Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

عدم جہاد کے شرعی عذر اس آیت میں ان شرعی عذروں کا بیان ہو رہا ہے جن کے ہوتے ہوئے اگر کوئی شخص جہاد میں نہ جائے تو اس پر شرعی حرج نہیں ۔ پس ان سببوں میں سے ایک قسم تو وہ ہے جو لازم ہوتی ہے کسی حالت میں انسان سے الگ نہیں ہوتیں جیسے پیدائشی کمزوری یا اندھا پن یا لنگڑا پن کوئی لولا لنگڑا یا اپاہج بیمار یا بالکل ہی ناطاقت ہو ۔ دوسری قسم کے وہ عذر ہوتے ہیں جو کبھی ہیں اور کبھی نہیں اتفاقیہ اسباب میں مثلاً کوئی بیمار ہو گیا ہے یا بالکل فقیر ہو گیا ہے ، سامان سفر سامان جہاد مہیا نہیں کر سکتے وغیرہ پس یہ لوگ شرکت جہاد نہ کر سکں تو ان پر شرعاً کوئی مواخذہ گناہ یا عار نہیں لیکن انہیں اپنے دل میں صلاحیت اور خلوص رکھنا چاہئے ۔ مسلمانوں کے ، اللہ کے دین کے خیر خواہ بنے رہیں اوروں کو جہاد پر آمادہ کریں ۔ بیٹھے بیٹھے جو خدمت مجاہدین کی انجام دے سکتے ہوں دیتے رہیں ۔ ایسے نیک کاروں پر کوئی وجہ الزام نہیں ۔ اللہ بخشنے والا مہربان ہے حواریوں نے عیسیٰ نبی اللہ سے پوچھا کہ ہمیں بتائیے اللہ کا خیر خواہ کون ہے؟ آپ نے فرمایا جو اللہ کے حق کو لوگوں کے حق پر مقدم کرے اور جب ایک کام دین کا اور ایک دنیا کا آ جائے تو دینی کام کی اہمیت کا پورا لحاظ رکھے پھر فارغ ہو کر دنیوی کام کو انجام دے ۔ ایک مرتبہ قحط سالی کے موقعہ پر لوگ نماز استسقاء کیلئے میدان میں نکلے ان میں حضرت بلال بن سعد بھی تھے آپ نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر فرمایا اے حاضرین کیا تم یہ مانتے ہو کہ تم سب اللہ کے گنہگار بندے ہو؟ سب نے اقرار کیا ۔ اب آپ نے دعا شروع کی کہ پروردگار ہم نے تیرے کلام میں سنا پڑھا ہے کہ نیک بندوں پر کوئی مشکل نہیں ۔ ہم اپنی برائیوں کا اقرار کرتے ہیں پس تو ہمیں معاف فرما ہم پر رحم فرما ہم پر اپنی رحمت سے بارشیں برسا اب آپ نے ہاتھ اٹھائے اور آپ کے ساتھ ہی اور سب نے بھی ہاتھ اٹھائے رحمت الٰہی جوش میں آئی اور اسی وقت جھوم جھوم کر رحمت کی بدلیاں برسنے لگیں ۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا منشی تھا سورہ برات جب اتر رہی تھی میں اسے بھی لکھ رہا تھا میرے کان میں قلم اڑا ہوا تھا جہاد کی آیتیں اتر رہی تھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم منتظر تھے کہ دیکھیں کہ اب کیا حکم نازل ہوتا ہے؟ اتنے میں ایک نابینا صحابی آئے اور کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں جہاد کے احکام اس اندھاپے میں کیسے بجا لا سکتا ہوں؟ اسی وقت یہ آیت اتری ۔ پھر ان کا ذکر ہوتا ہے جو جہاد کی شرکت کے لئے تڑپتے ہیں مگر قدرتی اسباب سے مجبور ہو کر بادل ناخواستہ رک جاتے ہیں ۔ جہاد کا حکم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلان ہوا مجاہدین کا لشکر جمع ہونا شروع ہوا تو ایک جماعت آئی جن میں حضرت عبداللہ بن مغفل بن مقرن مزنی وغیرہ تھے انہوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سواریاں نہیں آپ ہماری سواریوں کا انتظام کر دیں تاکہ ہم بھی راہ حق میں جہاد کرنے اور آپ کی ہمرکابی کا شرف حاصل کریں ۔ آپ نے جواب دیا کہ واللہ میرے پاس تو ایک بھی سواری نہیں ۔ یہ ناامید ہو کر روتے پیٹتے غم زدہ اور رنجیدہ ہو کر لوٹے ان پر اس سے زیادہ بھاری بوجھ کوئی نہ تھا کہ یہ اس وقت ہم رکابی کی اور جہاد کی سعادت سے محروم رہ گئے اور عورتوں کی طرح انہیں یہ مدت گھروں میں گذارنی پڑے گی نہ ان کے پاس خود ہی کچھ ہے نہ کہیں سے کچھ ملتا ہے پس جناب باری نے یہ آیت نازل فرما کر ان کی تسکین کر دی ۔ یہ آیت قبیلہ مزینہ کی شاخ بنی مقرن کے بارے میں اتری ہے ۔ محمد بن کعب کا بیان ہے کہ یہ سات آدمی تھے بنی عمرو کے سالم بن عوف ، بنی واقف کے حرمی بن عمرو ، بنی مازن کے عبدالرحمن بن کعب ، بنی معلی کے فضل اللہ ، بنی سلمہ کے عمرو بن عثمہ اور عبداللہ بن عمرو مزنی اور بنو حارثہ کے علیہ بن زید ۔ بعض روایتوں میں کچھ ناموں میں ہیر پھیر بھی ہے ۔ انہی نیک نیت بزرگوں کے بارے میں اللہ کے رسول ، رسولوں کے سرتاج صلی اللہ علیہ وسلم آلہ و اصحابہ و ازوجہ و اہل بیتہ و سلم کا فرمان ہے کہ اے میرے مجاہد ساتھیو تم نے مدینے میں جو لوگ اپنے پیچھے چھوڑے ہیں ان میں وہ بھی ہیں کہ تم جو خرچ کرتے ہو جس میدان میں چلتے ہو جو جہاد کرتے ہو سب میں وہ بھی ثواب کے شریک ہیں ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ اور روایت میں ہے کہ یہ سن کر صحابہ نے کہا وہ باوجود اپنے گھروں میں رہنے کے ثواب میں ہمارے شریک ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں اس لئے کہ وہ معذور ہیں عذر کے باعث رکے ہیں ۔ ایک اور آیت میں ہے انہیں بیماریوں نے روک لیا ہے ۔ پھر ان لوگوں کا بیان فرمایا جنہیں فی الوقت کوئی عذر نہیں مالدار ہٹے کٹے ہیں ۔ لیکن پھر بھی سرکار نبوت میں آ کر بہانے تراش تراش کر جہاد میں ساتھ نہیں دیتے ۔ عورتوں کی طرح گھر میں بیٹھ جاتے ہیں ، زمین پکڑ لیتے ہیں ۔ فرمایا ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر اللہ کی مہر لگ چکی ہے ۔ اب وہ اپنے بھلے برے کے علم سے بھی کورے ہوگئے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

91۔ 1 اس آیت میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو واقعی معذور تھے اور ان کا عذر بھی واضح تھا مثلاً 1۔ ضعیف و ناتواں یعنی بوڑھے قسم کے لوگ، اور نابینا یا لنگڑے وغیرہ معذورین بھی اسی ذیل میں آجاتے ہیں، بعض نے انہیں بیماروں میں شامل کیا ہے، 2۔ بیمار، 3۔ جن کے پاس جہاد کے اخراجات نہیں تھے اور بیت المال بھی ان کے اخراجات کا متحمل نہیں تھا، اللہ اور رسول کی خیر خواہی سے مراد، جہاد کی ان کے دلوں میں تڑپ، مجاہدین سے محبت رکھتے ہیں اور اللہ اور رسول کے دشمنوں سے عداوت، اور حتی الا مکان اللہ اور رسول کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں، اگر جہاد میں شرکت کرنے سے معذور ہوں تو ان پر کوئی گناہ نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٤] تین طرح کے معذور اور عذر قبول ہونے کی شرط خیرخواہی اور اموال غنیمت میں ان کا حصہ :۔ اس آیت میں تین طرح کے لوگوں کو جہاد سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ ایک وہ جو بڑھاپے یا کسی اور وجہ سے اتنے کمزور ہوچکے ہوں کہ جہاد پر جانے کے قابل ہی نہ رہے ہوں۔ دوسرے مریض جو اس وقت جہاد پر جا ہی نہ سکتے ہوں اور اس شق میں ایسے تیماردار بھی شامل ہیں جن کا بیمار کے پاس رہنا لازمی ہو اور اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو جیسے غزوہ بدر میں سیدنا عثمان (رض) صرف اس وجہ سے شامل نہ ہو سکے تھے کہ ان کی زوجہ رقیہ بنت رسول اللہ سخت بیمار تھیں اور جب مجاہدین واپس آئے تو ان کی وفات ہوچکی تھی۔ اور تیسرے وہ لوگ جن کے پاس جہاد کے لیے خرچ نہ ہو۔ کیونکہ اس دور میں ہر مجاہد کو اپنی سواری، اسلحہ اور زاد راہ کا خود انتظام کرنا ہوتا تھا اور اس کے عوض انہیں مال غنیمت سے مقررہ حصہ ملتا تھا۔ پھر ان تینوں قسم کے معذورین کے ساتھ یہ لازمی شرط بھی عائد کردی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے خیر خواہ ہوں۔ بالفاظ دیگر جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے خیر خواہ نہ ہوں ان کا کوئی عذر قابل قبول نہ ہوگا کیونکہ ایسے لوگ صرف منافق ہی ہوسکتے ہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک شخص بیمار ہے اور اس بیماری کی حالت میں جہاد کا اعلان ہوجاتا ہے۔ اب اگر وہ شخص منافق ہے تو اس کے احساسات یہ ہوں گے کہ کیا اچھا ہوا کہ میں اس وقت بیمار ہوں اور جہاد سے بچنے کا یہ کیسا معقول بہانہ میسر آگیا ہے۔ اس کے برعکس ایک مومن کے احساسات یہ ہوں گے کہ کاش میں اس وقت بیمار نہ ہوتا اور اس اجر سے محروم نہ رہتا جو جہاد کرنے والوں کو ملے گا، یا وہ یہ آرزو کرے گا کہ اللہ اسے جلد از جلد صحت عطا کرے تاکہ وہ بھی جہاد میں شامل ہو سکے یا وہ اپنے تیمارداروں سے کہے گا کہ میرا اللہ مالک ہے تم وقت ضائع نہ کرو اور جہاد پر چلے جاؤ۔ غرض ایک ایک بات سے انسان کی نیت اور احساسات کا پتہ چل سکتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ مریض ہونے کے لحاظ سے تو یہ دونوں یکساں ہیں مگر ان کے احساسات بالکل متضاد ہیں کہ یہ احساسات ہی انہیں منافق اور مومن کی قسموں میں تقسیم کردیتے ہیں اور جن لوگوں کے احساسات میں اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی ہے انہی کا عذر شرعی لحاظ سے قابل قبول ہے اور ایسے لوگوں کو جہاد میں شامل ہی سمجھا جائے گا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔- سیدنا جابر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جب تم کوئی سفر کرتے ہو یا کوئی وادی عبور کرتے ہو تو وہ تمہارے ساتھ ہوتے ہیں۔ صحابہ کرام (رض) نے پوچھا : اس کے باوجود کہ وہ مدینہ میں ہیں آپ نے فرمایا اس کے باوجود کہ وہ مدینہ میں ہیں انہیں عذر نے روکا ہے۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب نزول النبی الحجر۔ مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب ثواب من حبسہ عن الغزو مرض او عذر )- بلکہ ایسے معذور لوگوں کا رسول اللہ نے ان اموال غنیمت سے حصہ بھی نکالا ہے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ جنگ خیبر کی فتح کے فوراً بعد جو مہاجر حبشہ سے ہجرت کر کے پہنچے تھے۔ رسول اللہ نے انہیں اموال غنائم میں شریک کرلیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ خیبر)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَيْسَ عَلَي الضُّعَفَاۗءِ ۔۔ : اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو واقعی معذور تھے اور ان کا عذر واضح تھا۔ ان میں سب سے پہلے ” الضُّعَفَاۗءِ “ ہیں، ان سے مراد لنگڑے، لولے، اندھے، بوڑھے، عورتیں اور بچے ہیں۔ دوسرے ” اَلْمَرْضیٰ “ (مریض کی جمع) جو بیماری کی وجہ سے نہیں جاسکتے، دوسری جگہ فرمایا : (لَيْسَ عَلَي الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْمَرِيْضِ حَرَجٌ ۭ ) [ الفتح : ١٧ ] ” نہیں ہے اندھے پر کوئی تنگی اور نہ لنگڑے پر کوئی تنگی اور نہ مریض پر کوئی تنگی۔ “ اور تیسرے وہ تندرست طاقت رکھنے والے جو مالی استطاعت نہیں رکھتے کہ جہاد کے سفر اور اس کے سازو سامان مثلاً سواری اور ہتھیار وغیرہ کی تیاری کرسکیں۔ چناچہ فرمایا : (لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا) [ البقرۃ : ٢٨٦ ]” اللہ کسی کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی گنجائش کے مطابق۔ “- اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ : یعنی وہ کام نہ کرتے ہوں جس سے اللہ کے دین، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا مومنوں کو کوئی نقصان اور ان کے دشمنوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ ) ” دین خیر خواہی (خلوص) ہی کا نام ہے۔ “ ہم نے کہا : ” کس کے لیے ؟ “ فرمایا : ” اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے حکام کے لیے اور ان کے تمام لوگوں کے لیے۔ “ [ مسلم، الإیمان، باب بیان أن الدین النصیحۃ : ٥٥، عن تمیم۔ ] عام لوگوں کی خیر خواہی میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ جب مجاہدین جہاد پر گئے ہوئے ہوں تو یہ لوگ شہر میں رہیں، ان کے گھروں کی، کاروبار کی اور بال بچوں کی خبر گیری رکھیں، ان کی عزت و آبرو کی ہر طرح سے حفاظت کریں، مجاہدین کی ضروریات بھیجتے رہیں، جھوٹی خبریں یا افواہیں نہ پھیلائیں، کسی قسم کا فساد برپا نہ کریں اور مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے والوں کا منہ بند کریں۔ - مَا عَلَي الْمُحْسِنِيْنَ مِنْ سَبِيْلٍ : یعنی یہ لوگ معذور ہیں، اگر جہاد میں شرکت نہ کریں تو ان پر کچھ گناہ نہیں۔ انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک سے واپس آئے، مدینہ کے قریب پہنچے تو فرمایا : ” بیشک مدینہ میں کئی لوگ ہیں، تم کسی راستے پر نہیں چلے اور نہ تم نے کوئی وادی طے کی ہے، مگر وہ تمہارے ساتھ رہے ہیں۔ “ لوگوں نے پوچھا : ” یارسول اللہ اور وہ مدینہ ہی میں تھے ؟ “ فرمایا : ”(ہاں) وہ مدینہ ہی میں تھے، انھیں عذر نے روک رکھا تھا۔ “ [ بخاری، المغازی، باب : ٤٤٢٣ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - کم طاقت لوگوں پر کوئی گناہ نہیں اور نہ بیماروں پر اور نہ ان لوگوں پر جن کو ( سامان جہاد کی تیاری میں) خرچ کرنے کو میسر نہیں جبکہ یہ لوگ اللہ اور رسول کے ساتھ ( اور احکام میں) خلوص رکھیں ( اور دل سے اطاعت کرتے رہیں تو) ان نکوکاروں پر کسی قسم کا الزام ( عائد) نہیں ( کیونکہ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا) اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والے بڑی رحمت والے ہیں ( کہ اگر یہ لوگ اپنے علم میں معذور ہوں اور اپنی طرف سے خلوص و اطاعت میں کوشش کریں اور واقع میں کچھ کمی رہ جائے تو معاف کردیں گے) اور نہ ان لوگوں پر ( کوئی گناہ اور الزام ہے) کہ جس وقت وہ آپ کے پاس اس واسطے آتے ہیں کہ آپ ان کو کوئی سواری دیدیں اور آپ ( ان سے) کہہ دیتے ہیں کہ میرے پاس تو کوئی چیز نہیں جس پر میں تم کو سوار کردوں تو وہ ( ناکام) اس حالت سے وا پس چلے جاتے ہیں کہ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے ہیں اس غم میں کہ ( افسوس) انکو ( سامان جہاد کی تیاری میں) خرچ کرنے کو کچھ میسر نہیں ( نہ خود ہی اور نہ دوسری جگہ سے ملا، غرض ان معذورین مذکورین پر کوئی مواخذہ نہیں) بس الزام ( اور مواخذہ) تو صرف ان لوگوں پر ہے جو باوجود اہل سامان ( قوت) ہونے کے ( گھر یر رہنے کی) اجازت چاہتے ہیں وہ لوگ ( غایت بےحمیتی سے) خانہ نشیں عورتوں کے ساتھ رہنے پر راضی ہوگئے، اور اللہ نے انکے دلوں پر مہر کردی جس سے وہ ( گناہ وثواب کو) جانتے ہی نہیں۔- معارف و مسائل - سابقہ آیات میں ایسے لوگوں کے حالات کا بیان تھا جو درحقیقت جہاد میں شرکت سے معذور نہ تھے مگر سستی کے سبب عذر کرکے بیٹھ رہے، یا ایسے منافق جنہوں نے اپنے کفر و نفاق کی وجہ سے حیلے بہانے تراش کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لے لی تھی، اور کچھ وہ سرکش بھی تھے جنہوں نے عذر کرنے اور اجازت لینے کی بھی ضرورت نہ سمجھی، ویسے ہی بیٹھ رہے، ان کا غیر معذور ہونا اور ان میں جو کفر ونفاق کے مرتکب تھے ان کیلئے عذاب الیم کا ہونا سابقہ آیات میں بیان ہوا ہے۔- مذکور الصدر آیات میں ان مخلص مسلمانوں کا ذکر ہے جو حقیقتہ معذور ہونے کے سبب شرکت جہاد سے قاصر رہے، ان میں کچھ تو نابینا یا بیمار معذور تھے جن کا عذر کھلا ہوا تھا، اور کچھ وہ لوگ بھی تھے جو جہاد میں شرکت کے لئے تیار تھے، بلکہ جہاد میں جانے کے لئے بےقرار تھے، مگر ان کے پاس سفر کے لئے سواری کا جانور نہ تھا، سفر طویل اور موسم گرمی کا تھا، انہوں نے اپنے جذبہ جہاد اور سواری نہ ہونے کی مجبوری کا ذکر کرکے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ ہمارے لئے سواری کا کوئی انتظام ہوجائے۔- کتب تفسیر و تاریخ میں اس قسم کے متعدد واقعات لکھے ہیں، بعض کا معاملہ تو یہ ہوا کہ شروع میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے عذر کردیا کہ ہمارے پاس سواری کا کوئی انتظام کردیا کہ چھ اونٹ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اسی وقت آگئے، آپ نے یہ ان کو دے دیے ( مظہری) اور ان میں سے تین آدمیوں کے لئے سواری کا انتظام حضرت عثمان غنی نے کردیا حالانکہ وہ اس سے پہلے بہت بڑی تعداد کا انتظام اپنے خرچ سے کرچکے تھے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَيْسَ عَلَي الضُّعَفَاۗءِ وَلَا عَلَي الْمَرْضٰى وَلَا عَلَي الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ مَا يُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلہِ وَرَسُوْلِہٖ۝ ٠ ۭ مَا عَلَي الْمُحْسِـنِيْنَ مِنْ سَبِيْلٍ۝ ٠ ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ٩١ ۙ- ضعف - والضَّعْفُ قد يكون في النّفس، وفي البدن، وفي الحال، وقیل :- الضَّعْفُ والضُّعْفُ لغتان . قال تعالی: وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال 66]- ( ض ع ف ) الضعف - اور الضعف رائے کی کمزوری پر بھی بولا جاتا ہے اور بدن اور حالت کی کمزوری پر بھی اور اس میں ضعف اور ضعف ( ولغت ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال 66] اور معلوم کرلیا کہ ابھی تم میں کس قدر کمزور ی ہے ۔ - مرض - الْمَرَضُ : الخروج عن الاعتدال الخاصّ بالإنسان، وذلک ضربان :- الأوّل : مَرَضٌ جسميٌّ ، وهو المذکور في قوله تعالی: وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ- [ النور 61] ، وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة 91] .- والثاني : عبارة عن الرّذائل کالجهل، والجبن، والبخل، والنّفاق، وغیرها من الرّذائل الخلقيّة .- نحو قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ، أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور 50] ، وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125]- ( م ر ض ) المرض کے معنی ہیں انسان کے مزاج خصوصی کا اعتدال اور توازن کی حد سے نکل جانا اور یہ دوقسم پر ہے ۔ مرض جسمانی جیسے فرمایا : وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ [ النور 61] اور نہ بیمار پر کچھ گناہ ہے ۔ وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة 91] اور نہ بیماروں پر ۔- دوم مرض کا لفظ اخلاق کے بگڑنے پر بولا جاتا ہے اور اس سے جہالت بزدلی ۔ بخل ، نفاق وغیرہ جیسے اخلاق رزیلہ مراد ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ان کے دلوں میں کفر کا مرض تھا ۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور 50] گناہ ان کے دلوں میں بیماری ہے یا یہ شک میں ہیں ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125] اور جن کے دلوں میں مرض ہے ۔ ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا ۔ - - وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے معیب کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- حرج - أصل الحَرَج والحراج مجتمع الشيئين، وتصوّر منه ضيق ما بينهما، فقیل للضيّق : حَرَج، وللإثم حَرَج، قال تعالی: ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً [ النساء 65] ، وقال عزّ وجلّ :- وَما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ [ الحج 78] ، وقد حرج صدره، قال تعالی:- يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً حَرَجاً [ الأنعام 125] ، وقرئ حرجا «1» ، أي : ضيّقا بکفره، لأنّ الکفر لا يكاد تسکن إليه النفس لکونه اعتقادا عن ظن، وقیل : ضيّق بالإسلام کما قال تعالی:- خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] ، وقوله تعالی: فَلا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ [ الأعراف 2] ، قيل : هو نهي، وقیل : هو دعاء، وقیل : هو حکم منه، نحو : أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح 1] ، والمُتَحَرِّج والمتحوّب : المتجنّب من الحرج والحوب .- ( ح ر ج ) الحرج والحراج ( اسم ) کے اصل معنی اشب کے مجتع یعنی جمع ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ اور جمع ہونے میں چونکہ تنگی کا تصور موجود ہے اسلئے تنگی اور گناہ کو بھی حرج کہاجاتا ہے قرآن میں ہے ؛۔ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً [ النساء 65] اور ۔۔۔ اپنے دل میں تنگ نہ ہوں ۔ وَما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ [ الحج 78 اور تم پر دین ( کی کسی بات ) میں تنگی نہیں کی ۔ حرج ( س) حرجا ۔ صدرہ ۔ سینہ تنگ ہوجانا ۔ قرآن میں ہے ؛۔ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً حَرَجاً [ الأنعام 125] اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کردیتا ہے ۔ ایک قرآت میں حرجا ہے ۔ یعنی کفر کی وجہ سے اس کا سینہ گھٹا رہتا ہے اس لئے کہ عقیدہ کفر کی بنیاد وظن پر ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کو کبھی سکون نفس حاصل نہیں ہوتا اور بعض کہتے کہ اسلام کی وجہ سے اس کا سینہ تنگ ہوجاتا ہے جیسا کہ آیت خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] سے مفہوم ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَلا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ [ الأعراف 2] اس سے تم کو تنگ دل نہیں ہونا چاہیے ۔ میں لایکن فعل نہی کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے اور ۔۔۔۔ جملہ دعائیہ بھی ۔ بعض نے اسے جملہ خبر یہ کے معنی میں لیا ہے ۔ جیسا کہ آیت کریمہ ۔ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح 1] سے مفہوم ہوتا ہے ،۔ المنحرج ( صفت فاعلی ) گناہ اور تنگی سے دور رہنے والا جیسے منحوب ۔ حوب ( یعنی گنا ہ) بچنے والا ۔- نصح - النُّصْحُ : تَحَرِّي فِعْلٍ أو قَوْلٍ فيه صلاحُ صاحبِهِ. قال تعالی: لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 79] وَلا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِي إِنْ أَرَدْتُ أَنْ أَنْصَحَ لَكُمْ [هود 34] وهو من قولهم : نَصَحْتُ له الوُدَّ. أي : أَخْلَصْتُهُ ، ونَاصِحُ العَسَلِ : خَالِصُهُ ، أو من قولهم : نَصَحْتُ الجِلْدَ : خِطْتُه، والنَّاصِحُ : الخَيَّاطُ ، والنِّصَاحُ : الخَيْطُ ، وقوله : تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً [ التحریم 8] فمِنْ أَحَدِ هذين، إِمَّا الإخلاصُ ، وإِمَّا الإِحكامُ ، ويقال : نَصُوحٌ ونَصَاحٌ نحو ذَهُوب وذَهَاب،- ( ن ص ح ) النصح - کسی ایسے قول یا فعل کا قصد کرنے کو کہتے ہیں جس میں دوسرے کی خیر خواہی ہو قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 79] میں نے تم کو خدا کا پیغام سنادیا ۔ اور تمہاری خیر خواہی کی مگر تم ایسے ہو کہ خیر خواہوں کو دوست ہی نہیں رکھتے ۔ یہ یا تو نصحت لہ الود کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کسی سے خالص محبت کرنے کے ہیں اور ناصح العسل خالص شہد کو کہتے ہیں اور یا یہ نصحت الجلد سے ماخوذ ہے جس کے معنی چمڑے کو سینے کے ہیں ۔ اور ناصح کے معنی درزی اور نصاح کے معنی سلائی کا دھاگہ کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً [ التحریم 8] خدا کے آگے صاف دل سے توبہ کرو ۔ میں نصوحا کا لفظ بھی مذکورہ دونوں محاوروں میں سے ایک سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی خالص یا محکم توبہ کے ہیں اس میں نصوح ور نصاح دو لغت ہیں جیسے ذھوب وذھاب - احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

حقیقی معذورین کا عذر جہاد قابل قبول ہے - قول باری ہے لیس علی الصضعفاء ولا علی المرضی ولا علی الذین لا یجدون ما ینفقونحرج اذا نصحوا للہ ورسولہ ۔ ضعیف اور بیمار لوگ اور وہ لوگ جو شرکت جہاد کے لیے زاد راہ نہیں پاتے اگر پیچھے رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں جبکہ وہ خلوص دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے وفا دار ہوں ۔ یہ آیت ما قبل پر عطف ہے جس میں جہاد کا ذکر ہوا ہے، چناچہ ارشاد ہے۔ لکن الرسول والذین امنوا معہ جاھد وابامالھم وانفسھم پھر اس پر اس قول کو عطف کیا ۔ وجاء المعذرون من الاعراب لیوذن لھم بدوی عربوں میں سیب ہت سے لوگ آئے جنہوں نے عذر کیے تا کہ انہیں بھی پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے بلا کسی عذر کے جہاد سے پیچھے رہ جانے کی اجازت طلب کرنے پر ان کی مذمت کی پھر مسلمان معذورین کا ذکر فرمایا اس سلسلے میں ضعفاء کا ذکر کیا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپاہج یا نابینا ہونے کی بنا پر یا کبرسنی یا جسمانی کمزوری کی وجہ سے جہاد میں خود شریک نہیں ہوسکتے ، پھر مریضوں کا ذکر کیا جو اپنی بیماریوں کی وجہ سے جہاد کے لیے نکلنے سے معذور ہیں ، پھر ان تنگدست لوگوں کے عذر کا ذکر کیا جن کے پاس شرکت جہاد کے لیے زاد راہ نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس شرط کے ساتھ ان کا عذر قبول کیا تھا اور ان کی تعریف کی تھی کہ وہ خلوص دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے وفادار ہیں ۔ اس لیے کہ ان میں سے جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے اور وہ دل سے اللہ اور اس کے رسول کے وفادار نہیں تھے بلکہ پیچھے رہ کر مدینہ منورہ میں موجود لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے اور ان کے دلوں میں فساد پیدا کرنے کی کوششوں میں لگے ہونے تھے ۔ وہ قابل مذمت اور عذاب کے سزا وار قرار پائے تھے ۔ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ وفاداری یہ تھی کہ مسلمانوں کو جہاد کے لیے ابھارا جاتا ، انہیں جہاد کی ترغیب دی جاتی ، ان کے پاس کے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی یا اسی قسم کی اور خدمات سر انجام دی جاتی جن سے مجموعی طور پر مسلمانوں کو نفع پہنچتا ، اس کے ساتھ ساتھ یہ اپنے اعمال میں بھی بایں معنی مخلص ہوتے کہ ریا کاری اور دکھلاوے کے کھوٹ سے اپنے اعمال کو پاک رکھتے ۔ اللہ اور اس کے رسول سے وفاداری اور خیر خواہی کے یہی معنی ہیں ۔ اس سے التوبۃ النصوع سچی توبہ کا لفظ نکلا ہے۔- قول باری ہے ماعلی المحسنین من سبیل محسنین پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آیت کے مفہوم میں ہر اس شخص کے لیے عموم ہے جو کسی بھی جہت سے صفت احسان سے متصف ہو ۔ ایسے شخص پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آیت میں چند مختلف فیہ مسائل میں استدلال کیا جاتا ہے مثلاً کسی شخص نے نماز پڑھنے کے لیے کوئی کپڑا عاریت کے طور ر لیا یا حج پر جانے کے لیے کسی سے سواری مانگ لی اور پھر وہ کپڑا ضائع ہوگیا یا وہ سواری ہلاک ہوگئی تو اب اس سے اس کا تاوان لینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے کہ ایسا شخص محسن تھا یعنی نیکی کے ایک عمل میں مصروف تھا اور اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص پر گرفت کرنے اور اس پر اعتراض کرنے کی عام نفی کردی ہے۔ اس کے نظائر مسائل کی ہ صورتیں ہیں جن میں تاوان کے وجوب کے بارے میں اختلاف رائے ہے کہ آیا صفت احسان حاصل ہوجانے کے بعد تاوان واجب ہوگا ؟ جو لوگ تاوان کو تسلیم نہیں کرتے اور اسی کی نفی کرتے ہیں وہ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں ۔ اگر کوئی شخص حملہ آور اونٹ سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے اسے قتل کرڈالے تو اس کے تاوان کے اسقاط میں ہمارے مخالفین کا یہ استدلال ہے کہ اس نے ایسے اونٹ کو قتل کر کے ایک نیک کام کیا ہے، وہ محسن یعنی نیکو کار ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ما علی المحسنین من سبیل نیکو کاروں پر کوئی گرفت اور اعتراض کی گنجائش نہیں ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩١) بوڑھوں محتاجوں اور نوجوان لوگوں میں سے بیماروں پر اور ان لوگوں پر جن کو سامان جہاد کی تیاری میں خرچ کرنے کو میسر نہیں، عدم شرکت جہاد پر کوئی گناہ نہیں، جب کہ یہ لوگ دین الہی اور سنت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں خلوص رکھیں، ان حضرات پر جو قول وعمل میں نیکوکار ہیں کوئی الزام نہیں جو شخص توبہ کرے اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمانے والے ہیں اور جو توبہ پر مرے اللہ تعالیٰ اس پر بڑی رحمت فرمانے والے ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” لیس علی الضعفآء ولا “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے حضرت زید بن ثابت (رض) سے روایت کی ہے فرماتے ہیں کہ میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے لکھا کرتا تھا، چناچہ میں برأت کی آیتیں لکھتا تھا اور میں نے اپنے کان پر قلم رکھ رکھا تھا، کہ ہمیں قتال کا حکم دے دیا گیا، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو آپ پر نازل ہوا تھا اسے دیکھنے لگے، اتنے میں ایک نابینا حاضر خدمت ہوگئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نابینا ہوں میرا کیا ہوگا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی کم طاقت لوگوں پر کوئی گناہ نہیں، نیز عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس (رض) سے اس طرح روایت منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ آپ کے ساتھ جہاد پر جانے کے لیے تیار ہوجائیں، صحابہ کرام میں سے ایک جماعت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی جن میں عبداللہ بن معقل مزنی بھی تھے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں سواری دیجیے، آپ نے فرمایا کہ میرے پاس تو کوئی چیز نہیں جس پر تمہیں سوار کراؤں یہ سن کر وہ اس حالت میں واپس ہوئے کہ عدم شرکت جہاد کی بنا پر وہ رو رہے تھے کیوں کہ نہ ان کے پاس نفقہ تھا اور نہ سواری، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (آیت) ” ولا علی الذین اذا ما اتوک “۔ (الخ) نازل فرمائی یعنی نہ ان لوگوں پر کہ جس وقت وہ آپ کے پاس اس واسطے آتے ہیں (الخ)

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩١ (لَیْسَ عَلَی الضُّعَفَآءِ وَلاَ عَلَی الْمَرْضٰی وَلاَ عَلَی الَّذِیْنَ لاَ یَجِدُوْنَ مَا یُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ) - آخر اتنا طویل سفر کرنے کے لیے ضروری تھا کہ آدمی تندرست و توانا ہو ‘ اس کے پاس سواری کا انتظام ہو ‘ راستے میں کھانے پینے اور دوسری ضروریات کے لیے سامان مہیا ہو ‘ لیکن اگر کوئی شخص ضعیف ہے ‘ بیمار ہے ‘ یا اس قدر نادار ہے کہ سفر کے اخراجات کے لیے اس کے پاس کچھ بھی نہیں تو اللہ کی نظر میں وہ واقعتا مجبور و معذور ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں سے کوئی مؤاخذہ نہیں۔ ان کو اس بات کا کوئی الزام نہیں دیا جاسکتا۔- (اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ط) (مَا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ) - یعنی مندرجہ بالا وجوہات میں سے کسی وجہ سے کوئی شخص واقعی معذور ہے مگر سچا اور پکا مومن ہے ‘ خلوصِ دل سے اللہ اور اس کے رسول کا وفادار ہے ‘ اس کا دین درجۂ احسان تک پہنچا ہوا ہے ‘ تو ایسے صاحب ایمان اور محسن لوگوں پر کوئی ملامت نہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :92 ”اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ بظاہر معذور ہوں ان کے لیے بھی مجرد ضعیفی و بیماری یا محض ناداری کافی وجہ معافی نہیں ہے بلکہ ان کی مجبوریاں صرف اس صورت میں ان کے لیے وجہ معافی ہو سکتی ہیں جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے سچے وفادار ہوں ۔ ورنہ اگر وفاداری موجود نہ ہو تو کوئی شخص صرف اس لیے معاف نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ادائے فرض کے موقع پر بیمار یا نادار تھا ۔ خدا صرف ظاہر کو نہیں دیکھتا ہے کہ ایسے سب لوگ جو بیماری کا طبی صداقت نامہ یا بڑھاپے اور جسمانی نقص کا عذر پیش کر دیں ، اس کے ہاں یکساں معذور قرار دے دیے جائیں اور ان پر سے باز پرس ساقط ہو جائے ۔ وہ تو ان میں سے ایک ایک شخص کے دل کا جائزہ لے گا ، اور اس کے پورے مخفی و بظاہر برتاؤ کو دیکھے گا ، اور یہ جانچے گا کہ اس کی معذوری ایک وفادار بندے کی سی معذرت تھی یا ایک غدار اور باغی کی سی ۔ ایک شخص ہے کہ جب اس نے فرض کی پکار سنی تو دل میں لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ”بڑے اچھے موقعے پر میں بیمار ہو گیا ورنہ یہ بلا کسی طرح ٹالے نہ ٹلتی اور خواہ مخواہ مصیبت بھگتنی پڑتی“ ۔ دوسرے شخص نے یہی پکار سُنی تو تلملا اُٹھا کہ”ہائے ، کیسے موقع پر اس کم بخت بیماری نے آن دبوچا ، جو وقت میدان میں نکل کر خدمت انجام دینے کا تھا وہ کس بری طرح یہاں بستر پر ضائع ہو رہا ہے“ ۔ ایک نے اپنے لیے تو خدمت سے بچنے کا بہانہ پایا ہی تھا مگر اس کے ساتھ اس نے دوسروں کو بھی اس سے روکنے کی کوشش کی ۔ دوسرا اگرچہ خود بستر علالت پر مجبور پڑا ہوا تھا مگر وہ برابر اپنے عزیزوں ، دوستوں اور بھائیوں کو جہاد کا جوش دلا تا رہا اور اپنے تیمار داروں سے بھی کہتا رہا کہ ” میرا اللہ مالک ہے ، دوا دارو کا انتظام کسی نہ کسی طرح ہو ہی جائے گا ، مجھ اکیلے انسان کے لیے تم قیمتی وقت کو ضائع نہ کرو جسے دین حق کی خدمت میں صرف ہونا چاہیے“ ۔ ایک نے بیماری کے عذر سے گھر بیٹھ کر سارا زمانہ جنگ بد دلی پھیلانے ، بری خبریں اڑانے ، جنگی مساعی کو خراب کرنے اور مجاہدین کے پیچھے ان کے گھر بگاڑنے میں صرف کیا ۔ دوسرے نے یہ دیکھ کر کہ میدان میں جانے کے شرف سے وہ محروم رہ گیا ہے ، اپنی حد تک پوری کوشش کی کہ گھر کے محاذ ( ) کو مضبوط رکھنے میں جو زیادہ سے زیادہ خدمت اس سے بن آئے اسے انجام دے ۔ ظاہر کے اعتبار سے تو یہ دونوں ہی معذور ہیں ۔ مگر خدا کی نگاہ میں یہ دو مختلف قسم کے معذور کسی طرح یکساں نہیں ہو سکتے ۔ خدا کے ہاں معافی اگر ہے تو صرف دوسرے شخص کے لیے ۔ رہا پہلا شخص تو ہو اپنی معذوری کے باوجود غداری و نا وفاداری کا مجرم ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani