92۔ 1 یہ مسلمانوں کے ایک دوسرے گروہ کا ذکر ہے جن کے پاس اپنی سواریاں بھی نہیں تھیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی انہیں سواریاں پیش کرنے سے معذرت کی جس پر انہیں اتنا صدمہ ہوا کہ بےاختیار ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے، گویا مخلص مسلمان جو کسی بھی لحاظ سے معقول عذر رکھتے تھے اللہ تعالیٰ نے جو ہر ظاہر باطن سے باخبر ہے ان کو جہاد میں شرکت سے مستثنٰی کردیا۔ بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان معذورین کے بارے میں جہاد میں شریک لوگوں سے فرمایا کہ تمہارے پیچھے مدینے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ تم جس وادی کو بھی طے کرتے ہو اور جس راستے پر چلتے ہو، تمہارے ساتھ وہ اجر میں برابر کے شریک ہیں صحابہ کرام نے پوچھا۔ یہ کیوں کر ہوسکتا ہے جب کہ وہ مدینے میں بیٹھے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حَبَسَھُمْ الْعُذرُ (صحیح بخاری) عذر نے ان کو وہاں روک دیا ہے
[١٠٥] حقیقی معذوروں کی کیفیت سواری مانگنے والے :۔ اس آیت میں ایسے حقیقی مومنوں کا ذکر ہے جن کے لیے شرعی عذر موجود تھا۔ یعنی اتنے طویل سفر کے لیے سواری کا بندوبست نہ تھا تاہم وہ جہاد پر جانے کے لیے بےچین تھے۔ وہ درخواست لے کر رسول اللہ کے پاس گئے کہ آپ سواری کا کوئی بندوبست کر دیجئے۔ اتفاق سے آپ کے پاس بھی اس وقت سواری کا کوئی بندوبست نہ تھا لہذا آپ نے انہیں جواب دے دیا۔ جس سے انہیں اس قدر صدمہ ہوا کہ آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور وہ صدمہ صرف یہ تھا کہ شاید اب ہم جہاد پر نہ جاسکیں گے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔- سیدنا ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ میرے ساتھیوں نے مجھے آپ کی خدمت میں سواری مانگنے کے لیے بھیجا۔ میں نے جا کر عرض کی یا رسول اللہ میرے ساتھیوں نے مجھے سواری طلب کرنے کے لیے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ آپ نے فرمایا واللہ میں تمہیں کوئی سواری نہ دوں گا۔ آپ اس وقت غصہ میں تھے مگر میں سمجھا نہیں۔ میں غمگین ہو کر واپس آیا اور اپنے ساتھیوں کو آپ کے انکار کی اطلاع دی۔ مجھے ایک تو یہ غم تھا کہ آپ نے ہمیں سواری نہ دی اور دوسرا یہ کہ آپ کہیں مجھ سے خفا نہ ہوجائیں۔ مجھے واپس آئے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ میں نے سنا بلال (رض) مجھے پکار رہے ہیں۔ میں نے جواب دیا تو وہ کہنے لگے چلو رسول اللہ آپ کو بلا رہے ہیں۔ میں حاضر خدمت ہوا تو آپ نے فرمایا یہ اونٹ کے جوڑے ہیں چھ اونٹ لے لو اور اپنے ساتھیوں سے کہنا کہ یہ اونٹ اللہ نے یا اللہ کے رسول نے تمہیں سواری کے لیے دیئے ہیں انہیں کام میں لاؤ۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوہ تبوک وہی غزوۃ العسرۃ)- اور بخاری ہی کی ایک دوسری حدیث میں یہ تفصیل بھی موجود ہے کہ سیدنا ابو موسیٰ نے رسول اللہ سے عرض کیا کہ آپ نے تو سواری نہ دینے کی قسم کھائی تھی۔ آپ نے فرمایا جب مجھے بہتر عمل کرنے کا موقع ملتا ہے تو میں وہ کام کرلیتا ہوں اور قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں۔ (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور)
وَّلَا عَلَي الَّذِيْنَ اِذَا مَآ اَتَوْكَ : یہ مخلص مسلمانوں کے ایک اور گروہ کا ذکر ہے جن کے پاس اپنی سواریاں نہیں تھیں اور وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سواریاں لینے کے لیے آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، میرے پاس تمہیں سواری دینے کے لیے کچھ نہیں ہے، اس پر انھیں اتنا صدمہ ہوا کہ وہ رونے لگے اور ایسے روئے گویا آنکھیں پانی کے چشمے بن گئیں، جن سے آنسوؤں کی نالیاں رواں ہوں کہ ہمارے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں کہ ہم جہاد میں شریک ہو سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی گناہ سے بری قرار دیا کہ ان لوگوں پر اعتراض کا کوئی راستہ اور کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ یہ محسنین ہیں۔ - اس آیت پر ان لوگوں کو خلوص کے ساتھ غور کرنا چاہیے جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا و آخرت کے خزانوں کے مالک اور مختار کل ہیں۔ یہ حضرات آپ کے اس فرمان کا ترجمہ کیا کریں گے : (لَآ اَجِدُ مَآ اَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ ) ” میں وہ چیز نہیں پاتا جس پر تمہیں سوار کروں۔ “ ان بھائیوں کو اللہ کا خوف کرتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مالک الملک اور مختار کل کہہ کر اللہ کا شریک بنانے سے توبہ کرنی چاہیے، کیونکہ یہ گناہ اللہ کے ہاں کسی صورت قابل معافی نہیں ہے۔
وَّلَا عَلَي الَّذِيْنَ اِذَا مَآ اَتَوْكَ لِتَحْمِلَہُمْ قُلْتَ لَآ اَجِدُ مَآ اَحْمِلُكُمْ عَلَيْہِ ٠ ۠ تَوَلَّوْا وَّاَعْيُنُہُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا يَجِدُوْا مَا يُنْفِقُوْنَ ٩٢ ۭ- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی:- وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - فيض - فَاضَ الماء : إذا سال منصبّا . قال تعالی: تَرى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ [ المائدة 83] ، وأَفَاضَ إناء ه : إذا ملأه حتی أساله، وأَفَضْتُهُ. قال : أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنا مِنَ الْماءِ [ الأعراف 50] - ( ف ی ض ) فاض الماء کے معنی کسی جگہ سے پانی اچھل کر بہ نکلنا کے ہیں اور آنسو کے بہنے کے لئے بھی آتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ تَرى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ [ المائدة 83] تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں ۔ اور افاض اناہ کے معنی بر تن کو لبا لب بھر دینے کے ہیں حتٰی کہ پانی اس سے نیچے گر نے لگے اور افضتہ کے معنی اوپر سے کرالے اور بہانے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنا مِنَ الْماءِ [ الأعراف 50] کہ کسی قدر ہم پر پانی بہاؤ ۔ - دمع - قال تعالی: تَوَلَّوْا وَأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَناً [ التوبة 92] . فالدّمع يكون اسما للسائل من العین، ومصدر دَمَعَتِ العینُ دَمْعاً ودَمَعَاناً.- ( د م ع ) دمعت ( ف ) العین دمعا ودمعانا ۔ آنسو جاری ہونا ۔ قرآن میں ہے :َ تَوَلَّوْا وَأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَناً [ التوبة 92] تو ہ لوٹ گئے ۔ اور اس غم سے ۔۔۔۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے ۔ معلوم ہوا کہ الدمع اسم بھی آتا ہے جس کے معنی ہیں آنسو اور ( باب مذکور کا ) مصدر بھی ۔- حزن - الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] - ( ح ز ن ) الحزن والحزن - کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو
(٩٢) اور نہ ان لوگوں پر کوئی گناہ ہے کہ جس وقت وہ آپ کے پاس جہاد کیلیے خرچ وسواری کے لیے آتے ہیں جیسا کہ حضرت عبداللہ بن معقل بن یسار اور سالم بن عمیر انصاری اور ان کے ساتھی اور آپ ان سے فرما دیتے ہیں کہ میرے پاس تو جہاد پر جانے کے لیے کوئی چیز نہیں تو آپ کے ہاں سے ناکام اس حالت میں واپس چلے جاتے ہیں کہ انکی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں، اس غم میں کہ ان کو سامان جہاد کی تیاری میں خرچ کرنے کو کچھ میسر نہیں۔
آیت ٩٢ (وَّلاَ عَلَی الَّذِیْنَ اِذَا مَآ اَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ قُلْتَ لَآ اَجِدُ مَآ اَحْمِلُکُمْ عَلَیْہِ ) (تَوَلَّوْا وَّاَعْیُنُہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلاَّ یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَ ) - یعنی وہ لوگ جو دل و جان سے چاہتے تھے کہ اس مہم میں شریک ہوں ‘ مگر وسائل کی کمی کی وجہ سے شرکت نہیں کر پا رہے تھے ‘ اپنی اس محرومی پر وہ واقعتا صدمے اور رنج و غم سے ہلکان ہو رہے تھے۔ ایک طرف ایسے مؤمنین صادقین تھے اور دوسری طرف وہ صاحب حیثیت (اُولُوا الطَّوْلِ ) لوگ جن کے پاس سب کچھ موجود تھا ‘ وسائل و ذرائع کی کمی نہیں تھی ‘ تندرست و توانا تھے ‘ لیکن اس سب کچھ کے باوجود وہ اللہ کی راہ میں نکلنے کو تیار نہیں تھے۔
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :93 ایسے لوگ جو خدمت دین کے لیے بے تاب ہوں ، اور اگر کسی حقیقی مجبوری کے سبب سے یا ذرائع نہ پانے کی وجہ سے عملًا خدمت نہ کرسکیں تو ان کے دل کو اتنا سخت صدمہ ہو جتنا کسی دنیا پرست کو روزگار چھوٹ جانے یا کسی بڑے نفع کے موقع سے محروم رہ جانے کا ہوا کرتا ہے ، ان کا شمار خدا کےہاں خدمت انجام دینے والوں ہی میں ہوگا اگرچہ انہوں نے عملا کوئی خدمت انجام نہ دی ہو ۔ اس لیے کہ وہ چاہے ہاتھ پاؤں سے کام نہ کر سکے ہوں ، لیکن دل سے تو وہ برسر خدمت ہی رہے ہیں ۔ یہی بات ہے جو غزوہ تبوک سے واپسی پر اثنائے سفر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفقا کو خطاب کرتے ہوئے فرمائی تھی کہ ان بالمدینۃ اقوامًا ما سرتم مسیرا ولا قطعتم وادیا الا کانو ا معکم ۔ ” مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ تم نے کوئی وادی طے نہیں کی اور کوئی کوچ نہیں کیا جس میں وہ تمہارے ساتھ ساتھ نہ رہے ہوں“ ۔ صحابہ نے تعجب سے کہا” کیا مدینہ ہی میں رہتے ہوئے؟“ فرمایا”ہاں ، مدینے ہی میں رہتے ہوئے ۔ کیونکہ مجبوری نے انہیں روک لیا تھا ورنہ وہ خود رکنے والے نہ تھے“ ۔
72: روایات میں ہے کہ یہ سات انصاری صحابہ تھے۔ حضرت سالم بن عمیر، حضرت علبہ بن زید، حضرت عبدالرحمن بن کعب، حضرت عمرو بن الحمام، حضرت عبداللہ مغفل، حضرت ہرمی بن عبداللہ اور حضرت عرباض بن ساریہ (رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین)۔ انہوں نے غزوۂ تبوک میں شامل ہونے کے لئے اپنے شوق کا اظہار فرمایا، اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے سواری کی درخواست پیش کی۔ جب آپ نے فرمایا کہ میرے پاس کوئی سورای نہیں ہے تو یہ روتے ہوئے واپس گئے۔ (روح المعانی)