انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میت کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں ، ان میں سے دو واپس آ جاتی ہیں اور ایک اس کے ساتھ باقی رہتی ہے ، اس کے گھر والے ، اس کا مال اور اس کے اعمال اس کے ساتھ جاتے ہیں ، اس کے گھر والے اور اس کا مال واپس آ جاتے ہیں ، اور اس کے اعمال (اس کے ساتھ) باقی رہ جاتے ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے کون ہے جسے اپنے وارثوں کا مال اپنے مال سے زیادہ پسند ہے ؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا : ہم میں سے ہر ایک کو اپنا مال اپنے وارثوں کے مال سے زیادہ پسند ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک اس کا مال تو وہ ہے جو اس نے آگے بھیجا جبکہ وہ مال جو اس نے پیچھے چھوڑا وہ اس کے وارثوں کا ہے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
مطرف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ (اس وقت) سورۂ تکاثر کی تلاوت فرما رہے تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ابن آدم کہتا ہے : میرا مال ، میرا مال ، اے ابن آدم ! حالانکہ تیرا مال تو صرف وہ ہے جو تو نے کھایا اور ختم کر دیا ، یا پہن لیا اور بوسیدہ کر دیا یا صدقہ کر کے (آخرت کے لیے) آگے بھیج دیا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مال داری ، مال اور سازو سامان کی کثرت سے حاصل نہیں ہوتی ، بلکہ مال داری تو نفس کی مال داری (یعنی قناعت) ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کون ہے جو مجھ سے یہ کلمات سیکھے اور ان پر عمل کرے یا کسی ایسے شخص کو سکھائے جو ان پر عمل کرے ؟‘‘ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں ، چنانچہ آپ نے میرا ہاتھ پکڑ ااور پانچ چیزیں شمار کیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ محارم (اللہ کی حرام کردہ چیزوں) سے بچ جاؤ ، اس طرح تم سب لوگوں سے زیادہ عبادت گزرا بن جاؤ گے ، اللہ نے جو تمہاری قسمت میں لکھ دیا ہے اس پر راضی ہو جاؤ اس طرح تم سب لوگوں سے زیادہ غنی بن جاؤ گے ، اپنے پڑوسی سے اچھا سلوک کرو گے تو مومن بن جاؤ گے ، لوگوں کے لیے وہی چیز پسند کرو جو تم اپنی ذات کے لیے پسند کرتے ہو ، تو مسلمان بن جائے گا ، زیادہ مت ہنسا کرو کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے ۔‘‘ احمد ، ترمذی ، اور امام ترمذی ؒ نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ سندہ ضعیف ، رواہ احمد و الترمذی ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک اللہ فرماتا ہے : انسان ! میری عبادت کے لیے فارغ ہو جا ، میں تیرے دل کو مال داری (قناعت) سے بھر دوں گا ، تیری محتاجی ختم کر دوں گا اور اگر تو (ایسے) نہیں کرے گا تو میں تمہیں کاموں میں مصروف کر دوں گا اور تیری محتاجی ختم نہیں کروں گا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ احمد و ابن ماجہ ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک آدمی کی عبادت اور اس میں بھرپور انہماک کا ذکر کیا گیا اور دوسرے آدمی کا تقویٰ و احتیاط برتنے کا ذکر کیا گیا تو نبی ﷺ نے فرمایا :’’ تقویٰ کے ساتھ (اس عبادت و اجتہاد کا) موازنہ نہ کرو ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
عمرو بن میمون اودی ؒ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :’’ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو ، اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے ، اپنی صحت کو اپنے مرض سے پہلے ، اپنے مال دار ہونے کو اپنی محتاجی سے پہلے ، اپنی فراغت کو اپنی مصروفیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے ۔‘‘ امام ترمذی نے اسے مرسل روایت کیا ہے ۔ حسن ، رواہ الترمذی ۔
ابوہریرہ ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے کوئی حد سے تجاوز کر دینے والی تونگری کا انتظار کرتا ہے ، یا (عبادت و اطاعت سے) بھلا دینے والی محتاجی کا انتظار کرتا ہے ، یا خراب کر دینے والے مرض کا ، یا بے ہودہ گوئی کرانے والے بڑھاپے کا ، یا اچانک آ جانے والی موت کا ، یا دجال کا ، دجال تو پوشیدہ فتنہ ہے جس کا انتظار ہے ، یا قیامت کا اور قیامت بڑی آفت اور ناگوار چیز ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ الترمذی و النسائی ۔
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ سن لو ! دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سب ملعون ہیں ، ہاں ! البتہ اللہ کا ذکر ، اللہ کے پسندیدہ اعمال اور عالم و متعلم اس سے مستثنیٰ ہیں ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ ۔
سہل بن سعد ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر دنیا (کی اہمیت) اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو اس میں سے پانی کا گھونٹ بھی نہ پلاتا ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ احمد و الترمذی و ابن ماجہ ۔
ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جاگیریں مت بناؤ ورنہ تم دنیا میں منہمک ہو جاؤ گے ۔‘‘ حسن ، رواہ الترمذی و البیھقی فی شعب الایمان ۔
ابوموسی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس نے دنیا کو پسند کیا ، اس نے آخرت کا نقصان کیا اور جس نے آخرت کو پسند کیا تو اس نے دنیا کو نقصان پہنچایا ، تم باقی رہنے والی چیز کو فنا ہونے والی چیز پر ترجیح دو ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد و البیھقی فی شعب الایمان ۔
کعب بن مالک اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ دو بھوکے بھیڑیے ، جنہیں بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑا جائے تو وہ ان کے لیے اتنا نقصان دہ نہیں جتنی آدمی کے مال و جاہ کی حرص اس کے دین کے لیے نقصان دہ ہے ۔‘‘ حسن ، رواہ الترمذی و الدارمی ۔
خباب ؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ مومن جو بھی خرچ کرتا ہے تو اس پر اسے اجر ملتا ہے لیکن اس نے جو خرچ اس مٹی پر (زائد از ضرورت) کیا اس پر اسے اجر نہیں ملتا ۔‘‘ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ سارا خرچہ اللہ کی راہ میں سوائے تعمیرات کے ، اس (پر خرچ کرنے) میں کوئی خیر نہیں ۔‘‘ ترمذی ، اور فرمایا یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک روز باہر تشریف لائے اور ہم آپ کے ساتھ تھے ، آپ نے ایک اونچا سا قبہ دیکھا تو فرمایا :’’ یہ کیا ہے ؟‘‘ آپ کے صحابہ نے عرض کیا ، یہ ایک انصاری شخص کا ہے ، آپ خاموش ہو گئے اور اسے اپنے دل میں رکھا حتیٰ کہ جب اس کا مالک آیا تو اس نے لوگوں کی موجودگی میں آپ کو سلام کیا ، لیکن آپ نے اس سے اعراض کیا ، اس نے کئی مرتبہ ایسے کیا ، حتیٰ کہ اس آدمی نے آپ میں ناراضی اور اپنے سے بے رخی پہچان لی ، اس نے اپنے ساتھیوں سے وجہ دریافت کی اور کہا : اللہ کی قسم ! میں رسول اللہ ﷺ کو ناراض محسوس کرتا ہوں لیکن وجہ ناراضی معلوم نہیں ، انہوں نے بتایا ، آپ باہر تشریف لائے تھے اور آپ نے تمہارا قبہ دیکھا تھا ، وہ آدمی اپنے قبے کی طرف گیا اور اسے گرا کر زمین کے برابر کر دیا ، پھر ایک روز رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے تو آپ نے اس (قبے) کو نہ دیکھا تو فرمایا :’’ قبے کو کیا ہوا ؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا ، اس کے مالک نے آپ کی بے رخی کی ہم سے وجہ دریافت کی تو ہم نے اسے بتا دیا ، پس اس نے اسے گرا دیا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ سن لو ! ہر عمارت جس کے بغیر گزارہ ہو سکتا ہو وہ اپنے مالک کے لیے وبال ہے ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
ابوہاشم بن عتبہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے مجھے وصیت کرتے ہوئے فرمایا :’’ تمہارے لیے اتنا مال جمع کرنا ہی کافی ہے کہ ایک خادم ہو اور اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے کے لیے) ایک سواری ہو ۔‘‘ احمد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، اور مصابیح کے بعض نسخوں میں ابوہاشم بن عتبد یعنی تاء کے بجائے دال کا ذکر ہے ، اور یہ تصحیف ہے ۔ سندہ ضعیف ، رواہ احمد و الترمذی و نسائی و ابن ماجہ و مصابیح السنہ ۔
عثمان ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ انسان کو ان تین چیزوں ، رہائش کے لیے گھر ، ستر ڈھانپنے کے لیے کپڑے اور روٹی پانی کے سوا کسی چیز کا حق نہیں ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
سہل بن سعد ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! مجھے ایسا عمل بتائیں جب میں وہ عمل کر لوں تو میں اللہ اور لوگوں کا محبوب بن جاؤں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ دنیا سے بے رغبت ہو جا اللہ تجھ سے محبت کرے گا اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے بے رغبت ہو جا تو لوگ تجھ سے محبت کریں گے ۔‘‘ ضعیف ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ ۔
ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک چٹائی پر سو گئے جب اٹھے تو آپ کے جسد اطہر پر اس (چٹائی) کے نشانات تھے ، ابن مسعود ؓ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! اگر آپ ہمیں حکم فرمائیں تو ہم آپ کے لیے نرم بستر تیار کر دیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میرا دنیا سے کیا سروکار ، میں اور دنیا تو ایسے ہیں جیسے کوئی سوار کسی درخت کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے رکتا ہے اور پھر کوچ کر جاتا ہے اور اسے وہیں چھوڑ جاتا ہے ۔‘‘ حسن ، رواہ احمد و الترمذی و ابن ماجہ ۔
ابوامامہ ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میرے دوستوں میں سے وہ مومن میرے نزدیک زیادہ قابل رشک ہے جس کے پاس سازو سامان کم ہو ، نماز میں اسے لذت حاصل ہوتی ہو ، اپنے رب کی عبادت خوب اچھی طرح کرتا ہو اور وہ پوشیدہ حالت میں بھی اس کی اطاعت کرتا ہو ، لوگوں میں مشہور نہ ہو ، اس کی طرف انگلیاں نہ اٹھتی ہوں ، اس کا رزق گزارہ لائق ہو اور وہ اس پر صابر ہو ۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے ایک چٹکی بجائی اور فرمایا :’’ اس کی موت جلدی آ گئی ، اسے رونے والیاں کم ہیں اور اس کی میراث بھی کم ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد و الترمذی و ابن ماجہ ۔
ابوامامہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میرے رب نے مجھے پیش کش کی کہ وہ مکہ کی وادی بطحا (یا مکہ کے سنگ ریزوں) کو سونا بنا دے ، میں نے کہا : رب جی ! نہیں ، بلکہ میں چاہتا ہوں کہ میں ایک روز شکم سیر ہوں اور ایک روز بھوکا رہوں ، جب میں بھوکا رہوں تو تیرے حضور عاجزی کروں اور تیرا ذکر کروں ، اور جب شکم سیر ہوں تو تیری حمد بیان کروں اور تیرا شکر ادا کروں ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ احمد و الترمذی ۔
عبید اللہ بن محصن ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ اسے اپنے اہل و عیال کے متعلق کوئی خطرہ نہ ہو اور وہ تندرست ہو ، اور اس کے پاس ایک دن کا کھانا موجود ہو تو گویا اس کے لیے تمام اطراف سے دنیا جمع کر دی گئی ۔‘‘ ترمذی ، اور فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
مقدام بن معدیکرب ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ کسی آدمی نے ایسا کوئی برتن نہیں بھرا جو اس کے پیٹ سے زیادہ برا ہو ، انسان کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں جو اس کی کمر سیدھی رکھ سکیں ، اگر زیادہ کھانا ضروری ہی ہو تو پھر (پیٹ کا) تہائی حصہ کھانے کے لیے ، تہائی پانی کے لیے اور تہائی سانس کے لیے ہو ۔‘‘ صحیح ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ ۔
ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو ڈکار لیتے ہوئے سنا تو فرمایا :’’ اپنا ڈکار کم کر ، کیونکہ روز قیامت وہ شخص لوگوں سے بہت دیر تک بھوکا رہے گا جو دنیا میں خوب سیر ہو کر کھاتا تھا ۔‘‘ شرح السنہ ، اور امام ترمذی نے اسی طرح روایت کیا ہے ۔ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ و الترمذی ۔
کعب بن عیاض ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ ہر امت کے لیے ایک فتنہ (آزمائش و امتحان) رہا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
انس ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ انسان کو روز قیامت بکری کے بچے کی طرح (ذلت کے ساتھ) پیش کیا جائے گا ، اور اسے اللہ کے حضور کھڑا کیا جائے گا تو وہ اس سے فرمائے گا : میں نے تجھے (حیات و حواس ، صحت و عافیت) عطا کی ، میں نے تجھے خادم ملازم عطا کیے اور (انبیا و کتب نازل فرما کر) تجھ پر انعام فرمایا ، تو نے کیا کیا ؟ وہ عرض کرے گا رب جی ! میں نے اس (مال) کو جمع کیا اور اس کو بڑھایا اور جتنا تھا اس سے زیادہ چھوڑا ، تو مجھے واپس بھیج میں وہ سارا تیری خدمت میں لے آتا ہوں ۔ اسے کہا جائے گا : تم نے جو آگے بھیجا تھا وہ مجھے دکھاؤ ، تو وہ پھر وہی کہے گا ، میں نے اسے جمع کیا ، اسے بڑھایا اور وہ جتنا تھا اس سے زیادہ اسے چھوڑا ، لہذا تو مجھے واپس بھیج میں وہ سارا تیری خدمت میں لا حاضر کرتا ہوں ، چنانچہ وہ ایسا (بد قسمت) انسان ہو گا جس نے کوئی نیکی آگے نہیں بھیجی ہو گی ، اسے جہنم کی طرف بھیج دیا جائے گا ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ روز قیامت بندے سے نعمتوں کے بارے میں سب سے پہلے یوں سوال کیا جائے گا : کیا ہم نے تیرے جسم کو درست نہیں بنایا تھا ، اور (کیا) ہم نے تجھے ٹھنڈے پانی سے سیراب نہیں کیا تھا ؟‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی ۔