Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

پاک و شفاف اوراق کی زینت قرآن حکیم: اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں اور مشرکین سے مراد بت پوجنے والے عرب اور آتش پرست عجمی ہیں فرماتا ہے کہ یہ لوگ بغیر دلیل حاصل کیے باز رہنے والے نہ تھے پھر بتایا کہ وہ دلیل اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو پاک صحیفے یعنی قرآن کریم پڑھ سناتے ہیں جو اعلیٰ فرشتوں نے پاک اوراق میں لکھا ہوا ہے جیسے اور جگہ ہے فی صحف مکرمتہ ، الخ کہ وہ نامی گرامی بلندو بالا پاک صاف اوراق میں پاک باز نیکو کار بزرگ فرشتوں کے ہاتھوں لکھے ہوئے ہیں پھر فرمایا کہ ان پاک صحیفوں میں اللہ کی لکھی ہوئی باتیں عدل و استقامت والی موجود ہیں جن کے اللہ کی جانب سے ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں نہ ان میں کوئی خطا اور غلطی ہوئی ہے حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم عمدگی کے ساتھ قرآنی وعظ کہتے ہیں اور اس کی اچھی تعریفیں بیان کرتے ہیں ابن زید فرماتے ہیں ان صحیفوں میں کتابیں ہیں استقامت اور عدل و انصاف والی پھر فرمایا کہ اگلی کتابوں والے اللہ کی حجتیں قائم ہو چکنے اور دلیلیں پانے کے بعد اللہ کے کلام کے مطالب میں اختالف کرنے لگے اور جدا جدا راہوں میں بٹ گئے جیسے کہ اس حدیث میں ہے جو مختلف طریقوں سے مروی ہے کہ یہودیوں کے اکہتر فرقے ہوگئے اور نصرانیوں کے بہتر اور اس امت کے تہتر فرقے ہو جائیں گے سو ایک کے سب جہنم میں جائیں گے لوگوں نے پوچھا وہ ایک کون ہے فرمایا وہ جو اس پر ہو جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں پھر فرمایا کہ انہیں صرف اتنا ہی حکم تھا کہ خلوص اور اخلاص کے ساتھ صرف اپنے سچے معبود کی عبادت میں لگے رہیں جیسے اور جگہ ( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ 25؀ ) 21- الأنبياء:25 ) ، یعنی تجھ سے پہلے بھی ہم نے جتنے رسول بھیجے سب کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں تم سب صرف میری ہی عبادت کرتے رہو اسی لیے ہاں بھی فرمایا کہ یکسو ہو کر یعنی شرک سے دور اور توحید میں مشغول ہو کر جیسے اور جگہ ہے ( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ 36؀ ) 16- النحل:36 ) ، یعنی ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت سے بچو حنیف کی پوری تفسیر سورہ انعام میں گذر چکی ہے جسے لوٹانے کی اب ضرورت نہیں ۔ پھر فرمایا نمازوں کو قائم کریں جو کہ بدن کی تمام عبادتوں میں سب سے اعلی عبادت ہے اور زکوہ دیتے رہیں یعنی فقیروں اور محتاجوں کے ساتھ سلوک کرتے رہیں یہی دین مضبوط سیدھا درست عدل والا اور عمدگی والا ہوے بہت سے ائمہ کرام نے جیسے امام زہری ، امام شافعی ، وغیرہ نے اس آیت سے اس امر پر استدلال کیا ہے کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں کیونکہ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی خلوص اور یکسوئی کے ساتھ کی عبادت اور نماز و زکوٰۃ کو دین فرمایا گیا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 اس سے مراد یہود و نصاری ہیں، 1۔ 2 مشرک سے مراد عرب و عجم کے وہ لوگ ہیں جو بتوں اور آگ کے پجاری تھے۔ منفکّین باز آنے والے، بیّنۃ (دلیل) سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ یعنی یہود و نصاریٰ اور عرب وعجم کے مشرکین اپنے کفر و شرک سے باز آنے والے نہیں ہیں یہاں تک کہ ان کے پاس محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن لے کر آجائیں اور وہ ان کی ضلالت و جہالت بیان کریں اور انہیں ایمان کی دعوت دیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] اہل کتاب اور مشرکین میں فرق اور اس کے چند پہلو :۔ اس آیت میں کافروں کو دو بڑے گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک اہل کتاب اور دوسرے مشرکین۔ اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں جن کے پاس اللہ کی کتاب موجود تھی۔ اگرچہ ان کی کتابوں میں تحریف بھی ہوچکی تھی اور انسانی اضافے بھی تھے اور مشرکین سے مراد عرب کے بت پرست اور ایران کے آتش پرست تھے جن کے پاس سرے سے کوئی الہامی کتاب موجود ہی نہ تھی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نصاریٰ بھی مشرک تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کو تین خداؤں میں کا ایک خدا قرار دیتے تھے۔ ان میں سے بعض حضرات عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا سمجھتے تھے اور بعض انہیں اللہ ہی قرار دیتے تھے۔ بعض لوگ الوہیت میں سیدہ مریم کو بھی شریک بناتے تھے۔ اسی طرح یہود بھی عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے مگر ان کے ایسے واضح شرک کے باوجود انہیں مشرک نہیں کہا بلکہ اہل کتاب کے نام سے ہی پکارا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل کتاب کے دین کی اصل بنیاد توحید ہی تھی اور وہ توحید ہی کے قائل تھے مگر شیطانی اغوا اور بیرونی فلسفیانہ افکار و نظریات نے انہیں بعض شرکیہ عقائد میں ملوث کردیا تھا جبکہ مشرکوں کے دین کی اصل بنیاد ہی شرک تھا اور توحید انہیں سخت ناگوار تھی جیسا کہ کفار مکہ کی اسلام کے خلاف معاندانہ سرگرمیوں سے صاف معلوم ہوتا ہے۔ پھر اسلام نے اہل کتاب اور مشرکین کے اس فرق کو بعض شرعی احکام میں پوری طرح ملحوظ رکھا ہے۔ مثلاً اہل کتاب کا ذبیحہ کھانا جائز ہے اور مشرکوں کا ذبیحہ کھانا جائز نہیں۔ اسی طرح کتابیہ عورت سے نکاح جائز ہے مگر مشرکہ عورت سے نکاح جائز نہیں۔ اہل کتاب سے جزیہ لے کر ایک اسلامی ریاست کا فرد تسلیم کیا جاسکتا ہے مگر مشرکوں کے لیے ایک اسلامی ریاست میں ایسی گنجائش نہیں۔- خ کافروں کی قسمیں :۔ علاوہ ازیں کفر و شرک کے بھی کئی درجے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو سرے سے اللہ کی ہستی کے ہی منکر ہیں۔ کچھ دوسرے اللہ کو تو مانتے ہیں مگر اس کے ساتھ دوسروں کو بھی اللہ کا شریک بنا ڈالتے ہیں۔ کچھ اللہ کو مانتے ہیں مگر اس کے رسولوں کے یا بعض رسولوں کے منکر ہیں۔ کچھ لوگ آخرت پر یقین ہی نہیں رکھتے اور کچھ لوگ آخرت پر یقین تو رکھتے ہیں مگر ساتھ ساتھ ایسے عقیدے بھی وضع کر رکھے ہیں کہ قانون جزا و سزا کو بےکار بنا دیتے ہیں۔ کچھ عقائد میں درست ہوں تو ان کے اعمال ایمان کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے ایسے سب لوگ درجہ بدرجہ کفار و مشرکین ہی کے گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔- [٣] یعنی یہ اہل کتاب و مشرکین اور ان کے ذیلی فرقے، خواہ وہ کتنی ہی تعداد میں ہوں، سب کے سب اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں اور اپنے عقائد و نظریات انہیں اس قدر پسندیدہ اور مرغوب ہیں وہ ان سے اس طرح چمٹے ہوئے ہیں جن سے ان کا جدا ہونا ناممکن تھا۔ ان میں سے کوئی اپنا دین چھوڑنے پر تیار نہ تھا۔ اس کی صرف ایک ہی صورت تھی کہ اللہ کی طرف سے کوئی ایسی روشن اور واضح دلیل آجائے جو ان پر ان کی غلط فہمیاں اور گمراہیاں منکشف کردے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(لم یکن الذین کفروا …:” منفکین “ ” فک یفک فکا “ (ن)” الشیء “ کسی چیز کو دوسری سے جدا کرنا، ” العقدۃ “ گروہ کھولنا اور ” الختم “ مہر توڑنا۔ ” انفک ینفک “ (انفعال) ایک چیز کا دوسری چیز سے الگ ہونا جس کے ساتھ وہ خوب جڑی ہوئی تھی، جیسے ” انفک العظم “” ہڈی اپنے جوڑے سے الگ ہوگئی۔ “ (منفکین “ اسم فاعل ہے، (اپنے کفر سے ) باز آنے والے، الگ ہونے والے۔ یعنی پیغمبر آخر الزماں اور قرآن بھیجنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ اہل کتاب (یہود و نصاریٰ ) اور مشرکین عرب کو راہ حق پر لایا جائے، کیونکہ یہ لوگ اس قدر بگڑے وہئے تھے کہا ن کا راہ حق پر آنا اس کے بغیر مکن نہ تھا کہ ایک پیغمبر ائٓے جو ایک مقدس آسمانی کتاب لائے جس میں عمدہ دل نشین مضامین ہوں اور وہ انہیں پڑھ کر سنائے ، کسی حکیم یا صوفی یا عادل بادشاہ کے بس کی بات نہ تھی کہ انہیں راہ راست پر لے آتا۔ (اشرف الحواشی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - جو لوگ اہل کتاب اور مشرکین میں سے (قبل بعثت نبویہ) کافر تھے وہ (اپنے کفر سے ہرگز) با آنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے پاس واضح دلیل نہ آتی (یعنی) ایک اللہ کا رسول جو (ان کو) پاک صحیفے پڑھ کر سنا دے جن میں درست مضامین لکھے ہوں (مراد قرآن ہغے مطلب یہ ہے کہ ان کفار کا کفر ایسا شدید تھا اور ایسے جہل میں مبتلا تھے کہ بدون کسی عظیم رسول کے ان کی راہ پر آنے کی کوئی توقع نہ تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی حجت تمام کرنے کے لئے آپ کو قرآن دے کر مبعوث فرمایا) اور (ان کو چاہئے تھا کہ اس کو غنیمت سمجھتے اور اس پر ایمان لے آتے مگر) جو لوگ اہل کتاب تھے (اور غیر اہل کتاب تو بدرجہ اولیٰ ) وہ اس واضح دلیل کے آنے ہی کے بعد (دین میں) مختلف ہوگئے (یعنی دین حق سے بھی اختلاف کیا اور باہمنی اختلاف جو پہلے سے تھے ان کو بھی دین حق کا اتباع کر کے دور نہ کیا اور مشرکین کو بدرجہ اولیٰ اس لئے کہا کہ ان کے پاس تو پہلے سے بھی کوئی علم سماوی نہ تھا) حالانکہ ان لوگوں کو (کتب میں) یہی حکم ہوا تھا کہ اللہ کی اس طرح عبادت کریں کہ عبادت کو اسی کے لئے خالص رکھیں یکسو ہو کر (ادیان باطلہ کی طرح کسی کو اللہ کا شریک نہ بنادیں) اور نماز کی پابندی رکھیں اور زکوة دیا کریں اور یہی طریقہ ہے ان درست مضامین (مذکورہ) کا بتلایا ہوا۔ حاصل تقریر کا یہ ہوا کہ ان اہل کتاب کو ان کی کتابوں میں یہ حکم ہوا تھا کہ قرآن اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں اور یہی تعلیم تھی قرآن کی جس کو اوپر کتب قیمہ سے تعبیر فرمایا ہے اس لئے اس قرآن کے نہ مانے سے خود اپنی کتب کی مخالفت بھی لازم آتی ہے۔ یہ تو الزام اہل کتاب کو ہوا اور مشرکین اگرچہ پہلی کتب کو نہیں مانتے مگر ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقے کا حق ہونا یہ بھی تسلیم کرتے تھے اور یہ بات یقینی طور پر ثابت ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) شرک سے بالکل برے تھے اور کتب قیمہ یعنی قرآن کا اس طریقے کے ساتھ موافق ہونا بھی ظاہر ہے اس لئے ان پر بھی حجت تمام ہوگئی اور مراد ان متفرقین و مخالفین سے بعض وہ کفار ہیں جو ایمان نہ لائے تھے اور قرینہ مقابلہ سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جن لوگوں نے تفرق اور خلاف نہیں کیا وہ اہل ایمان ہیں، آگے بیان عمل کے بعد تصریحاً کفار کی دونوں قسموں یعنی اہل کتاب و مشرکین کی اور مؤمنین کی سا و جزاء کا مضمون ارشاد فرماتے ہیں یعنی) بیشک جو لوگ اہل کتاب اور مشرکین میں سے کافر ہوئے وہ آتش دوزخ میں جاویں گے جہاں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ( اور) یہ لوگ بدترین خلائق ہیں (اور) بیشک جو لوگ ایمان لاے اور انہوں نے اچھے کام کئے وہ لوگ بہترین خلائق ہیں ان کا صلہ ان کے پروردگار کے نزدیک ہمیشہ رہنے کی بہشتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جہاں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے (اور) اور اللہ تعالیٰ ان سے خوش رہے گا اور وہ اللہ سے خوش رہیں گے (یعنی نہ ان سے کوئی معصیت ہوگی اور نہ ان کو کوئی امر مکروہ پیش آوے گا جس سے احتمال عدم رضا کا جانبین سے ہو اور) یہ (جنت اور رضا) اس شخص کے لئے ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے (اور اللہ سے ڈرنے ہی پر ایمان و عمل صالح مرتب ہوتا ہے جس کو دخول جنت و حصول رضا کا مدار فرمایا ہے۔ ) - معارف ومسائل - پہلی آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے دنیا میں کفر و شرک اور جہالت کے انتہائی عموم اور غلبہ کو ذکر کر کے فرمایا گیا ہے کہ کفر و شرک کی ایسی عالمگیر ظلمت کو دور کرنے کے لئے رب العالمین کی حکمت و رحمت کا تقاضا یہ ہوا کہ جیسے ان کا مرض شدید اور وباء عالمگیر ہے اس کے علاج کے لئے بھی کوئی سب سے بڑا ماہر حاذق معالج بھیجنا چاے اس کے بغیر وہ اس مرض سے نجات نہ پاسکیں گے۔ آگے اس حاذق و ماہر حکیم کی صفت بیان کی کہ اس کا وجود ایک بینہ یعنی حجت واضحہ ہو شرک و کفر کے ابطال کے لئے آگے فرمایا کہ مراد اس معالج سے اللہ کا وہ رسول اعظم ہے جو قرآن کی حجت واضحہ لے کر ان کے پاس آوے۔ اس مجموعہ میں بعثت نبوی سے پہلے زمانے کے فساد عظیم اور ہر طرف جہالت و ظلمت ہونا بھی معلوم ہوا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت شان کا بھی بیان ہوا۔ آگے قرآن کی چند اہم صفات کا بیان فرمایا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْكِتٰبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ مُنْفَكِّيْنَ حَتّٰى تَاْتِيَہُمُ الْبَيِّنَۃُ۝ ١ ۙ- «لَمْ»- وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی 6]- ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- فكك - الفَكَكُ : التّفریج، وفَكُّ الرّهن : تخلیصه، وفَكُّ الرّقبة : عتقها . وقوله : فَكُّ رَقَبَةٍ [ البلد 13] ، قيل : هو عتق المملوک وقیل : بل هو عتق الإنسان نفسه من عذاب اللہ بالکلم الطيّب والعمل الصّالح، وفكّ غيره بما يفيده من ذلك، والثاني يحصل للإنسان بعد حصول الأوّل، فإنّ من لم يهتد فلیس في قوّته أن يهدي كما بيّنت في ( مکارم الشّريعة) والفَكَكُ : انفراج المنکب عن مفصله ضعفا، والْفَكَّانِ : ملتقی الشّدقین . وقوله : لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنْفَكِّينَ- [ البینة 1] ، أي : لم يکونوا متفرّقين بل کانوا کلّهم علی الضّلال، کقوله : كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً ... الآية [ البقرة 213] ، و ( ما انْفَكَّ ) يفعل کذا، نحو : ما زال يفعل کذا .- ( ف ک ک ) الفک : اس کے اصل معنی جدا کردینے کے ہیں جیسے فک الرھن گردی چیز کو چھڑانا فک الرقبۃ گردن کا آزاد کرنا ۔ اور آیت کریمہ : فَكُّ رَقَبَةٍ [ البلد 13] کسی کی گردن کا چھڑانا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ غلام کو آزاد کرانا مراد ہے اور بعض نے کہا ہے ک کلمات طیبہ اور اعمال صالحہ کے ذریعہ انسان کا اپنے آپ اور دوسرے کو عذاب الہی سے آزاد کرانا مراد ہے ۔ لیکن دوسروں کو جھبی آزاد کراسکتا ہے ہے جب پہلے اپنے آپ کو رہا کروالے ورنہ جو شخص خود ہدایت یافتہ نہیں ہے وہ دوسری کو کب ہدایت کرسکتا ہے جیسا کہ ہم اپنی کتاب ، ، مکارم الشریعہ میں اس کی وضاحت کرچکے ہیں : الفکک کے معنی کمزوری کی وجہ سے شانہ کے اپنی جگہ سے ہٹ جانے کے ہیں ۔ اور دونوں جبڑوں کے ملنے کی جگہ کو فکان کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ : لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنْفَكِّينَ [ البینة 1] جو لوگ کافر ہیں ( یعنی اہل کتاب اور مشرک وہ کفر سے باز آنے والے نہ تھے ۔ میں منفکین کے معنی یہ ہیں کہ ( البی نہ کے آنے تک ان میں اختلاف نہیں تھا بلکہ سب گمراہی پر متفق تھے ۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا : كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً ... الآية [ البقرة 213]( پہلے تو سب ) لوگوں کا ایک ہی مذہب تھا ۔ وہ برابر ایسے کرتا رہا ۔- حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247] .- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - بَيِّنَة- والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] .- ( ب ی ن ) البَيِّنَة- کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(1 ۔ 4) یہود و نصاری اور مشرکین عرب یہ رسول اکرم صلی اللہ اور قرآن کریم اور اسلام کے انکار پر قائم رہتے جب تک کہ ان کے پاس توریت و انجیل میں اس چیز کا ذکر نہ آتا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے رسول ہیں۔- یا یہ مطلب ہے کہ بعثت نبوی سے پہلے یہود و نصاریٰ اور مشرکین عرب کفر سے باز نہ آتے جب تک کہ ان کے پاس واضح دلیل نہ آتی یعنی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو ان کو پاک صحیفے پڑھ کر سنا دے جس میں دین مستقیم کے مضامین لکھے ہوں۔- اور یہودی یعنی کعب بن اشرف وغیرہ اپنی کتاب توریت میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت و صفت آنے ہی کے بعد حضور اور قرآن اور دین اسلام کے بارے میں مختلف ہوگئے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّیْنَ حَتّٰی تَاْتِیَہُمُ الْبَیِّنَۃُ ۔ ” نہیں تھے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا اہل کتاب میں سے اور مشرکین میں سے الگ ہونے والے (یا باز آنے والے) جب تک کہ ان کے پاس البیّنہنہ آجاتی۔ “- ظاہر ہے وہ لوگ سیدھے راستے سے بھٹک کر گمراہی میں مبتلا ہوچکے تھے۔ اب جب تک ان کے سامنے کوئی بین (واضح) دلیل نہ آجاتی جس سے انہیں معلوم ہوجاتا کہ وہ گمراہ ہیں یا انہیں بہت واضح انداز میں بتا نہ دیا جاتا کہ وہ جس راہ پر چل رہے ہیں وہ راہ ہدایت نہیں ‘ اس وقت تک انہیں رشد و ہدایت کی راہ پر چلنے والوں سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس کا مفہوم یوں بھی ہوسکتا ہے کہ جب تک ان لوگوں کے پاس البینہ نہ آجاتی وہ اپنے کفر سے باز آنے والے نہیں تھے۔۔۔۔۔۔۔ مُنْفَکِّیْنَ : اِنْفِکاک (فَکَّسے باب اِنْفعال) سے ہے ‘ جس کا مفہوم ہے کسی چیز کا کسی چیز سے الگ ہوجانا ‘ جدا ہوجانا۔- وہ البیِّنہ کیا ہے ؟ اس کی وضاحت اگلی آیات میں کی جا رہی ہے :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة البینہ حاشیہ نمبر : 1 کفر میں مشترک ہونے کے باوجود ان دونوں گروہوں کو دو الگ الگ ناموں سے یاد کیا گیا ہے ۔ اہل کتاب سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس پہلے انبیاء کی لائی ہوئی کتابوں میں سے کوئی کتاب ، خواہ تحریف شدہ شکل ہی میں سہی ، موجود تھی اور وہ اسے مانتے تھے ۔ اور مشرکین سے مراد وہ لوگ ہیں جو کسی نبی کے پیرو اور کسی کتاب کے ماننے والے نہ تھے ، قرآن مجید میں اگرچہ اہل کتاب کے شرک کا ذکر بہت سے مقامات پر کیا گیا ہے ۔ مثلا عیسائیوں کے متعلق فرمایا گیا کہ وہ کہتے ہیں اللہ تین خداؤں میں ایک ہے ( المائدہ 73 ) وہ مسیح ہی کو خدا کہتے ہیں ( المائدہ 17 ) وہ مسیح کو خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں ( التوبہ 30 ) اور یہود کے متعلق فرمایا گیا کہ وہ عزیر کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں ( التوبہ 30 ) لیکن اس کے باوجود قرآن میں کہیں ان کے لیے مشرک کی اصطلاح استعمال نہیں کی گئی بلکہ ان کا ذکر اہل کتاب یا الذین اوتوا الکتب ( جن کو کتاب دی گئی تھی ) یا یہود اور نصاری کے الفاظ سے کیا گیا ہے ، کیونکہ وہ اصل دین توحید ہی کو مانتے تھے اور پھر شرک کرتے تھے ۔ بخالف اس کے غیر اہل کتاب کے لیے مشرک کا لفظ بطور اصطلاح استعمال کیا گیا ہے ۔ کیونکہ وہ اصل دین شرک ہی کو قرار دیتے تھے اور توحید کے ماننے سے ان کو قطعی انکار تھا ۔ یہ فرق ان دونوں گروہوں کے درمیان صرف اصطلاح ہی میں نہیں بلکہ شریعت کے احکام میں بھی ہے ۔ اہل کتاب کا ذبیحہ مسلمانوں کے لیے حلال کیا گیا ہے اگر وہ اللہ کا نام لے کر حلال جانور کو صحیح طریقہ سے ذبح کریں اور ان کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دی گئی ہے ۔ اس کے برعکس مشرکین کا نہ ذبیحہ حلال ہے اور نہ ان کی عورتوں سے نکاح حلال ۔ سورة البینہ حاشیہ نمبر : 2 یہاں کفر اپنے وسیع معنوں میں استعمال کیا گیا ہے جن میں کافرانہ رویہ کی مختلف صورتیں شامل ہیں ۔ مثلا کو۴ی اس معنی میں کافر تھا کہ سرے سے اللہ ہی کو نہ مانتا تھا ۔ کوئی اللہ کو مانتا تھا مگر اسے واحد معبود نہ مانتا تھا بلکہ خدا کی ذات ، یا خدائی کی صفات و اختیارات میں کسی نہ کسی طور پر دوسروں کو شریک ٹھہرا کر ان کی عبادت بھی کرتا تھا ۔ کوئی اللہ کی وحدانیت بھی مانتا تھا مگر اس کے باوجود کسی نوعیت کا شرک بھی کرتا تھا ۔ کوئی خدا کو مانتا تھا مگر اس کے نبیوں کو نہیں مانتا تھا اور اس ہدایت کو قبول کرنے کا قائل نہ تھا جو انبیاء کے ذریعہ سے آئی ہے ۔ کوئی کسی نبی کو مانتا تھا اور کسی دوسرے نبی کا انکار کرتا تھا ۔ کوئی آخرت کا منکر تھا ۔ غرض مختلف قسم کے کفر تھے جن میں لوگ مبتلا تھے ۔ اور یہ جو فرمایا کہ اہل کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر تھے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ کفر میں مبتلا نہ تھے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ کفر میں مبتلا ہونے والے دو گروہ تھے ۔ ایک اہل کتاب ، دوسرے مشرکین ۔ یہاں من تبعیض کے لیے نہیں بلکہ بیان کے لیے ہے ۔ جس طرح سورہ حج آیت 30میں فرمایا گیا فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بتوں کی گندگی سے بچو ، نہ یہ کہ بتوں میں جو گندگی ہے اس سے بچو ۔ اسی طرح الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ کا مطلب بھی یہ ہے کہ کفر کرنے والے جو اہل کتاب اور مشرکین میں سے ہیں ، نہ یہ کہ ان دونوں گروہوں میں سے جو لوگ کفر کرنے والے ہیں ۔ سورة البینہ حاشیہ نمبر : 3 یعنی ان کے اس حالت کفر سے نکلنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہ تھی کہ ایک دلیل روشن آکر انہیں کفر کی ہی صورت کا غلط اور خلاف حق ہونا سمجھائے اور راہ راست کو واضح اور مدلل طریقے سے ان کے سامنے پیش کردے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس دلیل روشن کے آجانے کے بعد وہ سب کفر سے باز آجانے والے تھے ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دلیل کی غیر موجودگی میں تو اس کا اس حالت سے نکلنا ممکن ہی نہ تھا ۔ البتہ اس کے آنے کے بعد بھی ان میں سے جو لوگ اپنے کفر قائم رہیں اس کی ذمہ داری پھر انہی پر ہے ، اس کے بعد وہ اللہ سے یہ شکایت نہیں کرسکتے کہ آپ نے ہماری ہدایت کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا ۔ یہ وہی بات ہے جو قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان کی گئی ہے ۔ مثلا سورہ نحل میں فرمایا وَعَلَي اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِيْلِ سیدھا راستہ بتانا اللہ کے ذمہ ہے ( آیت 9 ) سورہ لیل میں فرمایا اِنَّ عَلَيْنَا لَلْهُدٰى راستہ بتانا ہمارے ذمہ ہے ( آیت 12 ) اِنَّآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ كَمَآ اَوْحَيْنَآ اِلٰي نُوْحٍ وَّالنَّـبِيّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖ ۔ ۔ ۔ رُسُلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللّٰهِ حُجَّــةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ ۔ اے نبی ہم نے تمہارے طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اور اس کے بعد کے نبیوں کی طرف بھیجی تھی ۔ ۔ ۔ ان رسولوں کو بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنایا گیا تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ پر کوئی حجت نہ رہے ۔ ( النساء 163 ۔ 165 ) يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلٰي فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَاۗءَنَا مِنْۢ بَشِيْرٍ وَّلَا نَذِيْرٍ ۡ فَقَدْ جَاۗءَكُمْ بَشِيْرٌ وَّنَذِيْرٌ ۔ اے اہل کتاب ، تمہارے پاس ہمارا رسول حقیقت واضح کرنے کے لیے رسولوں کا سلسلہ ایک مدت تک بند رہنے کے بعد آگیا ہے تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس نہ کوئی بشارت دینے والا آیا نہ خبردار کرنے والا ۔ سو لو اب تمہارے پاس بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا آگیا ( المائدہ 19 )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: ان آیتوں میں حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کو پیغمبر بناکر بھیجنے کی وجہ بتائی جارہی ہے، اور وہ یہ کہ جاہلیت کے زمانے میں جو کافر لوگ تھے، چاہے وہ اہل کتاب میں سے ہوں یا بت پرستوں میں سے، وہ اس وقت تک اپنے کفر سے باز نہیں آسکتے تھے جب تک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شکل میں ایک روشن دلیل اُن کے سامنے نہ آجاتی، چنانچہ جن لوگوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی باتوں پر کھلے دل سے غور کیا، وہ واقعی اپنے کفر سے توبہ کرکے ایمان لے آئے، البتہ جن کی طبیعت میں ضد تھی، وہ اس نعمت سے محروم رہے۔