ابن مسعود ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ روز قیامت انسان کے قدم (اللہ کے دربار میں) برابر جمے رہیں گے حتیٰ کہ اس سے پانچ چیزوں کے متعلق نہ پوچھ لیا جائے : اس کی عمر کے متعلق کہ اس نے اسے کن کاموں میں ختم کیا ، اس کی جوانی کے متعلق کہ اس نے اسے کہاں ضائع کیا ، اس کے مال کے متعلق کہ اس نے اسے کہاں سے حاصل کیا اور اسے کن مصارف میں خرچ کیا اور اپنے علم کے مطابق کتنا عمل کیا ؟‘‘ ترمذی ، اور فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا :’’ تم سرخ سے بہتر ہو نہ سیاہ سے ، مگر یہ کہ تم اس سے تقویٰ کے ذریعے فضیلت حاصل کرو ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ احمد ۔
ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بندہ دنیا سے بے رغبتی اختیار کرتا ہے تو اللہ اس کے دل میں حکمت پیدا فرما دیتا ہے ، اس (حکمت) کو اس کی زبان پر جاری فرما دیتا ہے ، دنیا کا عیب ، اس کی بیماریاں اور اس کے علاج پر اسے بصیرت عطا فرما دیتا ہے اور اسے اس سے صحیح سلامت دار السلام (جنت) کی طرف نکال لے جاتا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اس شخص نے فلاح پائی جس کے دل کو اللہ نے ایمان کے لیے خالص کر دیا ، اس کے دل کو (حسد و بغض وغیرہ سے) سلامت رکھا ، اس کی زبان کو راست گو بنایا ، اس کے نفس کو مطمئن بنایا ، اس کی طبیعت کو مستقیم بنایا ، اس کے کانوں کو غور سے (حق) سننے والا اور اس کی آنکھ کو (دلائل) دیکھنے والا بنایا ، کان اس چیز کے لیے جسے دل محفوظ رکھتا ہے ، قیف ہیں اور آنکھ محل قرار و ثبات ہے ، اور اس شخص نے فلاح پائی جس نے اپنے دل کو محافظ بنایا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد و البیھقی فی شعب الایمان ۔
عقبہ بن عامر ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم اللہ عزوجل کو دیکھو کہ وہ بندے کو اپنی معصیت کے باوجود دنیا دے رہا ہے جس (معصیت) کو وہ پسند نہیں کرتا تو وہ کوئی تدبیر ہے ۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ جب انہوں نے اس چیز کو بھلا دیا جس کے ذریعے انہیں سمجھایا گیا تھا تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیے ، حتیٰ کہ جب وہ عطا کردہ چیزوں پر خوش ہو گئے تو ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا ، تب وہ متحیر و ناامید ہو گئے ۔‘‘ حسن ، رواہ احمد ۔
ابوامامہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ اہل صفہ میں سے ایک آدمی فوت ہو گیا تو اس نے ایک دینار چھوڑا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ (یہ دینار) ایک داغ (دینے کے باعث) ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، پھر دوسرا آدمی فوت ہوا تو اس نے دو دینار چھوڑے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ (یہ دو دینار) دو داغ (دینے کا باعث) ہیں ۔‘‘ صحیح ، رواہ احمد و البیھقی فی شعب الایمان ۔
معاویہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ اپنے ماموں ابوہاشم بن عتبہ ؓ کی عیادت کے لیے گئے تو ابوہاشم ؓ رونے لگے ، انہوں نے پوچھا : ماموں جان ! کون سی چیز آپ کو رلا رہی ہے ، کیا کوئی تکلیف تمہیں اضطراب میں ڈال رہی ہے یا دنیا کی حرص ؟ انہوں نے کہا ، ہرگز نہیں ، بلکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں وصیت فرمائی تھی لیکن میں نے اس پر عمل نہ کیا ، انہوں نے فرمایا : وہ (وصیت) کیا تھی ؟ انہوں نے کہا ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ تمہارے لیے اتنا مال جمع کرنا ہی کافی ہے کہ ایک خادم ہو اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے ایک سواری ہو ۔‘‘ اور میں خیال کرتا ہوں کہ میں (مال) جمع کر چکا ہوں ۔ ضعیف ، رواہ احمد و الترمذی و النسائی و ابن ماجہ ۔
ام درداء ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے ابودرداء ؓ سے کہا : آپ کو کیا ہے کہ آپ فلاں کی طرح (مال و منصب) طلب نہیں کرتے ؟ انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ تمہارے آگے ایک دشوار گھاٹی ہے جسے بھاری وزن اٹھانے والے پار نہیں کر سکیں گے ۔‘‘ میں چاہتا ہوں کہ میں اس گھاٹی (سے گزرنے ) کے لیے وزن ہلکا رکھوں ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا کوئی ایسا شخص ہے جو پانی پر چلتا ہو لیکن اس کے پاؤں گیلے نہ ہوتے ہوں ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! نہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ دنیا دار شخص اسی طرح ہے ، وہ گناہوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا ۔‘‘ ان دونوں احادیث کو امام بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
جبیر بن نفیر ؒ مرسل روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میری طرف یہ وحی نہیں کی گئی کہ میں مال جمع کروں اور تاجروں میں سے ہو جاؤں ، بلکہ میری طرف وحی کی گئی ہے کہ ’’ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں ، اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں حتیٰ کہ آپ وفات پا جائیں ۔‘‘ شرح السنہ ، اور ابونعیم نے ابو مسلم سے حلیہ میں روایت کیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ و فی حلیہ الاولیاء ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص نے حلال طریقے سے ، مانگنے سے بچنے کے لیے ، اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے کے لیے اور اپنے پڑوسی پر مہربانی کرنے کے لیے دنیا طلب کی تو وہ روز قیامت اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے گا تو اس کا چہرہ چودہویں رات کے چاند کی طرح (چمکتا) ہو گا ۔ اور جس شخص نے حلال طریقے سے ، مال میں اضافہ کرنے کے لیے ، باہم فخر کرنے کے لیے اور ریاکاری کے لیے دنیا طلب کی تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ وہ اس پر ناراض ہو گا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک یہ خیر کے خزانے ہیں ، ان خزانوں کی چابیاں ہیں ، اس بندے کے لیے خوشخبری ہے جسے اللہ نے خیر کے لیے چابی (کھولنے والا) بنا دیا اور شر کو بند کرنے والا بنا دیا ، اور اس بندے کے لیے ہلاکت ہے جسے اللہ نے شر کھولنے والا اور خیر کو بند کرنے والا بنایا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ ابن ماجہ ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب بندے کے کسی مال میں برکت نہ رکھی جائے تو وہ اس مال کو پانی اور مٹی (یعنی تعمیر) پر صرف کرتا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ تعمیرات کے سلسلے میں (ارتکاب) حرام سے بچو ، کیونکہ وہ خرابی کی اساس ہے ۔‘‘ دونوں روایات کو امام بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
عائشہ ؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتی ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ دنیا اس کا گھر ہے جس کا کوئی گھر نہیں ، اس کا مال ہے جس کا کوئی مال نہیں ، اور اس (دنیا) کے لیے وہی جمع کرتا ہے جو عقل مند نہیں ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد و البیھقی فی شعب الایمان ۔
حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو دوران خطبہ فرماتے ہوئے سنا :’’ شراب تمام گناہوں کا مجموعہ ہے ، عورتیں شیطان کے جال ہیں ، اور دنیا کی محبت ہر گناہ کی اصل و بنیاد ہے ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ عورتوں کو پیچھے رکھو جیسے اللہ نے انہیں پیچھے رکھا ۔‘‘ لم اجدہ ، رواہ رزین ۔
اور امام بیہقی نے شعب الایمان میں اسے حسن سے مرسل روایت کیا ہے :’’ دنیا کی محبت تمام گناہوں کی بنیاد ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مجھے اپنی امت کے متعلق خواہش نفس اور طول آرزو کا سب سے زیادہ اندیشہ ہے ، کیونکہ خواہش نفس حق سے روکتی ہے جبکہ طول آرزو آخرت بھلا دیتی ہے ، اور یہ دنیا (غیر محسوس طریقے سے) چلی جا رہی ہے جبکہ آخرت (اسی طرح) چلی آ رہی ہے ، اور دونوں میں سے ہر ایک کے طلبگار ہیں ، تم دنیا کے طلبگار نہ بنو ، عمل کرتے رہو ، کیونکہ آج تم دارِ عمل میں ہو اور کوئی حساب نہیں ، اور کل دارِ آخرت میں ہو گے اور کوئی عمل نہیں ہو گا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
علی ؓ سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا : دنیا گزر رہی ہے جبکہ آخرت آ رہی ہے ، اور دونوں میں سے ہر ایک کے طلبگار ہیں ، تم آخرت کے طلبگار بنو اور دنیا کے طلبگار نہ بنو کیونکہ آج عمل (کا وقت) ہے اور حساب نہیں جبکہ کل حساب ہو گا اور عمل نہیں ہو گا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
عمرو ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک روز خطبہ ارشاد فرمایا تو آپ ﷺ نے اپنے خطبے میں فرمایا :’’ سن لو ! دنیا ایک حاضر مال ہے ، نیک بھی اس سے کھاتا ہے اور فاجر بھی ، سن لو ! آخرت ایک اٹل حقیقت ہے ، اس وقت قادر مطلق بادشاہ (نیک و فاجر کے درمیان) فیصلہ کرے گا ، سن لو ! خیر مکمل طور پر جنت میں ہے اور سن لو ! شر مکمل طور پر جہنم میں ہے ، اور سن لو ! عمل کرتے رہو ، تم اللہ کی طرف سے (وقوع شر کے خوف سے) ڈرتے رہو ، اور جان لو کہ تمہیں تمہارے اعمال پر پیش کیا جائے گا ، جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ بھی اسے دیکھ لے گا ۔‘‘ امام شافعی نے اسے روایت کیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ الشافعی ۔
شداد ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ لوگو ! بے شک دنیا حاضر مال ہے ، ہر نیک و فاجر اس سے کھاتا ہے ، آخرت اٹل حقیقت اور سچا وعدہ ہے ، عادل قادر بادشاہ اس وقت فیصلہ فرمائے گا ، وہ اس میں حق کو ثابت کر دے گا اور باطل کو ناپید کر دے گا ، آخرت کے طلبگار بنو ، دنیا کے طلبگار نہ بنو ، بے شک ہر بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ ابونعیم فی حلیہ الاولیاء ۔
ابودرداء ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کے دونوں کناروں پر دو فرشتے آواز دیتے ہیں ، وہ جنوں اور انسانوں کے سوا ساری مخلوق کو (اپنی آواز) سناتے ہیں : لوگو ! اپنے رب کی طرف آؤ ، جو (مال) تھوڑا اور کافی ہو وہ اس (مال) سے بہتر ہے جو زیادہ ہو اور (اللہ کی یاد سے) غافل کر دے ۔‘‘ دونوں احادیث کو ابونعیم نے الحلیہ میں روایت کیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابونعیم فی حلیہ الاولیاء ۔
ابوہریرہ ؓ مرفوع روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جب فوت ہونے والا فوت ہوتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں : اس نے (اعمال میں سے) آگے کیا بھیجا ہے ؟ اور انسان کہتے ہیں ، اس نے (مال میں سے) پیچھے کیا چھوڑا ہے ؟‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
امام مالک ؒ سے روایت ہے کہ لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمایا :’’ بیٹے ! بے شک لوگوں سے جس چیز کا وعدہ کیا گیا ہے وہ ان پر دراز ہو چلا ہے ، اور وہ آخرت کی طرف تیز چلے جا رہے ہیں ، اور جب سے تو دنیا میں آیا ہے اس وقت سے تو اسے (آہستہ آہستہ) پیچھے چھوڑ رہا ہے اور آخرت کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے ، بے شک وہ گھر جس کی طرف تو محو سفر ہے ، وہ تیرے اس گھر سے ، جہاں سے تو روانہ ہوا ہے ، زیادہ قریب ہے ۔‘‘ لم اجدہ ، رواہ رزین ۔
عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا ، کون سا آدمی سب سے بہتر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہر صاف دل ، راست گو ۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا ، ہم راست گو کے متعلق تو جانتے ہیں ، صاف دل سے کیا مراد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ صاف و پاک جس پر کوئی گناہ ہے نہ کوئی ظلم اور نہ ہی کوئی کینہ و حسد ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ ابن ماجہ و البیھقی فی شعب الایمان ۔
عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ چار چیزیں ایسی ہیں جب وہ تم میں ہوں تو پھر اگر تمہیں دنیا نہ بھی ملے تو کوئی حرج و مضائقہ نہیں ، حفظ امانت ، صدق کلام ، حسن اخلاق اور (حرام) کھانے سے پرہیز کرنا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد و البیھقی فی شعب الایمان ۔
امام مالک سے روایت ہے ، انہوں نے کہا : مجھے حدیث پہنچی ہے کہ لقمان حکیم سے پوچھا گیا ، جس مقام پر ہم آپ کو دیکھ رہے ہیں اس مقام پر آپ کو کون سی باتوں نے پہنچایا ؟ انہوں نے فرمایا : راست گوئی ، امانت کی ادائیگی اور فضول باتوں چیز کو چھوڑ دینا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ مالک ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اعمال (اللہ کے حضور سفارش کرنے کے لیے) آئیں گے ، نماز آئے گی ، اور عرض کرے گی ، رب جی ! میں نماز ہوں ، وہ فرمائے گا : تو خیر پر ہے ، صدقہ آئے گا ، وہ عرض کرے گا ، رب جی ! میں صدقہ ہوں ، وہ فرمائے گا : تو خیر پر ہے ، پھر روزہ آئے گا ، وہ عرض کرے گا : رب جی ! میں روزہ ہوں ، وہ فرمائے گا : تو خیر پر ہے ، پھر اسی طرح اعمال آتے جائیں گے ، اللہ تعالیٰ فرماتا جائے گا : تو خیر پر ہے ، پھر اسلام آئے گا ، وہ عرض کرے گا : رب جی ! تو سلام ہے اور میں اسلام ہوں ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو خیر پر ہے ، آج میں تیری وجہ سے مؤاخذہ کروں گا اور تیری وجہ سے عطا کروں گا ، اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا :’’ جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، ہمارا ایک پردہ تھا جس میں پرندوں کی تصویریں تھیں (یہ دیکھ کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ عائشہ ! اسے بدل ڈالو ، کیونکہ جب میں اسے دیکھتا ہوں تو میں دنیا یاد کرتا ہوں (مجھے دنیا یاد آ جاتی ہے) ۔‘‘ صحیح ، رواہ احمد ۔
ابو ایوب انصاری ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا ، مجھے مختصر سی وصیت فرمائیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تو نماز پڑھے تو ایسے پڑھ جیسے الوداعی نماز ہو ، ایسی بات نہ کر جس کی وجہ سے کل معذرت کرنی پڑے اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے مکمل طور پر ناامید اور لاتعلق ہو جا ۔‘‘ ضعیف ، رواہ احمد ۔