مالک بن اوس بن حدثان ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : اللہ نے مالِ فے میں جس چیز کے ساتھ اپنے رسول ﷺ کو خاص کیا تھا ، وہ چیز آپ کے سوا کسی اور کو نہیں دی گئی ۔ پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ اللہ نے ان میں سے اپنے رسول کو جو عطا فرمایا .... قدیر تک ‘‘ یہ رسول اللہ ﷺ کے لیے خاص تھی ، آپ اس مال سے اپنے اہل پر سال بھر خرچ کرتے تھے ، اور جو باقی بچ جاتا وہ آپ ﷺ اس مد میں خرچ کرتے جہاں اللہ کا مال خرچ ہونا چاہیے ۔ متفق علیہ ۔
عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، بنو نضیر کا مال اس مد میں تھا جو اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو خاص طور پر عطا فرمایا کیونکہ اس کے حصول کے لیے مسلمانوں نے کوئی لشکر کشی نہیں کی ، چنانچہ یہ رسول اللہ ﷺ کے لیے خاص تھا ، آپ اسے اپنے اہل پر سال بھر خرچ کرتے رہے اور جو بچ جاتا اسے آپ ﷺ اللہ کی راہ میں جہاد کی تیاری کے لیے اسلحہ اور گھوڑوں پر خرچ کر دیا کرتے تھے ۔ متفق علیہ ۔
عوف بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کے پاس مالِ فے آتا تو آپ اسے اسی روز تقسیم فرما دیتے ، آپ شادی شدہ کو دو حصے دیتے اور کنوارے کو ایک حصہ دیتے ، مجھے بلایا گیا اور آپ نے مجھے دو حصے دیے کیونکہ میں شادی شدہ تھا ، پھر میرے بعد عمار بن یاسر ؓ کو بلایا گیا تو انہیں ایک حصہ دیا گیا ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ کے پاس مالِ فے میں سے کوئی چیز آتی تو آپ سب سے پہلے انہیں عطا فرماتے جو (غلامی سے) آزاد کیے گئے ہوتے تھے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی خدمت میں نگینوں کی ایک تھیلی پیش کی گئی تو آپ نے اسے آزاد عورتوں اور لونڈیوں کے مابین تقسیم فرما دیا ۔ عائشہ ؓ نے فرمایا : میرے والد (ابوبکر ؓ) آزاد اور غلام ہر دو میں تقسیم فرمایا کرتے تھے ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
مالک بن اوس بن حدثان ؓ بیان کرتے ہیں ، عمر بن خطاب ؓ نے ایک روز مالِ فے کا ذکر کیا تو فرمایا : میں اس مال فے کا تم سے زیادہ حق دار ہوں اور نہ ہم میں سے کوئی اور اس کا زیادہ حق دار ہے ، ہم اللہ عزوجل کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی تقسیم کے مطابق اپنے مراتب پر ہیں ، کوئی آدمی اپنے قبولِ اسلام میں سبقت رکھنے والا ہے ، کوئی اپنی شجاعت والا ہے ، کوئی آدمی عیال دار ہے اور کوئی آدمی ضرورت مند ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
مالک بن اوس بن حدثان ؓ بیان کرتے ہیں ، عمر بن خطاب ؓ نے یہ آیت ’’صدقات (زکوۃ) تو فقراء اور مساکین کے لیے ہیں ..... علیم حکیم ۔‘‘ تک تلاوت فرمائی ۔ فرمایا یہ (آیت) ان کے لیے ہے ، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ جان لو جو تم نے مالِ غنیمت حاصل کیا اس میں سے خمس اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے ۔ ..... مسافر ‘‘ تک تلاوت فرمائی ، پھر فرمایا : یہ ان کے لیے ہے ، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ اللہ نے بستی والوں سے اپنے رسول کو جو دیا ..... حتی کہ وہ فقراء کے لیے ‘‘ تک پہنچے ، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ وہ لوگ جو ان کے بعد آئے ۔‘‘ پھر فرمایا : یہ تمام مسلمانوں کے لیے ہے ، اگر میں زندہ رہا تو سروحمیر (یمن کے شہر) کے چرواہے کو مشقت اٹھائے بغیر اس سے اس کا حصہ پہنچ جائے گا ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ فی شرح السنہ ۔
مالک بن اوس بن حدثان ؓ بیان کرتے ہیں کہ عمر ؓ کا استدلال یہ تھا : رسول اللہ ﷺ کے لیے تین مقامات کا مال مخصوص تھا ، بنو نضیر ، خیبر اور فدک کا ۔ بنو نضیر کی زمین وہ آپ ﷺ کی ضروریات کے لیے مختص تھی ، فدک مسافروں کے لیے مختص اور خیبر کی زمین کو رسول اللہ ﷺ نے تین حصوں میں تقسیم کر دیا تھا ، دو حصے مسلمانوں کے لیے اور ایک حصہ اپنے اہل خانہ کے نفقہ کے لیے مقرر فرمایا ۔ آپ کے اہل خانہ کے نفقہ سے جو بچ جاتا وہ آپ فقراء مہاجرین کے درمیان تقسیم فرما دیتے ۔ سندہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
مغیرہ ؒ بیان کرتے ہیں کہ عمر بن عبد العزیز ؒ جب خلیفہ بنائے گئے تو انہوں نے بنو مروان کو جمع کیا اور فرمایا : رسول اللہ ﷺ کے لیے فدک مخصوص تھا ، آپ اس میں سے (اپنے اہل خانہ پر) خرچ کرتے ، بنو ہاشم کے چھوٹوں پر خرچ کرتے اور اسی میں سے ان کے غیر شادی شدہ افراد کی شادی کیا کرتے تھے ، فاطمہ ؓ نے آپ ﷺ سے درخواست کی کہ فدک آپ انہیں عطا فرما دیں ، آپ نے انکار فرمایا ، رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں معاملہ اسی طرح رہا ، آپ کے بعد جب ابوبکر ؓ خلیفہ بنائے گئے تو انہوں نے بھی ویسے ہی کیا جیسے رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں کیا تھا ، حتی کہ وہ بھی اللہ کو پیارے ہو گئے ، جب عمر بن خطاب ؓ خلیفہ بنائے گئے تو انہوں نے بھی ویسے ہی کیا جیسے ان دونوں حضرات نے کیا تھا ، حتی کہ وہ بھی اللہ کو پیارے ہو گئے ، پھر مروان نے اسے جاگیر بنا لیا ، پھر وہ عمر بن عبد العزیز کے لیے ہو گئی ، میں نے دیکھا کہ یہ وہ مال ہے جو رسول اللہ ﷺ نے فاطمہ ؓ کو نہیں دیا ، لہذا اسے لینے کا مجھے بھی کوئی حق نہیں ، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اسے اسی جگہ لوٹا دیا ہے جہاں پر رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر و عمر ؓ کے دور میں تھا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
عدی بن حاتم ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا :’’ جب تم اپنا کتا چھوڑو تو اللہ کا نام لے کر چھوڑو ، اگر وہ تمہارے لیے پکڑ لے اور تم اسے زندہ پا لو تو اسے ذبح کرو ، اگر تم اسے اس حال میں پاؤ کے اس نے (شکار کو) قتل کر دیا اور اس سے کھایا نہیں تو پھر اسے کھا لو ، اور اگر اس نے کھا لیا ہے تو پھر نہ کھاؤ کیونکہ اس نے اپنے لیے پکڑا ہے ، اگر تم اپنے کتے کے ساتھ دوسرا کتا دیکھو اور شکار کو مردہ پاؤ تو اسے مت کھاؤ کیونکہ تم نہیں جانتے کہ ان دونوں میں سے کس نے قتل کیا ، اور جب تم تیر چلاؤ تو اللہ کا نام لے کر چلاؤ پھر اگر وہ شکار تمہیں ایک روز بعد ملے اور تم اس میں صرف اپنے تیر ہی کا نشان دیکھو تو پھر اگر چاہو تو کھا لو ، اور اگر تم اسے پانی میں ڈوبا ہوا پاؤ تو اسے مت کھاؤ ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عدی بن حاتم ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ہم (شکار کے لیے) سدھائے ہوئے کتے چھوڑتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اس نے جو تمہارے لیے پکڑا ہے کھا لیں ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اگر وہ مار ڈالیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگرچہ وہ مار ڈالیں ۔‘‘ میں نے عرض کیا : ہم معراض (پروں کے بغیر تیر) پھینکتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر وہ نوک کی طرف سے شکار میں گھس جائے تو کھا لیں اور اگر اسے چوڑائی والے حصے کی طرف سے لگے اور وہ قتل ہو جائے تو اسے مت کھائیں ، کیونکہ وہ چوٹ لگنے سے مرا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوثعلبہ خشنی ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے نبی ! ہم اہل کتاب کی سرزمین پر رہائش پذیر ہیں ، کیا ہم ان کے برتنوں میں کھا لیا کریں ، اور اسی سرزمین پر میں اپنی کمان اور اپنے غیر سدھائے ہوئے اور سدھائے ہوئے کتے کے ذریعے شکار کرتا ہوں ، تو میرے لیے کیا درست ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم نے جو اہل کتاب کے برتنوں کا ذکر کیا ہے تو اگر تمہیں ان کے علاوہ برتن میسر آ جائیں تو پھر ان میں مت کھاؤ ، اور اگر میسر نہ آئیں تو پھر انہیں دھو کر ان میں کھا لو ۔ اور تم نے اپنی کمان سے جو شکار کیا ہے اگر تم نے اس پر اللہ کا نام ذکر کیا ہے تو کھا لو ، اور تم نے جو اپنے سدھائے ہوئے کتے کے ساتھ شکار کیا ہے اور اللہ کا نام ذکر کیا ہے تو کھا لو اور تم نے اپنے غیر سدھائے ہوئے کتے سے جو شکار کیا ہے اگر اسے ذبح کر لو تو کھا لو ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوثعلبہ خشنی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم نے اپنا تیر (شکار پر) پھینکا اور وہ (شکار) تیری نظروں سے اوجھل ہو گیا ، پھر تم نے اسے پا لیا تو اگر وہ بدبودار نہیں ہوا تو اسے کھا سکتے ہو ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابو ثعلبہ خشنی ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے اس شخص کے بارے میں ، جو تین روز بعد اپنا شکار پاتا ہے ، فرمایا :’’ اگر وہ بدبودار نہیں ہوا تو اسے کھا لے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! یہاں کچھ ایسے لوگ ہیں جو نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں ، وہ ہمارے پاس گوشت لاتے ہیں ، ہم نہیں جانتے کہ آیا وہ اس پر اللہ کا نام لیتے ہیں یا نہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم اللہ کا نام لو اور کھاؤ ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابوطفیل (عامر بن واثلہ) بیان کرتے ہیں ، علی ؓ سے دریافت کیا گیا ، کیا رسول اللہ ﷺ نے تمہیں کوئی خاص چیز عطا فرمائی ؟ انہوں نے فرمایا : آپ ﷺ نے ہمیں کوئی خاص ایسی چیز عطا نہیں فرمائی جو آپ نے دیگر لوگوں کو نہ بتائی ہو ۔ البتہ یہ چیز ہے جو کہ میری تلوار کے نیام میں ہے ، انہوں نے ایک صحیفہ نکالا اس میں درج تھا :’’ غیر اللہ کے لیے ذبح کرنے والے پر اللہ لعنت کرے ، زمین کے نشان (حدود) چوری کرنے والے پر اللہ لعنت کرے ۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے :’’ جس نے زمین کے نشانات (ملکیتی حدود) بدل ڈالے (اللہ اس پر لعنت فرمائے) ’’ اپنے والد پر لعنت کرنے والے پر اللہ لعنت کرے اور بدعتی شخص کو پناہ دینے والے شخص پر اللہ لعنت کرے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
رافع بن خدیج ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ہم کل دشمن سے ملاقات کرنے والے ہیں ، جبکہ ہمارے پاس چھریاں نہیں ، کیا ہم سر کنڈے کے ساتھ ذبح کر لیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جو خون بہا دے اور جس پر اللہ کا نام لیا جائے اسے کھاؤ ، (جبکہ) دانت اور ناخن کے ساتھ ذبح کرنا درست نہیں ، اور میں تمہیں اس کے متعلق تفصیلا بتاتا ہوں دانت ہڈی ہے ، اور رہا ناخن تو وہ حبشیوں کی چھریاں ہیں ۔‘‘ (کفار پر حملہ کرنے کے بعد) ہم کو اونٹ اور بکریاں ملیں ، ان میں سے ایک اونٹ بھاگ کھڑا ہوا تو ایک آدمی نے اس پر ایک تیر چلایا اور اسے روک لیا ، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ان جانوروں میں بھی وحشی جانوروں کی طرح بھاگنے والے ہوتے ہیں ، ان میں سے جو بے قابو ہو جائے تو تم اس کے ساتھ اسی طرح کیا کرو ۔‘‘ متفق علیہ ۔
کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ان کی بکریاں تھی جو سلع پہاڑ پر چر رہی تھیں ، ہماری ایک لونڈی نے بکریوں میں سے ایک بکری کو مرنے کے قریب دیکھا تو اس نے ایک پتھر توڑا اور اس کے ساتھ اسے ذبح کر دیا ، انہوں نے نبی ﷺ سے مسئلہ دریافت کیا تو آپ نے انہیں اس کے کھانے کا حکم فرمایا ۔ رواہ البخاری ۔
شداد بن اوس ؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک اللہ نے ہر چیز پر احسان کرنا فرض کر دیا ہے ، جب تم قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو ۔ جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو ، تم میں سے ہر ایک اپنی چھری تیز کر لے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک گدھے کے پاس سے گزرے جس کے چہرے کو داغا گیا تھا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ اس شخص پر لعنت فرمائے جس نے اسے داغ دیا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، میں عبداللہ بن ابی طلحہ کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے کر گیا تا کہ آپ ﷺ اسے گھٹی دیں (کھجور چبا کر اِس کے تالو میں لگا دیں) ، میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ کے ہاتھ میں داغ لگانے والا آلہ تھا ، آپ ﷺ اس کے ساتھ صدقہ کے اونٹوں کو نشان لگا رہے تھے ۔ متفق علیہ ۔
ہشام بن زید ؒ ، انس ؓ سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے فرمایا : میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ باڑے میں تھے ، میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ بکریوں کو نشان لگا رہے تھے ، راوی بیان کرتے ہیں ، میرا خیال ہے کہ انہوں نے کہا : آپ ان (بکریوں) کے کانوں پر نشان لگا رہے تھے ۔ متفق علیہ ۔
عدی بن حاتم ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! بتائیں کہ ہم میں سے کسی کو شکار مل جائے اور اس کے پاس چھری نہ ہو تو کیا وہ اسے پتھر اور لاٹھی کے کنارے سے ذبح کر سکتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ خون بہاؤ جس کے ساتھ چاہو ، اور اللہ کا نام لو ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد و النسائی ۔
ابو العشراء اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا ذبح صرف حلق اور سینے کے بالائی حصے (لبہ) پر چھری چلانے سے ہی ہوتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر تم نے اس کی ران پر زخم لگایا تو بھی تیرے لیے کافی ہے ۔‘‘ ترمذی ، ابوداؤد ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی ۔
اور امام ابوداؤد نے فرمایا : یہ کسی گرے پڑے جانور کے ذبح کرنے کا طریقہ ہے ۔ اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ ضرورت کے تحت ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و ابوداؤد و النسائی و ابن ماجہ و الدارمی ۔
عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ تم نے کسی کتے یا باز کو سدھایا ، پھر تم نے اسے اللہ کا نام لے کر چھوڑا تو اس نے جو تمہارے لیے محفوظ رکھا اسے کھا ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اگر وہ مار دے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جب اس نے اسے مار دیا اور اس میں سے کچھ نہ کھایا تو وہ اس نے تمہارے لیے ہی محفوظ رکھا ہے ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
عدی بن حاتم ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میں شکار پر تیر پھینکتا ہوں اور اگلے روز میں اس میں اپنا تیر دیکھتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تمہیں یقین ہو گیا کہ تمہارے ہی تیر نے اسے مارا ہے اور تم نے اس میں کسی درندے کا نشان نہ دیکھا تو پھر کھاؤ ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔