74۔ 1 مفسرین نے اس کی تفسیر میں متعدد واقعات نقل کئے ہیں، جن میں منافقین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے جسے بعض مسلمانوں نے سن لیا اور انہوں نے آکر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلایا، لیکن آپ کے استفسار پر مکر گئے بلکہ حلف تک اٹھا لیا کہ انہوں نے ایسی بات نہیں کی۔ جس پر یہ آیت اتری۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخی کرنا کفر ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخی کرنے والا مسلمان نہیں رہ سکتا۔ 74۔ 2 اس کی بابت بھی بعض واقعات نقل کئے گئے ہیں۔ مثلاً تبوک کی واپسی پر منافقین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف ایک سازش کی جس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے کہ دس بارہ منافقین ایک گھاٹی میں آپ کے پیچھے لگ گئے جہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باقی لشکر سے الگ تقریباً تنہا گزر رہے تھے ان کا منصوبہ یہ تھا کہ آپ پر حملہ کر کے آپ کا کام تمام کردیں گے اس کی اطلاع وحی کے ذریعے سے آپ کو دے دی گئی جس سے آپ نے بچاؤ کرلیا۔ 75۔ 3 مسلمانوں کی ہجرت کے بعد، مدینہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی تھی، جس کی وجہ سے وہاں تجارت اور کاروبار کو بھی فروغ ملا، اور اہل مدینہ کی معاشی حالت بہت اچھی ہوگئی تھی۔ منافقین مدینہ کو بھی اس کا خوب فائدہ حاصل ہوا اللہ تعالیٰ اس آیت میں یہی فرما رہا ہے کہ کیا ان کو اس بات کی ناراضگی ہے کہ اللہ نے ان کو اپنے فضل سے غنی بنادیا ہے، بلکہ ان کو تو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے انہیں تنگ دستی سے نکال کر خوش حال بنادیا۔
[٨٩] توہین رسالت کلمہ کفر ہے :۔ وہ کفر کا کلمہ کیا تھا جو ان منافقوں نے بکا تھا ؟ قرآن نے یہاں اس کی تصریح نہیں کی۔ یہ اس لیے کہ یہ کوئی ایک آدھ واقعہ نہ تھا بلکہ ان لوگوں نے کئی موقعوں پر ایسے کفر کے کلمے کہے تھے جیسا کہ روایات میں مذکور ہے مگر ہم اسی واقعہ پر اکتفا کریں گے جو سورة منافقون میں اجمالاً اور بخاری میں ذرا تفصیل سے مذکور ہے۔ سیدنا زید بن ارقم کہتے ہیں کہ ایک لڑائی میں (غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر جب مہاجرین اور انصار میں جھگڑا ہوگیا تو) میں نے عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے سنا لوگو تم ایسے کرو کہ پیغمبر کے پاس جو لوگ (مہاجرین) جمع ہوگئے ہیں تم ان کو خرچ کے لیے کچھ نہ دو ۔ وہ خودبخود اسے چھوڑ کر چلے جائیں گے اور اگر ہم لڑائی سے لوٹ کر مدینہ پہنچے تو عزت والا (یعنی عبداللہ بن ابی خود) ذلت والے (یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نکال باہر کرے گا۔ میں نے اس کی یہ باتیں اپنے چچا (سعد بن عبادہ) سے یا سیدنا عمر سے بیان کیں۔ انہوں نے آپ کو بتلا دیں۔ آپ نے پہلے مجھے بلایا اور دریافت کیا تو میں نے ان باتوں کا اقرار کیا۔ پھر آپ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلایا تو وہ مکر گئے اور قسمیں کھانے لگے کہ ہم نے ہرگز ایسا نہیں کہا تھا۔ آپ نے مجھے جھوٹا سمجھا اور عبداللہ بن ابی کو سچا (کیونکہ وہ اور اس کے ساتھی بھی قسمیں کھا رہے تھے) مجھے اس بات کا اتنا رنج ہوا جتنا پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ میں گھر میں بیٹھ رہا۔ میرے چچا کہنے لگے ارے یہ تم نے کیا کیا۔ آخر رسول اللہ نے تجھے جھوٹا سمجھا اور ناراض ہوئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے سورة منافقون نازل فرمائی تو آپ نے مجھے بلا بھیجا اور یہ سورة منافقون مجھے پڑھ کر سنائی۔ بعد میں فرمایا زید اللہ نے تمہاری تصدیق فرما دی۔ ، (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورة المنافقون)- [٩٠] منافقوں کی چند سازشیں جن میں وہ ناکام رہے :۔ ایسے واقعات بھی بیشمار ہیں جو کتاب و سنت سے ثابت ہیں مثلاً ایک وہی واقعہ جو اوپر بیان ہوا۔ دوسرے ہر جنگ میں ان کی قریش مکہ سے یا یہودیوں سے سازباز رہتی تھی کہ مسلمانوں کو شکست سے دو چار ہونا پڑے وہ اس مقصد میں بھی ناکام رہے۔ تیسرے انہوں نے اپنی خفیہ سازشوں اور فتنہ انگیزیوں کے لیے مسجد ضرار کی شکل میں ایک پرفریب اڈا تعمیر کیا تھا جسے رسول اللہ نے غزوہ تبوک سے واپسی پر فوراً بحکم الٰہی آگ لگوا کر تباہ کردیا اور چوتھے اس غزوہ تبوک کی مناسبت سے وہ واقعہ ہے جو اس سفر سے واپسی کے دوران پیش آیا۔- خ رسول اللہ پر قاتلانہ حملہ کی ناکام سازش :۔ اور جس میں منافقوں نے معاذ اللہ رسول اللہ کو قتل کردینے کی سازش تیار کر رکھی تھی اور ان سازشیوں کو بعد میں اہل عقبہ (گھاٹی والے) کا نام دیا گیا۔ ان کا پروگرام یہ تھا کہ رات کے وقت پہاڑی کے دشوار گزار رستوں پر چلتے چلتے گھاٹی کی جگہ آپ کو لشکر سے الگ لے جا کر اچانک آپ پر حملہ کردیا جائے اور آپ کو سواری سے اٹھا کر نیچے گھاٹی میں پھینک کر ہلاک کردیا جائے اور اس واقعہ کی کسی کو خبر بھی نہ ہو جب آپ اس گھاٹی پر پہنچے تو اللہ نے آپ کو بذریعہ وحی مطلع فرما دیا۔ اس وقت آپ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ سارے لشکر میں منادی کر دے کہ کوئی شخص گھاٹی کی طرف نہ آئے اور بطن وادی کی طرف سے جائے جو آسان اور کھلا راستہ ہے۔ اس وقت سیدنا حذیفہ بن یمان آپ کی اونٹنی کو آگے سے پکڑے چل رہے تھے اور سیدنا عمار بن یاسر (رض) پیچھے سے چلا رہے تھے اس اعلان پر سب مسلمانوں نے بطن وادی کی راہ لی مگر یہ منافقین آپ کے حکم کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے ناپاک ارادہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے درپے تھے اچانک چار منافق اپنے چہروں پر ڈھاٹے باندھے آپ تک پہنچ گئے۔ آپ نے سیدنا حذیفہ کو حکم دیا کہ ان منافقوں کی سواریوں کے چہروں پر کاری ضربیں لگائیں۔ انہوں نے اپنی ڈھال سے ان کی سواریوں کے چہروں پر زور دار حملے کیے، ساتھ ہی یہ کہتے جاتے تھے اللہ کے دشمنو دفع ہوجاؤ۔ سیدنا حذیفہ کی اس پکار سے منافقوں کو معلوم ہوگیا کہ رسول اللہ کو ان کے ارادہ کی اطلاع ہوچکی ہے۔ لہذا یہ لوگ جلدی جلدی مسلمانوں کے لشکر سے جا ملے آپ نے ان منافقوں اور ان کے باپوں تک کے نام سیدنا حذیفہ کو بتلا دیئے تھے اور یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ان کے نام کسی کو نہ بتلائے جائیں۔ سیدنا حذیفہ ان منافقوں کو پوری طرح پہچانتے تھے مگر رسول اللہ کا یہ راز افشا نہیں کرتے تھے اسی لیے آپ کو رازدان رسول کہا جاتا ہے۔ صحیح مسلم کی درج ذیل حدیث اس واقعہ پر پوری روشنی ڈالتی ہے۔- ایک دفعہ سیدنا حذیفہ اور عقبہ والوں میں سے ایک شخص کے درمیان جھگڑاہو گیا۔ اس شخص نے کہا میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ عقبہ والے کتنے تھے ؟ لوگوں نے سیدنا حذیفہ کو کہا کہ جب وہ پوچھتا ہے تو آپ بتلا دیجئے۔ سیدنا حذیفہ کہنے لگے ہمیں خبر دی گئی ہے کہ وہ چودہ تھے اور اگر تو بھی ان میں شامل تھا تو پندرہ تھے اور میں اللہ کی قسم کھا کر گواہی دیتا ہوں کہ ان میں سے بارہ تو دنیا اور آخرت میں اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں۔ باقی رہے تین تو انہوں نے عذر کیا تھا کہ ہم نے اللہ کے رسول کی منادی کی آواز نہیں سنی تھی۔ اور نہ ہمیں یہ معلوم ہوسکا کہ ان لوگوں کا ارادہ کیا تھا۔ (مسلم۔ کتاب صفۃ المنافقین واحکامھم )- [٩١] مسلمانوں کے ساتھ ساتھ منافقوں کی بھی آسودگی :۔ جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ آئے تو اس وقت مدینہ کی معیشت پر یہودی چھائے ہوئے تھے۔ وہ مالدار اور سودخوار قوم تھی۔ تجارت ان کے ہاتھ میں تھی۔ وہی جنگی آلات بناتے اور بیچتے تھے۔ علاوہ ازیں شراب کا کاروبار بھی کرتے تھے۔ اس معاشی برتری کے ساتھ ساتھ اوس اور خزرج کو آپس میں لڑا کر سیاسی برتری بھی انہوں نے حاصل کر رکھی تھی۔ آپ تشریف لائے تو یہ سیاسی برتری یہود کے بجائے مسلمانوں کے حصہ میں آگئی۔ مواخات اور آپ کی دعا کی برکت سے مسلمانوں کی معیشت سنبھلتی گئی۔ پھر اموال غنیمت سے مسلمان آسودہ ہوگئے اور ان سب باتوں میں منافق بھی حصہ دار تھے۔ اللہ تعالیٰ منافقوں سے یہ فرما رہے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کی وجہ سے تو تمہیں آسودگی حاصل ہوئی ہے پھر اگر انہی سے دشمنی کر کے ان سے نمک حرامی کا ثبوت دو گے تو تمہیں دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں سخت عذاب بھگتنا پڑے گا۔
يَحْلِفُوْنَ باللّٰهِ مَا قَالُوْا : منافقین اپنی نجی مجلسوں میں کفریہ باتیں کرتے، مگر پردہ چاک اور راز فاش ہونے پر جھوٹی قسمیں کھا کر مکر جاتے، جب گواہیوں سے بات ثابت ہوجاتی تو بہانہ بنا لیتے کہ ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی میں ایسی باتیں کر رہے تھے، آپ نے انھیں سنجیدہ لے لیا ہے اور اپنی قسموں کو بطور ڈھال استعمال کرتے۔ دیکھیے سورة نساء ( ٦٢) اور توبہ (٤٢، ٥٦، ١٠٧) ۔- وَلَقَدْ قَالُوْا كَلِمَةَ الْكُفْرِ : وہ کفر کی بات کیا تھی جو ان منافقوں نے کہی تھی، قرآن مجید نے یہاں اس کی صراحت نہیں فرمائی، اس لیے کہ یہ کوئی ایک آدھ واقعہ نہیں تھا نہ ہی ایک آدھ شخص کی بات تھی، اکثر منافقین بلکہ سبھی کا یہی وتیرہ تھا اور ان لوگوں نے مختلف موقعوں پر کفر کی باتیں کہی تھیں۔ یہاں مثال کے طور پر صرف ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے جو سورة منافقون میں مختصر اور بخاری و مسلم میں کچھ تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ زید بن ارقم (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں ایک لڑائی میں تھا تو میں نے عبداللہ بن ابی سے سنا، وہ کہہ رہا تھا : ” ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو اللہ کے رسول کے پاس ہیں، یہاں تک کہ وہ لوگ منتشر ہوجائیں جو آپ کے اردگرد ہیں اور یہ کہ ہم اگر مدینہ واپس پہنچ گئے تو جو زیادہ عزت والا ہے وہ ذلیل تر کو نکال دے گا۔ “ میں نے یہ بات اپنے چچا یا عمر (رض) سے بیان کی، انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر کیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے بلایا، میں نے آپ کو یہ بات بیان کردی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کی طرف پیغام بھیجا، وہ سب قسمیں کھا گئے کہ انھوں نے یہ بات نہیں کہی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے جھوٹا قرار دے دیا، مجھے ایسی فکر لاحق ہوئی جو مجھے کبھی لاحق نہ ہوئی تھی تو میں گھر میں بیٹھ گیا۔ میرے چچا نے کہا، تم نے یہ کیا چاہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہیں جھوٹا قرار دیا اور تم پر ناراض بھی ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے سورة منافقون نازل فرما دی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری طرف آدمی بھیجا اور یہ سورت پڑھی اور فرمایا : ” زید اللہ تعالیٰ نے تمہیں سچا قرار دیا ہے۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : ( إذا جاء ک المنافقون۔۔ ) : ٤٩٠٠، ٤٩٠١۔ مسلم : ٢٧٧٢ ]- وَهَمُّوْا بِمَا لَمْ يَنَالُوْا : یعنی منافقین نے جو ارادہ کیا تھا وہ اپنی مراد کو نہیں پہنچ سکے اور یہ ناکامی اور نامرادی کوئی ایک مرتبہ نہیں ہوئی، بلکہ وہ ہمیشہ اپنے ناپاک منصوبوں اور سازشوں میں ناکام ہوئے، جن کی چند مثالیں یہ ہیں : 1 وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنا چاہتے تھے اور اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے تھے۔ 2 مجاہدین کے مالی ذرائع بند کرنا چاہتے تھے۔ 3 یہودیوں کو مدینہ میں آباد دیکھنا چاہتے تھے۔ 4 عبداللہ بن ابی کو تاج سلطانی پہنانا چاہتے تھے۔ 5 مسلمانوں کے خلاف مسجد ضرار کا مورچہ بنانا چاہتے تھے۔ 6 تبوک میں رومیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا نام و نشان مٹتا ہوا دیکھنے کی خواہش رکھتے تھے، مگر سب منصوبوں میں ناکام اور نامراد ہوئے۔ آخری حد جس تک وہ پہنچے وہ جنگ تبوک سے واپسی پر آپ کے قتل کا منصوبہ تھا۔ راستے میں عقبہ ایک بلند، دشوار گزار اور تنگ جگہ تھی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان کروا دیا کہ آپ اس راستے سے جائیں گے، اس لیے ادھر سے کوئی نہ جائے۔ چند منافقین نے اس حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس مقام پر آپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ چناچہ صحیح مسلم کی اس حدیث سے اس واقعہ پر روشنی پڑتی ہے، ابو طفیل بیان فرماتے ہیں کہ ” عقبہ “ والے لوگوں میں سے ایک شخص اور حذیفہ (رض) (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاص راز دار) کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہوگئی، تو وہ کہنے لگا : ” میں تمہیں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ وہ ” عقبہ “ والے کتنے آدمی تھے۔ “ (حذیفہ (رض) نے کچھ گریز کیا) تو لوگوں نے کہا : ” جب وہ پوچھ رہا ہے تو آپ اسے بتادیں۔ “ انھوں نے فرمایا : ” ہمیں بتایا جاتا تھا کہ وہ چودہ تھے، اگر تو بھی ان میں شامل تھا تو یہ لوگ پندرہ ہوگئے اور میں اللہ کی قسم کھا کر گواہی دیتا ہوں کہ ان میں سے بارہ تو دنیا کی زندگی میں اور اس دن جب گواہ پیش ہوں گے، دونوں (جہاں) میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمن ہیں۔ باقی رہے تین تو انھوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ نہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعلان کرنے والے کو سنا تھا اور نہ ہمیں معلوم ہوسکا کہ ان لوگوں کا ارادہ کیا ہے۔ “ [ مسلم، صفات المنافقین : ١١؍٢٧٧٩ ] بیہقی کی دلائل النبوۃ میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں حذیفہ بن یمان اور عمار بن یاسر (رض) نے انھیں دیکھ کر للکارا تو وہ بھاگ گئے (کیونکہ ان کا منصوبہ خفیہ نہ رہ سکنے کی وجہ سے ناکام ہوگیا) ۔ صاحب ” ہدایۃ المستنیر “ نے دلائل النبوۃ (٧؍٢٦٠) کا حوالہ دے کر اسے صحیح لغیرہ قرار دیا ہے۔ اس روایت سے صحیح مسلم کی حدیث کی وضاحت ہوتی ہے۔ - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میری امت میں سے بارہ منافق ایسے ہیں جو نہ جنت میں جائیں گے اور نہ اس کی خوشبو پائیں گے، حتیٰ کہ اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر جائے، ان میں سے آٹھ کے لیے تو پھوڑا کافی ہوگا جو آگ کا چراغ ہوگا، جو ان کے کندھوں میں نکلے گا، یہاں تک کہ ان کے سینوں سے نمودار ہوگا۔ “ [ مسلم، صفات المنافقین، باب صفات المنافقین۔۔ : ١٠؍٢٧٧٩ ]
خلاصہ تفسیر - وہ لوگ قسمیں کھا جاتے ہیں کہ ہم نے فلانی بات ( مثلاً یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کردیں) نہیں کہی حالانکہ یقناً انہوں نے کفر کی بات کہی تھی، ( کیونکہ آپ کے قتل کے بارے میں گفتگو کرنے کا کفر ہونا ظاہر ہے) اور ( وہ بات کہہ کر) اپنے اسلام ( ظاہری) کے بعد ( ظاہر میں بھی) کافر ہوگئے ( گو اپنے ہی مجمع میں سہی جس کی خبر مسلمانوں کو بھی ہوگئی اور اس سے عام طور پر کفر کھل گیا) اور انہوں نے ایسی بات کا ارادہ کیا تھا جو ان کے ہاتھ نہ لگی ( کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنا مگر ناکام رہے اور یہ انہوں نے صرف اس بات کا بدلہ دیا ہے کہ ان کو اللہ نے اور اس کے رسول نے رزق خداوندی سے مال دار کردیا ( اس احسان کا بدلہ ان کے نزدیک یہی ہوگا کہ برائی کریں) سو اگر ( اس کے بعد بھی) توبہ کریں تو ان کے لئے ( دونوں جہان میں) بہتر ( اور نافع) ہوگا ( چناچہ جلاس کو توبہ کی توفیق ہوگئی) اور اگر ( توبہ سے) روگردانی کی ( اور کفر و نفاق ہی پر جمے رہے) تو اللہ تعالیٰ ان کو دنیا اور آخرت دونوں جگہ) میں دردناک سزا دے گا ( چناچہ عمر بھر بدنام اور پریشان اور خائف رہنا اور مرتے وقت مصیبت کا مشاہدہ کرنا یہ دنیوی عذاب ہے اور آخرت میں دوزخ میں جانا ظاہر ہی ہے) اور ان کا دنیا میں نہ کوئی یار ہے اور نہ مددگار ( کہ عذاب سے بچالے اور جب دنیا ہی میں کوئی یار مددگار نہیں جہاں اکثر مدد ہوجاتی ہے تو آخرت میں تو بدرجہ اولی منفی ہوگا اور ان ( منافقین) میں بعضے آدمی ایسے ہیں کہ خدا تعالیٰ سے عہد کرتے ہیں ( کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عہد کرنا اور خدا سے عہد کرنا برابر ہے، اور وہ عہد یہ تھا کہ) اگر اللہ تعالیٰ ہم کو اپنے فضل سے ( بہت سا مال) عطا فرما دے تو ہم ( اس میں سے) خوب خیرات کریں اور ہم ( اس کے ذریعہ سے) خوب نیک نیک کام کیا کریں، سو جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے ( بہت سا) دے دیاتو اس میں بخل کرنے لگے، ( کہ زکوٰة نہ دی) اور ( اطاعت سے) روگردانی کرنے لگے اور وہ تو روگردانی کے ( پہلے ہی سے) عادی ہیں سو اللہ تعالیٰ نے ان ( کے اس فعل) کی سزا میں ان کے دلوں میں نفاق ( قائم) کردیا، جو خدا کے پاس جانے کے دن تک ( یعنی دم مرگ تک) رہے گا اس سبب سے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ سے اپنے وعدہ میں خلاف کیا اور اس سبب سے کہ وہ ( اس وعدہ میں شروع ہی میں) جھوٹ بولتے تھے ( یعنی نیت ایفاء کی اس وقت بھی نہ تھی پس نفاق تو اس وقت بھی دل میں تھا جس کی فرع یہ کذب و اخلاف ہے، پھر اس کذب و اخلاف کے وقوع سے اور زیادہ مستحق غضب ہوئے، اور اس زیادہ غضب کا اثر یہ ہوا کہ وہ نفاق سابق اب دائمی اور غیر زائل ہوگیا کہ توبہ بھی نصیب نہ ہوگی، اسی حالت پر مر کر ابدالاباد جہنم میں رہنا نصیب ہوگا، اور باوجود کفر مضمر کے جو اسلام اور اطاعت کا اظہار کرتے ہیں تو) کیا اس ( منافقین کو یہ خبر نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے دل کا راز اور ان کی سرگوشی سب معلوم ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ تمام غیب کی باتوں کو خوب جانتے ہیں ( اور اس لئے وہ ظاہری اسلام اور اطاعت ان کے کام نہیں آسکتے بالخصوص آخرت میں، پس سزائے جہنم ضروری ہے۔- معارف و مسائل - آیات مذکورہ میں سے پہلی آیت يَحْلِفُوْنَ باللّٰهِ میں پھر منافقین کا تذکرہ ہے کہ وہ اپنی مجلسوں میں کلمات کفر کہتے رہتے ہیں، پھر اگر مسلمانوں کو اطلاع ہوگئی تو جھوٹی قسمیں کھا کر اپنی براءت ثابت کرتے ہیں، اس آیت کے شان نزول میں بغوی نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ تبوک کے موقع پر ایک خطبہ دیا، جس میں منافقین کی بدحالی اور انجام بد کا ذکر فرمایا، حاظرین میں ایک منافق جلاس بھی موجود تھا، اس نے اپنی مجلس میں جا کر کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ کہتے ہیں اگر وہ سچ ہے تو ہم گدھوں سے بھی زیادہ بدتر ہیں، اس کا یہ کلمہ ایک صحابی عامر بن قیس نے سن لیا تو کہا بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ فرمایا وہ سچ ہے اور تم واقعی گدھو سے بھی زیادہ بدتر ہو۔- جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر تبوک سے واپس مدینہ طیبہ پہنچنے تو عامر بن قیس نے یہ واقعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سنایا، اور جلاس اپنے کہے سے مکر گیا، اور کہنے لگا کہ عامر بن قیس نے مجھ پر تہمت باندھی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں کو حکم دیا منبر نبوی کے پاس کھڑے ہو کر قسم کھائیں، جلاس نے بیدھڑک جھوٹی قسم کھالی کہ میں نے ایسا نہیں کہا، عامر جھوٹ بول رہے میں، حضرت عامر کا نمبر آیا تو انھوں نے بھی قسم کھائی اور پھر دعاء کے لئے ہاتھ اٹھائے کہ یا اللہ آپ اپنے رسول پر بذریعہ وحی اس معاملہ کی حقیقت روشن فرما دیں، ان کی دعاء پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سب مسلمانوں نے آمین کہی، ابھی یہ لوگ اس جگہ سے ہٹے بھی نہیں تھے کہ جبرئیل امین وحی لے کر حاضر ہوگئے، جس میں آیت مذکورہ تھی۔- جلاس نے جب آیت سنی تو فورًا کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ یا رسول اللہ اب میں اقرار کرتا ہوں کہ یہ غلطی مجھ سے ہوئی تھی، اور عامر بن قیس نے جو کچھ کہا وہ سچ تھا، مگر اسی آیت میں حق تعالیٰ نے مجھے توبہ کا بھی حق دید یا ہے، میں اب اللہ سے مغفرت مانگتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی توبہ قبول فرمالی اور بعد میں یہ اپنی توبہ پر قائم رہے، ان کے حالات درست ہوگئے ( مظہری) - بعض حضرات مفسرین نے اسی طرح کے دوسرے واقعات اس کے شان نزول میں بیان فرمائے ہیں، خصوصاً اس لئے کہ اس آیت کا ایک جملہ یہ بھی ہے وَهَمُّوْا بِمَا لَمْ يَنَالُوْا یعنی انہوں نے ارادہ کیا ایک ایسے کام کا جس میں وہ کامیاب نہیں ہوسکے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت کسی ایسے واقعہ سے متعلق ہے جس میں منافقین نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے خلاف کوئی سازش کی تھی، جس میں وہ کامیاب نہیں ہوسکے، جیسے اسی غزوہ تبوک سے واپسی کا واقعہ معروف ہے کہ بارہ آدمی منافقین میں سے پہاڑ کی ایک گھاٹی میں اس غرض سے چھپ کر بیٹھے تھے کہ جب آپ یہاں پہونچیں تو یکبارگی حملہ کرکے آپ کو قتل کردیں، جبرئیل امین نے آپ کو خبر دے دیتو آپ اس راستہ سے ہٹ گئے، اور ان کی سازش خاک میں مل گئی۔- اور بعض دوسرے واقعات بھی منافقین کی طرف سے ایسے پیش آئے ہیں، مگر اس میں تضاد یا بعد نہیں کہ وہ سب ہی واقعات اس آیت میں مراد ہوں۔
يَحْلِفُوْنَ بِاللہِ مَا قَالُوْا ٠ ۭ وَلَقَدْ قَالُوْا كَلِمَۃَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِہِمْ وَہَمُّوْا بِمَا لَمْ يَنَالُوْا ٠ ۚ وَمَا نَقَمُوْٓا اِلَّآ اَنْ اَغْنٰىہُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ مِنْ فَضْلِہٖ ٠ ۚ فَاِنْ يَّـتُوْبُوْا يَكُ خَيْرًا لَّہُمْ ٠ ۚ وَاِنْ يَّـتَوَلَّوْا يُعَذِّبْہُمُ اللہُ عَذَابًا اَلِـــيْمًا ٠ ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ ٠ ۚ وَمَا لَہُمْ فِي الْاَرْضِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ ٧٤- حلف - الحِلْف : العهد بين القوم، والمُحَالَفَة : المعاهدة، وجعلت للملازمة التي تکون بمعاهدة، وفلان حَلِفُ کرم، وحَلِيف کرم، والأحلاف جمع حلیف، قال الشاعر وهو زهير :- تدارکتما الأحلاف قد ثلّ عرشها أي : كاد يزول استقامة أمورها، وعرش الرجل : قوام أمره .- والحَلِفُ أصله الیمین الذي يأخذ بعضهم من بعض بها العهد، ثمّ عبّر به عن کلّ يمين، قال اللہ تعالی: وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ [ القلم 10] ، أي : مکثار للحلف، وقال تعالی: يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ ما قالوا[ التوبة 74] ، يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَما هُمْ مِنْكُمْ [ التوبة 56] ، يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ [ التوبة 62] ، وشیء مُحْلِف : يحمل الإنسان علی الحلف، وكميت محلف :- إذا کان يشكّ في كميتته وشقرته، فيحلف واحد أنه كميت، وآخر أنه أشقر .- ( ح ل ف ) الحلف عہدو پیمانہ جو لوگوں کے درمیان ہو المحالفۃ ( مفاعلہ ) معاہدہ یعنی باہم عہدو پیمان کرنے کو کہتے ہیں پھر محالفت سے لزوم کے معنی لے کر کہا جاتا ہے یعنی وہ کرم سے جدا نہین ہوتا ۔ حلیف جس کے ساتھ عہد و پیمان کیا گیا ہو اس کی جمع احلاف ( حلفاء آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) تم نے ان حلیفوں کردیا جن کے پائے ثبات مترلزل ہوچکے تھے ۔ الحلف اصل میں اس قسم کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ ایک دوسرے سے عہد و پیمان کای جائے اس کے بعد عام قسم کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے قرآن میں ہے ۔ وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ [ القلم 10] اور کسی ایسے شخس کے کہے میں نہ آجانا جو بہت قسمیں کھانے والا ذلیل اوقات ہے ۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ ما قالوا[ التوبة 74] خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے ( تو کچھ ) انہیں کہا يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَما هُمْ مِنْكُمْ [ التوبة 56] اور خدا کی قسمیں کھاتے میں کہ وہ تم میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں ۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ [ التوبة 62] یہ لوگ تمہارے سامنے خدا کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم کو خوش کردیں ۔ ( مشکوک چیز ) جس کے ثابت کرنے کے لئے قسم کی ضرورت ہو ۔ کمیت محلف گھوڑا جس کے کمیت اور اشقر ہونے میں شک ہو ایک قسم کھائے کہ یہ کمیت ہے اور دوسرا حلف اٹھائے کہ یہ اشقر یعنی سرخ ہے المحالفۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سامنے قسم کھانا کے ہیں اس سے یہ لفظ محض لزوم کے معنی میں استعمال ہونے لگا - كلم - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها،- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- سلم - والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . - والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین :- أحدهما : دون الإيمان،- وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] .- والثاني : فوق الإيمان،- وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] ،- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ - شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں - کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔ - همم - الهَمُّ الحَزَنُ الذي يذيب الإنسان . يقال : هَمَمْتُ الشّحم فَانْهَمَّ ، والهَمُّ : ما هممت به في نفسک، وهو الأصل، وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِها[يوسف 24]- ( ھ م م ) الھم - کے معنی پگھلا دینے والے غم کے ہیں اور یہ ھممت الشحم فا نھم کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے چربی کو پگھلا یا چناچہ وہ پگھل گئی اصل میں ھم کے معنی اس ارادہ کے ہیں جو ابھی دل میں ہو قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِها[يوسف 24] اور اس عورت نے ان کا قصد کیا وہ وہ اس کا قصد کرلیتے۔- نيل - النَّيْلُ : ما يناله الإنسان بيده، نِلْتُهُ أَنَالُهُ نَيْلًا . قال تعالی: لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ [ آل عمران 92] ، وَلا يَنالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا [ التوبة 120] ، لَمْ يَنالُوا خَيْراً [ الأحزاب 25] والنَّوْلُ : التّناول . يقال : نِلْتُ كذا أَنُولُ نَوْلًا، وأَنَلْتُهُ : أولیته، وذلک مثل : عطوت کذا : تناولت، وأعطیته : أنلته . ونِلْتُ : أصله نَوِلْتُ علی فعلت، ثم نقل إلى فلت . ويقال : ما کان نَوْلُكَ أن تفعل کذا . أي : ما فيه نَوَال صلاحک، قال الشاعر : جزعت ولیس ذلک بالنّوال قيل : معناه بصواب . وحقیقة النّوال : ما يناله الإنسان من الصلة، وتحقیقه ليس ذلک مما تنال منه مرادا، وقال تعالی: لَنْ يَنالَ اللَّهَ لُحُومُها وَلا دِماؤُها وَلكِنْ يَنالُهُ التَّقْوى مِنْكُمْ [ الحج 37] .- ( ن ی ل ) النیل ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جسے انسان اپنے ہاتھ سے پکڑلیتا ہے ۔ اور یہ نلتہ الالہ نیلا کا مصدر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ [ آل عمران 92] تم کبھی نیکی حاصل نہیں کرسکو گے ۔ وَلا يَنالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا [ التوبة 120] یا دشمنوں سے کوئی چیز لیتے ۔ لَمْ يَنالُوا خَيْراً [ الأحزاب 25] کچھ بھلائی حاصل نہ کرسکے ۔- نقم - نَقِمْتُ الشَّيْءَ ونَقَمْتُهُ : إذا أَنْكَرْتُهُ ، إِمَّا باللِّسانِ ، وإِمَّا بالعُقُوبةِ. قال تعالی: وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة 74] ، وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج 8] ، هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة 59] . والنِّقْمَةُ : العقوبةُ. قال : فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف 136] ، فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم 47] ، فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف 25] .- ( ن ق م )- نقمت الشئی ونقمتہ کسی چیز کو برا سمجھنا یہ کبھی زبان کے ساتھ لگانے اور کبھی عقوبت سزا دینے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج 8] ان کو مومنوں کی یہی بات بری لگتی تھی ۔ کہ وہ خدا پر ایمان لائے ہوئے تھے ۔ وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة 74] اور انہوں نے ( مسلمانوں میں عیب ہی کو کونسا دیکھا ہے سیلا س کے کہ خدا نے اپنے فضل سے ان کو دولت مند کردیا ۔ هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة 59] تم ہم میں برائی ہی کیا دیکھتے ہو ۔ اور اسی سے نقمۃ بمعنی عذاب ہے قرآن میں ہے ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف 136] تو ہم نے ان سے بدلہ لے کر ہی چھوڑا گر ان کو در یا میں غرق کردیا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم 47] سو جو لوگ نافر مانی کرتے تھے ہم نے ان سے بدلہ لے کر چھوڑا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف 25] تو ہم نے ان سے انتقام لیا سو دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ۔- غنی - الغِنَى يقال علی ضروب :- أحدها : عدم الحاجات،- ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] ، - الثاني : قلّة الحاجات،- وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس»- والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس - کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] ،- ( غ ن ی ) الغنیٰ- ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ - 2 قدرے محتاج ہونا - اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور - غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں - اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ - فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )
منافقین کا کردار - قول باری ہے یحلفون باللہ ما قالوا ، ولقد قالوا کلمۃ الکفر وکفروا بغیر اسلامھم ۔ یہ لوگ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے وہ بات نہیں کی حالانکہ انہوں نے ضروروہ کا ذانہ بات کہی ہے۔ وہ اسلام لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے ۔ آیت میں کافر منافقین کے بارے میں اطلاع دی گئی ہے۔ کلمہ کفر سے ہر وہ کلمہ مراد ہے جس کے ذریعے اللہ کی نعمت کو جھٹلایا جائے اور اس کا انکار کیا جائے۔ یا ایسا کلمہ جو اپنی سنگینی میں اس کے درجے کو پہنچ ہو ۔ یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور اسلام کے متعلق زبان درازی کرتے تھے۔ ایک قول کے مطابق کلمہ کفر بکنے والا منافق جلاس بن سوید بن الصامت تھا۔ اس نے یہ بکواس کی تھی کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لایا ہوا مذہب سچا اور برحق ہے تو پھر ہم گدھوں سے بھی زیادہ بدتر ہیں ۔ جب پوچھ گچھ ہوئی تو صاف مگر گیا اور قسم کھا کر کہنے لگا میں نے یہ بات نہیں کہی ہے ۔ مجاہد اور عروہ نیز ابن اسحاق سے یہی بات مروی ہے۔ قتادہ کا قول ہے کہ اس آیت کا نزول منافقین کے سردار عبد اللہ بن ابی بن سلول کے بارے میں ہوا تھا ۔ جب اس نے وہ بات کہی تھی جسے قرآن مجید نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے۔ لئن رجعنا الی المدینۃ لیخرجن الاعز منھا الاذل اگر ہم مدینہ واپس پہنچ گئے تو عزت دار لوگ وہاں سے ذلیل لوگوں کو نکال باہر کریں گے۔ حسن کا قول ہے کہ منافقین کے ایک گروہ نے یہ بات کہی تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے منافقین کی کیفیت جس طرح بیان کی ہے ، اور ان کے کافرانہ عقائد کو جس طرح کھول کر رکھ دیا ہے ۔ پھر انہیں ان باتوں کے باوجود اس بنا پر ان کی حالت پر چھوڑ دیا گیا اور زندہ رہنے دیا گیا کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے سامنے اپنے اسلام کا اظہار کرتے تھے ، اس پورے بیان کے پس منظر میں یہ دلالت موجود ہے کہ ایسے زندیق کی توبہ قابل قبول ہے جو اسلام کا اظہار کرے لیکن دل میں کفر چھپائے رکھے۔
(٧٤) جلاس بن سوید نے اللہ کی قسم کھائی کہ میرے متعلق عامر بن قیس نے جو بات پہنچائی ہے وہ میں نے نہیں کہی حالانکہ یقیناً انھوں نے کفر کی بات کہی تھی کیوں کہ جس وقت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر مبارک کیا گیا تو منافقین نے عیب جوئی کی اور کہا کہ اللہ کی قسم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ ہمارے بھائیوں میں باتیں بیان کرتے ہیں اگر آپ ان میں سچے ہیں تو ہم گدھوں سے زیادہ بدتر ہیں۔- جلاس بن سوید کی اس بات کی عامر بن قیس نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع دی تو اس نے اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ میں نے کچھ نہیں کہا چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی قسم کی تکذیب کی کہ یقیناً اس نے کفر کی بات کہی ہے اور عیاذ باللہ انہوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے اور آپ کو جلاوطن کرنے کا ارادہ کیا ہے مگر ان کا بس نہ چل سکا ،- اور انہوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کو صرف اس بات کا بدلہ دیا ہے کہ ان کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال غنیمت سے مالدار کردیا، اگر اب بھی یہ کفر ونفاق سے باز آجائیں اور توبہ کرلیں تو ان کے لیے بہتر ہوگا۔- اور اگر یہ لوگ توبہ سے روگردانی کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو دردناک سزا دے گا اور نہ ان کا کوئی محافظ ہے اور نہ ان کی سزا کو کوئی ان سے ٹال سکتا ہے۔- شان نزول : (آیت) ” یحلفون باللہ ما قالوا “ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جلاس بن سوید بن صامت نے غزوہ تبوک میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شرک نہیں کی تھی اور اس نے کہا تھا کہ اگر یہ شخص یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچا ہو تو ہم گدھوں سے بھی بدتر ہیں، عمیر بن سعید نے اس چیز کی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع کردی، جلاس نے اللہ کی قسم کھائی کہ میں نے یہ بات نہیں کہی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی وہ لوگ قسمیں کھاجاتے ہیں کہ ہم نے فلاں بات نہیں کہی۔ الخ۔- جلاس بن سوید نے توبہ کرلی تھی اور ان کی توبہ بھی قبول ہوئی، نیز کعب بن مالک (رض) سے اسی طرح روایت کیا گیا ہے اور ابن سعد نے طبقات میں اسی طرح عروہ سے روایت کیا ہے۔- اور ابن ابی حاتم (رح) نے حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ دے رہے تھے اس دوران حضرت زید بن ارقم نے منافقوں میں سے ایک شخص سے سنا کہ وہ کہہ رہا تھا کہ اگر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے ہوں تو ہم گدھوں سے زیادہ بدتر ہیں، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ کے پوچھنے پر اس کہنے والے نے انکار کردیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔- نیز ابن جریر (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک درخت کے سایہ میں تشریف رکھتے تھے، آپ نے فرمایا عنقریب تمہارے پاس ایسا شخص آئے گا جو شیطان کی دونوں آنکھوں سے دیکھتا ہے، چناچہ اتنے میں ایک نیلی آنکھوں والا شخص آیا، آپ نے اسے بلایا اور فرمایا کہ تو اور تیرے ساتھی مجھے کیوں برا کہتے ہیں۔- یہ سن کر وہ شخص چلا گیا اور اپنے ساتھیوں کو لے کر آیا، سب نے آکر قسمیں کھانی شروع کردیں کہ ہم نے ایسا نہیں کیا، چناچہ آپ نے انکو معاف کردیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔- نیز حضرت قتادہ (رض) سے اسی طرح روایت کی گئی ہے کہ ود آدمی آپس میں لڑے، ایک ان میں سے قبیلہ جہینہ کا تھا اور دوسرا غفار کا اور جہینہ والے انصار کے حلیف تھے، غفاری جہنی پر غالب آگیا، اس پر عبداللہ بن ابی نے قبیلہ اوس سے کہا کہ اپنے بھائیوں کی مدد کرو، اللہ کی قسم، ہماری اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مثال اس قاتل کے قول کی طرح کہ تیرے کتے کی قیمت تجھ کو کھاگئی اگر ہم مدینہ منورہ لوٹ آئے تو ہم میں سے عزیز ذلیل کو نکال دے گا۔- یہ موشگافی سن کر مسلمانوں میں سے ایک شخص دوڑ کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا آپ نے یہ سن کر ابن ابی منافق کے پاس آدمی بھیجا اور اس اس سے دریافت کیا وہ اللہ کی قسمیں کھانے لگا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔- اور طبرانی (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ اسود نامی ایک شخص نے نعوذ باللہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کا ارادہ کیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت) وھموا بمالم ینالوا “۔ (الخ) اور جریر (رح) اور ابوالشیخ (رح) نے حضرت عکرمہ (رح) سے روایت کی ہے کہ مولی بن عدی بن کعب نے ایک انصاری شخص کو قتل کرڈالا، اس پر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیت ادا کرنے کے لیے بارہ ہزار درہم دینے کا فیصلہ فرمایا، تب یہ آیت نازل ہوئی۔
آیت ٧٤ (یَحْلِفُوْنَ باللّٰہِ مَا قَالُوْا ط) - یہ جس بات کا ذکر ہے اس کی تفصیل اٹھائیسویں پارے کی سورة المنافقون میں آئے گی۔ بہر حال یہاں صرف اتنا جان لینا ضروری ہے کہ تبوک سے واپسی کے سفر پر عبداللہ بن ابی کے منہ سے کسی نوجوان مسلمان نے غلط بات سنی تو اس نے آکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر کردیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طلب فرما کر باز پرس کی تو وہ صاف مکر گیا کہ اس نوجوان نے خواہ مخواہ فتنہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ - (وَلَقَدْ قَالُوْا کَلِمَۃَ الْکُفْرِ ) - عبداللہ بن ابی کے مکر جانے پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس نوجوان کو سچا قرار دیا اور اس منافق کے جھوٹ کا پردہ چاک کردیا۔ - (وَکَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلاَمِہِمْ وَہَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْا ج) - یہ جس واقعے کی طرف اشارہ ہے وہ بھی غزوۂ تبوک سے واپسی کے سفر میں پیش آیا تھا۔ پہاڑی راستہ میں ایک موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ایک ایسی تنگ گھاٹی سے ہوا جہاں سے ایک وقت میں صرف ایک اونٹ گزر سکتا تھا۔ اس موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قافلے سے علیحدہ تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صرف دو صحابہ حضرت حذیفہ (رض) بن یمان اور عمار (رض) بن یاسر (رض) تھے۔ اس تنگ جگہ پر کچھ منافقین نے رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ کردیا۔ انہوں نے پہچانے جانے کے ڈر سے ڈھاٹے باندھ رکھے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (نعوذ باللہ) شہید کردیں۔ بہر حال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جاں نثار صحابہ (رض) نے حملہ آوروں کو مار بھگایا اور وہ اپنے ناپاک منصوبے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ان دو صحابہ (رض) کو حملہ آوروں میں سے ہر ایک کے نام بتادیے اور ان کے علاوہ بھی تمام منافقین کے نام بتا دیے۔ مگر ساتھ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں حضرات کو تاکید فرما دی کہ وہ یہ نام کسی کو نہ بتائیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس راز کو اپنے پاس ہی محفوظ رکھیں۔ اسی وجہ سے حذیفہ (رض) بن یمان صحابہ (رض) میں صاحب سِرِّ النَّبِی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رازدان) کے لقب سے مشہور ہوگئے تھے۔ - (وَمَا نَقَمُوْٓا الآَّ اَنْ اَغْنٰٹہُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ مِنْ فَضْلِہٖ ج) - یعنی اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مہربانی سے یہ لوگ مال غنیمت اور زکوٰۃ و صدقات میں سے با فراغت حصہ پاتے رہے۔ - (فَاِنْ یَّتُوْبُوْا یَکُ خَیْرًا لَّہُمْ ج) (وَاِنْ یَّتَوَلَّوْا یُعَذِّبْہُمُ اللّٰہُ عَذَابًا اَلِیْمًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ج) (وَمَا لَہُمْ فِی الْاَرْضِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلاَ نَصِیْرٍ ) - اب وہ تین آیات آرہی ہیں جن کا حوالہ میری تقاریر میں اکثر آتا رہتا ہے۔ ان میں مدینہ کے منافقین کی ایک خاص قسم کا تذکرہ ہے ‘ مگر مسلمانان پاکستان کے لیے ان آیات کا مطالعہ بطور خاص مقام عبرت بھی ہے اور لمحۂ فکریہ بھی۔
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :83 وہ بات کیا تھی جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ؟ اس کے متعلق کوئی یقینی معلومات ہم تک نہیں پہنچی ہیں ۔ البتہ روایات میں متعدد ایسی کافرانہ باتوں کا ذکر آیا ہے جو اس زمانہ میں منافقین نے کی تھیں ۔ مثلا ایک منافق کے متعلق مروی ہے کہ اس نے اپنے عزیزوں میں سے ایک مسلمان نوجوان کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ”اگر واقعی وہ سب کچھ برحق ہے جو یہ شخص ( یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) پیش کرتا ہے تو ہم سب گدھوں سے بھی بدتر ہیں“ ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ تبوک کے سفر میں ایک جگہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی گم ہوگئی ۔ مسلمان اس کو تلاش کرتے پھر رہے تھے ۔ اس پر منافقوں کے ایک گروہ نے اپنی مجلس میں بیٹھ کر خوب مذاق اڑایا اور آپس میں کہا کہ”یہ حضرت آسمان کی خبریں تو خوب سناتے ہیں ، مگر ان کو اپنی اونٹنی کی کچھ خبر نہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہے“ ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :84 یہ اشارہ ہے ان سازشوں کی طرف جو منافقوں نے غزوہ تبوک کے سلسلے میں کی تھیں ۔ ان میں سے پہلی سازش کا واقعہ محدثین نے اس طرح بیان کیا ہے کہ تبوک سے واپسی پر جب مسلمانوں کا لشکر ایک ایسے مقام کے قریب پہنچا جہاں سے پہاڑوں کے درمیان راستہ گزرنا تھا تو بعض منافقین نے آپس میں طے کیا کہ رات کے وقت کسی گھاٹی میں سے گزرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڈ میں پھینک دیں گے ۔ حضور کو اس کی اطلاع ہوگئی ۔ آپ نے تمام اہل لشکر کو حکم دیا کہ وادی کے راستہ سے نکل جائیں ، اور آپ خود صرف عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور حذیفہ بن یمان کو لے کر گھاٹی کے اندر سے ہو کر چلے ۔ اثنائے راہ میں یکایک معلوم ہوا کہ دس بارہ منافق ڈھاٹے باندھے ہوئے پیچھے پیچھے آرہے ہیں ۔ یہ دیکھ کر حضرت حذیفہ ان کی طرف لپکے تاکہ ان کے اونٹوں کو مار مار کر ان کے منہ پھیر دیں ۔ مگر وہ دور ہی سے حضرت حذیفہ کو آتے دیکھ کر ڈر گئے اور اس خوف سے کہ کہیں ہم پہنچان نہ لیے جائیں فورا بھاگ نکلے ۔ دوری سازش جس کا اس سلسلہ میں ذکر کیا گیا ہے ، یہ ہے کہ منافقین کو رومیوں کے مقابلہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے وفادار ساتھیوں کے بخیریت بچ کر واپس آجانے کی توقع نہ تھی ، اس لیے انہوں نے آپس میں طے کر لیا تھا کہ جونہی اُدھر کوئی سانحہ پیش آئے اِدھر مدینہ میں عبد اللہ بن ابی کے سر پر تاج شاہی رکھ دیا جائے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :85 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے مدینہ عرب کے قصبات میں سے ایک معمولی قصبہ تھا اور اوس و خزرج کے قبیلے مال اور جاہ کے لحاظ سے کوئی اونچا درجہ نہ رکھتے تھے ۔ مگر جب حضور وہاں تشریف لے گئے اور انصار نے آپ کا ساتھ دے کر اپنے آپ کو خطرات میں ڈال دیا تو آٹھ نو سال کے اندر اندر یہی متوسط درجہ کا قصبہ تمام عرب کا دارالسلطنت بن گیا ۔ وہی اوس و خزرج کے کاشتکار سلطنت کے اعیان و اکابر بن گئے اور ہر طرف سے فتوحات ، غنائم اور تجارت کی برکات اس مرکزی شہر پر بارش کی طرح برسنے لگیں ۔ اللہ تعالیٰ اسی پر انہیں شرم دلا رہا ہے کہ ہمارے نبی پر تمہارا یہ غصہ کیا اسی قصور کی پاداش میں ہے کہ اس کی بدولت یہ نعمتیں تمہیں بخشی گئیں
62: منافقین کا یہ وطیرہ تھا کہ وہ اپنی مجلسوں میں کافرانہ باتیں کہتے رہتے تھے، لیکن جب ان سے پوچھا جاتا تو وہ صاف انکار کردیتے اور قسم کھالیتے کہ ہم نے یہ بات نہیں کہی، مثلا ایک مرتبہ منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے بارے میں ایک انتہائی گستاخانہ بات کہی تھی جسے نقل کرنا بھی مشکل ہے ،اور اس کے بعد کہا تھا کہ ’’جب ہم مدینہ پہنچیں گے تو ہم میں سے باعزت لوگ ذلیلوں کو نکال باہر کریں گے‘‘۔ اس کا ذکر خود قرآنِ کریم نے سورۂ منافقون (۶۳:۸) میں فرمایا ہے، لیکن جب اس سے پوچھا گیا تو مکر گیا، اور قسمیں کھانے لگا کہ میں نے یہ نہیں کہا تھا (روح المعانی بحوالہ ابن جریر ابن المنذر وغیرہ)۔ 63: مراد یہ ہے کہ اگرچہ دل سے تو وہ کبھی اسلام نہیں لائے تھے، لیکن کم از کم زبان سے اسلام کا اقرار کرتے تھے۔ اس بات کے بعد انہوں نے زبان سے بھی کفر اختیار کرلیا۔ 64: یہ کسی ایسے واقعے کی طرف اشارہ ہے جس میں منافقین نے کوئی خفیہ سازش کی تھی، مگر اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ایسے کئی واقعات عہد رسالت میں پیش آئے ہیں، مثلا ایک واقعہ تو اوپر بیان کیا گیا ہے کہ عبداللہ بن ابی نے یہ ناپاک ارادہ ظاہر کیا تھا کہ ہم مسلمانوں کو مدینہ منوَّرہ سے نکال دیں گے۔ ظاہر ہے کہ وہ اپنی اس ڈینگ کو عملی جامہ پہنانے پر قادر نہیں ہوئے۔ دوسرے ایک واقعہ غزوۂ تبوک سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی واپسی کے وقت پیش آیا تھا کہ مناقین نے بارہ آدمیوں کو نقاب پہنا کر اس بات پر تعینات کیا تھا کہ وہ ایک گھاٹی میں چھپ کر بیٹھیں، اور جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم وہاں سے گذریں تو آپ پر حملہ کردیں۔ اس وقت حضرت حذیفہ بن یمانؓ نے انہیں دیکھ لیا، اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اطلاع کردی۔ آپ نے ان کو زور سے آواز دی تو ان پر ایسا رعب طاری ہوا کہ وہ بھاگ گئے۔ آپ نے بعد میں حضرت حذیفہؓ کو بتایا کہ وہ منافق لوگ تھے (روح المعانی بحوالہ دلائل النبوۃ بیہقی) 65: آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے مدینہ منوَّرہ کے باشندوں میں پہلے کے مقابلے میں عام خوش حالی آئی تھی جس سے یہ منافقین بھی فائدہ اٹھا رہے تھے۔ پہلے ان کی معاشی حالت خستہ تھی، مگر آپ کی تشریف آوری کے بعد ان میں سے اکثر لوگ خاصے مال دار ہوگئے تھے۔ آیت کریمہ یہ کہہ رہی ہے کہ شرافت کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ اس خوشحالی پر اﷲ تعالیٰ اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے شکر گذار ہوتے، لیکن انہوں نے اس احسان کا بدلہ یہ دیا کہ آپ کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔