منافقوں کا جنازہ حکم ہوتا ہے کہ اے نبی تم منافقوں سے بالکل بےتعلق ہو جاؤ ۔ ان میں سے کوئی مر جائے تو تم نہ اس کے جنازے کی نماز پڑھو نہ اس کی قبر پر جا کر اسکے لئے دعائے استغفار کرو ۔ اس لئے کہ یہ کفر و فسق پر زندہ رہے اور اس پر مرے ۔ یہ حکم تو عام ہے گو اس کا شان نزول خاص عبداللہ بن ابی بن سلول کے بارے میں ہے جو منافقوں کا رئیس اور امام تھا ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ اس کے مرنے پر اس کے صاحبزادے حضرت عبداللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ میرے باپ کے کفن کے لئے آپ خاص اپنا پہنا ہوا کرتا عنایت فرمائیے ۔ آپ نے دے دیا ۔ پھر کہا کہ آپ خود اس کے جنازے کی نماز پڑھائیے ۔ آپ نے یہ درخواست بھی منظور فرمالی اور نماز پڑھانے کے ارادے سے اٹھے لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کا دامن تھام لیا اور عرض کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس کے جنازے کی نماز پڑھائیں گے؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے آپ نے فرمایا سنو اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے کہ تو ان کے لئے استغفار کرے یا نہ کرے اگر تو ان کے لئے ستر مرتبہ بھی استغفار کرے گا تو بھی اللہ تعالیٰ انہیں نہیں بخشے گا ۔ تو میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے یا رسول اللہ یہ منافق تھا لیکن تاہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جنازے کی نماز پڑھائی ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اس نماز میں صحابہ بھی آپ کی اقتدا میں تھے ۔ ایک روایت میں ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ اس کی نماز کے لئے کھڑے ہوگئے تو میں صف میں سے نکل کر آپ کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا اور کہا کہ کیا آپ اس دشمن رب عبداللہ بن ابی کے جنازے کی نمازیں پڑھائیں گے؟ حالانکہ فلاں دن اس نے یوں کہا اور فلاں دن یوں کہا ۔ اسکی وہ تمام باتیں دہرائیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے ہوئے سب سنتے رہے آخر میں فرمایا عمر مجھے چھوڑ دے ۔ اللہ تعالیٰ نے استغفار کا مجھے اختیار دیا ہے اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار ان کے گناہ معاف کرا سکتا ہے تو میں یقینا ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کروں گا ۔ چنانچہ آپ نے نماز بھی پڑھائی جنازے کے ساتھ بھی چلے دفن کے وقت بھی موجود رہے ۔ اس کے بعد مجھے اپنی اس گستاخی پر بہت ہی افسوس ہونے لگا کہ اللہ اور رسول اللہ خوب علم والے ہیں میں نے ایسی اور اس قدر جرات کیوں کی؟ کچھ ہی دیر ہوگی جو یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں ۔ اس کے بعد آخر دم تک نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی منافق کے جنازے کی نماز پڑھی نہ اسکی قبر پر آ کر دعا کی ۔ اور روایت میں ہے کہ اس کے صاحبزادے رضی اللہ عنہ نے آپ سے یہ بھی کہا تھا کہ اگر آپ تشریف نہ لائے تو ہمیشہ کیلئے یہ بات ہم پر رہ جائے گی ۔ جب آپ تشریف لائے تو اسے قبر میں اتار دیا گیا تھا آپ نے فرمایا اس سے پہلے مجھے کیوں نہ لائے؟ چنانچہ وہ قبر سے نکالا گیا ۔ آپ نے اس کے سارے جسم پر تھتکار کر دم کیا اور اسے اپنا کرتہ پہنایا اور روایت میں ہے کہ وہ خود یہ وصیت کرکے مرا تھا کہ اس کے جنازے کی نماز خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھائیں ۔ اس کے لڑکے نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی آرزو اور اس کی آخری وصیت کی بھی خبر کی ۔ اور یہ بھی کہا کہ اس کی وصیت یہ بھی ہے کہ اسے آپ کے پیراہن میں کفنایا جائے ۔ آپ اس کے جنازے کی نماز سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ حضرت جبرائیل یہ آیتیں لے کر اترے ۔ اور روایت میں ہے کہ جبرائیل نے آپ کا دامن تان کر نماز کے ارادے کے وقت یہ آیت سنائی لیکن یہ روایت ضعیف ہے اور روایت میں ہے اس نے اپنی بیماری کے زمانے میں حضور کو بلایا آپ تشریف لے گئے اور جا کر فرمایا کہ یہودیوں کی محبت نے تجھے تباہ کر دیا اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ وقت ڈانٹ ڈپٹ کا نہیں بلکہ میری خواہش ہے کہ آپ میرے لئے دعا استغفار کریں میں مر جاؤں تو مجھے اپنے پیرہن میں کفنائیں ۔ بعض سلف سے مروی ہے کہ کرتا دینے کی وجہ یہ تھی کہ جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ آئے تو ان کے جسم پر کسی کا کپڑا ٹھیک نہیں آیا آخر اس کا کرتا لیا وہ ٹھیک آ گیا یہ بھی لمبا چوڑا چوڑی چکلی ہڈی کا آدمی تھا ۔ پس اس کے بدلے میں آپ نے اسے اس کے کفن کے لئے اپنا کرتا عطا فرمایا ۔ اس آیت کے اترنے کے بعد نہ تو کسی منافق کے جنازے کی نماز آپ نے پڑھی نہ کسی کے لئے استغفار کیا ۔ مسند احمد میں ہے کہ جب آپ کو کسی جنازے کی طرف بلایا جاتا تو آپ پوچھ لیتے اگر لوگوں سے بھلائیاں معلوم ہوتیں تو آپ جا کر اس کے جنازے کی نماز پڑھاتے اور اگر کوئی ایسی ویسی بات کان میں پڑتی تو صاف انکار کردیتے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا طریقہ آپ کے بعد یہ رہاکہ جس کے جنازے کی نماز حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پڑھتے اس کے جنازے کی نماز آپ بھی پڑھتے جس کی حضرت حذیفہ نہ پڑھتے آپ بھی نہ پڑھتے اس لئے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نہ پڑھتے آپ بھی نہ پڑھتے اس لئے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقوں کے نام گنوا دیئے تھے اور صرف انہی کو یہ نام معلوم تھے اسی بناء پر انہیں راز دار رسول کہا جاتا تھا ۔ بلکہ ایک مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک شخص کے جنازے کی نماز کے لئے کھڑا ہونے لگے تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے چٹکی لے کر انہیں روک دیا ۔ جنازے کی نماز اور استغفار ان دونوں چیزوں سے منافقوں کے بارے میں مسلمانوں کو روک دینا ۔ یہ دلیل ہے اس امر کی کہ مسلمانوں کے بارے میں ان دونوں چیزوں کی پوری تاکید ہے ۔ ان میں مردوں کے لئے پورا نفع اور زندوں کے لئے کامل اجر و ثواب ہے ۔ چنانچہ حدیث شریف ہے آپ فرماتے ہیں جو جنازے میں جائے اور نماز پڑھے جانے تک ساتھ رہے اسے ایک قیراط ثواب ملتا ہے اور جو دفن تک ساتھ رہے اسے دو قیراط ملتے ہیں ۔ پوچھا گیا کہ قیراط کیا ہے؟ فرمایا سب سے چھوٹا قیراط احد پہاڑ کے برابر ہوتا ہے ۔ اسی طرح یہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ میت کے دفن سے فارغ ہو کر وہیں اس کی قبر کے پاس ٹھہر کر حکم فرماتے کہ اپنے ساتھی کے لئے استغفار کرو اس کے لئے ثابت قدمی کی دعا کرو اس سے اس وقت سوال جواب ہو رہا ہے ۔
84۔ 1 یہ آیت اگرچہ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کے بارے میں نازل ہوئی۔ لیکن اس کا حکم عام ہے ہر شخص جس کی موت کفر و نفاق پر ہو وہ اس میں شامل ہے۔ اس کا شان نزول یہ ہے کہ جب عبد اللہ بن ابی کا انتقال ہوگیا تو اس کے بیٹے عبد اللہ (جو مسلمان اور باپ ہی کا ہم نام تھے) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ (بطور تبرک) اپنی قمیض عنایت فرما دیں تاکہ میں اپنے باپ کو کفنا دوں۔ دوسرا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھا دیں۔ آپ نے قمیض بھی عنایت فرما دی اور نماز جنازہ پڑھانے کے لئے تشریف لے گئے۔ حضرت عمر نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی نماز جنازہ پڑھانے سے روکا ہے، آپ کیوں اس کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے یعنی روکا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تو ستر مرتبہ بھی ان کے لئے استغفار کرے گا تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف نہیں فرمائے گا، تو میں ستر مرتبہ سے زیادہ ان کے لئے استغفار کرلوں گا چناچہ آپ نے نماز جنازہ پڑھا دی۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر آئندہ کے لئے منافقین کے حق میں دعائے مغفرت کی قطعی ممانعت فرما دی (صحیح بخاری) 84۔ 2 یہ نماز جنازہ اور دعائے مغفرت نہ کرنے کی علت ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے جن لوگوں کا خاتمہ کفر و فسق پر ہو، ان کی نہ نماز جنازہ پڑھنی چاہے اور نہ ان کے لئے مغفرت کی دعا کرنا جائز ہے۔ ایک حدیث میں تو یہاں تک آتا ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبرستان پہنچے تو معلوم ہوا کہ عبد اللہ بن ابی کو دفنایا جا چکا ہے، چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے قبر سے نکلوایا اور اپنے گھٹنوں پر رکھ کر اپنا لعاب دہن تھوکا، اپنی قمیض اسے پہنائی (صحیح بخاری) جس سے معلوم ہوا کہ جو ایمان سے محروم ہوگا اسے دنیا کی بڑی سے بڑی شخصیت کی دعائے مغفرت اور کسی کی شفاعت بھی کوئی فائدہ نہ پہنچاسکے گی۔
[٩٩] منافقوں کے لئے مغفرت بےفائدہ ہے :۔ اس آیت کا تعلق اسی سورة کی آیت نمبر ٨٠ سے ہے۔ رسول اللہ نے عبداللہ بن ابی کا جنازہ پڑھایا تو وہ اس لحاظ سے تھا کہ منافقین اگرچہ دل سے کافر تھے مگر ظاہری طور پر ان پر شرعی احکام ویسے ہی نافذ ہوتے تھے جیسے سچے مومنوں پر لاگو ہوتے تھے اور حدیث مندرجہ بالا سے واضح ہے کہ بالخصوص جنازہ پڑھانے اور دعائے مغفرت کرنے کے بارے میں سیدنا عمر کی رائے آپ کی رائے سے مختلف تھی حتیٰ کہ سیدنا عمر نے آپ سے تکرار بھی کی اور اللہ تعالیٰ نے سیدنا عمر کی رائے کے مطابق وحی نازل فرمائی۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اب منافقوں سے نرم قسم کی پالیسی اختیار کرنے کا دور گزر چکا تھا۔ اور ان سے سخت رویہ اختیار کرنا عین منشائے الٰہی کے مطابق تھا۔ ضمناً ان آیات سے یہ معلوم ہوا کہ آپ کے کسی گنہگار کے حق میں استغفار کرنے سے اس کی معافی ہوسکتی ہے۔ لیکن بد اعتقاد لوگوں کی معافی کی کوئی صورت نہیں خواہ آپ کتنی ہی زیادہ دفعہ اس کے لیے استغفار کریں۔ منافقوں کی نماز جنازہ :۔ چناچہ اس حکم کے بعد آپ نے منافقوں کی نماز جنازہ پڑھانا یا ان کے حق میں استغفار کرنا چھوڑ دیا تھا۔ لیکن آپ کی زندگی کے بعد کسی پر نفاق کا فتویٰ لگانا بہت مشکل کام ہے کیونکہ دلوں کے احوال تو اللہ ہی جانتا ہے اور سیدنا عمر اپنے دور میں یہ دیکھتے تھے کہ سیدنا حذیفہ بن یمان جنازہ میں شریک ہیں یا نہیں۔ اگر وہ شریک ہوتے تو آپ بھی شریک ہوجاتے تھے اور اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ وہ صاحب جنازہ مومن آدمی تھا۔ منافق نہیں تھا۔ کیونکہ سیدنا حذیفہ کو رسول اللہ نے منافقوں کی پہچان کرا دی تھی اور وہ رازدان رسول تھے۔
وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا : ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ جب عبداللہ بن ابی فوت ہوا تو اس کا بیٹا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا کہ مجھے اپنی قمیص دیجیے کہ میں اسے اس میں کفن دوں اور آپ اس پر جنازہ پڑھیں اور اس کے لیے بخشش کی دعا فرمائیں تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اپنی قمیص دی اور فرمایا : ” مجھے اطلاع دینا، تاکہ میں اس کا جنازہ پڑھوں۔ “ اس نے اطلاع دی تو جب آپ نے اس پر جنازے کا ارادہ کیا، عمر (رض) نے آپ کو کھینچ لیا اور کہا، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین کا جنازہ پڑھنے سے منع نہیں فرمایا ؟ آپ نے فرمایا : ” مجھے دو اختیار ہیں : (اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ ) [ التوبۃ : ٨٠ ] (ان کے لیے بخشش مانگ یا ان کے لیے بخشش نہ مانگ) ۔ “ سو آپ نے اس کا جنازہ پڑھا تو یہ آیت اتری : (وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا) [ بخاری، الجنائز، باب ما یکرہ من الصلوۃ علی المنافقین۔۔ : ١٣٦٦۔ مسلم : ٢٤٠٠ ]- اب جو شخص کلمہ پڑھ کر صریح شرک کرتا ہے اور غیر اللہ سے وہ مدد مانگتا ہے جو اللہ کے سوا کسی کے اختیار ہی میں نہیں، یا کلمہ کے بعد مسلمان ہونے کی پہلی شناخت نماز ہی اس میں نہیں پائی جاتی، یا وہ صاف اللہ تعالیٰ کی حدود کو وحشیانہ سزائیں کہتا ہے، یا اللہ تعالیٰ کے احکام کا مذاق اڑاتا ہے، یا اس زمانے میں انھیں ناقابل عمل کہتا ہے، اس کا جنازہ پڑھنا کیسے درست ہوسکتا ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میت کو جنازے کے بعد دفن کرکے قبر پر کھڑے ہو کر دعا مانگتے تھے۔ مختلف دوسرے اوقات میں وہاں جا کر ان کے لیے دعا کرتے تھے، منافقین کے متعلق اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے بھی منع فرما دیا۔ کیونکہ اس میں منافق، کافر اور مشرک کی تکریم اور عزت افزائی ہے جو اللہ تعالیٰ کو کسی صورت منظور نہیں۔
خلاصہ تفسیر - اور ان میں کوئی مرجاوے تو اس ( کے جنازہ) پر کبھی نماز نہ پڑہئے اور نہ ( دفن وغیرہ کے واسطے) اس کی قبر پر کھڑے ہوجئے ( کیونکہ) انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے، اور وہ حا لت کفر ہی میں مرے ہیں۔- معارف و مسائل - احادیث صحیحہ سے باتفاق امت ثابت ہے کہ یہ آیت عبداللہ بن ابی منافق کی موت اور اس پر نماز جنازہ کے متعلق نازل ہوئی، اور صحیحین کی روایت سے ثابت ہے کہ اس کے جنازہ پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھی، پڑھنے کے بعد یہ آیت نازل ہوئی، اور اس کے بعد آپ نے کبھی کسی منافق کے جنازہ کی نماز نہیں پڑھی۔- صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت سے واقعہ نزول کی یہ تفصیل بیان کی گئی ہے کہ جب عبداللہ بن ابی بن سلول مرگیا تو اس کے صاجزادے عبداللہ جو مخلص مسلمان اور صحابہ تھے وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور درخواست کی کہ آپ اپنا قمیص عطا فرمائیں تاکہ میں اپنے باپ کو اس کا کفن پہناؤ ں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا قمیص مبارک عطا فرما دیا، پھر حضرت عبداللہ نے یہ بھی درخواست کی کہ آپ اس کے جنازے کی نماز بھی پڑھائیں، آپ نے قبول فرما لیا، اور نماز جنازہ کے لئے کھڑے ہوگئے تو حضرت عمر بن خطاب نے آپ کا کپڑا پکڑ کر عرض کیا کہ آپ اس منافق کی نماز جنازہ پڑہتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کی نماز جنازہ سے منع فرمادیا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے کہ میں دعا مغفرت کروں یا نہ کروں، اور آیت میں جو ستر ٧٠ مرتبہ استغفار پر بھی مغفرت نہ ہونے کا ذکر ہے تو میں ستر ٧٠ مرتبہ سے زیادہ استغفار کرسکتا ہوں، آیت سے مراد سورة توبہ کی وہی آیت ہے جو ابھی گذر چکی ہے، یعنی (آیت) اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ ۭاِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِيْنَ مَرَّةً فَلَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ ، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے جنازہ کی نماز پڑھی، نماز کے بعد ہی یہ آیت نازل ہوئی، (آیت) لَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْهُمْ ، الخ ( چناچہ اس کے بعد آپ نے کبھی کسی منافق کے جنازے کی نماز نہیں پڑھی ) ۔- واقعہ مذکور پر چند اشکالات اور ان کے جواب :- یہاں ایک سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ عبداللہ بن ابی ایک ایسا منافق تھا جس کا نفاق مخلتف اوقات میں ظاہر بھی ہوچکا تھا اور سب منافقوں کا سردار مانا جاتا تھا، اس کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ امتیازی سلوک کیسے ہوا کہ اس کے کفن کے لئے اپنا قمیص مبارک عطا فرمایا ؟- اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے دو سببب ہوسکتے ہیں۔ اول اس کے صاجزادے جو مخلص صحابی تھے ان کی درخواست کہ محض ان کی دلجوئی کے لئے ایسا کیا گیا، دوسرا سبب ایک اور بھی ہوسکتا ہے جو بخاری کی حدیث میں بروایت حضرت جابر منقول ہے کہ غزوہ بدر کے موقع پر جب کچھ قریشی سردار گرفتار کئے گئے، تو ان میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا عباس بھی تھے، آپ نے دیکھا کہ ان کے بدن پر کرتہ نہیں، تو صحابہ سے ارشاد فرمایا کہ ان کو قمیص پہنا دیا جائے، حضرت عباس دراز قد تھے، عبداللہ بن ابی کے سوا کسی کا قمیص ان کے بدن پر درست نہ آیا، تو عبداللہ بن ابی کا قمیص لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چچا عباس کو پہنا دیا تھا، اس کے اسی احسان کا بدلہ ادا کرنے کے لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا قمیص ان کو عطا فرمادیا ( قرطبی ) ۔- دوسرا سوال : یہاں یہ ہے کہ فاروق اعظم نے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافق کے جنازہ کی نماز سے منع فرمایا ہے، یہ کس بناء پر کہا، کیونکہ اس سے پہلے کسی آیت میں صراحة آپ کو منافق کی نماز جنازہ سے منع نہیں فرمایا گیا، اس سے ظاہر یہی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے ممانعت کا مضمون اسی سورة توبہ کی سابقہ آیت اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ الایة سے سمجھا ہوگا، تو اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر یہ آیت ممانعت نماز جنازہ پر دلالت کرتی ہے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے ممانعت کیوں نہ قرار دی، بلکہ یہ فرمایا کہ اس آیت میں مجھے اختیار دیا گیا ہے۔- جواب : یہ ہے کہ درحقیقت الفاظ آیت کا ظاہری مفہوم اختیار ہی دینا ہے، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ستر مرتبہ کا ذکر بھی اس جگہ تحدید کیلئے نہیں بلکہ کثرت بیان کرنے کے لئے ہے، تو اس آیت کا حاصل اس کے ظاہری مفہوم کے اعتبار سے یہ ہوگیا کہ منافق کی مغفرت تو نہ ہوگی، خواہ آپ کتنی ہی مرتبہ استغفار کرلیں، لیکن اس میں صراحةً آپ کو استغفار کرنے سے روکا بھی نہیں گیا، اور قرآن کریم کی ایک دوسری آیت سورة یٰس کی اس کی نظیر ہے، جس میں فرمایا گیا کہ (آیت) وَسَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤ ْمِنُوْنَ ، جیسا اس آیت نے آپ کو انذار اور تبلیغ سے منع نہیں کیا بلکہ دوسری آیات سے تبلیغ و دعوت کا سلسلہ ان کے لئے بھی جاری رکھنا ثابت ہے، (آیت) بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ، اور اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ، وغیرہ حاصل یہ ہے کہ آیت ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ سے تو آپ کو اختیار ہی دینا ثابت ہوا تھا، پھر مستقل دلیل سے انذار کو جاری رکھنا ثابت ہوگیا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت مذکورہ سے بھی یہ تو سمجھ لیا تھا کہ اس کی مغفرت نہیں ہوگی، مگر کسی دوسری آیت کے ذریعہ اب تک آپ کو استغفار کرنے سے روکا بھی نہیں گیا تھا۔- اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جانتے تھے کہ میرے قمیص سے یا نماز پڑھانے سے اس کی تو مغفرت نہیں ہوگی، مگر اس سے دوسری مصالح اسلامیہ حاصل ہونے کی توقع تھی کہ اس کے خاندان کے لوگ اور دوسرے کفار جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ معاملہ اس کے ساتھ دیکھیں گے تو وہ اسلام کے قریب آجائیں گے اور مسلمان ہوجائیں گے، اور ممانعت صریح نماز پڑھنے کی اس وقت تک موجود نہ تھی، اس لئے آپ نے نماز پڑھ لی۔- اس جواب کا شاہد ایک تو وہ جملہ ہے جو صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس کی روایت سے منقول ہے کہ اگر مجھے یہ معلوم ہو تاکہ ستر مرتبہ سے زیادہ دعا مغفرت کرنے سے اس کی مغفرت ہوجائے گی تو میں یہ بھی کرتا۔ ( قرطبی ) ۔- دوسرا شاہد وہ حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرا کرتہ اس کو اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا، مگر میں نے یہ کام اس لئے کیا کہ مجھے امید ہے کہ اس عمل سے اس کی قوم کے ہزار آدمی مسلمان ہوجائیں گے، چناچہ مغازی ابن اسحاق اور بعض کتب تفسیر میں ہے کہ اس واقعہ کو دیکھ کر خزرج قبیلہ کے ایک ہزار آدمی مسلمان ہوگئے۔- خلاصہ یہ ہے کہ آیت سابقہ سے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی یہ تو یقین ہوگیا تھا کہ ہمارے کسی عمل سے اس منافق کی مغفرت نہیں ہوگی، مگر چونکہ ظاہر الفاظ آیت میں اختیار دیا گیا تھا، اور کسی دوسری آیت سے بھی اس کی ممانعت اب تک نہیں آئی تھی، دوسری طرف ایک کافر کے احسان سے دنیا میں نجات حاصل کرنے کا فائدہ بھی تھا، اور اس معاملہ میں دوسرے کافروں کے مسلمان ہونے کی توقع بھی، اس لئے آپ نے نماز پڑھنے کو ترجیح دی، اور فاروق اعظم نے یہ سمجھا کہ جب اس آیت سے یہ ثابت ہوگیا کہ مغفرت نہیں ہوگی تو اس کیلئے نماز جنازہ پڑھ کر دعا مغفرت کرنا ایک فعل عبث اور بےکار ہے، جو شان نبوت کے خلاف ہے اسی کو انہوں نے ممانعت سے تعبیر فرمایا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگرچہ اس فعل کو فی نفسہ مفید نہ سمجھتے تھے مگر دوسروں کے اسلام لانے کا فائدہ پیش نظر تھا، اس لئے فعل عبث نہ رہا، اس طرح نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمل پر کوئی اشکال رہتا ہے نہ فاروق اعظم کے قول پر ( بیان القرآن) - البتہ جب صراحةً یہ آیت نازل ہوگئی لَا تُصَلِّ تو معلوم ہوا کہ اگرچہ نماز پڑھنے میں ایک دینی مصلحت آپ کے پیش نظر تھی، مگر اس میں ایک خرابی اور مفسدہ بھی تھا، جس کی طرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دھیان نہیں ہوا، وہ یہ کہ خود مخلص مسلمانوں میں اس عمل سے ایک بےدلی پیدا ہونے کا خطرہ تھا کہ ان کے یہاں مخلص مسلمان اور منافق سب ایک پلے میں تولے جاتے ہیں، اس خطرہ کے پیش نظر قرآن میں یہ ممانعت نازل ہوگئی، اور پھر کبھی آپ نے کسی منافق کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔- مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی کافر کے جنازہ کی نماز اور اس کے لئے دعا مغفرت جائز نہیں۔- مسئلہ : اسی آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی کافر کے اعزازو اکرام کے لئے اس کی قبر پر کھڑا ہونا یا اس کی زیارت کے لئے جانا حرام ہے، عبرت حاصل کرنے کے لئے ہو یا کسی مجبوری کے لئے تو وہ اس کے منافی نہیں، جیسا کہ ہدایہ میں ہے کہ اگر کسی مسلمان کا کافر رشتہ دار مرجائے اور اس کا کوئی ولی وارث نہیں تو مسلمان رشتہ دار اس کو اسی طرح بغیر رعایت طریق مسنون کے گڑھے میں دبا سکتا ہے ( بیان القرآن ) ۔
وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰي قَبْرِہٖ ٠ ۭ اِنَّہُمْ كَفَرُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَمَاتُوْا وَہُمْ فٰسِقُوْنَ ٨٤- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - قبر - القَبْرُ : مقرّ الميّت، ومصدر قَبَرْتُهُ : جعلته في القَبْرِ ، وأَقْبَرْتُهُ : جعلت له مکانا يُقْبَرُ فيه . نحو : أسقیته : جعلت له ما يسقی منه . قال تعالی: ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ [ عبس 21] ، قيل : معناه ألهم كيف يدفن، والْمَقْبَرَةُ والْمِقْبَرَةُ موضع الْقُبُورِ ، وجمعها : مَقَابِرُ. قال : حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقابِرَ [ التکاثر 2] ، كناية عن الموت . وقوله : إِذا بُعْثِرَ ما فِي الْقُبُورِ [ العادیات 9] ، إشارة إلى حال البعث . وقیل : إشارة إلى حين كشف السّرائر، فإنّ أحوال الإنسان ما دام في الدّنيا مستورة كأنّها مَقْبُورَةٌ ، فتکون القبور علی طریق الاستعارة، وقیل : معناه إذا زالت الجهالة بالموت، فكأنّ الکافر والجاهل ما دام في الدّنيا فهو مَقْبُورٌ ، فإذا مات فقد أنشر وأخرج من قبره . أي : من جهالته، وذلک حسبما روي : ( الإنسان نائم فإذا مات انتبه) «2» وإلى هذا المعنی أشار بقوله : وَما أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ- [ فاطر 22] ، أي : الذین هم في حکم الأموات .- ( ق ب ر ) القبر کے معنی میت کو دفن کرنے جگہ کے ہیں اگر یہ قبرتہ ( ضرب ونصر ) کا مصدر ہو تو اس کے میت کو قبر میں دفن کر نیکے ہوتے ہیں ۔ اوراقبرتہ کے معنی کیس کیلئے قبر مہیا کرنے کے ہیں تاکہ اسے دفن کیا جائے جیسے اسقینہ کے معنی پینے کے لئے پانی مہیا کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ [ عبس 21] پھر اس کو موت دی ۔ پھر قبر میں دفن کرایا ۔ بعض نے اقبرہ کے معنی یہ کئے ہیں کہ اسے الہام کردیا کہ کس طرح میت کو دفن کیا جائے ۔ المقبرۃ والمقبرۃ ( قبر ستان ) جمع مقابر قرآن میں سے : ۔ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقابِرَ [ التکاثر 2] یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں ۔ یہ موت سے کنایہ ہے اور آیت کریمہ : ۔ إِذا بُعْثِرَ ما فِي الْقُبُورِ [ العادیات 9] کہ جو مردے قبروں میں ہیں وہ باہر نکال لئے جائیں گے ۔ میں حیات بعد الممات یعنی موت کے بعد زندہ ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ دلوں کے اسرار ظاہر کردینے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جب تک انسان دنیا میں رہتا ہے اس کے بھید مستور رہتے ہیں گویا قبر میں مدفون ہیں تو یہاں قبور سے مجازا دل مراد ہیں بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ جب موت کی وجہ سے جہالت کا پردہ اٹھ جائے گا گو یا کا فر اور جاہل جب تک دنیا میں رہتے ہیں جہالت کی قبروں میں مدفون رہتے ہیں چونکہ مرنے کے بعد وہ جہالت دور ہوجاتی ہے ۔ تو گویا وہ قبر جہالت سے دوبارہ زندہ کر کے نکالے گئے ہیں ۔ جیسا کہ مروی ہے الانسان نائم اذا مات کہ انسان دنیامیں سویا رہتا ہے جب موت آکر دستک دیتی ہے تو اس کی آنکھیں کھلتی ہیں اور اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَما أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ [ فاطر 22] اور تم ان کو جو قبروں میں مدفون ہیں نہیں سنا سکتے ۔ یعنی جو لوگ جہالت کے گڑھے میں گرنے کی وجہ سے مردوں کے حکم میں ہیں ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔
قول باری ہے ولا تصل علی احد منھم مات ابدا ً ولا تقم علی قبرہ اور آئندہ ان میں سے جو کوئی مرے اس کی نماز جنازہ بھی تم ہرگز نہ پڑھنا اور نہ کبھی اس کی قبر پر کھڑے ہونا آیت میں کئی احکام پر دلالت ہو رہی ہے ۔ مسلمانوں کے مردوں کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی کافروں کے مردوں کی نماز جنازہ کی ممانعت ہے، اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ تدفین کا کام مکمل ہوجانے تک قبر کے پاس کھڑے رہنا چاہیے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تدفین کے وقت قبر کے پاس کھڑے رہتے تھے۔ وکیع نے قیس بن مسلم سے اور انہوں نے عمیر بن سعد سے روایت کی ہے کہ حضر ت علی (رض) تدفین کا کام مکمل ہونے تک ایک قبر کے پاسکھڑے رہتے۔ سفیان ثوری نے ابوقیس سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے علقمہ کو دیکھا کہ وہ تدفین کی تکمیل تک ایک قبر پر کھڑے رہتے۔ جریر بن حازم نے عبد اللہ بن عبید بن عمیر سے روایت کی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن الزبیر (رض) جب کبھی کسی میت کی تدفین میں شامل ہوتے تو تدفین کی تکمیل تک قبر کے پاس کھڑے رہتے۔ یہ تمام آثار تک وہاں کھڑا رہے۔ بعض لوگوں نے آیت سے قبر پر نماز کے جواز پر استدلال کیا ہے اور قول باری ولا تقم علی قبرہ سے قبر پر نماز مراد لی ہے۔ لیکن آیت کی یہ غلط تاویل ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ولا تصل علی احد منھھ ما تا ابدا ً ولا تقم علی قیرہ اس میں اللہ تعالیٰ نے قبر پر کھڑے ہونے سے منع فرما دیا جس طرح منافق میت کی نماز جنازہ کی ممانعت فرما دی اور ایک نہی کو دوسری نہی پر عطف کردیا ۔ اب یہ تو درست نہیں ہے کہ معطوف اور معطوف علیہ دونوں کا مدلول ایک ہوجائے اور معطوف علیہ بعینہٖ معطوف بن جائے ۔ ایک اور پہلو سے دیکھے ، قیام کا لفظ نماز سے عبادت نہیں ہے۔ قبر پر نماز کے جو ازکا قائل اس لفظ کو نماز سے کنایہ قراردینا چاہتا ہے لیکن یہ بات درست نہیں کہ پہلے نماز کا ذکر اس کے اسم صریح کے ساتھ ہوجائے اور پھر اس پر قیام کا عطف کر کے اسے نماز سے کنایہ قرار دیا جائے۔ اس سے یہ بات ثات ہوئی کہ قبر پر قیام سے نماز مراد لی نہیں لی جاسکتی۔ - نیز زہری نے عبید اللہ بن عبد اللہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر (رض) بن الخطاب کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ جب رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی بن سلول مرگیا تو اس کا بیٹا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر کہنے لگا کہ میرا باپ فوت ہوگیا ہے اور ہم نے اس کی میت قبر کے کنارے رکھ دی ہے آپ چل کر نماز جنازہ پڑھا دیجئے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سن کر فوراً اٹھ کھڑے ہوئے میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز جنازہ کے لیے کھڑے ہوگئے اور تمام لوگوں نے آپ کے پیچھے صفیں درست کرلیں تو میں نے مڑ کر جنازے کے درمیان کھڑے ہوکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا ۔ اللہ کے رسول ؐ آپ عبد اللہ بن ابی جیسے شخص کی نماز جنازہ پڑھانے لگے ہیں ۔ بخدا اس نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں بکواس کی تھی ۔ میں نے اس کی بکواسات گنوانی شروع کردیں ۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” عمر مجھے چھوڑ دو ، اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا تھا کہ چاہوں تو ان کے لیے مغفرت کی درخواست کروں اور چاہوں تو نہ کروں ۔ میں نے ان کے لیے استغفار کو پسند کرلیا ۔ اللہ کا ارشاد ہے استغفر لھم ولا تستغفرلھم تا آخر آیت ۔ عمر خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ ستر سے زائد مرتبہ مغفرت کی دعا مانگنے پر ان کی بخشش ہوجائے گی تو میں ستر سے زائد مرتبہ ان کے لیے بخشش کی دعا مانگتا ۔ اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنازے کے ساتھ گئے اور جب تک اس کی تدفین نہ ہوگئی قبرپر کھڑے رہے ، پھر اس کے فوراً بعد یہ آیت نازل ہوئی اولا تصلی علی احد منھم ما ت ابد ًا ولا تقم علی قبرہ ۔ خدا کی قسم اس آیت کے نزول کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ کسی منافق کی نماز جنازہ پڑھی اور نہ ہی کسی کی قبر پر جا کر کھڑے ہوئے ۔ حضرت عمر (رض) نے اس روایت میں نماز اور قبر پر قیام دونوں کا قیام ذکر کیا ہے جس سے ہماری اس وضاحت پر دلالت ہوگئی جو ہم نے اس سلسلے میں کی ہے۔ حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبد اللہ بن ابی بن سلول کی نماز جنازہ پڑھانی چاہی۔ حضرت جبریل (علیہ السلام) نے آ کر آپ کو کپڑے سے پکڑا اور کھینچ کر اس سے بازرکھا پھر یہ وحی سنائی۔ لا تصل علی احد منھممات ابداولا تقم علی قبرہ۔
(٨٤) ان منافقین میں سے عبداللہ بن ابی کے بعد کسی کے جنازہ پر یا عبداللہ بن ابی کے جنازہ پر نماز نہ پڑھیے اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوئیے یقیناً یہ نفاق وکفر ہی کی حالت میں مرے ہیں۔- شان نزول : (آیت ) ” ولا تصل علی احد منہم “۔ (الخ)- حضرت امام بخاری ومسلم (رح) نے ابن عمر (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب عبداللہ بن ابی منافق مرگیا تو اس کے بیٹے جو صحابی تھے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ اپنی قمیص دے دیجیے کہ میں اس میں اپنے باپ کو کفنا دوں، آپ نے دے دی پھر درخواست کی کہ اس کے جنازے کی نماز بھی پڑھ دیجیے آپ پڑھنے کھڑے ہوئے تو حضرت عمر (رض) نے کھڑے ہو کر آپ کا کپڑا پکڑ لیا اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اس کی نماز پڑھتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین پر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے چناچہ یوں فرمایا ہے۔ (آیت) ” استغفرلھم اولا تستغفرلھم ان تستغفرلھم سبعین مرۃ “ (الخ) میں ستر بار سے زیادہ استغفار کروں گا، غرض کہ آپ نے اس کی نماز پڑھا دی، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، اس کے بعد پھر کبھی آپ نے منافقین کے جنازہ پر نماز نہیں پڑھی اور یہ حدیث حضرت عمر (رض) انس (رض) اور جابر (رض) سے بھی مروی ہے۔
آیت ٨٤ (وَلاَ تُصَلِّ عَلآی اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلاَ تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ ط) - یہ گویا اب ان کی رسوائی کا سامان ہو رہا ہے۔ اب تک تو منافقت پر پردے پڑے ہوئے تھے مگر اس آیت کے نزول کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی کی نماز جنازہ پڑھنے سے انکار فرماتے تھے تو سب کو معلوم ہوجاتا تھا کہ وہ منافق مرا ہے۔
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :88 تبوک سے واپسی پر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین مر گیا ۔ اس کے بیٹے عبد اللہ بن عبداللہ جو مخلص مسلمانوں میں سے تھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کفن میں لگانے کے لیے آپ کا کرتہ مانگا ۔ آپ نے کمال فراخ دلی کے ساتھ عطا کر دیا ۔ پھر انہوں نے درخواست کی کہ آپ ہی اس کی نماز جنازہ پڑھائیں ۔ آپ اس کے لیے بھی تیار ہو گئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باصرار عرض کیا کہ یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ ، کیا آپ اس شخص پر نماز جنازہ پڑھیں گے جو یہ اور یہ کر چکا ہے ۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی یہ سب باتیں سن کر مسکراتے رہے اور اپنی اس رحمت کی بنا پر جو دوست دشمن سب کے لیے عام تھی ، آپ نے اس بدترین دشمن کے حق میں بھی دعائے مغفرت کرنے میں تامل نہ کیا ۔ آخر جب آپ نماز پڑھانے کھڑے ہی ہوگئے تو یہ آیت نازل ہوئی اور براہ راست حکم خداوندی سے آپ کو روک دیا گیا ۔ کیونکہ اب یہ مستقل پالیسی مقرر کی جا چکی تھی کہ مسلمانوں کی جماعت میں منافقین کو کسی طرح پنپنے نہ دیا جائے اور کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے اس گروہ کی ہمت افزائی ہو ۔ اسی سے یہ مسئلہ نکلا کہ فساق اور فجار اور مشہور بفسق لوگوں کی نماز جنازہ مسلمانوں کے امام اور سربرآوردہ لوگوں کو نہ پڑھانی چاہیے نہ پڑھنی چاہیے ۔ ان آیات کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ ہو گیا تھا کہ جب آپ کو کسی جنازے پر تشریف لانے کے لیے کہا جاتا تو آپ پہلے مرنے والے کے متعلق دریافت فرماتے تھے کہ کس قسم کا آدمی تھا ، اور اگر معلوم ہوتا کہ برے چلن کا آدمی تھا تو آپ اس کے گھر والوں سے کہہ دیتے تھے کہ تمہیں اختیار ہے ، جس طرح چاہو اسے دفن کر دو ۔
69: اس آیت کا شان نزول صحیح بخاری وغیرہ میں یہ منقول ہے کہ عبداللہ بن ابی منافقوں کا سردار تھا، لیکن اس کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ (رض) سچے اور پکے مسلمان تھے، اگرچہ عبداللہ بن ابی کی منافقت کئی مواقع پر ظاہر ہوچکی تھی، لیکن چونکہ وہ زبان سے اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتا تھا، اس لئے ظاہری طور پر اس کے ساتھ مسلمانوں جیسا ہی سلوک کیا جاتا تھا، چنانچہ جب اس کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹے حضرت عبداللہ نے جو سچے مسلمان تھے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ آپ اسکی نماز جنازہ پڑھائیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ اپنی امت کے ہر فرد کے لئے بڑے مہربان تھے، اس لئے آپ نے یہ درخواست منظور فرمالی اور اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے تشریف لے گئے، حضرت عمر (رض) نے آپ سے قرآن کریم کی اس آیت کا حوالہ دیا جو پیچھے گزرچکی ہے کہ تم ان کے لئے استغفار کرویا نہ کرو، اگر تم ان کے لئے ستر مرتبہ استغفار کروگے تب بھی اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا (آیت نمبر : ٨٠) لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے کہ میں چاہوں تو استغفار کروں، اس لئے میں ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار کرلوں گا، چنانچہ آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھادی، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں آپ کو منافقین کی نماز جنازہ پڑھانے سے روک دیا گیا پھر آپ نے کسی بھی منافق کی نماز نہیں پڑھائی۔