چار تلواریں؟ کافروں منافقوں سے جہاد کا اور ان پر سختی کا حکم ہوا ۔ مومنوں سے جھک کر ملنے کا حکم ہوا ۔ کافروں کی اصلی جگہ جہنم مقرر فرما دی ۔ پہلے حدیث گذر چکی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے چار تلواروں کے ساتھ مبعوث فرمایا ایک تلوار تو مشرکوں میں فرماتا ہے ( آیت فاذا انسلح الاشھر الحرم فاقتلو المشرکین ) حرمت والے مہینوں کے گذرتے ہی مشرکوں کی خوب خبر لو ۔ دوسری تلوار اہل کتاب کے کفار میں فرماتا ہے ( قاتلوا الذین لایومنون الح ، ) جو اللہ پر قیامت کے دن ایمان نہیں لاتے اللہ رسول کے حرام کئے ہوئے کو حرام نہیں مانتے ۔ دین حق کو قبول نہیں کرتے ان اہل کتاب سے جہاد کرو جب تک کہ وہ ذلت کے ساتھ جھک کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دینا منظور نہ کرلیں ۔ تیسری تلوار منافقین ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے ۔ ( آیت جاھد الکفار والمنافقین ) کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو ۔ چوتھی تلوار باغیوں میں فرمان ہے ( آیت فقاتلو اللتی تبغی حتی تفئی الی امر اللہ ) باغیوں سے لڑو جب تک کہ پلٹ کر وہ اللہ کے احکام کی حکم برداری کی طرف نہ آ جائیں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ منافق جب اپنا نفاق ظاہر کرنے لگیں تو ان سے تلوار سے جہاد کرنا چاہئے ۔ امام ابن جریر کا پسندیدہ قول بھی یہی ہے ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہاتھ سے نہ ہو سکے تو ان کے منہ پر ڈانٹ ڈپٹ سے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں سے تلوار کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم دیا ہے اور منافقوں کے ساتھ زبانی جہاد کو فرمایا ہے اور یہ کہ ان پر نرمی نہ کی جائے ۔ مجاہد کا بھی تقریبا یہی قول ہے ۔ ان پر حد شرعی کا جاری کرنا بھی ان سے جہاد کرنا ہے مقصود یہ ہے کہ کبھی تلوار بھی ان کے خلاف اٹھانی پڑے گی ورنہ جب تک کام چلے زبان کافی ہے جیسا موقعہ ہو کر لے ۔ قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسی کوئی بات زبان سے نہیں نکالی ۔ حالانکہ درحقیقت کفر کا بول بول چکے ہیں اور اپنے ظاہری اسلام کے بعد کھلا کفر کر چکے ہیں ۔ یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے میں اتری ہے ایک جہنی اور ایک انصاری میں لڑائی ہو گئی ۔ جہنی شخص انصاری پر چھا گیا تو اس منافق نے انصار کو اس کی مدد پر ابھارا اور کہنے لگا واللہ ہماری اور اس محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی تو وہی مثال ہے کہ اپنے کتے کو موٹا تازہ کر کہ وہ تجھے ہی کاٹے واللہ اگر ہم اب کی مرتبہ مدینے واپس گئے تو ہم ذی عزت لوگ ان تمام کمینے لوگوں کو وہاں سے نکال کر باہر کریں گے ۔ ایک مسلمان نے جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ گفتگو دہرادی ۔ آپ نے اسے بلوا کر اس سے سوال کیا تو یہ قسم کھا کر انکار کر گیا پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ میری قوم کے جو لوگ حرہ کی جنگ میں کام آئے ان پر مجھے بڑی ہی رنج و صدمہ ہو رہا تھا اس کی خبر حضرت زید بن ارقم کی پہنچی تو اس نے مجھے خط میں لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے آپ دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ انصار کو اور انصار کے لڑکوں کو بخش دے ۔ نیچے کے راوی ابن الفضل کو اس میں شک ہے کہ آپ نے اپنی اس دعا میں ان کے پوتوں کا نام بھی لیا یا نہیں؟ پس حضرت انس رضی اللہ عنہ نے موجود لوگوں میں سے کسی سے حضرت زید کی نسبت سوال کیا تو اس نے کہا یہی وہ زید ہیں جن کے کانوں کی سنی ہوئی بات کی سچائی کی شہادت خود رب علیم نے دی ۔ واقعہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ پڑھ رہے تھے کہ ایک منافق نے کہا اگر یہ سچا ہے تو ہم تو گدھوں سے بھی زیادہ احمق ہیں حضرت زید نے کہا و اللہ آنحضرت صلی اللہ علی وسلم بالکل سچے ہیں اور بیشک تو اپنی حماقت میں گدھے سے بڑھا ہوا ہے ۔ پھر آپ نے یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گوش گذار کی لیکن وہ منافق پلٹ گیا اور صاف انکار کر گیا اور کہا کہ زید نے جھوٹ بولا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور حضرت زید کی سچائی بیان فرمائی ۔ لیکن مشہور بات یہ ہے کہ یہ واقعہ غزوہ بنی المطلق کا ہے ممکن ہے راوی کو اس آیت کے ذکر میں وہم ہو گیا ہو اور دوسری آیت کے بدلے اسے بیان کر دیا ہو ۔ یہی حدیث بخاری شریف میں ہے لیکن اس جملے تک کہ زندہ وہ ہیں جن کے کانوں کی سنی ہوئی بات کی سچائی کی شہادت خود رب علیم نے دی ۔ ممکن ہے کہ بعد کا حصہ موسیٰ بن عقبہ راوی کا اپنا قول ہو ۔ اسی کی ایک روایت میں یہ پچھلا حصہ ابن شہاب کے قول سے مروی ہے واللہ اعلم ۔ مغازی اموی میں حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے بیان کردہ تبوک کے واقعہ کے بعد ہے کہ جو منافق موخر چھوڑ دیئے گئے تھے اور جن کے بارے میں قرآن نازل ہوا انمیں سے بعض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی تھے ۔ ان میں جلاس بن عوید بن صامت بھی تھا ان کے گھر میں عمیر بن سعد کی والدہ تھیں جو اپنے ساتھ حضرت عمیر کو بھی لے گئی تھیں جب ان منافقوں کے بارے میں قرآنی آیتیں نازل ہوئیں تو جلاس کہنے لگا کہ واللہ اگر یہ شخص اپنے قول میں سچا ہے تو ہم تو گدھوں سے بھی بدتر ہیں حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ یہ سن کر فرمانے لگے کہ یوں تو آپ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں اور آپ کی تکلیف مجھ پر میری تکلیف سے بھی زیادہ شاق ہے لیکن آپ نے اسوقت تو ایسی بات منہ سے نکالی ہے کہ اگر میں اسے پہنچاؤں تو رسوائی ہے اور نہ پہنچاؤں تو ہلاکت ہے ، رسوائی یقینا ہلاکت سے ہلکی چیز ہے ۔ یہ کہہ کر یہ بزرگ حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے اور ساری بات آپ کو کہہ سنائی ۔ جلاس کو جب یہ پتہ چلا تو اس نے سرکار نبوت میں حاضر ہو کر قسمیں کھا کھا کر کہا کہ عمیر جھوٹا ہے میں نے یہ بات ہرگز نہیں کہی ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ مروی ہے کہ اس کے بعد جلاس نے توبہ کر لی اور درست ہوگئے یہ توبہ کی بات بہت ممکن ہے کہ امام محمد بن اسحاق کی اپنی کہی ہوئی ہو ، حضرت کعب کی یہ باتیں نہیں واللہ اعلم ۔ اور روایت میں ہے کہ جلاس بن سوید بن صامت اپنے سوتیلے بیٹے حضرت مصعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ قبا سے آ رہے تھے دونوں گدھوں پر سوار تھے اس وقت جلاس نے یہ کہا تھا اس پر ان کے صاحبزادے نے فرمایا کہ اے دشمن رب میں تیری اس بات کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کروں گا فرماتے ہیں کہ مجھے تو ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں میرے بارے میں قرآن نہ نازل ہو یا مجھ پر کوئی عذاب الٰہی نہ آ جائے یا اس گناہ میں میں بھی اپنے باپ کا شریک نہ کر دیا جاؤں چنانچہ میں سیدھا حاضر ہوا اور تمام بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مع اپنے ڈر کے سنا دی ۔ ابن جریر میں ابن عباس سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علی وسلم ایک سائے دار درخت تلے بیٹھے ہوئے فرمانے لگے کہ ابھی تمہارے پاس ایک شخص آئے گا اور تمہیں شیطان دیکھے گا خبردار تم اس سے کلام نہ کرنا اسی وقت ایک انسان کیری آنکھوں والا آیا آپ نے اس سے فرمایا تو اور تیرے ساتھی مجھے گالیاں کیوں دیتے ہو؟ وہ اسی وقت گیا اور اپنے ساتھیوں کو لے کر آیا سب نے قسمیں کھا کھا کر کہا ہم نے کوئی ایسالفظ نہیں کہا یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے درگذر فرما لیا پھر یہ آیت اتری ۔ اس میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے وہ قصد کیا جو پورا نہ ہوا مراد اس سے جلاس کا یہ ارادہ ہے کہ اپنے سوتیلے لڑکے کو جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بات کہدی تھی قتل کر دے ۔ ایک قول ہے کہ عبداللہ بن ابی نے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا تھا ۔ یہ قول بھی ہے کہ بعض لوگوں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اسے سرداربنا دیں گو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راضی نہ ہوں ۔ یہ بھی مروی ہے کہ دس سے اوپر اوپر آدمیوں نے غزوہ تبوک میں راستے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکہ دے کر قتل کرنا چاہا تھا ۔ چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں اور حضرت عمار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے آگے پیچھے تھے ایک چلتا تھا دوسرا نکیل تھامتا تھا ہم عقبہ میں تھے کہ بارہ شخص منہ پر نقاب ڈالے آئے اور اونٹنی کو گھیر لیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں للکارا اور وہ دم دباکر بھاگ کھڑے ہوئے آپ نے ہم سے فرمایا کیا تم نے انہیں پہچانا ؟ ہم نے کہا نہیں لیکن انکی سواریاں ہماری نگاہوں میں ہیں آپ نے فرمایا یہ منافق تھے اور قیامت تک ان کے دل میں نفاق رہے گا ۔ جانتے ہو کہ کس ارادے سے آئے تھے؟ ہم نے کہا نہیں فرمایا اللہ کے رسول کو عقبہ میں پریشان کرنے اور تکلیف پہنچانے کے لئے ۔ ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم انکی قوم کے لوگوں سے کہلوا دیجئے کہ ہر قوم والے اپنے دشمنوں سے لڑے ان پر فتح حاصل کرکے پھر اپنے ان ساتھیوں کو بھی قتل کر ڈالا ۔ آپ نے ان کے لئے بددعا کی کہ یا اللہ ان کے دلوں پر آتشیں پھوڑے پیدا کر دے ۔ اور روایت میں ہے کہ غزوہ تبوک سے واپسی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کرا دیا کہ میں عقبہ کے راستے میں جاؤں گا ۔ اسکی راہ کوئی نہ آئے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ آپ کی اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت عمار رضی اللہ عنہ پیچھے سے چلا رہے تھے کہ ایک جماعت اپنی اونٹنیوں پر سوار آ گئی حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے ان کی سواریوں کو مارنا شروع کیا اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے آپ کی سواری کو نیچے کی طرف چلانا شروع کر دیا جب نیچے میدان آ گیا آپ سواری سے اتر آئے اتنے میں عمار رضی اللہ عنہ بھی واپس پہنچ گئے ۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ لوگ کون تھے پہچان بھی؟ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے کہا منہ تو چھپے ہوئے تھے لیکن سواریاں معلوم ہیں پوچھا انکا ارادہ کیا تھا جانتے ہو؟ جواب دیا کہ نہیں آپ نے فرمایا انہوں نے چاہا تھا کہ شور کر کے ہماری اونٹنی کو بھڑکا دیں اور ہمیں گرا دیں ۔ ایک شخص سے حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے انکی تعداد دریافت کی تو اسنے کہا چودہ ۔ آپ نے فرمایا اگر تو بھی ان میں تھا تو پندرہ ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے تین شخصوں کے نام گنوائے انہوں نے کہا واللہ ہم نے تو منادی کی ندا سنی اور نہ ہمیں اپنے ساتھیوں کے کسی بد ارادے کا علم تھا ۔ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ باقی کے بارہ لوگ اللہ رسول سے لڑائی کرنے والے ہیں دنیا میں اور آخرت میں بھی ۔ امام محمد بن اسحاق نے ان میں سے بہت سے لوگوں کے نام بھی گنوائے ہیں واللہ اعلم ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ اہل عقبہ میں سے ایک شخص کے ساتھ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کا کچھ تعلق تھا تو اس کو آپ نے قسم دے کر اصحاب عقبہ کی گنتی دریافت کی لوگوں نے بھی اس سے کہا کہ ہاں بتا دو اس نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ چودہ تھے اگر مجھے بھی شامل کیا جائے تو پندرہ ہوئے ۔ ان میں سے بارہ تو دشمن اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور تین شخصوں کی قسم پر کہ نہ ہم نے منادی کی نہ ندا سنی نہ ہمیں جانے والوں کے ارادے کا علم تھا اس لئے معذور رکھا گیا ۔ گرمی کاموسم تھا پانی بہت کم تھا آپ نے فرما دیا تھا کہ مجھ سے پہلے وہاں کوئی نہ پہنچے لیکن اس پر بھی کچھ لوگ پہنچ گئے تھے آپ نے ان پر لعنت کی آپ کا فرمان ہے کہ میرے ساتھیوں میں بارہ منافق ہیں جو نہ جنت میں جائیں گے نہ اس کی خوشبو پائیں گے آٹھ کے کندھوں پر تو آتشی پھوڑا ہو گا جو سینے تک پہنچے گا اور انہیں ہلاک کر دے گا ۔ اسی باعث حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم کا راز دار کہا جاتا تھا آپ نے صرف انہی کو ان منافقوں کے نام بتائے تھے واللہ اعلم ۔ طبرانی میں ان کے نام یہ ہیں معتب بن قشیر ودیعہ بن ثابت جدین بن عبداللہ بن نبیل بن حارث جو عمرو بن عوف کے قبیلے کا تھا اور حارث بن یزید ، طائی اوس بن قیطی ، حارث بن سوید ، سفیہ بن دراہ ، قیس بن فہر ، سوید ، داعن قبیلہ بنو جعلی کے ، قیس بن عمرو بن سہل ، زید بن لصیت اور سلالہ بن ہمام یہ دونوں قبیلہ بنو قینقاع کے ہیں یہ سب بظاہر مسلمان بنے ہوئے تھے ۔ اس آیت میں اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے اسی بات کا بدلہ لیا ہے کہ انہیں اللہ نے اپنے فضل سے اپنے رسول کے ہاتھوں مالدار بنایا ۔ اگر ان پر اللہ کا پورا فضل ہو جاتا تو انہیں ہدایت بھی نصیب ہو جاتی جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا کیا میں نے تمہیں گمراہی کی حالت میں نہیں پایا تھا کہ پھر اللہ نے میری وجہ سے تمہاری رہبری کی تم متفرق تھے اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تم میں الفت ڈال دی ۔ تم فقیر بےنوا تھے اللہ نے میرے سبب سے تمہیں غنی اور مالدار کر دیا ۔ ہر سوال کے جواب میں انصار رضی اللہ عنہم فرماتے جاتے تھے کہ بیشک اللہ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے زیادہ احسان ہے ۔ الغرض بیان یہ ہے کہ بےقصور ہونے کے بدلے یہ لوگ دشمنی اور بے ایمانی پر اتر آئے ۔ جیسے سورۃ بروج میں ہے کہ ان مسلمانوں میں سے ایک کافروں کا انتقام صرف ان کے ایمان کے باعث تھا ۔ حدیث میں ہے کہ ابن جمیل صرف اس بات کا انتقام لیتا ہے کہ وہ فقیر تھا اللہ نے اسے غنی کردیا ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ اب بھی توبہ کرلیں تو ان کے حق میں بہتر ہے اور اگر وہ اپنے اسی طریقہ پر کاربند رہے تو انہیں دنیا میں بھی سخت سزا ہوگی قتل ، صدمہ و غم اور دوزخ کے ذلیل و پست کرنے والے ناقابلِ برداشت عذاب کی سزا بھی ۔ دنیا میں کوئی نہ ہو گا جو ان کی طرف داری کرے ان کی مدد کرے ان کے کام آئے ان سے برائی ہٹائے یا انہیں نفع پہنچائے یہ بےیارو مددگار رہ جائیں گے ۔
73۔ 1 اس آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار اور منافقین سے جہاد اور ان پر سختی کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اس کے مخاطب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت ہے، کافروں کے ساتھ منافقین سے بھی جہاد کرنے کا حکم ہے، اس کی بابت اختلاف ہے۔ ایک رائے تو یہی ہے کہ اگر منافقین کا نفاق اور ان کی سازشیں بےنقاب ہوجائیں تو ان سے بھی اس طرح جہاد کیا جائے، جس طرح کافروں سے کیا جاتا ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ منافقین سے جہاد یہ ہے کہ انہیں زبان سے وعظ و نصیحت کی جائے۔ یا وہ اخلاقی جرائم کا ارتکاب کریں تو ان پر حدود نافذ کی جائیں تیسری رائے یہ ہے کہ جہاد کا حکم کفار سے متعلق ہے اور سختی کرنے کا منافقین سے امام ابن کثیر فرماتے ہیں ان آراء میں آپس میں کوئی تضاد اور منافات نہیں اس لیے کہ حالات و ظروف کے مطابق ان میں سے کسی بھی رائے پر عمل کرنا جائز ہے 73۔ 2 سختی اور قوت سے دشمنوں کے خلاف اقدام ہے۔ محض زبان کی سختی مراد نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق کریمانہ کے ہی خلاف ہے، اسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اختیار کرسکتے تھے نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا حکم آپ کو مل سکتا تھا۔ 73۔ 3 جہاد اور سختی کے حکم کا تعلق دنیا سے ہے۔ آخرت میں ان کے لئے جہنم ہے جو بدترین جگہ ہے۔
[٨٨] منافقوں پر غزوہ تبوک تک سختی کیوں نہ کی گئی ؟۔ (١) آپ کی نرمی (٢) داخلی انتشار ( ٣) اغیار کے طعنے۔ یہ آیات غزوہ تبوک کے بعد نازل ہوئیں جبکہ منافقوں کو اپنی سازشوں اور اسلام دشمن سرگرمیوں میں نو سال گزر چکے تھے اب تک ان منافقوں سے جو نرم رویہ اختیار کیا جاتا رہا اس کی متعدد وجوہ تھیں۔ پہلی وجہ تو یہی تھی کہ آپ طبعاً نرم خو واقع ہوئے تھے۔ آپ کی طبیعت مجرم کو سرزنش کرنے یا سزا دینے کی بجائے اس سے درگزر کرنے اور اسے معاف کردینے کی طرف زیادہ مائل رہتی تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اگر آپ ان پر سختی کرتے تو مسلمانوں کے اندر داخلی فتنہ اٹھ کھڑا ہوتا اور غزوہ تبوک سے پہلے پہلے مسلمانوں کی سلطنت اتنی مضبوط نہیں تھی کہ بیرونی اور اندرونی ہر طرح کے خطرات کا مقابلہ کرسکے اور اگر ایسا کام کرنا ہی پڑتا تو اسلام کی نشر و اشاعت کے مقاصد بہت پیچھے جا پڑتے۔ اس کی تیسری وجہ اغیار یعنی غیر مسلموں کے طعنے تھے چناچہ غزوہ بنی مصطلق کی واپسی پر جب عبداللہ بن ابی نے اوس اور خزرج کے درمیان انتشار کا فتنہ کھڑا کرنے کی کوشش کی اور رسول اللہ کے حق میں نازیبا کلمات کہے تو سیدنا عمر نے آپ سے اجازت چاہی کہ میں اسے قتل نہ کر دوں تو آپ نے سیدنا عمر سے کہا نہیں جانے دو لوگ کیا کہیں گے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کرنے لگا ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ باب (يَقُوْلُوْنَ لَىِٕنْ رَّجَعْنَآ اِلَى الْمَدِيْنَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ ۭ وَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِهٖ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَلٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ۧ) 63 ۔ المنافقون :8)- خ منافقوں پر سختی اور جبر کی صورتیں :۔ مگر جب ان لوگوں کی ریشہ دوانیاں حد سے بڑھ گئیں تو ان آستین کے سانپوں سے سختی سے نمٹنے کا حکم دیا گیا۔ واضح رہے کہ کفار سے جہاد سے مراد بسا اوقات تلوار سے جنگ ہی ہوتی ہے۔ مگر منافقوں سے ایسی جنگ اس لیے نہیں کی جاسکتی کہ اسلامی احکام ظاہری احوال پر لاگو ہوتے ہیں اور باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد ہوتا ہے۔ اور منافقوں کو اسلام لانے کا سب سے بڑا فائدہ ہی یہ تھا کہ ان کے جان و مال محفوظ رہیں۔ چناچہ آپ نے ان منافقوں سے کسی وقت بھی قتال بالسیف نہیں کیا۔ یہاں منافقوں سے جہاد اور ان پر سختی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ ان کی باتوں پر اعتماد نہ کیا جائے۔ ان کی فتنہ پردازیوں پر پردہ نہ ڈالا جائے تاکہ انہیں مسلم معاشرہ میں نفاق کا زہر پھیلانے کا موقع نہ مل سکے اور ان کی سازشوں کو کھلم کھلا بےنقاب کیا جائے۔ ان کی شہادت کو معتبر نہ سمجھا جائے۔ انہیں جماعتی مشوروں سے الگ رکھا جائے کوئی عہدہ یا منصب ان لوگوں کے سپرد نہ کیا جائے۔ ان سے مخلصانہ میل جول اور تعلقات قطع کیے جائیں تاکہ ان لوگوں پر خوب واضح ہوجائے کہ ایک اسلامی معاشرہ میں ان کے لیے عزت و وقار کا کوئی مقام نہیں ہے۔
يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ : مدینہ آنے پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طویل مدت تک منافقین سے نرمی برتتے رہے اور ان کی سازشوں اور کمینگیوں سے درگزر فرماتے رہے، مگر اس حسن سلوک سے اصلاح کے بجائے ان کی سرکشی بڑھتی ہی گئی، اس لیے جب یہ سورت اتری جو قرآن کی سب سے آخر میں اترنے والی سورتوں میں سے ہے تو حکم ہوا کہ اب نرمی اور درگزر کے بجائے سختی اور بندوبست کا وقت آگیا ہے، اس لیے اب تک آپ جو نرمی اور چشم پوشی کا معاملہ کرتے رہے اسے ختم کیجیے اور ان کے ہر قصور پر سختی سے گرفت کیجیے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ منافقین صریح کفر کا اظہار کریں اور اس پر قائم رہیں تو کفار کی طرح ان سے بھی جہاد بالسیف کیا جائے۔ ابن جریر طبری (رض) نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ البتہ اگر وہ کفر کے اظہار کے بعد اس لیے مکر جائیں تو ان پر سختی کی جائے اور زبان سے طعن و ملامت کی جائے، تلوار سے قتال نہ کیا جائے۔ ہاں حدود الٰہی ان پر ضرور نافذ کی جائیں، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منافقین سے قتال بالسیف نہیں کیا بلکہ قتل کی اجازت طلب کرنے پر بھی فرمایا : ” رہنے دو لوگ کہیں گے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔ “ حافظ ابن کثیر (رض) مختلف اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ” ان اقوال میں اختلاف نہیں، اصل بات یہ ہے کہ مختلف حالات میں حسب موقع سزا دی جاسکتی ہے، یعنی منافقین صریح کفر کے اظہار کی جرأت کریں تو پھر ان سے کفار کی طرح ہی معاملہ ہوگا۔ “
(آیت) جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ، اس آیت میں کفار اور منافقین دونوں سے جہاد اور ان کے معاملہ میں شدت اختیار کرنے کا حکم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا ہے، ظاہری کفار سے جہاد کا معاملہ تو واضح ہے، لیکن منافقین سے جہاد کا مطلب خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تعامل سے یہ ثابت ہوا کہ ان کے ساتھ جہاد سے مراد بزانی جہاد ہے کہ ان کو اسلام کی حقانیت سمجہنے کی طرف دعوت دیں تاکہ وہ اپنے دعوی اسلام میں مخلص ہوجائیں ( قرطبی و مظہری) - (آیت) وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ لفظ غلظ کے اصلی معنی یہ ہیں کہ مخاطب جس طرز عمل کا مستحق ہے اس میں کوئی رعایت اور نرمی نہ برتی جائے، یہ لفظ رافت کے مقابل استعمال ہوتا ہے، جس کے معنی رحمت اور نرم دلی کے ہیں۔- امام قرطبی نے فرمایا کہ اس جگہ غلظت استعمال کرنے سے عملی غلظت مراد ہے کہ ان پر احکام شرعیہ جاری کرنے میں کوئی رعایت اور نرمی نہ برتی جائے، زبان اور کلام میں غلظت اختیار کرنا مراد نہیں، کیونکہ وہ سنت انبیاء کے خلاف ہے، وہ کسی سے سخت کلامی اور سب و شتم نہیں کرتے ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :- " اذا زنت امة احدکم فلیجلدھا الحد ولا یثرب علیہا " اگر تمہاری کوئی کنیز زنا کی مرتکب ہو تو اس کی سزا حد شرعی اس پر جاری کردو مگر زبانی ملامت اور طعن وتشنیع نہ کرو “ (قرطبی)- اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حال میں خود حق تعالیٰ نے فرمایا (آیت) وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ، یعنی اگر آپ سخت کلام سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے پاس سے بھاگ جاتے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تعامل میں بھی کہیں یہ ثابت نہیں کہ کفار و منافقین سے گفتگو اور خطاب میں کبھی غلظت اختیار فرمائی ہو۔- تنبیہ : افسوس کہ خطاب اور کلام میں غلظت جسکو کفار کے مقابلہ میں بھی اسلام نے اختیار نہیں کیا آجکل کے مسلمان دوسرے مسلمانوں کے بارے میں بیدھڑک استعمال کرتے ہیں اور بہت سے لوگ تو اس کو دین کی خدمت سمجھ کر خوش ہوتے ہیں۔ انا اللہ۔
يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ جَاہِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ وَاغْلُظْ عَلَيْہِمْ ٠ ۭ وَمَاْوٰىہُمْ جَہَنَّمُ ٠ ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ ٧٣- نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- جهد - الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال :- جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب :- مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان .- ومجاهدة النفس .- وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» - ( ج ھ د ) الجھد - والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور - جہا دتین قسم پر ہے - ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔- - نِّفَاقُ- ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] - نفاق جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ - غلظ - الغِلْظَةُ ضدّ الرّقّة، ويقال : غِلْظَةٌ وغُلْظَةٌ ، وأصله أن يستعمل في الأجسام لکن قد يستعار للمعاني كالكبير والکثير . قال تعالی:- وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً [ التوبة 123] ، أي : خشونة . وقال : ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلى عَذابٍ غَلِيظٍ [ لقمان 24] ، مِنْ عَذابٍ غَلِيظٍ [هود 58] ، وجاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ [ التوبة 73] ، واسْتَغْلَظَ : تهيّأ لذلک، وقد يقال إذا غَلُظَ. قال : فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح 29] .- ( ع ل ظ ) الغلظۃ - ( غین کے کسرہ اور ضمہ کے ساتھ ) کے معنی موٹاپا یا گاڑھازپن کے ہیں یہ رقتہ کی ضد ہے اصل میں یہ اجسام کی صفت ہے ۔ لیکن کبیر کثیر کی طرح بطور استعارہ معانی کے لئے بھی استعمال ہوتاز ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً [ التوبة 123] چاہئے کہ وہ تم میں سختی محسوس کریں میں غلظتہ کے معنی سخت مزاجی کے ہیں ۔ نیز فرمایا۔ ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلى عَذابٍ غَلِيظٍ [ لقمان 24] پھر عذاب شدید کی طرف مجبور کر کے لیجائیں گے ۔ مِنْ عَذابٍ غَلِيظٍ [هود 58] عذاب شدید سے ۔ وجاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ [ التوبة 73] کافروں اور منافقوں سے لڑو اور ان پر سختی کرو ۔ استغلظ کے معنی موٹا اور سخت ہونے کو تیار ہوجانا ہیں اور کبھی موٹا اور سخت ہوجانے پر بھی بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح 29] پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی ۔- أوى- المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود 43] - ( ا و ی ) الماویٰ ۔- ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔ - جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام - ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - جہنم کے مختلف طبقات ( درکات) علی سبیل التنزل یہ ہیں۔ - (1) جہنم (2) لظیٰ (3) حطمہ (4) سعیر (5) سقر (6) جحیم (7) ہاویۃ۔ سب سے نیچے منافقوں کا یہی ٹھکانہ ہے - بِئْسَ- و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام،- كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة 79] ، أي : شيئا يفعلونه،- ( ب ء س) البؤس والباس - بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے - صير - الصِّيرُ : الشِّقُّ ، وهو المصدرُ ، ومنه قرئ : فَصُرْهُنَّ وصَارَ إلى كذا : انتهى إليه، ومنه : صِيرُ البابِ لِمَصِيرِهِ الذي ينتهي إليه في تنقّله وتحرّكه، قال : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری 15] .- و «صَارَ» عبارةٌ عن التّنقل من حال إلى حال .- ( ص ی ر ) الصیر - کے معنی ایک جانب یا طرف کے ہیں دراصل یہ صار ( ض) کا مصدر ہے ۔ اور اسی سے آیت فصوھن ہیں ایک قرآت فصرھن ہے ۔ صار الی کذا کے معنی کسی خاص مقام تک پہنچ جانا کے ہیں اسی سے صیر الباب ہے جس کے معنی درداڑہ میں شگاف اور جھروکا کے ہیں اور اسے صیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نقل و حرکت کا منتہی ہوتا ہے اور صار کا لفظ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ اسی سے المصیر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز نقل نہ حرکت کے بعد پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری 15] یعنی اللہ تعالیٰ ہی لوٹنے کی جگہ ہے ۔
جہاد النبی ؐ کے مفاہیم - قول باری ہے یایھا النبی جاھد الکفار والمنافقین واغلط علیھم اے نبی ؐ کفار اور منافقین دونوں کا پوری قوت سے مقابلہ کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آئو ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) کی روایت کے مطابق مفہوم ہے ۔ ہاتھ سے ان کا مقابلہ کرو ۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان اور دل سے انکا مقابلہ کرو اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو ان کے سامنے تیوری چڑھائے رکھو۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ کافروں کا تلوار کے ساتھ مقابلہ کرو اور منافقین کا زبان کے ساتھ ۔ حسن اور قتادہ کا قول ہے کہ کافروں کا تلوار کے ساتھ مقابلہ کرو اور منافقین کا ان پر حدود قائم کر کے مقابلہ کرو جن لوگوں پر حدود کا نفاذ ہوتا تھا انکی اکثریت منافقین کے گروہ سے تعلق رکھتی تھی۔
(٧٣) کافروں سے تلوار کے ساتھ اور منافقین سے زبان کے ساتھ جہاد کیجیے اور ان دونوں جماعتوں پر قول وعمل کے ساتھ سختی کیجیے ان کا ٹھکانا جہنم ہے جہاں یہ جائیں گے وہ بہت بری جگہ ہے۔
آیت ٧٣ (یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ ط) - یہ آیت بالکل انہی الفاظ کے ساتھ سورة التحریم میں بھی آئی ہے جو اٹھائیسویں پارے کی آخری سورت ہے۔ یہاں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اس آیت میں جہاد بمعنی قتال استعمال نہیں ہوا۔ منافقین کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی جنگ نہیں کی۔ لہٰذا یہاں جہاد سے مراد قتال سے نچلے درجے کی جدوجہد (دُوْنَ الْقِتَالِ ) ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ منافقین کی ریشہ دوانیوں کا توڑ کرنے کے لیے جہاد کریں ‘ ان کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے جدوجہد کریں۔ چناچہ بعض روایات میں آتا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوۂ تبوک سے واپس آ رہے تھے تو اسی حوالے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا : (رَجَعْنَا مِنَ الْجِہَادِ الْاَصْغَرِ اِلَی الْجِہَادِ الْاَکْبَرِ ) (١) یعنی ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹ آئے ہیں۔ اب اس کی تعبیریں مختلف کی گئی ہیں کہ اس زمانے کی سپر پاور سلطنت روما کے خلاف جہاد کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جہاد اصغر فرمایا اور پھر فرمایا کہ اب جہاد اکبر تمہارے سامنے ہے۔ عام طور پر اس حدیث کی توجیہہ اس طرح کی گئی ہے کہ نفس کے خلاف جہاد سب سے بڑا جہاد ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا : اَیُّ الْجِہَادِ اَفْضَلُ ؟ یعنی سب سے افضل جہاد کون سا ہے ؟ تو جواب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اَنْ تُجَاہِدَ نَفْسَکَ وَھَوَاکَ فِیْ ذَات اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ ) (٢) یہ کہ تم جہاد کرو اپنے نفس اور اپنی خواہشات کے خلاف اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں۔ لہٰذا اسی حدیث کی بنیاد پر جہاد اکبر والی مذکورہ حدیث کی تشریح اس طرح کی گئی ہے کہ جہاد با لنفس دشمن کے خلاف قتال سے بھی بڑا جہاد ہے۔ لیکن میرے نزدیک اس حدیث کا اصل مفہوم سمجھنے کے لیے اس کے موقع محل اور پس منظر کے حالات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ مدینہ کے اندر منافقین دراصل مسلمانوں کے حق میں مار آستین تھے۔ اب ان کے خلاف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جہاد کا حکم دیا جا رہا ہے ‘ مگر یہ معاملہ اتنا آسان اور سادہ نہیں تھا۔ ان منافقین کے اوس اور خزرج کے لوگوں کے ساتھ تعلقات تھے اور ان کے خلاف اقدام کرنے سے اندرونی طور پر کئی طرح کے مسائل جنم لے سکتے تھے۔ مگر اس آیت کے نزول کے بعد تبوک سے واپس آکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منافقین کے خلاف اس طرح کے کئی سخت اقدامات کیے تھے۔ جیسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد ضرار کو گرانے اور جلانے کا حکم دیا ‘ اور پھر اس پر عمل بھی کرایا۔ یہ بہت بڑا اقدام تھا۔ منافقین مسجد کے تقدس کے نام پر لوگوں کو مشتعل بھی کرسکتے تھے۔ دراصل یہی وہ بڑا جہاد تھا جس کی طرف مذکورہ حدیث میں اشارہ ملتا ہے ‘ کیونکہ ان حالات میں اپنی صفوں کے اندر چھپے ہوئے دشمنوں کے وار سے بچنا اور ان کے خلاف نبرد آزما ہونا مسلمانوں کے لیے واقعی بہت مشکل مرحلہ تھا۔
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :81 یہاں سے وہ تیسری تقریر شروع ہوتی ہے جو غزوہ تبوک کے بعد نازل ہوئی تھی ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :82 اس وقت تک منافقین کے ساتھ زیادہ تر درگزر کا معاملہ ہو رہا تھا ، اور اسکے دو وجوہ تھے ۔ ایک یہ ہے کہ مسلمانوں کی طاقت ابھی اتنی مضبوط نہ ہوئی تھی کہ باہر کے دشمنوں سے لڑنے کے ساتھ ساتھ گھر کے دشمنوں سے بھی لڑائی مول لے لیتے ۔ دوسرے یہ کہ ان میں سے جو لوگ شکوک و شبہات میں مبتلا تھے ان کو ایمان و یقین حاصل کرنے کے لیے کافی موقع دینا مقصود تھا ۔ یہ دونوں وجوہ اب باقی نہیں رہے تھے ۔ مسلمانوں کی طاقت اب تمام عرب کو اپنی گرفت میں لے چکی تھی اور عرب سے باہر کی طاقتوں سے کشمکش کا سلسلہ شروع ہو رہا تھا اس لیے ان آستین کے سانپوں کا سر کچلنا اب ممکن بھی تھا اور ضروری بھی ہو گیا تھا ، تا کہ یہ لوگ بیرونی طاقتوں سے ساز باز کر کے ملک میں کوئی اندرونی خطرہ نہ کھڑا کر سکیں ۔ پھر ان لوگوں کو پورے ۹ سال تک سوچنے ، سمجھنے اور دین ِ حق کو پرکھنے کا موقع بھی دیا جا چکا تھا جس سے وہ فائدہ اٹھا سکتے تھے اگر ان میں واقعی خیر کی کوئی طلب ہوتی ۔ اس کے بعد ان کے ساتھ مزید رعایت کی کوئی وجہ نہ تھی ۔ اس لیے حکم ہوا کہ کفار کے ساتھ ساتھ اب ان منافقین کے خلاف بھی جہاد شروع کر دیا جائے اور جو نرم رویہ اب تک ان کے معاملہ میں اختیار کیا جاتا رہا ہے ، اسے ختم کر کے اب ان کے ساتھ سخت برتاؤ کیا جائے ۔ منافقین کے خلا ف جہاد اور سخت برتاؤ سے مراد یہ نہیں ہے کہ ان سے جنگ کی جائے ۔ دراصل اس سے مراد یہ ہے کہ ان کی منافقانہ روش سے چشم پوشی اب تک برتی گئی ہے ، جس کی وجہ سے یہ مسلمانوں میں ملے جلے رہے ، اور عام مسلمان ان کو اپنی ہی سوسائٹی کا ایک جز سمجھتے رہے ، اور ان کو جماعت کے معاملات میں دخل دینے اور سوسائٹی میں اپنے نفاق کا زہر پھیلانے کا موقع ملتا رہا ، اس کو آئندہ کے لیے ختم کر دیا جائے ۔ اب جو شخص بھی مسلمانوں میں شامل رہ کر منافقانہ روش اختیار کرے اور جس کے طرز عمل سے بھی یہ ظاہر ہو کہ وہ خدا اور رسول اور اہل ایمان کا مخلص رفیق نہیں ہے ، اسے کھلم کھلا بے نقاب کیا جائے ، علانیہ اس کو ملامت کی جائے ، سوسائٹی میں اس کے لیے عزت و اعتبار کا کوئی مقام باقی نہ رہنے دیا جائے ، معاشرت میں اس سے قطع تعلق ہو ، جماعتی مشوروں سے وہ الگ رکھا جائے ، عدالتوں میں اس کی شہادت غیر معتبر ہو ، عہدوں اور مناصب کا دروازہ اس کے لیے بند رہے ، محفلوں میں اسے کوئی منہ نہ لگائے ، ہر مسلمان اس سے ایسا برتاؤ کرے جس سے اس کو خود معلوم ہو جائے کہ مسلمانوں کی پوری آبادی میں کہیں بھی اس کا کوئی وقار نہیں اور کسی دل میں بھی اس کےلیے احترام کا کوئی گوشہ نہیں ۔ پھر اگر ان میں سے کوئی شخص کسی صریح غداری کا مرتکب ہو تو اس کے جرم پر پردہ نہ ڈالا جائے ، نہ اسے معاف کیا جائے ، بلکہ علیٰ رؤس الاَشہاد اس پر مقدمہ چلایا جائے اور اسے قرار واقعی سزا دی جائے ۔ یہ اک نہایت اہم ہدایت تھی جو اس مرحلہ پر مسلمانوں کو دی جانی ضروری تھی ۔ اس کے بغیر اسلامی سوسائٹی کو تنزل و انحطاط کے اندرونی اسباب سے محفوظ نہیں رکھا جا سکتا تھا ۔ کوئی جماعت جو اپنے اندر منافقوں اور غداروں کو پرورش کرتی ہو اور جس میں گھریلو سانپ عزت اور تحفظ کے ساتھ آستینوں میں بٹھائے جاتے ہوں ، اخلاقی زوال اور بالآخر کامل تباہی سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی ۔ نفاق کا حال طاعون کا سا ہے اور منافق وہ چوہا ہے جو اس وبا کے جراثیم لیے پھرتا ہے ۔ اس کو آبادی میں آزادی کے ساتھ چلنے پھرنے کا موقع دینا گویا پوری آبادی کو موت کے خطرے میں ڈالنا ہے ۔ ایک منافق کو مسلمانوں کی سوسائٹی میں عزت و احترام کا مرتبہ حاصل ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ہزاروں آدمی غداری و منافقت پر دلیر ہو جائیں اور یہ خیال عام ہو جائے کہ اس سوسائٹی میں عزت پانے لیے اخلاص ، خیر خواہی اور صداقت ایمانی کچھ ضروری نہیں ہے بلکہ جھوٹے اظہار ایمان کے ساتھ خیانت اور بے وفائی کا رویہ اختیار کر کے بھی یہاں آدمی پھل پھول سکتا ہے ۔ یہی بات ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مختصر سے حکیمانہ فقرے میں بیان فرمایا ہے کہ من وقر صاحب بدعۃ فقد اعان علیٰ ھدم الاسلام ۔ ” جس شخص نے کسی صاحب بدعت کی تعظیم و توقیر کی وہ دراصل اسلام کی عمارت ڈھانے میں مدد گار ہوا“ ۔
61: جہاد کے اصل معنی جدوجہد اور محنت وکوشش کے ہیں، دین کی حفاظت اور دفاع کے لئے یہ کوشش مسلح لڑائی کی شکل میں بھی ہوسکتی ہے اور زبانی دعوت وتبلیغ اور بحث ومباحثہ کی صورت میں بھی، کھلے کافروں کے ساتھ یہاں جہاد کے پہلے معنی مراد ہیں، اور منافقین کے ساتھ جہاد کے دوسرے معنی مقصود ہیں ؛ چونکہ منافقین زبان سے اسلام لانے کا اظہار کرتے تھے، اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی شرارتوں کے باوجود یہ حکم دیا کہ دنیا میں ان کے ساتھ مسلمانوں جیسا ہی معاملہ کیا جائے، اس لئے ان کے ساتھ جہاد کا مطلب زبانی جہاد ہے، اور ان پر سختی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اول تو گفتگو میں ان کے ساتھ کوئی رعایت نہ برتی جائے، دوسرے اگر ان سے کوئی قابل سزا جرم سرزد ہو تو انہیں معافی نہ دی جائے۔