ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص مفلس ہو جائے اور کوئی آدمی اپنا مال بالکل اسی صورت میں پا لے تو یہ (مال والا) شخص دوسروں کی نسبت اس مال کا زیادہ حق دار ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوسعید ؓ بیان کرتے ہیں، نبی ﷺ کے دور میں ایک آدمی کو پھلوں کی تجارت میں خسارہ ہوا تو اس کا قرض بہت زیادہ ہو گیا ، اس صورت میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اس پر صدقہ کرو ۔‘‘ لوگوں نے اس پر صدقہ کیا لیکن وہ اس کے قرض کی ادائیگی کے برابر نہ ہوا ، تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا :’’ جو ملتا ہے لے لو ، تمہارے لیے بس یہی کچھ ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ ایک آدمی قرض دیا کرتا تھا ، وہ اپنے ملازم سے کہا کرتا تھا : جب تم کسی تنگدست کے پاس جاؤ تو اس کو (قرض) معاف کر دیا کرو ، شاید کہ اللہ ہمیں معاف فرما دے ۔ فرمایا : اس نے اللہ سے ملاقات کی تو اس نے اسے معاف فرما دیا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوقتادہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اللہ اسے روزِ قیامت کی تکلیفوں سے نجات دے دے تو وہ تنگدست کو مہلت دے یا اسے (قرض) معاف کر دے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوقتادہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جو شخص کسی تنگدست کو مہلت دے یا اسے قرض معاف کر دے تو اللہ اسے روزِ قیامت کی تکلیفوں سے نجات دے دے گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوالیسر ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص کسی تنگدست کو مہلت دے یا اسے قرض معاف کر دے تو اللہ اسے اپنے (عرش کے) سایہ میں سایہ عطا فرمائے گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابورافع ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ایک نو عمر اونٹ قرض لیا ، آپ ﷺ کے پاس صدقہ کے اونٹ آئے تو ابورافع ؓ بیان کرتے ہیں ، آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں اس آدمی کو اس کے نو عمر اونٹ کا قرض اتار دوں ، میں نے عرض کیا : تمام اونٹ بہترین قسم کے سات سال کی عمر کے ہیں ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اسے یہی دے دو ، کیونکہ بہترین شخص وہ ہے جو قرض ادا کرنے میں اچھا ہو ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے قرض کی واپسی کا تقاضا کیا تو اس نے آپ ﷺ پر سختی کی تو آپ کے صحابہ نے اسے مارنے کا ارادہ کیا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اسے چھوڑ دو ، کیونکہ صاحب حق (قرض خواہ) باتیں کرنے کا حق رکھتا ہے ، تم ایک اونٹ خرید کر اسے دے دو ۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا : اس سے بڑی عمر کا اونٹ ملتا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اسے ہی خرید کر اسے دے دو ، کیونکہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو تم میں سے قرض ادا کرنے میں بہتر ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مال دار شخص کا (قرض کی ادائیگی میں) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے ، اگر تم میں سے کسی کو کسی مال دار شخص (یعنی ضامن) کے پیچھے لگا دیا جائے (کہ اس سے قرض وصول کر لو) تو لگ جانا چاہیے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
کعب بن مالک سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے دور میں ابن ابی حدرد ؓ سے مسجد میں اپنے قرض کا مطالبہ کیا تو ان دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں حتی کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنے گھر میں سن لیا ، رسول اللہ ﷺ ان دونوں کی طرف آئے حتی کہ آپ نے اپنے حجرے کا پردہ اٹھا کر کعب بن مالک ؓ کو آواز دی ، فرمایا :’’ کعب !‘‘ انہوں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! حاضر ہوں ، آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اس کا آدھا قرض معاف کر دو ۔ کعب ؓ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے کر دیا ، آپ ﷺ نے (ابن ابی حدرد ؓ سے) فرمایا :’’ کھڑا ہو اور اس کا قرض ادا کر ۔‘‘ متفق علیہ ۔
سلمہ بن اکوع ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا ، صحابہؓ نے عرض کیا : اس کی نماز جنازہ پڑھائیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا اس پر کوئی قرض ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : نہیں ۔ تو آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی ، پھر آپ کے پاس ایک اور جنازہ لایا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا اس پر کوئی قرض ہے ؟‘‘ عرض کیا گیا : جی ہاں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا اس نے کوئی چیز ترکہ چھوڑی ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : تین دینار ، آپ نے اُس کی نمازِ جنازہ پڑھی ، پھر تیسرا جنازہ لایا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا اس پر کوئی قرض ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : تین دینار ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا اس نے کوئی ترکہ چھوڑا ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : نہیں ، فرمایا :’’ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھو ۔‘‘ ابوقتادہ ؓ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ اس کی نماز جنازہ پڑھیں اور اس کا قرض میرے ذمہ رہا (میں ادا کروں گا) تب آپ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی ۔ رواہ البخاری ۔
ابوہریرہ ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص بطور قرض لوگوں کا مال حاصل کرتا ہے اور وہ اسے ادا کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ادا کرنے کی توفیق سے نوازتا ہے ، اور جو شخص اسے تلف کرنے کے لیے حاصل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے تلف فرما دے گا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابوقتادہ ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک آدمی نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! مجھے بتائیں اگر میں ثابت قدمی سے ، ثواب کی امید سے اللہ کی راہ میں دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو جاؤں تو کیا اللہ میرے گناہ معاف فرما دے گا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ہاں ۔‘‘ جب وہ واپس چلا گیا تو آپ ﷺ نے اسے آواز دی ، فرمایا :’’ ہاں ، البتہ قرض معاف نہیں ہو گا ، جبریل ؑ نے اسی طرح کہا ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، کسی مقروض کا جنازہ ، رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا جاتا تو آپ ﷺ فرماتے :’’ کیا اس نے اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ چھوڑا ہے ؟‘‘ اگر آپ کو بتایا جاتا کہ اس نے جو کچھ چھوڑا ہے اس سے قرض ادا ہو جائے گا تو آپ نمازِ جنازہ پڑھاتے ، ورنہ (نہ پڑھاتے) مسلمانوں سے کہتے :’’ اپنے ساتھی کی نمازِ جنازہ پڑھو ۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتوحات نصیب فرمائیں تو آپ ﷺ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :’’ میں مومنوں کا ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق دار ہوں ، جو مومن فوت ہو جائے اور وہ مقروض ہو تو اس کا قرض میرے ذمہ ہے ، اور جو شخص مال چھوڑ جائے تو وہ اُس کے ورثا کے لیے ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوخلدہ زرقی بیان کرتے ہیں ، ہم اپنے ایک ساتھی ، جو کہ مفلس ہو گیا تھا ، کے بارے میں ابوہریرہ ؓ کے پاس آئے تو انہوں نے فرمایا : یہ اس طرح کا معاملہ ہے جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا :’’ جو شخص فوت ہو جائے یا مفلس ہو جائے تو مال کا مالک اس مال کا زیادہ حق دار ہے جبکہ وہ اس مال کو بالکل اسی حالت میں پائے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الشافعی و ابن ماجہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مومن کی روح اپنے قرض کی وجہ سے معلق رہتی ہے حتی کہ وہ (قرض) اس کی طرف سے ادا کر دیا جائے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الشافعی و احمد و الترمذی و ابن ماجہ و الدارمی ۔
براء بن عازب ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مقروض شخص اپنے قرض کی وجہ سے محبوس ہے ، وہ روزِ قیامت اپنے رب سے تنہائی کی شکایت کرے گا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ ۔
مروی ہے کہ معاذ ؓ قرض لیا کرتے تھے ، ان کے قرض خواہ نبی ﷺ کی خدمت میں آئے (اور قرض کا مطالبہ کیا) تو نبی ﷺ نے ان کے قرض کی ادائیگی میں ان کا سارا مال فروخت کر دیا حتی کہ معاذ ؓ کے پاس کوئی چیز باقی نہ رہی ۔ روایت مرسل ہے ۔ یہ الفاظ مصابیح کے ہیں ۔ میں نے مثقیٰ کے سوا اسے اصول کی کتابوں میں نہیں پایا ۔ ضعیف ۔
عبدالرحمن بن کعب بن مالک بیان کرتے ہیں ، معاذ بن جبل ؓ بڑے صابر اور سخی انسان تھے ، وہ کوئی چیز پاس نہیں رکھتے تھے اور ہمیشہ مقروض رہتے تھے حتی کہ ان کا سارا مال قرض کی ادائیگی میں جاتا رہا ، وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے عرض کیا کہ آپ اس کے قرض خواہوں سے سفارش کریں ، اگر وہ (قرض خواہ) کسی کو چھوڑتے تو وہ رسول اللہ ﷺ کی خاطر معاذ کو چھوڑتے ، رسول اللہ ﷺ نے ان (قرض خواہوں) کی خاطر معاذ ؓ کا سارا مال بیچ دیا ، حتی کہ معاذ کے پاس کوئی چیز نہ بچی ۔ سنن سعید بن منصور ، یہ روایت مرسل ہے ۔ اسنادہ ضعیف ۔
شرید ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ (قرض کی ادائیگی میں) ٹال مٹول کرنے والے مال دار شخص کی بے عزتی کرنا اور اسے سزا دینا جائز ہے ۔‘‘ ابن مبارک ؒ نے فرمایا : اس کی بے عزتی کرنے سے یہ مراد ہے کہ اس سے سخت کلامی کرنا جائز ہے ، اور اس کو سزا دینے سے مراد ہے کہ اسے قید کرنا جائز ہے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد و النسائی ۔
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ کے پاس ایک جنازہ لایا گیا تاکہ آپ اس کی نمازِ جنازہ پڑھیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تمہارے ساتھی پر قرض ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : جی ہاں ، آپ ﷺ نے پوچھا :’’ کیا اس نے اس کی ادائیگی کے لیے کوئی مال چھوڑا ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : نہیں ، فرمایا :’’ تم اپنے ساتھی کی نمازِ جنازہ پڑھو ۔‘‘ علی بن ابی طالب ؓ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! اس کا قرض میرے ذمے رہا ، تو پھر آپ آگے بڑھے اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھی ، اور ایک دوسری روایت میں اسی کا ہم معنی مفہوم روایت کیا گیا ہے ، اور فرمایا :’’ اللہ نے تمہاری گردن کو آگ سے آزاد کر دیا جیسے تم نے اپنے مسلمان بھائی کی گردن کو آزاد کرا دیا ۔ جو کوئی مسلمان بندہ اپنے بھائی کی طرف سے اس کا قرض ادا کرتا ہے تو روزِ قیامت اللہ اس کی گردن کو (آگ سے) آزاد فرمائے گا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ ۔
ثوبان ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ وہ کبر و خیانت اور قرض سے بَری ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گا ۔‘‘ صحیح ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ و الدارمی ۔
ابوموسی ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کبیرہ گناہوں کے بعد ، اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ جس سے اللہ نے منع فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ بندہ مرنے کے بعد اپنے رب سے اس حال میں ملاقات کرے کہ اس کے ذمہ قرض ہو اور وہ اس کی ادائیگی کے لیے کوئی چیز نہ چھوڑے ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ احمد و ابوداؤد ۔
عمرو بن عوف مزنی ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے ، ایسی صلح کے سوا جو کسی حلال کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال کر دے ، اور اس شرط کے سوا جو حلال کو حرام کر دے یا حرام کو حلال کر دے ، مسلمان اپنی شرطوں پر ثابت ہیں ۔‘‘ ترمذی ، ابن ماجہ ، ابوداؤد اور ان کی روایت ((عَلیٰ شُرُوْطِھِمْ)) تک ہے ۔ صحیح ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ ۔
سوید بن قیس ؓ بیان کرتے ہیں ، میں اور مخرفہ عبدی تجارت کے لیے ہجر سے کپڑا لے کر مکہ آئے تو رسول اللہ ﷺ پیدل چلتے ہوئے ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ نے ایک شلوار کے کپڑے کی ہم سے قیمت طے کی تو ہم نے آپ کو فروخت کر دیا ، وہاں ایک آدمی تھا جو اُجرت پر وزن کیا کرتا تھا ، رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا :’’ وزن کر اور جھکتا وزن کر ۔‘‘ (یعنی پورے سے کچھ زیادہ) ۔ احمد ، ابوداؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ، دارمی ۔ اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ صحیح ، رواہ احمد و ابوداؤد و الترمذی و ابن ماجہ و الدارمی ۔
عبداللہ بن ابی ربیعہ ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے مجھ سے چالیس ہزار درہم قرض لیا ، آپ ﷺ کے پاس مال آیا تو آپ نے وہ مجھے واپس کر دیا ، اور فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ تمہارے اہل و مال میں برکت فرمائے ، قرض کی جزا ہی شکریہ ادا کرنا اور قرض ادا کرنا ہے ۔‘‘ حسن ، رواہ النسائی ۔
عمران بن حصین ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کسی کا کسی شخص پر کوئی حق ہو ، اور وہ (حق لینے والا) اسے مہلت دے تو ہر روز کے بدلے اسے صدقہ کا ثواب ملے گا ۔ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ احمد ۔
سعد بن اطول ؓ بیان کرتے ہیں ، میرا بھائی فوت ہو گیا اور اس نے تین سو دینار اور چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑے ، میں نے ارادہ کیا کہ میں (یہ رقم) ان پر خرچ کروں ، لیکن رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا :’’ تیرا بھائی اپنے قرض کی وجہ سے محبوس ہے ، (پہلے) اس کی طرف سے قرض ادا کرو ۔‘‘ وہ بیان کرتے ہیں ۔ میں گیا اور اس کی طرف سے قرض ادا کیا ، پھر میں واپس آیا تو عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میں نے اس کی طرف سے سارا قرض ادا کر دیا ہے ، صرف ایک عورت باقی رہ گئی ہے جو دو دینار کا مطالبہ کرتی ہے ۔ جبکہ اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اسے دے دو کیونکہ وہ سچی ہے ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ احمد ۔