96۔ 1 ان تین آیات میں ان منافقین کا ذکر ہے جو تبوک کے سفر میں مسلمانوں کے ساتھ نہیں گئے تھے نبی اور مسلمانوں کو بخریت واپسی پر اپنے عذر پیش کرکے ان کی نظروں میں وفادار بننا چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جب ان کے پاس آؤ گے تو یہ عذر پیش کریں گے، تم ان سے کہہ دو ، کہ ہمارے سامنے عذر پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اصل حالات سے ہمیں باخبر کردیا ہے۔ اب تمہارے جھوٹے عذروں کا ہم اعتبار کس طرح کرسکتے ہیں ؟ البتہ ان عذروں کی حقیقت مستقبل قریب میں مذید واضح ہوجائے گی، تمہارا عمل، جسے اللہ تعالیٰ بھی دیکھ رہا ہے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظر بھی اس پر ہے، تمہارے عذروں کی حقیقت کو خود بےنقاب کر دے گا۔ تیسری آیت میں فرمایا، یہ تمہیں راضی کرنے کے لئے قسمیں کھائیں گے۔ لیکن ان نادانوں کو یہ پتہ نہیں کہ اگر تم ان سے راضی ہو بھی جاؤ تو انہوں نے جس فسق یعنی اطاعت الٰہی سے گریز و فرار کا راستہ اختیار کیا ہے اس کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ ان سے راضی کیونکر ہوسکتا ہے۔
يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْھُمْ : یعنی ان کے قسمیں کھانے اور حیلے بہانے کرنے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ تم ان سے درگزر کرو اور چشم پوشی سے کام لو اور پھر یہ چاہتے ہیں کہ ان سے راضی بھی ہوجاؤ، اگر تم ان کی باتوں سے متاثر ہو کر راضی ہو بھی جاؤ تو اللہ تعالیٰ ان کے فسق کی وجہ سے ان سے کبھی راضی نہیں ہوگا۔ ” فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَرْضٰی عَنْھُمْ “ کے بجائے (لَا يَرْضٰى عَنِ الْقَوْمِ الْفٰسِقِيْنَ ) کہنے میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب بیان ہوا ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے بھی ان کے فسق کی وجہ سے کسی صورت ان سے راضی ہونا جائز نہیں۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” جس شخص کے حالات سے معلوم ہوتا ہو کہ وہ منافق ہے، اس کی طرف سے تغافل تو جائز ہے مگر اس سے دوستی اور محبت روا نہیں۔ “ (موضح)
تیسرا حکم تیسری آیت میں یہ ہے کہ یہ لوگ قسمیں کھا کر آپ کو اور مسلمانوں کو راضی کرنا چاہیں گے اس کے متعلق حق تعالیٰ نے یہ ہدایت فرمادی کہ ان کی یہ خواہش پوری نہ کی جائے، آپ ان سے راضی نہ ہوں، اور یہ بھی فرمادیا کہ بالفرض اگر آپ راضی بھی ہوگئے تو ان کو کوئی فائدہ اس لئے نہیں پہنچے گا کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی نہیں ہے اور اللہ کیسے راضی ہو جبکہ یہ اپنے کفر و منافقت پر قائم ہیں۔
يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْھُمْ ٠ ۚ فَاِنْ تَرْضَوْا عَنْھُمْ فَاِنَّ اللہَ لَا يَرْضٰى عَنِ الْقَوْمِ الْفٰسِقِيْنَ ٩٦- رضي - يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی:- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ- [ التوبة 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] ، والرِّضْوَانُ :- الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ- [ الحدید 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ- [ البقرة 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ.- ( ر ض و ) رضی - ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔
قسم میں اللہ کا ذکر ہو یا نہ ہو وہ قسم ہی ہے - قول باری ہے یخلفون لکم لترضوا عنھم فان ترضوا عنھم فان اللہ لا یرضی عن القوم الفاسقین ۔ یہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تا کہ تم ان سے راضی ہو جائو حالانکہ اگر تم ان سے راضی ہو بھی گئے تو اللہ ایسے فاسق لوگوں سے ہرگز راضی نہ ہوگا ۔ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ایسا شخص جس پر اتہام لگا ہو اس کی طرف سے اعتذار کی خاطر حلف اٹھانا اور قسمیں کھانا اس سے راضی ہوجانے اور اس کے عذر کو قبول کرلینے کا موجب نہیں ہوتا اس لیے کہ آیت ان لوگوں سے ان کی قسموں کے باوجود راضی ہونے کی ممانعت کی مقتضی ہے۔ اس آیت میں اللہ نے یخلفون فرمایا اور اس کے ساتھ باللہ کا اضافہ نہیں کیا جبکہ پہلی آیت میں سیحلفون باللہ فرمایا اور اس طرح پہلی آیت کے اندر حلف میں اللہ کے نام کا ذکر کیا اور دوسری آیت کے اندر حلف میں ۔ اس کا ذکر نہیں کیا جس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ یہ دونوں صورتیں ہم معنی ہیں۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوا ۔ یخلفون علی الکذب وھم یعلمون وہ جان بوجھ کر جھوٹ پر قسمیں کھاتے ہیں ۔ اسی طرح قسم کے لفظ کے بارے میں قول باری ہے ۔ واقسموا باللہ جھد ایمانھم ۔ یہ لوگ کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں ۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوا اذا قسموا لیصرمنھا مصبحین جبکہ ان لوگوں نے قسم کھائی تھی کہ ہم اس کا پھل ضرور صبح چل کر توڑیں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے حلف کے ذکر پر اکتفا کرتے ہوئے اسم اللہ کے ذکر کی ضرورت نہیں سمجھی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی شخص کہے حلف میں حلف اٹھاتا ہوں اور یہ کہے حلف باللہ میں اللہ کے نام کا حلف اٹھاتا ہوں تو ان دونوں فقروں میں کوئی فرق نہیں ہوگا ۔ اسی طرح اقسم میں قسم کھاتا ہوں ۔ اوراقسم باللہ میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں ۔ میں کوئی فرق نہیں ہے۔
(٩٦) تاکہ آپ ان کو معاف کردیں اور ان سے کوئی مواخذہ نہ کریں سو تم بھی انکو ان کے حال پر چھوڑ دو کیوں کہ وہ باکل بیہودہ ہیں اور آخرت میں ان کا ٹھکانا دوزخ ہے ان کاموں کے بدلے میں جو کہ وہ کہتے اور کرتے تھے اور یہ آپ کی رضا حاصل کرنے کے لیے قسمیں کھائیں گے، بالفرض آپ ان کی جھوٹی قسموں سے ان سے راضی ہو بھی جائیں تو اللہ ان منافقین سے راضی نہیں ہوتا۔
آیت ٩٦ (یَحْلِفُوْنَ لَکُمْ لِتَرْضَوْا عَنْہُمْ ج) - اب یہ ان منافقین کی دنیا داری کے لحاظ سے مجبوری تھی۔ ایک معاشرے کے اندر سب کا اکٹھے رہنا سہنا تھا۔ اوس اور خزرج کے اندر ان کی رشتہ داریاں تھیں۔ ایسے ماحول میں وہ سمجھتے تھے کہ اگر مسلمانوں کے دل ان کی طرف سے صاف نہ ہوئے تو وہ اس معاشرے کے اندر ایک طرح سے اچھوت بن کر رہ جائیں گے۔ اس لیے وہ مسلمانوں کے اندر اپنا اعتماد پھر سے بحال کرنے کے لیے ہر طرح سے دوڑ دھوپ کر رہے تھے ‘ مسلمانوں سے ملاقاتیں کرتے تھے ‘ ان کو اپنی مجبوریاں بتاتے تھے اور ان کے سامنے قسمیں کھا کھا کر اپنے اخلاص کا یقین دلانے کی کوشش کرتے تھے۔