اسی مضمون کی آیت کریمہ گذر چکی ہے اور وہیں اس کی پوری تفسیر بھی بحمد اللہ لکھ دی گئی ہے جس کے دوہرانے کی ضرورت نہیں ۔
[١٠٠] اس آیت کا پورا مضمون اسی سورة کی آیت نمبر ٥٥ میں گزر چکا ہے لہذا اس کی تشریح کے لیے آیت نمبر ٥٥ کا حاشیہ نمبر ٥٩ دیکھ لیا جائے۔
وَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَاَوْلَادُهُمْ : اس سے پہلے آیت (٥٥) میں بھی چند الفاظ کے فرق کے ساتھ یہ آیت گزری ہے، یہاں دوبارہ لانے کا مقصد یہ ہے کہ نفاق انھی چیزوں کی محبت اور حرص سے پیدا ہوتا ہے، جیسا کہ سورة منافقون میں ان کے اعمال بد کے تذکرے کے بعد آخر میں یہی تلقین فرمائی : (لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ ) [ المنافقون : ٩ ] ” دیکھنا کہیں تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں۔ “ یہاں بھی گزشتہ آیت کو دوبارہ لانے سے مقصود دنیا کی فراوانی پر رشک سے بچنے کی تاکید اور منافقین کے لیے اموال واولاد کی فراوانی کے ان کے لیے نقصان دہ ہونے کا بیان ہے۔ مزید اسی سورت کی آیت (٥٥) کے حواشی دیکھیے۔
خلاصہ تفسیر - اور ان کے اموال اور اولاد آپ کو ( اس) تعجب میں نہ ڈالیں ( کہ ایسے مبغوضین پر یہ نعمتیں کیسے ہوئیں، سو یہ واقع میں ان کے لئے نعمتیں نہیں بلکہ آلات عذاب ہیں کیونکہ) اللہ کو صرف یہ منظور ہے کہ ان ( مذکورہ) چیزوں کی وجہ سے دنیا میں ( بھی) ان کو گرفتار عذاب رکھے اور ان کا دم حالت کفر ہی میں نکل جائے ( جس سے آخرت میں بھی مبتلائے عذاب رہیں) اور جب کبھی کوئی ٹکڑا قرآن کا اس مضمون میں نازل کیا جاتا ہے کہ تم ( خلوص دل سے) اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ہمراہ ہو کر جہاد کرو تو ان میں کے مقدور والے آپ سے رخصت مانگتے ہیں اور ( رخصت کا یہ مضمون ہوتا ہے کہ) کہتے ہیں کہ ہم کو اجازت دیجئے کہ ہم بھی یہاں ٹھہرنے والوں کے ساتھ رہ جائیں ( البتہ ایمان و اخلاص کے دعوے میں کچھ کرنا نہیں پڑتا اس کو کہہ دیا کہ ہم تو مخلص ہیں) وہ لوگ ( غایت بےحمیتی سے) خانہ نشین عورتوں کے ساتھ رہنے پر راضی ہوگئے، اور انکے دلوں پر مہر لگ گئی جس سے وہ ( حمیت و بےحمیتی کو) سمجہتے ہی نہیں ہاں لیکن رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی ہمراہی میں جو مسلمان ہیں انہوں نے ( البتہ اس حکم کو مانا اور) اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے جہاد کیا اور انہی کے لئے ساری خوبیاں ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہیں، ( اور وہ خوبی اور کامیابی یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں ( اور) وہ ان میں ہمیشہ کو رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔- معارف و مسائل - آیات مذکورہ میں بھی انہی منافقین کا حال بیان کیا گیا جو غزوہ تبوک میں شریک ہونے سے حیلے بہانے کرکے رک گئے تھے، ان منافقین میں بعض مال دار خوش حال لوگ بھی تھے، ان کے حال سے مسلمانوں کو یہ خیال ہوسکتا تھا کہ جب یہ لوگ اللہ کے نزدیک مردود و نامقبول ہیں تو ان کو دنیا میں ایسی نعمتیں کیوں ملیں۔- اس کے جواب میں پہلی آیت میں فرمایا کہ اگر غور کرو گے تو ان کے اموال و اولاد ان کے لئے رحمت و نعمت نہیں بلکہ دنیا میں بھی عذاب ہی ہیں، آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہے، دنیا میں عذاب ہونا اس طرح ہے کہ مال کی محبت، اس کی حفاظت کی اور پھر اس کے بڑھانے کی فکریں ان کو ایسی لگی رہتی ہیں کہ کسی وقت کسی حال چین نہیں لینے دیتیں، ساز و سامان راحت کا ان کے پاس کتنا ہی ہو مگر راحت نہیں ہوتی، جو قلب کے سکون و اطمینان کا نام ہے، اس کے علاوہ یہ دنیا کا مال و متاع چونکہ ان کو آخرت سے غافل کرکے کفر و معاصی میں انہماک کا سبب بھی بن رہا ہے اس لئے سبب عذاب ہونے کی وجہ سے بھی اس کو عذاب کہا سکتا ہے، اسی لئے الفاظ قرآن میں لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان اموال ہی کے ذریعہ ان کو سزا دینا چاہتا ہے۔
وَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُہُمْ وَاَوْلَادُہُمْ ٠ ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللہُ اَنْ يُّعَذِّبَہُمْ بِہَا فِي الدُّنْيَا وَتَزْہَقَ اَنْفُسُہُمْ وَہُمْ كٰفِرُوْنَ ٨٥- عجب - العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا - [يونس 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ- [ ق 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] ،- ( ع ج ب ) العجب اور التعجب - اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔ - رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - زهق - زَهَقَتْ نفسه : خرجت من الأسف علی الشیء، قال : وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ [ التوبة 55] .- ( ز ھ ق )- زھقت نفسہ کے معنی ہیں کسی چیز پر رنج وغم سے اس کی جان نکل گئی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ [ التوبة 55] اور ان کی جانیں ( اس حال میں ) نکلیں ۔- نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔
(٨٥) اور آپ کو ان کے اموال کی کثرت اور ان کی اولاد کی زیادتی کسی قسم کے تعجب میں نہ ڈالے کیوں کہ ان چیزوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انکو دنیا میں بھی گرفتار عذاب رکھنا اور آخرت میں عذاب دینا چاہتا ہے اور یہ کہ ان کا خاتمہ کفر پر ہی ہو۔
آیت ٨٥ (وَلاَ تُعْجِبْکَ اَمْوَالُہُمْ وَاَوْلاَدُہُمْ ط) - یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے مال اور اولاد کو وقعت مت دیجیے۔ یہ آیت اسی سورت میں ٥٥ نمبر پر معمولی فرق کے ساتھ پہلے بھی آچکی ہے۔
70: دیکھئے آیت نمبر 55 کا حاشیہ