفیان کو تجدید معاہدہ کے لیے مدینہ بھیجا گیا۔ ابو سفیان نے مدینہ پہنچ کر تجدید معاہدہ کی درخواست کی جس کا آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر علی الترتیب سیدنا ابوبکر صدیق (رض) سیدنا عمر حتیٰ کہ سیدہ فاطمہ (رض) تک سفارش کے لیے التجا کی۔ لیکن جب سب نے جواب دے دیا تو مسجد نبوی میں کھڑے ہو کر اس نے یک طرفہ ہی اعلان کردیا کہ میں نے معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کردی۔ لیکن اس نے آپ کی پیش کردہ شرائط میں سے کسی کا جواب نہیں دیا تھا۔ لہذا اب اصلاح کی کوئی گنجائش نہ رہی تھی اور قریش کی یہی بدعہدی بالآخر مکہ پر چڑھائی کا سبب بن گئی۔- قریش اور بنو بکر کی بدعہدی مکہ پر مسلمانوں کی چڑھائی :۔ ایفائے عہد اسلام کی بنیادی تعلیمات سے ہے اور بدعہدی ایک کبیرہ گناہ ہے جسے احادیث میں منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ یہ عہد خواہ اللہ سے ہو یا کسی بندے سے، لین دین سے تعلق رکھتا ہو یا نکاح و طلاق سے یا صلح و جنگ سے۔ ایک شخص کا دوسرے سے ہو یا کسی قوم سے ہو یا کسی قوم کا دوسری قوم سے ہو بہرحال اسے پورا کرنا واجب ہے خواہ اس سے کتناہی نقصان پہنچ جانے کا خطرہ ہو۔ اس سورة میں چونکہ صلح و جنگ سے متعلق ہی قوانین بیان کیے جا رہے ہیں لہذا ہم یہی پہلو سامنے رکھتے ہیں۔ رسول اللہ سے دشمن زندگی بھر بدعہدی اور غداری کرتے رہے لیکن آپ نے جوابی کارروائی کے طور پر کبھی بھی نقض عہد کو برداشت نہیں کیا۔- یہود کی بدعہدی تو زبان زد ہے انہوں نے میثاق مدینہ کی ہر ہر بار خلاف ورزی کی اور ان کی غداریوں اور بدعہدیوں کا کئی مقام پر ذکر ہوچکا ہے۔- دوسرے قبائل نے بھی بدعہدی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ صلح حدیبیہ کے بعد قریش مکہ نے بنو بکر کی حمایت کر کے معاہدہ حدیبیہ کی صریح خلاف ورزی کی۔ بنو ثعلبہ نے تبلیغ اسلام کی خاطر آپ سے دس آدمی طلب کیے تو آپ نے چوٹی کے دس عالمان دین ان کے ساتھ روانہ کردیئے اور انہوں نے غداری سے انہیں شہید کردیا۔ یہی کام بنو عکل و قارہ نے کیا انہوں نے تبلیغ اسلام کے نام پر دس عالمان دین کو غداری سے شہید کردیا اور بئر معونہ کا واقعہ تو بڑا ہی دردناک ہے جس میں ستر ممتاز قاری اور عالمان دین کے مقابلہ میں قبیلہ رعل و ذکوان کی جمعیت لا کر انہیں شہید کردیا۔ جس کا رسول اللہ کو انتہائی صدمہ ہوا۔ علاوہ ازیں اس واقعہ کے بعد دشمن قبائل کے مسلمانوں کے خلاف حوصلے اور بھی بڑھ گئے اور تھوڑی مدت تک اسلام دشمن قومیں اور قبائل جنگ احزاب کی شکل میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے۔- اب ان کے مقابلہ میں آپ کے ایفائے عہد کے واقعات بھی سن لیجئے کہ کیسے نازک موقعوں پر آپ نے محض ایفائے عہد کی خاطر اپنے ہر طرح کے مفادات کو قربان کردیا :۔- ١۔ سیدنا حذیفہ بن یمان اور ان کے والد یمان، جن کی کنیت ابو حُسَیْل تھی۔ غزوہ بدر میں شرکت کے لیے روانہ ہوئے مگر راستہ میں کفار قریش کے ہتھے چڑھ گئے انہوں نے ان کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک کہ جنگ میں عدم شرکت کا وعدہ نہ لے لیا۔ پھر یہ دونوں غزوہ بدر میں رسول اللہ سے ملے اور یہ واقعہ بیان کیا۔ آپ نے انہیں فرمایا کہ مدینے چلے جاؤ اور جنگ کی اجازت نہیں دی اور فرمایا ہم ہر حال میں وعدہ وفا کریں گے۔ ہم کو اللہ کی مدد درکار ہے۔ (مسلم۔ کتاب الجہاد۔ والسیر۔ باب الوفاء بالعھد) حالانکہ اس موقعہ پر آپ کو ایک ایک آدمی کی شدید ضرورت تھی۔- ٢۔ بئرمعونہ کے حادثہ میں ٧٠ میں سے ایک شخص عمرو بن امیہ بچ نکلے لیکن بعد میں گرفتار ہوگئے۔ عامر بن طفیل جس نے ان قاریوں کو شہید کروایا تھا۔ نے عمرو بن امیہ کو دیکھ کر کہا میری ماں نے ایک غلام آزاد کرنے کی منت مانی تھی لہذا میں یہ منت پوری کرنے کی خاطر عمر و بن امیہ کو آزاد کرتا ہوں۔ عمرو بن امیہ وہاں سے چلے تو راستہ میں اسی قاتل قبیلہ کے دو افراد مل گئے جنہیں آپ نے قتل کردیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ رسول اللہ ان دو آدمیوں کو امان دے چکے تھے جس کا عمرو بن امیہ کو علم نہ تھا۔ اب حالات کا تقاضا تو یہ تھا کہ بنو عامر کی غداری کی بنا پر ان سے جتنی بھی سختی برتی جاسکے برتی جائے مگر آپ نے اپنے عہد کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کا خون بہا ادا کردیا (البدایہ والنہایہ ج ٤ ص ٧٣)- ٣۔ صلح حدیبیہ کی شرائط لکھی جا چکی تھیں مگر ابھی اس تحریری معاہدہ پر دستخط ہونا باقی تھے کہ قریش کے نمائندہ صلح سہیل بن عمرو کے بیٹے ابو جندل، جو اسلام لانے کی وجہ سے قید میں ڈال دیئے گئے تھے، قید سے فرار ہو کر پابہ زنجیر مسلمانوں کے پاس پہنچے اور اپنے زخم دکھا دکھا کر رسول اللہ سے التجا کر رہے تھے کہ اب مجھے واپس نہ کیجئے۔ سب صحابہ کرام (رض) کے دل بھر آئے۔ آپ خود بھی رحمتہ للعالمین تھے۔ لیکن آپ نے محض ایفائے عہد کی خاطر اسے واپس کردیا اور کہا : ابو جندل صبر کرو۔ اللہ تمہارے لیے کوئی راہ پیدا کر دے گا۔ اب صلح کی شرط ہوچکی اور ہم بد عہدی نہیں کرسکتے۔ (بخاری۔ کتاب الشروط۔ باب الشروط علی الجھاد والمصالحۃ)- ٤۔ ایسے ہی مظلوم مسلمانوں میں سے ایک عتبہ بن اسید (ابو بصیر) تھے جو قریش کے مظالم سے تنگ آ کر مکہ سے فرار ہو کر مدینہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ شرائط صلح حدیبیہ کے مطابق قریش کے دو آدمی بھی ابو بصیر کو لینے مدینہ پہنچ گئے۔ آپ نے ایفائے عہد کی خاطر ابو بصیر کو کافروں کے حوالہ کردیا اسے بھی آپ نے صبر کی تلقین فرمائی اور فرمایا جلد ہی اللہ تعالیٰ کوئی راہ نکال دے گا (اس واقعہ کی تفصیل سورة فتح کے ابتدائی حاشیہ میں ملاحظہ فرمائیے۔ )- ٥۔ آپ کے ایفائے عہد کے واقعات اس کثرت سے ہیں کہ دشمن بھی آپ کی اس خوبی کا برملا اعتراف کرتے تھے۔ جنگ احزاب کے موقعہ پر جب یہود کے قبیلہ بنو نضیر کے سردار حیی بن اخطب نے بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد اس کو عہد شکنی پر مجبور کیا تو کعب نے اسے کہا اِنِّیْ لَمْ اَرَمِنْ مُحَمَّدٍ اِلَّا صِدْقًا وَّ وَفَآئً (میں نے ہمیشہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سچا اور عہد کو پورا کرنے والا دیکھا ہے) (طبری ج ١۔ غزوہ خندق)- پھر یہ خوبی آپ کی ذات تک ہی محدود نہ تھی بلکہ آپ کے جانشینوں نے بھی عہد کی پوری پوری پابندی کر کے مثال قائم کردی۔- ٦۔ دور فاروقی میں شام کی فتوحات کا سلسلہ جاری تھا۔ سیدنا ابو عبیدہ نے دمشق کا محاصرہ کر رکھا تھا سیدنا خالد بن ولید نے چند جانبازوں کے ہمراہ فصیل پر کمند لگائی اور اوپر چڑھ کر قلعہ کے دروازے کھول دیئے۔ سیدنا خالد کی فوج فاتحانہ انداز میں قلعہ میں داخل ہوگئی۔ اہل دمشق نے دوسری جانب سیدنا ابو عبیدہ سے مصالحت کی درخواست کردی۔ جو انہوں نے نئی صورت حال سے لاعلمی کی بنا پر قبول کرلی۔ جب انہیں اصل صورت حال کا علم ہوا تو انہیں بہت محسوس ہوا مگر ایفائے عہد کی خاطر ابو عبیدہ نے مفتوحہ علاقہ اہل دمشق کو واپس دے دیا۔ (تاریخ اسلام حمید الدین ص ١٣٨)- ٧۔ شام کی فتوحات کے دوران عیسائیوں نے صلح کے لیے اپنے قاصد جارج کو سیدنا ابو عبیدہ کے پاس بھیجا۔ وہ شام کے وقت پہنچا اور نماز باجماعت کا پرکیف منظر دیکھ کر بہت متاثر ہوا۔ بعد میں سیدنا عیسیٰ کے متعلق چند سوال کیے جن کا سیدنا ابو عبیدہ نے شافی جواب دیا نتیجتاً جارج مسلمان ہوگیا اور چاہا کہ اب وہ عیسائیوں کے پاس واپس نہ جائے۔ لیکن ابو عبیدہ نے محض اس خیال سے کہ رومیوں کو مسلمانوں کی طرف سے بد عہدی کا گمان پیدا نہ ہو۔ جارج کو مجبور کیا اور کہا کہ کل یہاں سے جو سفیر جائے گا ایک دفعہ ضرور اس کے ہمراہ وہاں جاؤ اور اصل صورت حال سے انہیں خود مطلع کرنے کے بعد واپس آجانا۔ (الفاروق ص ١٩٦)- اب ذرا موجودہ دور کی مہذب اور متمدن اقوام اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کے معاہدات پر بھی نظر ڈال لیجئے۔ جو ظاہری معاہدات کے علاوہ زیر زمین خفیہ معاہدات کا بھی ایک جال بچھا رکھتے ہیں اور ایسی منافقت اور بدعہدی کا ایک خوبصورت نام ڈپلومیسی ( ) تجویز کر رکھا ہے اس منافقت کا جو منظر جنگ عظیم اول میں سامنے آیا وہ کچھ اس طرح ہے :۔- اس جنگ میں ایک طرف جرمنی، آسٹریا اور ہنگری تھے جنہیں جارح یا ظالم کا لقب دیا گیا۔ دوسری طرف برطانیہ، فرانس، روس اور اٹلی تھے جو اپنے آپ کو حق پرست، انسانی حقوق کے علمبردار اور مظلوموں کے مددگار کہتے تھے۔ ان حق پرستوں نے عربوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انہیں یقین دلایا کہ وہ عربوں کو ترکی کے تسلط سے آزاد کرائیں گے اور جنگ کے بعد انہیں آزاد اور خود مختار حکومت بنانے کا موقعہ دیں گے تاکہ وہ اپنے شعائر اسلام آزادی سے بجا لاسکیں۔ اس طرح یہ حق پرست دراصل ملت اسلامیہ کے مرکز ترکی کی خلافت کا گلا گھونٹنا چاہتے تھے۔ چناچہ اس سلسلہ میں ١٩١٧ ء میں جنرل ماؤ نے برسر عام اعلان کر کے عربوں سے کیے ہوئے معاہدہ کی تصدیق بھی کردی کہ وہ اس ملک میں فاتحانہ حیثیت سے نہیں بلکہ آزادی دینے کے لیے آئے ہیں۔- لیکن اصل حقیقت اس کے علاوہ کچھ اور تھی۔ فرانس اور برطانیہ نے ١٩١٥ ء اور ١٩١٦ ء میں آپس میں خفیہ معاہدات کیے ١٩١٦ ء کے خفیہ معاہدہ، جو سائیکس پیکو کے نام سے مشہور ہے، کی رو سے یہ طے ہوا تھا کہ جنگ کے بعد :۔- عراق کلیتہً برطانیہ کے قبضہ میں رہے گا۔- شام پورے کا پورا فرانسیسی سلطنت کے دائرہ میں رکھا جائے گا۔- فلسطین ایک بین الملی علاقہ ہوگا اور حیفہ اپنی بندرگاہ سمیت برطانیہ کے زیر اثر ہوگا۔- باقی رہے وہ ممالک جو عراق اور سواحل شام کے درمیان واقع ہیں تو انہیں دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ایک حصہ برطانیہ کے زیر اثر رہے گا اور دوسرا فرانس کے۔- برطانیہ اور فرانس چونکہ اپنے دوسرے حق پرست ساتھیوں سے بھی زیادہ حق پرست تھے۔ اس لیے انہوں نے اس معاہدہ کو اپنے ساتھیوں سے بھی چھپائے رکھا اور ظاہری طور پر یہی اعلان کرتے رہے کہ ہم عربوں کو پوری آزادی دلانے آئے ہیں۔ پھر جب عربوں نے دیکھا کہ شام کے سواحل پر فرانسیسی فوجیں مسلط ہیں اور عراق اور فلسطین میں انگریزی فوجیں پہنچ گئی ہیں تب جا کر انہیں معلوم ہوا کہ انکے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے اور یہ چال محض ترکوں اور عربوں میں نفاق ڈال کر ملک چھیننے کے لیے چلی گئی تھی۔ عربوں کو جب ہوش آیا تو انہوں نے بہتیرے ہاتھ پاؤں مارے اور فیصل بن حسین کے تحت ایک وطنی حکومت بھی قائم کرلی مگر اب پانی سر سے اوپر ہوچکا تھا۔ برطانیہ نے نہایت عیاری سے عربوں میں سے ہی اپنی مرضی کے چند آدمی منتخب کر کے ان کی حکومت بنادی جو کلیتہً برطانیہ کے زیر اثر تھی۔ اس طرح انگریز بہادر نے اپنے سب مفادات بھی حاصل کرلیے اور یہ کہنے کے قابل بھی ہوگیا کہ اس نے عربوں سے اپنا وعدہ پورا کردیا ہے۔- پھر ان خفیہ معاہدات کا حلقہ صرف عربوں تک ہی محدود نہ تھا۔ اتحادی آپس میں بھی ہوا کا رخ دیکھ کر ایسے معاہدات کرلیتے تھے جنہیں دوسرے حق پرستوں سے بھی صیغہ راز میں رکھا جاتا تھا۔ بین الاقوامی ڈاکہ زنی کی یہ سکیم صیغہ راز میں ہی رہ جاتی۔ اگر دوران جنگ روس انقلاب کا شکار نہ ہوجاتا۔ اپریل ١٩١٧ ء میں جب ان کی حکومت کا تختہ الٹا اور بالشویکوں کی حکومت قائم ہوگئی تو انہوں نے سرمایہ دار حکومتوں کے گھناؤنے کردار کو بےنقاب کرنے کے لیے وہ تمام خفیہ معاہدات شائع کردیئے جو انہیں زار کی حکومت کے نہاں خانوں سے دستیاب ہوئے تھے۔ ان معاہدات کی کوئی دفعہ ایسی نہیں تھی جس میں مخالف سلطنتوں کے کسی نہ کسی علاقہ یا ان کی اقتصادی ثروت کے کسی نہ کسی وسیلے کو ان حق پرستوں نے آپس میں بانٹنے کا فیصلہ نہ کر رکھا ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

كَيْفَ يَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِيْنَ عَهْدٌ : یعنی وہ لوگ جو ہیں ہی مشرک، جنھوں نے اپنے خالق کی توحید کا عہد ہی پورا نہیں کیا، ان کی طرف سے کوئی عہد پورا ہونا کیسے ممکن ہے، وہ تو جو عہد کرتے ہیں توڑ ڈالتے ہیں۔ - اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : ان سے مراد وہی لوگ ہیں جن کا ذکر پہلے (اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّلَمْ يُظَاهِرُوْا عَلَيْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ ) [ التوبۃ : ٤ ] میں گزر چکا ہے۔ صلح حدیبیہ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کفار قریش کے درمیان دس سال کے لیے قرار پائی، یہ صلح نامہ چونکہ حدود حرم کے اندر قرار پایا تھا، اس لیے اسے ” عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ “ فرما دیا۔ (ابن کثیر) مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اس عہد پر قائم رہے ان سے قتال مت کرو۔ اس معاہدے میں شرط یہ تھی کہ ایک دوسرے پر حملہ آور نہیں ہوں گے اور نہ دوسرے کے خلاف کسی کی مدد کریں گے۔ اس معاہدے میں بنو خزاعہ مسلمانوں کے ساتھ شامل تھے اور بنو بکر قریش کے حلیف تھے، مگر کچھ عرصہ بعد بنو بکر اور بنو خزاعہ کے درمیان لڑائی چھڑ گئی اور مشرکین نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنو خزاعہ کے خلاف بنو بکر کی مدد کی، اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رمضان ٨ ھ کو مکہ پر حملہ کر کے اسے فتح کرلیا۔ (ابن کثیر) ابن جریر طبری نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ اس سے مراد بنو بکر کے وہ قبائل ہیں جو صلح حدیبیہ والے اپنے عہد پر قائم رہے اور انھوں نے بنو خزاعہ پر نہ حملہ کیا، نہ اس میں مدد کی، کیونکہ ان آیات کے نزول کے وقت فتح مکہ کو ایک سال گزر چکا تھا، قریش کو ان کی بد عہدی کی سزا بھی مل چکی تھی۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” صلح والے تین قسم فرمائے، ایک جن سے مدت نہیں ٹھہری، ان کو جواب دیا (کہ تم کو چار ماہ کی مہلت دی جاتی ہے) مگر جو مکہ کی صلح میں شامل تھے (تو) جب تک وہ دغا نہ کرے، یہ ادب ہے مکہ کا اور تیسرے جن سے مدت ٹھہری وہ صلح قائم رہی، لیکن آخر سب مشرک عرب کے ایمان لائے۔ “ (موضح) ” اسْتَقَامُوْا “ میں حروف ” سین “ اور ” تا “ کی زیادتی کی وجہ سے ترجمہ ” پوری طرح قائم رہیں “ کیا گیا ہے۔ - اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ : اور عہد کا پورا کرنا بھی متقی ہونے کے لیے ضروری شرط ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

کفار کے مقابلہ میں بھی سچائی پر قائم رہنے اور ان کے متعلق مبالغہ آمیزی سے پرہیز کرنے کی تعلیم : قرآن کریم کے اس بیان نے مسلمانوں کو یہ ہدایت دی کہ اپنے دشمن مخالفین کے معاملہ میں بھی جب کوئی گفتگو آئے تو سچائی اور انصاف کو ہاتھ سے نہ دیں مبالغہ آمیزی سے کام نہ لیں جیسا کہ ان آیات میں مشرکین مکہ کے بارے میں اس کی پوری رعایت کی گئی ہے کہ اگرچہ معدودے چند لوگوں کے سوا سبھی نے عذر و عہد شکنی کی تھی اور ایسے حالات میں عام طور پر کہنے والے سبھی کو برا کہا کرتے ہیں مگر قرآن کریم نے (آیت) اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَام فرما کر ان لوگوں کا استثناء کردیا جنہوں نے عہد شکنی نہیں کی اور یہ حکم دیا کہ جب تک وہ استقامت اور وفاء عہد پر قائم رہیں تم بھی عہد پر قائم رہو دوسرے لوگوں کی خیانت سے متاثر ہو کر ان کے عہد کو نہ توڑو۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

كَيْفَ يَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِيْنَ عَہْدٌ عِنْدَ اللہِ وَعِنْدَ رَسُوْلِہٖٓ اِلَّا الَّذِيْنَ عٰہَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝ ٠ ۚ فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِيْمُوْا لَہُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ۝ ٧- كيف - كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] .- ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- عهد - العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً.- قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] - ( ع ھ د ) العھد - ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔- مَسْجِدُ- : موضع الصلاة اعتبارا بالسجود، وقوله : وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] ، قيل : عني به الأرض، إذ قد جعلت الأرض کلّها مسجدا وطهورا کما روي في الخبر وقیل : الْمَسَاجِدَ : مواضع السّجود : الجبهة والأنف والیدان والرّکبتان والرّجلان، وقوله : أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25] أي : يا قوم اسجدوا، وقوله : وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] ، أي : متذلّلين، وقیل : کان السّجود علی سبیل الخدمة في ذلک الوقت سائغا، وقول الشاعر : وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِعنی بها دراهم عليها صورة ملک سجدوا له . المسجد ( ظرف ) کے معنی جائے نماز کے ہیں اور آیت وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] اور مسجدیں تو خدا ہی ( کی عبادت کے لئے ہیں ) میں بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے روئے زمین مراد ہے کیونکہ آنحضرت کے لئے تمام زمین کو مسجد اور طھور بنایا گیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں مروی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے اعضاء سجود یعنی پیشانی ناک دونوں ہاتھ دونوں زانوں اور دونوں پاؤں مراد ہیں اور آیت : ۔ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25]( اور نہیں سمجھتے ) کہ اللہ کو ۔۔۔۔۔۔۔ سجدہ کیوں نہ کریں ۔ میں لا زائدہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ میری قوم اللہ ہی کو سجدہ کرو ۔ اور آیت : ۔ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے ۔ میں اظہار عاجزی مراد ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ مراد سجدہ خدمت ہے جو اس وقت جائز تھا اور شعر ( الکامل ) وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِمیں شاعر نے وہ دراھم مراد لئے ہیں جن پر بادشاہ کی تصویر ہوتی تھی اور لوگ ان کے سامنے سجدہ کرتے تھے ۔- الاسْتِقَامَةُ- يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30]- الاستقامۃ ( استفعال )- کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة 6] ہم کو سد ہے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے - حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧) اللہ تعالیٰ تعجب کا اظہار فرماتے ہیں کہ ان لوگوں سے کس طرح معاہدہ قائم رہ سکتا ہے، البتہ بنی کنانہ جنہوں نے حدیبیہ کے سال کے بعد معاہدہ کیا ہے تو جب تک یہ عہد پورا کریں تم بھی اس کو پورا کرو، اللہ تعالیٰ بدعہدی سے بچنے والوں کو پسند فرماتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

فتح مکہ سے قبل صورت حال ایسی تھی کہ مکہ مکرمہ پر حملہ کرنے کے سلسلے میں بہت سے لوگ تذبذب اور الجھن کا شکار تھے۔ بعض مسلمانوں کے بیوی بچے اور بہت سے کمزور مسلمان جو ہجرت نہیں کر پائے تھے ‘ ابھی تک مکہ میں پھنسے ہوئے تھے۔ اکثر لوگوں کو خدشہ تھا کہ اگر مکہ پر حملہ ہوا تو بہت خون خرابہ ہوگا اور مکہ میں موجود تمام مسلمان اس کی زد میں آجائیں گے۔ اگرچہ بعد میں بالفعل جنگ کی نوبت نہ آئی مگر مختلف ذہنوں میں ایسے اندیشے بہر حال موجود تھے۔ اس سلسلے میں زیادہ بےچینی منافقین نے پھیلائی ہوئی تھی۔ چناچہ ان آیات میں مسلمانوں کو مکہ پر حملہ کرنے کے لیے آمادہ کیا جا رہا ہے۔- آیت ٧ (کَیْفَ یَکُوْنُ لِلْمُشْرِکِیْنَ عَہْدٌ عِنْدَ اللّٰہِ وَعِنْدَ رَسُوْلِہٖٓ) - یہاں پر اس پس منظر کو ذہن میں تازہ کرنے کی ضرورت ہے جس میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ اس سے قبل مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان صلح حدیبیہ ہوچکی تھی ‘ لیکن اس معاہدے کو خود قریش کے ایک قبیلے نے توڑ دیا۔ بعد میں جب قریش کو اپنی غلطی اور معاملے کی سنجیدگی کا احساس ہوا تو انہوں نے اپنے سردار ابو سفیان کو تجدید صلح کی درخواست کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھیجا۔ مدینہ پہنچ کر ابوسفیان سفارش کے لیے حضرت علی (رض) اور اپنی بیٹی حضرت اُمِّ حبیبہ (رض) (اُمّ المؤ منین) سے ملے۔ اِن دونوں شخصیات کی طرف سے ان کی سرے سے کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔ بلکہ حضرت اُمِّ حبیبہ (رض) کے ہاں تو ابو سفیان کو عجیب واقعہ پیش آیا۔ وہ جب اپنی بیٹی کے ہاں گئے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بستر بچھا ہوا تھا ‘ وہ بستر پر بیٹھنے لگے تو اُمِّ حبیبہ (رض) نے فرمایا کہ ابا جان ذرا ٹھہریے اس پر وہ کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ بیٹی نے بستر تہ کردیا اور فرمایا کہ ہاں ابا جان اب بیٹھ جائیے۔ ابوسفیان کے لیے یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی ‘ وہ قریش کے سب سے بڑے سردار اور رئیس تھے اور بستر تہ کرنے والی ان کی اپنی بیٹی تھی۔ چناچہ انہوں نے پوچھا : بیٹی کیا یہ بستر میرے لائق نہیں تھا یا میں اس بستر کے لائق نہیں ؟ بیٹی نے جواب دیا : ابا جان آپ اس بستر کے لائق نہیں۔ یہ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بستر ہے اور آپ مشرک ہیں چناچہ ابو سفیان اب کہیں تو کیا کہیں وہ تو آئے تھے بیٹی سے سفارش کروانے کے لیے اور یہاں تو معاملہ ہی بالکل الٹ ہوگیا۔ چناچہ مطلب کی بات کے لیے تو زبان بھی نہ کھل سکی ہوگی۔ - بہر حال ابو سفیان نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مل کر تجدید صلح کی درخواست کی مگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبول نہیں فرمائی۔ اِن حالات میں ممکن ہے کہ کچھ لوگوں نے چہ مہ گوئیاں کی ہوں کہ دیکھیں جی قریش کا سردار خود چل کر آیا تھا ‘ صلح کی بھیک مانگ رہا تھا ‘ صلح بہتر ہوتی ہے ‘ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیوں صلح نہیں کر رہے ‘ وغیرہ وغیرہ۔ چناچہ اس پس منظر میں فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک ان مشرکین کے لیے اب کوئی معاہدہ کیسے قائم رہ سکتا ہے ؟ یعنی ان کے کسی عہد کی ذمہ داری اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کس طرح باقی رہ سکتی ہے ؟- (اِلاَّ الَّذِیْنَ عٰہَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ج) - اس معاہدے سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ - (فَمَا اسْتَقَامُوْا لَکُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَہُمْط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ ) - یعنی جب تک مشرکین صلح کے اس معاہدے پر قائم رہے ‘ تم لوگوں نے بھی اس کی پوری پوری پابندی کی ‘ مگر اب جب کہ وہ خود ہی اسے توڑ چکے ہیں تو اب تمہارے اوپر اس سلسلے میں کوئی اخلاقی دباؤ نہیں ہے کہ لازماً اس معاہدے کی تجدید کی جائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم تھا کہ اب ان مشرکین میں اتنا دم نہیں ہے کہ وہ مقابلہ کرسکیں۔ ان حالات میں معاہدے کی تجدید کا مطلب تو یہ تھا کہ کفر اور شرک کو اپنی مذموم سرگرمیوں کے لیے پھر سے کھلی چھٹی ( ) مل جائے۔ اس لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاہدے کی تجدید قبول نہیں فرمائی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :9 یعنی بنی کنانہ اور بنی خزاعہ اور بنی ضمرہ

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

7: آیت نمبر۷سے لے کر آیت نمبر ۱۶تک اتنی بات تو واضح ہے، کہ اس میں کفار قریش کا ذکر ہے، اور ان کی بد عہدی کا ذکر کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ ان کے قول و قرار پر بھروسہ نہ کریں، اور اگر وہ بد عہدی کریں تو ان کے ساتھ جنگ کی جائے۔ لیکن اس معاملے میں مفسرین کی آراء مختلف ہیں کہ یہ آیات کب نازل ہوئی تھیں۔ مفسرین کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ یہ آیتیں فتح مکہ سے پہلے اس وقت نازل ہوئی تھیں جب کفار قریش کے ساتھ مسلمانوں نے حدیبیہ میں جو معاہدہ کیا تھا، وہ باقی تھا۔ اور ان آیتوں میں یہ پیشینگوئی کی گئی ہے کہ یہ لوگ اپنے معاہدے پر قائم نہیں رہیں گے، لہٰذا اگر وہ عہد شکنی کریں تو ان کے ساتھ جنگ کرو، اور گر وہ دوبارہ عہد کریں تو اب ان کی باتوں کا اعتبار نہ کیا جائے، کیونکہ وہ زبان سے کچھ کہتے ہیں اور ان کے دل میں کچھ اور ہوتا ہے۔ اور جب تم ان سے جنگ کرو گے تو اﷲ تعالیٰ تمہاری مدد کرکے انہیں رسوا کرے گا، اور ان مسلمانوں کے دل ٹھنڈے ہوں گے جو ان کے مظالم کا شکار رہے ہیں۔ اس تفسیر کے مطابق یہ آیتیں براء ت کے اُس اعلان سے پہلے کی ہیں جو آیت نمبر۱سے آیت نمبر ۶ تک بیان کیا گیا ہے، اور جو فتح مکہ کے ایک سال دو ماہ کے بعد سن ۹ھ کے حج کے موقع پر کیا گیا تھا۔ مفسرین کی دوسری جماعت کا کہنا یہ ہے کہ یہ آیتیں براء ت کے اعلان سے پہلے کی نہیں ہیں، بلکہ آیت نمبر۱ سے براء ت کے اعلان کا جو مضمون چلا آرہا ہے، یہ اسی کا حصہ ہیں، اور ان میں براء ت کے اعلان کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ یہ لوگ پہلے ہی معاہدہ توڑ چکے ہیں، اور اب ان سے کوئی امید نہیں ہے کہ اگر ان سے کوئی نیا معاہدہ کریں تو اس کی پابندی کریں گے، کیونکہ ان مسلمانوں سے جو دُشمنی ہے، اس کی وجہ سے یہ نہ کسی رشتہ داری کا لحاظ کرتے ہیں، نہ کسی معاہدے کا۔ چونکہ فتح مکہ کے موقع پر اور اس کے بعد قریش کے بہت سے لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے، اور ان کی کفار قریش کے ساتھ رشتہ داریاں تھیں، اس لئے ان کے دل میں قریش کے بارے میں کوئی نرم گوشہ ہوسکتا تھا۔ ان آیات نے انہیں متنبہ کیا ہے کہ وہ ان لوگون کی باتوں سے دھوکا نہ کھائیں، اور دل میں یہ عزم رکھیں کہ اگر ان سے لڑنا پڑا تو وہ پوری قوت سے ان کا مقابلہ کریں گے۔ راقم کو یہ تفسیر دلائل کی وجہ سے زیادہ راجح معلوم ہوتی ہے۔ اول تو اس لئے کہ آیت نمبر ۷سے ۱۶ تک کا نظم قرآن ایک ہی سلسلۂ کلام نظر آتا ہے ،اور آیت نمبر۷ کے بارے میں یہ تصور نظم کے اعتبار سے مشکل لگتا ہے کہ وہ پہلی چھ آیتوں سے نزول میں بہت مقدم ہو۔ دوسرے حضرت علیؓ نے اعلان کے وقت قرآنِ کریم کی جو آیات لوگوں کو سنائیں، ان کی تعداد روایات میں کم سے کم دس اور زیادہ سے زیادہ چالیس آئی ہے۔ (دیکھئے الدر المنثور ج :۴ص :۱۱۲ و نظم الدرر للبقاعی ج : ۸ ص ۳۶۶) اور نسائی (کتاب الحج، باب الخطبۃ یوم الترویۃ حدیث نمبر ۲۹۹۳) کی ایک روایت میں جو یہ آیا ہے کہ ’’انہوں نے اسے ختم تک پڑھا، اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنی آیات دے کر انہیں بھیجا گیا تھا، ان کے ختم تک پڑھا۔‘‘ تیسرے حافظ ابن جریر طبری، علامہ سیوطی، علامہ بقاعی، قاضی ابو السعود اور بڑے جلیل القدر محدثین اور مفسرین نے ان آیات کو براء ت ہی کا ایک حصہ اور اس کی توجیہ و تعلیل قرار دیا ہے۔ 8: اس سے مراد مشرکین وہ چوتھی قسم ہے جس کا ذکر اوپر حاشیہ نمبر۱ (د) میں آیا ہے۔ ان کو ان کے معاہدے کی مدت پوری ہونے تک مہت دی گئی تھی۔ اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مدت میں اس وقت نو مہینے باقی تھے۔ اور مطلب یہ ہے کہ اس مدت کے دوران اگر وہ سیدھے چلتے رہیں تو تم بھی ان کے ساتھ سیدھے چلو۔ اور اگر وہ بھی عہد شکنی کریں تو پھر اس مدت کے انتظار کی بھی ضرورت نہیں ہے (تفسیر ابن جریر ج ۱۰ ص ۸۲)