جابر ؓ سے روایت ہے کہ جب نبی ﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو طفیل بن عمرو دوسی ؓ نے آپ کی طرف ہجرت کی اور ان کے ساتھ ان کی قوم کے ایک آدمی نے بھی ہجرت کی ، وہ شخص بیمار ہو گیا اور اس نے بے صبری کا مظاہرہ کیا اور اس نے اپنی چھری لی اور اس سے اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا جس سے خون بہنے لگا حتی کہ وہ فوت ہو گیا ۔ طفیل بن عمرو ؓ نے اسے خواب میں دیکھا کہ اس کی ہیئت اچھی ہے اور اس نے اپنے ہاتھ ڈھانپ رکھے ہیں ، انہوں نے اس سے پوچھا : تیرے رب نے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟ تو اس نے کہا : اس نے اپنے نبی ﷺ کی طرف میری ہجرت کی وجہ سے مجھے معاف فرما دیا ، طفیل بن عمرو ؓ نے فرمایا : میں آپ کو ہاتھ ڈھانپے ہوئے کیوں دیکھ رہا ہوں ؟ اس نے کہا : مجھے کہا گیا کہ ہم تمہارے اس حصے کو درست نہیں کریں گے جسے تم نے خود خراب کیا ہے ، طفیل ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ قصہ عرض کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اے اللہ ! اور اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی معاف فرما ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوشریح الکعبی ؓ ، رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا :’’ خزاعہ (قبیلے والو) ! تم نے ہذیل کے اس مقتول کو قتل کیا ، اور اللہ کی قسم ! میں اس کی دیت ادا کر دیتا ہوں ، جس نے اس کے بعد کسی کو قتل کیا تو اس کے وارثوں کو دو چیزوں کے درمیان اختیار ہے ، اگر وہ پسند کریں تو اسے قتل کریں اور اگر چاہیں تو دیت لے لیں ۔‘‘ اسے ترمذی اور امام شافعی نے روایت کیا ہے اور امام بغوی نے شرح السنہ میں اپنی سند سے روایت کیا ہے اور انہوں نے صراحت کی کہ ابوشریح کی سند سے یہ حدیث صحیحین میں نہیں ہے ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی و الشافعی ۔
انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک لونڈی کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا ، اس سے پوچھا گیا ، تمہارے ساتھ یہ سلوک کس نے کیا ؟ کیا فلاں نے ؟ کیا فلاں نے ؟ حتی کہ اس یہودی کا نام لیا گیا تو اس نے سر کے اشارے سے کہا : ہاں ، اس یہودی کو پیش کیا گیا تو اس نے اعتراف کر لیا ، رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق حکم فرمایا تو اس کے سر کو پتھر کے ساتھ کچل دیا گیا ۔ متفق علیہ ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، ان کی پھوپھی رُبیع ؓ نے انصار کی ایک لونڈی کے سامنے کے دانت توڑ دیے تو وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے قصاص کا حکم فرمایا تو انس بن مالک ؓ کے پھوپھا انس بن نضر ؓ نے عرض کیا ، اللہ کی قسم ! اللہ کے رسول ! اس کے دانت نہیں توڑے جائیں گے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ انس ! اللہ کی کتاب میں قصاص کا حکم ہے ۔‘‘ وہ لوگ دیت لینے پر راضی ہو گئے ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ پر قسم اٹھا لیں تو اللہ ان کی قسم کو سچا کر دیتا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوجحیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے علی ؓ سے دریافت کیا ، کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو قرآن میں نہ ہو ؟ انہوں نے فرمایا : اس ذات کی قسم ! جس نے دانے کو پھاڑا اور روح کو پیدا فرمایا ! ہمارے پاس صرف وہی کچھ ہے جو قرآن میں ہے ، البتہ دین کا وہ فہم ہے جو بندے کو اللہ کی کتاب سے عطا کیا جاتا ہے اور جو کچھ صحیفہ میں لکھا ہوا ہے (وہ ہمارے پاس ہے) ۔ میں نے عرض کیا : صحیفہ میں کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا :’’ دیت ، قیدی چھڑانے اور یہ کہ کسی مسلمان کو کافر کے بدلہ میں قتل نہ کیا جائے ، کے متعلق احکامات ۔ رواہ البخاری ۔ اور ابن مسعود ؓ سے مروی حدیث کہ ’’ کسی جان کو ناحق قتل نہ کیا جائے ۔‘‘ کتاب العلم میں ذکر کی گئی ہے ۔
عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ کے ہاں پوری دنیا کا تباہ و برباد ہو جانا ایک مسلمان آدمی کے قتل کے مقابلے میں زیادہ آسان ہے ۔‘‘ ترمذی ، نسائی ۔ اور بعض نے اسے موقوف قرار دیا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے ۔ حسن ، رواہ الترمذی و النسائی ۔
ابوسعید ؓ اور ابوہریرہ ؓ ، رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر زمین و آسمان کے تمام باسی ایک مومن کے قتل کرنے میں شریک پائے جائیں تو اللہ ان سب کو چہرے کے بل جہنم میں پھینک دے گا ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے کہا : یہ حدیث غریب ہے ۔ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
ابن عباس ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ روزِ قیامت مقتول قاتل کو لے کر آئے گا اس (قاتل) کی پیشانی اور اس کا سر مقتول کے ہاتھ میں ہو گا اور اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا ۔ اور وہ کہے گا : رب جی ! اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟ حتی کہ وہ اسے عرش کے قریب لے جائے گا ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی و النسائی و ابن ماجہ ۔
ابوامامہ بن سہل بن حنیف سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان ؓ نے ’’ یوم الدار ‘‘ (جن دنوں باغیوں نے عثمان ؓ کو محصور کر رکھا تھا) لوگوں کو دیکھ کر فرمایا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں : کیا تم اللہ کے رسول ﷺ کے اس فرمان سے آگاہ نہیں ہو ؟ کہ ’’ کسی مسلمان شخص کا خون تین میں سے کسی ایک وجہ پر درست ہے : شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کرنا یا اسلام کے بعد کفر کرنا یا کسی جان کو ناحق قتل کرنا ، اور وہ اس کے باعث قتل کیا جائے گا ۔‘‘ اللہ کی قسم ! میں نے نہ تو دورِ جاہلیت میں زنا کیا اور نہ زمانہ اسلام میں ، میں نے جب سے رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی اس وقت سے آج تک کبھی مرتد نہیں ہوا ، اور میں نے کسی ایسی جان کو قتل نہیں کیا جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے ، تو پھر تم مجھے کیوں قتل کرتے ہو ؟ ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ۔ اور دارمی میں صرف حدیث کے الفاظ ہیں ۔ صحیح ، رواہ الترمذی و النسائی و ابن ماجہ و الدارمی ۔
ابودرداء ؓ ، رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تک مومن کسی خونِ حرام کا ارتکاب نہیں کرتا تو وہ اطاعت گزاری اور اعمالِ صالحہ کی بجا آوری میں مستعد رہتا ہے اور جب وہ کسی خون حرام کا ارتکاب کر لیتا ہے تو وہ سستی و تھکاوٹ کا شکار ہو جاتا ہے ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
ابودرداءؓ ، رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ امید ہے کہ اللہ ہر گناہ معاف فرما دے بجز اس شخص کے جو حالت شرک میں فوت ہو ، اور جس نے عمداً کسی مومن کو قتل کیا ہو ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مساجد میں حدود قائم نہ کی جائیں اور نہ اولاد کا والد سے قصاص لیا جائے ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی و الدارمی ۔
ابورِمثہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں اپنے والد کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تمہارے ساتھ یہ کون ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : میرا بیٹا ہے ۔ آپ اس کے متعلق گواہ رہیے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ آگاہ رہو ! نہ تو تیرے گناہ کا اس سے مؤاخذہ ہو گا نہ اس کے گناہ کا تجھ سے مؤاخذہ ہو گا ۔‘‘
اور شرح السنہ میں اس حدیث کے شروع میں مزید الفاظ ہیں : انہوں نے بیان کیا : میں اپنے والد کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے والد نے رسول اللہ ﷺ کی پشت پر جو چیز (مہر نبوت) تھی وہ دیکھ لی تو عرض کیا مجھے اجازت دیں ، میں اس چیز کا علاج کرتا ہوں جو آپ کی پشت پر ہے کیونکہ میں طبیب ہوں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم رفیق ہو اور اللہ طبیب ہے ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابوداؤد و النسائی و البغوی فی شرح السنہ ۔
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے سراقہ بن مالک ؓ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا آپ ﷺ نے باپ کو اس کے بیٹے سے قصاص دلوایا اور بیٹے کا باپ سے قصاص نہیں دلوایا ۔ ترمذی ، اور انہوں نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
حسن بصری ؒ ، سمرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو اپنے غلام کو قتل کرے گا ، ہم اسے قتل کریں گے اور جو اپنے غلام کے اعضاء (ناک وغیرہ) کاٹے گا ہم اس کے اعضاء کاٹیں گے ۔‘‘ ترمذی ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ، دارمی ۔
اور امام نسائی نے ایک دوسری روایت میں اضافہ نقل کیا ہے :’’ جو اپنے غلام کو خصی کرے گا ہم اسے خصی کریں گے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ و الدارمی و النسائی ۔
عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص نے عمداً قتل کیا تو اسے مقتول کے ورثا کے حوالے کیا جائے گا ، اگر وہ چاہیں تو (اسے) قتل کر دیں اور اگر وہ چاہیں تو دیت لے لیں ۔ اور وہ تیس حِقّہ (اونٹنی کا وہ بچہ جو تین سال مکمل کرنے کے بعد عمر کے چوتھے سال میں داخل ہو) تیس جذعہ (وہ اونٹنی جو پانچویں سال میں داخل ہو) اور چالیس حاملہ اونٹنیاں ہے ۔ اور وہ جس چیز پر مسالحت کر لیں تو وہ ان کے لیے ہے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
علی ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ مسلمانوں کے خون (قصاص و دیت میں) مساوی ہیں ، اور ان کے عام آدمی کی امان کا بھی لحاظ رکھا جائے گا اور ان سے دوردراز والا شخص مال غنیمت ان کے نزدیک والے پر لوٹائے گا اور وہ دشمن کے مقابلے میں باہم دستِ واحد کی طرح ہیں ، سن لو ! کسی مسلمان کو کسی کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ کسی معاہد (ذمی) کو اس کے عہد میں قتل کیا جائے گا ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابوداؤد و النسائی ۔
ابوشریح خزاعی ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جس شخص کا کوئی عزیز قتل ہو جائے یا کوئی زخمی کر دیا جائے تو اسے تین میں سے ایک کا اختیار ہے ، اگر وہ چوتھی چیز کا ارادہ کر لے تو اس کے ہاتھ پکڑ لو ، وہ قصاص لے لے ، یا معاف کر دے یا دیت لے لے ۔ اگر اس نے اس میں سے کوئی چیز لے لی اور پھر اس کے بعد زیادتی کی تو اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی ۔
طاؤس ، ابن عباس ؓ سے اور وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص بلوے میں مارا جائے ، مثلاً لڑنے والے ایک دوسرے پر پتھر پھینک رہے تھے یا کوڑے مار رہے تھے یا لاٹھیاں برسا رہے تھے تو وہ قتلِ خطا ہے اور اس کی دیت ، دیتِ خطا کی مثل ہو گی ۔ اور جس نے عمداً قتل کیا تو وہ (قاتل) قابل قصاص ہے ، اور جو شخص اس (قصاص) کے درمیان حائل ہو جائے ، اس پر اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہے ، اس سے نہ تو نفل قبول ہو گا اور نہ فرض ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابوداؤد و النسائی ۔
ابودرداء ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جس شخص کے جسم میں کوئی زخم لگ جائے اور وہ معاف کر دے تو اس کی وجہ سے اللہ اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے اور اس کی ایک خطا معاف فرما دیتا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ ۔
سعید بن مسیّب ؒ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب ؓ نے ایک آدمی کے قتل کے بدلے میں پانچ یا سات آدمیوں کو قتل کیا انہوں نے اسے دھوکے سے قتل کیا تھا ، اور عمر ؓ نے فرمایا : اگر اس کے قتل پر صنعاء کے تمام لوگ مجتمع ہوتے تو میں (اس کے بدلے میں) سب کو قتل کر دیتا ۔‘‘ صحیح ، رواہ مالک ۔
جندب ؓ بیان کرتے ہیں ، فلاں شخص نے مجھے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ روز قیامت مقتول اپنے قاتل کو لے کر آئے گا اور وہ کہے گا : (رب جی !) اس سے پوچھیں کہ اس نے مجھے قتل کیوں کیا ؟ تو وہ کہے گا : میں نے اسے فلاں کی سلطنت / فلاں کی نصرت پر قتل کیا ۔‘‘ جندب ؓ نے فرمایا : ظالم کی اعانت سے بچو ۔ صحیح ، رواہ النسائی ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص نے کسی مومن کے قتل پر تھوڑی سی بات کے برابر بھی مدد کی تو وہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے مابین لکھا ہو گا :’’ اللہ کی رحمت سے ناامید ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابن ماجہ ۔
ابن عمر ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جب آدمی کسی آدمی کو پکڑ کر رکھے اور دوسرا آدمی اسے قتل کر دے تو قاتل کو قتل کیا جائے گا اور پکڑنے والے کو قید کیا جائے گا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارقطنی ۔