دیہات ، صحرا اور شہر ہر جگہ انسانی فطرت یکساں ہے اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ دیہاتیوں اور صحرا نشین بدؤں میں کفار و منافق بھی ہیں اور مومن مسلمان بھی ہیں ۔ لیکن کافروں اور منافقوں کا کفر و نفاق نہایت سخت ہے ۔ ان میں اس بات کی مطلقاً اہلیت نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ان حدوں کا علم حاصل کریں جو اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل فرمائی ہیں ۔ چنانچہ ایک اعرابی حضرت زید بن صوحان کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس وقت یہ اس مجلس میں لوگوں کو کچھ بیان فرما رہے تھے ۔ نہاوند والے دن انکا ہاتھ کٹ گیا تھا ۔ اعرابی بول اٹھا کہ آپ کی باتوں سے تو آپ کی محبت میرے دل میں پیدا ہوتی ہے ۔ لیکن آپ کا یہ کٹا ہوا ہاتھ مجھے اور ہی شبہ میں ڈالتا ہے ۔ آپ نے فرمایا اس سے تمہیں کیا شک ہوا یہ تو بایاں ہاتھ ہے ۔ تو اعرابی نے کہا واللہ مجھے نہیں معلوم کہ دایاں ہاتھ کاٹتے ہیں یا بایاں؟ انہوں نے فرمایا اللہ عزوجل نے سچ فرمایا کہ اعراب بڑے ہی سخت کفر ونفاق والے اور اللہ کی حدوں کے بالکل ہی نہ جاننے والے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے جو بادیہ نشین ہوا اس نے غلط و جفا کی ۔ اور جو شکار کے پیچھے پڑ گیا اس نے غفلت کی ۔ اور جو بادشاہ کے پاس پہنچا وہ فتنے میں پڑا ۔ ابو داؤد ترمذی اور نسانی میں بھی یہ حدیث ہے ۔ امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں چونکہ صحرا نشینوں میں عموماً سختی اور بدخلقی ہوتی ہے ، اللہ عزوجل نے ان میں سے کسی کو اپنی رسالت کے ساتھ ممتاز نہیں فرمایا بلکہ رسول ہمیشہ شہری لوگ ہوتے رہے ۔ جیسے فرمان اللہ ہے ۔ ( آیت وما ارسلنا من قبلک الا رجلا نوحی الیھم من اھل القری ) ہم نے تجھ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے سب انسان مرد تھے جن کی طرف ہم وحی نازل فرماتے تھے وہ سب متمدن بستیوں کے لوگ تھے ۔ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ہدیہ پیش کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہدیہ سے کئی گناہ زیادہ انعام دیا جب جا کر بمشکل تمام راضی ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب سے میں نے قصد کیا ہے کہ سوائے قریشی ، ثقفی ، انصاری یا دوسی کے کسی کا تحفہ قبول نہ کروں گا ۔ یہ اس لئے کہ یہ چاروں شہروں کے رہنے والے تھے ۔ مکہ ، طائف ، مدینہ اور یمن کے لوگ تھے ، پس یہ فطرتاً ان بادیہ نشینوں کی نسبت نرم اخلاق اور دور اندیش لوگ تھے ، ان میں اعراب جیسی سختی اور کھردرا پن نہ تھا ۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ ایمان و علم عطا فرمائے جانے کا اہل کون ہے؟ وہ اپنے بندوں میں ایمان و کفر ، علم وجہل ، نفاق و اسلام کی تقسیم میں باحکمت ہے ۔ اس کے زبردست علم کی وجہ سے اس کے کاموں کی بازپرس اس سے کوئی نہیں کر سکتا ۔ اور اس حکمت کی وجہ سے اس کا کوئی کام بےجا نہیں ہوتا ۔ ان بادیہ نشینوں میں وہ بھی ہیں جو اللہ کی راہ کے خرچ کو ناحق اور تاوان اور اپنا صریح نقصان جانتے ہیں اور ہر وقت اسی کے منتظر رہتے ہیں کہ تم مسلمانوں پر کب بلا و مصیبت آئے ، کب تم حوادث و آفات میں گھر جاؤ لیکن ان کی یہ بد خواہی انہی کے آگے آئے گی ، انہی پر برائی کا زوال آئے گا ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعاؤں کا سننے والا ہے ۔ اور خوب جانتا ہے کہ مستحق امداد کون ہے اور ذلت کے لائق کون ہے ۔ دعاؤں کے طلبگار متبع ہیں ، مبتدع نہیں اعراب کی اس قوم کو بیان فرما کر اب ان میں سے بھلے لوگوں کا حال بیان ہو رہا ہے وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں آخرت کو مانتے ہیں ۔ راہ حق میں خرچ کر کے اللہ کی قربت تلاش کرتے ہیں ، ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں لیتے ہیں ۔ بیشک ان کو اللہ کی قربت حاصل ہے ۔ اللہ انہیں اپنی رحمتیں عطا کر دے گا ۔ وہ بڑا ہی غفور و رحیم ہے ۔
97۔ 1 مزکورہ آیات میں ان منافقین کا تذکرہ تھا جو مدینہ شہر میں رہائش پذیر تھے۔ اور کچھ منافقین وہ بھی تھے جو بادیہ نشین یعنی مدینہ کے باہر دیہاتوں میں رہتے تھے، دیہات کے ان باشندوں کو اعراب کہا جاتا ہے جو اعرابی کی جمع ہے شہریوں کے اخلاق و کردار میں درشتی اور کھردراپن زیادہ پایا جاتا ہے اس طرح ان میں جو کافر اور منافق تھے وہ کفر و نفاق میں بھی شہریوں سے زیادہ سخت اور احکام شریعت سے زیادہ بیخبر تھے اس آیت میں انہی کا تذکرہ اور انکے اسی کردار کی وضاحت ہے۔ بعض احادیث سے بھی ان کے کردار پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلًا ایک موقع پر کچھ اعرابی رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے پوچھا اَتُقَبْلُوْنَ صِبْیَانکُمْ کیا تم اپنے بچے کو بوسہ دیتے ہو صحابہ نے عرض کیا ہاں انہوں نے کہا واللہ ہم تو بوسہ نہیں دیتے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سن کر فرمایا اگر اللہ نے تمہارے دلوں میں سے رحم و شفقت کا جذبہ نکال دیا ہے تو میرا اس میں کیا اختیار ہے۔ (صحیح بخاری) 97۔ 2 اس کی وجہ یہ ہے کہ چوں کہ وہ شہر سے دور رہتے ہیں اور اللہ اور رسول کی باتیں سننے کا اتفاق ان کو نہیں ہوتا۔
[١٠٨] بدوی کافروں اور منافقوں کے خصائل :۔ جنگلوں، صحراؤں اور دیہاتوں میں رہنے والے بدوؤں کی تعداد شہری آبادی سے زیادہ تھی اور یہ سب ایسے لوگ تھے جن کے سامنے زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا ماسوائے اس کے کہ کسی نہ کسی طرح شکم پروری کرلی جائے ان کی زندگی حیوانی زندگی کی سطح پر ہی ہوتی ہے اس سے زیادہ نہ انہیں کبھی سوچنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ وہ سوچ ہی سکتے ہیں۔ مدینہ میں جب اسلامی ریاست کی داغ بیل پڑگئی۔ تو انہیں بھی ایسی موٹی موٹی خبریں پہنچتی رہتی تھیں۔ ان لوگوں کا کوئی اخلاقی نظریہ تو ہوتا ہی نہیں۔ وہ صرف یہ دیکھ رہے تھے کہ ان مسلمانوں اور قریش مکہ میں جو محاذ آرائی شروع ہے تو ان میں سے کون غالب آتا ہے تاکہ جو فریق غالب آئے یہ بھی اس کے ساتھ لگ جائیں۔ اس طرح انہوں نے فتح مکہ کے بعد اسلام تو قبول کرلیا مگر یہ صرف چڑھتے سورج کو سلام کرنے کے مترادف تھا۔ اس سے ان کے اخلاق یا مقاصد میں کوئی بلند نظری پیدا نہیں ہوئی تھی۔ - دین کو سمجھنے کے معاملہ میں دیہاتی لوگ زیادہ اجڈ ہوتے ہیں :۔ وہ اسلام صرف اس لیے لائے تھے کہ اب اسلام لانے میں ہی انہیں زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن جو پابندیاں اسلام کی رو سے عائد ہوتی ہیں مثلاً نماز کا باقاعدہ اہتمام، زکوٰۃ کی ادائیگی، اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد اور اس راہ میں پیش آنے والے مصائب پر صبر اور برداشت وغیرہ ان باتوں کے لیے یہ لوگ ذہنی طور پر تیار نہیں تھے۔ ایسے لوگوں کی طبیعت میں صحرائی زندگی کی وجہ سے اجڈ پن اور اکھڑ پن موجود ہوتا ہے پھر علم و حکمت کی مجلسوں سے دور رہنے کی وجہ سے تہذیب و شائستگی کا اثر اور علم و عرفان کی روشنی بہت کم قبول کرتے ہیں۔ اس لیے ان کا نفاق بھی شہری منافقوں کی نسبت زیادہ سخت ہوتا ہے۔ پھر انہیں ایسے مواقع بھی کم ہی دستیاب ہوتے ہیں کہ اہل علم و اصلاح کی صحبت میں رہ کر دین اسلام کے وہ قاعدے اور قانون معلوم کریں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر پر نازل فرمائے ہیں۔ کیونکہ دین کا علم ہی وہ چیز ہے جو انسان کے دل کو نرم کرتا ہے اور اسے مہذب بناتا ہے اور جو لوگ جہالت میں اس قدر غرق ہوں ان کے دلوں میں نہ نرمی پیدا ہوسکتی ہے اور نہ ہی وہ شرعی احکام کی مصلحتوں کو سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں۔
اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ كُفْرًا وَّنِفَاقًا : ” اَلْاَعْرَابُ “ عرب کے صحرا اور بادیہ میں رہنے والوں کے لیے اسم جنس ہے، واحد کے لیے ” اَعْرَابِی “ اور مؤنث کے لیے ” اَعْرَابِیَّۃٌ“ استعمال ہوتا ہے، جمع ” اَعَارِیْبُ “ ہے ” اَلْعَرَبُ “ اس نسل کے لیے اسم جنس ہے جو عربی زبان بولتی ہے، خواہ شہری ہو یا بادیہ نشیں، اس کا واحد ” عَرَبِیٌّ“ آتا ہے۔ یہاں اعراب سے مراد ان کی جنس کے بعض افراد ہیں ہر شخص نہیں، کیونکہ ان میں سے بعض مخلص اہل ایمان کا ذکر آئندہ آیات میں آ رہا ہے۔ - ” اَلْاَعْرَابُ “ سے مراد وہ لوگ ہیں جو مدینہ منورہ سے دور دیہاتی اور صحرائی علاقوں میں رہتے تھے، ان میں سے اکثر اسلام کی دعوت کو سمجھ کر سچے دل سے مسلمان نہیں ہوئے تھے، بلکہ محض اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت سے مرعوب ہو کر مسلمان ہوگئے تھے۔ انھیں شہر (مدینہ منورہ) میں آنے، مسلمانوں سے میل جول رکھنے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت سے فیض یاب ہونے کا بہت کم موقع ملا تھا، اس لیے یہ نرے گنوار اور اجڈ قسم کے لوگ تھے، جن کے دلوں میں نہ نرمی پیدا ہوئی تھی اور نہ انھیں علم کی ہوا لگی تھی۔ اس لیے ان میں جو منافق تھے ان کا نفاق بھی اہل مدینہ کے نفاق سے سخت تھا۔ بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ بدوی اور شہری لوگوں کی طبیعتوں میں وہی فرق پایا جاتا ہے جو ایک باغ کے میوے اور پہاڑی درخت کے میوے میں محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو بستیوں سے مبعوث فرمایا : (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى) [ یوسف : ١٠٩ ] ” اور ہم نے تجھ سے پہلے نہیں بھیجے مگر کچھ مرد، جن کی طرف ہم ان بستیوں والوں میں سے وحی کیا کرتے تھے۔ “ اور آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام بستیوں کی ماں ام القریٰ مکہ میں پیدا فرمایا، تاکہ وہ شہری معاشرے کی شائستگی اور نرم دلی کے حامل ہوں۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” بدویوں کی سرشت میں بےحکمی، مفاد پرستی اور جہالت رچی بسی ہوئی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال حکمت سے نہ ان پر زیادہ ذمہ داری ڈالی اور نہ ان کو درجات کی بلندی عطا ہوئی۔ “ (موضح) - لوگوں کے ساتھ میل جول کی کمی کی وجہ سے طبیعت میں سختی پیدا ہوجانا فطری سی بات ہے۔ عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو بادیہ میں سکونت رکھے وہ سخت دل ہوجاتا ہے، جو شکار کے پیچھے ہی لگ جائے وہ غافل ہوجاتا ہے اور جو سلطان کے پاس آئے وہ آزمائش میں ڈال دیا جاتا ہے۔ “ [ أحمد : ١؍٣٥٧، ح : ٣٣٦١۔ أبوداوٗد : ٢٨٥٩۔ ترمذی : ٢٢٥٦۔ نسائی : ٤٣١٤، وصححہ الألبانی ]- بعض اعراب کی سخت دلی پر اس حدیث سے کافی روشنی پڑتی ہے جو ام المومنین عائشہ (رض) نے بیان فرمائی کہ اعراب کے کچھ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے (انھوں نے آپ کو حسن یا حسین (رض) کو چومتے دیکھا) تو کہنے لگے : ” کیا تم لوگ اپنے بچوں کو چومتے ہو ؟ “ لوگوں نے کہا : ” ہاں “ تو وہ کہنے لگے : ” لیکن اللہ کی قسم ہم تو نہیں چومتے “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اور کیا میں اختیار رکھتا ہوں، اگر اللہ نے تم سے رحم کرنا نکال لیا ہے۔ “ [ مسلم، الفضائل، باب رحمتہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الصبیان ۔۔ : ٢٣١٧۔ بخاری : ٥٩٩٨ ] مفسرین نے اس مقام پر اعراب کی سخت دلی کے کئی واقعات لکھے ہیں۔
خلاصہ تفسیر - (ان منافقین میں جو) دیہاتی ( ہیں وہ) لوگ ( بوجہ سخت مزاجی کے) کفر اور نفاق میں بہت ہی سخت ہیں اور ( بوجہ بعد علماء و عقلاء کے) ان کو ایسا ہونا ہی چاہئے کہ ان کو ان احکام کا علم نہ ہو جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائے ہیں ( کیونکہ جب جاننے والوں سے دور دور رہیں گے تو ان کا جاہل رہنا تو اس کا لازمی نتیجہ ہے، اور اسی وجہ سے مزاج میں سختی اور مجموعہ سے کفر و نفاق میں شدت ہوگی) اور اللہ تعالیٰ بڑے علم والے بڑی حکمت والے ہیں، وہ ان سب امور پر مطلع ہیں اور حکمت سے مناسب سزا دیں گے) اور ان ( مذکورہ منافقیں) دیہاتیوں میں سے بعض ایسا ہے کہ ( کفر و نفاق و جہل کے علاوہ بخل و عداوت کے ساتھ بھی موصوف ہے، حتی کہ) جو کچھ ( جہاد و زکوٰة وغیرہ کے مواقع میں مسلمانوں کی شرما شرمی) خرچ کرتا ہے اس کو ( مثل) جرمانہ سمجہتا ہے ( یہ تو بخل ہوا) اور ( عداوت یہ ہے کہ) تم مسلمانوں کے واسطے ( زمانہ کی) گردشوں کا منتظر رہتا ہے ( کہ کہیں ان پر کوئی حادثہ پڑجائے تو ان کا خاتمہ ہو سو) برا وقت انہی ( منافقین) پر پڑنے والا ہے ( چناچہ فتوحات کی وسعت ہوئی، کفار ذلیل ہوئے ان کی ساری حسرتیں دل ہی میں رہ گئیں، اور تمام عمر رنج اور خوف میں کٹی) اور اللہ تعالیٰ ( ان کے کفر و نفاق کی باتیں) سنتے ہیں ( اور ان کے دلی خیالات اتخاذ مغرم و تربص دوائر کو) جانتے ہیں ( پس ان سب کی سزا دیں گے) اور بعضے اہل دیہات میں ایسے بھی ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ( پورا پورا) ایمان رکھتے ہیں، اور جو کچھ ( نیک کاموں میں) خرچ کرتے ہیں اس کو عند اللہ قرب حاصل ہونے کا ذریعہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا ( لینے) کا ذریعہ بناتے ہیں ( کیونکہ آپ کی عادت شریفہ تھی کہ ایسے موقع پر خرچ کرنے والے کو دعا دیتے تھے جیسا کہ احادیث میں ہے) یاد رکھو کہ ان کا یہ خرچ کرنا بیشک ان لوگوں کے لئے موجب قربت ( عند اللہ) ہے ( اور دعا کا ہونا تو یہ خود دیکھ سن لیتے ہیں، اس کی خبر دینے کی ضرورت نہ تھی اور وہ قرب یہ ہے کہ) ضرور ان کو اللہ تعالیٰ اپنی ( خاص) رحمت میں داخل کرلیں گے ( کیونکہ) اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والے رحمت والے ہیں ( پس ان کی لغزشیں معاف کرکے اپنی رحمت میں لے لیں گے) ۔- معارف و مسائل - آیات سابقہ میں منافقین مدینہ کا ذکر تھا ان آیات میں ان منافقین کا ذکر ہے جو مدینہ کے مضافات و دیہات کے رہنے والے تھے۔- اعراب یہ لفظ عرب کی جمع نہیں، بلکہ اسم جمع ہے جو دیہات کے باشندوں کے لئے بولا جاتا ہے، اس کا مفرد بنانا ہوتا ہے تو اعرابی کہتے ہیں، جیسے انصار کا مفرد انصاری آتا ہے۔- ان کا حال آیت مذکورہ میں یہ بتلایا کہ یہ کفر و نفاق میں شہر والوں سے بھی زیادہ ہیں، جس کی وجہ یہ بتلائی کہ یہ لوگ علم اور علماء سے دور رہنے کے سبب عموماً جہالت اور قساوت میں مبتلا ہوتے ہیں، سخت دل ہوتے ہیں ( اَجْدَرُ اَلَّا يَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ ) یعنی ان لوگوں کا ماحول ہی ایسا ہے کہ وہ اللہ کی نازل کی ہوئی حدود سے بیخبر رہیں، کیونکہ نہ قرآن ان کے سامنے آتا ہے، نہ اس کے معانی و مطالب اور احکام سے ان کو واقفیت ہوتی ہے۔
اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ كُفْرًا وَّنِفَاقًا وَّاَجْدَرُ اَلَّا يَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَآ اَنْزَلَ اللہُ عَلٰي رَسُوْلِہٖ ٠ ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ ٩٧- عرب ( اعرابي)- العَرَبُ : وُلْدُ إسماعیلَ ، والأَعْرَابُ جمعه في الأصل، وصار ذلک اسما لسكّان البادية .- قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا [ الحجرات 14] ، الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً [ التوبة 97] ، وَمِنَ الْأَعْرابِ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ [ التوبة 99] ، وقیل في جمع الأَعْرَابِ :- أَعَارِيبُ ، قال الشاعر : أَعَارِيبُ ذو و فخر بإفك ... وألسنة لطاف في المقال والأَعْرَابِيُّ في التّعارف صار اسما للمنسوبین إلى سكّان البادية، والعَرَبِيُّ : المفصح، والإِعْرَابُ : البیانُ. يقال : أَعْرَبَ عن نفسه . وفي الحدیث : «الثّيّب تُعْرِبُ عن نفسها» أي : تبيّن . وإِعْرَابُ الکلامِ : إيضاح فصاحته، وخصّ الإِعْرَابُ في تعارف النّحويّين بالحرکات والسّکنات المتعاقبة علی أواخر الکلم،- ( ع ر ب ) العرب حضرت اسمعیل کی اولاد کو کہتے ہیں الاعراب دراصل یہ عرب کی جمع ہے مگر یہ لفظ بادیہ نشین لوگون کے ساتھ مختص ہوچکا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا [ الحجرات 14] بادیہ نشین نے آکر کہا ہم ایمان لے آئے ۔ الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً [ التوبة 97] دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں ۔ وَمِنَ الْأَعْرابِ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ [ التوبة 99] اور بعض نہ دیہاتی ایسے ہیں کہ خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ اعراب کی جمع اعاریب آتی ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( 3011 ) اعاریب ذو و فخر بافک والسنۃ لطاف فی المقابل اعرابی جو جھوٹے فخر کے مدعی ہیں اور گفتگو میں نرم زبان رکھتے ہیں ۔ - الاعرابی :- یہ اعراب کا مفرد ہے اور عرف میں بادیہ نشین پر بولا جاتا ہے العربی فصیح وضاحت سے بیان کرنے والا الاعراب کسی بات کو واضح کردینا ۔ اعرب عن نفسہ : اس نے بات کو وضاحت سے بیان کردیا حدیث میں ہے الثیب تعرب عن نفسھا : کہ شب اپنے دل کی بات صاف صاف بیان کرسکتی ہے ۔ اعراب الکلام کلام کی فصاحت کو واضح کرنا علمائے نحو کی اصطلاح میں اعراب کا لفظ ان حرکاتوسکنات پر بولا جاتا ہے جو کلموں کے آخر میں یکے بعد دیگرے ( حسب عوامل ) بدلتے رہتے ہیں ۔- شد - الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء :- قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] ،- ( ش دد ) الشد - یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے - : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- نِّفَاقُ- ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] - نفاق جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ - جدر - الجِدَار : الحائط، إلا أنّ الحائط يقال اعتبارا بالإحاطة بالمکان، والجدار يقال اعتبارا بالنتوّ والارتفاع، وجمعه جُدُر . قال تعالی: وَأَمَّا الْجِدارُ فَكانَ لِغُلامَيْنِ [ الكهف 82] ، وقال :- جِداراً يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقامَهُ [ الكهف 77] ، وقال تعالی: أَوْ مِنْ وَراءِ جُدُرٍ [ الحشر 14] ، وفي الحدیث : «حتی يبلغ الماء الجدر» «2» ، وجَدَرْتُ الجدار : رفعته، واعتبر منه معنی النتوّ فقیل : جَدَرَ الشجر : إذا خرج ورقه كأنه حمّص، وسمي النبات الناتئ من الأرض جَدَراً ، الواحد : جَدَرَة، وأَجْدَرت الأرض :- أخرجت ذلك، وجُدِرَ «3» الصبي وجُدِّرَ : إذا خرج جدريّه تشبيها بجدر الشجر .- وقیل : الجُدَرِيُّ والجُدَرَةُ : سلعة تظهر في الجسد، وجمعها أَجْدَار، وشاة جَدْرَاء «4» والجَيْدَر : القصیر . اشتق ذلک من الجدار، وزید فيه حرف علی سبیل التهكم حسبما بينّاه في «أصول الاشتقاق» . والجَدِيرُ : المنتهى لانتهاء الأمر إليه انتهاء الشیء إلى الجدار، وقد جَدُرَ بکذا فهو جَدِير، وما أَجْدَرَهُ بکذا وأَجْدِرْ به .- ( ج د ر ) الجدار - کے معنی حائط ( دیوار ) ہی کے ہیں ۔ لیکن اس اعتبار سے کہ وہ زمین سے اونچی اور بلند ہوتی ہے اسے جدار کہا جاتا بنے اور اس اعتبار سے کہ احاطہ کئے ہوئے ہوتی ہے اسے حائط کہا جاتا ہے جدار کی جمع جدر آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَأَمَّا الْجِدارُ فَكانَ لِغُلامَيْنِ [ الكهف 82] اور وہ جو دیوار تھی سو دو یتیم لڑکوں کی تھی ۔ جِداراً يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقامَهُ [ الكهف 77] ایک دیوار دیکھی جو ) جھک کر ) گرا چاہتی تھی خضر نے اس کو سیدھا کردیا ۔ أَوْ مِنْ وَراءِ جُدُرٍ [ الحشر 14] یا دیواروں کی اوٹ میں ۔ حدیث میں ہے جب تک کہ پانی دیواروں تک پہنچ جائے ۔ دیوار کو وانچا کردیا ۔ اور اس میں معنی ارتفاع کے اعتبار سے جدر الشجرۃ کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں چنے کے دانے کی طرح درخت کے کونپل نکل آئے اسی طرح اس طرح وہ روئید گی جو زمین پر ظاہر ہو ۔ اسے جدر کہا جاتا ہے اس کا واحد جدرۃ ہے اور اجدرات الارج کے معنی ہیں زمین سبزہ زار ہوگئی ۔ جدر ( ن) الصبی وجد ر بچے کو چیچک نکل آئی ۔ یہ محاورہ درخت کے کونپل کیساتھ تشبیھا بولا جاتا ہے بعض نے کہا کہ الجدری والجدرۃ کے معنی غددویا آبلہ کے ہیں جو جسم پر ظاہر ہوتا ہے اس کی جمع اجدار ہے شاۃ جدار گو سپند آبلہ روہ ۔ الجیدر کوتاہ قدیہ بھی جدار سے مشتق ہے لیکن بطور تحکم اس میں یا زائدہ کردی گئی ہے حقارت کو ظاہر کرنے کے لئے اس میں یا بڑھا دی گئی ہے ۔ جیسا کہ ہم اپنی کتاب اصول الا شنقاق میں بیان کرچکے ہیں ۔ الجدیر ( ہنرا وار ) اس کے معنی منتہی کے ہیں ۔ کیونکہ اس تک کسی امر کی انتہا ہوتی ہے جیسا کہ دیوار تک پہنچ کر کوئی چیز کے لائق ہونے کے ہیں اس سے صیغہ صفت جدیر آتا ہے مااجدر ہ واجدربۃ ( صیغہ تعجب ) وہ اسکے لئے کس قدر زیبا ہے - حدَّ- الحدّ : الحاجز بين الشيئين الذي يمنع اختلاط أحدهما بالآخر، يقال : حَدَدْتُ كذا :- جعلت له حدّا يميّز، وحَدُّ الدار : ما تتمیز به عن غيرها، وحَدُّ الشیء : الوصف المحیط بمعناه المميّز له عن غيره، وحَدُّ الزنا والخمر سمّي به لکونه مانعا لمتعاطيه من معاودة مثله، ومانعا لغیره أن يسلک مسلکه، قال اللہ تعالی: وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ- [ الطلاق 1] ، وقال تعالی: تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة 229] ، وقال : الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة 97] ، أي : أحكامه، وقیل : حقائق معانيه، و جمیع حدود اللہ علی أربعة أوجه :- إمّا شيء لا يجوز أن يتعدّى بالزیادة عليه ولا القصور عنه، كأعداد رکعات صلاة الفرض .- وإمّا شيء تجوز الزیادة عليه ولا تجوز النقصان عنه - وإمّا شيء يجوز النقصان عنه ولا تجوز الزیادة عليه .- وإمّا شيء يجوز کلاهماوقوله تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة 5] ، أي : يمانعون، فذلک إمّا اعتبارا بالممانعة وإمّا باستعمال الحدید . - ( ح د د ) الحد - جو دو چیزوں کے درمیان ایسی روک جو ان کو با ہم ملنے سے روک دے حدرت کذا میں نے فلاں چیز کے لئے ھڈ ممیز مقرر کردی ۔ حدالداد مکان کی حد جس کی وجہ سے وہ دوسرے مکان سے ممیز ہوتا ہے ۔ حد الشیء کسی چیز کا وہ وصف جو دوسروں سے اسے ممتاز کردے اور زنا و شراب کی سزا کو بھی حد اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس کا دوبارہ ارتکاب کرنے سے انسان کو روکتی ہے ۔ اور دوسروں کو بھی اس قسم کے جرائم کا ارتکاب کرنے سے روک دیتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ [ الطلاق 1] اور یہ خدا کی حدیں ہیں ۔ جو خدا کی حدود سے تجاوز کرے گا ۔ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة 229] یہ خدا کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ان سے تجاوز مت کرو ۔ اور آیت کریمہ ؛ الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة 97] دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں اور اس قابل ہیں کہ یہ جو احکام ( شریعت ) خدا نے نازل فرمائے ہیں ان سے واقف ( ہی ) نہ ہوں ۔ میں بعض نے حدود کے معنی احکام کئے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ حقائق و معانی مراد ہیں ۔ جملہ حدود الہی چار قسم پر ہیں - ۔ ( ا) ایسے حکم جن میں نقص و زیادہ دونوں جائز ہوتے ہیں جیسے فرض نمازوں میں تعداد رکعات کو جو شارع (علیہ السلام) نے مقرر کردی ہیں ان میں کمی بیشی قطعا جائز نہیں ہے (2) وہ احکام جن میں اضافہ تو جائز ہو لیکن کمی جائز نہ ہو (3) وہ احکام جو اس دوسری صورت کے برعکس ہیں یعنی ان کمی تو جائز ہے لیکن ان پر اضافہ جائز نہیں ہے ۔ (4) اور آیت کریمہ : إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة 5] جو لوگ خدا اور اسکے رسول کی مخالفت کرتے ہیں ۔ یحادون کے معنی اللہ رسول کی مخالفت کے ہیں اور اس مخالف کو یحدون کہنا یا تو روکنے کے اعتبار سے ہے اور یا الحدید کے استعمال یعنی جنگ کی وجہ سے - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - حكيم - فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر - لحكمة» أي : قضية صادقة- لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے
قول باری ہے الاعذاب اشدکفرا ً ونفاقا ً واجدد الا یعلموا حدود ما انزل اللہ علی رسولہ ، یہ بدوی عرب کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور ان کے معاملہ میں اس امر کے امکانات زیادہ ہیں کہ اس دین کے حدود سے ناواقف رہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے۔ آیت میں ہدویوں کے بارے میں خبرکومطلق رکھا گیا ہے لیکن اس سے مراد ان کی اکثریت ہے ، یہ وہ لوگ تھے جو منافقین کو کفر اور نفاق پر انگیختہ کیا کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق بتایا کہ اس امر کے زیادہ امکانات ہیں کہ یہ لوگ اس دین کے حدود سے ناواقف رہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے اس لیے کہ انہیں قرآن سننے کے بہت کم مواقع نصیب ہوتے تھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت سے بھی اکثر محروم رہتے تھے اس لیے یہ ان منافقین کی بہ نسبت زیادہ جاہل تھے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس موجود ہوتے ، ان لوگوں کو قرآن اور احکام الٰہی سننے کے زیادہ مواقع ہاتھ آتے تھے ، اس بنا پر بدوی عرب ان کی بہ نسبت شریعت کے حدود واحکام سے زیادہ ناواقف تھے۔ بدوی لوگ ہمارے زمانے میں بلکہ تمام زمانوں میں احکام و سنن سے پہلے کی طرح ناواقف ہیں اگرچہ اب وہ سب کے سب مسلمان ہیں اس لیے کہ جو لوگ شہری آبادیوں سے دور رہتے ہوں اور علمائے دین کی مجالست انہیں نصیب نہ ہو تو قدرتی طورپر وہ ان لوگوں کی نسبت احکام و سنن سے زیادہ ناواقف ہوں گے جنہیں اس قسم کی مجاست میسرآتی ہو اور احکام شریعت کی آواز ان کے کانوں میں پڑتی ہو ۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب نے نماز میں بدوی کو امام بنانا مکروہ سمجھا ہے۔- درج بالا آیت بدویوں پر کفر اور نفاق کے اسم کا جو اطلاق کیا گیا ہے وہ ان میں سے بعض کے ساتھ خاص ہے۔ اس کا تعلق سب کے ساتھ نہیں ہے اس پر نسق تلاوت میں یہ قول باری دلالت کرتا ہے۔ ومن الاعراب من یومن باللہ والیوم الاخر ویتخذ ما ینفق قربات عند اللہ وصلوات الرسول اور انہی بدویوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے ہاں تقرب کا اور رسول کی طرف سے رحمت کی دعائیں لینے کا ذریعہ بناتے ہیں تا آخر آیت ۔ حضرت ابن عباس (رض) اور حسن کا قول ہے کہ صلوٰت الرسول سے مراد بخشش کی وہ دعائیں ہیں جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے لیے مانگا کرتے تھے۔ قتادہ کا قول ہے کہ اس سے مراد خیر و برکت کی وہ دعائیں ہیں جو آپ انہیں دیا کرتے تھے۔
(٩٧) اور ان منافقین میں اسد وغطفان کے دیہاتی سخت مزاجی کی وجہ سے کفر ونفاق میں بہت ہی پکے ہیں اور ان کو ایسا ہونا بھی چاہیے کیونکہ انھیں ان احکامات اور فرائض کا علم .... جو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان منافقین کے بارے میں خوب جانتے ہیں اور بڑی حکمت والے ہیں، ان سزاؤں پر جو ان کے لیے تجویز کی ہیں یا یہ کہ اس شخص کی جہالت کا علم رکھنے والے ہیں جو علم دین کے حصول کو چھوڑے اور اس فیصلہ فرمانے میں کہ جو علم کو چھوڑے وہ جاہل ہے، حکمت والے ہیں۔
آیت ٩٧ (اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ کُفْرًا وَّنِفَاقًا وَّاَجْدَرُ اَلاَّ یَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ ط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ) - یعنی اہل مدینہ تو مسلسل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت سے فیض یاب ہو رہے تھے ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جمعہ کے خطبات سنتے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصیحت کا ایک سلسلہ شب و روز ان کے درمیان چلتا رہتا تھا۔ مگر ان بادیہ نشین لوگوں کو تعلیم و تعلّم کے ایسے مواقع میسر نہیں تھے۔ لہٰذا فطری اور منطقی طور پر کفر و شرک اور نفاق کی شدت ان لوگوں میں نسبتاً زیادہ تھی۔
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :95 “جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں یہاں بدوی عربوں سے مراد وہ دیہاتی و صحرائی عرب ہیں جو مدینہ کے اطراف میں آباد تھے ۔ یہ لوگ مدینہ میں ایک مضبوط اور منظم طاقت کو اُٹھتے دیکھ کہ پہلے تو مرعوب ہوئے ۔ پھر اسلام اور کفر کی آویزشوں کے دوران میں ایک مدت تک موقع شناسی و ابن الوقتی کی روش پر چلتے رہے ۔ پھر جب اسلامی حکومت کا اقتدار حجاز و نجد کے ایک بڑے حصّے پر چھا گیا اور مخالف قبیلوں کا زور اس کے مقابلہ میں ٹوٹنے لگا تو ان لوگوں نے مصلحت وقت اسی میں دیکھی کہ دائرہ اسلام میں داخل ہو جائیں ۔ لیکن ان میں کم لوگ ایسے تھے جو اس دین کو دین حق سمجھ کر سچے دل سے ایمان لائے ہوں اور مخلصانہ طریقہ سے اس کے تقاضوں کو پورا کرنے پر آمادہ ہوں ۔ بیشتر بدویوں کے لیے قبول اسلام کی حیثیت ایمان و اعتقاد کی نہیں بلکہ محض مصلحت اور پالیسی کی تھی ۔ ان کی خواہش یہ تھی کہ ان کے حصہ میں صرف وہ فوائد آجائیں جو برسر اقتدار جماعت کی رکنیت اختیار کرنے سے حاصل ہوا کرتے ہیں ۔ مگر وہ اخلاقی بندشیں جو اسلام ان پر عائد کرتا تھا ، وہ نماز روزے کی پابندیاں جو اس دین کو قبول کرتے ہی ان پر لگ جاتی تھیں ، وہ زکوۃ جو باقاعدہ تحصیل داروں کے ذریعہ سے ان کے نخلستانوں اور ان کے گلوں سے وصول کی جاتی تھی ، وہ ضبط و نظم جس کے شکنجے میں وہ اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسے گئے تھے ، وہ جان و مال کی قربانیاں جو لوٹ مار کی لڑائیوں میں نہیں بلکہ خالص راہ خدا کے جہاد میں آئے دن ان سے طلب کی جارہی تھیں ، یہ ساری چیزیں ان کو شدت کے ساتھ ناگوار تھیں اور وہ ان سے پیچھا چھڑانے کے لیے ہر طرح کی چالبازیاں اور بہانہ سازیاں کرتے رہتے تھے ۔ ان کو اس سے کچھ بحث نہ تھی کہ حق کیا ہے اور ان کی اور تمام انسانوں کی حقیقی فلاح کس چیز میں ہے ۔ انہیں جو کچح بھی دلچسپی تھی وہ اپنے معاشی مفاد ، اپنی آسائش ، اپنی زمینوں ، اپنے اونٹوں اور بکریوں اور اپنے خیمے کے آس پاس کی محدود دنیا سے تھی ۔ اس سے بالاتر کسی چیز کے ساتھ وہ اس طرح کی عقیدت تو رکھ سکتے تھے جیسی پیروں اور فقیروں سے رکھی جاتی ہے کہ یہ ان کے آگے نذر و نیاز پیش کریں اور وہ اس کے عوض ترقی روزگار اور آفات سے تحفظ اور ایسی ہی دوسری اغراض کے لیے ان کو تعویذ گنڈے دیں اور ان کے لیے دعائیں کریں ۔ لیکن ایسے ایمان و اعتقاد کے لیے وہ تیار نہ تھے جو ان کی پوری تمدنی ، معاشی اور معاشرتی زندگی کو اخلاق اور قانون کے ضابطہ میں کس دے اور مزید برآں ایک عالمگیر اصلاحی مشن کے لیے ان سے جان و مال کی قربانیوں کا بھی مطالبہ کرے ۔ ان کی اسی حالت کو یہاں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ شہریوں کی بہ نسبت یہ دیہاتی و صحرائی لوگ زیادہ منافقانہ رویہ رکھتے تھے اور حق سے انکار کی کیفیت ان کے اندر زیادہ پائی جاتی ہے ۔ پھر اس کی وجہ بھی بتا دی گئی ہے کہ شہری لوگ تو اہل علم اور اہل حق کی صحبیت سے مستفید ہو کر کچھ دین کو اور اس کی حدود کو جان بھی لیتے ہیں مگر یہ بدوی چونکہ ساری ساری عمر بالکل ایک معاشی حیوان کی طرح شب و روز رزق کے پھیر ہی میں پڑے رہتے ہیں اور حیوانی زندگی کی ضروریات سے بلند تر کسی چیز کی طرف توجہ کرنے کا انہیں موقع ہی نہیں ملتا ۔ اس لیے دین اور اس کے حدود سے ان کے ناواقف رہنے کے امکانات زیادہ ہیں ۔ یہاں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کر دینا غیر موزوں نہ ہوگا کہ ان آیات کے نزول سے تقریبا دو سال بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی عہد میں ارتداد اور منعِ زکوۃ کا جو طوفان برپا ہوا تھا اس کے اسباب میں ایک بڑا سبب یہی تھا جس کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے ۔
74: یعنی منافقت کے علاوہ ان کی ایک خرابی یہ ہے کہ انہوں نے مدینہ منورہ کے مسلمانوں سے میل جول بھی نہیں رکھا جس کے ذریعے ان کو شریعت کے احکام کا علم ہوتا۔