دعا قبول ہوئی تو اپنا عہد بھول گیا بیان ہو رہا ہے کہ ان منافقوں میں وہ بھی ہے جس نے عہد کیا کہ اگر مجھے اللہ تعالیٰ مالدار کر دے تو میں بڑی سخاوت کروں اور نیک بن جاؤں لیکن جب اللہ نے اسے امیر اور خوشحال بنا دیا اس نے وعدہ شکنی کی اور بخیل بن بیٹھا جس کی سزا میں قدرت نے اس کے دل میں ہمیشہ کے لئے نفاق ڈال دیا ۔ یہ آیت ثعلبہ بن حاطب انصاری کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ میرے لئے مالداری کی دعا کیجئے آپ نے فرمایا تھوڑا مال جس کا شکر ادا ہو اس بہت سے اچھا ہے جو اپنی طاقت سے زیادہ ہو ۔ اس نے پھر دوبارہ بھی درخواست کی تو آپ نے پھر سمجھایا کہ تو اپنا حال اللہ کے نبی جیسا رکھنا پسند کرتا ؟ واللہ اگر میں چاہتا تو یہ پہاڑ سونے چاندی کے بن کر میرے ساتھ چلتے ۔ اس نے کہا حضور واللہ میرا ارادہ ہے کہ اگر اللہ مجھے مالدار کردے تو میں خوب سخاوت کی داد دوں ہر ایک کو اس کا حق ادا کروں ۔ آپ نے فرمایا اسکے لئے مال میں برکت کی دعا کی اس کی بکریوں میں اس طرح زیادتی شروع ہوئی جیسے کیڑے بڑھ رہے ہوں یہاں تک کہ مدینہ شریف اس کے جانوروں کے لئے تنگ ہو گیا ۔ یہ ایک میدان میں نکل گیا ظہر عصر تو جماعت کے ساتھ ادا کرتا باقی نمازیں جماعت سے نہیں ملتی تھیں ۔ جانوروں میں اور برکت ہوئی اسے اور دور جانا پڑا اب سوائے جمعہ کے اور سب جماعتیں اس سے چھوٹ گئیں ۔ مال بڑھتا گیا ، ہفتہ بعد جمعہ کے لئے آنا بھی اس نے چھوڑ دیا آنے جانے والے قافلوں سے پوچھ لیا کرتا تھا کہ جمعہ کے دن کیا بیان ہوا ؟ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حال دریافت کیا لوگوں نے سب کچھ بیان کر دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہار افسوس کیا ادھر آیت اتری کہ ان کے مال سے صدقے لے اور صدقے کے احکام بھی بیان ہوئے آپ نے دو شخصوں کو جن میں ایک قبیلہ جہنیہ کا اور دوسرا قبیلہ سلیم کا تھا انہیں تحصیلدار بنا کر صدقہ لینے کے احکام لکھ کر انہیں پروانہ دے کر بھیجا اور فرمایا کہ ثعلبہ سے اور فلانے بنی سلیم سے صدقہ لے آؤ یہ دونوں ثعلبہ کے پاس پہنچے فرمان پیغمبر دکھایا صدقہ طلب کیا تو وہ کہنے لگا واہ واہ یہ تو جزیئے کی بہن ہے یہ تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے کافروں سے جزیہ لیا جاتا ہے یہ کیا بات ہے اچھا اب تو جاؤ لوٹتے ہوئے آنا ۔ دوسرا شخص سلمی جب اسے معلوم ہوا تو اس نے اپنے بہترین جانور نکالے اور انہیں لے کر خود ہی آگے بڑھا انہوں نے ان جانوروں کو دیکھ کر کہا نہ تو یہ ہمارے لینے کے لائق نہ تجھ پر ان کا دینا واجب اس نے کہا میں تو اپنی خوشی سے ہی بہترین جانور دینا چاہتا ہوں آپ انہیں قبول فرمائیے ۔ بالآخر انہوں نے لے لئے اوروں سے بھی وصول کیا اور لوٹتے ہوئے پھر ثعلبہ کے پاس آئے اس نے کہا ذرا مجھے وہ پرچہ تو پڑھاؤ جو تمہیں دیا گیا ہے ۔ پڑھ کر کہنے لگا بھئی یہ تو صاف صاف جزیہ ہے کافروں پر جو ٹیکس مقرر کیا جاتا ہے یہ تو بالکل ویسا ہی ہے اچھا تم جاؤ میں سوچ سمجھ لوں ۔ یہ واپس چلے گئے انہیں دیکھتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ثعلبہ پر اظہار افسوس کیا اور سلیمی شخص کے لئے برکت کی دعا کی اب انہوں نے بھی ثعلبہ اور سلمی دونوں کا واقعہ کہہ سنایا ۔ پس اللہ تعالیٰ جل وعلا نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ ثعلبہ کے ایک قریبی رشتہ دار نے جب یہ سب کچھ سنا تو ثعلبہ سے جا کر واقعہ بیان کیا اور آیت بھی پڑھ سنائی یہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور درخواست کی کہ اس کا صدقہ قبول کیا جائے آپ نے فرمایا اللہ نے مجھے تیرا صدقہ قبول کرنے سے منع فرما دیا ہے یہ اپنے سر پر خاک ڈالنے لگا آپ نے فرمایا یہ تو سب تیرا ہی کیا دھرا ہے میں نے تو تجھے کہا تھا لیکن تو نہ مانا ۔ یہ واپس اپنی جگہ چلا آیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال تک اس کی کوئی چیز قبول نہ فرمائی ۔ پھر یہ خلافت صدیقہ میں آیا اور کہنے لگا میری جو عزت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی وہ اور میرا جو مرتبہ انصار میں ہے وہ آپ خوب جانتے ہیں آپ میرا صدقہ قبول فرمائیے آپ نے جواب دیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں فرمایا تو میں کون؟ غرض آپ نے بھی انکار کر دیا ۔ جب آپ کا بھی انتقال ہو گیا اور امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے ولی ہوئے یہ پھر آیا اور کہا کہ امیرالمومنین آپ میرا صدقہ قبول فرمائیے آپ نے جواب دیا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں فرمایا خلیفہ اول نے قبول نہیں فرمایا تو اب میں کیسے قبول کر سکتا ہوں؟ چنانچہ آپ نے بھی اپنی خلافت کے زمانے میں اس کا صدقہ قبول نہیں فرمایا ۔ پھر خلافت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوئی تو یہ ازلی منافق پھر آیا اور لگا منت سماجت کرنے لیکن آپ نے بھی یہی جواب دیا کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے دونوں خلیفہ نے تیرا صدقہ قبول نہیں فرمایا تو میں کیسے قبول کرلوں؟ چنانچہ قبول نہیں کیا اسی اثنا میں یہ شخص ہلاک ہو گیا ۔ الغرض پہلے تو سخاوت کے وعدے کئے تھے اور وہ بھی قسمیں کھا کھا کر ۔ پھر اپنے وعدے سے پھر گیا اور سخاوت کے عوض بخیلی کی اور وعدہ شکنی کر لی ۔ اس جھوٹ اور عہد شکنی کے بدلے اس کے دل میں نفاق پیوست ہو گیا جو اس وقت سے اس کی پوری زندگی تک اس کے ساتھ رہا ۔ حدیث میں بھی ہے کہ منافق کی تین علامتیں ہیں جب بات کرے جھوٹ بولے جب وعدہ کرے خلاف کرے جب امانت سونپی جائے خیانت کرے ۔ کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ دل کے ظاہر اور پوشیدہ ارادوں اور سینے کے رازوں کا عالم ہے وہ پہلے سے ہی جانتا تھا کہ یہ خالی زبان بکواس ہے کہ مالدار ہوجائیں تو یوں خیراتیں کریں یوں شکر گذاری کریں یوں نیکیاں کریں ۔ لیکن دلوں پر نظریں رکھنے والا اللہ خوب جانتا ہے کہ یہ مال مست ہوجائیں گے اور دولت پا کر خرمستیاں ناشکری اور بخل کرنے لگیں گے وہ ہر حاضر غائب کا جاننے والا ہے ، وہ ہر چھپے کھلے کا عالم ہے ، ظاہر باطن سب اس پر روشن ہے ۔
وَمِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ : پہلے یہ لوگ فاقوں مرتے تھے اور ان کے شہر مدینہ جس کا نام ان دنوں یثرب تھا، اس کی بھی کوئی حیثیت نہ تھی، لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کے بعد ان کا شہر پورے عرب کا مرکز بن گیا اور ان کی تجارت کا دائرہ بھی وسیع ہوگیا اور جنگوں کی وجہ سے بہت سا مال غنیمت بھی ان کے ہاتھ آیا، جس سے یہ لوگ مال دار ہوگئے۔ آیت میں اسی طرف اشارہ ہے کہ یہ منافقین اتنے احسان فراموش ہیں کہ اللہ اور رسول جن کی بدولت انھیں یہ خوش حالی نصیب ہوئی، انھی کے خلاف بگڑ کر یہ اپنے دلوں کا فساد ظاہر کر رہے ہیں اور انھوں نے اللہ تعالیٰ سے عہد تو یہ کیا تھا کہ اگر اس نے ہمیں اپنا فضل عطا کیا تو ہم صدقہ بھی ضرور کریں گے اور نیک بھی ہوجائیں گے، لیکن اب اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا اور اس نے مال و دولت سے نوازا تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ مال اسلام کی سربلندی کے لیے خرچ کرنے کے بجائے بخل کرکے اللہ اور اس کے رسول سے منہ ہی موڑ لیا، جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے ان کے دلوں میں نفاق رکھ دیا۔ - بعض مفسرین نے ان آیات کا سبب نزول ثعلبہ بن حاطب کو قرار دیا ہے کہ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مال کے لیے دعا کروائی اور صدقہ کرنے کا وعدہ کیا، جب مال بہت بڑھا تو نماز با جماعت چھوڑنے کے بعد جمعہ بھی چھوڑ دیا اور زکوٰۃ لینے والا اس کے پاس گیا تو کہنے لگا، یہ تو جزیہ ہی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” افسوس ثعلبہ پر “ یہ سن کر وہ زکوٰۃ لے کر آیا، مگر آپ نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ آپ کے بعد ابوبکر، پھر عمر، پھر عثمان (رض) نے بھی قبول کرنے سے انکار کیا، اسی حالت میں وہ عثمان (رض) کے عہد میں فوت ہوگیا۔ مگر اہل علم نے اس روایت کا شدید رد کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ اس کی کوئی صحیح سند نہیں۔ ابن حزم (رض) نے فرمایا، یہ قصہ باطل ہے، کیونکہ ثعلبہ (رض) بدری صحابی ہیں۔
دوسری آیت وَمِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ ، بھی ایک خاص واقعہ سے متعلق ہے، جو ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، طبرانی اور بیہقی نے حضرت ابو امامہ باہلی کی روایت سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص ثعلبہ ابن حاطب انصاری نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ درخواست کی کہ آپ دعاء کریں کہ میں مالدار ہوجاؤ ں، آپ نے فرمایا کہ کیا تم کو میرا طریقہ پسند نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر میں چاہتا تو مدینہ کے پہاڑ سونا بن کر میرے ساتھ پھرا کرتے، مگر مجھے ایسی مال داری پسند نہیں، یہ شخص چلا گیا، مگر دوبارہ پھر آیا اور پھر یہی درخواست اس معاہدہ کے ساتھ پیش کی کہ اگر مجھے مال مل گیا تو میں ہر حق والے کو اس کا حق پہنچاؤں گا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعاء کردی جس کا اثر یہ ظاہر ہوا کہ اس کی بکریوں میں بےپناہ زیادتی شروع ہوئی، یہاں تک کہ مدینہ کی جگہ اس پر تنگ ہوگئی، تو باہر چلا گیا، اور ظہر عصر کی دو نمازیں مدینہ میں آکر آپ کے ساتھ پڑہتا تھا، باقی نماز میں بھی جنگل میں جہاں اس کا یہ مال تھا وہیں ادا کرتا تھا۔- پھر انہی بکریوں میں اور زیادتی اتنی ہوگئی کہ یہ جگہ بھی تنگ ہوگئی، اور شہر مدینہ سے دور جا کر کوئی جگہ لی، وہاں سے صرف جمعہ کی نماز کے لئے مدینہ میں آتا اور پنجگانہ نمازیں وہیں پڑھنے لگا، پھر اس مال کی فراوانی اور بڑھی تو یہ جگہ بھی چھوڑنا پڑی، اور مدینہ سے بہت دور چلا گیا، جہاں جمعہ اور جماعت سب سے محروم ہوگیا۔- کچھ عرصہ کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے اس کا حال دریافت کیا تو لوگوں نے بتلایا کہ اس کا مال اتنا زیادہ ہوگیا کہ شہر کے قریب میں اس کی گنجائش ہی نہیں، اس لئے کسی دور جگہ پر جا کر اس نے قیام کیا ہے، اور اب یہاں نظر نہیں پڑتا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سن کر تین مرتبہ فرمایا ویح ثعلبۃ، یعنی ثعلبہ پر افسوس ہے ثعلبہ پر افسوس ہے، ثعلبہ پر افسوس ہے، اتفاق سے اسی زمانہ میں آیت صدقات نازل ہوگئی، جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدقات کا مکمل قانون لکھوا کردو شحصوں کو عامل صدقہ کی حیثیت سے مسلمانوں کے مویشی کے صدقات وصول کرنے کے لئے بھیج دیا، اور ان کو حکم دیا کہ ثعلبہ بن حاطب کے پاس بھی پہونچیں، اور بنی سلیم کے ایک اور شخص کے پاس جانے کا بھی حکم دیا۔- یہ دونوں جب ثعلبہ کے پاس پہنچنے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان دکھایا، تو ثعلبہ کہنے لگا کہ یہ تو جزیہ ہوگیا، جو غیر مسلموں سے لیا جاتا ہے، اور پھر کہا کہ اچھا اب تو آپ جائیں جب واپس ہوں تو یہاں آجائیں، یہ دونوں چلے گئے۔- اور دوسرے شخص سلیمی نے جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان سنا تو اپنے مویشی اونٹ اور بکریوں میں جو سب سے بہتر جانور تھے، نصاب صدقہ کے مطابق وہ جانور لے کر خود ان دونوں قاصدان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچ گئے، انہوں نے کہا کہ ہمیں تو حکم یہ ہے کہ جانوروں میں اعلیٰ چھانٹ کر نہ لیں، بلکہ متوسط وصول کریں، اس لئے ہم تو یہ نہیں لے سکتے، سلیمی نے اصرار کیا کہ میں اپنی خوشی سے یہی پیش کرنا چاہتا ہوں، یہی جانور قبول کرلیجئے۔- پھر یہ دونوں حضرات دوسرے مسلمانوں سے صدقات وصول کرتے ہوئے واپس آئے تو پھر ثعلبہ کے پاس پہونچے، تو اس نے کہا کہ لاؤ وہ قانون صدقات مجھے دکھلاؤ پھر اس کو دیکھ کر یہی کہنے لگا کہ یہ تو ایک قسم کا جزیہ ہوگیا، جو مسلمانوں سے نہیں لینا چاہئے، اچھا اب تو آپ جائیں میں غور کروں گا پھر کوئی فیصلہ کرونگا۔- جب یہ دونوں حضرات واپس مدینہ طیبہ پہنچنے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے حالات پوچھنے سے پہلے ہی پھر وہ کلمہ دہرایا جو پہلے فرمایا تھا یا ویح ثعلبہ یا ویح ثعلبہ یا ویح ثعلبہ، یعنی ثعلبہ پر سخت افسوس ہے یہ جملہ تین مرتبہ ارشاد فرمایا، پھر سلیمی کے معاملہ پر خوش ہو کر اس کے لئے دعا فرمائی، اس واقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی، وَمِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ ، یعنی ان میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ ان کو مال عطا فرماویں گے تو وہ صدقہ خیرات کریں گے، اور صالحین امت کی طرح سب اہل حقوق، رشتہ داروں اور غریبوں کے حقوق ادا کریں گے، پھر جب اللہ نے ان کو اپنے فضل سے مال دیا تو بخل کرنے لگے، اور اللہ اور رسول کی اطاعت سے پھرگئے۔
وَمِنْہُمْ مَّنْ عٰہَدَ اللہَ لَىِٕنْ اٰتٰىنَا مِنْ فَضْلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ ٧٥- عهد - العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً.- قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] - ( ع ھ د ) العھد - ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - صدقه - والصَّدَقَةُ : ما يخرجه الإنسان من ماله علی وجه القربة کالزّكاة، لکن الصدّقة في الأصل تقال للمتطوّع به، والزّكاة للواجب، وقد يسمّى الواجب صدقة إذا تحرّى صاحبها الصّدق في فعله . قال : خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة 103] ، وقال :إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة 60- ( ص دق) الصدقۃ ( خیرات )- ہر وہ چیز جو انسان اپنے مال سے قرب الہی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے اور یہی معنی زکوۃ کے ہیں مگر صدقۃ اسے کہتے ہیں جو واجب نہ ہو ۔ اور کبھی واجب کو بھی صدقۃ سے موسوم کردیا جاتا ہے ۔ جب کہ خیرات دینے والا اس سے صدق یعنی صلاح وتقوی کا قصد کرے قرآن میں ہے : ۔ خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة 103] ان کے مال میں سے زکوۃ قبول کرلو ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں کا حق ہے ۔- صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔
نذر کو پورا کرنا لازم ہے - قول باری ہے ومنھم من عاھد اللہ لئن اتا نا من فضلہ لنصد قن ولنکونن من الصالحین ۔ فلما اتاھم من فضلہ بخلوا بہ وتولوا وھم معرضون ۔ ان میں بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اس نے اپنے فضل سے ہم کو نوازا تو ہم خیرات کریں گے اور صالح بن کر رہیں گے ۔ مگر جب اللہ نے اپنے فضل سے ان کو دولت مند کردیا تو وہ بخل پر اتر آئے اور اپنے عہد سے ایسے پھرے کہ انہیں اس کی پرواہ تک نہیں ہے۔ اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ جو شخص تقرب الٰہی اور نیکی کے کام کی نذر مانے اس پر اسے پورا کرنا لازم ہوگا۔ اس لیے کہ عہد کے معنی نذر اور ایجاب کے ہیں ۔ مثلاً یہ کہے اگر اللہ تعالیٰ مجھے ایک ہزاردرہم عطا کردے تو میرے اوپر اس میں سے پانچ سو درہم ہم صدقہ کرنا لازم ہے۔ یا کسی قسم کا کوئی اور فقرہ ۔ اس آیت کے ضمن میں کئی احکام ہیں ان میں سے ایک حکم یہ ہے کہ جو شخص کوئی نذر مانے گا اس پر بعینہٖ وہی نذر پوری کرنا لازم ہوگی۔
(٧٥) منافقین میں سے ثعلبہ بن حاطب بن ابی بلتعہ نے قسم کھائی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے شام کا مال ہمیں دے دیا تو اس مال سے حقوق اللہ کی بجا آوری کریں گے اور صلہ رحمی کریں گے اور خوب نیک کام کریں گے۔- شان نزول : (آیت) ” ومنہم من عہد اللہ “۔ (الخ)- طبرانی (رح) ، ابن مردویہ (رح) اور ابن ابی حاتم (رح) اور بیہقی (رح) نے دلائل میں ضعیف سند کے ساتھ ابوامامہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ ثعلبہ بن حاطب نے کہا یارسول اللہ (رض) دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ ہم کو مال دے، آپ نے فرمایا ثعلبہ دور ہوتھوڑا مال جس کا شکر ادا کیا جائے وہ اس زیادہ مال سے بہتر ہے کہ جس کے شکر کی طاقت نہ رکھے وہ کہنے لگا اللہ کی قسم اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے مال دے دیا تو پھر ہر ایک حق دار کا حق ادا کروں گا، آپ نے اس کے لیے دعا فرما دی۔- چناچہ اس نے بکریاں لیں وہ اتنی بڑھیں کہ اس پر مدینہ کی گلیاں تنگ ہوگئیں تو وہ مدینہ منورہ سے قرب و جوار کی چراگاہوں کی طرف چلا گیا، نمازوں میں آتا تھا اور پھر بکریوں کی طرف چلا جاتا تھا، پھر وہ بکریاں اور بڑھیں، یہاں تک کہ مدینہ کی چراگاہیں تنگ ہوگئیں تو وہ دور چلا گیا، اب صرف جمعہ کی نماز کے لیے آتا تھا اور پھر اپنی بکریوں میں چلا جاتا تھا اس کے بعد وہ بکریاں اور بڑھیں اور وہ اور دور چلا گیا اور وہ اس نے جمعہ وجماعت سب چھوڑ دی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” خذ من اموالھم صدقۃ تطھرھم “۔ (الخ)- رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقات کی وصول یابی کے لیے دو آدمیوں کو عامل بنایا اور ان کو خط لکھ کردیا چناچہ وہ دونوں ثعلبہ کے پاس گئے اور اسے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نامہ مبارک پڑھ کر سنایا، اس نے کہا کہ پہلے اور لوگوں کے پاس جاؤ جب وہاں سے فارغ ہوجاؤ تب میرے پاس آنا، چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، جب اس کے پاس آئے تو وہ کہنے لگا یہ تو محض جزیہ کی ایک شاخ ہے، چناچہ وہ دونوں حضرات واپس چلے گئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی کہ ان میں بعض آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے عہد کرلیتے ہیں الخ، نیز ابن جریر (رح) اور ابن مردویہ (رح) نے بھی مولی کے واسطہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے اسی طرح روایت کیا ہے۔- لین جب خدا نے ان کو اپنے فضل سے (مال) دیا تو اس میں بخل کرنے لگے اور (اپنے عہد سے) روگردانی کرکے پھر بیٹھے۔