Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ 2 یعنی قرآن مجید جو لوح محفوظ میں پاک صحیفوں میں درج ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤] آپ کی رسالت کے دلائل :۔ وہ روشن اور واضح دلیل اللہ تعالیٰ کا جلیل القدر رسول ہے۔ جو اپنی رسالت پر خود دلیل ہے۔ اس کے لیے کسی دوسری دلیل کی ضرورت نہیں۔ اس کی پوری زندگی، اس کی صداقت اور دیانت ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اگر وہ کہتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو فی الواقع وہ اللہ کا رسول ہے۔ نیز جو قرآن وہ ان اہل کتاب اور مشرکین کو پڑھ کر سناتا ہے اور امی ہونے کے باوجود سناتا اور ایسا معجز نما کلام پیش کرتا ہے۔ تو ایسے قرآن کی آیات پڑھ کر سنانا ہی اس کی رسالت کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ ایک امی ہونے کے باوجود وہ ایسا کلام پیش کر رہا ہے جس کی مثال پیش کرنے سے عرب کے فصحاء اور بلغاء سب عاجز آگئے تھے۔- (صُحُفًا مُّطَھَّرۃً ) کے دو مطلب ہیں اور دونوں ہی درست ہیں۔ ایک یہ کہ جو قرآن وہ پیش کرتا ہے۔ وہ ہر طرح کی تحریف، اضافہ یا ترمیم اور حذف سے پاک ہے۔ نیز وہ ہر قسم کی انسانی دستبرد سے پاک ہے۔ جبکہ اہل کتاب کی کتابوں میں تحریف بھی موجود ہے۔ انسانوں کے اضافے بھی اور حذف بھی۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی تعلیم نہایت پاکیزہ ہے وہ کسی نبی کی سیرت و کردار کو داغدار نہیں بناتا جبکہ اہل کتاب نے بعض انبیاء کی سیرت پر گھناؤنے الزامات لگائے انہیں ان سے پاک کرتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(رسول من ال لہ یتلوا صحفاً مطھرۃ…: قرآن مجید کو ” صحفاً مطھرۃ “ اور اس میں موجود احکام اور سوتروں کو ” قیمۃ “ (نہایت مضبوط) قرار دیا ہے کہ ان میں کسی قسم کی ناپاک بات یا کمزور اور بےبنیاد قصہ یا حکم نہیں۔ اگر کسی شخص کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لائے ہوئے پاک صحیفوں اور ان میں لکھے ہوئے مضبوط احکام کی پاکیزگی اور مضبوطی معلوم کرنے کا شوق ہو تو وہ قرآن مجید کا بائبل کے مجموعے میں موجود پہلے صحیفوں کے ساتھ موازنہ کرلے، جن میں صحیح باتوں کے ساتھ عقل و اخلاق سے گری ہوئی باتیں، واضح تحریف شدہ احکام اور اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی اور انبیائے کرام کی توہین اور ان پر تہمتوں کی نجاست صاف نظر آتی ہے، مثلاً لوط اور سلیمان (علیہ السلام) پر بےبنیاد تہمتیں ، جن سے وہ ہر طرح سے پاک اور بری ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

یتلوا صحفاً مطھرة، فیھا کتب قیمة یتلو، تلاوت سے مشتق ہے جس کے معنے پڑھنے کے ہیں، مگر ہر پڑھنے کو تلاوت نہیں کہا جاتا بلکہ وہ پڑھنا جو پڑھانے والے کی تلقین کے بالکل مطابق ہو اس کو تلاوت کہتے ہیں اسی لئے عرف میں عموماً لفظ تلاوت صرف قرآن پڑھنے کے لئے بولا جاتا ہے۔ صحف صحیفہ کی جمع ہے جن کاغذات میں کوئی مضمون تحریر ہو ان کو صحیفہ کہتے ہیں۔ کتب، کتاب کی جمع ہے اس کے ایک معنی تو لکھی ہوئی چیز کے ہیں اس اعتبار سے کتاب اور صحیفہ تقریباً ہم معنی لفظ ہیں اور کبھی لفظ کتاب مبعنے حکم بھی بولا جاتا ہے جیسا کہ قرآن کی آیت لولاکتب من اللہ سبق میں لفظ کتاب بمعنے حکم ہی مستععمل ہوا ہے۔ اس جگہ بھی یہی دوسرے معنے مراد ہیں کیونکہ معروف معنی میں لیں تو کتب عین صحف ہیں۔ فیہا کہنے کے کوئی معنے نہیں رہتے۔- مطہرة یہ صحف کی صفت ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ یہ صحیفے جھوٹ اور شک اور نفاق اور گمراہی سے پاک ہیں۔ قیمة بمعنے مستقیمہ کتب کی صفت ہے معنے یہ ہیں کہ یہ احکام مستقیم منصفانہ و معتدل ہیں اور اس کے معنے مضبوط و مستحکم کے بھی ہو سکتے ہیں تو مطلب یہ ہوگا کہا حکام الٰہیہ جو قرآن میں آئے قیامت تک قائم دائم رہیں گے۔- مطلب آیت کا یہ ہوگیا کہ اس زمانے کے مشرکین اور اہل کتاب کی گمرایہ اس درجے میں پہنچی ہوئی تھی کہ ان کو اپنے عاقئد باطلہ سے ہٹنا ممکن نہ تھا جب تک کہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی کھلی نشانی اور حجت واضحہ نہ آجائے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے واسطے اپنے رصول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حجت واضحہ بنا کر بھیجا جس کا کام یہ تھا کہ وہ ان کو پاک صحیفے پڑھ کر سناتے تھے۔ مراد یہ ہے کہ وحی خداوندی کے وہ احکام سناتے تھے جو بعد میں صحیفوں کے ذریعہ محفوظ کئے گئے کیونکہ ابتداً تلاوت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی صحیفے سے نہیں بلکہ اپنی یاد سے پڑھ کر سناتے تھے اور یہ پاک صحیفے ایسے ہیں جن میں ایسے احکام الٰٓہیہ ہیں جو عدل و اعتدال کے ساتھ دیئے گئے ہیں اور ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

رَسُوْلٌ مِّنَ اللہِ يَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً۝ ٢ ۙ- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] وقال : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1]- ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ ۔ وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1] قسم ہے ان فرشتوں کی جو پیام الہی دے کر بھیجے جاتے ہیں - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- تلو - تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] - ( ت ل و ) تلاہ ( ن )- کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ - صحف - الصَّحِيفَةُ : المبسوط من الشیء، کصحیفة الوجه، والصَّحِيفَةُ : التي يكتب فيها، وجمعها :- صَحَائِفُ وصُحُفٌ. قال تعالی: صُحُفِ إِبْراهِيمَ وَمُوسی [ الأعلی 19] ، يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً فِيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة 2- 3] ، قيل : أريد بها القرآن، وجعله صحفا فيها كتب من أجل تضمّنه لزیادة ما في كتب اللہ المتقدّمة . والْمُصْحَفُ : ما جعل جامعا لِلصُّحُفِ المکتوبة، وجمعه : مَصَاحِفُ ، والتَّصْحِيفُ : قراءة المصحف وروایته علی غير ما هو لاشتباه حروفه، والصَّحْفَةُ مثل قصعة عریضة .- ( ص ح ف ) الصحیفۃ - کے معنی پھیلی ہوئی چیز کے ہیں جیسے صحیفۃ الوجہ ( چہرے کا پھیلاؤ ) اور وہ چیز جس میں کچھ لکھا جاتا ہے اسے بھی صحیفہ کہتے ہیں ۔ اس کی جمع صحائف وصحف آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ صُحُفِ إِبْراهِيمَ وَمُوسی [ الأعلی 19] یعنی ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً فِيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة 2- 3] پاک اوراق پڑھتے ہیں جس میں مستحکم ( آیتیں ) لکھی ہوئی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ صحف سے قرآن پاک مراد ہے اور اس کو صحفا اور فیھا کتب اس لئے کہا ہے کہ قرآن میں کتب سابقہ کی بنسبت بہت سے زائد احکام اور نصوص پر مشتمل ہے ۔ المصحف متعدد صحیفوں کا مجموعہ اس کی جمع مصاحف آتی ہے اور التصحیف کے معنی اشتباہ حروف کی وجہ سے کسی صحیفہ کی قرآت یا روایت میں غلطی کرنے کے ہیں ۔ اور صحفۃ ( چوڑی رکابی ) چوڑے پیالے کی طرح کا ایک برتن ۔- طهر - والطَّهَارَةُ ضربان :- طَهَارَةُ جسمٍ ، وطَهَارَةُ نفسٍ ، وحمل عليهما عامّة الآیات . يقال : طَهَّرْتُهُ فَطَهُرَ ، وتَطَهَّرَ ، وَاطَّهَّرَ فهو طَاهِرٌ ومُتَطَهِّرٌ. قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] ، أي : استعملوا الماء، أو ما يقوم مقامه، قال : وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] ،- ( ط ھ ر ) طھرت - طہارت دو قسم پر ہے - ۔ طہارت جسمانی اور طہارت قلبی اور قرآن پاک میں جہاں کہیں طہارت کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بالعموم دونوں قسم کی طہارت مراد ہے کہا جاتا ہے : ۔ طھرتہ فطھروتطھر واطھر فھو طاھر ومتطھر - میں نے اسے پاک کیا چناچہ وہ پاک ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو نہاکر پاک ہوجایا کرو ۔ یعنی یا جو چیز اس کے قائم مقام ہو اس کے ذریعہ طہارت کرلیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

ان اوراق میں کیا ہے ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة البینہ حاشیہ نمبر : 4 یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بذات خود ایک دلیل روشن کہا گیا ہے ، اس لیے کہ آپ کی نبوت سے پہلے کی اور بعد کی زندگی آپ کا امی ہونے کے باوجود قرآن جیسی کتاب پیش کرنا ، آپ کی تعلیم اور صحبت کے اثر سے ایمان لانے والوں کی زندگیوں میں غیر معمولی انقلاب رونما ہوجانا ، آپ کا بالکل معقول عقائد ، نہایت ستھری عبادات ، کمال درجہ کے پاکیزہ اخلاق ، اور انسانی زندگی کے لیے بہترین اصول و احکام کی تعلیم دینا ، آپ کے قول اور عمل میں پوری پوری مطابقت کا پایا جاتا ، اور آپ کا ہر قسم کی مزاحمتوں اور مخالفتوں کے مقابلے میں انتہائی اولو العزمی کے ساتھ اپنی دعوت پر ثابت قدم رہنا ، یہ ساری باتیں اس بات کی کھلی علامات تھیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ سورة البینہ حاشیہ نمبر : 5 لغت کے اعتبار سے تو صحیفوں کے معنی ہیں لکھے ہوئے اوراق لیکن قرآ مجید میں اصطلاحا یہ لفظ انبیاء علیہم السلام پر نازل ہونے والی کتابوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ اور پاک صحیفوں سے مراد ہیں ایسے صحیفے جن میں کسی قسم کے باطل ، کسی طرح کی گمراہی و ضلالت ، اور کسی اخلاقی گندگی کی آمیزش نہ ہو ۔ ان الفاظ کی پوری اہمیت اس وقت واضح ہوتی ہے جب انسان قرآن مجید کے مقابلے میں بائیبل اور دوسرے مذاہب کی کتابوں کا بھی مطالعہ کرتا ہے اور ان میں صحیح باتوں کے ساتھ ایسی باتیں لکھی ہوئی دیکھتا ہے جو حق و صداقت اور عقل سلیم کے بھی خلاف ہیں اور اخلاقی اعتبار سے بھی بہت گری ہوئی ہیں ۔ ان کو پڑھنے کے بعد جب آدمی قرآن کو دیکھتا ہے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتنی پاک اور مطہر کتاب ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani