ان لوگوں کی برائی بیان ہو رہی ہے جو وسعت طاقت قوت ہونے کے باوجود جہاد کے لئے نہیں نکلتے جی چراجاتے ہیں اور حکم ربانی سن کر پھر رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم کے پاس آ آ کر اپنے رک رہنے کی اجازت چاہتے ہیں ۔ ان کی بےحمیتی تو دیکھو کہ یہ عورتوں جیسے ہوگئے ہیں لشکر چلے گئے ، یہ نامرد زنانے عورتوں کی طرح پیچھے رہ گئے ۔ بوقت جنگ بزدل ڈرپوک اور گھروں میں گھسے رہنے والے ، بوقت امن بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے ۔ یہ بھونکنے والے کتوں اور گرجنے والے بادلوں کی طرح ڈھول کے پول ہیں ۔ چنانچہ اور جگہ خود قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے کہ خوف کے وقت ایسی آنکھیں پھیرنے لگتے ہیں جیسے کوئی مر رہا ہو اور جہاں وہ موقع گذر گیا لگے چرب زبانی کرنے اور لمبے چوڑے دعوے کرنے ، باتیں بنانے ۔ امن کے وقت تو مسلمانوں میں فساد پھلانے لگتے ہیں اور وہ بلند بانگ بہادری کے ڈھول پیٹتے ہیں کہ کچھ ٹھیک نہیں لیکن لڑائی کے وقت عورتوں کی طرح چوڑیاں پہن کر پردہ نشین بن جاتے ہیں ، بل اور سوراخ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے تیئں چھپاتے پھرتے ہیں ۔ ایمان دار تو سورت اترنے اور اللہ کے حکم ہونے کا انتظار کرتے ہیں لیکن بیمار دلوں والے منافق جہاں سورت اتری اور جہاد کا حکم سنا آنکھیں بند کرلیں دیدے پھیر لئے ان پر افسوس ہے اور ان کے لئے تباہی خیز مصیبت ہے ۔ اگر یہ اطاعت گذار ہوتے تو ان کی زبان سے اچھی بات نکلتی ان کے ارادے اچھے ہوتے یہ اللہ کی باتوں کی تصدیق کرتے تو یہی چیز ان کے حق میں بہتر تھی لیکن ان کے دلوں پر تو ان کی بداعمالیوں سے مہر لگ چکی ہے اب تو ان میں اس بات کی صلاحیت بھی نہیں رہی کہ اپنے نفع نقصان کو ہی سمجھ لیں ۔
86۔ 1 یہ انہیں منافقین کا ذکر ہے۔ جنہوں نے حیلے تراش کر پیچھے رہنا پسند کیا مراد ہے صاحب حیثیت، مال دار طبقہ۔ یعنی اس طبقے کو پیچھے نہیں رہنا چاہیے تھا، کیونکہ ان کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ موجود تھا، جیسا کہ اگلی آیت میں ان کو خَوَالِفُ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے خالِفَۃ، کی جمع ہے۔ یعنی پیچھے رہنے والی عورتیں۔
وَاِذَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ : ” سُوْرَةٌ“ آیات کا ایک حصہ، ٹکڑا۔ ” الطَّوْلِ “ کا معنی ” اَلْفَضْلُ وَالْقُدْرَۃُ وَالْغِنَی وَالسَّعَۃُ “ ہے۔ (قاموس) یعنی وسعت و طاقت اور مال و دولت۔ ” الْخَوَالِفِ “ یہ ” خَالِفَۃٌ“ کی جمع ہے ” پیچھے رہنے والی عورتیں۔ “ ” فَاعِلَۃٌ“ کی جمع ” فَوَاعِلُ “ آتی ہے، جیسے ” قَاطِعَۃٌ“ کی جمع ” قَوَاطِعُ “ اور ” ضَارِبَۃٌ“ کی جمع ” ضَوَارِبُ “ اور ” قَافِلَۃٌ“ کی جمع ” قَوَافِلُ “ یعنی جہاد کے حکم والی آیات کا کوئی حصہ اترنے پر وہ لوگ عذر کریں جن کے پاس کچھ نہیں اور جو ضروریات جہاد حاصل نہ ہوسکنے کی وجہ سے ساتھ نہیں جاسکتے تو بات سمجھ میں آتی ہے، مگر ان منافقین میں سے وسعت و طاقت والے بھی جہاد میں نہ جانے اور پیچھے رہنے کی اجازت مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے اسباب بیان فرمائے کہ بزدلی کی وجہ سے ان میں ایسی کمینگی پیدا ہوچکی ہے کہ انھیں عورتوں کے ساتھ پیچھے رہ جانے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی، بلکہ وہ اس پر خوش ہیں اور ان کے اعمال بد کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے جس کی وجہ سے وہ جہاد کی برکات کو اور بزدلی اور ترک جہاد کی نحوست اور نقصانات کو نہیں سمجھتے۔ نہ ان پر اللہ اور اس کے رسول کی بات کا اثر ہوتا ہے اور نہ کسی سمجھانے والے کی نصیحت کا۔
اُولُوا الطَّوْلِ کا لفظ تخصیص کے لئے نہیں بلکہ اس سے غیر اولی الطول یعنی غیر مستطیع لوگوں کا حال بدرجہ اولی معلوم ہوگیا کہ ان کے پاس تو ایک ظاہری عذر بھی تھا۔
وَاِذَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ اَنْ اٰمِنُوْا بِاللہِ وَجَاہِدُوْا مَعَ رَسُوْلِہِ اسْـتَاْذَنَكَ اُولُوا الطَّوْلِ مِنْہُمْ وَقَالُوْا ذَرْنَا نَكُنْ مَّعَ الْقٰعِدِيْنَ ٨٦- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - سُّورَةُ- المنزلة الرفیعة، وسُورُ المدینة : حائطها المشتمل عليها، وسُورَةُ القرآن تشبيها بها لکونه محاطا بها إحاطة السّور بالمدینة، أو لکونها منزلة کمنازل القمر، ومن قال : سؤرة فمن أسأرت، أي : أبقیت منها بقيّة، كأنها قطعة مفردة من جملة القرآن وقوله : سُورَةٌ أَنْزَلْناها - [ النور 1] ، - السورۃ - کے معنی بلند مرتبہ کے ہیں ۔ اور سورة المدینۃ کے معنی شہر پناہ کے ہیں اور سورة القرآن ( قرآن کی سورت ) یا تو سور المدینۃ سے ماخوذ ہے کیونکہ سورة بھی شہر پناہ کی طرح قرآن کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اس لئے انہیں سورة القرآن کہا جاتا ہے اور یا سورة بمعنی مرتبہ سے مشتق ہے ، اور سورة بھی مناز ل قمر کی طرح ایک منزلۃ ہے اس لئے اسے سورة کہا جاتا ہے اور یہ دونوں اشتقاق اس وقت ہوسکتے ہیں جب اس میں واؤ کو اصلی مانا جائے لیکن اگر اسے اصل میں سورة مہموز مانا جائے تو یہ اسارت سے مشتق ہوگا جس کے معنی کچھ باقی چھوڑ دینے کے ہیں اور سورة بھی چونکہ قرآن ن کا ایک ٹکڑا اور حصہ ہوتی ہے ۔ اس لئے اسے سورة کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ سُورَةٌ أَنْزَلْناها[ النور 1] یہ ایک ) سورة ہے جسے ہم نے نازل کیا میں سورة سے مراد احکام وحکم ہیں۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - طول - الطُّولُ والقِصَرُ من الأسماء المتضایفة كما تقدّم، ويستعمل في الأعيان والأعراض کالزّمان وغیره قال تعالی: فَطالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ [ الحدید 16] ، سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، ويقال : طَوِيلٌ وطُوَالٌ ، و عریض وعُرَاضٌ ، وللجمع : طِوَالٌ ، وقیل : طِيَالٌ ، وباعتبار الطُّولِ قيل للحبل المرخيِّ علی الدّابة : طِوَلٌ «3» ، وطَوِّلْ فرسَكَ ، أي : أَرْخِ طِوَلَهُ ، وقیل : طِوَالُ الدّهرِ لمدّته الطَّوِيلَةِ ، وَتَطَاوَلَ فلانٌ: إذا أظهر الطُّولَ ، أو الطَّوْلَ. قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص 45] ، وَالطَّوْلُ خُصَّ به الفضلُ والمنُّ ، قال : شَدِيدِ الْعِقابِ ذِي الطَّوْلِ [ غافر 3] ، وقوله تعالی: اسْتَأْذَنَكَ أُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ [ التوبة 86] ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا[ النساء 25] ، كناية عمّا يصرف إلى المهر والنّفقة . وطَالُوتُ اسمٌ عَلَمٌ وهو أعجميٌّ.- ( ط و ل ) الطول - یہ اسمائے اضافیہ سے ہے ۔ اور اس کے معنی دراز اور لمبا ہونا کے ہیں یہ القصر کے مقابلہ میں آتا ہے اور اعیان واعرراض مثلا زمانہ وغیرہ سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَطالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ [ الحدید 16] پھر ان پر لمبا عرصہ گزر گیا ۔ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] بہت لمبے شغل ( ہوتے ہیں ) طول طول جیسے عریض و عریض دراز لمبا اس کی جمع طوال آتی ہے اور بعض نے طیال بھی کہا ہے اور لمبا ہونے کی مناسبت سے جانور کی پچھاڑی کی رسی کو طول کہا جاتا ہے طول کہا جاتا ہے طول فرسک اپنے گھوڑے کی پچھاڑی باندھ دے ۔ طوال الدھر عرصہ دارز ۔ تطاول فلان درازی یا وسعت کو ظاہر کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص 45] پھر ان پر لمبا عرسہ گزر گیا ۔ اور طول کا لفظ خاص کر فضل و احسان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ شَدِيدِ الْعِقابِ ذِي الطَّوْلِ [ غافر 3] سخت عذاب دینے والا اور صاحب کرم ہے ۔ اور آیت کریمہ : اسْتَأْذَنَكَ أُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ [ التوبة 86] تو جو ان میں دولتمند ہیں وہ تم سے اجازت طلب کرتے ہیں میں اولوالطول سے خوش حال طبقہ مراد ہے اور آیت کریمہ : وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا[ النساء 25] اور جو شخص تم میں سے مقدر نہ رکھے ۔ میں طولا کنایہ ہے اس مال سے ( جو عورت کو ) مہر میں یا نان ونفقہ کے طور پر دینا پڑتا ہے ۔- طالوت - یہ اسم عجمی ہے اور بنی اسرائیل کے ایک با اقبال بادشاہ کا نام تھا ۔- وذر - [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی:- قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] - ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔
(٨٦) اور جب کبھی کوئی ٹکڑا قرآن کریم کا اس مضمون کے بارے میں نازل کیا جاتا ہے اور اس میں حکم دیا جاتا ہے کہ خلوص دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ساتھ جہاد کرو تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان منافقین یعنی عبداللہ بن ابی، جدی بن قیس، اور معتب بن قشیر میں سے مقدوروالے آپ سے رخصت مانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں اجازت دیجیے ہم بھی یہاں ٹھہرنے والوں کے ساتھ رہ جائیں۔