نبی ﷺ کے آزاد کردہ غلام زید ؓ کے پوتے بلال بن یسار بیان کرتے ہیں ، میرے والد (یسار ؓ) نے میرے دادا (زید ؓ) سے روایت کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ : کو فرماتے ہوئے سنا !’’ جو شخص یہ دعا پڑھے : ((استغفر اللہ ...... واتوب الیہ)) ’’ میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، وہ زندہ اور قائم رکھنے والا ہے ، اور میں اس کے حضور توبہ کرتا ہوں ‘‘ تو اسے بخش دیا جاتا ہے خواہ وہ میدان جہاد سے فرار ہوا ہو ۔‘‘ ترمذی ، ابوداؤد ۔ لیکن ابوداؤد کی روایت میں ہلال بن یسار ہے ۔ اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ حسن ، رواہ الترمذی و ابوداؤد ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ عزوجل صالح بندے کا جنت میں درجہ بلند فرماتا ہے تو وہ عرض کرتا ہے : رب جی ! یہ مجھے کیسے حاصل ہوا ؟ تو وہ فرماتا ہے : تیرے بچے (بیٹا ، بیٹی) کے تیرے لئے دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ احمد ۔
عبداللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میت قبر میں ، ڈوبتے ہوئے فریاد کرنے والے کی طرح ہے ، وہ باپ یا ماں یا بھائی یا دوست کی طرف سے پہنچنے والی دعا کی منتظر رہتی ہے ، جب وہ اسے پہنچ جاتی ہے تو وہ اس کے لیے دنیا و مافیہا سے بہتر ہوتی ہے ، اور بے شک اللہ تعالیٰ (دنیا) والوں کی دعاؤں سے اہل قبور پر پہاڑوں جتنی رحمتیں نازل فرماتا ہے ، اور زندوں کا مردوں کے لئے تحفہ ان کے لئے مغفرت طلب کرنا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا منکر ، رواہ البیھقی ۔
عبداللہ بن بُسر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اس شخص کے لئے خوشخبری ہو جو اپنے نامہ اعمال میں بہت زیادہ استغفار پائے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابن ماجہ ۔
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ یہ دعا کرتے تھے :’’ اے اللہ ! مجھے ان لوگوں میں شامل فرما کہ جب وہ نیکی کرتے ہیں تو خوش ہو جاتے ہیں اور جب کوئی غلطی کر بیٹھتے ہیں تو مغفرت طلب کرتے ہیں ۔‘‘ حسن ، رواہ ابن ماجہ و البیھقی ۔
حارث بن سُوید ؓ بیان کرتے ہیں ، عبداللہ بن مسعود ؓ نے ہمیں دو حدیثیں بیان کیں ۔ ان میں سے ایک رسول اللہ ﷺ کی طرف سے (مرفوع) اور دوسری اپنی طرف سے (موقوف) ، فرمایا :’’ مومن اپنے گناہوں کو یوں سمجھتا ہے جیسے وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہو اور وہ ڈرتا ہے کہ وہ اس پر گر پڑے گا ، جبکہ فاجر شخص اپنے گناہوں کو یوں سمجھتا ہے جیسے مکھی اس کی ناک پر بیٹھ گئی ہو ، پھر انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اپنے آپ سے مکھی اڑا کر دکھائی ، پھر انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا اللہ اپنے مومن بندے کی توبہ سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے ، جو کسی مہلک بیاباں میں پڑاؤ ڈالے ، اس کے ساتھ اس کی سواری ہو جس پر اس کا کھانا پینا ہو ، اس نے اپنا سر رکھا اور سو گیا ، جب وہ بیدار ہوا تو اس کی سواری کہیں جا چکی تھی ، اس نے اسے تلاش کیا حتیٰ کہ جب گرمی ، پیاس یا جو اللہ نے چاہا اس پر شدید ہو گئی تو اس نے کہا : میں اپنی اسی پہلی جگہ پر واپس جاتا ہوں اور سو جاتا ہوں حتیٰ کہ میں فوت ہو جاؤں ، اس نے اپنے بازو پر اپنا سر رکھا تاکہ وہ فوت ہو جائے ، وہ بیدار ہوا تو اس کی سواری اس کے پاس کھڑی تھی اور اس کے کھانے پینے کا سامان بھی اس پر موجود تھا ، اللہ مومن بندے کی توبہ سے اس آدمی سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جسے اپنی سواری اور اپنا زاد راہ ملنے پر خوشی ہوتی ہے ۔‘‘ امام مسلم نے اسے رسول اللہ ﷺ سے فقط مرفوع روایت کیا ہے ، جبکہ امام بخاری نے ابن مسعود ؓ سے اسے موقوف بھی روایت کیا ہے ۔ رواہ مسلم و البخاری ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک اللہ گناہ میں مبتلا بہت زیادہ توبہ کرنے والے مومن بندے کو پسند کرتا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا موضوع ۔
ثوبان ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ اس آیت ’’ میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا ‘‘ کے بدلے پوری دنیا کا مل جانا بھی مجھے پسند نہیں ۔‘‘ کسی آدمی نے عرض کیا ، تو جس نے شرک کیا ہو ؟ نبی ﷺ خاموش رہے ، پھر آپ نے تین مرتبہ فرمایا :’’ سن لو ! جس نے شرک کیا ہو ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد ۔
ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ حجاب واقع ہونے سے پہلے تک اپنے بندے کو بخشتا رہتا ہے ۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! حجاب کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کوئی جان حالت شرک میں فوت ہو ۔‘‘ تینوں احادیث امام احمد نے روایت کیں اور امام بیہقی نے آخری حدیث ’’ کتاب البعث والنشور ‘‘ میں روایت کی ہے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ احمد ۔
ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص اس حال میں اللہ کے ساتھ ملاقات کرے کہ وہ دنیا میں کسی کو اللہ کے برابر قرار نہ دیتا ہو ، پھر اس پر پہاڑوں جتنے بھی گناہ ہوں تو اللہ اس کو معاف فرما دے گا ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ البیھقی ۔
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو ۔‘‘ ابن ماجہ ، بیہقی فی شعب الایمان ، اور فرمایا : اس میں نہرانی کا تفرد ہے ، اور وہ مجہول ہے ۔ جبکہ شرح السنہ میں عبداللہ بن مسعود ؓ سے موقوف روایت ہے ، فرمایا : ندامت سے توبہ مراد ہے ، اور توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو ۔ سندہ ضعیف ، رواہ ابن ماجہ و البیھقی ۔