ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو مسلمان وصیت کرنا چاہتا ہے اس کے لیے مناسب نہیں کہ وہ دو راتیں بھی یوں گزار دے کہ وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو ۔‘‘ متفق علیہ ۔
سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں ، فتح مکہ کے سال میں شدید بیمار ہو گیا حتی کہ میں موت کے کنارے پہنچ گیا ، رسول اللہ ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے تو میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میرے پاس مال بہت زیادہ ہے ۔ اور میری صرف ایک بیٹی اس کی وارث ہے ، کیا میں اپنے سارے مال کے متعلق وصیت کر دوں ؟ فرمایا :’’ نہیں ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اپنے مال کا دو تہائی ؟ فرمایا :’’ نہیں ۔‘‘ میں نے عرض کیا : نصف ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ نہیں ۔‘‘ میں عرض کیا ، تہائی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تہائی ، جبکہ تہائی بھی زیادہ ہے ، اگر تم اپنے وارثوں کو مال دار چھوڑو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ تنگ دست ہوں اور لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں ۔ اور تم اللہ کی رضا کے لیے جو بھی خرچ کرو گے اس پر تمہیں اجر دیا جائے گا ، حتی کہ وہ لقمہ جو تم اپنی اہلیہ کے منہ تک پہنچاتے ہو ۔‘‘ متفق علیہ ۔
سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں ، میں مریض تھا رسول اللہ ﷺ نے میری عیادت کی ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم نے وصیت کی ہے ؟‘‘ میں نے عرض کیا : جی ہاں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کتنے مال کی ؟‘‘ میں نے عرض کیا : اللہ کی راہ میں اپنے سارے مال کی ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم نے اپنی اولاد کے لیے کیا چھوڑا ہے ؟‘‘ میں نے عرض کیا : وہ کافی مال دار ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ دسویں حصے کی وصیت کر ۔‘‘ میں اصرار کرتا رہا ، حتی کہ آپ ﷺ نے حکم دیا :’’ تہائی کی وصیت کر ، جبکہ تہائی بھی زیادہ ہے ۔‘‘ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
ابوامامہ ؓ بیان کرتےہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر فرماتے ہوئے سنا :’’ اللہ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ، وارث کے لیے وصیت کرنے کا کوئی حق نہیں ۔‘‘ ابوداؤد ، ابن ماجہ ۔ اور امام ترمذی نے یہ اضافہ نقل کیا :’’ بچہ بیوی کے مالک کا ہے جبکہ زانی کے لیے پتھر (یعنی رجم) ہے ، اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ و الترمذی ۔
ابن عباس ؓ کی سند سے نبی ﷺ سے مروی ہے آپ ﷺ نے فرمایا :’’ وارث کو وصیت کا حق نہیں اِلاّ یہ کہ وارث چاہیں ۔‘‘ یہ روایت منقطع ہے ۔ یہ مصابیح کے الفاظ ہیں ، اور دارقطنی کی روایت میں ہے :’’ وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں ، مگر یہ کہ ورثاء چاہیں ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارقطنی ۔
ابوہریرہ ؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک آدمی اور عورت ساٹھ سال تک اللہ کی اطاعت میں نیک عمل کرتے رہتے ہیں ، پھر انہیں موت آتی ہے تو وہ وصیت میں کسی کو نقصان پہنچا جاتے ہیں ، تو ان دونوں کے لیے جہنم کی آگ واجب ہو جاتی ہے ۔‘‘ پھر ابوہریرہ ؓ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ وراثت کی تقسیم وصیت کے نفاذ اور قرض کی ادائیگی کے بعد ہے اور وہ وصیت نقصان پہنچانے والی نہ ہو .... اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص وصیت پر فوت ہوا تو وہ سیدھی راہ اور سنت پر فوت ہوا ، وہ اطاعت گزاری اور شہادت پر فوت ہوا ، اور وہ اس حال میں فوت ہوا کہ اس کی مغفرت کر دی گئی ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ ابن ماجہ ۔
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں ، کہ عاص بن وائل نے وصیت کی کہ اس کی طرف سے سو غلام آزاد کیے جائیں ، ان کے بیٹے ہشام نے ان کی طرف سے پچاس غلام آزاد کیے ، اور ان کے بیٹے عمرو ؓ نے ان کی طرف سے پچاس غلام آزاد کرنے کا ارادہ کیا تو کہا : حتی کہ میں رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ دریافت کر لوں ، وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میرے والد نے وصیت کی تھی کہ ان کی طرف سے سو غلام آزاد کیے جائیں ، ہشام نے ان کی طرف سے پچاس آزاد کر دیے ہیں اور باقی پچاس رہ گئے ہیں ، کیا میں ان کی طرف سے آزاد کر دوں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر وہ مسلمان مرتا تو تم اس کی طرف سے غلام آزاد کرتے ، یا تم اس کی طرف سے صدقہ کرتے یا تم اس کی طرف سے حج کرتے تو اس کا اسے ثواب پہنچتا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص نے اپنے وارث کی میراث کاٹی تو روزِ قیامت اللہ تعالیٰ اس کی جنت کی میراث کاٹ دے گا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا موضوع ، رواہ ابن ماجہ ۔
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ نوجوانوں کی جماعت ! تم میں سے جو شخص جماع اور نکاح کے اخراجات کی استطاعت رکھتا ہو تو وہ شادی کرے ، کیونکہ وہ نگاہوں کو نیچا رکھنے اور عفت و عصمت کی حفاظت کے لیے زیادہ مؤثر ہے ، اور جو شخص (عقدِ نکاح کی) استطاعت نہ رکھے تو وہ روزہ رکھے ، کیونکہ یہ اس کی شہوت کم کرنے کا باعث ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے عثمان بن مظعون ؓ کی ترکِ نکاح کی سوچ کو رد فرمایا ، اور اگر آپ انہیں اجازت دے دیتے تو ہم خصی ہو جاتے ۔ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ عورت سے چار چیزوں ، اس کے مال ، اس کے حسب و نسب ، اس کے حسن و جمال اور اس کے دین کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے ، تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں تم دین دار کے ساتھ نکاح کر کے کامیابی حاصل کرو ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اونٹوں پر سوار ہونے والی (عرب) عورتوں میں سے ، قریش کی صالحہ خواتین بہتر ہیں ۔ وہ اپنے چھوٹے بچوں پر نہایت شفیق اور شوہر کے مال کی انتہائی محافظ ہوتی ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ دنیا شیریں اور سرسبز و شاداب ہے ، بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں خلیفہ بنانے والا ہے ، وہ دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو ، تم دنیا اور عورتوں کے فتنے سے بچو ، کیونکہ بنی اسرائیل کا پہلا فتنہ عورتوں کی وجہ سے رونما ہوا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ عورت ، گھر اور گھوڑے میں نحوست (یعنی بے برکتی) ہے ۔‘‘ بخاری ، مسلم ۔ اور ایک روایت میں ہے :’’ تین چیزوں میں نحوست ہے عورت ، گھر اور جانور ۔‘‘ متفق علیہ ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم نبی ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں شریک تھے ، جب ہم واپس آئے اور مدینہ کے قریب پہنچے تو میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے نئی نئی شادی کی ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم نے شادی کر لی ؟‘‘ میں نے عرض کیا : جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کنواری سے یا بیوہ سے ؟‘‘ میں نے عرض کیا : جی ! بیوہ سے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم نے کنواری سے شادی کیوں نہ کی ، تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی ۔‘‘ جب ہم (مدینہ کے) قریب پہنچ گئے اور اس میں داخل ہونے لگے تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ٹھہر جاؤ حتی کہ ہم رات یعنی عشاء کے وقت داخل ہوں گے تاکہ منتشر بالوں والی کنگھی کر لے اور جس کا خاوند غائب رہا ہو وہ زیر ناف بال صاف کر لے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تین قسم کے لوگوں ، مکاتب جو کہ ادائیگی چاہتا ہو ، عفت و پاک دامنی کی خاطر نکاح کرنے والے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی اللہ ضرور مدد کرتا ہے ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی و النسائی و ابن ماجہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کا پیغام نکاح آئے جس کا دین اور اخلاق و عادات تمہیں پسند ہوں تو اسے بچی کا رشتہ دے دو ، اگر ایسا نہ کرو گے تو پھر زمین میں فتنہ اور بڑا فساد ہو گا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
معقل بن یسار ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ شوہر سے زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچوں کو جنم دینے والی عورتوں سے شادی کرو ، کیونکہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دیگر امتوں پر فخر کروں گا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد و النسائی ۔
عبدالرحمن بن سالم بن عتبہ بن عویم بن ساعدہ انصاری اپنے والد (سالم) سے وہ اس کے دادا سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم کنواری لڑکیوں سے شادی کرو ، کیونکہ وہ شیریں گفتار ، زیادہ بچوں کو جننے والی اور بہت کم چیز پر راضی ہو جانے والی ہیں ۔‘‘ ابن ماجہ ، روایت مرسل ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابن ماجہ ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم نے نکاح (یعنی خاوند و بیوی) کی مثل دو باہم محبت کرنے والے نہیں دیکھے ہوں گے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابن ماجہ ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص پاکیزہ حالت میں اللہ سے ملاقات کرنے کا خواہش مند ہو تو اسے آزاد عورتوں سے شادی کرنی چاہیے ۔‘‘ ضعیف ، رواہ ابن ماجہ ۔
ابوامامہ ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ مومن نے اللہ کے تقوی کے بعد اپنے لیے جس خیر سے استفادہ کیا ، وہ صالحہ بیوی ہے ، اگر اس (مومن) نے اسے حکم دیا تو اس (بیوی) نے اس کی اطاعت کی ، اگر اس نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے اسے خوش کر دیا ، اگر اس نے اسے قسم دے دی تو اس نے اسے پورا کیا اور اگر وہ اس کے پاس سے چلا گیا تو اس نے اپنی جان اور اس کے مال میں اس سے خیر خواہی کی ۔‘‘ تینوں احادیث ابن ماجہ نے روایت کی ہیں ۔ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ ابن ماجہ ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب بندہ شادی کر لیتا ہے تو وہ نصف دین مکمل کر لیتا ہے ، اسے نصف باقی میں اللہ سے ڈرنا چاہیے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، نبی ﷺ نے فرمایا :’’ وہ نکاح سب سے زیادہ بابرکت ہے ، جس میں اخراجات کم ہوں ۔‘‘ امام بیہقی ؒ نے دونوں احادیث کو شعب الایمان میں روایت کیا ہے ۔ سندہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔