98۔ 1 اب ان دیہاتیوں کی دو قسمیں بیان کی جا رہی ہیں یہ پہلی قسم ہے۔ 98۔ 2 غُرْم تاوان اور جرمانے کو کہتے ہیں۔ یعنی ایسا خرچ ہو جو انسان کو نہایت ناگواری سے ناچار کرنا پڑجاتا ہے۔ 98۔ 3 دَوَائِرُ ۔ دَا ئِرَۃ کی جمع ہے، گردش زمانہ یعنی مصائب و آلام یعنی وہ منتظر رہتے ہیں کہ مسلمان زمانے کی گردشوں یعنی مصائب کا شکار ہوں۔ 98۔ 4 یہ بد دعا یا خبر ہے کہ زمانے کی گردش ان پر ہی پڑے۔ کیونکہ وہی اس کے مستحق ہیں۔
[١٠٩] بدوی منافق اور زکوٰۃ :۔ یعنی وہ اسلام میں داخل تو اس لیے ہوئے تھے کہ کچھ دنیوی مفادات حاصل ہوں گے مگر یہاں ان مفادات کے ساتھ کچھ لینے کے دینے بھی پڑگئے۔ تو سمجھنے لگے کہ ہم تو پہلے ہی اچھے تھے لہذا وہ پھر کسی گردش زمانہ کے منتظر بیٹھے ہیں کہ کب اسلام کا خاتمہ ہو اور اس کی پابندیوں سے ان کی جان چھوٹے بالخصوص زکوٰۃ سے جسے وہ تاوان سمجھ کر انتہائی ناخوشی اور کراہت کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ پھر جب ڈیڑھ دو سال بعد رسول اللہ کی وفات ہوگئی تو ان لوگوں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور اپنی پہلی ہی فرصت میں ان میں سے بعض تو اسلام ہی سے پھرگئے اور کفر کا راستہ اختیار کرلیا اور بعض نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا تھا۔ جن سے سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے جہاد کیا تھا۔- [١١٠] بدوی منافقوں کی رسوائی :۔ ایک سزا تو انہیں یہ مل رہی ہے کہ منافق ہونے کے باوجود انہیں اسلام کی پابندیاں ادا کرنا پڑ رہی ہیں۔ اور جب ان لوگوں نے زکوٰۃ سے انکار یا ارتداد کی راہ اختیار کی تو ان کے خلاف جہاد کیا گیا۔ جس میں ان لوگوں کو ہزیمت ہوئی۔ اسلام کو اللہ نے سربلند کرنا ہی تھا۔ البتہ یہ لوگ مارے بھی گئے جو بچے وہ ذلیل و رسوا بھی ہوئے اور زکوٰۃ بھی پوری کی پوری ادا کرنا پڑی۔
وَمِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ يَّتَّخِذُ : ” مَغْرَمًا “ سے مراد تاوان، چٹی اور جرمانہ ہے، قرض کو بھی ” مَغْرَمًا “ کہہ لیتے ہیں۔ قرض خواہ کو غریم کہتے ہیں، کیونکہ غرام کا معنی لازم ہونا، چمٹنا بھی ہے۔ تاوان بھی لازم ہوجاتا ہے اور قرض خواہ بھی جان نہیں چھوڑتا، سورة فرقان میں ہے : (اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا) [ الفرقان : ٦٥ ] ” بیشک اس کا عذاب ہمیشہ چمٹ جانے والا ہے۔ “ یعنی بعض اعراب ایسے ہیں کہ زکوٰۃ ہو یا جہاد، اس کے لیے جب بھی چندہ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر نہیں اور نہ دلی جذبہ کے ساتھ، بلکہ محض چٹی یا جرمانہ سمجھ کر بادل ناخواستہ ادا کرتے ہیں کہ اگر ادا نہ کریں گے تو مسلمان انھیں مشتبہ نگاہوں سے دیکھیں گے اور ان کے درمیان زندگی بسر کرنا دو بھر ہوجائے گا۔- وَّيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَاۗىِٕرَ : ” الدَّوَاۗىِٕرَ “ ” دَاءِرَۃٌ“ کی جمع ہے، جو ” دَارَ یَدُوْرُ دَوْرًا “ (گھومنا) سے اسم فاعل ہے، چکر، گھومنے والا، یعنی وہ انتظار کر رہے ہیں کہ تم پر کب کوئی اچانک مصیبت اترتی ہے اور تم کب زمانے کے کسی چکر کے گھیرے میں آ کر زوال کا شکار ہوتے ہو، یا یہ کہ کب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوتے ہیں اور مشرکین کو تم پر غلبہ ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی زبانی بدگوئی اور دلی بدخواہی کو ہی نہیں، بلکہ ہر بات کو سننے والا اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ - عَلَيْهِمْ دَاۗىِٕرَةُ السَّوْءِ : ” السَّوْءِ “ سَاءَ ہُ یَسُوْءُہُ سَوْءً ا “ سین کے فتح کے ساتھ مصدر ہے، جب کسی کے ساتھ ایسا معاملہ کیا جائے جو اسے برا لگے اور سین کے ضمہ کے ساتھ اسم مصدر ہے، یعنی یہ برا چکر انھی پر آنے والا ہے، یا بددعا ہے کہ برا چکر انھی پر آئے، مگر اللہ تعالیٰ کو بددعا کی کیا ضرورت ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ ان کی اس بدخواہی کا تقاضا ہے کہ ان پر یہ بددعا کی جائے کہ برا چکر انھی پر چلے۔
دوسری آیت میں بھی انہی اعراب کا ایک حال یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ لوگ جو زکوٰة وغیرہ میں خرچ کرتے ہیں اس کو ایک تاوان سمجھ کردیتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ دل میں ایمان تو ہے نہیں محض اپنے کفر کو چھپانے کے لئے نماز بھی پڑھ لیتے ہیں، اور زکوٰة فرض بھی دیدیتے ہیں، مگر دل میں گڑہتے ہیں کہ یہ مال فضول گیا، اسی لئے اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کسی طرح مسلمانوں پر کوئی مصیبت پڑے اور ان کو شکست ہوجائے تو اس تاوان سے ہماری نجات ہو الدَّوَاۗىِٕرَ دائرہ کی جمع ہے، عر بی نعت کے اعتبار سے دائرہ اس بدلی ہوئی حالت کو کہتے ہیں جو پہلی اچھی حالت کے بعد بری ہوجائے، اسی لئے قرآن کریم نے ان کے جواب میں فرمایا (آیت) عَلَيْهِمْ دَاۗىِٕرَةُ السَّوْءِ ، یعنی انہی پر بری حالت آنے والی ہے، اور یہ اپنے ان افعال و اقوال کی بناء پر اور زیادہ ذلیل ہوں گے۔
وَمِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ يَّتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ مَغْرَمًا وَّيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَاۗىِٕرَ ٠ ۭ عَلَيْہِمْ دَاۗىِٕرَۃُ السَّوْءِ ٠ ۭ وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ ٩٨- عرب ( اعرابي)- العَرَبُ : وُلْدُ إسماعیلَ ، والأَعْرَابُ جمعه في الأصل، وصار ذلک اسما لسكّان البادية .- قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا [ الحجرات 14] ، الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً [ التوبة 97] ، وَمِنَ الْأَعْرابِ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ [ التوبة 99] ، وقیل في جمع الأَعْرَابِ :- أَعَارِيبُ ، قال الشاعر : أَعَارِيبُ ذو و فخر بإفك ... وألسنة لطاف في المقال والأَعْرَابِيُّ في التّعارف صار اسما للمنسوبین إلى سكّان البادية، والعَرَبِيُّ : المفصح، والإِعْرَابُ : البیانُ. يقال : أَعْرَبَ عن نفسه . وفي الحدیث : «الثّيّب تُعْرِبُ عن نفسها» أي : تبيّن . وإِعْرَابُ الکلامِ : إيضاح فصاحته، وخصّ الإِعْرَابُ في تعارف النّحويّين بالحرکات والسّکنات المتعاقبة علی أواخر الکلم،- ( ع ر ب ) العرب حضرت اسمعیل کی اولاد کو کہتے ہیں الاعراب دراصل یہ عرب کی جمع ہے مگر یہ لفظ بادیہ نشین لوگون کے ساتھ مختص ہوچکا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا [ الحجرات 14] بادیہ نشین نے آکر کہا ہم ایمان لے آئے ۔ الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً [ التوبة 97] دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں ۔ وَمِنَ الْأَعْرابِ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ [ التوبة 99] اور بعض نہ دیہاتی ایسے ہیں کہ خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ اعراب کی جمع اعاریب آتی ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( 3011 ) اعاریب ذو و فخر بافک والسنۃ لطاف فی المقابل اعرابی جو جھوٹے فخر کے مدعی ہیں اور گفتگو میں نرم زبان رکھتے ہیں ۔ - الاعرابی :- یہ اعراب کا مفرد ہے اور عرف میں بادیہ نشین پر بولا جاتا ہے العربی فصیح وضاحت سے بیان کرنے والا الاعراب کسی بات کو واضح کردینا ۔ اعرب عن نفسہ : اس نے بات کو وضاحت سے بیان کردیا حدیث میں ہے الثیب تعرب عن نفسھا : کہ شب اپنے دل کی بات صاف صاف بیان کرسکتی ہے ۔ اعراب الکلام کلام کی فصاحت کو واضح کرنا علمائے نحو کی اصطلاح میں اعراب کا لفظ ان حرکاتوسکنات پر بولا جاتا ہے جو کلموں کے آخر میں یکے بعد دیگرے ( حسب عوامل ) بدلتے رہتے ہیں ۔- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- غرم - الغُرْمُ : ما ينوب الإنسان في ماله من ضرر لغیر جناية منه، أو خيانة، يقال : غَرِمَ كذا غُرْماً ومَغْرَماً ، وأُغْرِمَ فلان غَرَامَةً. قال تعالی: إِنَّا لَمُغْرَمُونَ [ الواقعة 66] ، فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ- [ القلم 46] ، يَتَّخِذُ ما يُنْفِقُ مَغْرَماً [ التوبة 98] . والغَرِيمُ يقال لمن له الدّين، ولمن عليه الدّين . قال تعالی: وَالْغارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 60] ، والغَرَامُ : ما ينوب الإنسان من شدّة ومصیبة، قال : إِنَّ عَذابَها كانَ غَراماً [ الفرقان 65] ، من قولهم : هو مُغْرَمٌ بالنّساء، أي : يلازمهنّ ملازمة الْغَرِيمِ. قال الحسن : كلّ غَرِيمٍ مفارق غَرِيمَهُ إلا النّار «1» ، وقیل : معناه : مشغوفا بإهلاكه .- ( غ ر م ) الغرم ( مفت کا تاوان یا جرمانہ ) وہ مالی نقصان جو کسی قسم کی خیانت یا جنایت ( جرم) کا ارتکاب کئے بغیر انسان کو اٹھانا پڑے غرم کذا غرما ومبغرما فلاں نے نقصان اٹھایا اغرم فلان غرامۃ اس پر تاوان پڑگیا ۔ قرآن میں ہے :إِنَّا لَمُغْرَمُونَ [ الواقعة 66]( کہ ہائے ) ہم مفت تاوان میں پھنس گئے ۔ فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ القلم 46] کہ ان پر تاوان کا بوجھ پڑ رہا ہے ۔ يَتَّخِذُ ما يُنْفِقُ مَغْرَماً [ التوبة 98] . کہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں ۔ اور غریم کا لفظ مقروض اور قرض خواہ دونوں کے لئے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالْغارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 60] اور قرضداروں ( کے قرض ادا کرنے ) کے لئے اور خدا کی راہ میں ۔ اور جو تکلیف یا مصیبت انسان کی پہنچتی ہے اسے غرام کہاجاتا ہے ۔ قرآں میں ہے : إِنَّ عَذابَها كانَ غَراماً [ الفرقان 65] کہ اس کا عذاب بڑی تکلیف کی چیز ہے ۔ یہ ھو مغرم باالنساء ( وہ عورتوں کا دلدا وہ ہے ) کے محاورہ سے ماخوذ ہے یعنی وہ شخص جو غریم ( قرض خواہ ) کی طرح عورتوں کے پیچھے پیچھے پھرتا ہو ۔ حسن فرماتے ہیں کل غریم مفارق غریمۃ الاالنار یعنی ہر قرض خواہ اپنے مقروض کو چھوڑ سکتا ہے ۔ لیکن آگ اپنے غرماء کو نہیں چھوڑے گی ۔ بعض نے عذاب جہنم کو غرام کہنے کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ وہ عذاب ان کا اسی طرح پیچھا کرے گا ۔ گویا وہ انہیں ہلاک کرنے پر شیفتہ ہے ۔- ربص - التّربّص : الانتظار بالشیء، سلعة کانت يقصد بها غلاء، أو رخصا، أو أمرا ينتظر زواله أو حصوله، يقال : تربّصت لکذا، ولي رُبْصَةٌ بکذا، وتَرَبُّصٌ ، قال تعالی: وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ [ البقرة 228] - ( ر ب ص ) التربص - کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ خواہ وہ انتظار سامان تجارت کی گرانی یا ارزانی کا ہو یا کسی امر وا قع ہونے یا زائل ہونیکا انتظار ہو ۔ کسی چیز کا انتظار کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ [ البقرة 228] عورتوں کو چاہئے کہ انتظار کریں - دَّائرَةُ- : عبارة عن الخطّ المحیط، يقال : دَارَ يدور دورانا، ثم عبّر بها عن المحادثة . والدّوّاريّ : الدّهر الدّائر بالإنسان من حيث إنه يُدَوِّرُ بالإنسان، ولذلک قال الشاعر : والدّهر بالإنسان دوّاريّ والدّورة والدّائرة في المکروه، كما يقال : دولة في المحبوب، وقوله تعالی: نَخْشى أَنْ تُصِيبَنا دائِرَةٌ [ المائدة 52] ، والدّوّار : صنم کانوا يطوفون حوله . والدّاريّ : المنسوب إلى الدّار، وخصّص بالعطّار تخصیص الهالكيّ بالقین قال صلّى اللہ عليه وسلم : «مثل الجلیس الصّالح کمثل الدّاريّ» ويقال للازم الدّار : داريّ.- وقوله تعالی: وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوائِرَ عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ التوبة 98] ، أي : يحيط بهم السّوء إحاطة الدّائرة بمن فيها، فلا سبیل لهم إلى الانفکاک منه بوجه . وقوله تعالی: إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجارَةً حاضِرَةً تُدِيرُونَها بَيْنَكُمْ [ البقرة 282] ، أي : تتداولونها وتتعاطونها من غير تأجيل .- الدائرۃ ۔ خط محیط ( سرکل ) کو کہتے ہیں یہ دار یدور دورانا سے ہے جس کے منعی چکر لگاتا کے ہیں پھر مصیبت گردش زمانہ کو بھی دائرۃ کہہ دیا جاتا ہے اسی مناسبت سے زمانہ کو ۔۔۔ الدواوی کہتے کیونکہ اس کی کرو ستین بھی انسان پر گھومتی رہتی ہیں چناچہ شاعر نے کہا ہے کہ زمانہ انسان کو گھما رہا ہے ۔ اور الدورۃ والدائرہ کا لفظ مکروہ چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اس کے بالمقابل جو محبوب چیز گھوم کر آئے اسے دولۃ کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ نَخْشى أَنْ تُصِيبَنا دائِرَةٌ [ المائدة 52] ہمیں خوف ہے کہ ہم پر زمانے کی گردش نہ آجائے ( دائرۃ کی جمع دو ئر آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوائِرَ عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ التوبة 98] کہ وہ تمہارے حق میں مصیبتوں کے منتظر ہیں انہی پر بری مصیبت واقع ہو یعنی تباہی اور بربادی انہیں ہر طرف سے اس طرح گھیرلے جیسا کہ کوئی شخص دائرہ کے اندر ہوتا ہے ۔ اور ان کے لئے اس بر بادی سے نکلنے کی کوئی صورت باقی نہ رہے الدوار ۔ ایک بت کا نام ہے جس کے گرد اگر د لوگ طواف کیا کرتے تھے ۔ الداری ۔ یہ الدار کی طرح منسوب ہے مگر عطار ( عطر فروش ) کے ساتھ مخصوص ہوچکا ہے جیسا کہ الھال کی کا لفظ قین یعنی لوہار پر خاص کر بولا جاتا ہے ۔ حدیث میں ہے کہ نیک صحبتیں کی مثال عطار کی سی ہے ۔ اور جو شخص گھر کے اندر ہی جم کر بیٹھا رہے ۔ باہر نہ نکلے اسے بھی داری کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجارَةً حاضِرَةً تُدِيرُونَها بَيْنَكُمْ [ البقرة 282] ہاں اگر سودا دست بدست ہو جو تم آپس میں دیتے ہو ۔ یعنی نقدار اور ہاتھوں ہاتھ لین دین ہو اور اس میں کسی قسم کی تا خیر نہ ہو ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان :- أحدهما : إدراک ذات الشیء .- والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له،- أو نفي شيء هو منفيّ عنه .- فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو :- لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] .- والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله :- فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله :- لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت .- والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ.- فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم .- والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات .- ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ،- وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔- ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں - ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛
(٩٨) اور ان اسد و غطفان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو مسلمانوں کی خاطر جہاد کے موقع پر خرچ کرتے ہیں، اسے پیسے کا ضیاع سمجھتے ہیں اور مسلمانوں کے خاتمے کے منتظر رہتے ہیں، ان منافقین پر برا وقت پڑنے والا ہے اور ان کا انجام برا ہونے والا ہے، اللہ تعالیٰ ان کے کفر ونفاق کی باتوں کو سننے والے اور ان کی عاقبت جاننے والے ہیں،
آیت ٩٨ (وَمِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یَّتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ مَغْرَمًا) - یعنی زکوٰۃ ‘ عشر وغیرہ کی ادائیگی جو اسلامی نظام حکومت کے تحت ان پر عائد ہوئی ہے یہ لوگ اس کو تاوان سمجھتے ہوئے بڑی ناگواری سے ادا کرتے ہیں ‘ اس لیے کہ اس سے پہلے اس علاقے میں نہ تو کوئی ایسا نظام تھا اور نہ ہی یہ لوگ محصولات وغیرہ ادا کرنے کے عادی تھے۔ - (وَّیَتَرَبَّصُ بِکُمُ الدَّوَآءِرَط - یہ لوگ بڑی بےصبری سے انتظار کر رہے ہیں کہ گردش زمانہ کے باعث مسلمانوں کے خلاف کچھ ایسے حالات پیدا ہوجائیں جن سے مدینہ کی یہ اسلامی حکومت ختم ہوجائے اور وہ ان پابندیوں سے آزاد ہوجائیں۔- (عَلَیْہِمْ دَآءِرَۃُ السَّوْءِط وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ) - ان کی منافقت جو ان کے دلوں کا روگ بن چکی ہے ‘ وہی اصل برائی ہے جو ان پر مسلط ہے۔
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :96 مطلب یہ ہے کہ جو زکوۃ ان سے وصول کی جاتی ہے اسے یہ ایک جرمانہ سمجھتے ہیں ۔ مسافروں کی ضیافت و مہمانداری کا جو حق ان پر عائد کیا گیا ہے وہ ان کی بری طرح کھلتا ہے ۔ اور اگر کسی جنگ کے موقع پر یہ کوئی چندہ دیتے ہیں تو اپنے دلی جذبہ سے رضائے الہٰی کی خاطر نہیں دینے بلکہ بادلِ ناخواستہ اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے دیتے ہیں ۔
75: یعنی یہ لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمان مصیبت کے کسی ایسے چکر میں پڑجائیں کہ ان لوگوں کو اس قسم کے احکام سے آزادی مل جائے جن پر عمل کرنا اُنہیں بہت مشکل معلوم ہوتا ہے۔ خاص طور سے غزوۂ تبوک کے موقع پر ان لوگوں کو یہ اُمید لگی ہوئی تھی کہ اس مرتبہ مسلمانوں کا مقابلہ روم کی عظیم طاقت سے ہورہا ہے، اس لئے شاید اس بار وہ رومیوں کے ہاتھوں شکست کھا کر اپنی ساری طاقت کھو بیٹھیں گے۔ آگے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ درحقیقت یہ لوگ خود نفاق کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں، جو انہیں دُنیا اور آخرت دونوں کی رسوائی میں مبتلا کرکے رہے گا۔